موکل کو قابو کرنے کے لیے چلہ
ہمزاد کا چلہ بڑا سخت ہوتا ہے
موکل بھی دراصل جنات ہوتے ہیں۔ موکل روحانی عمل کے علاوہ کالے جادو اورسفلی عمل سے بھی تابع کیے جاتے ہیں، انہیں قابو کرنے کے لیے ہر قسم کے عمل میں چلہ کاٹنا ضروری ہے، البتہ نوری وظیفے کے دوران پانچوں وقت کی نماز پڑھنا اور پاک و صاف رہنا شرط ہے، اس کے برعکس سفلی عمل میں ناپاک رہنا لازمی ہوتا ہے۔سید اعجاز شاہ جو خود بھی موکل کو تابع کرنے کے لیے روحانی چلہ کاٹ چکے ہیں، ان کا کہنا تھا۔ ”پاک اور صاف رہنے اور پنج وقتہ نماز کے علاوہ نوری چلہ کرنے والے کا دوران عمل کسی نجس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی ممنوع ہوتا ہے،جھوٹ نہ بولے حتیٰ کہ کسی کے ساتھ لڑائی جھگڑے سے بھی گریز کی پابندی بھی کرنا پڑتی ہے جبکہ 41 دن تک وہ کسی دوسرے کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاتا، اپنے لیے خود کھانا پکانا ہوتا ہے۔“ اعجاز شاہ نے مزید بتایا ”اپنے استاد کی جانب سے موکل کو تابع کرنے کی اجازت کے بعد میں 41 دن کے چلے میں روز گیارہ سو مرتبہ قل شریف پڑھتا تھا، چلہ مکمل ہونے پر نیاز کرائی جو بچوں میں تقسیم کرا دی۔“ سفلی عمل کے ذریعے موکل کو قابو کرنے کے لیے بھی عموما 41 دن کا چلہ کاٹنا ضروری ہے،سفلی کیونکہ شیطانی عمل ہے لہٰذا اس کے اکثر عملیات میں ناپاک اور پلید رہنا پڑتا ہے، روز شراب پینا اور زنا لازمی ہوتا ہے، اگر سفلی گر دوران چلہ پاک رہے گا یا شیطانی کام نہیں کرے گا تو بدی کی قوتیں اسے تنگ کرتی ہیں، روحانی یا سفلی دونوں قسم کے عملیات کے لیے عامل اپنے گرد حصار کھینچ کر بیٹھتا ہے تاکہ وہ ماورائی قوتوں سے محفوظ رہے، کالے جادو یا سفلی عمل کے لیے زیادہ تر سیندور سے حصار کھینچ کر شیطانی قوتوں کے لیے سات قسم کی مٹھائیاں، شراب اور دیگر چیزیں توشے کے طور پر رکھی جاتی ہیں، اس قسم کے چلے ہزاروں میں ایک دو کامیاب ہوتے ہیں اکثر ناکامی سے دو چار ہوتے ہیں، بعض کے چلے الٹے بھی ہو جاتے ہیں جس سے عامل پاگل ہو جاتا ہے یا خود کو اور اپنے عزیزوں کو نقصان پہنچتا ہے،جادوگر میں یہ تصور عام ہے کہ یہ کام اس سے ”گندی چیزیں“ کراتی ہیں جو چلہ الٹا ہو جانے کے بعد اس پر حاوی ہو جاتی ہیں۔
ہمزاد کا چلہ بڑا سخت ہوتا ہے
عاملوں اور جادوگروں میں ہمزاد کے بارے میں مختلف آراءپائی جاتی ہے. بعض کا خیال ہے کہ ہمزاد ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے، ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے اور ساتھ ہی مرتا ہے۔ کچھ کے نزدیک یہ شیطان ہے، اکثریت کا کہنا ہے کہ ہمزاد کا جسم لطیف، انسان کا سایہ ہے اس بارے میں مشہور ہے کہ اگر کوئی عامل کسی متقی، پرہیزگار اور پنج وقتہ نمازی کے خلاف ہمزاد کو استعمال کرے تو اسے الٹا نقصان ہوگا اور ہاتھ سے ہمزاد بھی جاتا رہے گا جب متقی شخص کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے گا۔ ہمزاد کی بہت سے قسمیں ہیں مثلا: علوی، عکسی یا غیبی وغیرہ، اس میں ہمزاد علوی قسم بہت قوی تصور کی جاتی ہے، یہ تصور عام ہے کہ ہمزاد کو قابو کرنا سب سے مشکل کام ہے اور اس کا چلہ خواہ نوری ہو یا سفلی بڑا سخت ہوتا ہے۔ اس وقت شہر میں شاید ہی کوئی عامل ہو جس نے ہمزاد کو تابع کر رکھا ہے، اس حوالے سے یہ بھی مشہور ہے کہ کسی دوسرے کے ہمزاد کو قابو کرنے سے اپنا ہمزاد پکڑنا آسان ہوتا ہے۔
45 سالہ طارق نے اپنا لڑکپن اور جوانی حکمت سیکھنے، کیمیا گری کے ذریعے سونا بنانے کی بےسود کوششوں اور موکل و ہمزاد کو قابو کرنے کے مختلف چلے کاٹنے پر گزار دی۔ انہوں نے اب تک کل 12 چلے کاٹے ، 13 واں کر رہے ہیں لیکن کامیابی حاصل نہ ہو سکی. طارق بھائی کبھی میرے روم میٹ ہوتے تھے، میں جب ڈیوٹی سے فارغ ہو کر رات دو تین بجے کے قریب گھر پہنچتا تو اکثر مکان کے دو کمروں میں سے ایک میں جائے نماز بچھائے کسی پڑھائی میں مصروف نظر آتے، ایک بار کہنے لگے کہ میں آج کل جو چلہ کاٹ رہا ہوں، اکتالیس دن مکمل ہونے پر اس رات کوئی ایک ڈیڑھ بجے مجھے کسی تازہ قبر پر جا کر پڑھائی کرنی ہے اور شرط یہ ہے کہ جاتے ہوئے اور واپسی میں گھر پہنچنے تک کسی سے بات نہیں کرنی، تم میرے ساتھ چلو، اگر کوئی راستے میں مل جائے تو اس سے نمٹ سکو یعنی مجھے بات نہ کرنا پڑے، میں کیونکہ ان چیزوں سے دور بھاگتا تھا اور بھاگتا ہوں لہٰذا میں نے ڈیوٹی کا بہانہ کر کے جان چھڑا لی، ان دنوں مجھے ان کے چلوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن جب اس حوالے سے میں نے خصوصی رپورٹ تیار کرنے کا فیصلہ کیا تو طارق بھائی یاد آئے چنانچہ ان کی تلاش شروع کی، معلوم ہوا آج کل صادق آباد میں اپنا مطب چلا رہے ہیں، بڑی تگ و دو کے بعد ان کے ایک عزیز سے موبائل نمبر حاصل کیا، طارق بھائی سے رابطہ کر کے ہم نے انہیں کہا کہ آپ نے جو اتنے چلے کیے ہیں، ان میں سے کوئی کامیاب ہوا؟ پہلے تو وہ حیران ہوئے کہ مجھے ان معاملات سے کیسے دلچسپی پیدا ہو گئی، جب انہیں مقصد بتایا گیا تو ان کا کہا تھا ”اب تک مختلف میعاد کے 12 چلے کاٹ چکا ہوں جو ناکام رہے، لیکن یہ اللہ کا شکر ہے کہ کوئی الٹا نہیں ہوا، نہیں تو اس وقت تم سے بات نہ کر رہا ہوتا، اور یہ آج کل 13 واں چلہ کر رہا ہوں، بڑے کامل استاد نے دیا ہے، اس لیے امید ہے کہ اس بار کامیابی مل جائے گی۔“
یہ بھی پڑھیں: قسط نمبر19: ناجائز عملیات کرنے والے بے اولاد ہوتے ہیں قسط نمبر18: کتابی چلے اور منتر قسط نمبر17: جادوختم کرنے کے ناجائز طریقے
طارق بھائی کے مطابق انہوں نے زیادہ تر چلے موکل کو تابع کرنے کے لیے کیے جبکہ ہمزاد کو قابو کر نے کے لیے صرف ایک بار چلہ کاٹا تھا، تفصیل سے بتاوں تو کئی صفحے بھر جائیں گے، مختصر ان کے الفاظ میں ”اس کے لیے استاد نے 41 دن تک مجھے عشاءکے وقت گلاب کے پھلوں پر آیت الکرسی پڑھنے کو بتائی تھی، میں روز ایک خالی کمرے میں وضو کرنے کے بعد چھری سے کڑا مار کر (حصار) بیٹھ جاتا، پیچھے چراغ جلا کر رکھتا، جس سے میرا سایہ سامنے پڑ رہا ہوتا جس پر نظررکھ کر منتر پڑھتا رات دو بجے کے قریب یہ عمل کر کے گلاب کے پھولوں کو اٹھاتا، ساتھ سرسوں کے تیل سے چراغ جلا کر ایک پیپل کے درخت کے نیچے رکھ آتا تھا لیکن یہ عمل کامیاب نہ ہوسکا۔“ منتر کے بارے میں طارق بھائی کا کہنا تھا کہ ہر عامل عموما اپنی مادری زبان میں منتر بناتا ہے جو سینہ بہ سینہ چلتے ہیں. موکل کو تابع کرنے کے چلے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ”اس کے لیے بھی میں نے 41 دن کا چلہ کاٹا تھا، روزانہ باوضو ہوکر ایک ہزار مرتبہ تنقا فیلہ، رومائیلہ اور تنقائیلہ پڑھتا تھا. اس کے علاوہ سورہ مزمل بھی پڑھنی ہوتی تھی اس چلے کے دوران کسی نادیدہ طاقت نے مجھے غنودگی بہت دی، دماغ اور ذہن ہر وقت بھاری رہتا تھا خیر کسی نہ کسی طریقے سے 41 دن پورے ہوئے تو اس رات قبرستان میں کسی تازہ قبر پر جا کر آدھا گھنٹے پڑھائی کرنا تھا. یہ آخری مرحلہ تھا. جب میں نئی کراچی 6 نمبر کے قبرستان میں ایک تازہ قبر پر بیٹھا پڑھ رہا تھا تو آسمان سے کوئی تیز روشنی سی لپکی، میں کچھ خوفزدہ ہوا، لیکن ہمت کر کے پڑھتا رہا، واپس اپنے ٹھکانے کے نزدیک پہنچا تو ایک سائیکل والے نے پوچھا کہ قبرستان کو کون سا راستہ جاتا ہے؟ میں غیر ارادی طور پراسے پتہ سمجھانے لگا، پھر خیال آیا کہ استاد نے کہا تھا کہ ٹھکانے سے پہلے کسی سے بات نہیں کرنا لیکن میں یہ غلطی کر بیٹھا، آج بھی سوچتا ہوں کہ شاید اسی وجہ سے میرا وہ چلہ نا کام ہوا. ایک خیال بھی ستاتا ہے کہ اتنی رات ویرانے میں سائیکل والا کہاں سے آ گیا تھا؟“(روزنامہ امت کی رپورٹ یہاں مکمل ہوئی.)
جادو کا ذکر قرآن پاک میں بھی مختلف جگہوں پر آیا ہے، ہاروت ماروت کے قصہ میں اور اس کے علاوہ حضرت موسی علیہ. السلام اور فرعون کے جادوگروں کا واقعہ تو سبھی جانتے ہون گے، لیکن ہر دور اور ہر معاشرے میں جادو کے طریقے اور رسوم و رواج مختلف رہے ہیں. آج بھی عرب دنیا میں جہاں آپ سمجھتے ہون گے کہ یہ قبیح حرکات ناپید ہوں گی، وہاں بھی جادو ٹونے رائج اور عام ہیں، رسومات میں فرق ہے، یہی فرق پھر مختلف طریقوں میں واضح ہو جاتا ہے. عیسائیت اور مغربی دنیا میں اس وقت فری میسن اور اس جیسی تنظیموں کا چرچا زبان زد عام ہے، وہ فری میسن اور دوسری تنظیمیں جن کا نام لیا جاتا ہے، شیطان کے پیروکار کہلاتے ہیں اور اسی جادوئی دنیا کے پجاری ہیں، وہاں یہ الگ طریقوں سے رائج ہے، بد روحوں سے شگون وہاں بھی لیے جاتے ہیں. ہمارے ہاں جو زیادہ پڑھ لکھ جاتا ہے، وہ یہی سمجھتا ہے کہ جادو ٹونا جہالت کی باتیں ہیں جو خوامخواہ دہرائی جا رہی ہیں، جبکہ اس شے نے معاشروں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے، گھروں کے گھر تباہ کر دیے ہیں، اب ہم اس تذکرے کو یہیں روک کر ایک نظر ان وجوہات پر ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے یہ برائی عام ہوئی ہے.