روزنامہ امت کی ایک حیرت انگیز رپورٹ
جادونگری کی اس پراسرار دنیا کے بارے روزنامہ امت میں شائع ہونے والی ندیم محمود کی تفصیلی رپورٹ کے چند پیرا گراف آپ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں:
”کوئی دس برس پرانا واقعہ ہے. خانیوال کی کھوکھراپار کالونی نمبر 3 میں مولوی خلیل نامی ایک عامل نے اپنے زیرعلاج ایک شخص سے یہ کہہ کر آٹھ نو ماہ کا بچہ ذبح کرا دیا تھا کہ تم پر کالی مائی کا جادو کرایا گیا ہے، لہٰذا اس کے توڑ کے لیے انسانی بھینٹ ضروری ہے. بعد میں عامل اپنے مریض سمیت گرفتار ہوگیا تھا. یہ واقعہ اس وقت اخبار کی شہ سرخی بنا تھا۔
جادو ٹونہ اور تعویذ گنڈے ہمارے معاشرے میں کوئی نئی چیز نہیں، لیکن آج کل یہ معاملہ کچھ زیادہ ہی زوروں پر ہے. جادو کا ذکر قرآن پاک میں بھی ملتا ہے اور احادیث سے بھی ثابت ہے. اصل سوال یہ ہے کہ کیا واقعی شہر میں اس پائے کے جادوگر، عامل یا سفلی گر موجود ہیں جو اپنے عملیات اور تنتر منتر کے زور پر نفرت کو محبت اور محبت کو نفرت میں بدل دیتے ہیں؟ کاروبار کو باندھ کر انسان کو کوڑی کوڑی کا محتاج بنا دیتے ہیں؟ طلاقیں دلوا کر ہنستے بستے گھر کو اجاڑ دیتے ہیں؟ تالوں پر منتر پڑھ کر دماغ مقفل کر دیتے ہیں؟ خواتین کو شیطانی عمل کے ذریعے ہر جائز اور ناجائز کام پر راضی کر لیتے ہیں؟ اور یہ کہ سفلی عمل کے بعض عملیات میں واقعی انسانی بھینٹ دینا ضروری ہوتی ہے؟ جس کے نام پر المناک واقعات ہوتے ہیں. ذہن میں پیدا ہونے والے یہی سوالات ہمیں جادو ٹونے اور عاملوں کی پراسرار اور حیرت انگیز دنیا میں لے گئے. البتہ رپورٹ کی تیاری کے دوران ادراک ہوا کہ اس گورکھ دھندے کو سمجھنے کے لیے برسوں کا عرصہ چاہیے. سب سے بڑا مسئلہ سفلی اور کالے جادو کے حقیقی عاملوں سے رابطے کا رہا کیونکہ کالے جادو کا کوئی بھی ماہر یا سفلی گر خود کو ظاہر نہیں کرتا البتہ شعبدے بازوں سے سارا شہر بھرا پڑا ہے. ہم اپنے دوستوں کے توسط سے کالا اور سفید علم کرنے، سیکھنے اور اس کی کاٹ کے ماہروں کے علاوہ چند ایسے افراد سے بھی ملے جو کسی نہ کسی طور پر جادو ٹونے سے وابستہ رہے، لہٰذا پہلے ان بنیادی معلومات کا ذکر کرتے چلیں، جو ان افراد سے حاصل ہوئی۔
کتابی چلے اور منتر جنتر
کالے جادو، سفلی عمل یا روحانی چلوں کے حوالے سے مارکیٹ میں سینکڑوں کتابیں دستیاب ہے. ان میں سے کئی کتابیں سو، ڈیڑھ سو سالہ قدیم بھی ہیں جنھیں ری پرنٹنگ کر کے مارکیٹ میں لایا گیا. جادو ٹونے کے عملیات کے مطابق ان کتابوں کی کم سے کم قیمت 25 روپے اور زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سے دو سو روپے تک ہے، تاہم عاملوں اور سفلی گروں کے مطابق کتابوں میں جو چلے اور عمل بیان کیے جاتے ہیں، ان میں کوئی ایک آدھ نقطہ چھوڑ دیا جاتا ہے، اس لیے یہ بیکار ثابت ہوتے ہیں۔ بعض لوگ کتابوں میں پڑھ کر چلہ یا عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس طرح نہ صرف یہ اپنا قیمتی وقت برباد کرتے ہیں بلکہ ان کو نقصان پہنچنے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔
ہر کالا علم، سفلی نہیں
ہر کالا علم ضروری نہیں کہ سفلی ہو، سفلی عمل کا مقصد انسانیت کو سوائے نقصان پہنچانے کے اور کچھ نہیں ہوتا۔کالے علم کے بعض عمل ایسے بھی ہیں جس میں عامل کو پاک صاف رہنا ضروری ہوتا ہے۔ اور دوران عمل جھوٹ بولنے سے لے کر زنا تک ہر برے فعل سے اجتناب برتنا لازم ہوتا ہے۔(قارئین! اس سے معلوم ہوا بعض جادو ایسے بھی ہیں جن کے چلے کے لوازمات میں یہ بات شامل ہے کہ پاک صاف رہیں اور غلط کام نہ کریں، لہذا بعض عاملین جو کہتے ہیں ہم جو عملیات کرتے ہیں اس میں کوئی غلط کام یا چلہ نہیں ان کی بات غلط ثابت ہوتی ہے۔)
دوسری جانب سفلی سراسر شیطانی عمل ہے اور اس عمل کے لیے غلیظ اور ناپاک رہنا اولین ہے. کالا علم سکھانے والے ایک شخص استاد فیضو کا کہنا تھا کہ ”سفلی کے بعض عملیات ایسے بھی ہیں جس میں عامل کو 41 دن کے چلے میں روز شراب پینا اور زنا کرنا لازمی ہوتا ہے، ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ اسے اپنا فضلہ کھانا اور پیشاب پینا پڑتا ہے۔ نئی کراچی کا ایک سفلی گر وحید بھی ایسی ہی پستی میں گر چکا ہے، سفلی کے بعض 21 روزہ عمل بیت الخلا میں کرنے پڑتے ہیں.“ علاوہ ازیں سفلی عملیات میں عموما قرآن پاک کی آیات کو الٹا پڑھنا ہوتا ہے (نعوذباللہ) جس سے ان کا مفہوم بھی بالکل الٹ ہو جاتا ہے۔
لیاقت آباد کے رہائشی پرویز جو اپنے کپڑے کی دکان کی ’بندش‘ کھلوانے اور گھروالوں پر سفلی عمل کے وار کے توڑ کے لیے عاملوں کے پاس جاتا رہتا ہے اور اسی مقصد کے لیے کبھی کراچی میں اپنے وقت کے صف اول کے سفلی گر رتن سائیں کے پاس بھی گیا تھا. ”رتن سائیں مختلف لوگوں کو حیض کے خون سے تعویذ لکھ کر دیتا تھا، یہ منظر کئی بار خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، اس کے علاوہ اس کے پاس ایسی عورتوں کا بھی تانتا بندھا رہتا تھا جو شوہر کو تابع کرنے کی خواہش مند تھیں، ایسی خواتین سے وہ حیض کا کپڑا منگواتا پھر اس پر چند منتر پڑھ کر ہدایت کرتا تھا کہ کسی وقت موقع دیکھ کر اس کپڑے کو پانی میں گھول کر شوہر کو پلا دینا، وہ کتے سے زیادہ تمھارا وفادار ہو جائے گا، جو کرتی پھرو ، کوئی روک ٹوک نہیں کرے گا.“ ماضی کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے پرویز کا کہنا تھا، ”یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کافی پریشان رہتا تھا کیونکہ مخالفین نے کالے جادو کے ذریعے نئی کراچی میں واقع میری کپڑے کی دکان ’باندھ‘ رکھی تھی، کاروبار ٹھپ ہونے کی وجہ سے جہاں معاشی تنگی تھی وہیں گھر کے بعض افراد بھی جادو کے زیر اثر بیمار رہتے تھے. میں نے کئی بار اپنی دکان اور گھر کے نزدیک دبائے پتلے اور تعویذ برآمد کیے تھے، اس کا ذکر میں نے اپنے قریبی عزیز سے کیا تو وہ مجھے رنچھوڑ نارائن پورہ میں رہائش پذیر رتن سائیں کے پاس لے گیا، جو اس وقت کالے جادو کا سفلی کا ’ٹاپ‘ کا عامل تھا اور مشہور تھا کہ اس نے کالی دیوی اور ہنومان کو تابع کر رکھا ہے. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رتن سائیں نے کچھ پڑھ کر چند لونگیں، سوئیاں اور سیندور میرے حوالے کیا اور کہا کہ گائے کا دل درمیان سے چیر کر اس میں یہ تمام اشیاءرکھنے کے بعد اسے سوئی دھاگے سے دوبارہ سی کر دوپہر بارہ بجے کے قریب کسی ویرانے میں پھینک آنا. اس سے ایسی کاٹ ہوگی کہ تم پر جادو کرانے والے خود شکار ہو جائیں گے۔ دوسرے دن میں نے رتن سائیں کی ہدایت کے مطابق دل خریدا اور اس میں مذکورہ اشیاءرکھ کر نئی کراچی 6 نمبر پر صبا سنیما کے نزدیک ندی کے کنارے اس دل کو پھینک دیا. اچانک تین چار خوفناک کتوں نے مجھے گھیر لیا، میں نے اپنی زندگی میں اس قدر ڈراونی شکل والے کتے نہیں دیکھے تھے، وہ دل پر لپکنے کے بجائے مجھے گھور رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ بھونکتے بھی جا رہے تھے. میں بڑی مشکل سے جان بچاکر گھر پہنچا۔ اگلے دن رتن کو جاکر سارا ماجرا سنایا تو کہنے لگا، بیوقوف میں نے بکری کا دل کہا تھا تم گائے کا لے آئے، شکر کرو کہ زندہ بچ کر آگئے۔ خیر تمھیں سیندور اور لونگیں دوبارہ پڑھ کر دیتا ہوں، انھیں بکری کے دل میں چھپا کر پھینک آنا، تاہم میں اس قدر خوفزدہ ہو چکا تھا کہ میں نے ہامی تو بھر لی لیکن رتن کی ہدایت پر عمل نہیں کیا۔“
رنچھوڑ لین کے رہائشی سفلی گر رتن سائیں کو کئی برس پہلے ایک بلوچ نے قتل کر دیا تھا۔ اس بلوچ کی فیملی کے تقریبا تمام افراد کسی نامعلوم بیماری کا شکار ہو کر مرے تھے، اسے شک تھا کہ رتن سائیں نے اس کے مخالفین سے بھاری رقم لے کر اس کے اہل خانہ پر کالا جادو اور سفلی کرایا تھا لہٰذا ایک روز وہ بہانے سے رتن کو میوہ شاہ قبرستان لے گیا اور گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ اس طرح اپنے زمانے کا بدنام ترین سفلی گر اپنے انجام تک پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ رتن کے نام کے بغیر کراچی میں کالے جادو اور سفلی عمل کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی اور جادو ٹونے سے وابستہ شاید ہی ایسا کوئی فرد ہو جو اس کے نام سے واقف نہ ہو۔ اس کے ایک شاگرد گوگا کے دعوے کے مطابق جو آج کل سید اعجاز حسین کے پاس روحانی علم بھی سیکھنے آ رہا ہے۔ ”رتن کے پاس ایک ایسا بھی عمل بھی تھا جسے پڑھ کر وہ کافی فاصلے تک اڑ بھی لیتا تھا.“ واللہ عالم بالصواب
یہ بھی پڑھیں: قسط نمبر17: جادوختم کرنے کے ناجائز طریقے قسط نمبر16 جادو کا توڑ کیسے؟ قسط نمبر15 کیا جادو واقعی اثر رکھتا ہے
شعبدے بازوں اور جادوگروں میں فرق
سفلی اور کالے جادو کے حقیقی عاملوں اور شعبدے بازوں میں واضح فرق ہے. شہر بھر میں اپنی دکانیں سجا کر بیٹھے عاملوں کی 99 فیصد تعداد جعلی ہے، جو مختلف شعبدے دکھا کر سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں، مثلاً کیمیکل کے ذریعے بغیر تیلی کے آگ لگا دینا، سرنج کے ذریعے لیموں کا رس نکل کر پھر سرنج کی مدد سے ہی اس میں سرخ رنگ بھر کر لیموں میں خون ٹپکتا دکھانا وغیرہ۔ اس کے برعکس اصل عامل اور حقیقی سفلی گر اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتے۔ اس معاملے میں وہ سخت رازداری برتتے ہیں، اور ہمیشہ اپنے قابل اعتماد کارندوں کے ذریعے ہی بھروسے کی پارٹیوں سے سودا کرتے ہیں، وہ کبھی کسی اجنبی کے سامنے اعتراف نہیں کرتے کہ وہ سفلی گر ہیں یا کالے علوم کے ماہر ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت ایسے سفلی گروں کی بھی ہے جو خود کو بظاہر روحانی عامل ظاہر کرتے ہیں لیکن اصل میں وہ کالے جادو اور سفلی کا کام کر رہے ہیں، اس وقت لسبیلہ کا ، کاکا، اورنگی ٹاون معمار شاہ، کورنگی سوکوارٹر کے بنگالی پاڑے کا انور، نیو کراچی کا سعید اور میرپور خاص کا بھگت، سفلی اور کالے جادو کے ماہر کے تصور کیے جاتے ہیں.یہ بات طے شدہ ہے کہ سفلی گر یا عامل کتنا ہی نامور ہو، اپنے ساز و سامان اور حصار کے بغیر بےدست وپا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ رتن جیسا نامی گرامی سفلی گر بھی ایک عام شخص کی گولیوں کا نشانہ بن گیا تھا۔
کالی اور ہنومان کا جان لیوا عمل
کالے جادو اور سفلی عاملوں میں کالی مائی، کالی دیوی یا کالکا دیوی اور ہنومان سخت ترین تصور کیا جاتا ہے، اور جس کے قبضے میں ان میں سے ایک چیز بھی ہو، وہ انتہائی طاقتور عامل یا سفلی گر سمجھا جاتا ہے۔ استاد فیضو اس بارے میں کہتے ہیں: ”کالی دیوی یا ہنومان کراچی میں دو چار لوگوں کے پاس ہی ہے. کالی دیوی کو تابع کرنے کے لیے 41،41 دن کے تین چلے کیے جاتے ہیں، وہ بھی اگر کوئی زندہ بچ جائے۔ کالے جادو میں یہ سب سے سخت عمل کہلاتا ہے کیونکہ کالی مائی کو بار بار جانوروں کی بھینٹ دینا پڑتی ہے، تاکہ عامل یا اس کی اولاد پر سختی نہ آئے۔ بعض شیطانی عملیات کے ذریعے کالی تک پہنچنے کے لیے انسانی جان کی بھینٹ بھی دینی پڑتی ہے۔ جادو ٹونے کی دنیا میں یہ روایت مشہور ہے کہ کالی مائی تک پہنچنے کے لیے عامل کو سات ہزار میروں (پہریداروں) کو کراس کرنا پڑتا ہے، لیکن پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا عامل ہو جس نے یہ تمام میر عبور کر رکھے ہوں، یعنی کالی دیوی اس کے مکمل قبضے میں ہو، البتہ شہر میں ایسے متعدد عامل ہیں جن میں سے کسی نے8، کسی نے 20 اور بعض نے سو ڈیڑھ سو میر کراس کر رکھے ہیں، اس طرح وہ چھوٹا موٹا عمل کر لیتے ہیں، یعنی ان کی طاقت صرف اتنی ہوتی ہے کہ وہ شیطانی عمل کے ذریعے دو دوستوں میں عداوت پیدا کر دیں یا کسی ہنستے بستے گھر میں فساد ڈلوا دیں، کسی غیر محرم عورت کو اپنے تابع کر لیں، کسی کا کاروبار متاثر کر دیں وغیرہ وغیرہ. ایسے عاملوں نے بھی اپنی دکان خوب چمکا رکھی ہے کیونکہ آج کل زیادہ تر کیس یہی آ رہے ہیں، دراصل ہندووں میں کالے جادو کرنے والے عاملوں کے دو فرقے ہیں، ایک رام کے ماننے والے اور دوسرے راون کے، رام کے ذریعے عمل کرنے والے عموما انسانیت کو نقصان پہنچانے کے کام نہیں کرتے جبکہ راون والے سر تا پا شیطان ہوتے ہیں.“ کالی دیوی کو قابو کرنے کے لیے عمل کرنے والے ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے استاد فیضو نے بتایا ”نئی کراچی، نئی آبادی میں ایک لڈن نامی شخص تھا اس نے بھی 41 دن کا صرف ایک عمل ہی پورا کیا تھا کہ برباد ہوگیا. مسلمان ہونے کے باوجود اس گھر کے ایک کمرے کو مندر کا روپ دے رکھا تھا اور وہاں باقاعدہ مورتیاں سجا رکھی تھی. دوسری جانب اس کی اہلیہ نہایت نیک اور پنج وقتہ نمازی تھی لہٰذا شوہر کی یہ حالت دیکھ کر اس نے لڈن میاں کا کھانا پینا، برتن اور کپڑے سب الگ کر دیے تھے. لڈن نے جب 41 دن کا پہلا عمل مکمل کیا تو پتہ نہیں اس سے کیا غلطی ہوئی کہ سارے جسم پر موٹے موٹے پھوڑے ہوگئے، جبکہ نحوست اس قدر ہوگئی کہ اس نے پالتو بکری کے بچے پر ایک دن ہاتھ رکھا تو وہیں مر گیا، حتیٰ کہ اپنے چھوٹے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ بھی ہلاک ہو گیا. ان واقعات سے وحشت زدہ ہو کر اس کی پنج وقتہ نمازی بیوی نے ایک دن مندر نما کمرے کا سارا سامان اٹھا کر پھینک دیا لیکن لڈن میاں کی طبعیت نہ سنبھل سکی اور کچھ عرصے میں وہ لقمہ اجل بن گیا۔“
کالی دیوی اور ہنومان کے سخت عمل کے بارے میں روحانی علاج کرنے والے سید اعجاز حسین شاہ کا کہنا تھا کہ ”ان دونوں عمل سے پہلے اور بعد میں کسی جانور کی بھینٹ لازمی پڑتی ہے، اور جب کالی دیوی قابو میں آ جاتی ہے تو بعض اوقات وہ انسانی بھینٹ بھی طلب کر لیتی ہے.“
(قارئین یہ وہی بات ہے جو میں بھی پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ہمارے ملک میں چھوٹے بچوں کا اغواءاور پھر جنسی زیادتی کے بعد قتل کردینے کے واقعات جادو سیکھنے والے کرتے ہیں۔عبدالوہاب شیرازی)
کالے جادو کے عامل کالی دیوی اور ہنومان کے علاوہ شمشانک دیوی، کملا دیوی، پدمنی دیوی، لکشمی دیوی، موہنی دیوی، کالا کلوا، گنیش جی، دیوتا سروپ، ہمادیو وغیرہ کو تابع کرنے کے لیے عمل کرتے ہیں جس کے لیے عمل کیا جا رہا ہو، عموما اس کی مورتی سامنے رکھنی پڑتی ہے. اس لیے اس وقت کراچی میں متعدد مسلمان عامل ایسے ہیں جن کے گھروں میں ہر قسم کی مورتیاں سجی ملیں گی۔ یہ عمل کسی دریا کے کنارے، قبرستان، کسی ویران مکان یا پیپل کے درخت کے نیچے کیے جاتے ہیں عمل یا چلہ عموما 7،11،21 اور زیادہ سے زیادہ 41 روز کا ہوتا ہے.
دست کی ہڈی اور کور برتن
گائے، بھینس، بکرے یا بکری کے دست یعنی شانے کی ثابت ہڈی کالے جادو اور سفلی عمل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قصاب ہمیشہ اس پتلی اور چپٹی ہڈی کو گوشت الگ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں. اس حوالے سے ہم نے متعدد قصابوں سے بھی بات چیت کی، انہوں نے اس بات کی تصدیق کی۔ اس کے علاوہ عموما بکری کے دل پر بھی کٹ لگا دیتے ہیں، کیونکہ ثابت دل پر عمل چلتا ہے، اسی طرح کمہار کبھی کورا یا کچا برتن فروخت نہیں کرتا. عامل چاچا رشید کے بقول کمہار، بھٹی سے اتارا گیا تازہ برتن کبھی حوالے نہیں کرے گا اور اسے پکا کر ہی فروخت کرے گا. سفلی اور کالا عمل کرنے والے لوگ جان پہچان کے کمہاروں سے کور ا برتن لے جاتے ہیں، جبکہ کمہار کے کام میں استعمال ہونے والا دھاگا بھی کالے علم میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے. دست کی ہڈی عموما محبوب کو تابع کرنے یا مخالف کو برباد کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے. بعض اسے عورت کی کوکھ باندھنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں. چند عملیات میں عورت کو کوکھ باندھنے کے لیے تلے پر عمل کر کے اسے کنویں، دریا یا سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے. اس کے علاوہ کالے جادو اور سفلی عمل میں کثرت سے استعمال ہونے والی اشیاءدرج ذیل ہیں. گوگل، ماش کی ڈال، انڈے، سپاری، ناریل، زعفران، دھتورا، مور کے پر، کیز کے پھول، شہد، آک کا پودہ، کوے کے سیدھے بازو کا پر، گیدڑ کی آنکھ اور دم، الو کی بیٹ، انسانی ناخن، جانوروں اور انسانوں کے جسم کی مختلف ہڈیاں، سیندور، لونگ، سوئیاں، ہینگ، کسی خوبصورت عورت کے بال جو تازہ تازہ مری ہو اور انسانی کھوپڑی وغیرہ.
بنگال کا خطرناک جادو ”ڈھائیا“
بنگال کا ایک جادو ”ڈھائیا“ انتہائی سریع الاثر اور خطرناک تصور کیا جاتا ہے. اسے ڈھائیا اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ڈھائی پل یا سیکنڈ، ڈھائی منٹ، ڈھائی گھنٹے اور زیادہ سے زیادہ ڈھائی دن میں اپنا اثر دکھاتا ہے، اس سے زیادہ وقت نہیں لیتا۔ اس عمل کا سب سے کارآمد ہتھیار ”ہانڈی“ ہے جو کسی کی جان لینے کے لیے چڑھائی جاتی ہے. ہانڈی کے اندر عموما چاقو، چھری، قینچی، استرا، سوئیاں اور ایک دیا رکھا جاتا ہے۔ اس بارے میں مشہور ہے کہ کالے علم کے زور پر جلایا گیا یہ دیا اس قدر طاقتور ہوتا ہے کہ اگر کوئی طوفان بھی ہو تو یہ جلتا رہےگا اور منزل مقصود پر پہنچے گا۔ اسی طرح بھان متی کا جادو بھی انتہائی جان لیوا ہے اور اس کا توڑ بہت مشکل سے کیا جاتا ہے. یہ بھی سفلی عمل کی ایک قسم ہے۔
کالے جادو کے زور پر شادی کر لی
ہم نے ایک ایسے شخص سے بھی ملاقات کی جس نے کالے جادو کے ذریعے ایک ایسی لڑکی سے شادی کر لی جو اس سے بدترین نفرت کرتی تھی۔آج وہ دو بچوں کا باپ ہے. نارتھ ناظم آباد کے رہائشی 30، 32 سالہ امجد (مذکورہ شخص کی درخواست پر نام تبدیل کر دیا گیا ہے) سے ہماری ملاقات ایک قریبی دوست نے کرائی۔ پشاور کی زریں جو اپنے گھر سے بھاگ کر کراچی آئی تھی، یہاں اس کی ملاقات تندور پر روٹیاں لگانے والے ایک شخص امین سے ہوئی جس سے اس نے شادی کر لی، لیکن کچھ عرصے بعد امین نے طلاق دے دی۔ اس سے آگے کی داستان امجد کی زبانی سنیے:
”میری دکان امین کے گھر کے سامنے تھی، میں اکثر اس کی خوبصورت بیوی کو حسرت سے دیکھتا تھا۔کئی بار اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے مجھے دھتکار دیا۔ اسے طلاق ہو گئی اور وہ بے یارومددگار ہوگئی تو میں نے اس سے راہ و رسم پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن بات نہ بن سکی، ایک روز وہ اپنے کرائے کے مکان میں پریشان بیٹھی تھی، مالک مکان اس سے کرائے کا تقاضا کر رہا تھا لیکن طلاق کے بعد کوڑی کوڑی کی محتاج تھی، لہٰذا مکان خالی کرنے کا حکم سن کر اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ رہے تھے، میں نے اس کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے یہ موقع غنیمت جانا اور مالک مکان کو کرایہ ادا کرنے کے کے علاوہ اسے پناہ دینے کی پیشکش کی لیکن وہ نہ مانی، اس دوران علاقے کی ہی ایک پٹھان فیملی نے اسے اپنے گھر رکھ لیا، مجھے سن گن ملی کہ اس فیملی کے دو بھائیوں میں سے ایک اس کے ساتھ شادی کی تیاری کر رہا ہے، اور لڑکی بھی رضامند ہے. میں نے اپنا اثر و سوخ استعمال کرتے ہوئے دونوں بھائیوں کو تھانے میں بند کروا دیا، اس واقعہ کے بعد لڑکی کے دل میں میرے لیے نفرت مزید بڑھ گئی. قصہ مختصر پولیس نے لڑکی کو عائشہ منزل پر واقع دارالامان میں پہنچا دیا، میں اس کی ملاقات کا خواہش مند تھا، دارالامان پہنچا تو معلوم ہوا کہ ملاقات کے لیے اول ایس ڈی ایم کا اجازت نامہ اور دوم لڑکی کی رضامندی ضروری ہے،ایس ڈی ایم کا اجازت نامہ تو حاصل کر لیا لیکن لڑکی مجھ سے ملاقات پر تیار نہ ہوئی، میرے دور کا ایک عزیز اکمل کالا جادو سفلی عمل وغیرہ کرتا تھا، تھک ہار کر میں اس کے پاس پہنچ گیا، اس نے کہا کہ اگرچہ میری فیس بہت زیادہ ہے لیکن رشتہ دار اور دوست ہونے کے خاطر میں تم سے صرف پانچ سو روپے لوں گا، وہ بھی عمل کے لیے کچھ سامان وغیرہ لانا ہے، اس لیے بس تم مجھے لڑکی اور اس کی ماں کا نام لاکر دے دو، اس کے بعد لڑکی کی شادی تمھارے علاوہ اور کسی کے ساتھ نہیں ہو پائے گی اور یہ کہ عمل کے ذریعے ایسا حصار قائم کر دوں گا کہ شہر سے باہر نہ جا سکے گی، میں نے دوسرے روز اکمل کو پانچ سو روپے لاکر دے دیے. ایک ہفتے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ جاو لڑکی سے ملاقات کا انتظام کرو، میں نے ایک بار پھر کوشش کر کے ایس ڈی ایم کا اجازت نامہ حاصل کیا اور ملاقات کے لیے دارالامان پہنچ گیا لیکن لڑکی نے ملنے سے پھر انکار کر دیا، اکمل نے مجھے کہا کہ جاو اب تمھارا کام ہو جائےگا، میں نے پھر ایس ڈی ایم سے اجازت نامہ حاصل کیا اور دار الامان پہنچ گیا، اس بار خلاف توقع لڑکی نے ملاقات پر رضامندی ظاہر کر دی، اس کے بعد ہماری دو تین ملاقاتیں اور ہوئیں، اور پھر ہم دونوں نے شادی کے بندھن میں بندھ گئے، آج ہمارے دو بچے ہیں اور ہم خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کر رہے ہیں، البتہ آج بھی یہی سوچتا ہوں کہ شادی سے پہلے اہلیہ کے دل میں میرے لیے نرم گوشہ دارالامان کی سختیوں کے سبب پیدا ہوا تھا یا واقعی کالے جادو نے اپنا اثر دکھایا۔ اہلیہ سے آج جب ماضی کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو اس کا کہنا ہوتا ہے کہ بس اچانک میرے دل میں تمہاری ہمدردی اور محبت کا جذبہ موجزن ہو گیا تھا۔“ امجد نے اپنی بات مکمل کرنے کے بعد گود میں بیٹھے تین چار سالہ گول مٹول اور خوبصورت بیٹے کو جیب سے پانچ روپے نکال کر دیتے ہوئے کہا کہ جاو چیز لے کر آجاو، لیکن وہ گھر جانے کی ضد کرتا رہا اور جب اس نے رونا شروع کردیا تو امجد نے ہم سے رخصت چاہی۔