کیا جادو واقعی اثر رکھتا ہے؟ کیا نبی پر جادو کا اثر ہوتا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ سحر یعنی جادو ایک حقیقت ہے ، اور اس کے اثرات انسانی زندگی پر ہوتے ہیں۔بلکہ سحر سے انبیاءکا متاثر ہونا بھی قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کے واقعے کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے :
قال بل القوا فاذا حبالھم وعصیھم یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعی66۔فاوجس فی نفسہ خیفة موسی67۔ قلنا لا تخف انک انت الاعلیٰ68۔(سورہ طہ)
ترجمانی: موسی علیہ السلام کے مقابلے کے لیے فرعون نے جادوگروں کو بلایا ایک میدان میں مقابلہ ہوا، جادوگروں نے اپنی رسیاں پھینکیں اور موسی علیہ السلام پر اس جادو کا اثر ہوا جس کی وجہ سے وقتی طور پر موسی علیہ السلام تھوڑے سے گھبرائے تو اللہ تعالیٰ نے تسلی دی کے اے موسی مت خوف کھاو بیشک آپ ہی غالب ہوں گے۔
اس واقعے سے معلوم ہوا سحر کا اثر طبعی اشیاءکے اثرات کی طرح ہوتا ہے جس سے ہر انسان متاثر ہو سکتا ہے حتی کہ اللہ کا نبی بھی متاثر ہوتا ہے۔اسی طرح احادیث کی روایات سے ہمیں پتا چلتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جادو کے اثرات ہوئے تھے۔جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
“بنو زریق کے لبید بن الاعصم نامی ایک آدمی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کردیا، آپکو خیال ہوتا تھا کہ آپ کسی کام کو کررہے ہیں، حالانکہ کیا نہ ہوتا تھا، حتی کہ ایک دن یا ایک رات جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے ، آپ نے بار بار دعا کی ، پھر فرمایا ، اے عائشہ! کیا تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتا دی ہے ، جو میں اس سے پوچھ رہا تھا؟ میرے پاس دو آدمی آئے، ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاوں کے پاس بیٹھ گیا، ان میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا، اس آدمی کو کیا تکلیف ہے ؟ اس نے کہا ، اس پر جادو کیا گیا ہے ، اس نے کہا ، کس نے کیا ہے ؟، اس نے کہا ، لبید بن اعصم نے، اس نے کہا ، کس چیز میں ؟ ، کہا، کنگھی ، بالو ں اور نَر کھجور کے شگوفے میں، اس نے کہا ، وہ کہا ں ہے ، کہا ، بئر ذروان میں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ وہاں گئے ، پھر واپس آئے اور فرمایا ، اے عائشہ ! اس کنویں کا پانی گویا کہ مہندی ملا ہوا تھا اور اس کی کھجوریں گویا شیطانوں کے سر تھے ، (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں) میں نے کہا ، کیا آپ نے اسے نکالا ہے ،فرمایا، نہیں، مجھے تو اللہ تعالیٰ نے عافیت و شفا دے دی ہے ، میں اس بات سے ڈر گیا کہ اس کا شر لوگوں میں اٹھاوں۔”
(صحیح بخاری: ۸۵۸/۲، ح: ۵۷۶۶، صحیح مسلم : ۲۲۱/۲، ح: ۲۱۸۹) یہ متفق علیہ حدیث دلیل قاطع اور برہانِ عظیم ہے کہ رسول اللہ ? پر جادو ہواتھا، واضح رہے کہ جادو ایک مرض ہے ، دیگر امراض کی طرح یہ بھی انبیاءکو لاحق ہوسکتا تھا، قرآن و حدیث میں کہیں یہ ذکر نہیں ہے کہ انبیاءعلیہم السلام پر جادو نہیں ہوسکتا۔ یہ حدیث بالاجماع “صحیح” ہے ، ہاں وہ معتزلہ فرقہ اس کا انکاری ہے، جو قرآن کو مخلوق کہتا ہے ، وہ نہ صرف اس حدیث کا منکر ہے ، بلکہ اور بھی بہت ساری احادیث صحیحہ کا منکر ہے۔
٭مولانا مودودی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ سارا قصہ اس جادو کا۔ اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کے منصب نبوت میں قادح ہو۔ ذاتی حیثیت سے اگر آپ کو زخمی کیا جا سکتا تھا جیسا کہ جنگ احد میں ہوا۔ اگر گھوڑے سے گر کر چوٹ کھا سکتے تھے جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ اگر آپﷺ کو بچھو کاٹ سکتا تھا، جیسا کہ کچھ اور احادیث میں وارد ہوا ہے اور ان میں سے کوئی چیز بھی امن وتحفظ (عصمت) کے منافی نہیں ہے جس کا نبی ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا تھا تو آپﷺ پر اپنی ذات حیثیت میں جادو کے اثر سے بیمار بھی ہو سکتے تھے۔ نبی پر جادو کا اثر ہو سکتا ہے۔ یہ بات تو قرآن مجید بھی ثابت ہے۔ سورہ اعراف میں فرعون کے جادوگروں کے متعلق بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں جب وہ آئے تو انہوں نے ہزار ہا آدمیوں کے اس پورے مجمع کی نگاہوں پر جادو کر دیا جو وہاں دونوں کا مقابلہ دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
سَحَرُوا اَعیُنَ النَّاسِ
اور سورة طٰہ میں بھی ہے کہ جو لاٹھیاں اور رسیاں انہوں نے پھینکیں تھیں، ان کے متعلق بیان ہوا کہ عام لوگوں نے ہی نہی بلکہ حضرت موسیٰ نے بھی یہی سمجھا کہ وہ ان کی طرف سانپوں کی طرح دوڑی چلی آ رہی ہیں۔ اور اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام خوف زدہ وہ گئے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل کی خوف نہ کرو تم ہی غالب رہو گے ذرا اپنا عصا پھینکو۔رہا یہ اعتراض کہ یہ تو کفار مکہ کے اس الزام کی تصدیق ہو گئی کہ نبیﷺ کو سحر زدہ آدمی کہتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کفار آپ کو سحر زدہ آدمی اس معنی میں نہیں کہتے تھے کہ آپ کسی جادوگر کے اثر سے بیمار ہو گئے ہیں۔ بلکہ اس معنی میں کہتے تھے کہ کس جادوگر نے معاذ اللہ آپ کو پاگل کر دیا ہے۔ اور اسی پاگل پن میں آپ نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں اور جنت ودوزخ کے افسانے سنا رہے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ اعتراض ایسے معاملہ پر سرے سے چسپاں ہی نہیں ہوتا جس کے متعلق تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ جادو کا اثر صرف ذاتِ محمدﷺ پر تھا، نبوت محمدﷺ اس سے بالکل غیر متاثر رہی۔ تفہیم القرآن۔
٭بریلوی مسلک کے مفسرقرآن پیر کرم شاہ الازہری صاحب رحمہ اللہ معترضین کے جواب میں فرماتے ہیں۔ان کے اعتراضات اور شکوک کے بارے میں اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ کی دو حیثیتیں تھیں۔ ایک حیثیت نبوت اور دوسری حیثیت بشریت۔ عوارض بشری کا ورود ذات اقدس پر ہوتا رہتا تھا۔ بخار، درد، چوٹ کا لگنا، دندانِ مبارک کا شہید ہونا، طائف میں پنڈلیوں کا لہولہان ہوتا اور احدمیں جبین سعادت کازخمی ہونا۔ یہ سب واقعال تاریخ کے صفحات کی زینت ہیں۔ یہ لوگ (معترضین) بھی ان سے انکار کی جرات نہیں کر سکتے اور ان عوارض سے حضور کی شانِ رسالت کا کوئی پہلو اس سے متاثر نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا کہ اس جادو سے حضور کوئی آیت بھول جاتے یا الفاظ میں تقدیم وتاخیر کر دیتے یا قرآن میں اپنی طرف سے کوئی جملہ بڑھا دیتے یا ارکان نماز میں ردوبدل ہوجاتا تو اسلام کے بد خواہ اتنا شوروغل مچاتے کے الامان والحفیظ۔بطلان رسالت کے لیے یہی مہلک ہتھیار کافی تھا۔ انہیں دعوت اسلامی کو ناکام کرنے کے لیے مزید کسی ہتھیار کی ضرورت نہ رہتی۔ لیکن اس قسم کا کوئی واقعہ کسی حدیث اور تاریخ کی کتاب میں موجود نہیں۔ دشمنانِ اسلام نے آج تک جتنی کتابیں پیغمبر اسلامﷺ کے بارہ میں لکھی ہیں ان میں بھی اس قسم کا کوئی واقعہ درج نہیں۔ (ضیاءالقرآن،۵ ص۷۲۵)
٭شیخ الاسلام ابن قیم جواب دیتے ہیں:
قد انکر ھذا طائفة من الناس وقالوا لا یجوز ھذا علیہ وظنوہ تقاصا وعیبا ولیس الامر کما زعموا بل ھو من جنس ما کان یعتریہ من الاسقام والاوجاع وھو مرض من الامراض واصابتہ بہ کاصابتہ بالسم ولا فرق بینھا وقال القاضی عیاض والسحر مرض من الامراض وعارض من العلل یجوز علیہ کانواع الامراض مما لا ینکرولا یقدح فی نبوتہ واما کونہ یخیل الیہ انہ فعل الشیءولم یفعلہ فلیس ھذا ما یدخل علیہ داخلة فی شیءمن صدقہ لقیام الدلیل والاجماع علی عصمتہ من ھذا وانما ھذا فی ما یجوز طروہ علیہ فی امر دنیاہ التی لم یبعث لسببھا ولا فضل من اجلھا وھو فیھا عرضة للافات کسائر فغیر بعید ان یخیل اللہ من امورھا مالا حقیقة لہ ثم ینجلی عنہ کما کان۔ (زاد المعاد، ج۴ ص۱۲۴۔ وروح المعانی، ج۱۵، ص۲۲۶و۲۲۷)
کچھ لوگ (معتزلہ اور منکرین حدیث منصب نبوت کے حق میں نقص اور عیب سمجھتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے نبیﷺ پر جادو چل جانے کا انکار کیا ہے۔ مگر ان کا یہ زعم صحیح نہیں کیوں کہ جادو ایک مرض ہے۔ جس طرح آپ کو بحثیت بشر دوسری امراض اور عوارض لاحق ہوتے رہے اسی طرح آپ جادو کی مرض کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ یعنی جس طرح آپ پر زہر اثر کر گیا تھا اسی طرح آپ جادو کی زد میں آ گئے اور جس طرح بخار اور دوسرے امراض بقول قاضی عیاض منصب نبوت کے منافی نہیں، اسی طرح جادو بھی قادح نہیں۔ رہا آپ کا کسی کام کے لیے یہ فرمانا کہ میں یہ کام کر چکا ہوں مگر نہیں کیا ہوتا تھا تویہ خیال منصب نبوت میں کسی خلل کا باعث ہرگز نہیں۔ کیونکہ میں آپ کی نبوت اور صداقت نہ صرف ناقابل تردید بکثرت دلائل قائم ہیں بلکہ اس پہلو سے آپ کی عصمت پر اجماع ہو چکا ہے۔ اور یہ چیز ان امور میں سے ہے جو دنیوی امور میں آپ پر واقع ہو سکتے ہیں، کیونکہ آپ ان کی وجہ سے مبعوث نہیں ہوئے اور نہ آپ کا فضل وکمال ان اسباب کا مرہون منت ہے۔ چوں کہ آپ بحثیت بشر دوسرے انسانوں کی طرح آفات کی زد میں ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی بعید از عقل بات نہیں کہ آپ کو کوئی ایسا خیال آ جائے جس کی کوئی حقیقت نہ ہو بعدازاں وہ خیال ختم بھی ہو جائے۔
٭ سید احمد محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اہل سنت کا یہ مذہب ہے کہ جادو کا اثر حقیقی طور پر دنیا میں ہوتا ہے۔ فرقہ معتزلہ اس کا مخالف ہے کیونکہ اس اثر کو خیالی بتاتے ہیں، مگر اہل سنت نے اپنے مذہب کو بہت سی آیتوں اور حدیثوں سے ثابت کیا ہے۔ (تفسیر احسن التفاسیر، ج۷، ص۳۳۳)
٭مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کے اثر اور علاج کو معوذتین کا شان نزول قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:”حضرت جبرائیل ؑ امین سورتیں پڑھنے لگے،ایک ایک آیت پر ایک ایک گرہ کھل گئی۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالکل شفا ہوگئی۔
٭صاحب کشف الاسراءنے دو آراءنقل کی ہیں۔اُن کے نزدیک اگرچہ کچھ لوگوں نے سحر کو تسلیم نہیں کیا لیکن جمہور علماءومفسرین کا مسلک یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہوا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کے اثر کی نوعیت:علامہ آلوسی ؒ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تاثیر سحر کو تسلیم کرتے ہیں۔
قاضی عیاض ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں:”
ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کاتجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:جادو کا اثر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد مبارک اور اعضاءپر ہوا عقل،قلب،اوراعتقاد پر نہیں ہوا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محسوسات میں جو تبدیلی ہوئی وہ محض نگاہوں تک محدود تھی۔اس سے مراد عقل میں خلل واقع ہونا ہرگز نہیں ہے۔اور اس سے منصب رسالت پر اشتباہ یا گمراہ لوگوں کی طرف سے طعن کا پہلو نہیں نکلتا۔”
٭عبد الماجد ؒ دریا آبادی لکھتے ہیں:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سحر سے(جو مادیات ہی کی ایک قسم ہے) متاثر ہوجانا بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے ذات الجنب سے ملیریا سے درر اعصاب سے متاثر ہوجانا اور اس میں منفی نوبت ہونے کا کوئی ادنیٰ پہلو بھی نہیں۔”
٭مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”سحر کا اثر بھی اسباب طبیعہ کا اثر ہوتا ہے جیسے آگ سے جلنا یاگرم ہونا،پانی سے سر د ہونا،بعض اسباب طبیعہ سے بخارآجانا،یامختلف قسم کے درودامراض کا پیدا ہوجانا ایک امر طبعی ہے۔