اس سلسلے کی تمام اقساط یہاں دیکھیں
رشتہ نہ ملنے کے مسائل اور استخارہ کی حقیقت
ہمارے معاشرے کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ رشتوں کا نہ ملنا بھی ہے، خاص طور پر لڑکیوں کے رشتے نہیں ملتے۔ ان مسائل کا شکار زیادہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کا خاندانی اور قبائلی نظام تباہ ہوچکا ہے۔ البتہ جن لوگوں کا خاندانی نظام اب بھی قائم ہے وہ بچیوں کے رشتوں کے معاملے میں اتنے پریشان نہیں ہوتے اور خاندان میں سے آسانی سے رشتے مل جاتے ہیں۔ انگریز اور شیطانی طاقتوں نے مسلمانوں کے قبائلی اور خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں اور سندھ پنجاب میں انہوں نے خاندانی نظام بکھیر دیا ہے البتہ بلوچستان اور خیبرپختون خواہ میں اب بھی کافی حد تک خاندانی نظام قائم و دائم ہے، جس کی وجہ سے ان علاقوں میں لڑکیوں کے رشتوں کی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ یاد رکھیں جب آپ اپنے خاندان سے کٹ جاتے ہیں، اور ایک علیحدہ زندگی گزارتے ہیںتو پھر آپ کو ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔خاندان کسی بھی معاشرے کی اکائی ہوتی ہے، جب اکائی ٹوٹتی ہے تو پورا معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔بظاہر تو یہ بہت خوبصورت بات لگتی ہے کہ آپ علیحدہ آزاد زندگی گزار رہے ہیں لیکن حقیقت میں یہ بہت بڑی تباہی ہے۔خاندانی نظام آپ کا ہر لحاظ سے تحفظ کرتا ہے، کوئی آپ کے ساتھ زیادتی اور ظلم نہیں کرسکتا، آپ کا نسب محفوظ رہتا ہے، آپ اپنے آپ کو طاقتور محسوس کرتے ہیں، آپ نہایت پراعتماد زندگی گزارتے ہیں، مشکل وقت میں جیسا کیسا بھی خاندان ہو انسان کے کام آتا ہے۔
بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے، ابھی ہم رشتوں کے مسائل اور عملیات کی دنیا کی بات کررہے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلے ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں، جس کا مفہوم مجھے یاد ہے اس کی عربی عبارت یا حوالہ مجھے یاد نہیں، کیونکہ دس پندرہ سال پہلے کسی کتاب میں یہ حدیث پڑھی تھی اور اب مجھے اس کا کوئی حوالہ نہیں مل رہا اگر آپ میں سے کسی کو معلوم ہو تو مجھے ضرور اطلاع کریں۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ جب کسی گھر میں کوئی بچی جوان ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو حکم کرتا ہے کہ فلاں کے دل میں یہ بات ڈالو کہ وہ جاکر اس لڑکی کا رشتہ مانگیں، فرشتہ ان کے دل میں ڈالتا ہے وہ آتے ہیں اور اس لڑکی کا رشتہ مانگتے ہیں، لیکن لڑکی کے والدین انکار کردیتے ہیں، پھر فرشتہ کسی دوسرے کے دل میں یہ بات ڈالتا ہے کہ وہ رشتہ مانگیں، وہ آتے ہیں اور رشتہ مانگتے ہیں، لڑکی والدین پھر انکار کردیتے ہیں، پھر فرشتہ کسی تیسرے کے دل میں یہی بات ڈالتا ہے لیکن والدین پھر انکار کردیتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ اس فرشتے سے فرماتا ہے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کسی گھر میں لڑکی جوان ہوتی ہے تو اللہ کی طرف سے مدد آتی ہے اور مدد بھی فرشتوں کی یعنی اللہ تعالیٰ لڑکی کے والدین کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتے نازل کرتا ہے، یہ کتنے اعزاز کی بات ہے، لیکن والدین اس اللہ کی مدد کو جب تین بار ٹھکرا دیتے ہیں تو پھر اللہ کی مدد اٹھ جاتی ہے اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے، ظاہر ہے ایسی صورت میں پھر اچھا رشتہ ملنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کا بغور مشاہدہ کریں تو یہی حال نظر آتا ہے، جب بچی جوان ہوتی ہے تو کئی کئی رشتے آتے ہیں لیکن والدین بہانے بنا بنا کر، اپنا سٹیٹس بلاوجہ اونچا کرکے انکار پر انکار کرتے چلے جاتے ہیں، کبھی کہتے ہیں لڑکے کی تعلیم کم ہے، کبھی کہتے ہیں یہ خاندان اچھا نہیں، کبھی کہتے ہیں لڑکے کی نوکر اچھی نہیں وغیرہ وغیرہ، اس عرصے میں تین چار پانچ سال گزر جاتے ہیں اور لڑکی کی عمر بائیس تئیس سال سے آگے نکل جاتی ہے اس کے بعد پھر لڑکے والے کہنا شروع کردیتے ہیں اس کی عمر زیادہ ہے، یہ موٹی ہوگئی ہے، وغیرہ وغیرہ اور رشتہ ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔یاد رکھیں لڑکی کی شادی کی بہترین عمر پندرہ سے اٹھارہ انیس سال ہوتی ہے جب آسانی سے رشتہ مل جاتا ہے بعد میں مشکلات ہوتی ہیں۔ایک دفعہ میرے سامنے ایک صاحب کی بچی کا رشتہ آیا، ان صاحب نے انکار کردیااور ساتھ ہی بڑے فخر سے مجھے کہنے لگے یہ چودھواں رشتہ تھا اس سے پہلے تیرہ رشتے آچکے ہیں۔ لاحول ولاقوة الا بااللہ
جب رشتے ملنا بند ہو جاتے ہیں تو طرح طرح کے خیالات آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ نہ معلوم کیا ہوگیا، شاید کسی نے جادو کردیا، شاید کسی نے تعویذ کروا دیے ہیں۔پھر رشتے دار اور جاننے والے بھی بلاوجہ ڈراتے ہیں آپ اپنا حساب کروائیں، استخارہ کروائیں کوئی بندش لگتی ہے۔ چنانچہ لوگ عاملین کے پیچھے بھاگتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کیا مسئلہ ہے۔ عاملین آگے سے تیار بیٹھے ہوتے ہیں کوئی شکار جال میں پھنسے، چنانچہ جتنے عامل اور جادوگر ہیں اتنے ہی ان کے حساب کرنے کے طریقے ، وہ حساب کرکے یہی کہتے ہیں سخت بندش کی گئی ہے، تعویذ ہیں، حاسدین نے جادو کروادیا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے آپ جانتے ہیں، عملیات اور توڑ کے نام پر لوگوں کو اچھا خاصا چونا لگایا جاتا ہے اور لوٹ لیا جاتا ہے۔ تو جناب محترم اور محترمہ مسئلہ جادو یا بندش کا نہیں، مسئلہ وہ ہے جو اوپر میں نے ذکر کردیا ہے۔ ایک بار پھر قرآن کی ان آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا مفہوم ذہن میں تازہ کرلیںکہ : اگر اللہ کسی کو نقصان پہنچانا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا اور اگر اللہ نفع دینا چاہے تو اسے بھی کوئی روک نہیں سکتا، مصیبت اللہ ہی کی طرف سے آتی ہے اور اللہ ہی نے اسے دور بھی کرنا ہے۔ پریشانی اور مصیبت اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ لہذا اس کا حل بھی یہی ہے کہ اللہ ہی کی طرف روجوع کیا جائے۔ صلوة توبہ اور صلوة حاجت روزانہ دو رکعت پڑھ کر اللہ سے دعا کریں، اللہ سے مانگیں، دیکھیں کیسے اللہ کی مدد نہیں آتی۔
لیکن اگر آپ اللہ کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے عاملوں کے پیچھے جائیں گے تو یاد رکھیں، عملیات کا کام کرنے والے عامل آپ سے غیر شرعی اور ناجائز کام بھی کروائیں گے، آپ کو پرچیاں لکھ لکھ کر دیں گے، کوئی تو ویسے ہی لکیریں کھینچ کر دے دیتے ہیں کچھ بھی نہیں لکھا ہوتا بس پرچی آپ کو دی اور رقم آپ سے لی۔ جبکہ کچھ نے جادوگری اور عملیات کو سیکھا ہوتا ہے اس لیے وہ جادو کی کتاب کھولتے ہیں اور اس میں سے کوئی نقش، تعویذ بنا کر آپ کو دے دیتے ہیں ان نقوش اور تعویذات میں کیا کیا ہوتا ہے اس پر ہم آگے چل کر ان شاءاللہ بات کریں گے۔ رشتوں کے مسائل حل کرنے کے لیے عاملین کا سب سے بڑا کمائی کا ذریعہ من گھڑت استخارہ ہے، اس لیے یہاں تھوڑی سی بات استخارہ کے بارے کر لیتے ہیں، کہ استخارہ کیا ہوتا ہے، کب اور کیوں اور کیسے کیا جاتا ہے، جبکہ عاملین نے کیسے استخارہ کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔
استخارہ
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ استخارہ کا مطلب ہے : اللہ سے خیر طلب کرنا۔ اس لفظ کے معنی سے ہی پتا چلتا ہے استخارہ کیا چیز ہے یعنی یہ ایک دعا ہے اور اس کے ذریعے اللہ سے کچھ مانگا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عوام میں استخارہ غیبی خبریں جانے کا ذریعہ کے طور پر مشہور ہے، حالانکہ استخارہ میں ایسی کوئی بات نہیں کہ آپ کو کوئی غیب کی خبر معلوم ہو جائے گی۔اس بات کو مشہور کرنے میں بھی عملیات کا کام کرنے والے عاملین کا ہاتھ ہے۔استخارہ کی تعلیم حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو دی، اپنی امت کو نہ صرف سکھایا بلکہ استخارہ کرنے کا حکم بھی دیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کبھی نہیں بتایا کہ استخارہ کے ذریعے تمہیں غیب کی خبر یا غیب کا علم ہو جائے گا۔ استخارہ اللہ سے خیر طلب کرنے کی ایک دعا ہے، یعنی جب آپ کوئی اہم کام کرنے لگے ہیں، اور آپ پر صورتحال واضح نہیں ہیں، آپ کے سامنے کئی آراء ہیں کئی آپشن ہیں آپ کو سمجھ نہیں آرہی کہ میں کس آپشن کا انتخاب کروں تو ایسے موقع پر استخارہ کیا جاتا ہے یعنی دورکعت نفل پڑھ کر اس کے بعد دعائے استخارہ پڑھی جاتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے اللہ یہ دو تین چار آپشن ہیں مجھے سمجھ نہیں آرہی میں کیا کروں ؟ کون سا آپشن میرے حق میںبرا اور کونسا بہتر ہے میں نہیں جانتا، لہذا میں تیرے سامنے ہاتھ پھیلائے دعا مانگ رہا ہوں کہ جو آپشن میری دنیا آخرت کے لیے بہتر ہے اسے میرے لیے آسان کردے اور جو آپشن میری دنیا آخرت کے لیے برا ہے اسے مجھ سے دور کردے۔
یہ ہے استخارہ کی حقیقت، لیکن یہ ایک کمائی کا بہت بڑا ذریعے بن چکا ہے اس لیے میڈیا پر پیسے خرچ کرکے عاملین اشتہارات چلاتے ہیںکہ ہم سے استخارہ کروائیں، ظاہر ہے وہ اشتہارات پر یہ فنڈ فی سبیل اللہ تو خرچ نہیں کرتے، بلکہ بعد میں یہ سارا پیسہ مزید منافع کے ساتھ آپ ہی کی جیب سے نکالا جاتا ہے۔کسی نے تسبیح والا استخارہ بنا ڈالا اور کسی نے آنکھیں بندکرنے والا استخارہ بنا ڈالا، اب تو فون کال کے دوران ہی ایک منٹ کا استخارہ کرکے بتادیا جاتا ہے ایسا کرو ایسا نہ کرو۔ یاد رکھیں یہ سب من گھڑت فضول اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ یہاں میں محمد عمرانور استاد جامعہ بنوری ٹاون کا ایک مضمون ان کے شکریے کے ساتھ نقل کرتا ہوں۔
استخارہ حدیث نبوی کی روشنی میں
۱- عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارة فی الامور کلھا کما یعلمنا سورة من القرآن (ترمذی )
ترجمہ :حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تمام کاموں میں استخارہ اتنی اہمیت سے سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے۔ایک حدیث میں استخارہ نہ کرنا محرومی اور بدنصیبی قرار دیا گیا۔
۲-من شقوة ابن آدم ترکہ استخارة اللّٰہ (مجمع الاسانید )
یعنی اللہ تعالی سے استخارہ کا چھوڑدینا اور نہ کرنا انسان کے لیے بدبختی اور بدنصیبی میں شمار ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
۳- عن سعد بن وقاص عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من سعادة ابن ادم استخارتہ من اللہ و من شقاوتہ ترک الاستخارة و من سعادة ابن اٰدم رضاہ بما قضاہ اللہ ومن شقوة ابن اٰدم سخطہ بما قضی اللہ(مشکوة)
ترجمہ : انسان کی سعادت اورنیک بختی یہ ہے کہ اپنے کاموں میں استخارہ کرے اور بدنصیبی یہ ہے کہ استخارہ کو چھوڑ بیٹھے،اور انسان کی خوش نصیبی اس میں ہے کہ اس کے بارے میں کیے گئے اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہے اور بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرے۔
ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
۴- ما خاب من استخار وما ندم من استشار (طبرانی)
یعنی جو آدمی اپنے معاملات میں استخارہ کرتا ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہوگا اور جو شخص اپنے کاموں میں مشورہ کرتا ہو اس کو کبھی شرمندگی یا پچھتاوے کا سامنا نہ کرنا پڑے گا کہ میں نے یہ کام کیوں کیا ؟یا میں نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟ ، اس لیے کہ جو کام کیا وہ مشورہ کے بعد کیا اور اگر نہیں کیا تو مشورہ کے بعد نہیں کیا ، اس وجہ سے وہ شرمندہ نہیں ہوگا۔
اس حدیث میں جو یہ فرمایا کہ استخارہ کرنے والاناکام نہیں ہوگا ،مطلب اس کا یہ کہ انجام کے اعتبار سے استخارہ کرنے والے کو ضرور کامیابی ہوگی ، چاہے کسی موقع پر اس کے دل میں یہ خیال بھی آجائے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نہیں ہوا ، لیکن اس خیال کے آنے کے باوجود کامیابی اسی شخص کو ہوگی جو اللہ تعالی سے استخارہ کرتا رہے ، اسی طرح جو شخص مشورہ کرکے کام کرے گا وہ کبھی پچھتائے گا نہیں ، اس لیے کہ خدا نخواستہ اگر وہ کام خراب بھی ہوگیا تو اس کے دل میں اس بات کی تسلی ہوگی کہ میں نے یہ کام اپنی خود رائی اور اپنے بل بوتے پر نہیں کیا تھا بلکہ اپنے دوستوں اور بڑوں سے مشورہ کے بعد کیا تھا ، اب آگے اللہ تعالی کے حوالے ہے کہ وہ جیسا چاہیں فیصلہ فرمادیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوباتوں کا مشورہ دیا ہے کہ جب بھی کسی کام میں کشمکش ہو تو دو کام کرلیا کرو ، ایک استخارہ اور دوسرے استشارہ یعنی مشورہ۔
یہ بھی پڑھیں
قسط نمبر2 جنات کی اقسام
قسط نمبر7 سکل اینڈ بونز
قسط نمبر8 مسلمان اور عملیات کی دنیا
قسط نمبر10 علامات، سنبل،اور کوڈنگ
استخارہ کا مقصد
محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
”واضح ہو کہ استخارہ مسنونہ کا مقصد یہ ہے کہ بندے کے ذمے جو کام تھا وہ اس نے کرلیا اور اپنے آپ کو حق تعالی کے علم محیط اور قدرت کاملہ کے حوالہ کردیا ، گویا استخارہ کرنے سے بندہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگیا ، ظاہر ہے کہ اگر کوئی انسان کسی تجربہ کار عاقل اور شریف شخص سے مشورہ کرنے جاتا ہے تو وہ شخص صحیح مشورہ ہی دیتا ہے اور اپنی مقدور کے مطابق اس کی اعانت بھی کرتا ہے ، گویا استخارہ کیا ہے ؟حق تعالی سے مشورہ لینا ہے ،اپنی درخواست استخارہ کی شکل میں پیش کردی ، حق تعالی سے بڑھ کر کون رحیم وکریم ہے ؟ اس کا کرم بے نظیر ہے ، علم کامل ہے اور قدرت بے عدیل ہے ، اب جو صورت انسان کے حق میں مفید ہوگی، حق تعالی اس کی توفیق دے گا ، اس کی رہنمائی فرمائے گا ، پھر نہ سوچنے کی ضرورت ، نہ خواب میں نظر آنے کی حاجت، جو اس کے حق میں خیر ہوگا وہی ہوگا ، چاہے اس کے علم میں اس کی بھلائی آئے یا نہ آئے ، اطمینان وسکون فی الحال حاصل ہویانہ ہو ، ہوگا وہی جو خیر ہوگا ، یہ ہے استخارہ مسنونہ کا مطلوب !اسی لئے تمام امت کے لئے تاقیامت یہ دستور العمل چھوڑا گیا ہے “۔(دورحاضر کے فتنے اور ان کا علاج)
استخارہ کی حکمت
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”حجة اللّٰہ البالغة“ میں استخارہ کی دو حکمتیں بیان فرمائیں ہیں :
۱۔فال نکالنے سے نجات اور اس کی حرمت: یعنی پہلی حکمت یہ کہ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ جب کوئی اہم کام کرنا ہوتا مثلا سفر یا نکاح یا کوئی بڑا سودا کرنا ہوتا تو وہ تیروں کے ذریعے فال نکالا کرتے تھے ، یہ تیر کعبہ شریف کے مجاور کے پاس رہتے تھے ، ان میں سے کسی تیر پر لکھا ہوتا ”امرنی ربی“ (میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے) اور کسی پر لکھا ہوتا ”نہانی ربی“(میرے رب نے مجھے منع کیا ہے)اور کوئی تیر بے نشان ہوتا، اس پر کچھ لکھا ہوا نہیں ہوتا تھا، مجاور تھیلا ہلا کر فال طلب کرنے والے سے کہتا کہ ہاتھ ڈال کر ایک تیر نکال لے ،اگر”امرنی ربی“(کام کے حکم )والا تیر نکلتا تو وہ شخص کام کرتا اور”نہانی ربی“(کام سے منع) والا تیر نکلتا تو وہ کام سے رک جاتا اور بے نشان تیر ہاتھ میں آتا تو دوبارہ فال نکالی جاتی، سورة مائدہ آیت نمبر ۳ کے ذریعے اس کی حرمت نازل ہوئی ، اور حرمت کی دو وجہیں ہیں :
۱- یہ ایک بے بنیاد عمل ہے اور محض اتفاق ہے ، جب بھی تھیلے میں ہاتھ ڈالا جائے گا تو کوئی نہ کوئی تیر ضرور ہاتھ آئے گا۔ اس طرح سے فال نکالنا یہ اللہ تعالی پر افترا اور جھوٹا الزا م ہے ، اللہ تعالی نے کہاں حکم دیا ہے اور کب منع کیا ہے ؟اور اللہ پر افتراءحرام ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فال کی جگہ استخارہ کی تعلیم دی ہے، اس میں حکمت یہ ہے کہ جب بندہ رب علیم سے رہنمائی کی التجاءکرتا ہے تو اپنے معاملے کو اپنے مولی کے حوالے کرکے اللہ کی مرضی معلوم کرنے کا شدید خواہش مند ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالی کے دروازے پر جا پڑتا ہے اور اس کا دل ملتجی ہوتا ہے تو ممکن نہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندے کی رہنمائی اور مدد نہ فرمائیں ، اللہ تعالی کی طرف سے فیضان کا باب کشادہ ہوتا ہے ، اور اس پر معاملہ کا راز کھولاجاتا ہے ، چنانچہ استخارہ محض اتفاق نہیں ہے، بلکہ اس کی مضبوط بنیاد ہے۔
۲۔فرشتوں سے مشابہت: یعنی دوسری حکمت یہ کہ استخارہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان فرشتہ صفت بن جاتا ہے ، استخارہ کرنے والا اپنی ذاتی رائے سے نکل جاتا ہے اور اپنی مرضی کو خدا کی مرضی کے تابع کردیتا ہے ،اس کی بہیمیت (حیوانیت) ملکیت(فرشتہ صفتی)کی تابع داری کرنے لگتی ہے اور وہ اپنا رخ پوری طرح اللہ کی طرف جھکادیتا ہے تو اس میں فرشتوں کی سی خو بو پیدا ہوجاتی ہے ، ملائکہ الہام ربانی کا انتظام کرتے ہیں اور جب ان کو الہام ہوتا ہے تو وہ داعیہ ربانی سے اس معاملے میں اپنی سی پوری کوشش خرچ کرتے ہیں ، ان میں کوئی داعیہ نفسانی نہیں ہوتا ، اسی طرح جو بندہ بکثرت استخارہ کرتا ہے وہ رفتہ رفتہ فرشتوں کے مانند ہوجاتا ہے ، حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :ملائکہ کے مانند بننے کا یہ ایک تیر بہدف مجرب نسخہ ہے جو چاہے آزما کر دیکھے۔ (حجةاللہ البالغة)
استخارہ کا مسنون اور صحیح طریقہ
سنت کے مطابق استخارہ کا سیدھا سادہ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو)دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ کرے کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں۔
سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا مانگیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے، یہ بڑی عجیب دعا ہے ،اللہ جل شانہ کے نبی ہی یہ دعا مانگ سکتے ہے اور کسی کے بس کی بات نہیں ، کوئی گوشہ زندگی کا اس دعاء میں نبی ص صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا نہیں ، اگر انسان ایڑی چوٹی کا زور لگا لیتا تو بھی ایسی دعا کبھی نہ کرسکتا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے تلقین فرمائی ،اگرکسی کو دعا یاد نہ ہو توکوئی بات نہیں کتاب سے دیکھ کریہ دعا مانگ لے ،اگر عربی میں دعا مانگنے میں دقت ہورہی ہو تو ساتھ ساتھ اردو میں بھی یہ دعا مانگے، بس ! دعا کے جتنے الفاظ ہیں، وہی اس سے مطلوب ومقصود ہیں ، وہ الفاظ یہ ہیں :
استخارہ کی مسنون دعا
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ اَللّٰهُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِهٖ وَ اٰجِلِهٖ ، فَاقْدِرْهُ لِیْ ، وَ یَسِّرْهُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْهِ وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِهٖ وَ اٰجِلِهٖ ، فَاصْرِفْهُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْهُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِهٖ ۔ (بخاری، ترمذی)
دعاکرتے وقت جب ”ہذا الامر “پر پہنچے (جس کے نیچے لکیر بنی ہے) تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”ہذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلا ”ہذا السفر “یا ”ہذا النکاح “ یا ”ہذہ التجارة “یا ”ہذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”ہذا الامر “ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے۔
استخارہ کی دعا کا مطلب ومفہوم
اے اللہ ! میں آپ کے علم کا واسطہ دے کر آپ سے خیراور بھلائی طلب کرتا ہوں اور آپ کی قدرت کا واسطہ دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں ، آپ غیب کو جاننے والے ہیں۔اے اللہ ! آپ علم رکھتے ہیں میں علم نہیں رکھتا ، یعنی یہ معاملہ میرے حق میں بہتر ہے یا نہیں ،اس کا علم آپ کو ہے، مجھے نہیں ، اور آپ قدرت رکھتے ہیں اور مجھ میں قوت نہیں۔یا اللہ ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں بہتر ہے ، میرے دین کے لیے بھی بہتر ہے ، میری معاش اور دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور میرے فوری نفع کے اعتبار سے اور دیرپا فائدے کے اعتبار سے بھی تو اس کو میرے لیے مقدر فرمادیجیے اور اس کو میرے لیے آسان فرمادیجیے اور اس میں میرے لیے برکت پیدا فرمادیجیے۔
اور اگر آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں برا ہے ،میرے دین کے حق میں برا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں برا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے برا ہے، فوری نفع اور دیرپا نفع کے اعتبار سے بھی بہتر نہیں ہے تو اس کام کو مجھ سے پھیر دیجیے اور مجھے اس سے پھیر دیجیے اور میرے لیے خیر مقدر فرمادیجیے جہاں بھی ہو ، یعنی اگر یہ معاملہ میرے لیے بہتر نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیجیے اور اس کے بدلے جو کام میرے لیے بہتر ہو اس کو مقدر فرمادیجیے ، پھر مجھے اس پر راضی بھی کر دیجیے اور اس پر مطمئن بھی کردیجیے۔ (اصلاحی خطبات)
استخارہ کتنی بار کیا جائے؟
حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ انس ! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے بارے میں اللہ تعالی سے سات مرتبہ استخارہ کرو ، پھر اس کے بعد (اس کا نتیجہ) دیکھو، تمہارے دل میں جو کچھ ڈالا جائے ، یعنی استخارے کے نتیجے میں بارگاہ حق کی جانب سے جو چیز القاءکی جائے اسی کو اختیار کرو کہ تمہارے لیے وہی بہتر ہے۔(مظاہر حق)
بہتر یہ ہے کہ استخارہ تین سے سات دن تک پابندی کے ساتھ متواتر کیا جائے، اگر اس کے بعد بھی تذبذب اور شک باقی رہے تو استخارہ کاعمل مسلسل جاری رکھے ، جب تک کسی ایک طرف رجحان نہ ہوجائے کوئی عملی اقدام نہ کرے ، اس موقع پر اتنی بات سمجھنی ضروری ہے کہ استخارہ کرنے کے لیے کوئی مدت متعین نہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ایک ماہ تک استخارہ کیا تھا تو ایک ماہ بعد آپ کو شرح صدر ہوگیا تھا اگر شرح صدر نہ ہوتا تو آپ آگے بھی استخارہ جاری رکھتے۔(رحمة اللہ الواسعة)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”دعائے استخارہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی سے دعائے خیر کرتا رہے ، استخارہ کرنے کے بعد ندامت نہیں ہوتی اور یہ مشورہ کرنا نہیں ہے، کیونکہ مشورہ تو دوستوں سے ہوتا ہے ، استخارہ سنت عمل ہے ، اس کی دعا مشہور ہے ،اس کے پڑھ لینے سے سات روز کے اندر اندر قلب میں ایک رجحان پیدا ہوجاتا ہے اور یہ خواب میں کچھ نظرآنا ،یا یہ قلبی رجحان حجت شرعیہ نہیں ہیں کہ ضرور ایسا کرناہی پڑے گا ، اور یہ جو دوسروں سے استخارہ کرایا کرتے ہیں ،یہ کچھ نہیں ہے ، بعض لوگوں نے عملیات مقرر کرلیے ہیں دائیں طرف یا بائیں طرف گردن پھیرنا یہ سب غلط ہیں ، ہاں دوسروں سے کرالینا گناہ تو نہیں لیکن اس دعا کے الفاظ ہی ایسے ہیں کہ خود کرنا چاہیے“۔(مجالس مفتی اعظم )
استخارہ کا نتیجہ اور مقبول ہونے کی علامت استخارہ سے کس طرح رہنمائی ملے گی ؟
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ استخارہ کا صرف اتنا اثر ہوتا ہے کہ جس کام میں تردد اور شک ہو کہ یوں کرنا بہتر ہے یا یوں ؟یا یہ کرنا بہتر ہے یا نہیں ؟تو استخارے کے مسنون عمل سے دو فائدے ہوتے ہیں :
۱-دل کا کسی ایک بات پر مطمئن ہوجانا۔ ۲-اور اس مصلحت کے اسباب میسر ہوجانا۔ تاہم اس میں خواب آنا ضروری نہیں۔(اصلاح انقلاب امت)
استخارہ میں صرف یکسوئی کا حاصل ہونا استخارہ کے مقبول ہونے کی دلیل ہے، اس کے بعد اس کے مقتضی پر عمل کرے ، اگرکئی مرتبہ استخارہ کے بعد بھی یکسوئی اور کسی ایک جانب اطمینان نہ ہوتو استخارہ کے ساتھ ساتھ استشارہ بھی کرے یعنی اس کام میں کسی سے مشورہ بھی لے لیکن استخارہ میں ضروری نہیں کہ یکسوئی ہوا ہی کرے۔(الکلام الحسن)
بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خود انسان کے دل کا رجحان ایک طرف ہوجاتا ہے ، بس جس طرف رجحان ہوجائے وہ کام کر لے ، اور بکثرت ایسا رجحان ہوجاتا ہے ، لیکن بالفرض اگر کسی ایک طرف رجحان نہ بھی ہو بلکہ دل میں کشمکش موجود ہو تو بھی استخارہ کا مقصد حاصل ہوگیا ، اس لیے کہ بندہ کے استخارہ کرنے کے بعد اللہ تعالی وہی کرتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ، اس کے بعد حالات ایسے پیدا ہوجاتے ہیں پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لیے خیر ہوتی ہے اور اس کو پہلے سے معلوم بھی نہیں ہوتا ، بعض اوقات انسان ایک راستے کو بہت اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن اچانک رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں اور اللہ تعالی اس کو اس بندے سے پھیر دیتے ہیں ، لہذا اللہ تعالی استخارہ کے بعد اسباب ایسے پیدا فرمادیتے ہیں کہ پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لیے خیر ہوتی ہے ، اب خیر کس میں ہے ؟ انسان کو پتہ نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالی فیصلہ فرمادیتے ہیں۔
بس استخارہ کی حقیقت اتنی سی ہے کہ دو رکعت نفل پڑھ کر دعا مانگ لی ، پھر آگے جوہوگا اسی میں خیر ہے ، کام ہوگیا تو خیر ! نہیں ہوا تو خیر ! دل جس طرف متوجہ ہو جائے اور جس کے اسباب پیدا ہورہے ہوں یقین کر لیں کہ یہی میرے لیے بہتر ہے اور اگر دل کی توجہ ہٹ گئی یا اسباب پیدا نہیں ہوئے یا اسباب موجود تھے مگر استخارہ کے بعد ختم ہوگئے، کام نہیں ہوسکا تو اطمینان رکھے، اللہ پر یقین رکھے کہ اس میں میری بہتری ہوگی ، اپنی طبیعت بہت چاہتی ہے مگر اللہ تعالی میرے نفع ونقصان کو مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، اس طرح سوچنے سے ان شاءاللہ اطمینان ہوجائے گا ، اگر دل کا رجحان کسی جانب نہ ہو تو صرف اسباب کے پیش نظر جو فیصلہ بھی کرلے گا اس میں خیر ہوگی ، خدا نخواستہ اگر استخارہ کے بعد کوئی نقصان بھی ہوجائے تو یہ عقیدہ رکھے کہ استخارہ کی برکت سے اللہ تعالی نے چھوٹے نقصان کے ذریعے کسی بڑے نقصان سے بچا لیا ، استخارہ کی دعا میں دین کا ذکر پہلے ہے اور دنیا کا بعدمیں، اس لیے کہ مسلمان کا اصل مقصد دین ہے، دنیا تودر حقیقت دین کے تابع ہے۔
استخارہ کے باوجود اگرنقصان ہوگیا تو ؟!
عن مکحول الازدی رحمہ اللہ تعالی قال : سمعت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ یقول: ان الرجل یستخیر اللہ تبارک وتعالی فیختار لہ، فیسخط علی ربہ عز وجل، فلا یلبث ان ینظر فی العاقبة فاذا ہو خیر لہ? (کتاب الزہد)
مکحول ازدی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا یہ ارشاد سنا ،فرماتے ہیں کہ بعض اوقات انسان اللہ تعالی سے استخارہ کرتا ہے کہ جس کام میں میرے لیے خیر ہو وہ کام ہوجائے تو اللہ تعالی اس کے لیے وہ کام اختیار فرمادیتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ،لیکن ظاہری اعتبار سے وہ کام اس بندہ کی سمجھ میں نہیں آتا تو بندہ اپنے پروردگار سے ناراض ہوتا ہے کہ میں نے اللہ تعالی سے تو یہ کہا تھا کہ میرے لیے اچھا کام تلاش کیجیے ، لیکن جو کام ملا وہ تو مجھے اچھا نظر نہیں آرہا ہے ، اس میں میرے لیے تکلیف اور پریشانی ہے ، لیکن کچھ عرصے بعد جب انجام سامنے آتا ہے تب اس کو پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں اللہ تعالی نے میرے لیے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہتر تھا ، اس وقت اس کو پتہ نہیں تھا اور یہ سمجھ رہا تھا کہ میرے ساتھ زیادتی اور ظلم ہوا ہے ، اوراصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فیصلے کا صحیح ہونا بعض اوقات دنیا میں ظاہر ہوجاتا ہے اور بعض اوقات آخرت میں ظاہر ہوگا۔
اب جب وہ کام ہوگیا تو ظاہری اعتبار سے بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نظر نہیں آرہا ہے ، دل کے مطابق نہیں ہے ، تو اب بندہ اللہ تعالی سے شکوہ کرتا ہے کہ یا اللہ ! میں نے آپ سے استخارہ کیا تھا مگر کام وہ ہوگیا جو میری مرضی اور طبیعت کے خلاف ہے اور بظاہر یہ کام اچھا معلوم نہیں ہورہا ہے ، اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرمارہے ہیں کہ ارے نادان ! تو اپنی محدود عقل سے سوچ رہا ہے کہ یہ کام تیرے حق میں بہتر نہیں ہوا ، لیکن جس کے علم میں ساری کائنات کا نظام ہے وہ جانتا ہے کہ تیرے حق میں کیا بہتر تھا اور کیا بہتر نہیں تھا ، اس نے جو کیا وہی تیرے حق میں بہتر تھا ، بعض اوقات دنیا میں تجھے پتہ چل جائے گا کہ تیرے حق میں کیا بہتر تھا اور بعض اوقات پوری زندگی میں کبھی پتہ نہیں چلے گا ، جب آخرت میں پہنچے گا تب وہاں جا کر پتہ چلے گا کہ واقعة یہی میرے لیے بہتر تھا۔
اس کی مثال یوں سمجھیں جیسے ایک بچہ ہے جو ماں باپ کے سامنے مچل رہا ہے کہ فلاں چیز کھاوں گا اور ماں باپ جانتے ہیں کہ اس وقت یہ چیز کھانا بچے کے لیے نقصان دہ اور مہلک ہے ، چنانچہ ماں باپ بچے کو وہ چیز نہیں دیتے ، اب بچہ اپنی نادانی کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ میرے ماں باپ نے مجھ پر ظلم کیا ،میں جو چیز مانگ رہا تھا وہ مجھے نہیں دی اور اس کے بدلے میں مجھے کڑوی کڑوی دوا کھلا رہے ہیں ، اب وہ بچہ اس دوا کو اپنے حق میں خیر نہیں سمجھ رہا ہے لیکن بڑا ہونے کے بعد جب اللہ تعالی اس بچے کو عقل اور فہم عطا فرمائیں گے اور اس کو سمجھ آئے گی تو اس وقت اس کو پتہ چلے گا کہ میں تو اپنے لیے موت مانگ رہا تھا اور میرے ماں باپ میرے لیے زندگی اور صحت کا راستہ تلاش کررہے تھے ، اللہ تعالی تو اپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ مہربان ہیں ، اس لیے اللہ تعالی وہ راستہ اختیار فرماتے ہیں جو انجام کار بندہ کے لیے بہتر ہوتا ہے ، اب بعض اوقات اس کا بہتر ہونا دنیا میں پتہ چل جاتا ہے اور بعض اوقات دنیا میں پتہ نہیں چلتا۔یہ کمزور انسان کس طرح اپنی محدود عقل سے اللہ تعالی کے فیصلوں کا ادراک کرسکتا ہے، وہی جانتے ہیں کہ کس بندے کے حق میں کیا بہتر ہے؟ انسان صرف ظاہر میں چند چیزوں کو دیکھ کر اللہ تعالی سے شکوہ کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالی کے فیصلوں کو برا ماننے لگتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا کہ کس کے حق میں کیا اور کب بہتر ہے۔اسی وجہ سے اس حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمارہے ہیں کہ جب تم کسی کام کا استخارہ کرچکو تو اس کے بعد اس پر مطمئن ہوجاو? کہ اب اللہ تعالی جو بھی فیصلہ فرمائیں گے وہ خیر ہی کا فیصلہ فرمائیں گے ، چاہے وہ فیصلہ ظاہر نظر میں تمہیں اچھا نظر نہ آرہا ہو ، لیکن انجام کے اعتبار سے وہی بہتر ہوگا ، اور پھر اس کا بہتر ہونا یا تو دنیا ہی میں معلوم ہوجائے گا، ورنہ آخرت میں جا کر تو یقینا معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالی نے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہتر تھا۔(اصلاحی خطبات)
استخارہ کے بارے میں چند کوتاہیاں اورغلط فہمیاں
مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ”اب دیکھئے یہ(استخارہ) کس قدر آسان کام ہے مگر اس میں بھی شیطان نے کئی پیوند لگادیے ہیں :
۱- پہلا پیوند یہ کہ دو رکعت پڑھ کر کسی سے بات کیے بغیر سو جاو ¿ ، سونا ضروری ہے ورنہ استخارہ بے فائدہ رہے گا۔
۲- دوسرا پیوند یہ لگایا کہ لیٹو بھی دائیں کروٹ پر۔
۳- تیسرا یہ کہ قبلہ رو لیٹو۔
۴- چوتھا پیوند یہ لگایا کہ لیٹنے کے بعد اب خواب کا انتظار کرو ، استخارہ کے دوران خواب نظر آئے گا۔
۵- پانچواں پیوند یہ لگایا کہ اگر خواب میں فلاں رنگ نظر آئے تو وہ کام بہتر ہوتا ہے ، فلاں نظر آئے تو وہ بہتر نہیں۔
۶- چھٹا پیوند یہ لگایا کہ اس خواب میں کوئی بزرگ آئے گا بزرگ کا انتظار کیجیے کہ وہ خواب میں آکر سب کچھ بتادے گا ، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بزرگ کون ہو گا؟اگر شیطان ہی بزرگ بن کر خواب میں آجائے تو اس کو کیسے پتہ چلے گا کہ یہ شیطان ہے یا کوئی بزرگ؟
یاد رکھیے کہ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی حدیث سے ثابت نہیں ، بس یہ باتیں لکھنے والوں نے کتابوں میں بغیر تحقیق کے لکھ دی ہیں ، اللہ تعالی ان لکھنے والے مصنّفین پر رحم فرمائیں“۔ (خطبات الرشید)
باوضو ،قبلہ رخ اور دائیں کروٹ پر سونا نیندکے آداب میں سے تو ضرور ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ استخارہ رات کو سونے سے پہلے ان مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ لازمی سمجھ کر کیا جائے۔
1۔ استخارہ صرف اہم کام کے لیے نہیں !
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ صرف اسی کام میں ہے جو کام بہت اہم یا بڑا ہے اور جہاں انسان کے سامنے دو راستے ہیں یا جس کام میں انسان کو تردد یا شک ہے صرف ایسے ہی کاموں میں استخارہ کرنا چاہیے ، چنانچہ آج کل عوام الناس کو اپنی زندگی کے صرف چند مواقع پر ہی استخارہ کے مسنون عمل کی توفیق نصیب ہوتی ہے، مثلا نکاح کے لیے یا کاروبار کے لیے استخارہ کرلیا اور بس!گویا ہم ان چندگنے چنے مواقع پر تو اللہ سے خیر اور بھلائی کے طلب گار ہیں اور باقی تمام زندگی کے روز وشب میں ہم اللہ سے خیر مانگنے سے بے نیاز اور مستغنی ہیں، یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ استخارہ صرف اہم اور بڑے کاموں ہی میں نہیں ہے بلکہ اپنے ہر کام میں چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، اللہ تعالی سے خیر اور بھلائی طلب کرنی چاہیے، اسی طرح استخارے میں یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کام میں تردداور تذبذب ہو تب ہی استخارہ کیا جائے ، بلکہ تردد نہ بھی ہو اور اس کام میں ایک ہی صورت اورایک ہی راستہ ہو تب بھی استخارہ کرنا چاہیے ،حدیث نبوی کے الفاظ ہیں :
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارة فی الامورکلھا(بخاری)
یعنی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو ہر کام میں استخارے یعنی اللہ سے خیر طلب کرنے کی تعلیم دیتے تھے۔
2۔استخارہ کے لیے کوئی وقت مقررنہیں
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ ہمیشہ رات کو سوتے وقت ہی کرنا چاہیے یا عشاءکی نماز کے بعد ہی کرنا چاہیے ، ایسا کوئی ضروری نہیں ، بلکہ جب بھی موقع ملے اس وقت استخارہ کرلے ، نہ رات کی کوئی قید ہے اور نہ دن کی کوئی قید ہے، نہ سونے کی کوئی قید ہے اور نہ جاگنے کی کوئی قید ہے بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو۔
3۔استخارہ کے بعدخواب آنا ضروری نہیں
استخارہ کے بارے میں لوگوں کے درمیان طرح طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ، عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ”استخارہ “ کرنے کا کوئی خاص طریقہ اور خاص عمل ہوتا ہے ، اس کے بعد کوئی خواب نظر آتا ہے اور اس خواب کے اندر ہدایت دی جاتی ہے کہ فلاں کام کرو یا نہ کرو، خوب سمجھ لیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے استخارہ کا جو مسنون طریقہ ثابت ہے، اس میں اس قسم کی کوئی بات موجود نہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ کرنے کے بعدآسمان سے کوئی فرشتہ آئے گا یاکوئی کشف والہام ہوگا یا خواب آئے گا اور خواب کے ذریعے ہمیں بتایا جائے گا کہ یہ کام کرو یا نہ کرو ، یاد رکھیے ! خواب آنا کوئی ضروری نہیں کہ خواب میں کوئی بات ضرور بتائی جائے یا خواب میں کوئی اشارہ ضرور دیا جائے ، بعض مرتبہ خواب میں آجاتا ہے اور بعض مرتبہ نہیں آتا۔
4۔کسی دوسرے سے ”استخارہ نکلوانا“
استخارہ کے باب میں لوگ ایک غلطی کرتے ہیں اس کی اصلاح بھی ضروری ہے وہ یہ کہ بہت سے لوگ خود استخارہ کرنے کی بجائے دوسروں سے کرواتے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے ”استخارہ نکال دیجیے“گویا جیسے فال نکالی جاتی ہے ویسے ہی استخارہ بھی نکال دیجیے، دوسروں سے استخارے کروانے کا مطلب تو وہی عمل ہوا جو جاہلیت میں مشرکین کیا کرتے تھے اور جس کے انسداداور خاتمے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو استخارے کی نماز اور دعا سکھائی، اور یہ اسی وجہ سے ہوا کہ لوگوں نے استخارے کو یہ سمجھ لیا ہے کہ اس سے گویا کوئی خبر مل جاتی ہے یایہ الہام ہوجاتا ہے کہ کیا کرنا چاہیے؟ جس طرح جاہلیت میں تیروں پر لکھ کر یہ معلوم کیا جاتا تھا اسی طرح آج کل تسبیح کے دانوں پر اس قسم کے استخارے کیے جارہے ہیں، یہ طریقہ بالکل غلط ہے اور انتہا تو یہ ہوگئی کہ اب عوام میں یہ رواج چل پڑا ہے کہ ٹی وی اور ریڈیو پر استخارے نکلوائے جارہے ہیں،حالانکہ استخارہ اللہ تعالی سے اپنے معاملے میں خیر اور بھلائی کا طلب کرنا ہے نہ کہ خبر کا معلوم کرنا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہدایت یہ ہے کہ جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے ، دوسروں سے کروانے کا کوئی ثبوت نہیں ،جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں موجود تھے اس وقت صحابہ سے زیادہ دین پر عمل کرنے والا کوئی نہیں تھا اور حضور سے بہتر استخارہ کرنے والا بھی کوئی نہ تھا لیکن آج تک کہیں یہ نہیں لکھا کہ کسی صحابی نے حضور سے جا کر یہ کہا ہو کہ آپ میرے لیے استخارہ کردیجیے ، سنت طریقہ یہی ہے کہ صاحب معاملہ خود کرے، اسی میں برکت ہے۔ لوگ یہ سوچ کر کہ ہم تو گناہ گار ہیں ،ہمارے استخارے کا کیا اعتبار ؟ اس لیے خود استخارہ کرنے کی بجائے فلاں بزرگ اور عالم سے یا کسی نیک آدمی سے کرواتے ہیں کہ اس میں برکت ہوگی ، لوگوں کا یہ زعم اور یہ عقیدہ غلط ہے ، جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے خواہ وہ نیک ہو یا گناہ گار، دوسرے سے استخارہ کرانا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،خود د عا کے الفاظ سے بھی یہی مترشح ہورہا ہے ،دعا کے الفاظ میں متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ، اس لیے صاحب معاملہ کو خود کرنا چاہیے ، استخارہ دوسرے سے کروانا، ناجائز تونہیں لیکن بہتر اور مسنون بھی نہیں ہے۔سلامتی کا طریقہ وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے کہ صاحب معاملہ خود کرے۔
5۔ہم گناہ گار ہیں! استخارہ کیسے کریں ؟
انسان کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، بندہ تو اللہ ہی کا ہے اور جب بندہ اللہ سے مانگے گا تو جواب ضرور آئے گا،جس ذات کا یہ فرمان ہوکہ” ادعونی استجب لکم“ مجھ سے مانگو میں دعا قبول کروں گا۔ تویہ اس عظیم وکبیر ذات کے ساتھ بد گمانی ہے، وہ ذات تو ایسی ہے کہ شیطان جب جنت سے نکالاجارہا ہے راندہ درگاہ کیا جارہا ہے تواس وقت شیطان نے دعا کی، اللہ نے اس کی دعا کو قبول فرمایا، جو شیطان کی دعا قبول کررہا ہے کیا وہ ہم گناہ گاروں کی دعا قبول نہ کرے گا اور جب کوئی استخارہ رسول اللہ کی اتباع سنت کے طور پر کرے گا تو یہ ممکن نہیں کہ اللہ دعا نہ سنے بلکہ ضرور سنے گا اور خیر کو مقدر فرمائے گا،اللہ کی بارگاہ میں سب کی دعائیں سنی جاتی ہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ گناہوں سے بچنا چاہیے تاکہ دعا جلد قبول ہو۔
گناہ گار کا استخارہ
لوگوں میں بکثرت یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ گناہ گار استخارہ نہیں کرسکتے، یہ دو وجہ سے باطل اور غلط ہے : ۱- پہلی وجہ یہ کہ گناہوں سے بچنا آپ کے اختیار میں ہے ، مسلمان ہو کر کیوں گناہ گار ہیں؟ گناہ صادر ہوگیا تو صدق دل سے توبہ کرلیجیے ، بس گناہوں سے پاک ہوگئے ، گناہ گار نہ رہے ، نیک لوگوں کے زمرے میں شامل ہوگئے ، توبہ کی برکت سے اللہ تعالی نے پاک کردیا ، اب اللہ کی اس رحمت کی قدر کریں اور آئندہ جان بوجھ کر گناہ نہ کریں۔
۲- دوسری وجہ یہ کہ استخارہ کے لیے شریعت نے تو کوئی ایسی شرط نہیں لگائی کہ استخارہ گناہ گار انسان نہ کرے، کوئی ولی اللہ کرے ، جو شرط شریعت نے نہیں لگائی آپ اپنی طرف سے اس شرط کو کیوں بڑھاتے ہیں؟ شریعت کی طرف سے تو صرف یہ حکم ہے کہ جس کی حاجت ہو وہ استخارہ کرے خواہ وہ گناہ گار ہو یا نیک ، جیسا بھی ہو خود کرے ، عوام یہ کہتے ہیں کہ استخارہ کرنا بزرگوں کا کام ہے تو بزرگ حضرات بھی سمجھنے لگے کہ ہاں! یہ صحیح کہہ رہے ہیں ، استخارہ کرنا ہمارا ہی کام ہے ،عوام کا کام نہیں ، عوام کو غلطی پر تنبیہ کرنے کی بجائے خود غلطی میں شریک ہوگئے ، ان کے پاس جو بھی چلا جائے یہ پہلے سے تیار بیٹھے ہیں کہ ہاں لائیں ! آپ کا استخارہ ہم ”نکال دیں گے “اور استخارہ کرنے کو ”استخارہ نکالنا“کہتے ہیں ،یاد رکھیں یہ ایک غلط روش ہے اوراس غلط روش کی اصلاح فرض ہے۔
6۔استخارہ کے ذریعہ گذشتہ یا آئندہ کا کوئی واقعہ معلوم کرنا
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ کسی امر کے مصلحت یا خلاف مصلحت ہونے میں تردد ہو تو خاص دعا پڑھ کر اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو ، اس کے دل میں جو بات عزم اور پختگی کے ساتھ آئے اسی میں خیر سمجھے ، استخارہ کا مقصد تردداور شک ختم کرنا ہے نہ کہ آئندہ کسی واقعے کو معلوم کرلینا۔
بعض لوگ استخارہ کی یہ غرض بتلاتے ہیں کہ اس سے گذشتہ زمانے میں پیش آنے والا کوئی واقعہ یا آئندہ ہونے والا واقعہ معلوم ہوجاتا ہے ، سو استخارہ شریعت میں اس غرض سے منقول نہیں ، بلکہ وہ تو محض کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا تردد اور شک دور کرنے کے لیے ہے ، نہ کہ واقعات معلوم کرنے کے لیے ،بلکہ ایسے استخارہ کے ثمرہ اور نتیجے پر یقین کرنا بھی ناجائز ہے۔(اغلاط العوام)
6۔استخارہ کے ذریعے چور کا پتہ یا خواب میں کوئی بات معلوم کرنا
یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح استخارہ سے گذشتہ زمانے میں پیش آنے والاکوئی واقعہ نہیں پتہ چل سکتا بالکل اسی طرح آئندہ پیش آنے والا واقعہ کہ فلاں بات یوں ہوگی معلوم نہیں کیا جاسکتا ، اور اگر کوئی استخارہ کو اس غرض کے لیے سمجھے ہوئے ہے تو وہ اپنے غلط خیال کی اصلاح کرے کہ یہ بالکل باطل اعتقاد ہے ، مثلا کسی کے ہاں چوری ہوجائے تو اس غرض کے لیے کہ چور کا پتہ معلوم ہوجائے استخارہ کرنا نہ تو جائز ہے اور نہ مفید ہے۔
اور بعض بزرگوں سے جواس قسم کے بعض استخارے منقول ہیں جس سے کوئی واقعة صراحتا یا اشارة خواب میں نظر آجائے ،سو وہ استخارہ نہیں ہے بلکہ خواب نظر آنے کا عمل ہے ، پھر اس کا یہ اثر بھی لازمی نہیں ، خواب کبھی نظر آتا ہے اور کبھی نہیں اور اگر خواب نظر آبھی گیا تو وہ محتاج تعبیر ہے، اگرچہ صراحت کے ساتھ نظر آئے پھر تعبیر جو ہوگی وہ بھی ظنی ہوگی یقینی نہیں ، اس میں اتنے شبہات ہیں پس اس کو استخارہ کہنا یا مجاز ہے اگر ان بزرگوں سے یہ نام منقول ہے، ورنہ اغلاط عامہ میں سے ہے۔ (اصلاح انقلاب امت)
8۔استخارہ کام کے ارادہ سے پہلے ہو
استخارہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ ارادہ ابھی کر لو پھر برائے نام استخارہ بھی کرلو ، استخارہ تو ارادہ سے پہلے کرنا چاہیے تاکہ ایک طرف قلب کو سکون پیدا ہوجائے ، اس میں لوگ بڑی غلطی کرتے ہیں ، استخارہ اس شخص کے لیے مفید ہوتا ہے جو خالی الذہن ہو ورنہ جو خیالات ذہن میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں دل اسی جانب مائل ہوجاتا ہے اور وہ شخص اس غلط فہمی کا شکار رہتا ہے کہ یہ بات استخارہ سے معلوم ہوئی ہے۔
9۔استخارہ صرف جائز کاموں میں ہے
ایک بات یہ بھی سمجھ لینی چاہیے کہ استخارہ کا محل مباحات ہے ،جو مباح یعنی جائز کام ہیں ان میں استخارہ کرناچاہیے ،جو چیزیں اللہ نے فرض کردی ہیں یا واجبات اور سنن موکدہ ہیں ان میں استخارے کی حاجت نہیں۔ اسی طرح جن کاموں کو اللہ اوراس کے رسول نے حرام اور ناجائز کردیا ہے ان میں بھی استخارہ نہیں ہے ،مثلا کوئی آدمی استخارہ کرے کہ نماز پڑھوں یانہ پڑھوں؟ روزہ رکھوں یانہ رکھوں؟ تویہاں استخارہ نہیں، یہ کام تو اللہ تعالی نے فرض کردیاہے ،یا کوئی شخص اس بارے میں استخارہ کرے کہ شراب پیوں یانہ پیوں، رشوت لوں کہ نہ لوں ،ویڈیو فلموں کا کاروبار کروں نہ کروں، سودی معاملہ کروں یانہ کروں تو ان سب منہیات میں بھی استخارہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ یہ سب تو حرام ہیں، استخارہ ان چیزوں میں کیا جائے جو جائز امورہیں،رزق حلال کے حاصل کرنے اور کسب معاش کے لیے استخارے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو فریضہ ہے استخارہ اس میں کیا جائے کہ رزق حلال کے حصول کے لیے ملازمت کروں یا تجارت کروں ؟ تجارت کپڑے کی کی جائے یا اشیائے خورد ونوش کی؟ اب یہاں استخارہ کی ضرورت ہے ، اسی طرح اگر حج کے لیے جانا ہو تو یہ استخارہ نہ کرے کہ میں جاوں یا نہ جاوں؟ بلکہ یوں استخارہ کرے کہ فلاں دن جاوں یا نہ جاوں ؟۔
رشتوں کے لیے استخارہ
رشتہ کا معاملہ عام معاملات سے الگ ہے ، یہ صرف اولاد کا کام نہیں بلکہ والدین کا کام بھی ہے ، صحیح رشتہ کا انتخاب والدین ہی کرسکتے ہیں ، یہ ان کی ذمہ داری ہے اور ان کومستقبل کے حوالے سے سوچنا پڑتا ہے کہ کہاں رشتہ کریں ؟اس لیے بہتر یہ ہے کہ جن لڑکوں یا لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ ہے وہ خود بھی استخارہ کرلیں اور اگر ان کے والدین زندہ ہوں تو وہ بھی کرلیں۔
استخارہ ہر مشکل، پریشانی اور فتنے سے بچاوکا حل
محدث العصر حضرت بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ”دورِ حاضر میں امت کا شیرازہ جس بری طرح سے بکھر گیا ہے ، مستقبل قریب میں اس کی شیرازہ بندی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ، جب استشارے کا راستہ بند ہوگیا تو اب صرف استخارہ کا راستہ ہی باقی رہ گیا ہے ، حدیث شریف میں تو فرمایاتھا:
مَاخَابَ مَن اِستَخَارَ وَمَا نَدِمَ مَن اِستَشَارَ
ترجمہ : جو استخارہ کرے گا خائب وخاسر(ناکام اور نقصان اٹھانے والا) نہ ہوگا، اور جو مشورہ کرے گاوہ پشیمان شرمندہ نہ ہوگا۔
عوام کے لئے یہی دستور العمل ہے کہ اگر کوئی ان فتنوں میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا تو مسنون استخارہ کرکے عمل کرے اور امید ہے کہ استخارہ کے بعد اس کا قدم صحیح ہوگا ، مسنون استخارہ کا مطلب یہی ہے کہ انسان جب کسی امر میں متحیر اور متردد ہوتا ہے اور کوئی واضح اور صاف پہلو نظر نہیں آتا، اس کا علم رہنمائی سے قاصراور اس کی طاقت بہتر کام کرنے سے عاجز تو حق تعالی کی بارگاہ رحمت والطاف میں التجا کرتا ہے اور حق تعالی کی بارگاہ سے دعا ، توکل تفویض اور تسلیم ورضا بالقضا ءکے راستوں سے کرتا ہے کہ وہ اس کی دستگیری اور رہنمائی فرمائے ، بہتر صورت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)“۔(دور حاضر کے فتنے اور ان کا علاج)
استخارہ کے خود ساختہ طریقے اور ان کے مفاسد
اس زمانے کے مسلمانوں نے استخارہ کے کئی ایسے طریقے خود گھڑ لیے ہیں جن کا طریقہ مسنونہ سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو استخارہ کا طریقہ بیان فرمایا در حقیقت وہ اللہ تعالی کے حکم سے ہے جو اللہ تعالی نے اپنے رسول کے ذریعے بندوں تک پہنچایا مگر بندوں نے یہ قدر کی کہ اسے پس پشت ڈال کر اپنی طرف سے کئی طریقے ایجاد کر لیے ، اللہ تعالی نے جو استخارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی اپنی امت کو سکھایا اور ایسے اہتمام سے سکھایا جیسے قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ مگر آج کے مسلمانوں نے اللہ تعالی کے ارشاد فرمائے ہوئے طریقے کے مقابلے میں اپنی پسند کے مختلف طریقے گھڑ لیے ہیں ،انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر اعتماد نہیں۔تو وہ تمام طریقے مسنون نہیں ہے ، کوئی تکیہ کے نیچے رکھنے کا ہے ،کوئی سر کے گھوم جانے کا ہے ، کوئی تسبیح پر پڑھنے کا ہے وغیرہ وغیرہ ، اس میں سے کوئی سنت سے ثابت نہیں ہے بلکہ ان طریقوں میں تو ایک گونہ خطرے کا اندیشہ ہے ، رسول اللہ کا سنت طریقہ چھوڑ کردوسرے طریقے اختیار کرنا پتہ نہیں اللہ کو پسند بھی ہویا نہ ہو۔
وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میںاستخارے کا ایک اور مسنون طریقہ
سنت استخارے کا ایک تفصیلی طریقہ تو وہ ہوا جس کو ماقبل میں تفصیل سے بیان کردیا گیا لیکن قربان جایے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں بھی ایک مختصر سا استخارہ تجویز فرمادیا تاکہ استخارے سے محرومی نہ ہوجائے ،اس سے قبل استخارہ کا جو مسنون طریقہ عرض کیا گیا، یہ تو اس وقت ہے جب آدمی کو استخارہ کرنے کی مہلت اور موقع ہو ، اس وقت تو وضو کرکے دو رکعت نفل پڑھ کر وہ استخارہ کی مسنون دعا کرے ، لیکن بسا اوقات انسان کو اتنی جلدی اور فوری فیصلہ کرنا پڑتا ہے، دو رکعت پڑھ کر دعا کرنے کا موقع ہی نہیں ہوتا ، اس لیے کہ اچانک کوئی کام سامنے آگیا اور فورا اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے ،اتنا وقت ہے نہیں کہ دو رکعت نفل پڑھ کر استخارہ کیا جائے تو ایسے موقع کے لیے خود نبی کریم صل? الل? عل?? وسلم نے ایک دعا تلقین فرمائی ،وہ یہ ہے :
اَللّٰہمَّ خِر لِی وَاختَر لِی(کنز العمال)
اے اللہ ! میرے لیے آپ پسندفرمادیجیے کہ مجھے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے ، بس یہ دعا پڑھ لے ، اس کے علاوہ ایک اور دعا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے ، وہ یہ ہے :
اَللّٰہمَّ اہدِنِی وَسَدِّدنِی(صحیح مسلم)
اے اللہ ! میری صحیح ہدایت فرمایے اور مجھے سیدھے راستے پر رکھیے۔
اسی طرح ایک اور مسنون دعا ہے :
اَللّٰہمَ اَلہِمنِی رُشدِی (ترمذی)
اے اللہ ! جو صحیح راستہ ہے وہ میرے دل پر القا فرمادیجیے ۔ ان دعاوں میں سے جو دعا یاد آجائے اس کو اسی وقت پڑھ لے ، اور اگر عربی میں دعایاد نہ آئے تو اردو ہی میں دعا کر لو کہ اے اللہ !مجھے یہ کشمکش پیش آئی ہے ،آپ مجھے صحیح راستہ دکھا دیجیے ، اگر زبان سے نہ کہہ سکو تو دل ہی دل میں اللہ تعالی سے کہہ دو کہ یا اللہ ! یہ مشکل اور یہ پریشانی پیش آگئی ہے ، آپ صحیح راستے پر ڈال دیجیے جو راستہ آپ کی رضا کے مطابق ہو اور جس میں میرے لیے خیر ہو۔
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کا ساری عمر یہ معمول رہا کہ جب کبھی کوئی ایسا معاملہ پیش آتا جس میں فوری فیصلہ کرنا ہوتا کہ یہ دو راستے ہیں ان میں سے ایک راستے کو اختیار کرنا ہے تو آپ اس وقت چند لمحوں کے لیے آنکھ بند کرلیتے ، اب جو شخص آپ کی عادت سے واقف نہیں اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ آنکھ بند کرکے کیا کام ہورہا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ آنکھ بند کرکے ذرا سی دیر میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلیتے اور دل ہی دل میں اللہ تعالی سے دعا کر لیتے کہ یا اللہ ! میرے سامنے یہ کشمکش کی بات پیش آگئی ہے ، میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا فیصلہ کروں ، آپ میرے دل میں وہ بات ڈال دیجیے جو آپ کے نزدیک بہتر ہو ، بس دل ہی دل میں یہ چھوٹا سا اور مختصر سا استخارہ ہوگیا۔
حضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفی صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ہر کام کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلے تو اللہ تعالی ضرور اس کی مدد فرماتے ہیں ، اس لیے کہ تمہیں اس کا اندازہ نہیں کہ تم نے ایک لمحہ کے اندر کیا سے کیا کرلیا، یعنی اس ایک لمحے کے اندر تم نے اللہ تعالی سے رشتہ جوڑ لیا ، اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرلیا ، اللہ تعالی سے خیر مانگ لی اور اپنے لیے صحیح راستہ طلب کرلیا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف تمہیں صحیح راستہ مل گیا اور دوسری طرف اللہ تعالی کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا اجر بھی مل گیا اور دعا کرنے کا بھی اجر وثواب مل گیا ، کیونکہ اللہ تعالی اس بات کو بہت پسند فرماتے ہیں کہ بندہ ایسے مواقع پر مجھ سے رجوع کرتا ہے اور اس پر خاص اجروثواب بھی عطا فرماتے ہیں ، اس لیے انسان کو اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے ، صبح سے لے کر شام تک نہ جانے کتنے واقعات ایسے پیش آتے ہیں جس میں آدمی کو کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ یہ کام کروں یا نہ کروں ، اس وقت فورا ایک لمحہ کے لیے اللہ تعالی سے رجوع کر لو ، یا اللہ ! میرے دل میں وہ بات ڈال دیجیے جو آپ کی رضا کے مطابق ہو۔(اصلاحی خطبات)
الغرض استخارہ اللہ تعالی سے خیر مانگنے اور بھلائی طلب کرنے کا مسنون ذریعہ ہے لہذا اس بات کی کوشش کی جائے کہ اس کی وہی اصل شکل اور روح برقرار رہے جو شریعت اسلام نے واضح فرمائی ہے ، محض سنی سنائی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے حضرات علماءکرام سے رہنمائی حاصل کی جائے۔دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو دین کی صحیح معنی میں سمجھ ،اس پر عمل کرنے والا اور عملا اس کو روئے زمین پر قائم کرنے والا بنائے ، آمین۔
وہ کتب جن سے استفادہ کیا گیا
۱- حجة اللہ البالغة (حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ)۔ ۲- مظاہر حق (علامہ محمد قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ)۔ ۳-اصلاح انقلاب امت (حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ)۔ ۴-اغلاط العوام (حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ)۔ ۵-اشرف العملیات (حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ)۔ ۶- الکلام الحسن (حضرت مولانا مفتی محمد حسن رحمہ اللہ)۔ ۷-مجالس مفتی اعظم (حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ)۔ ۸-دور حاضر کے فتنے اور ان کا علاج (حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ)۔۹- خطبات الرشید (حضرت مولانا مفتی رشید احمد رحمہ اللہ)۔ ۰۱-تحفة المسلمین(حضرت مولانا محمد عاشق الہی رحمہ اللہ)۔ ۱۱-رحمة اللہ الواسعة(حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری صاحب مدظلہ)۔ ۱۲-اصلاحی خطبات (حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ)۔٭٭٭…………٭٭٭