قسط نمبر13 اولاد کی بندش

اولاد کی بندش

انسانوں کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ اولاد کا نہ ہونا بھی ہے۔ جب مرد عورت کی شادی ہوتی ہے تو سب کی خواہش یہی ہوتی ہے اب اولاد ہو۔ کیونکہ یہ فطرت انسانی ہے وہ اولاد سے محبت کرتا ہے۔ چنانچہ کبھی تو اللہ کی طرف سے اولاد جلد ہوتی ہے اور کبھی دیر سے، اور کبھی بالکل بھی نہیں ہوتی۔ اسی طرح کسی کو صرف بیٹے ملتے ہیں اور کسی کو صرف بیٹیاں اور کسی کو دونوں۔ اگر کسی کی شادی کے بعد دو تین سال گزر جائیں اور اس کی اولاد بالکل بھی نہ ہو تو پریشانی بن جاتی ہے، پہلے تو لوگ ڈاکٹری اور حکیمی علاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور پھر عاملوں کے پیچھے بھاگنا شروع ہو جاتے ہیں۔یہ وہ موقع ہوتا ہے جب عاملین لوگوں کا عقیدہ ، نظریہ، اور سوچ تبدیل کرکے موحد سے مشرک بنا ڈالتے ہیں۔پہلے لوگوں کا یہی عقیدہ اور سوچ ہوتی ہے اولاد دینے اور نہ دینے والی ذات اللہ کی ہے، لیکن جب عاملوں کے ہاتھ لگتے ہیں تو یہ سوچ تبدیل ہو کر یہ بن جاتی ہے کہ کوئی انسان دشمن وغیرہ بھی چاہے تو اولاد کی بندش کرسکتا ہے۔ پہلے والی سوچ انسان کو پریشان نہیں کرتی، لیکن جب دوسری سوچ ذہن میں ڈالی جاتی ہے تو یہ انسان کے سکون کو برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ عاملین یہ سوچ اس لیے ذہن میں ڈالتے ہیں کہ اگر وہ یہ کہیں کہ اولاد دینے اور نہ دینے والی ذات اللہ کی ہے تو ان کے پاس آنے والا یا آنے والی اٹھے گی اور مسجد اور مصلی پر جاکر بیٹھ جائے گی، عامل کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔اس لیے ان کا سب سے پہلا کام آنے والے کی سوچ کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ وہ فورا من گھڑت حساب کتاب کرکے بتا دیتے ہیں تم پر کسی دشمن حاسد نے بندش کروا دی ہے، اس بندش کی کاٹ کرنی پڑے گی تب آپ کا مسئلہ حل ہوگا۔

نکتہ

چنانچہ سائل جب بندش کی کاٹ کروانے کا ذہن بنا لیتا ہے تو پھر عامل سے کہتا ہے چلیں ٹھیک ہے آپ میری بندش کی کاٹ کریں۔ یہاں سے آگے بندش کی کاٹ کرنے کے طریقے اتنے ہی ہیں جتنے عامل اور جادوگر۔اور یہی وہ موقع ہوتا ہے جب کئی عورتیں اپنی عزت اور وقار لٹا بیٹھتی ہیں، اس کے علاوہ اولاد دینے کے بہانے ہزاروں روپے لوٹ لیے جاتے ہیں اور حاصل پھر بھی کچھ نہیں ہوتا۔اگراتفاقا کسی عامل کے عمل یا تعویذ کے بعد اللہ کی طرف سے اولاد کی نعمت مل جائے تو لوگ اسے ”پیراں دتا“ وغیرہ کے نام سے پکار کر شرک کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں۔یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ لوگوں اپنے پیارے رب، اور اس کے رسول اور اس رسول پر نازل ہونے والی کتاب مبین سے لاتعلق اور ناواقف ہوتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان کتاب ہدایت قرآن کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بنائے اور اس کا مطالعہ اور تلاوت کرے ، یہ جاننے کی کوشش کرے میرا رب مجھے مخاطب کرکے میری زندگی کے بارے کیا کیا ہدایات دیتا ہے تو اسے کسی عامل کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں۔

 اولاد دینے والا صرف اللہ ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

للہ ملک السماوات والارض یخلق مایشائ، یھب لمن یشاءاناثا ویھب لمن یشاءالذکور۔ او یزوجھم ذکرانا و اناثا ویجعل من یشاءعقیما انہ علیم قدیر۔ (الشوری 49۔ 50)

ترجمانی: آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا انہیں جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے، وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔

یہ ایسا معاملہ ہے کہ اس معاملے میں انبیاءعلیہم السلام اور اولیاءاللہ بھی بے اختیار ہیں، زکریا علیہ السلام بڑھاپے تک بے اولاد رہتے ہیں اگر اولاد دینا اللہ کے پیغمبر کے اختیار میں ہوتا تو وہ اپنے لیے اولاد لے لیتے، لیکن اولاد کی تمنا میں بوڑھے ہوگئے اور پھر بڑھاپے میں یہ فریاد کی جسے اللہ نے قرآن میں نقل کیا ہے تب بڑھاپے میں یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں۔

زکریہ علیہ السلام کی فریاد:

قال رب انی وھن العظم منی واشتعل الراس شیبا ولم اکن بدعائک رب شقیا۔ وانی خفت الموالی من ورائی وکانت امراتی عاقرا فھب لی من لدنک ولیا۔(4.5مریم)

“عرض کی اے میرے پروردگار، میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک  اٹھا ہے(بالوں کی سفیدی کے سبب آگ کی طرح چمکنے لگا ہے) اور اے میرے پروردگار میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما”

یہی معاملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی تھا ، ان کی بھی اولاد نہیں تھی، بڑھاپے میں اللہ سے دعا کی ، ان کو بھی اللہ نے بڑھاپے میں اولاد سے نوازا۔ہمیں یہ سوچنا چاہیے کیا یہ عامل اور عملیات کا کام کرنے والے کیا اللہ کے ان برگزیدہ نبیوں اور ولیوں سے بھی آگے پہنچے ہوئے ہیں کہ ان پر پیسے اور عزتیں لٹانے سے اولاد مل جاتی ہے؟، اصل بات یہ ہے کہ ہمیں انہیں نبیوں اور ولیوں کے راستے پر چلتے ہوئے صرف اللہ سے ہی التجا کرنی چاہیے، جب اللہ چاہے گا اولاد کی نعمت عطاءفرمادے گا۔

یہ بھی پڑھیں:  قسط نمبر12: استخارہ اور رشتہ کی بندش   قسط نمبر11: کاروبار رزق کی بندش  قسط نمبر10: علامات، کوڈنگ، تعویذ

سورہ نوح میں ارشاد خداوندی ہے:

فقلت استغفروا ربکم انہ کان غفارا۔ یرسل السماءعلیکم مدرارا۔ ویمددکم باموال و بنین ویجعل لکم جنات و یجعل لکم انہارا۔ مالکم لا ترجون للہ وقارا۔(نوح10 ۔13)

ترجمانی: اپنے رب کے سامنے استغفار کرو، وہ بہت بخشش والا ہے۔ تم پر آسمان سے بارش برسائے گا۔ اور تمہاری مدد کرے گا مال اور بیٹوں کے ذریعے، اور تمہارے لیے باغات اور نہروں کا انتظام کرے گا۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے تمہیں اللہ کے وقار کا کوئی خیال ہی نہیں۔اس آیت کریمہ میں وہ نسخہ بتایا گیا ہے جس کی ہر کسی کو تلاش ہے، چونکہ لوگ قرآن پڑھتے نہیں اس لیے لوگوں کو اس نسخہ کا علم نہیں، اس آیت میں تمام ان بڑی خواہشوں کے حصول اور پریشانیوں سے نجات کا علاج بتایا گیا ہے جسے ہر انسان چاہتا ہے۔ فرمایا جارہا ہے استغفار کرو، رب سے باربار معافی مانگو، توبہ کرو ، اس کا پہلا پھل یہ ملے گا اللہ تمہیں معاف کردے گا۔ دوسرا پھل یہ ملے گا اللہ آسمان سے رحمت کی بارش فرمائے گا۔ تیسرا پھل یہ ملے گا کہ وہ تمہیں مال عطاءکرے گا۔ چوتھا پھل یہ ملے گا کہ وہ تمہیں بیٹے عطاءکرے گا۔ پانچواں پھل یہ ملے گا کہ وہ تمہیں باغات عطا کرے گا۔ چھٹا پھل یہ کہ وہ باغات کے لیے نہروں کی ضرورت ہے تو وہ تمہیں نہریں عطاءکرے گا۔ اتنی عنایات دینے والا تمہارا رب ہے لیکن تمہیں اس کے وقار کا کوئی خیال نہیں تم پھر بھی اس کی طرف رجوع نہیں کرتے اور نجومیوں، کاہنوں، عرافوں، عاملوں، اور جادوگروں کے پیچھے بھاگتے ہو۔وہ تمہیں کہتا ہے اپنی زبان اور عمل سے استغفار کرو اور تم کاغذ کی پرچیاں کبھی پیٹ پر باندھتے ہو، کبھی بازو پر اور کبھی گلے میں لٹکاتے ہو،تمہیں اللہ کے وقار کا بالکل بھی خیال نہیں؟ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم کثرت سے استغفار کریں، اللہ سے معافی مانگیں،روزانہ صلوة حاجت پڑھ کر رب سے مانگنے کی عادت بنائیں۔اپنا میڈیکلی اور طبی علاج جاری رکھیں اور بھروسہ ، ایمان و یقین اللہ پر رکھیں۔

فہرست پر واپس جائیں

Related posts

Leave a ReplyCancel reply