قسط نمبر11 کاوبار اور رزق کی بندش

11 کاروبار اور رزق کی بندش 1

کاوبار اور رزق کی بندش

رزق اور کاروبار کی پریشانی تو بہت زیادہ لوگوں کو ہوتی ہے، چنانچہ مجھے بھی جتنے میسج آتے ہیں ان میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے میسجز کی ہوتی ہے کہ ہمارا کاروبار بند ہے، ہم مقروض ہیں، جو بھی کاروبار شروع کرتے ہیں نہیں چلتا، گھر کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے وغیرہ وغیرہ۔

دنیا کا نظام

1۔سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ یاد رکھیں، اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو کچھ قوانین کے پابند بنایا ہوا ہے، کائنات میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے خود بخود نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے قائم کردہ کچھ قوانین ہیں جن کے تحت ہرچیز اسی قانون کی پابندہے، مثلا سورج، چاند ستارے، ہوا، بارش، فصلیں،درخت، چرند،پرند،درند سب ایک نظام کے تحت چل رہے ہیں، اسی طرح انسانوں کا نظام دنیا بھی کسی نظام کے تحت چل رہا ہے۔آپ زہر کھائیں گے تو لامحالہ اس کا نقصان ہوگا، پانی پیئیں گے وہ پیاس مٹائے گا، کھانا کھائیں گے آپ کا پیٹ بھرے گا نہیں کھائیں گے تو بھوکے ہی رہیں گے، اللہ چاہے تو ویسے بھی پیٹ بھر سکتا ہے لیکن اللہ نے یہ نظام بنایا ہے جو کھائے گا اس کا پیٹ بھرے گا نہیں کھائے گا تو دو چار دن بعد کمزور ہو کر بھوک پیاس سے مر جائے گا۔ باالکل ایسے ہی رزق اور کاروبار کا معاملہ بھی ہے، کاروبار اور بزنس کرنے کے بھی اصول و ضوابط ہیں جو آج کے دور میں نہ صرف مرتب ہیں بلکہ یونیورسٹیوں میں پڑھائے بھی جاتے ہیں،اس کے علاوہ کاروبار کا تجربہ بھی بہت اہم ہے۔ عام طور پر لوگ کاروباری غلطیاں کررہے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے کاروباری نقصان ہوتا ہے پھر عاملوں کے پاس جاتے ہیں تو وہ انہیں کہتے ہیں آپ پر جادو کیا گیا ہے۔میں خود اس تجربے سے گزرا ہوں، جب تعلیم سے فراغت ہوئی تو کاروبار کرنے کا شوق پیدا ہوا اس زمانے میں موبائل نئے نئے آئے تھے، میں نے ادھر ادھر سے قرض لیا اور اسلام آباد کے ایک پلازے کی بیسمنٹ کے بالکل آخر ی کونے میں بھاری کرائے پر دکان لے لی، یہ سوچا ہی نہیں کہ میری دکان کسی نظر بھی آئے گی یا نہیں، اس کا تو بورڈ لگانے کی جگہ بھی نہیں، پھر بیسمنٹ کے اندر میری دکان تک پہنچتے پہنچتے موبائل کی چار پانچ ایسی دکانوں کو کراس کرکے آنا پڑتا ہے، جو ہرلحاظ سے میری دکان سے بڑی ہیں اور فرنٹ پر ہیں، اور پرانی بھی ہیں۔ میرے پاس وہی گاہک آتا تھا ، جسے ان دکانوں سے مطلوبہ چیز نہیں ملتی تھی، اور وہ ایسی چیز ہوتی تھی جو میرے پاس بھی نہیں ہوتی تھی کیونکہ میری دکان ان کی دکانوں کے مقابلہ میں بہت چھوٹی تھی۔ چھ مہینے سب کچھ لٹا کر اونے پونے بیج دی۔ اب اس سارے معاملے میں میری اپنی غلطی تھی کہ میں نے کاروباری طریقہ کار کا خیال نہیں کیا، اگر میں بھی کسی عامل کے پاس جاتا تو اس نے یہی کہنا تھا آپ پر پھوپھی نے جادو کردیا ہے۔عام طور پر لوگوں کی یہی غلطی ہوتی ہے وہ کاروباری غلطیاں کررہے ہوتے ہیں، سیکھا نہیں ہوتا، تجربہ نہیں ہوتا کیونکہ دنیا کا نظام اسی طرح چلتا ہے ، اگر کوئی غریب ہزار کے نوٹ کو آگ لگائے تو آگ یہ نہیں سوچتی یہ غریب کا نوٹ ہے میں اسے نہیں جلاتی بلکہ آگ کا نظام جلانا ہے چاہے کوئی غریب چاہے کوئی امیر جو بھی نوٹ آگے میں پھینکے گا آگ نے اسے جلا دینا ہے۔

2۔ دوسری اور نہایت ہی اہم بات یہ سمجھیں اور اپنے دل و دماغ میں بٹھا لیں کہ قرآن میں قوموں کے لیے اللہ نے دنیا میں جزا و سزا کے کچھ قوانین بھی بیان کیے ہیں، جن میں سے کچھ کا ذکر میں پیچھے کر آیا ہوںکہ: جو بھی مصیبت آتی ہے اللہ کی طرف سے آتی ہے اور انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی یعنی اپنی ہی غلطی اور نافرمانی کی معمولی سی سزا ہوتی ہے۔اسی طرح سزا کے برعکس خیروبرکت کیسے حاصل ہوتی ہے اس کے بارے اللہ تعالیٰ کا دوٹوک اعلان بزبان قرآن ملاحظہ فرمائیں:

1۔ولوان اھل القری اٰمنوا واتقو لفتحنا علیھم برکات من السماءوالارض۔(اعراف96)

ترجمانی: اور اگر بستی والے ایمان لاتے اور تقوے کی زندگی اختیار کرتے تو البتہ ہم ان پر کھول دیتے برکتوں کے دروازے آسمان و زمین سے۔ تو معلوم ہوا برکتیں محض کاغذ کی پرچیاں گلے میں لٹکانے، یا اسے پانی میں گھول کر پینے، یا جلا کر دھونی لینے سے حاصل نہیں ہوتیں بلکہ تقوے کی زندگی اختیار کرنے سے حاصل ہوتی ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے تقوے کی زندگی کیا ہے؟ اس کا آسان فہم جواب یہ ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے اپنے آپ کو بچانا تقویٰ کہلاتا ہے۔ یعنی ہم اللہ اور اس کے رسول کی ہر نافرمانی اور گناہ سے بچیں، اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں خاص طور پر فرائض کی پابندی اور حرام سے اجتناب کریں تو یہ تقوے کی زندگی ہے، اور ایسی ہی زندگی گزارنا برکات کے نزول کا ذریعہ بنتا ہے۔

2۔من عمل صالحا من ذکر او انثی وھو مومن فلنحیینہ حیاة طیبة ولنجزینھم اجرھم باحسن ما کانوا یعملون(نحل)

ترجمانی: جس نے بھی نیک عمل کیا وہ مرد ہو یا عورت اس حال میں کہ وہ ایمان والا ہو، ہم اسے پاکیزہ زندگی اور اعمال کا بہترین اجر عطاءکریں گے۔

3۔ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشة ضنکا و نحشرہ یوم القیامة اعمی (طہ124)

ترجمانی: اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا تو اس کی زندگی بھی تنگ ہوگی اور اسے قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ اللہ کا سب سے بڑا ذکر قرآن ہے، اسی لیے قرآن کے ناموں میں سے ایک نام بھی ”الذکر“ ہے۔ اس کے علاوہ ہر وہ عمل اور ہر وہ کلمہ اور ہر وہ مجلس جس سے اللہ کی یاد آئے وہ ذکر کہلاتی ہے، اور ذکر سے اعراض کی سزا یہ ہے کی اس کی معیشت کو اللہ تنگ کردیتے ہیں۔ یاد رکھیں معیشہ زندگی کو بھی کہتے ہیں اور ضروریات زندگی کو بھی کہتے ہیں، ہم اردو میں بھی کاروبار اور ضرورت زندگی کے حصول کے لیے محنت کو بھی معیشت کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے ذکر قرآن اور دیگر اذکار سے اعراض کے نتیجے میں معیشت اور زندگی دونوں تنگ ہو جاتے ہیں۔

4۔ومن یعش عن ذکر الرحمن نقیض لہ شیطانا فھو لہ قرین۔ (الزخرف36)

ترجمانی: اور جو اللہ کے ذکر (قرآن و دیگراذکار) سے غافل ہوتا ہے تو ہم اس پر(جن و انس میں سے) ایک شیطان کو مسلط کردیتے ہیں، پھر وہ اس کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ اس آیت میں بھی بات بالکل واضح ہے کہ جواللہ کے ذکر یعنی قرآن اور دیگر اللہ کی یاد کے کلمات، مجالس سے غفلت ،اعرض اور دوری اختیار کرتا ہے تو اللہ کی طرف سے اس پر کوئی شیطان مسلط کردیا جاتا ہے، اب وہ شیطان کوئی جن بھی ہو سکتا ہے اور کوئی انسان بھی، پھر ظاہر ہے وہ شیطان ہے اور شیطان کا کام تنگ کرنا ہوتا ہے وہ اسے ہر وقت تنگ کرتا رہتا ہے اور اس کی زندگی برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ شیطان کا مسلط ہونا اللہ کی طرف سے بطور سزا کے ہوتا ہے اور اس کا سبب کوئی بھی بن سکتا ہے مثلا آپ کا کوئی دشمن یا حاسد آپ پر جادو کروا کر شیطان جن مسلط کروا دے۔ کیونکہ دنیا دارالاسباب ہے یہاں ہر بات کا کوئی نہ کوئی سبب اور بہانہ بھی ہوتا ہے، آپ پر کسی نے جادو کیا تو یہ ایک بہانہ اور سبب ہے اصل وجہ یہ ہے کہ آپ اللہ کے ذکر سے غافل ہو چکے تھے اور اللہ نے آپ پر شیطان کو مسلط کرنا تھا ، اس لیے اللہ نے اسباب کے درجے میں ایک دشمن پیدا کیا پھر اس کے دل میں ڈالا کہ تم فلاں جادوگر کے پاس جاو اور اس پر جادو کرواو، اور وہ گیا اور آپ پر جادو کروا دیا۔

آیت کے ان الفاظ سے ہی ہمیں اس مصیبت سے چھٹکارے کا راستہ بھی پتا چل گیا کہ اللہ کے ذکر یعنی قرآن سے غفلت کو ختم کردیا جائے تو اس شیطان سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔اگر آپ قرآن سے دوری اختیار کیے ہوئے ہیں، تو جتنے مرضی شیطانی نقش، من گھڑت تعویذات، پہن لیں، دھونیاں لے لیں کچھ حاصل نہیں ہوگا، بلکہ یہ بھی ایک عذاب ہی کی صورت ہوتی ہے کہ ایک شیطان سے جان چھڑانے کے لیے آپ عامل شیطان کے پاس چلے جاتے ہیں اور وہ ایک پرچی دے کر اور من گھڑت عملیات کروا کر آپ سے گناہ بھی کرواتا ہے اور آپ کی جیب سے پیسے بھی نکلوا لیتا ہے ۔آپ گھر سے تو کچھ لینے کے لیے نکلتے ہیں لیکن اپنا ایمان، عزت اور پیسہ اسے دے کر واپس آتے ہیں۔

5۔ ومن یعرض عن ذکر ربہ یسلکہ عذابا صعدا۔(الجن17)

ترجمانی: اور جو اعراض کرے گا اپنے رب کے ذکر سے تو اللہ اسے سخت عذاب میں ڈالے گا۔ یعنی اب کے ذکر اور یاد سے اعراض کی سزا سخت عذاب کی صورت میں ملتی ہے وہ عذاب آخرت میں تو ہے ہی دنیا میں بھی ملتا ہے اور اس کی ایک صورت وہی ہے جو اوپر والی آیت میں آگئی کہ اس پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے اور دوسری صورت اس آیت میں بیان کی۔

6۔ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا۔ ویرزقہ من حیث لا یحتسب، ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ۔(طلاق2۔3)

ترجمانی: اور جو اللہ کا تقوی اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ کھول دیتا ہے، اور اس کو وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ اور جو اللہ پر توکل اور بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ اس آیت میں بھی تقوے کے ثمرات بیان ہوئے کہ جو تقویٰ یعنی اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے بچتا ہے اللہ اس کے لیے مخرج بناتا ہے۔ مخرج کا معنی ایگزٹ یعنی نکلنے کی صورت اور راستہ ہوتا ہے۔ اور دوسرا پھل یہ ملتا ہے کہ اس کو رزق وہاں سے پہنچتا ہے جہاں اس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے، اور جس کا بھروسہ من گھڑت تعویذات، نقوش، عملیات کے بجائے اللہ پر ہو تو اللہ بھی اس کے لیے کافی و شافی ہو جاتا ہے۔اور اگر بھروسہ کاغذ کی پرچیوں، جعلی عاملوں پیروں، من گھڑت تعویذات اور نقوش پر ہو تو اللہ کو بھی کوئی پرواہ نہیں اللہ بے نیاز ہے۔

یہ بھی پڑھیں

قسط نمبر1 جادونگری جنات و عملیات کی دنیا 

قسط نمبر3 موکل، جنات قابو کرنا

قسط نمبر8 مسلمان اور عملیات کی دنیا

قسط نمبر10 علامات، سنبل،اور کوڈنگ

قسط نمبر12 رشتہ نہ ملنے کے مسائل

7۔فقلت استغفروا ربکم انہ کان غفارا۔ یرسل السماءعلیکم مدرارا۔ ویمددکم باموال و بنین ویجعل لکم جنات و یجعل لکم انہارا۔ مالکم لا ترجون للہ وقارا۔(نوح10۔13)

ترجمانی: اپنے رب کے سامنے استغفار کرو، وہ بہت بخشش والا ہے۔ تم پر آسمان سے بارش برسائے گا۔ اور تمہاری مدد کرے گا مال اور بیٹوں کے ذریعے، اور تمہارے لیے باغات اور نہروں کا انتظام کرے گا۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے تمہیں اللہ کے وقار کا کوئی خیال ہی نہیں۔اس آیت کریمہ میں وہ نسخہ بتایا گیا ہے جس کی ہر کسی کو تلاش ہے، چونکہ لوگ قرآن پڑھتے نہیں اس لیے لوگوں کو اس نسخہ کا علم نہیں، اس آیت میں تمام ان بڑی خواہشوں کے حصول اور پریشانیوں سے نجات کا علاج بتایا گیا ہے جسے ہر انسان چاہتا ہے۔ فرمایا جارہا ہے استغفار کرو، رب سے باربار معافی مانگو، توبہ کرو ، اس کا پہلا پھل یہ ملے گا اللہ تمہیں معاف کردے گا۔ دوسرا پھل یہ ملے گا اللہ آسمان سے رحمت کی بارش فرمائے گا، جس ماحول میں یہ آیت اتری تھی اس ماحول میں معاشی حالت بہتر کرنے کے لیے بارش اہم ہوتی تھی، آج معاشی حالت بہتر کرنے کے لیے جو چیز چاہیے سمجھیں اسی کی بارش برسائے گا۔ تیسرا پھل یہ ملے گا کہ وہ تمہیں مال عطاءکرے گا۔ چوتھا پھل یہ ملے گا کہ وہ تمہیں بیٹے عطاءکرے گا۔ پانچواں پھل یہ ملے گا کہ وہ تمہیں باغات عطا کرے گا، اس وقت کا کروڑپتی وہ ہوتا تھا جس کے پاس باغات ہوں، آج وہ ہوتا ہے جس کی فیکٹریاں ہوں، تو آج ہمیں وہ فیکٹریاں عطاءکرے گا۔ چھٹا پھل یہ کہ وہ باغات کے لیے نہروں کی ضرورت ہے تو وہ تمہیں نہریں عطاءکرے گا۔ اتنی عنایات دینے والا تمہارا رب ہے لیکن تمہیں اس کے وقار کا کوئی خیال نہیں تم پھر بھی اس کی طرف رجوع نہیں کرتے اور نجومیوں، کاہنوں، عرافوں، عاملوں، اور جادوگروں کے پیچھے بھاگتے ہو۔وہ تمہیں کہتا ہے اپنی زبان اور عمل سے استغفار کرو اور تم کاغذ کی پرچیاں کبھی پیٹ پر باندھتے ہو، کبھی بازو پر اور کبھی گلے میں لٹکاتے ہو،تمہیں اللہ کے وقار کا بالکل بھی خیال نہیں؟

فہرست پر واپس جائیں

bannet shilajit 2

bannet Hunza Green Tea 3

Related posts

Leave a Reply