قسط 35 علم الاعداد، علم نجوم، علم رمل، علم جفر

علم الاعداد، علم نجوم، علم رمل، علم جفر

حساب کرکے مختلف غیب کی باتیں بتانے کے لیے عاملین علم الاعداد،علم نجوم، علم رمل اور علم جفر سیکھتے ہیں، کوئی تو ان غیرشرعی اور ناجائز علوم میںبہت مہارت حاصل کرتے ہیں اور کوئی چند ایک چیزیں سیکھ کر اپنی دکان کھول لیتے ہیں۔ ان علوم کی کیا حقیقت ہے اور کیا شرعی حیثیت ہے اسے جاننا نہایت ہی ضروری ہے۔بحیثیت مسلمان ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن وسنت اور صحابہ کرام کے راستے کو اختیار کریں، اور ایسے کسی علم پر اعتماد نہ کریں جو مافوق الاسباب کاموں کا فیصلہ سناتا ہو۔ سب سے پہلے علم الاعداد کی تاریخ اور حقیقت کو واضح کرنے کے لیے عادل سہیل صاحب کی یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں:

 علم الاعداد ( علم اعداد) ، علم جفر اور786 کی حقیقت

بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم

الحَمد لِلّہ ِ وحدہ و الصَّلاة و السَّلام عَلیٰ مَن لا نبیَّ ولا مَعصومَ بَعدَہ محمد ا ً صَلی اللہ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّم۔

ہر قوم کا اپنا معاشرہ ہوتا ہے جو اس کے اِخلاقی اور مذہبی قواعد کے مطابق بنتا ہے ، اِسی طرح مسلمانوں کا بھی اِسلامی معاشرہ تھا ، جی ہاں ، تھا ، اب نہیں ہے ، ہے تو صِرف کِتابوں میں ہی ہے ، دنیاءِ رنگ و بو میں اب اِس وقت ایسا کوئی معاشرہ نہیں جِسے اِسلامی معاشرہ کہا جا سکے ، جِسکے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ یہ ہی وہ مسلم معاشرہ ہے جِس کی تشکیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمائی تھی جِسکے عقائد قواعد اور ضوابط کی تشریح صحابہ رضی اللہ عنھم نے اپنے اقوال و افعال سے کی ، اب تو غیروں کی رسمیں اور نام ہے اِسلام کا ، کفریہ عقائد ہیں اور نام ہے عِلم الکلام کا ، مخالفت ہے سنّت کی اور نام لیا جاتا ہے خیر الانام کا ،شرکیہ کام ہیں اور نام لیا جاتا ہے توحید کا ، جہاں یہ سب کچھ ہو وہ اور تو کچھ بھی ہو سکتا ہے اِسلامی معاشرہ ہر گِز نہیں ۔

اِنسان کی زندگی میں بہت سی عادات اور بہت سے عقائد وقتاً فوقتاً داخل ہوتے رہتے ہیں ، سمجھ دار اِنسان کِسی عادت یا عقیدے کو اپنانے سے پہلے اس کی چھان پھٹک کر لیتا ہے کہ یہ کہاں سے آرہا ہے اور اِسے اپنانا چاہیے کہ نہیں ، اور بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ کِسی کے عقیدے کو خراب کرنے کے لیے ایسی باتیں یا کام اس کی زندگی میں داخل کیے جاتے ہیں جو اس کو اپنے راستے سے ہٹا دیتے ہیں ، یہ سب کچھ عام طور پر ہر معاشرے میں اِنفرادی طور پر بھی ہوتا نظر آتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی ، ہمارا اِسلامی معاشرہ اِس فتنہ انگیزی کا شکار ہوا ہے ، کافروں اور منافقوں نے مسلمانوں کو ان کے اصل حق والے راستے سے ہٹا کر شرک اور بدعات کی راہوں پر گامزن کر دِیا ، ایسے ایسے عقائد ان کے دِلوں اور دِماغوں میں ڈال دیے جِن کی وجہ سے وہ اپنے ربِ واحد اللہ عزّ و جلّ کو بھول بیٹھے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اور آپکی تعلیمات کو فراموش کر بیٹھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، جِن کی صداقت ، امانت ، تقوے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کی گو اہیاں اِنسان تو اِنسان ، اِنسانوں کے مالک و خالق اللہ تعالیٰ نے دی ہیں ، اِن صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی تعلیمات کو بھول بیٹھے ،آیے ذرا غور کرتے ہیں کہ اِن تعلیمات کو بھلانے کے کتنے بھیانک نتائج نکلے ہیں :

کہیں حبِ آلِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے نام سے بگاڑ پیدا کیا جا رہا ہے، کہیں تصوف کے نام سے اِسلامی عقائد کو تباہ کیا جا رہا ہے، کہیں حقِ اہلِ بیت کے نام پہ فساد بپا کیا جاتا ہے،کبھی باطنی علوم کے نام پر شریعت کو قربان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،تو کبھی فلسفہ اور عِلمِ کلام کے پردے میں سیدھے سادھے دِین اور اس کے پیروکاروں کو الفاظ کے چکروں میں گھما پِھرا کر گمراہ کیا جاتا ہے،کبھی عِلمِ اعداد کے نام سے شیطانیت پھیلائی جاتی ہے تو کبھی عِلمِ جفر کے نام پر اللہ جلّ شانہاور اس کی کِتاب قران کریم کی توہین کی جاتی ہے،افسوس اِس بات کا نہیں کہ کافر اور منافق یہ کاروائیاں کیوں کرتے ہیں ، دکھ تو اِس بات کا ہے کہ مسلمان کِس بے پروائی اور غفلت سے اِن بد بختوں کا شکار ہوئے جاتے ہیں، اِن سب چوروں نے مسلمانوں کا اِیمان لوٹا ، اور اِسلام کے نام پر لوٹا ، اِسلام کا لِبادہ اوڑھ کر اِیمان کا نقاب لگا کر لوٹا ، اِن چوروں کی نشاندہی کرنا ، اِنہیں پکڑکر اِسلام اور مسلمانوں میں سے خارج کرنا بہت ضروری ہے ،میں اِس وقت اِن چوروں میں سے ایک چور کی نشاندہی کر رہا ہوں اور وہ چور ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قسط نمبر 34: حساب کروانا

علم الاعداد اور علم جفر

اِس چورکو پیدا کرنے اور پالنے والوں نے اِسے مسلمانوں کے بزرگوں میں سے ایک دو جلیل القدر ہستیوں سے منسوب کر کے مسلمانوں کی صفوں میں گھسا دِیا ، اور یہ لٹیرا اس وقت سے اب تک مسلمانوں کا اِیمان لوٹ رہا ہے اور ان سے اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کی کتابِ عظیم قرآن کریم کی توہین کروا رہا ہے،اِس کی شر انگیزیوں میں سے سب سے بڑا شر یہ ہے کہ مسلمانوں کو اللہ کی ذات پاک سے کچھ اِس طرح لا تعلق اور بے عِلم کر دِیا گیا کہ ان میں کچھ تو اپنے آپ کوعارف باللہ سمجھتے ہیں، لیکن در حقیقت ان کی اللہ تبارک وتعالیٰ سے معرفت ، اللہ جلّ و علا کی ذات و صِفات سے دور جھوٹے فلسفوں اور شیطانی وحیوں پر مبنی باتوں کے اندھیروں میں مقید ہے ،اور ان میں سے کچھ لوگ خود کو موحد سمجھتے ہیں ، اور اللہ کی توحید کا نام لیتے ہیں مگر اللہ کا نام نہیں ، بلکہ اللہ کے نام کو ارقام (نمبرز، ڈیجٹس، Numbers,Digits) میں بدل ڈالتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں، اور ہمارے کلمہ گو بھائیوں بہنوں کو ہر بد عقیدگی سے محفوظ فرمائے۔

علم الاعداد جیسا کہ نام سے ظاہر کہ اعداد یعنی ہندسوںایک دو تین 1 ، 2 ، 3 ،وغیرہ کے متعلق کوئی عِلم ہے ، پڑہنے سننے والوں کے دِلوں میں یقیناً یہ سوال آئے گا کہ دنیا میں نئے اور پرانے بہت سے علوم ہیں ، ان میں سے،میں اِس علم الاعدادکو ا ِیمان لوٹنے والوں،اور قرآن اور رحمن کی توہین کرنے والے علوم میں کیوں شمارکر رہا ہوں ؟؟؟ جواب جاننے کے لیے اِس عِلم کی تاریخ پر نظر کرنا بہت ضروری ہے، آیے دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں ہمیں کیا ملتا ہے ۔

پرانے زمانے کی آرئین،مصری،یونانی اورعبرانی قوموں میں اِس عِلم کا بہت رواج تھا ، جِس طرح عِلمِ نجوم کا تعلق ستاروں اور سیاروں کی فرضی چالوں اور خیالی اثرات سے ہے ، اِسی طرح علم الاعداد کا تعلق بھی شیطان کے دئیے ہوئے خیالی آسمانی دیوتاوں کی کہانیوں سے ہے ۔بابل کے بادشاہ نمرود کا ایک مقّرب،اھل بابل کا ایک ولی،ایک نجومی تارخ بن ناحور بن ساروغ تھا،جو نمرود کی بادشاہت میں پوجے جانے والے بتوں میں سے سب سے بڑے بت”بعل”کا مجاور تھا تاریخ کی اکثر کتابوں مثلاً، “تاریخ طبری،البدایہ و النھایہ،التدوین فی اَخبار قزوین،تاریخ الیعقوبی،تاریخ الکامل میں یہ بات صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ یہ وہ آذرہے جِسے قرآن میں خلیل اللہ اِبراہیم علیہ السّلام کا باپ کہا گیا ہے(سورت الانعام(6)/آیت 74)۔ یہآذر،یا تارخ مرکزی عِبادت خانے کا گدّی نشین تھا اوربعل بت کا خلیفہ تھا ،اور یہ اپنے وقت کا بہت بڑا نجومی اورعلم الاعداد کا ماہر تھا اور اِسی نے ہی اپنے نو (9)دیوی دیوتاوں کے نام سے نو (9)ابتدائی ہندسے یا اعداد کو منسوب کیا، مسلمانوں کی فتوحات بڑھنے کے ساتھ ساتھ جب دیگر بیرونی علوم مسلمانوں تک پہنچے تو یہ علم الاعداد بھی آیا ، منافقوں اور اِسلام کے درپردہ دشمنوں نے دیگر بہت سے پردوں کی طرح اپنی غلیظ ذہینت اور شیطانی عزائم پر ایک پردہ عِلمِ اعداد کا بھی ڈالا،اور مسلمانوں میں اِسے داخل کرنے کے لیے اِس میں اِضافہ بھی کیا ، اور اِس اِضافے کا نام عِلمِ جفررکھا ، اور عِلم اعداد میں اِستعمال ہونے والے رومن اِلفاظ کی ترتیب پر ہی عربی حروف کی ترتیب بنائی گئی ، اِن حروف کو حروفِ ابجد کہا جاتا ہے ، اور اِس نام نہادِ عِلمِ جفرکو بعض لوگ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کرتے ہیں اور بعض لوگ شرک کی اِس پَوٹ کو جناب جعفر(صادق)بن محمد بن الباقر(رحمہم اللہ جمعیاً) کی اِیجاد اور ملکیت قرار دیتے ہیں ، کچھ کا کہنا ہے کہ یہ عربی حروف کے موجد مرہ بن مرّہ کے آٹھ بیٹوں کے نام ہیں۔ اب اِن شاء اللہ ، یہ دیکھتے ہیں کہ عربی حروفِ تہجی کو رومن ترتیب کے مطابق حروفِ ابجد کیوں بنایا گیا؟؟؟

جی ہاں ، یہ واقعتاً ایک خلاف ِعادت اورخلافِ حقیقت کام تھا ، جو اِس لیے کیا گیا کہ عربی کے حروف تہجی کو رومن کے حروف تہجی کی ترتیب میں لا کر ، انہیں وہی عددی قدر ، value of word دی جا سکے جو عددی قدر ، رومن حروف کے لیے عِلمِ اعداد میں مقرر کی گئی تھی،اور یوں اس عددی قدر کو عربی حروف پر بھی اسی طرح برقرار رکھا جا سکے تا کہ ناموں اور دیگر اِلفاظ کے اعداد جاننے ، یا کِسی بھی نام یا لفظ کی اعدادی قیمت یا حیثیت جاننے میں آسانی ہو،اور اِس کے ساتھ ساتھ بلکہ اصل میں اِس کے پسِ پردہ وہ غلط عقیدہ بھی کار فرما رہے جِس کی بنا پر یہ اعداد مقرر کیے گئے ، کیونکہ اگر حروفِ تہجی کو محض علامات ارقام ( نمبرز ) ہی دینا مقصود ہوتا تو اِن کی ترتیب بدلنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی ، اِس بات کو ذیل میں دیے گئے نقشے کی مدد سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے ۔

جب عربی کے حروف تہجی کو رومن حروف کی عددی قدر دینے کی کاروائی کی گئی تو عربی کے حروف تہجی کی ترتیب بدل کر نئی ترتیب کو کچھ الفاظ کی صورت دی گئی ، وہ الفاظ درج ذیل ہیں

خود ساختہ ابجد کے مجموعات رومن حروف کی موافقت میںاِس خاکے کو بغور دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ عربی حروف تہجی کی اس ترتیب کو ،صوتی طور پر بھی (فونیٹکلی) رومن حروف کے ساتھ ملا نے کی کوشش کی گئی ہے تا کہ دھوکہ دہی مضبوط ہو سکے ، جیسا کہ ABCD کو ابجد، KLMN کو کلمن، QRST کو قرشت۔

مندرجہ بالا نقشے کو دیکھ کر بہت واضح طور پر سمجھ آتا ہے کہ یہ عِلمِ جفرکے حروفِ ابجد(ابجد،ہوز، حطی، کلمن، سعفص،قرشت،ثخذ، ضظخ) اصل میں عربی کے حروفِ تہجی کی بگاڑی ہوئی ترتیب ہیں ، تا کہ رومن حروفِ تہجی کی ترتیب کے زیادہ سے زیادہ قریب ہو جائیں کیونکہ اِس ”’عَلمِ اعداد“‘ کی اصل ان رومن حروف پر قائم تھی ، لہذا ،A B C D کا ابجداور KLMN کاکلمناور QRST کا قرشتوغیرہ کو قائم مقام بنایا گیا ۔

کچھ دیر پہلے ذِکر کیا گیا ہے کہ اگر عربی حروفِ تہجی کو ارقام(نمبرز )دینا ہی مقصد ہوتا تو انکی ترتیب بگاڑنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن جِن عقائد کی بنیاد پر یہ نمبر سسٹم بنا تھا انکی ترویج اسی صورت میں ہو سکتی تھی کہ ان کوان اپنے حروف کے نمبرز کے مطابق رکھا جائے ورنہ دیوی دیوتاوں کے نمبر غلط ہو جاتے ، وَلاحَولَ وَلا قوّةَ اِلّابِا للَّہ۔

بعض کتابوں میں عدد کو صرف (9)تک محدود رکھا گیا ہے ، اور ہر(9)حروف کے بعد اگلے حروف کو پھر ایک سے (9) تک گنا گیا ہے ، اِس طرح بھی عددی رقم میں کوئی فرق نہیں آتا کیونکہ صفر کی کوئی قوت نہیں رکھی گئی اور عددی رقم بناتے ہوئے اس کی موجودگی اور غیر موجودگی کوئی اثر نہیں رکھتی،اِسلام کے حقیقی عِلم یعنی قرآن و سنّت اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال سے مسلمانوں کو دور رکھنے کے لیے لوگوں نے نام نہادباطنی علوم اورعلومِ اھلِ بیت کے نام سے مختلف گمرا ہ کرنے والے افکار اور عقائد مسلمانوں میں داخل کیے ، جبکہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم اِن سب خرافات سے پاک ہیں،اِن شیطانی علوم کی گمراہی سب سے زیادہ پہلے دو دروازوں سے داخل کی گئی:

(1)نام نہادباطنی علوم اور (2)علومِ اھلِ بیت کے دروازوں سے۔ علمِ اعدادیاعلمِ جفرکی مختصر سی تاریخ اوپر بیان کر چکا ہوں۔

علمِ اعداداور خاص طور پرعلمِ جفرکو علومِ اھلِ بیت میں شمار کیا گیا اور مسلمانوں کے اِیمان پر ڈاکہ ڈالا گیا ، اور لٹ جانے والے مسلمان ، جو اللہ کا نام لے کر اپنے ہر کام کا آغاز کیا کرتے تھے ، یا انہیں ایسا کرنا چاہیے تھا ،علومِ باطنیہ کے جھانسے میں آکر اللہ کا نام فراموش کرنے لگے اور اللہ کے ناموں کو ، پیارے پیارے ناموں کو اعداد کی شکل میں لکھنے لگے ، جی ہاں ، ایسا ہی ہوا اور ہو رہا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ آپ ان میں سے ہوں جو کچھ لکھتے ہوئے آغاز میں بِسمِ اللَّہ الرَّحمٰن الرَّحیم لکھنے کی بجائے786 لکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اعدادبسم اللہ کا بدل ہیں اور جو عقیدت اِن پاک اِلفاظ سے ہونی چاہیے وہ ان بے وقعت اعداد سے رکھتے ہیں ،اگر کوئی یہ کہے کہ ہمیں اِن سے کوئی عقیدت نہیں تو یہ بات خود کہنے والے کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہو گی اگر وہ غور کرے کہ اگر عقیدت نہیں تو پھر اللہ اور اسکے دو دوسرے ناموں یعنی”””الرحمٰن”””اور”””الرحیم”””کی جگہ یہ عدد کیوں لکھتے ہو ؟

کچھ لوگ اپنی اِس غلطی کو ایک اور غلط فلسفے میں چھپانے کی کوشش میں کہتے ہیں کہ ، اللہ کے ناموں کی بے ادبی ہونے سے بچانے کے لیے ایسا کرتے ہیں ،کوئی اِن سے پوچھے کہ جناب ، کسی کتابت کی ابتداءمیںبسم اللہ لکھنا فرض نہیں ، بلکہ کسی بھی اچھے اور نیک کام کی ابتداءمیںبسم اللہپڑھنا اور کہنا سنت ہے ،تو پھر آپ کو کیا  مصیبت ہے کہ آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ناموں کو اعداد میں تبدیل کرتے ہیں ،ذرا سوچیے کہ اِس شیطانی عمل کی وجہ سے آپ نے توبسم اللہ لکھا اور نہ ہی پڑھا ، اور شیطان کے اِس دھوکے کا شِکار رہے کہ آپ نے اپنی کتابت کی ابتداءاللہ کے نام سے کی ہے ۔

اللہ کے بندو ، اللہ اور اس کے کلام ، اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پراِیمان رکھنے والو، سوچیے ، تحمل اور بردباری سے تدبر فرمائیے کہ اِن اعداد کیآخرت میں کوئی اہمیت ہوتی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے خطوط کے آغاز میں یہ اعداد کبھی تو لکھوائے ہوتے ،اللہ کے ناموں کی بے ادبی کا اندیشہ تو اس وقت بھی تھا ، لہٰذا رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ کے نام لکھوانے کی بجائے یہ اعداد لکھوائے ہوتے ، یا کوئی اور اشاراتی الفاظ لکھوائے ہوتے ، خاص طور پر ان خطوط پر جو کافروں کو اِرسال کیے گئے ،کیونکہ کافروں نے اپنے ناپاک ہاتھوں میں لیکر ان خطوط کو پڑھنا تھا۔اور پھر اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو بھی ضرور بتایا ہوتا، کہ اپنے خطوط یا کتابت کی ابتداءمیں اللہ کے نام مت لکھنا کیونکہ بے ادبی کا اندیشہ ہے۔

٭…………٭…………٭

حافظ زبیر کی تحریر

قارئین اس شیطانیت کی مزیدوضاحت کے لیے حافظ زبیرصاحب کی یہ تحریر بھی ملاحظہ فرمائیں:

علم الاعداد (numerology) کہ جسے علم الارقام، علم الحروف اور علم جفر بھی کہہ دیتے ہیں، کی کسی بھی اعتبار سے دینی یا سائنسی حیثیت نہیں ہے۔ مورخین کے مطابق علم الاعداد کو ایجاد کرنے والے بابلی (Babylonians) تھے کہ جنہوں نے جادو ٹونے کی غرض سے اس علم کو ایجاد کیا تھا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ یا حضرت جعفر الصادق رحمہ اللہ کی طرف جو علم جفر کی نسبت کی جاتی ہے، تو وہ ایک صریح بہتان اور جھوٹ ہے۔

صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے یہ سوال پوچھنے پر کہ آل بیت کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی خاص علم ملا ہے یا نہیں؟ یہ جواب دیا تھا کہ آل بیت کے پاس دو چیزیں ہیں، اس کے علاوہ کوئی تیسری چیز نہیں ہے۔ ایک اللہ کی کتاب کا فہم اور دوسرا یہ صحیفہ۔ جب پوچھا گیا کہ اس صحیفے میں کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ دیت، غلام کو آزاد کرانے اور مسلمان کو کافر کے بدلے قصاص میں قتل نہ کرنے کے احکامات ہیں۔

معاشرے میں اس علم کے مختلف استعمالات ہیں۔ بعض لوگ اسے قرآن مجید میں استعمال کرتے ہیں تا کہ قرآن مجید کے غرائب اور عجائب لوگوں پر بیان کر سکیں۔ یہ ایک عبث اور بے کار کی مشق ہے کہ جس میں صریح تکلف اور تصنع سے کام لیا جاتا ہے جبکہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا دی ہے کہ تکلف اور تصنع کرنے والے ہلاک ہو جائیں۔

علم الاعداد کے ایک ماہر نے کہا کہ قرآن مجید میں الجنة کے اعداد 484 بنتے ہیں جبکہ الاعراف کے 383 بنتے ہیں اور دونوں میں فرق 101 ہے۔ اور یہی فرق یعنی 101 کا فرق، اعراف اور النار کے اعداد میں بھی ہے۔ اب ثابت کیا ہوا؟ ثابت یہ ہوا کہ مقام اعراف، جنت اور جہنم کے درمیان میں ہے۔ تو بھئی، یہ تم نے کیا تیر مار لیا، یہ تو اس واہیات مشق کے بغیر بھی ثابت تھا کہ مقام اعراف، وہ مقام ہے جو جنت اور جہنم کے مابین ہے اور مفسرین ہر دور میں یہی کہتے رہے ہیں۔

اور بلکہ جو تم نے ثابت کیا ہے، وہ ثابت ہوتا ہی نہیں ہے کہ الجنة میں آخر میں گول تاءہے اور تم نے اسے تاءشمار کر کے اس کے اعداد نکالے ہیں جو کہ غلط ہے۔ اگر تم اسے گول تاء شمار کر کے اس کے اعداد نکالو گے تو تمہاری تھیوری دھڑام سے گر جائے گی۔ اور اس قسم کی کافی چولیں ہیں کہ جس میں انہوں نے صریح تکلف اور کھینچا تانی سے نتائج نکالے ہوئے ہیں اور اگر وہ کھینچا تانی نکال لیں تو ان کی تھیوری گر جاتی ہے۔

مثال کے طور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے اعداد 786 نکالتے ہیں لیکن اس میں رحمان کی میم میں کھڑی زبر کا الف اور اللہ کی لام میں کھڑی زبر کی صورت میں الف کو اپنی جہالت کی وجہ سے شمار نہیں کرتے کہ انہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ یہ الف بھی ہے۔ اور اگر ان دونوں الف کو شمار کریں تو انہی کے قاعدہ قانون کے مطابق یہ عدد 788 بنتا ہے نہ کہ 786۔ اور 786 اس قدر معروف ہوا کہ لوگ اپنی گاڑی کی نمبر پلیٹ بھی وہی تلاش کرتے ہیں کہ جس میں 786 ہو۔

اگر یہ نمبر واقعتا قرآن مجید کی آیات کے متبادل ہوں تو کیا بسم اللہ الرحمن الرحیم کی جگہ نماز میں 786 پڑھ لینا چاہیے۔ چلیں قرآن مجید نہ سہی، اگر کسی کے نام کے اعداد 420 بن رہے ہوں تو کیا اسے آئندہ سے 420 کہنا شروع کر دیں؟ اگر کسی کے والد کا نام لینے کی بجائے کہا جائے کہ وہ 302 کا بیٹا ہے تو کیا یہ صحیح ہو گا؟

اور اگر یہ اعداد انسان کے نام کے متبادل ہوتے اور اس کو کفایت کرتے تو پھر نکاح کے موقع پر یہ کہنا جائز ہوتا کہ 420 کا نکاح 302 سے ہوا؟ ان لوگوں کا ظلم دیکھیں کہ اللہ عزوجل کے نام کو بھی ایک نمبر بنا دیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بھی نمبر بنا دیا ہے۔ کیا آئندہ قران مجید اور نماز، نمبروں میں پڑھ لیا کریں؟ اگر نہیں تو یہ نمبر کسی طور حروف کے متبادل نہیں ہیں۔

پھر ان کا ایک اور فریب ملاحظہ کریں کہ علم الاعداد میں عربی حروف تہجی کی ترتیب الٹ دی ہے یعنی ا، ب، ت، ث،،، نہیں ہے بلکہ ا، ب، ج، د،،،، ہے۔ یہ ترتیب کس نے قائم کی ہے، اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟ عادل سہیل صاحب کے مطابق اگر غور کریں تو اس ترتیب کے الٹنے کا مقصد صرف ایک ہی تھا اور وہ یہ کہ کسی طرح رومن حروف تہجی کی ترتیب پر عربی حروف تہجی کو مرتب کر دیا جائے کہ ابجد در اصل ABCD کی آواز دے رہا ہے۔ تو اس علم کا اوریجن غیر مسلم تہذیب اور افکار ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ جو اس علم کی بنیاد پر غیب کی باتیں جان لینے کا دعوی کرتے ہیں۔ دین اسلام میں ایسا دعوی کرنے والے کو کاہن (fortune-teller) کہتے ہیں کہ جو یہ کہے کہ وہ مستقبل کا حال بتلا سکتا ہے اور جو ماضی کا حال بتلاتے تھے تو انہیں عراف کہتے تھے۔ اور کہانت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باقاعدہ ایک ادارہ (institution) تھا۔ سنن اربعہ کی روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی کاہن اور عراف کی تصدیق کی تو اس نے اس کا کفر کیا، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا یعنی قرآن مجید کا کفر کیا۔

اب یہ سوال بعد کا ہے کہ جو کچھ وہ بتلاتے ہیں، اس میں صحیح بھی ہوتا ہے۔ بھئی، اثر تو جادو میں بھی ہے کہ قرآن نے کہا ہے کہ جادوگروں کی لاٹھیاں اور رسیاں سانپ نظر آنے لگی تھیں لیکن اللہ نے جادو کو کفر قرار دیا ہے، یہ جادو کا شرعی حکم ہے۔ پس اگر علم الاعداد کی بنیاد پر غیب کی خبریں دے تو اس علم کا شرعی حکم تو کفر کا ہے۔ اور اب جو وہ خبریں دے رہا ہے، اگر وہ ماضی کی ہیں تو اس کا مصدر علم الاعداد نہیں بلکہ وہ چیلے جنات اور شیاطین ہوتے ہیں کہ جو انسان کے ہم زاد سے معلومات اکٹھی کر کے اپنے گرو تک پہنچاتے ہیں۔ اور مستقبل کی خبریں ہوں تو اس کا مصدر بھی وہ جنات اور شیاطین ہوتے ہیں جو اس واقعے کے بارے فرشتوں کی باہمی گفتگو سے کوئی اڑتی ہوئی بات سن لیتے ہیں، اور اس بات کی پوری کہانی بنا کر اپنے گرو کو سناتے ہیں کہ جس کی بنیاد پر بعض اوقات ان کی کوئی خبر صحیح نکل آتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو علم الاعداد کے ساتھ سحر اور جادو کو جمع کرتے ہیں۔

اور کچھ لوگ وہ ہیں جو علم الاعداد کے ساتھ سحر اور جادو کو جمع نہیں کرتے تو اگر ان کے پاس جنات اور شیاطین نہ بھی ہوں تو یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے کہ اللہ اس کی کوئی بات سچ کر دکھاتے ہیں۔ آزمائش اس طرح ہے کہ اللہ نے اس علم سے منع کیا اور ساتھ میں اس میں کچھ فائدہ بھی رکھ دیا۔ اب اس علم جو کچھ فائدہ ہے، وہ اس کی آزمائش بن گیا ہے۔ آپ غور کریں کہ قرآن مجید کے بیان کے مطابق یہود کی بستی کے لیے سمندر سے مچھلیاں پکڑنا آزمائش بنا دیا گیا تھا کہ مچھلی سمندر کی سطح پر آتی ہی ہفتے کے دن تھی جبکہ ہفتے کے دن شکار سے منع کیا گیا تھا۔ اور اس طرح اللہ عزوجل ان کی آزمائش چاہ رہے تھے۔ اور فائدے کا کیا ہے، وہ تو جادو میں بھی ہے اور سود اور جوئے سے بھی حاصل ہو جاتا ہے، اور بچہ تو اپنی بیوی کے پاس جائے تو بھی حاصل ہوتا ہے اور غیر کی بیوی کے پاس جائے تو بھی حاصل ہوتا ہے، لیکن بچہ حاصل ہو جاتا ہے، یہ کوئی دلیل نہیں ہے، اصل یہ ہے کہ کیسے حاصل ہوتا ہے؟

یہ تو اس علم کی شرعی حیثیت ہوئی کہ یہ تکلف، تصنع اور لغو ہونے کے سبب ناجائز اور گناہ کا کام ہے اور بعض صورتوں میں صرف ناجائز اور گناہ نہیں بلکہ کفر بھی ہے جبکہ اس کی بنیاد پر غیب کی خبریں دے۔ اور مشاہدہ اور تجربہ یہ بتلاتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی فضول علم کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کی دو وجوہات ہوتی ہیں، ان کو ختم کرنے کی کوشش کریں تو ان شا اللہ، اس کا ذہن اس سے ہٹ جائے گا۔ ایک وجہ تو عموما فراغت ہوتی ہے، فارغ شخص یہ نہ کرے گا تو اور کیا کرے گا؟ اور دوسرا تجسس ہے۔ اور یہ تجسس بھی اگر غور کریں تو فراغت میں ہی سوجھتا ہے۔ لہذا انسان اگر ایسا مصروف ہو کہ سر کھجانے کی فرصت نہ ہو تو ایسی لغویات سے عموما دور رہتا ہے۔ اور مصروفیت بھی وہ ہو کہ جس کو انسان انجوائے کرے یا کم از کم بوجھ محسوس نہ ہو کہ اس کے بدلے اسے کچھ فوائد حاصل ہو رہے ہوں۔

عَنِ ابنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:اِنَّ قَومًا یَحسِبونَ آ َبَا جَادٍ، وََینظرونَ فِی النّجومِ، وَلَاَرَی لِمَن فَعَلَ ذَلِکَ مِن خَلَاق۔

 حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ کچھ لوگ ابجد کو علم خیال کرتے ہیں، اور ستاروں میں نظر ڈالتے ہیں، اور میری رائے میں اللہ کے ہاں ان کا کچھ حصہ نہیں ہے۔جامع معمر بن راشد (11/ 26)

فہرست پر جانے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Leave a ReplyCancel reply

Discover more from Nukta Guidance Articles

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Exit mobile version