جب کوئی شخص کسی جادوگرعامل کے پاس جاتا ہے اور اپنا علاج کرواتا ہے تو وہ جادوگر جادو کو ختم کرنے کے لیے خود بھی شرکیہ اور حرام کام و عملیات کرتا ہے اور مریض سے بھی جانے انجانے میں ناجائز کام کرواتا ہے۔ چنانچہ خود تو ایسے افعال سرانجام دیتا ہے جو اس نے مختلف چلوں میں سیکھے ہوتے ہیں کہ ایسا ایسا کرنے سے شیطان جنات خوش ہوں گے اور تم جو کہو گے وہ پورا کریں گے۔ چنانچہ وہ موم بتیاں جلاتا ہے، کچھ پڑتا ہے اور پھر حکم دیتا ہے، اسی طرح مریض سے جانور طلب کرتا ہے اور جنات کے نام پر قربان کرتا ہے، اس طرح ان سے کام لے کر مریض کا کچھ نہ کچھ ٹوٹا پھوٹا کام کردیتا ہے۔ اسی طرح عملیات کے نام پر دوران عمل خود بھی ناپاک رہتا ہے اور مریض کو بھی کئی کئی دنوں تک غسل نہ کرنے، فوتگی والے گھر نہ جانے ، پرہیز جلالی اور پرہیز جمالی کے نام پر کئی چیزوں کی پابندی لگا دیتا ہے ۔ گوشت سمیت ہر اس چیز کو کھانے سے روک دیتا ہے جو کسی جاندار سے حاصل ہوتی ہے۔
بعض لوگ ایسے کاموں کو بہت معمولی سمجھتے ہیں اور ان کے ارتکاب میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کرتے، حالانکہ یہ عقیدے سے تعلق رکھتا ہے اور ایمان کی بربادی کا باعث بن جاتا ہے۔ اس پر نبی مکرمﷺ کا یہ فرمان صادق آتا ہے کہ ایک آدمی مکھی کی وجہ سے جنت میں چلا گیا اور ایک آدمی مکھی کے سبب ہی جہنم میں چلا گیا۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ایسا کیونکر ہوا…؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: دو آدمی ایک ایسی بستی کے پاس سے گزرے کہ جہاں کے باسیوں کا ایک بُت تھا اور ان کا قانون تھا کہ کوئی بھی شخص وہاں سے تب تک گزر نہیں سکتا تھا جب تک کہ اس پر کوئی چیز قربان نہ کرے۔ لہٰذا اُنہوں نے اُن دونوں میں سے ایک سے کہا: اس پر کوئی چیز قربان کر کے چڑھاوا چڑھاو۔ اس نے کہا: میرے پاس تو کوئی چیز بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: کوئی بھی چیز چڑھا دو، خواہ ایک مکھی ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے مکھی پکڑی اور اس بُت پرقربان کر دی۔ پھر انہوں نے دوسرے سے کہا کہ تم بھی اس پر کوئی قربانی چڑھاو۔ اس نے جواب دیا:
ما کنتُ لاقرب لاحد شیئًا دون اللہ عز وجل فضربوا عنقہ، فدخل الجنة.
میں اللہ کے سوا کسی کے لیے کوئی قربانی نہیں دوں گا اور نہ ہی کسی غیراللہ پر کوئی چڑھاوا چڑھاوں گا۔ اس بُت کے پجاریوں نے اس کی گردن اُڑا دی۔ یوں یہ شخص جنت میں چلا گیا اور پہلا شخص جہنم میں چلا گیا۔
ایک اور طریقہ جو غیر مسلموں یعنی ہندووں، عیسائی وغیرہ میں مشہور ہے وہ رقص و سرود کے ذریعے جن نکالنے کا طریقہ ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس میں شرکیہ اور غیرشرعی افعال کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ رقص وسرود کی اجتماعی محافل،دورانِ رقص بے حیائی کا ارتکاب،مدہوش کن خوشبو اور شمع جلانا اسی طریقہ میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ ایک رسم سی ہے، اس میں شیاطین کی پرستش کی جاتی ہے اور آخر میں حاضرین محفل میں سے ایک شخص غیراللہ کے نام پر کیا گیا ذبیحہ مریض کے سر پر لے کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کا خون آسیب زدہ شخص کے جسم پر ملا جاتا ہے۔ اور آخرمیں ایک عورت تمام مردوں کے سامنے برہنہ ہوتی ہے۔ مختصر بات یہ ہے کہ اختلاط، رقص و سرود، غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا اور شیطان کی پرستش کی وجہ سے یہ حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے!!
جادو کو ختم کرنے کا ایک غلط طریقہ یہ بھی ہے کہ جادوگر مریض کے اندر سے جنوں کو بھگانے کے لیے اس مریض پر اس کے جنوں سے بڑے طاقتور جن مسلط کردیتا ہے، چنانچہ کبھی تو وہ جن واقعة اس کے جنوں کو بھگا دیتے ہیں اور کبھی اس مریض کی زندگی کو عذاب بنا دیتے ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ ان طریقوں سے پہلے حساب کتاب نام پر جو بے بنیاد،غیر شرعی اور ناجائز کام کرنے پڑتے ہیںان کی لسٹ الگ ہے۔
مذکورہ تمام طریقے ایسے ہیں کہ جن کے ذریعے جادوزدہ مریض کا علاج کیا جائے تو زیادہ امکان یہی ہوتا ہے کہ اس سے جن نکلنے کی بجائے اور بھی پختہ ہو جاتا ہے، کیونکہ اسے اپنے جیسا ایک ناپاک جسم مل جاتا ہے جو کسی بھی طرح کے حرام کام کے ارتکاب میں ہچکچاہٹ نہیں دِکھاتا۔
یہ بھی پڑھیں: قسط نمبر16 جادو کا توڑ کیسے؟ قسط نمبر15 کیا جادو واقعی اثر رکھتا ہے قسط نمبر14: آسیب سایہ ہسٹیریا
غیرشرعی عامل جادوگر کی علامات
بے بنیاد،غیر شرعی ناجائز عملیات کرنے والے عامل ومعالج کی علامات
درج ذیل علامات میں سے کوئی علامت کسی روحانی عامل کے اندر پائی جاتی ہو تو سمجھ لیں یہ روحانی نہیں شیطانی عامل ہے، اور یہ جو عملیات کررہا ہے وہ شرعا ناجائز ہیں، ایسے لوگوں سے علاج کروانے سے بچنا چاہیے یہ صرف پیسہ نہیں لوٹتے بلکہ عزت اور ایمان بھی چوری کرلیتے ہیں۔
1۔ عامل مریض سے حساب کرنے کے لیے اس کا اور اس کی والدہ کا نام اور تاریخ پیدائش پوچھے۔
2۔عامل مریض سے اس کا استعمال شدہ کپڑا، قمیص، دوپٹہ، کنگی، وغیرہ یا تصویر مانگے۔
3۔ عامل کوئی ایسا جنتر، منتر، تنتر دے (جنتر: لکھی ہوئی چیز۔ منتر:پڑھنے والی چیز۔تنتر: کرنے والا عمل) دے جو قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو۔جو نہ تو پڑھا جاسکے اور نہ ہی اس کے مفہوم اور مطلب کا پتا چلے کہ کیا لکھا ہوا ہے۔
4۔عامل مریض کو بعض جائز وحلا ل چیزوں کے استعمال سے روکے، مثلاً بڑا گوشت نہیں کھانا،فوتگی پر نہیں جانا، اتنے دن نہانا نہیں ، ناخن نہیں کاٹنے وغیرہ۔
5۔ عامل جادو والے طلسم لکھے، تعویذات تیار کرکے دے، ان پرخانوں والی شکلوں میں حروف واعداد لکھ کر دے، سٹار جیسے نشانات بنائے، عجیب و غریب زبان میں کچھ لکھ کر دے، اللہ کا کلام تحریر کرکے اس کو کاٹ کاٹ کر استعمال کرنے کی تلقین کرے، تعویذ پر آیات اور مقدس اسماءکو الٹا سیدھا توڑ پھوڑ کر لکھے، آگے کا حرف پیچھے اور پیچھے کا آگے کرکے لکھے۔ اورغیر اللہ کی قسم دلا کر بحق فلاں بن فلاں پڑھے یالکھ کردے۔ابلیس، فرعون، نمرود،ہامان، شداد ، قارون ، ابوجہل اور دیگر بڑے بڑے کافروں کے نام تعویذ میں لکھ کر دے۔جبریل، میکائیل ، اسرافیل ان تین فرشتوں کے ناموں سے ملتے جلتے اورکئی کئی نام لکھ کر دے۔
6۔عامل علاج کے لیے مرغا، بکرا ، گوشت وغیرہ صدقے کے نام پر طلب کرے ، یا کسی قبرستان ، ویرانے میں پھینک دینے کا کہے۔
7۔عامل نے مختلف قسم کے چلے کرکے کچھ جنات شیاطین سے رابطے بنا رکھے ہوں اور آنے والے مریض پر انہیں حاضر کرکے مختلف شعبدے دکھائے اور بڑے بڑے دعوے کرے۔
8۔عامل مریض کو کچھ چیزیں یا تعویذ دے اور کہے اسے قبرستان میںدفنا دو، کسی درخت سے لٹکا دو، یا ویرانے میں پھینک دو۔ مختلف قسم کی دالیں منگوائے، ہانڈی والا عمل کرے۔
جادوگر کون کب کیسے
ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے کہ جادوگر کون ہوتا ہے، اور کیسے بنتا ہے۔آپ کے علم میں یہ بات ہونا ضروری ہے کہ شیطان کسی جنس کا نام نہیں بلکہ شیطان ایک وصف ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ شیطان جنوں میں سے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں میں سے بھی ہوتے ہیں۔جادوگر اور عامل دراصل انسانی شکل میں شیطان ہوتے ہیں۔ جادو کی کوئی ایک قسم نہیں اور نہ ہی اسے سیکھنے کا کوئی ایک طریقہ ہے۔ خلاصہ سب کا یہ ہے کہ جادوگر بننے کے لیے اللہ ، رسول، قرآن اور دین اسلام کی توہین کرنی پڑتی ہے اس کے بغیر کوئی بھی جادوگر نہیں بن سکتا۔جیساکہ عام دنیا کے ہر معاملے میں ہم دیکھتے ہیں جو جس کام میں جتنا گھستا ہے اور جتنا محنت کرتا ہے اتنا ہی ترقی پاتا ہے، مثلا کوئی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو سب طالبعلم ایک طرح نہیں ہوتے کوئی بہت ذہین بھی ہوتے ہیں اور بہت محنتی بھی ہوتے ہیں، جبکہ کچھ ذہین ہوتے ہیں لیکن محنتی نہیں ہوتے، کچھ محنتی ہوتے ہیں لیکن ذہین نہیں ہوتے، کچھ نہ محنتی اور نہ ہی ذہین ہوتے ہیں، کچھ ایسے ہوتے ہیں جو تعلیم کو آخر تک مکمل حاصل کرتے ہیں اور کچھ پانچویں ، کچھ آٹھویں، کچھ میٹرک تک پڑتے ہیں، یہی معاملہ ہر کام کا ہے۔ بالکل ایسے ہی جادوکو سیکھنے والوں کا معاملہ بھی ہے۔ کچھ تو بہت گہرائی سے مکمل سیکھتے ہیں اور کچھ ادھورا ادھورا سا کچھ سیکھ لیتے ہیں۔
قارئین! جیسا کہ عرض کیا جادو سیکھنے کے لیے کفریہ کام کرنا پڑتا ہے اور دین و انسانیت کی توہین کرنی ہوتی ہے، چنانچہ جادوگر جادو سیکھنے کے لیے کئی کئی مہینوں تک ناپاک رہتا ہے۔اور ہر ایسا کام کرتا ہے جس سے اللہ ناراض اور شیطان خوش ہو۔جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس نے انکار کردیا تھا، وجہ یہ بتائی کہ میں انسان سے افضل ہوں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم نے انسان کو فضیلت بخشی ہے۔ چنانچہ جادوگر بننے کے لیے شیطان پہلے یہی تسلیم کرواتا ہے کہ تم اپنے جسم پر گندگی اور پیشاب ملو تاکہ یہ ثابت ہو تم گندے اور کمینے انسان ہو تمہیں مجھ پر کوئی فضیلت نہیں حاصل۔ یہی وجہ ہے کہ جادوگر جادو سیکھتے وقت گندے رہتے ہیں۔ اپنا پاخانہ اٹھا کر اپنے جسم پر ملتے رہتے ہیں۔ گٹر کے اندر کئی کئی دنوں سے بیٹھتے ہیں۔ مجھے خود ایک عورت کی کال آئی اور اس نے بتایا میرا شوہر گھر کے اندر گٹر کا ڈھکن کھول کر اندر بیٹھ جاتا ہے اور کئی کئی گھنٹے اندر ہی بیٹھا رہتا ہے۔ پھر رات کو کمرے کی لائٹیں بند کرکے بہت ساری موم بتیاں جلا کر کچھ کرتا رہتا ہے۔سعودی عرب میں پولیس نے ایک گھر پر چھاپا مارا تو دیکھ ایک شخص نہانے والے ٹب کے اندر جو کئی دنوں تک پاخانہ کرکے بھرا ہوا تھا اس میں لیٹا ہوا ہے، جب اسے گرفتار کیا گیا اور پوچھا گیا یہ کیا کررہے ہوتو اس نے بتایا میں چلہ کررہا ہوں۔
جادو کی عملیات سیکھنے کے دوران بہت سارے کام کرنے پڑتے ہیں جن میں سے ایک اہم کام اپنی کسی محرم عورت یعنی ماں، یا بہن، یا بیٹی کے ساتھ زنا کرنا بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ بارہا ہم میڈیا میں اس قسم کی خبریں سنتے رہتے ہیں کہ فلاں شخص اپنی بہن یا بیٹی کے ساتھ غلط کام کرتا رہا ہے، یہ دراصل جادوسیکھنے کے عملیات کا حصہ ہوتا ہے۔اسی طرح جادو سیکھنے کے عملیات میں سے ایک بڑا عمل کسی بچے کو زیادتی کے بعد گلا دبا کر قتل کرنا ہوتا ہے، یعنی انسانی جان کو شیطان کے نام پر قربان کرنا۔ ہم کئی بار یہ خبر سنتے ہیں فلاں علاقے میں کچھ مردوں نے کسی عورت کے ساتھ زیادتی کی اور فرار ہوگئے۔ لیکن نابالغ بچوں یا بچیوں کے ساتھ زیادتی کا واقعہ جب بھی ہوتا ہے اکثر اسے گلا دبا کر قتل کردیا جاتا ہے، حالانکہ محض جنسی ہوس پوری کرنی ہوتی تو زیادتی کے بعد فرار ہوجاتا، لیکن گلا دباکر اور اذیت دے کر قتل کرنے کے واقعات جادو سیکھنے اور اس میں ترقی حاصل کرنے والوں کے کارنامے ہیں، جو انہیں ان کے استاد جادوگر بتاتے اور کرواتے ہیں۔اسی طرح جادو سیکھنے کے لیے جیسے کچھ کام کیے جاتے ہیں اسی طرح کچھ منتر، کچھ کلمات بھی باربار دہرائے جاتے ہیں، جن میں شیطانوں کی بڑھائی، اور ان کو پکارا گیا ہوتا ہے۔ یہاں تک تو بات ہوئی اصل جادوگروں کی، اب ذرا دوسری کیٹگری کے لوگوں کی بات بھی کرلیتے ہیں۔
عام عامل جو غیر شرعی اعمال کرتے ہیں
جادوگروں کی دوسری کیٹگری ان لوگوں کی ہے جو اوپر بیان کردہ انتہائی گندے اور گھٹیا اعمال تو نہیں کرتے البتہ خوبصورت لبادے میں لپٹے غیر شرعی اور ناجائز عملیات شیطان ان سے بھی کرواتا ہے۔اس کیٹگری کا شکار وہ لوگ ہوتے ہیں جوایک طرف تو اسلام کو بھی نہیں چھوڑنا چاہتے جبکہ دوسری طرف انتہائی لالچی، حب مال اور حب جاہ کے متوالے ہوتے ہیں، ان لوگوں کے اندر صبر، حوصلہ، توکل اور یقین نہیں ہوتا یہ انتہائی کمزور ایمان لوگ ہوتے ہیں، پیسے کی لالچ میں آہستہ آہستہ ناجائز عملیات کی طرف بڑھتے بڑھتے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔یہ محض جواز کے سوراخ ڈھونڈتے رہتے ہیں، مجربات کے نام پر ایسے ایسے کام کرتے ہیں جن کا نہ سر ہوتا ہے نہ پاوں۔ بس ان کے پاس ایک ہی دلیل ہوتی ہے : یہ عمل یہ تعویذ یہ کلمات مجرب ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا کسی چیز کا محض مجرب ہونا اس کے جواز کی دلیل بن سکتا ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہوسکتا۔ کوئی چیز کتنی ہی مجرب کیوں نہ ہوشریعت کی حدود کو پھلانگے گی یا شریعت کے اصولوں کو پامال کرے گی ناجائز ہو گی۔ ہمارے معاشرے میں ایک طرف کھلم کھلا جادوگر بھی موجود ہیں اور دوسری طرف ایسے عاملین بھی موجود ہیں جو نورانی علم کے دعویدار ہیں اور دین وکفر دونوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دوکشتیوں میں پاوں رکھے ہوئے ہیں۔ دین کو بھی نہیں چھوڑ سکتے اور لالچ کے آگے بند بھی نہیں باندھ سکتے چنانچہ ایسے لوگوں کے عملیات کی ایک بہت بڑی نشانی یہ ہوتی ہے یہ جو تعویذ دیں گے اس میں کچھ قرآن کی آیات، الفاظ، اسماءبھی ہوں گے اور کچھ غیر معروف، کلمات، علامات، سنبلز اور نشانات بھی ہوں گے۔ان عملیات کے بے بنیاد ہونے کی ایک واضح نشانی یہ بھی ہے کہ آپ کراچی سے پشاور تک ایک ہزار عاملوں کے پاس جائیں اور سب کو ایک ہی مسئلہ بتائیں لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے ہر عامل دوسرے سے مختلف تعویذ، عمل،ٹوٹکہ اور طریقہ بتائے گا۔
جیسا کہ عرض کیا جادو سیکھنے کی پہلی شرط یہ ہے نعوذ باللہ کسی بھی قرآنی صفحے یا صفحات کو پاوں تلے رکھ کر وظیفہ کیا جاتا ہے، اس کے لیے گندی ترین جگہ جیسے باتھ روم یا نجاست والی جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے، عورتوں کے حیض والے خون سے، اور ان کپڑوں پر جن پر خون لگا ہو، ان پر مقدس الفاظ الٹ کر لکھے جاتے ہیں، اس دوران چلہ کشی وغیرہ کی جاتی ہے، یہ عامل بننے کی ابتداءہے. اب آپ دیکھ لیں کہ جس کام کی ابتداء یہ ہے، اس کی انتہا اور اسفلیت کیا ہوگی؟ آپ نے سنا ہوگا کہ الو کا گوشت اور کھال وغیرہ جادو ٹونوں میں استعمال کی جاتی ہے، صرف یہی نہیں، حالت جماع میں جو نجاست بدن سے نکلتی ہے اسے بھی تعویذ لکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور انسان اسفل السافلین میں شمار ہونے لگتا ہے. انسانی بدن کی نجاست کے علاوہ ناپاک جانوروں کی غلاظت، خون، کھوپڑیاں عملیات میں استعمال کی جاتی ہیں، بغض اوقات جو لوگ قبرستان میں سخت قسم کی چلہ کشی وغیرہ کرتے یا کرواتے ہیں، اس میں مردوں کی توہین، ان کے ساتھ بد فعلی، اور اس قسم کے ہزاروں ایسے کام کیے جاتے ہیں جس کے بارے میں عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک عورت عامل کے پاس آئی اور کہا میرا شوہر میری بات نہیں مانتا اس کے لیے کوئی تعویذ دیں۔ عامل نے عورت سے کہا ایک مہینے تک ناخن نہیں کاٹنے ، جب اچھے خاصے بڑے ہو جائیں تو میرے پاس آنا۔ مہینے بعد عورت اس کے پاس گئی تو عامل نے اس کے ناخن کاٹ کر ایک برتن میں ڈالے اور برتن چولہے پر رکھا، جب ناخن پگھل گئے تو کہا، اب یہ کسی طریقے سے اپنے شوہر کو کھلا دو۔ عورت نے ایسا ہی کیا، جس کے نتیجے میں خاوند پر جنات کا کوئی ایسا اثر ہوا کے وہ پاگلوں کی طرح ہو گیا اور مصیبت ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی۔