عامل اور بازاری کتب میں درج ذیل وظائف
پراسرارعلوم پر تحقیق کے آغاز کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزراتھا کہ میرے ایک قریبی عزیز نے مجھے بتایا کہ ہم پرکسی نے بہت سخت جادو کررکھاہے جس کی وجہ سے ہم بہت پریشان ہیں۔ اگرہوسکے تواس سلسلہ میں ہمارے ساتھ تعاون کرو۔ ان دنوں نہ توعملیات کے اسرار ورموز سے کچھ آگاہی تھی اور نہ ہی کبھی عملیات کوپرکھنے کا موقع ملا تھا۔ اس لئے اپنے عزیز کے ہمراہ ایک ماہر عامل کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جو میرے جاننے والے تھے اور اپنے کمالات کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے تھے۔
میرے عزیز نے عامل صاحب کوتمام حالات بتائے‘ عامل صاحب نے بہت سوچ بچار کے بعدجادو کے توڑ کا جوعمل بتایا‘ اس کو کرنا میرے عزیز کے بس کی بات نہیں تھی۔مگرعامل صاحب نے یقین دہانی کرائی کہ اگر ان کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کیاجائے توجادو کااثر ختم ہونے کی مکمل ضمانت دیتاہوں۔ یہ ایک مشکل ترین عمل تھا جس میں اکیس دن بلاناغہ نمازفجر سے پہلے ایک تعویز کسی ایسے چوراہے میں جلانا تھا جہاں سے کم ازکم ایک گھنٹہ بعد بھی کسی شخص کاگزر نہ ہو۔ اس احتیاط کامقصد یہ تھا کہ اس تعویز کے اثرات بد میں کوئی دوسرا بلاوجہ مبتلا نہ ہوجائے۔
اس عمل کی شرط میں یہ بھی شامل تھا کہ جب نمازفجر سے پہلے تعویذجلانے کے لئے گھر سے نکلیں تو نہ ہی راستے میں کسی سے بات کرنی ہے اور نہ ہی کسی کے پکارنے پر پیچھے مڑکردیکھناہے۔ جبکہ عامل نے ساتھ یہ بھی وضاحت کردی کہ اس عمل کوکرنے والا مختلف خطرات سے دوچار بھی ہوسکتاہے۔ مثلاً تعویذ جلانے والے کو جنات ہر طریقے سے روکنے کی کوشش کریں گے۔ اسے جان سے ماردینے کی دھمکیاں بھی برداشت کرناہوں گی اور اگرتعویذ جلانے والا ڈرگیا یا اس نے کسی کے پکارنے پرپیچھے مڑکر دیکھاتو نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔
ہم یہ عمل سن کر چپ چاپ واپس آگئے کہ سوچ کر آپ کو جواب دیں گے۔ میں نے اپنے عزیز سے دریافت کیا کہ کیا ارادہ ہے تووہ کسی صورت اس عمل کو کرنے پر آمادہ نہ ہوئے‘ مجھے اس عمل کو کرنے میں تجسس پیداہوا اور امید کی کرن نظرآئی کہ شاید اس طرح ہی میرے عزیزوں کو پریشانی سے نجات مل جائے۔ میں نے اس کے لئے کوئی دوسرا متبادل راستہ تلاش کرنے کافیصلہ کیا۔اس کے لئے عامل صاحب سے رابطہ کیا گیا اور ان سے درخواست کی کہ اگر کسی دوسرے شخص کے ذریعے اس عمل کو کرایا جائے تواس میں کوئی حرج تونہیں۔ اس پر عامل نے فرمایا کہ جادووالے گھر کے افراد کے علاوہ اگر کوئی دوسرا شخص ان کے لئے یہ عمل کرنا چاہے تواس کے لئے ضروری ہے کہ وہ تعویذ کوان کے گھر سے لے کرجائے اور چوراہے میں جلانے کے بعد دوبارہ ان کے گھر کی دہلیزتک واپس آئے توعمل میں کامیابی ہوسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
قسط نمبر25: جعلی عامل اور توہین قرآن
اس اجازت کے بعد میں نے اپنے ایک قریبی دوست محمدخان صاحب سے اس پریشانی کا ذکر کیا تو انہوں نے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ چاہے جو بھی ہو‘ میں ان شاءاللہ کام کو ضرور کروں گا۔ حالانکہ میں نے انہیں تمام خطرات سے آگاہ کردیا جو اس عمل کوکرنے کے دوران پیش آسکتے تھے۔ مگرانہوں نے کمال مہربانی کامظاہرہ کرتے ہوئے اس ذمہ داری کو اداکرنے کی حامی بھرلی۔ خان صاحب کی ہاں سے ہمارا یہ مسئلہ توحل ہوگیا کہ ہماری جگہ وہ قربانی دیں گے مگرجادو ٹونہ کے علاج کے لئے مذکورہ عمل ہمارے لئے کسی آزمائش سے کم نہ تھا کیونکہ فجر کی نماز سے پہلے منہ اندھیرے کسی اجنبی شخص کا بلاناغہ کسی کے گھرجاکرتعویذ وصول کرنا اور پھر دوبارہ واپس بھی آنا نہ صرف جگ ہنسائی کاباعث بن سکتا تھا بلکہ اہل محلہ کے ذہنوں میں کئی قسم کے خدشات کوجنم دے سکتاتھا۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا‘ کے مصداق اس ناگوار طریقہ علاج کو اس لئے اختیار کرنے پر آمادہ ہونا پڑا کہ شاید اسی طرح جادو کے اثرات سے جان چھوٹ جائے۔
بالآخر عامل صاحب کو بتادیاگیا کہ فلاں شخص اس عمل کو کرنے پرتیار ہے۔لہٰذا مہربانی فرماکرتعویذ لکھ کرعنایت فرمادیں تاکہ عمل کاباقاعدہ آغاز کیاجاسکے۔عامل صاحب نے اس عمل کوشروع کرنے سے پہلے خان صاحب کوناصحانہ انداز میں ڈرایا کہ تم خواہ مخواہ کیوںاپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہو‘ مگر شکرہے اللہ تعالیٰ نے انہیں استقامت عطافرمائی اور وہ اپنے وعدے پرمضبوطی سے قائم رہے۔ مجبوراً عامل صاحب کو تعویذ لکھ کردینے ہی پڑے۔جس سال یہ واقعہ پیش آیا‘ ان دنوں سخت سردی کا موسم تھا۔ خان صاحب کاگھرمیرے عزیز کے گھر سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور جوچوراہا شہر سے باہر تعویذ جلانے کے لئے منتخب کیا گیا تھا‘وہ مزید ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔
اللہ اللہ کرکے عمل کاآغاز ہوا۔اب خان صاحب کامعمول یہ تھا کہ فجرکی نماز سے ایک گھنٹہ پہلے وہ اپنے گھر والوں سے چوری چھپے سائیکل پر سوار ہوکر میرے عزیز کے گھر پہنچے۔ وہاں سے تعویذ وصول کرکے شہر سے ایک کلومیٹر دور مخصوص چوراہے پر جاکر تعویذ جلاتے اور دوبارہ واپس عزیزوں کے گھر کی دہلیزپرپہنچ کر اپناعمل مکمل کرتے۔ پھراپنے گھرجاتے۔جب خان صاحب پہلے دن تعویذ جلانے کے لئے گئے تو ہم سب بہت پریشان تھے کہ نہ جانے کیاہو جائے۔ لہٰذا سب نے ان کی کامیابی کے لئے بہت دعائیں کیں مگر ان کے ساتھ کوئی ایساواقعہ پیش نہ آیا جس کی عامل صاحب نے قبل ازوقت پیش گوئی کی تھی۔ اسی طرح اکیس دن بخیروعافیت گزرگئے۔ میرے اس عظیم دوست نے اپنی جان پر کھیل کر اکیس دن بہت سخت ذمہ داری نبھائی کہ جس کی ہم کسی سے توقع نہیں کرسکتے تھے۔ بلکہ ہم خود بھی اس عمل کو بلا ناغہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔بہرحال اس عمل کومکمل کرنے کے دوران ہم نے عامل صاحب کی بتائی ہوئی تمام شرائط پرسختی کے ساتھ عمل کیا۔ یہاں تک کہ خان صاحب نے فجر سے پہلے کے جن راستوں سے گزرناتھا‘وہاں پرتعینات تمام چوکیداروں کو قبل ازوقت آگاہ کردیا تھا کہ انہیں کسی نے پیچھے سے آواز نہیں دینی۔ اس احتیاط کا مقصد بھی یہی تھاکہ عمل کرنے میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔
جب اکیس دن مکمل ہوگئے تو اس کے بعد جو نتیجہ نکلا ‘وہ بالکل صفر تھا کیونکہ جادو کامعاملہ جوں کا توں رہا اوربجائے افاقہ ہونے کے مرض شدت اختیار کرگیا۔ ہم سب کو اس واقعہ سے شدیدصدمہ ہواکہ ہماری تمام محنت رائیگاں گئی۔ جب عامل صاحب سے کہاگیا کہ جناب آخر کیاوجہ ہے کہ آپ کے بتائے ہوئے طریقہ پرعمل کرنے کے باوجود کسی قسم کاکوئی فائدہ نہیں ہوا تو وہ کہنے لگے کہ جادو کا یہ وار میرے اندازے سے بھی سخت نکلا۔ اس کے لئے مزیدمحنت درکار ہے مگر ہم نے دوبارہ ان کی خدمات حاصل کرنے سے توبہ کرلی۔
درحقیقت عامل صاحب نے جواتنا مشکل عمل بتایا تھا‘ ان کو معلوم تھا کہ میرے عزیز اس عمل کو کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اور کوئی دوسرا شخص کسی کی خاطر اتنی بڑی قربانی دینے کے لئے کبھی بھی تیار نہ ہوگا۔اس طرح میری قابلیت کابھرم رہ جائے گا اور میں کہہ سکوں گا کہ میں نے توبہت مجرب عمل بتایا تھا لیکن آپ ہی سے کچھ نہ ہوسکا۔ غیر متوقع طورپر وہ خود آزمائش کے شکنجے میں آگئے ‘ورنہ ہوسکتاتھا کہ میں ان کے معتبر ہونے کا یقین کر بیٹھتا۔کسی نے صحیح کہاہے کہ ضرورت منددیوانہ ہوتاہے۔وگرنہ شاید میں کبھی بھی اس کربناک عمل کرنے میں دلچسپی کااظہار نہ کرتا۔
جس طرح اس قسم کے عاملوں کی غلط رہنمائی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘ اسی طرح عملیات کے موضوع پر دستیاب کتب جو بازار میں باآسانی مل جاتی ہیں‘ ان میں درج ذیل عملیات کے عجیب وغریب خواص اور وظائف کے فوائد پرمشتمل دعوے محض جھوٹ کا پلندہ ہوتے ہیں۔شائقین کے جذبات کی تسکین اوران کی آرزووں کی تکمیل کے لئے ہرکتاب کامصنف یہ دعویٰ کرتاہے کہ وہ انسانیت کی بھلائی کی خاطر اتنے نادرو نایاب عملیات کو منظر عام پر لارہاہے۔ وگرنہ وہ انہیں سنبھال کررکھتا اورکسی کو ان کی ہوانہ لگنے دیتا۔
ان بازاری کتب میں درج وظائف پربلا تحقیق آنکھیں بند کرکے عمل شروع کردینا اسی طرح گھاٹے کا سودا ہے اور بے سود اور وقت کا ضیاع ہے۔ جس طرح اوپرعامل صاحب کے واقعہ کے نکلنے والے نتائج صفررہے۔بازاری کتب جن میں بہت سے نامور مصنفین کی کتب بھی شامل ہیں انہوں نے بعض وظائف کوپرانی کتابوں سے نقل کرکے پیش کردیاہے۔ ان میں اکثر وظائف قاتل ایمان اورشرک کے زہرسے آلودہ ہیںجو خلق الہٰی کی راہنمائی کی بجائے انہیں گمراہ کرنے کافریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ جادو اور ٹونے کے علاج پر مشتمل وظائف وعملیات پردسترس حاصل کرنے کے لئے ڈھیروں کتب کے مطالعہ سے میں اس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ عام قاری کو ان سے فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہی پہنچتاہے۔ سوائے ان چند ایک کتابوں کے جن میں مسنون وظائف بیان کئے گئے ہیں۔جو لوگ عملیات سیکھنے‘ کرنے کے خواہش مند ہیں‘ مسنون وظائف کے ذخیرے میں ان کی راہنمائی کابیش بہا خزانہ موجود ہے۔ اس سے استفادہ کرنا سب سے نفع بخش سوداہے جس کوکرنے میں کسی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لینا چاہئے۔
حال ہی میں اردو عربی کتب کا ترجمہ نظر سے گزرا‘ ان کتب میں درج وظائف کو بہت دل کش انداز میں اس گارنٹی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ کرنے والے کو سوفیصد کامیابی حاصل ہوگی۔ میں نے ان کتابوں پرشرعی نقطہ نظر سے تبصرہ کی خاطر مولانا حنیف یزدانی صاحب سے رجوع کیاتوانہوں نے عملیات کی ان کتابوں کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا
رمل‘جعفر‘ مسمریزم‘ کہانت اورنجوم‘دست شناسی وغیرہ یہ سحر ہی کی شاخیں ہیں۔قرآن وحدیث کی روسے سحر کفرہے اور ساحر کافر ہے اورساحر کی سزا شریعت اسلامیہ میں قتل ہے کیوں کہ اس کے جادو سے کسی کے ہلاک ہونے کاامکان ہوتاہے۔سورج‘چاند اورستارے کارخانہ کائنات کے کل پرزے ضرور ہیں۔ یہ سب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مخلوقات ہیں اور اس کے حکم کی پابند ہیں۔ انسان مخدوم ہے اور یہ چیزیں خادم ہیں۔ معبودو مختار یا متصرف فی الکائنات نہیں جیسا کہ اقبال نے بھی فرمایا
ستارہ کیا تری تقدیر کی خبردے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں
اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کاخالق ‘مالک ‘رازق اور حقیقی بادشاہ ہے۔ وہ ہرچیز پرقادر ہے اور جوچاہتاہے کرتاہے۔
کچھ عرصہ پہلے مشہور عرب مصنف عبدالفتاح السید الطوانی کی تالیفات السحر العجیب فی جلب الحبیب اورالسحر الاحمر کا اردو ترجمہ دیکھنے کا موقع ملا۔دشمنی کے لئے‘ پاگل بنانے کے لئے‘ قتل کرنے کے لئے‘ محبت کے لئے ‘تصریفات نظرسے گزریں۔ پھرزلزلہ کی دعوت‘ ابلیس کی دعوت۔ یہ الفاظ قابل غور ہیں۔
توکل یا ابلیس یا ابامرہ انت والموانک وخدامل ولا تکن من الساجدین لادم
وہ ابلیس جس نے اللہ کاحکم نہ مانا اور آدم کو سجدہ نہ کیا اور ہمیشہ کے لئے مردود قرار دیاگیا‘ وہ ملعون ہے اورجہنمی ہے اور اولاد آدم کاازلی دشمن ہے۔ اس عربی عبارت میں اسے کہاجارہاہے کہ یہ کام کرو ورنہ آدم کوسجدہ کرناپڑے گا۔ہوا کی عزیمت‘مٹی کی عزیمت ‘ پانی کی عزیمت ‘ہوائی‘ ناری‘ خاکی اورمائی ملوک کی دعوت اورکتنے ظلم کی بات ہے کہ سحر جسے قرآن کفرکہتاہے‘ان سحر یہ کتب میں قرآنی آیات اوردرود شریف درج ہے اوراس طرح ان مقدس الفاظ کو سحر کے ناپاک الفاظ کے ساتھ خط ملط کیاگیاہے۔
ہم متعدد بار یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ مافوق الاسباب امور میں امداد نہ فرشتوں سے نہ جنوں سے اور نہ انسانوں سے مانگی جاسکتی ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے امدادطلب کی جاسکتی ہے۔ایاک نعبدوایاک نستعین سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔
بحق فلاں کے ساتھ بحق الشمس وشفابھاوالزھر وضیانھا ایک وظیفہ ملاحظہ فرمائیے جوکھلی شرک کی دعوت پرمبنی ہے۔
ہم یہ چاہتے ہیں کہ عوام و خواص سحرو نجوم پرمبنی شرکیہ اورادو وظائف سے اجتناب کریں جو ان بازاری کتابوں میں الفاظ کے ہیر پھیر سے ترتیب دئیے گئے ہیں۔ کسی مسلمان کو اپنے ایمان کو محفوظ رکھنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ مسنون وظائف اور اوپر اکتفا کیاجائے کیونکہ کسی بھی انسان کے پاس سب سے بڑی دولت توایمان ہے۔اگر ایمان نہ رہا تو اس کے پاس پھر کیا رہا۔جس نے شیطان کاراستہ اختیار کیا‘ وہ دنیا و آخرت دونوں میں نقصان اٹھائے گا۔ اس کی دنیا بھی برباداور آخرت بھی برباد۔میرے دیکھنے میں ایسے جادوگر آئے ہیں جنہیں پریشانیوں اور مصیبتوں کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا۔
وہ لوگ جنہوں نے جنات کو نکالنے کے لئے روحانی وظائف کی آڑ میں شرکیہ وظائف کرنے کی ترغیب دی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک بحق انبیاءو اولیاء کے ساتھ ساتھ بحق ابلیس ‘فرعون ‘شداداور نمرود بھی کہنا اورلکھنا درست ہے۔ابلیس‘ فرعون‘شداد‘لعین‘نمرود‘مردود
یا الہٰی بحرمت آں بادشاہ
در وجود فلاں این فلاں را
ہر قسم آسیب و شیطان کہ باشد
حاضر شود نمودہ آیدہ سوختہ گردر
المعجل المعجل الساعہ ولوحا
میں تو ان عاملان کرام اور پیران عظام کے بارے میں علامہ اقبال کی اس رائے سے اتفاق کرتاہوں جس میں انہوں نے اپنے خیالات کااظہار فرماتے ہوئے کہا تھا کہ
مسند میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن