قسط 34 حساب کروانا

حساب کروانا

عملیات کی دنیا کی سب سے زیادہ ضروری سمجھی جانے والی چیز حساب کروانا سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذا اس حوالے ہمارے لیے یہ جاننا نہایت ہی ضروری ہے کہ عاملین حساب کیوں لگاتے ہیں، کیسے لگاتے ہیں، اور ہمارا دین اسلام اس بارے ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے۔اس سارے معاملے کو آپ اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک آپ اس پیشے کی تاریخ، ہسٹری اور حقیقت کو نہ سمجھیں۔لہٰذا پہلے آپ کو اس معاملے کی تاریخ بتاتے ہیں اور پھر آپ کو خود ہی سمجھ آجائے گی یہ کیا معاملہ ہے اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے۔

کہانت

کاہن، عربی زبان میں جیوتشی، غیب گو اور سیانے کے معنی میں بولا جاتا تھا، زمانہ جاہلیت میں یہ ایک مستقل پیشہ تھا، ضعیف الاعتقاد لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ارواح اور شیاطین سے سے ان کا خاص تعلق ہے جن کے ذریعہ یہ غیب کے خبریں معلوم کرسکتے ہیں، کوئی چیز کھو گئی ہو تو بتا سکتے ہیں اگر چوری ہو گئی ہو تو چور اور مسروقہ مال کی نشان دہی کرسکتے ہیں اگر کوئی اپنی قسمت پوچھے تو بتا سکتے ہیں ان ہی اغراض و مقاصد کے لیے لوگ ان کے پاس جاتے تھے اور وہ کچھ نذرانہ لیکر بزعم خویش غیب کی باتیں بتاتے تھے اور ایسے گول مول فقرے استعمال کرتے تھے جن کے مختلف مطلب ہو سکتے تھے تاکہ ہر شخص اپنے مطلب کی بات نکال لے۔

کہانت کاف کے فتحہ سے غیبی خبر دینا اور کہانت کاف کے کسرہ سے اس غیب گوئی کا پیشہ کرنا، بعض کاہنوں کا دعویٰ تھا کہ ہمارے پاس جنات آکر ہم کو غیبی چیزیں غیبی خبریں بتاتے ہیں ۔بعض کاہن خفیہ علامات،اسباب سے غیبی چیزوں کاپتہ بتاتے ہیں انہیں عراف کہتے ہیں اور ان کے اس عمل کو عرافت کہتے ہیں۔یہ دونوں عمل حرام ہیں ان کی اجرت لینا دینا دونوں حرام ہیں۔زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگوں نے اسے کاروبار کے طور پر اختیار کر لیا تھا اور ان کا ان شیطانوں سے رابطہ تھا جو آسمان سے چوری چھپے باتیں سن کر ان لوگوں سے آکر بیان کر دیتے تھے پھر وہ شیطانوں سے سنی ہوئی اس طرح کی باتوں میں اپنی طرف سے سو سو اضافے کر نے کا عمل انجام دیتے تھے اور اس کولوگوں سے بیان کرتے اب ان سیکڑوں باتوں میں سے اگر کوئی ایک بات صحیح ثابت ہو جاتی تو لوگ ان کے بارے میں فریب میں مبتلا ہو جاتے اور اپنے باہمی فیصلوں کے لیے بھی انہی کی طرف رجوع کرتے اور مستقبل کے حالات و واقعات میں بھی ان سے راہنمائی طلب کرتے۔

آج اکیسویں صدی میں وہی ہزاروں سال پرانی جاہلیت دوبارہ زندہ ہوچکی ہے اور اسی طرح ماضی حال مستقبل اور غیب کی باتیں حساب کرکے بتانے والے نہ صرف مارکیٹ میں بیٹھے ہیں بلکہ مدارس اور مساجد کے منبر ومحراب میں بھی بیٹھے ہیں۔اس حوالے سے مسلم شریف کی ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں:

عَن مُعَاوِیَة بن الحکم قَالَ: قُلتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ اُمُورًا کُنَّا نَصنَعُہَا فِی الجَاہِلِیَّةِ کُنَّا نَاتِی الکُہَّانَ قَالَ: «فَلَا تَاتُوا الکُہَّانَ» قَالَ: قُلتُ: کُنَّا نَتَطَیَّرُ قَالَ: «ذَلِکَ شَیئ یَجِدُہُ اَحَدُکُم فِی نَفسِہِ فَلَا یصدَّنَّکم». قَالَ: قُلتُ: وَمِنَّا رِجَال یَخُطُّونَ قَالَ: «کَانَ نَبِیّ مِنَ الاَنبِیَائِ یَخُطُّ فَمَن وَافَقَ خَطَّہُ فَذَاک(رَوَاہُ مُسلم)

 حضرت معاویہ ابن حاکم فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ ہم چند کام زمانہ جاہلیت میں کرتے تھے،ہم کاہنوں کے پاس جاتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کاہنوں کے پاس نہ جاو ۔معاویہ فرماتے ہیں میں نے کہا ہم پرندے اڑاتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ ایسی چیز ہے جسے تم میں سے کوئی اپنے دل میں پاتا ہے تویہ اسے روک نہ دے۔معاویہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا کہ ہم سے بعض لوگ خط کھینچتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:حضرات انبیاءمیں ایک نبی خط کھینچتے تھے ،تو جوان کے خط کے موافق ہوجائے تویہ درست ہے(مسلم)

پرندے اڑانے سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کا یہ خیال تھا پرندہ دائیں طرف اڑا تو یہ ہوگا بائیں طرف اڑا تو یہ ہوگا۔ یہ پرندے وغیرہ اڑانا نفس کے دھوکے ہیں انکی حقیقت کچھ نہیں اگر تم کسی کام کو جارہے ہو اور کوئی پرندہ بائیں طرف کو اڑتے دیکھو تو اپنے کام سے نہ رک جاو اپنے کام کو جاو  رب تعالیٰ پر توکل کرو کام بننا نہ بننا اس کی طرف سے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قسط نمبر21: عاملوں کی فریب کاریاں قسط نمبر 32: ایک خفیہ عامل کی ڈائری

 کاہنوں کے پاس جانے والے لوگوں کی قسمیں ہیں:

پہلی قسم:

 کاہن کے پاس جا کر اس سے سوال تو کرے مگر اس کی بات کی تصدیق نہ کرے تو یہ بھی حرام ہے اور ایسا کرنے والے کی سزا یہ ہے کہ اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَن اَتٰی عَرَّافًا فَسَاَلَہ عَن شَیئٍ لَم تُقبَل لَہ صَلٰوة اَربَعِینَ لَیلَةً(صحیح مسلم، السلام، باب تحریم الکہانة واتیان الکہان)

”جو شخص کسی کاہن کے پاس جا کر اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرے، تو اس کی چالیس راتوں تک نماز قبول نہیں ہوتی۔“

دوسری قسم:

 کاہن کے پاس جا کر اس سے سوال کرے اور پھر اس کی تصدیق بھی کرے، تو یہ اللہ عزوجل کی ذات پاک کے ساتھ کفر ہے کیونکہ اس نے کاہن کے دعوائے علم غیب کی تصدیق کی ہے اور جو شخص کسی کے دعوائے علم غیب کی تصدیق کرے، تو وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تکذیب کا مرتکب قرارپائے گا جس میں ارشادباری تعالیٰ ہے:

قُل لا یَعلَمُ مَن فِی السَّماوتِ وَالاَرضِ الغَیبَ لَّا اللَّہُ(سورة النمل)

”کہہ دو کہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں‘ اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے۔“

اسی لیے صحیح حدیث میں آیا ہے:

مَن اَ تٰی کَاہِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُولُ فَقَد کَفَرَ بِمَا اُ نزِلَ عَلَی مُحَمَّدٍ(جامع الترمذی، الطہارة، باب ماجاءفی کراہیة اتیان الحائض۔ وسنن ابن ماجہ، الطہارة، باب النہی عن اتیان الحائض)

”جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے او ر جو کچھ وہ کہے اس کی تصدیق کرے، تو اس نے اس دین کے ساتھ کفرکا ارتکاب کیا جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ہے۔“

تیسری قسم:

یہ ہے کہ کوئی شخص کاہن کے پاس جائے اور اس سے اس لیے سوال کرے تاکہ لوگوں کے سامنے اس کے حال کو بیان کرکے ان کے مکر وفریب کا پردہ فاش کر سکے اور انہیں بتائے کہ یہ کہانت، ملمع سازی اور سراسر گمراہی ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب ابن صیاد آیا تو آپ نے اپنے دل میں ایک بات کو چھپایا اور پھر اس سے پوچھا کہ وہ یہ بتائے کہ آپ نے اپنے دل میں کس بات کو چھپایا ہے؟ اس نے جواب دیا: ”الدُخُّ“ اور اس کا اس سے ارادہ سورة الدخان کا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس سے فرمایا:

اِخسَا فَلَن تَعدُوا قَدرَکَ»صحیح البخاری، الجنائز، باب اذا اسلم الصبی فمات، ہل یصلی علیہ؟

”جاتو ذلیل و رسوا ہو جا، تو اپنی حیثیت سے ہرگزہرگز تجاوز نہیں کر سکے گا۔“

ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جادوگر سے صرف پوچھ گچھ کرنا اور حساب لگوانا ہی اس قدر کبیرہ گناہ ہے کہ انسان کی چالیس دِن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔قارئین کرام جو کام جاہلیت کے زمانے میں مشرک لوگ کرتے تھے وہی کام حساب کتاب لگوانے کے نام پر نام نہادعاملوں نے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے چندنام نہاد مولویوں اور ائمہ مساجد نے بھی شروع کردیا ہے۔چنانچہ آنے والے سے اس کا نام، اس کی والدہ کا نام اور اس کی تاریخ پیدائش پوچھ کر علم نجوم، علم جفر اور علم رمل کے حساب کتاب کے زائچے نکالے جاتے ہیںاور بتادیا جاتا ہے کہ آپ کویہ تھا، یہ ہے ، یہ ہوگا، یعنی ماضی حال مستقبل کی خبریں بتائی جاتی ہیں۔ دینی نقصان اپنی جگہ پر دنیاوی نقصان اس کا یہ ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے وہمی مریض بن جاتا ہے، اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے مجھ پر فلاں نے جادو، بندش کردی ہے، اس کی اپنی زندگی بھی برباد ہوتی ہے اور دوسروں کے بارے بھی وہ بدگمانی کا شکار رہتا ہے۔

قارئین کرام!نبی کریمﷺکی ایک حدیث مبارکہ ہے جس میں آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں چار جاہلیت کی باتیں ایسی ہیں کہ انہیں نہ چھوڑیں گے۔(مسلم) ان چار چیزوں میں ستاروں پر اعتقاد رکھنا بھی شامل ہے۔ یعنی یہ امت تمام تر جدید ترقیوں کے باوجود توہم پرستی کے امور کو کبھی نہ چھوڑے گی۔ توہم پرستی کاسب سے بڑا ذریعہ ہمارے ہاں آج کل یہ نجومی اورعامل پیر ہی ہیں۔کہیں ستاروں کے حساب کے نام پر لوگوں کو ان کی قسمت کی خبردی جاتی ہے‘ ہر ایک شخص کو اس کے نام اور تاریخ پیدائش کے لحاظ سے اس کے مخصوص ستارے کانام بتایا جاتاہے اورپھر ہماری نئی نسل کے ماڈرن لوگ بڑے شوق سے ایک دوسرے کو اپنا تعارف کراتے ہوئے جہاں دیگر باتیں بتاتے ہیں‘وہاں یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کا ستارہ کون ساہے؟ کوئی اپناستارہ عقرب یعنی بچھو (Scorpion)بتاتاہے تو کوئی سرطان(Cancer) کوئی خود کو حمل یعنی مینڈھا(Aries) کہلاتاہے توکوئی جدی یعنی بکری (Capricorn or goat)اورکوئی ثور یا بیل(Taurus) کہلاتاہے توکوئی قوس (Archer) یعنی ایساانسان جس کا دھڑ گھوڑے کا ہواور سرانسان کاہو وغیر وغیرہ۔ ان ستاروں کے نام پر دکانوں سے بڑے خوبصورت اور چمکدار سٹکرز وغیرہ بھی ملتے ہیں جنہیں یہ ماڈرن لوگ اپنی گاڑیوں‘ گھروں اور فائلوں‘کتابوں وغیرہ پربڑے فخرسے لگاتے ہیں۔ باہمی شادیوں کے لئے بھی کوشش کرتے ہیں کہ لڑکے لڑکی کا سٹار ایک جیسا ہو تاکہ وہ یہ گمراہ کن فقرہ کہہ سکیں کہ دونوں کے ستارے بھی آپس میں ملتے ہیں۔ انہی ستاروں کے نام پر یہ لوگ اخباروں رسالوں میں وہ مشہور کالم پڑھتے ہیں جن پرلکھاہوتاہے کہ ”آپ کا یہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟“ فطری بات ہے کہ اگر کسی کو پتہ لگ جائے کہ اس کا یہ ہفتہ اچھا نہیں گزرے گا اور وہ جو بھی کام کرے گا‘ اس میں اسے ناکامی ہوگی تو سوچئے کہ انسان کیا عضو معطل ہوکر نہیں بیٹھ جائے گا۔اسی طرح اگرکسی کو یقین ہوجائے کہ اس کا یہ ہفتہ ہر صورت اچھا ہی گزرنا ہے اور حالات اس کے حق میں رہیں گے توپھر وہ لوگوں کے ساتھ جو چاہے زیادتی اور جائز وناجائز کرتا پھرے گا کیونکہ اسے یقین ہوگا کہ نتیجہ تو اس کے حق میں ہی رہنا ہے۔ غرض توہم پرستی کے انہی خطرناک نتائج سے انسانیت کو بچانے کے لئے رحمت اللعالمین ﷺ نے فرمایا کہ جوشخص کسی کاہن(غیب کی خبردینے والے نجومی‘ دست شناس‘عامل وغیرہ)کے پاس آئے اور اس کی بات کی تصدیق کرے تواس نے محمدﷺ کی شریعت کاانکار کیا (مسلم)

حساب کرنے کے طریقے

جب کوئی پریشان حال شخص اپنی پریشانی لے کر عامل نجومی، کاہن ، جادوگر کے پاس جاتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس کا حساب کرتا ہے۔ اس سے اس کا نام، اس کی والدہ کا نام ، اور تاریخ پیدائش اور بعض عامل پیدائش کا ٹائم بھی پوچھتے ہیں۔ پھر علم رمل، علم جفر اور علم نجوم کے حسابی قاعدوں سے زائچے بناکر مختلف قسم کے حسابات لگا کر کوئی بات ویسے ہی اندازے سے بتائی جاتی ہے۔ بتانے والا ویسے ہی ایک تکا مار رہا ہوتا ہے، لیکن سننے والا اسے درست حساب سمجھ کر اس کے مطابق ذہن بنا لیتا ہے۔اسی طرح کچھ لوگوں نے حساب کتاب کرنے کے اور بھی مختلف طریقے اور شعبدے بنارکھتے ہوتے ہیں۔ مثلا کوئی کتاب کو دھاگے سے لٹکا کر حساب کرتا ہے اگر دائیں طرف گھوم جائے تو یہ مطلب ہوگا اور بائیں طرف گھوم جائے تو یہ مطلب ہوگا اور نہ گھومے تو یہ مطلب ہوگا۔اور یہ کتاب والا حساب بڑے بڑے نامی گرامی عامل کرتے ہیں جن کا دعوی ہے ہمارے پاس عرب کے شیخ بھی علاج کرواتے ہیں۔ یہ کتاب والا حساب اسلام سے پہلے جاہلیت کے حساب سے ماخوذ ہے فرق صرف اتنا ہے اس وقت کتاب کے بجائے تیروں سے کیا جاتا تھا، یا پرندہ اڑا کر کیا جاتا تھا، اگر پرندہ اس طرف اڑا تو یہ مطلب اور دوسری طرف اڑا تو یہ مطلب ہے۔ان دونوں چیزوں کو اسلام نے قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی مکمل طور پررد کردیا ہے، جس کی تفصیل ان شاءاللہ آپ آگے ملاحظہ کریں گے۔

اسی طرح کچھ لوگ دھاگے سے بازو، جسم، قمیص وغیرہ ناپ کر حساب کرتے ہیں، کچھ لوگوں کے اور بھی مختلف شعبدے ہیں، ہمارے لیے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ من گھڑت، بے بنیاد اور شرعا ناجائز عملیات اور طریقے ہیں، بعض طریقے تو بذات خود غیر شرعی ہیں، اور بعض طریقے اگرچہ غیر شرعی نہ بھی ہوں لیکن ان طریقوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والے جواب سے سامع کی زندگی اور عقیدہ دونوں خراب ہو جاتے ہیں، اس لیے وہ بھی جائز نہیں ہیں۔اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے وہ اپنے دین ایمان کی حفاظت کرے، نہ تو کسی سے حساب کروائے اور نہ کسی کا کرے، یہ سب چیزیں غیر شرعی ناجائز ہیں۔

مفتی شبیر قادری کا فتوی

مختلف طریقوں سے حساب کرکے لوگوں کو غیب کی باتوں کی خبر دینے سے متعلق بریلوی مسلک کے مفتی شبیر قادری صاحب ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

1۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رو سے مقدس کلمات کے ذریعے دم کرنا تو جائز ہے اور ثابت بھی ہے مگر کتاب دیکھنا اور اس کے ذریعے قسمت کا حال بتانا نہ تو شرعاً ثابت ہے اور نہ عقلاً درست ہے۔ یہ سادہ لوح اور دین سے نابلد لوگوں کو بیوقوف بنانے کا ایک طریقہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان(عامل) لوگوں کے تقویٰ و پرہیزگاری سے خالی ہونے کی وجہ سے ان کے کلام میں تاثیر نہیں ہوتی اس لیے لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے یہ (عامل)طرح طرح کی ڈرامہ بازیاں کرتے ہیں۔

2۔ قرآنِ مجید، احادیثِ مبارکہ یا کسی بھی دوسری کتاب پر ہاتھ پھیر کر(یا کتاب گھماکر) قسمت کا حال بتانے کی بھی کوئی شرعی دلیل ملتی ہے نا مثال‘ یہ محض لوگوں کی ضعف الاعتقادی کا فائدہ اٹھانے کا حربہ ہے۔

3۔ اعداد کی ضرب تقسیم(والدہ کے نام کے اعداد نکالنا،زائچے بناکرحساب کرنا) بھی چکربازی کا ایک طریقہ ہے۔ یہ(عامل) لوگ ہر صورت میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگ سمجھیں کہ واقعی کسی عمل کے ذریعے ہمارا اعلاج کیا جا رہا ہے۔ بعض اوقات ذہنی تسلی کی بناءپر کچھ مریض صحتیاب بھی ہو جاتے ہیں جو اس طرح کے لوگوں کے مقبولیت کا باعث بنتے ہیں۔ سینکڑوں مریضوں میں سے ایک بھی شفاءپا جائے تو اس کو بار بار لوگوں کے سامنے بیان کیا جاتا ہے۔ اس لیے لوگ مجبوری کی صورت میں ایسے لوگوں پر اعتماد کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

4۔ قرآن و حدیث کے مقدس کلمات کے علاوہ جھاڑ پھونک اور تعویذات کو فقہائے کرام نے مذموم و ممنوع قرار دیا ہے (اس کی تفصیل اوپر دیئے گئے فتویٰ کے لنک میں موجود ہے)۔ ایسے عامل جو سادہ لوح لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں ان کے خلاف اجتماعی شعور بیدار کیا جانا چاہیے اور ملکی قوانین کے مطابق ان کے خلاف کاروائی بھی کی جانی چاہیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری

فہرست پر جانے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Related posts

Leave a ReplyCancel reply