قسط 25 جعلی عامل اور توہین قرآن

توہین قرآن کامرتکب عامل:

میں جن حقائق سے پردہ اٹھانے کاجرم کررہاہوں‘ اس سے بہت سے لوگوں کو تکلیف توہو گی لیکن آخر کب تک ہم حقائق سے منہ چھپاتے رہیں گے۔ میری اس تحریر کی بنیاد عملیات کے میدان میں ذاتی تجربہ اور ان گنت عاملوں سے ملاقات کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی معلومات پر مبنی ہے۔ مجھے بہت سے عاملوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ایک بدنصیب عامل جو اب اس دنیائے فانی سے کوچ کرچکا ہے‘ اللہ جانے اس کا انجام کیا ہوگا۔جب وہ کسی کانقصان کرنے کے لئے تعویذ تیارکرتا تو سیاہی کی دوات میں حقے کا پانی استعمال کرتا۔اس کا کہنا تھا۔اس سے تعویذ کا اثر بہت جلد ہوتاہے۔ یہ تعویذ قرآنی آیات سے لکھا جاتاہے۔ جتنی بے حرمتی قرآن مجید کی پیشہ ورعامل کرتے ہیں‘ کوئی مسلمان اس کی جرات نہیں کرسکتا۔ اسی طرح ایک روحانی عامل کا معمول تھا کہ وہ قرآنی آیات کے تعویذ حرام جانوروں بالخصوص الو کے خون سے لکھتا۔ آپ خود غورکریں قیامت کے ان کا کیاحشر ہوگا۔سورہ فاتحہ جوہربیماری کے لئے شفا کا درجہ رکھتی ہے‘ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک عامل سورہ فاتحہ کو ایک تعویذ پر الٹے حروف میں لکھ رہا تھا۔

عملیات کرنے کے عرصے کے دوران میرے علم میں یہ بات آئی کہ جو والدین اپنے بچوں کو طہارت اور پاکیزگی کادرس نہیں دیتے اور آپ? نے صبح وشام اورمختلف اوقات کے لئے جو دعائیں بتائی ہیں‘بچوں کو وہ دعائیں یاد نہیں کراتے‘ ان بچوں میں خود اعتمادی کی بہت کمی ہوتی ہے۔ وہ بچے وہم کابہت جلد شکار ہوجاتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات پرڈر جاتے ہیں۔

میری معلومات کے مطابق جس عامل نے بھی کسی طریقہ سے جنات کو قابو کیاہو ‘اس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ حالانکہ عملیات کے میدان میں یہ کوئی بہت بڑا کمال نہیں۔اس قسم کے عاملوں کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لئے جانا جائز نہیں۔ آپ نے سختی کے ساتھ منع فرمایاہے۔ ان لوگوں نے یہ عمل غیر شرعی طریقوں سے حاصل کئے ہوتے ہیں۔ بہت سارے ایسے عامل بھی ہیں کہ جن کے پاس توکچھ نہیں ہوتا لیکن صرف شعبدہ بازی کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دے کر اپنے پیٹ کا دوزخ بھررہے ہیں اور لوگوں سے بھاری نذرانے وصول کرتے ہیں۔

ایک جعلی پرہیزگارعامل کاقصہ:

یہاں میں آپ کو ایک بہت نیک اور پرہیزگار قاری صاحب کاواقعہ سناتاہوں تاکہ اس قسم کے لوگوں سے آپ لٹنے سے بچ جائیں۔ ان کے چنگل سے نکلنے میں آسانی ہو۔ میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ہمارے گھر کسی نے تعویذ دبائے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے ہم بہت سی مشکلوں میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ ان سے نجات حاصل کرنے کے لئے میں نے فلاں قاری صاحب کی خدمات حاصل کی ہیں جو بہت نیک اور پرہیزگار ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ جس دن قاری صاحب نے آنا ہو مجھے ضرور بلانا۔ کیونکہ میں شعبدہ بازی کے تمام طریقوں سے واقف تھا۔ اس لئے میں نے سوچا کہ اگرکوئی نوسرباز ہوگا تو اسے پکڑنے میں آسانی رہے گی اور میرا یہ دوست اس کی بھاری فیس سے بچ جائے گا۔جس دن قاری صاحب تشریف لائے‘ میں بھی موقع پر پہنچ گیا۔ قاری صاحب کیسے پکڑے گئے اور وہ کیاکمال کرتے تھے ‘اس کی تفصیلات آپ کی تفریح طبع اور علم میں اضافے کا باعث بنیں گی۔

یہ بھی پڑھیں:

قسط نمبر24: عملیات سے توبہ کرنے والے کی کہانی

قسط نمبر23: جن نکالنے کے جھانسے میں سینکڑوں خواتین کی عصمتیں پامال

قسط نمبر22: جنات نکالنے والے

قاری صاحب کاطریقہ کاریہ تھاکہ جس گھر سے تعویذ نکالنے ہوتے‘ وہ سب سے پہلے اس گھر میں جاتے ہی وضو کرکے دورکعت نفل ادا کرتے اورجائے نماز پربیٹھ جاتے۔ قاری صاحب کے سرپر ایک بڑی دستار اور کندھوںپر چادرہوتی۔ اس چادر کو وہ اس طرح اوڑھتے کہ ان کی پگڑی اس میں چھپ جاتی۔ اس کے بعد وہ عمل کا آغاز کرتے۔ قرآنی آیات کثرت سے پڑھتے۔ تمام گھروالوں کی دوڑیں لگوادیتے کہ فلاں کمرے کے فلاں کونے میں دیکھو۔ کہیں تعویز تونہیں پڑے۔غرض پورے گھر میں بھونچال آجاتا۔ جب کہیں سے تعویذ برآمدنہ ہوتے توآخر میں گھروالوں سے کہتے کہ ان تعویذوں کو موکلات کے ذریعے حاضر کرنا پڑے گا۔ یہ اس طرح نہیں سمجھیں گے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ دورکعت نماز نفل کے لئے کھڑے ہوتے اور اپنی چادر کو اچھی طرح جھاڑتے کہ گھروالوں کو تسلی ہوجائے کہ اس میں کچھ چھپا ہوا نہیں ہے۔ پہلی رکعت میں وہ اپنے جسم اور چہرے کی حرکات وسکنات سے اس قسم کی اداکاری کرتے کہ دیکھنے والوں کو یقین ہوجاتاکہ جیسے سچ مچ کوئی جن حاضر ہورہاہے۔ دوسری رکعت میں وہ اپنے جسم پر شدید قسم کی کپکپی طاری کرلیتے۔ جب وہ آخری سجدے کے بعد سلام پھیرتے توتعویذ خودبخود ان کے اردگرد ہی کہیں زمین پرحاضرہوجاتے۔ یہ تعویز مٹی میں دبائی ہوئی گڑیا کی شکل کے ہوتے اوران میں لوہے کی سوئیاں پیوست ہوتیں۔قاری صاحب سلام پھیرنے کے بعد گھروالوں سے انجان بن کر پوچھتے کہ دیکھیں کہیں تعویذ تونہیں آکر گرے۔گھروالے فوراً بتاتے کہ قاری صاحب تعویذ وہ سامنے پڑے ہوئے ہیں۔ قاری صاحب ان گڑیا نما تعویذات کو پکڑتے اورگھروالوں سے کہتے کہ میرے موکلات نے بڑی محنت سے انہیں زمین سے نکالاہے۔کسی حاسد نے آپ کو تباہ و برباد کرنے کے لئے چوری چھپے انہیں زمین میں دبادیاتھا۔ آپ جلدی سے کوئی تیزچھری یا بلیڈ لے کرآئیں تاکہ اس کے اندر بھی اگر کچھ رکھاگیاہو تواس کاتوڑ کیاجاسکے۔ جب تیز قسم کے بلیڈ کے ذریعے اس گڑیا نماتعویذ کی چیر پھاڑ کی جاتی تواندر سے قسم ہا قسم کے تعویذ کے تعویذ برآمد ہوتے توقاری صاحب بتاتے کہ یہ تو اب اوورڈیٹ ہو گئے ہیں۔ یعنی ان کی تاریخ ختم ہوگئی ہے۔اگرمیں انہیں بروقت نہ نکالتا توآپ کا بہت نقصان ہوتا۔ اگران کی مدت ختم نہ ہوتی تو ان کا علاج500روپے میں ہوجاناتھا۔مگراب ان کے زہریلے اثرات دور کرنے کے لئے مجھے بہت محنت کرنی پڑے گی۔ اگراپنی سلامتی چاہتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو 2100روپے اداکرنے ہوں گے۔ گھروالے اپنی جان بچانے کے لئے 2100روپے دینے پر آسانی سے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام باتیں اور اس کے علاوہ قاری صاحب کی کرامات کی کافی تفصیل سے مجھے میرے دوست نے آگاہ کیا ہواتھا۔ اس لئے جب قاری صاحب نے میرے دوست کے گھر میں یہی ڈرامہ شروع کیا تو مجھے شک گزرا کہ اصل کمال قاری صاحب کی بلند و بالادستار کرتی ہے جو انہوں نے رعب و دبدبے اور بزرگی کے لئے سرپرباندھی ہوئی ہے۔ ہو نہ ہو وہ گڑیا نماتعویذ اسی میں چھپا کرلاتے ہیں۔ قاری صاحب نے میرے دوست کے گھر میں بھی وہ تعویذنکالنے کے لئے تمام مراحل طے کئے جو اوپربیان ہوئے ہیں۔ جب قاری صاحب اس مقام پر پہنچے کہ تعویذکسی نے زمین میں گہرے دبائے ہوئے ہیں اور انہیں موکلات کے ذریعے حاضر کرنا پڑے گا اورقاری صاحب دورکعت نماز کے لئے کھڑے ہونے لگے تو میں نے آنکھ بچاکر پانی کے نل سے لوہے کا چھوٹا سا زنگ آلود ٹکڑا توڑ کر قاری صاحب کی دستار پر پھینک دیا۔ قاری صاحب چونکے کہ میری دستار پرکیاگراہے۔ میں نے کہا کہ قاری صاحب آپ کی پگڑی پر چھپکلی گری ہے۔ قاری صاحب نے بدحواس ہوکرتیزی سے ادھر ادھر ہاتھ مارا تو ان کی دستارمیں تین گڑیا نما تعویذ جومٹی میں اٹے ہوئے تھے ‘ نیچے گرگئے۔ قاری صاحب نے نہایت چالاکی کے ساتھ ان پر چادر ڈال لی اور قمیض کے نیچے ان کو چھپالیا۔ یہ عمل انہوں نے اتنی تیزی کے ساتھ کیا کہ گھروالوں کو اس کا علم نہ ہوسکا۔ اس کے بعد انہوں نے نفل اداکئے اور ساتھ ساتھ اداکاری کامظاہرہ کیا۔ سلام پھیر نے کے بعد انہوں نے گھروالوں سے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ پرکسی نے کوئی تعویذ نہیں کیا۔ آپ کو وہم ہے اس لئے گھبرانے کی بجائے اللہ کاشکراداکریں۔ میں بڑے صبرکے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے گھروالوں کو کہا کہ قاری صاحب نے تعویذ نکال لئے ہیں لیکن معلوم نہیں کہ آپ کو کیوں نہیں دے رہے۔ اگران کی قمیض کے نیچے سے تین گڑیا نما تعویذ نہ نکلیں تومیں 10ہزار روپے جرمانہ ادا کروں گا۔ گھروالوں کے مجبور کرنے پرقاری صاحب کو اصل حقیقت سے آگاہ کیا توقاری صاحب کہنے لگے کہ گھرآئے ہوئے مہمان کے ساتھ ایساسلوک نہیں کرتے۔ بجائے اس کہ وہ شرمسار ہوتے‘ انہوں نے گلے شکوے شروع کردئیے۔ بہرحال میرا دوست ان کے ہاتھوں لٹنے سے بچ گیا اور قاری صاحب کی بزرگی میں چھپاہوا اصل چہرہ اس کے سامنے آگیا۔ اگرکوئی شخص کسی مسئلہ سے دوچار ہوتو اسے ادھر ادھر بھاگنے کی بجائے خود ہمت سے کام لینا چاہئے اور مددکے لئے صرف اللہ کو پکارے۔اللہ تعالیٰ بہت غفوررحیم ہے۔

Related posts

Leave a ReplyCancel reply