قرآنی سورتوں کا خلاصہ Summary of Quranic Surahs
ابتدائی کلمات اور اظہار تشکر
2015ء میں تقریبا چھ ماہ تک ریڈیو پاکستان کے صوت القران چینل پر کام کرنے کا موقع ملا۔ چینل پر کام کرتے ہوئے سورتوں کے مضامین کا خلاصہ بیان کرنا ہوتا تھا، چنانچہ اس مقصد کے لیے مختلف علماء کی تفاسیر اور خلاصۃ القران کا مطالعہ کرکے نوٹس تیار کرتا اور پھر ان کو بیان کردیتا۔ اسی دوران مجھے خیال ہوا کہ ان نوٹس کو مرتب کرلیا جائے تو اور لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ چنانچہ میں نے انہیں مرتب کرنا شروع کیا اور اٹھائیسویں پارہ تک مکمل کیا تھا کہ مجھے ریڈیو پاکستان چھوڑنا پڑا، اور اس کے ساتھ ہی وہ کام بھی وہیں رک گیا۔ البتہ میں نے اٹھائیسویں پارہ تک جتنا کام ہوا تھا اس کا ایک پرنٹ نکال کر سٹوڈیو میں رکھ دیا، وقت گزرتا رہا اور میں بھی اور کاموں میں مصروف ہوگیا اور خلاصے کو مکمل کرنا ہی بھول گیا۔ تقریبا تین سال بعدصوت القرآن کے پریوڈیوسر عرفان مقبول رانا صاحب نے مجھے ایک میسج کرکے اس کام کو مکمل کرنے کا کہا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطاء فرمائے اور قرآن کی تعلیمات کو عام کرنے کی اسی طرح توفیق عطاء فرمائے۔ چنانچہ ان کی ہدایت پر پھر میں اس طرف متوجہ ہوا لیکن گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے تقریبا دو پاروں کا خلاصہ مکمل کرنے میں چھ ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ چنانچہ میں نے اسے دبارہ پہلے سے بہتر کرنے کی غرض سے کافی تبدیلیاں کیں اور پی ڈی ایف کاپی عرفان مقبول رانا صاحب کو بھیج دی۔رانا صاحب سمیت ان کی پوری ٹیم بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کی مستحق ہے جس میں آپ نے فرمایا: تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قران سیکھے اور سکھائے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد:
یااھل القرآن لا تتوسدواالقرآن واتلوہ حق تلاوتہ من اناء اللیل والنھاروافشوہ وتغنوہ وتدبروافیہ لعلکم تفلحون٭(رواہ البھقی)
اے قرآن والو! قرآن کو تکیہ (مطلبی سہارا) نہ بناؤ۔ اس کی دن رات تلاوت کروں جس طرح تلاوت کرنے کا حق ہے، اس کو عام کرو، اور خوبصورت آواز میں پڑھو اور اس میں غوروفکر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ یعنی اس کے معانی و مطالب کو سمجھ کر پڑھو۔
ایک مرتبہ حضور ﷺ اپنے حجرہ سے باہر تشریف لائے، آپ نے دیکھا کچھ صحابہ کرام قرآن کریم کا مذاکرہ کر رہے تھے، یہ دیکھ کر آپ کے چہرہ انور پر بشاشت کے اثرات ظاہر ہوئے پھر آپ نے صحابہ کرام سے ایک سوال پوچھا:
ألیس تشھدون ان لا الہ الااللہ وحدہ لا شریک لہ وانی رسول اللہ وان القرآن جاء من عنداللہ؟ قلنا بلیٰ۔ قال فأبشروا فان ہذالقرآن طرفہ بیداللہ وطرفہ بایدیکم فتمسکوا بہ فانکم لن تھلکوا ولن تضلوا بعدہ ابدا۔(طبرانی کبیر)۔
کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں اللہ کا رسول اور قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے؟ صحابہ کرام نے فرمایا جی ہاں کیوں نہیں بالکل ایسا ہی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر خوشخبری حاصل کرو بیشک یہ قرآن اس کا ایک طرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسری طرف تمہارے ہاتھ میں ہے، لہٰذا اسے مضبوطی سے تھامے رکھو، بیشک تم ہرگز ہلاک نہیں ہوگے اور نہ گمراہ ہوگے کبھی بھی۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ کی رسی کو مضبوطی کو تھامنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمایا:
واعتصموا بحبل اللہ جمیعا(آل عمران)
تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو۔ یہ اللہ کی رسی کیا ہے، اس کی وضاحت ایک حدیث میں کی گئی، جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ترمذی شریف کی حدیث میں ہے آپ ﷺ نے قرآن پاک کے فضائل بیان فرماتے ہوئے فرمایا:
عن علی رضی اللہ عنہ قال: انی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: انھا ستکون فتنۃ، قلتُ ماالمخرج یارسول اللہﷺ؟ قال کتاب اللہ، فیہ نبا ماقبلکم وخبرُ مابعدکم وحکمُ مابینکم، ہوالفصل لیس باالہزلِ، مَن ترکہٗ مِن جبارٍ قصَمہُ اللہ ومَن ابتغی الہدا فی غیرہ اضلہ اللہ وہو حبل اللہ المتین۔ وہو الذکر الحکیم وہوالصراط المستقیم ہوالذی لا تزیغُ بہ الْاَہْواءُ ولا تلتَبسُ بہ الْاَلْسِنۃُ ولا یَشبَعُ منہ العلماءُ ولا یخلُق عن کثرَۃِ الرَّدِّ ولا تنقَضِیْ عَجاءِبُہ، ہوالذی لم تنتہ الجن اذسمعتُہ حتی قالوا اِنَّاسَمعْنا قرآناً عجَبا یہدی الی الرشدِ فاٰمنا بہ، مَن قال بہ صَدَقَ، ومَنْ عَمِلَ بہ اُجِرَ، ومَن حَکَمَ بہ عَدَلَ، ومَن دَعا اِلیہِ ہُدِیَ الی صراط مستقیم(ترمذی،دارمی)
فرمایا: ایک وقت آئے گا کہ یہ دنیا سراپا فتنہ بن جائے گی،ہرطرف فتنے ہی فتنے ہوں گے۔ تو میں نے حضرت سے عرض کیا: اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم! ان فتنوں سے بچنے کا راستہ کیا ہوگا؟۔ان فتنوں سے بچنے کے لئے کوئی آپ آسان ترکیب ارشاد فرمائیں … اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر فتنوں سے بچنا چاہتے ہو… توکلام اللہ کو اپنا دستور بنالو، اس قرآن میں اللہ نے پہلے حالات و واقعات بتلائے ہیں،اور آئندہ آنے والے واقعات کی اطلاع دی ہے،اور تمہارے درمیان ہونے والے نزاعات کے فیصلے کئے ہیں،قرآن کریم پکی بات کرتا ہے کچی بات نہیں کرتا، جو قرآن کو اس لئے چھوڑ دے گا اس کے مزاج میں اکڑ پن ہے اللہ اس کو برباد کر دے گا، جو قرآن کو چھوڑکر کسی اور کتاب سے ہدایت تلاش کرے گا اللہ گمراہی اس کا مقدر فرمادیں گے، یہ اللہ تک پہنچے کے لئے مضبوط رسی ہے، یہ بہترین نصیحت اور حکمت والاذکر ہے۔اور جنت اور رب تک پہنچے کا یہ معتدل رستہ ہے۔ یہ قرآن کریم وہ کلام ہے، زبان اس قرآن کو بدل نہیں سکتی، خواہشات کی بنیاد پر قرآن میں تحریف نہیں ہوسکتی، قرآن کریم کی تلاوت اور معانی کو بیان کرنے سے علماء سیر نہیں ہوتے، قرآن کی تلاوت کرتے جائیں قرآن پرانا محسوس نہیں ہوتا، اگر قرآن سے نکتے نکالتے چلے جائیں اس کی حکمتیں عجائبات ختم نہیں ہوتے۔
جب قرآن کو پہلی مرتبہ جنات نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا، تو جنات پکار اٹھے، ہم نے ایک عجیب کلام اور قرآن سنا ہے، ہم اس قرآن کی برکت سے اللہ پر ایمان لاتے ہیں،پھر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا… اے علی! جو قرآن کی بات کرتا ہے سچا ہے، جو قرآن کے مطابق فیصلے کرے عادل ہے، جو قرآن پر عمل کرے اللہ اجر دیتا ہے، اور جو قرآن کی طرف بلائے وہ صراط مستقیم کی طرف بلا رہا ہے۔
آج ہمیں قرآن حکیم کے پانچ حقوق خود بھی جاننا چاہیے اور اپنے بچوں کوبھی یاد کرانے چاہیے:
۱۔ قرآن پر ایمان لانا۔ ۲۔ قرآن کی تلاوت کرنا۔ ۳۔قرآن کو سمجھنا۔ ۴۔قرآن پر عمل کرنا۔ ۵۔قرآن کی تبلیغ کرنا۔
قرآن کے ساتھ ہمارا جس طرح کا تعلق ہے اس پر علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
ترا حاصل ز یٰس اش جزیں نیست
کہ از ہم خواندنش آسان بمیری
تیرا تعلق سورہ یٰسین کے ساتھ صرف اتنا ہی رہ گیا ہے کہ تو سمجھتا ہے سورہ یٰسین کی تلاوت کرنے سے مرنے والے کی جان آسانی سے نکلتی ہے۔ باقی سورہ یٰسین زندہ انسان کو کیا رہنمائی دیتی ہے تو اس سے مکمل غافل ہے۔
اور پھر علامہ اقبال صحابہ کرام کے قرآن سے تعلق کے بارے فرماتے ہیں:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہوکر
تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قران مجید پڑھنے سمجھنے عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
(مولانا سیدعبدالوہاب شاہ شیرازی)
ضروری گذارشات
٭……چونکہ یہ خلاصہ ریڈیو اناؤنسمنٹ کرتے ہوئے اس کے مطابق مرتب کیا گیا ہے اسی لئے اس کا انداز کتابی یا تحریری سے زیادہ بیانی یا تقریری ہے، جس میں اناؤنسمنٹ اور محدود وقت کا خیال بھی رکھا گیا ہے۔
٭……بعض الفاظ پر حرکات(زبر،زیر،پیش) بھی لگائی گئی ہیں تاکہ پڑھنے والے کو دشواری نہ ہو۔
٭……پیراگراف اس ترتیب سے بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر کسی کو مزید مختصر کرنا ہویا کسی پیرا گراف کو چھوڑنا ہو تو وہ کسی بھی پیراگراف کو چھوڑ بھی سکتا ہے اور کسی بھی پیراگراف پر اپنی بات ختم بھی کرسکتا ہے۔یعنی اگر اناؤنسمنٹ مختصر کرنی ہو تو کسی بھی پیرا گراف پر بات ختم کی جاسکتی ہے۔
٭……اس خلاصے کی خاص بات یہ ہے کہ کسی بھی سورہ مبارکہ کا خلاصہ ایک صفحے سے زیادہ نہیں ملے گا، ہر سورت کا خلاصہ چھوٹے سائز کے ایک ہی صفحے پر اختصار کے ساتھ سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔سوائے دو چار سورتوں کے، جن کا خلاصہ اگلے صفحے پر چلاگیا جو کہ جامعیت کے لیے ضروری تھا۔
٭……ہر سورہ مبارکہ کے خلاصے کے آخر میں اس سورہ مبارکہ کی ایک خاص بات لکھی گئی ہے، یعنی ایسی بات جو بہت زیادہ متاثر کن یا حیرت انگیز ہے۔
بعض وجوہات سے اناؤنسمنٹ کے لئے دو چار منٹ سے زیادہ وقت نہیں دیا جاتا ہے اس لئے اس خلاصے کو انتہائی مختصر اور جامع بنانے کی اپنی طورپر بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ میں اس کوشش میں کتنا کامیاب ہوا اس کا فیصلہ تو قارئین اور سامعین ہی کر سکتے ہیں۔
قرآنی سورتوں کا خلاصہ
پارہ نمبر1
خلاصہ سورۃ الفاتحہ………………سورۃ نمبر1۔
سورۃ فاتحہ مکی ہے، جس میں ایک رکوع اورسات آیاتِ بینات ہیں۔
فاتحہ کے معنیٰ ہیں شروع کرنے والی، چونکہ یہ سورہ مبارکہ قرآن کریم کے شروع میں آئی ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام”فاتحہ“ رکھا گیا۔
اس سورہ مبارکہ کو قرآن کریم کا خلاصہ بھی کہا جاتا ہے، یہ سورہ مبارکہ صرف سات آیاتِ بینات پر مشتمل ہونے کے باوجود قرآن کریم کے بنیادی مقاصد کو بیان کرتی ہے۔ اسی لئے اس سورہ مبارکہ کو ”اُمُّ القرآن“ اور ”اساس القرآن“ بھی کہاجاتا ہے۔
قرآن کریم کے بنیادی مضامین تین ہیں: توحید،رسالت اور قیامت۔
اس سورہ مبارکہ کی ابتدائی دو آیات اور چوتھی آیت میں توحید کا بیان ہے۔ تیسری آیت میں قیامت کا ذکر ہے۔جبکہ پانچویں اور چھٹی آیتِ مبارکہ میں نبوت اور رسالت کی طرف اشارہ ہے۔
ایک طرف انبیاء اور صلحاء کے راستے پر چلنے کی دعا ہے تو دوسری طرف ان قوموں کی رَوِش سے بچنے کی دعاء ہے جو اللہ کے غضب کی مستحق اور گمراہی کا شکار ہوئیں۔
شاید پورے قرآن کریم کی یہی جھلک دکھانے کے لئے ہمیں باربار نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا گیا۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سورہ مبارکہ ان جامع مضامین کے علاوہ ایک ایسی دعا کی حیثیت بھی رکھتی ہے جس کی ہر ہر آیت کا جواب اللہ تعالیٰ خود دیتا ہے۔
خلاصہ سورۃ البَقَرَہ………………سورۃ نمبر2
سورہ بقرہ مَدَنی ہے جس میں 40رکوع اور 286آیاتِ بینات ہیں۔
عَرَبی زُبان میں ”بَقَرۃ“گائے کو کہتے ہیں۔ چونکہ اس سورہ مبارکہ میں بقرہ کا لفظ بھی آیاہے اور گائے ذبح کرنے کا واقعہ بھی بیان ہوا ہے، اسی لئے بطور علامت اس سورہ مبارکہ کو”بقرہ“ کہتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لانے سے مسلمانوں کو یہود اور منافقین کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سارے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل سے واسطہ پڑا۔
چنانچہ اس سورہ مبارکہ کے آغاز میں انسانوں کی تین قسمیں بیان کرنے کے بعد عبادتِ ربّ کا حکم دیا گیا۔پھر یہودیوں کی چالیس بیماریاں بیان کرکے ان پر فرد جرم (Charge Sheet)عائد کرتے ہوئے امامت کے منصب سے معزولی اور امتِ محمدیہ کو اس منصب پر فائز کرنے کا اعلان ہوا۔
یہود کی جن چالیس بیماریوں کا ذکر پہلے سپارے میں ہے وہ یہ ہیں:
1۔اللہ و رسول کی نافرمانی۔2۔ عمل کے بجائے صرف نسبت پر فخر کرنا۔3۔ بعض احکامات کو ماننا بعض کا انکار کرنا۔ 4۔خواہشات نفس کو معبود بنانا۔ 5۔حق چھپانا۔6۔ حق و باطل کو مکس کرنا۔ 7۔دین میں تحریف۔ 8۔ دین فروشی۔ 9۔جھوٹ دھوکہ خیانت۔ 10۔بخل کرنا۔ 11۔انبیاء پر عدم اعتماد۔ 12۔دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت۔ 13۔ جہاد سے رو گردانی۔ 14۔عہد شکنی۔ 15۔ احکام الٰہی میں چوں چراں۔ 16۔اپنے گناہ دوسروں کے سر ڈالنا۔ 17۔ حرام کو حلال کرنا۔ 18۔اپنوں کے خلاف غیروں سے تعاون۔ 19۔ دعوے اور خوش فہمیاں۔ 20۔بلعمیت۔
21۔قارونیت۔ 22۔سامریت۔ 23۔زندگی کا حرص موت کا ڈر۔ 24۔حق کو پہچان کر بھی انکار۔ 25۔ حرص اور بے صبری۔ 26۔فرشتوں میں تفریق۔ 27۔فرقہ واریت۔ 28۔اولوالامر کی اطاعت نہ کرنا۔ 29۔امرباالمعروف ونہی عن المنکر نہ کرنا۔ 30۔جادو میں انہماک۔ 31۔کتاب اللہ کا نافذ نہ کرنا۔ 32۔ اہل حق کو ستانا۔ 33۔ قساوت قلبی۔ 34۔حضرت مریم پر تہمت۔ 35۔ اللہ اور انبیاء کی توہین۔ 36۔انبیاء کا قتل۔ 37۔آپس میں قتل و غارت۔ 38۔نفاق۔ 39۔ کفر۔ 40۔ شرک
سورہ بقرہ کی آیت کریمہ 141 پر پہلے پارے کی تکمیل ہو جاتی ہے اور آیت کریمہ142سے دوسرے پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر2
سورۃ البَقَرَہ………………سورۃ نمبر2
سورہ بقرہ کی تلاوت جاری ہے۔
٭……رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ! یقینا جس گھر میں سورۃ البقرہ پڑھی جاتی ہے، اُس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔
سامعین: ہجرت مدینہ کے بعد مسلمان 17ماہ تک بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے رہے، لیکن پھر تحویل قبلہ کا حکم آیا اور ساتھ ہی امت بھی تبدیل کردی گئی، یعنی دنیا کی امامت سے بنی اسرائیل کو معزول کرکے یہ ذمہ داری امتِ مسلمہ کو سونپ دی گئی۔
سامعین
دوسرے پارے میں مختلف اَحکام بیان ہوئے ہیں، خصوصا روزوں کے ضمن میں یہ بات بیان ہوئی کہ ایک روزہ تو وہ ہے جو رمضان میں فرض ہے جبکہ ایک روزہ زندگی بھر کا ہے، یعنی حرام مال کھانا، خاص طور پرسود،جوا اور حکام کو رشوت دینا یا لینا۔
اِس کے علاوہ دوسرے پارے میں مناسکِ حج وعمرہ، جہاد کی فرضیت، شراب اور جوئے کی حرمت،جادو، وصیت، روزہ، اعتکاف، قرض، حرمتِ سود، طلاق، نکاح، مہر، اور رضاعت کے مسائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ طالوت اور جالوت کا قصہ جبکہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے حوالے سے حضرت ابراہیم اور حضرت عزیر علیہماالسلام کے قصے بھی بیان ہوئے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ”سود“ کی حرمت بیان کرتے ہوئے سُود خور کو دوزخی قرار دیا، اور پھر بھی سود سے اجتناب نہ کرنے والوں سے”اعلان جنگ“ کیا گیا ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت کریمہ252 پر دوسرے پارے کی تکمیل اور آیت کریمہ253 سے تیسرے پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر3
خلاصہ سورۃ آلِ عمران……………………سورہ نمبر3
سورہ آلِ عمران مَدَنی ہے جس میں 20رکوع اور 200آیاتِ بینات ہیں۔
”آلِ عمران“ کا مطلب ہے عمران کا خاندان۔ چونکہ اس سورہ مبارکہ کے چوتھے رکوع میں آلِ عمران کا ذکر ہے اسی مناسبت سے اِس سورہ مبارکہ کا نام ”آلِ عمران“رکھا گیا۔
نجران سے عیسائیوں کی ایک جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث اور مناظرہ کرنے آئی تھی، اس سورہ مبارکہ میں ان کے پیش کردہ سوالات کے جوابات دینے کے ساتھ ساتھ ان کو مباہلہ کا چیلنج بھی کیا گیاہے۔(61)
جس طرح سورہ بقرہ میں یہود کے جرائم گنوا کرفردِ جُرم عائد کی گئی تھی، اسی طرح اس سورہ مبارکہ میں نصاریٰ پر فردِ جرم (Charge Sheet)عائد کی گئی ہے۔ اور باربار یہ بات بتائی گئی کہ اللہ کے علاوہ کوئی ”اِلٰہ“نہیں ہے۔
اس سورہ مبارکہ میں چار مضامین خاص طور پر بیان ہوئے ہیں:
۱۔اہل کتاب کو اسلام کی دعوت دی جائے، ان سے مکالَمہ،مباحَثہ،مجادَلہ اور مباہَلہ کیا جائے۔
۲۔اہل کتاب میں موجود ”خیر“ کو دریافت کرکے اسلام کے حق میں استعمال کیا جائے۔
۳۔اہل کتاب میں موجود ”شر“سے آگاہی حاصل کرکے اس سے بچاجائے۔
۴۔امتِ مسلمہ کی صفوں میں اتحاد واتفاق پیدا کیا جائے، تقوے کی بنیاد پر امت کی تنظیم کی جائے۔
اس کے علاوہ اس سورہ مبارکہ میں کعبہ کی فضیلت، حج کی فرضیت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم، سُود کی ممانعت، بُخل کی وعید اور اچھے کاموں میں خرچ کرنے کی فضیلت سمیت، کافروں سے مرعوب نہ ہونے، جہاد میں ثابت قدم رہنے اور جنگ احد میں شکست کے اسباب اور حکمتیں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ شہید ہونے والے مسلمانوں کے عزیز واقارب کی تسلی کے لئے یہ سورہ مبارکہ نازل کی گئی۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ جن و انس کے علاوہ کائنات کی ہر چیز چار و ناچار مسلمان ہے۔(83)
سورہ آلِ عمران کی آیت کریمہ 91 پر تیسرے پارے کی تکمیل ہوجاتی ہے اور آیت کریمہ92سے چوتھے پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر4
خلاصہ سورۃُ النِّسَاءَ……………………سورہ نمبر4
سورہ نساء مَدَنی ہے جس میں 24رکوع اور 176آیاتِ بینات ہیں۔
”نِسَاء“ کا معنی عورتیں ہیں۔ چونکہ اس سورہ مبارکہ میں عورتوں سے متعلق اس قدر زیادہ احکام آئے ہیں کہ جو کسی اور سورت میں نہیں آئے، اسی لئے بطورِ علامت اس سورہ مبارکہ کانام ”نساء“ رکھا گیا۔
٭چونکہ یہ سورہ مبارکہ مَدَنی ہے اور مدنی زندگی میں مسلمانوں کے ابتدائی معاشرے میں معاشرتی، خاندانی اور عائلی قوانین کے ساتھ ساتھ بعض فرسودہ خیالات کی اصلاح کی بھی ضرورت تھی اس لئے مسلمانوں کو نِفاق سے بچ کر خالص توحید کے ساتھ، خاندان سے لے کر ریاست(State) تک ایک مضبوط اجتماعیت قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
٭جس طرح سورہ بقرہ میں یہودیوں، اور سورہ آلِ عمران میں عیسائیوں کے خلاف فردِ جرم عائد کی گئی تھی، اسی طرح اس سورہ مبارکہ میں منافقین کے خلاف فردِ جرم (Charge Sheet)عائد کی گئی ہے۔(60تا115)
٭اس سورہ مبارکہ میں اسلام کے نظامِ معاشرت، نظامِ حکومت اور نظامِ عدل وقِسط کی وضاحت کرتے ہوئے یتیموں کے حقوق کا خیال رکھنے، مرنے والے کی میراث(Laws of Inheritnce)کو ٹھیک ٹھیک تقسیم کرنے اور خاص طور پر عورتوں اور یتیموں کو ان کا حصہ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔
٭ اس کے علاوہ پندرہ محرمات، نکاح کی بنیادی شرائط، پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے حُسنِ سلوک کرنے، اچھی سِفارش کی فضیلت، قتل کے جرم میں قصاص،اور سفر کی حالت میں نمازِ قصرکے احکامات بھی بیان ہوئے ہیں۔(1تا43، 103،129،)
چوتھے پارے میں خاص بات یہ ہے کہ ہم جنس پرستوں کوسخت سے سخت سزا دی جائے، جب تک وہ توبہ نہ کرلیں۔(16)
سورہ نساء کی آیت کریمہ23پر چوتھے پارے کی تکمیل اور آیت کریمہ24سے پانچویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر5
پانچویں پارے میں سورہ نساء کی تلاوت جاری۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچویں پارے میں گھر کے نظام کو درست رکھنے کے لئے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ گھر میں حاکمیت اور ذمہ دار ہونے کا درجہ مرد کو حاصل ہے۔خاندان مل کر معاشرہ بنتا ہے اور معاشرے مل کر ریاست(State) بنتی ہے۔ خاندان مضبوط ہوں گے تو ریاست مضبوط ہوگی، اگرخاندان کمزور ہو تو ریاست کمزور ہوتی ہے۔ خاندانوں کی مضبوطی میاں بیوی کے اچھے تعلقات، حقوق کی ادائیگی، ماں باپ، عزیزوں رشتہ داروں، یتیموں اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے سے ہوتی ہے۔
کوئی بھی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں پر راضی نہ ہوجائے۔اسلامی ریاست میں حکومت اور رعایا کے حقوق وفرائض پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا کہ:
٭حکومتی عہدے انصاف کے ساتھ اہل (Eligible) لوگوں کو تفویض کیے جائیں۔(58)
٭اللہ اور رسول کی اطاعت کے ماتحت، حکمرانوں (اولواالامر) کی اطاعت کی جائے۔(59)
٭اللہ اور رسول کی اطاعت مطلق اور غیر مشروط(Un-Conditional) ہے، جبکہ حکمرانوں،بزرگوں، اماموں اور مفتیوں (اولواالامر) کی اطاعت مقیداور مشروط(Bound & Condtional)ہے۔
٭اس کے بعد جہاد اور قتال کی تیاری کے ضمن میں یہ بات واضح کی گئی کہ موت کہیں بھی آسکتی ہے، گھر میں بھی اور مضبوط قلعوں میں بھی۔ گھر میں پڑے رہنا زندگی کے تحفظ کی ضمانت نہیں۔(78)
٭اس کے علاوہ منافقین کی قسمیں، ان کی سازشیں، ان کی علامتیں اور انجام بھی بیان کیا گیا۔
٭قتلِ خطاء اور قتل عَمد کے احکام کے ساتھ ساتھ کسی بھی بے گناہ مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی سزا انتہائی سخت لہجے میں بیان کی گئی۔(92تا94)
پانچویں پارے میں خاص بات یہ ہے کہ اگر کسی جگہ دین پر عمل کرنا مشکل ہوتو اس جگہ کو چھوڑنا ضروری ہو جاتا ہے، اس بات کی قطعا گنجائش نہیں کہ مشکل کو بہانہ بنا کر دین پر عمل چھوڑ دیا جائے۔(97تا100)
سورہ نساء کی آیت کریمہ147پر پانچویں پارے کی تکمیل اور آیت کریمہ148سے چھٹے پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر6
خلاصہ سورۃُ الْمَاءِدَۃ……………………سورہ نمبر5
سورہ مائدہ مدنی ہے جس میں 16رکوع اور 120(ایک سو بیس)آیاتِ بینات ہیں۔
”مائدہ“ عَرَبی زُبان میں کھانوں سے بھرے ہوئے دستر خوان کو کہا جاتا ہے، آیت کریمہ112میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے اس مطالبے کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے آسمانوں سے کھانوں سے بھر اہوا دسترخوان نازل فرمائے، اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام”مائدہ“ رکھاگیا۔
٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اپنے مردوں کو سورہ مائدہ اور اپنی عورتوں کو سورہ نور سکھاؤ۔
٭اس سورہ مبارکہ میں حلال وحرام کے احکام خاص طور پر بیان ہوئے ہیں، چنانچہ یہ بات واضح کی گئی کہ کسی بھی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے۔ مُردار، خون، سُوَر کا گوشت، غیراللہ کے نام کا ذبیحہ، گلا گُھٹ کر یاچوٹ کھا کر مرنے والا جانور، آستانوں پر ذبح کیے جانے والے جانوروں سمیت پانسوں کے ذریعے قسمت معلوم کرنا سب حرام ہے۔(3)
٭اللہ خالق بھی ہے، رب بھی، اِلہ بھی، معبود بھی، اور حاکم وشارع(Law-Giver) بھی ہے، لہٰذا اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کو عملا تسلیم کرتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔(44تا50)
٭عیسائیوں کا ایک فرقہ عقیدہ حُلُول(Incarnation)کا قائل تھا، جبکہ دوسرا فرقہ عقیدہ تثلیث (Trinity) کا قائل تھا۔ اس سورہ مبارکہ میں ان دونوں عقیدوں کو باطل قرار دیا گیا ہے۔(17,72,73)
٭اس سورہ مبارکہ میں یہود ونصاریٰ سے قلبی دوستی لگانے سے بھی منع کیا گیا ہے۔(51تا58)
٭وہ آیت کریمہ جس میں دین اسلام کے مکمل ہونے کا اعلان کیا گیا وہ بھی اسی سورہ مبارکہ میں ہے(3)
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہسورہ مائدہ میں اسلامی عدالتوں کے قیام کی طرف بھی اشارہ ہے تاکہ اسلام کے فوجداری قوانین پر عمل درآمد ہوسکے اور اسلامی ریاست کے دشمنوں کو سزائیں دی جاسکیں۔(33,38)
سورہ مائدہ کی آیت کریمہ82پر چھٹے پارے کی تکمیل اور آیت کریمہ 83سے ساتویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر7
خلاصہ سورۃُ الْاَنْعَام……………………سورۃ نمبر6
سورہ انعام مکی ہے جس میں 20رکوع اور 165(ایک سو پینسٹھ)آیاتِ بینات ہیں۔
”اَنْعَام“ عَرَبی زبان میں جانوروں کو کہتے ہیں۔چونکہ اس سورہ مبارکہ میں کچھ جانوروں کے حلال اور کچھ کے حرام ہونے سے متعلق مشرکینِ عرب کے غلط نظریات کی تردید کی گئی ہے، اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کانام”انعام“ رکھاگیا۔
٭حلال وحرام کے معاملے میں مشرکین عرب نے اللہ کی شریعت کے مقابلے میں اپنی شریعت بنالی تھی۔ وہ کہتے تھے فلاں مخصوص مویشی اور فلاں مخصوص کھیت بتوں کے لئے وقف ہیں۔ اسی طرح اگر حاملہ جانور کے پیٹ میں کوئی بچہ ہو تو وہ صرف مردوں کے لئے حلال ہے جبکہ عورتوں کے لئے حرام ہے۔(138,139)
٭مشرکینِ عرب کے غلط نظریات کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ جس اللہ نے باغات، زیتون، اور انار پیدا کیے ہیں، اسی اللہ نے مال برداری، گوشت اور دودھ کے حصول کے لئے جانور پیدا کیے ہیں، لہٰذا کھانے پینے کی دوسری چیزوں کی طرح جانوروں کے حلال وحرام کرنے کا اختیار بھی صرف اللہ کے پاس ہے۔
٭جس طرح چار مَدَنی سورتوں (بقرہ،آل عمران،نساء،مائدہ) میں بنی اسرائیل کے خلاف فردِ جرم تھی، اسی طرح اس سورہ مبارکہ میں بنی اسماعیل(مشرکین مکہ) کے خلاف حتمی فردِ جرم(Final Charge Sheet) عائد کی گئی ہے۔ (کہ وہ مشرک ہیں،شک میں مبتلا ہیں،حق کا مذاق اڑاتے ہیں، قرآن کے منکر ہیں،رسول پر اعتراض کرتے ہیں،منکر آخرت ہیں، ضدی ہیں، کسی دلیل پر غور نہیں کرتے،مرضی کے معجزے مانگ رہے ہیں، قتلِ اولاد کے مرتکب ہیں، حلال وحرام اپنی مرضی سے بناتے ہیں،۔)
اس سورۃ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مختلف طریقوں سے عذاب دیتا ہے: کبھی اوپر سے(جیسے بارش،بجلی) کبھی نیچے سے(جیسے سیلاب،زلزلہ، خَسَف) اور کبھی فرقوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے سے لڑا کر۔(65)
سورہ انعام کی آیت کریمہ111پر ساتویں پارے کی تکمیل اور آیت کریمہ 112سے آٹھویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر8
خلاصہ سورۃُ الْاَعْرَاف……………………سورہ نمبر7
سورہ ”اعراف“ مکی ہے جس میں 24رکوع اور 206آیاتِ بینات ہیں۔
”اعراف“ جنت اور جہنم کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ اس سورہ مبارکہ کے پانچویں اور چھٹے رکوع میں اعراف اور اصحابِ اعراف کا ذکر ہوا ہے، اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام ”اعراف“ رکھاگیا۔
٭اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کا قانونِ ہلاکت اقوام(Law of Annihilation) اور قانونِ استبدالِ اقوام(Law of Replacement)بیان ہوا ہے۔
٭دنیا میں اللہ کے عذاب سے صرف وہی بچتا ہے جو نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرے، ورنہ اس فریضے میں غفلت کرنے والے مسلمان بھی عذاب کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔
٭ہجرت مدینہ سے کچھ عرصہ قبل جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے بنائے جارہے تھے، اُس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ سورہ مبارکہ نازل فرماکر چھ رسولوں (حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ علیہم السلام) اور ان کی چھ قوموں کی ہلاکت اور تباہی کی تاریخ بتا کر سردارانِ قریش کو تنبیہ کہ تمہارا انجام بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے۔
٭اس کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چھ نکاتی مشن بیان کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں،آپ کی تعظیم کرنے والوں، آپ کی مدد کرنے والوں اور قرآن کی پیروی کرنے والوں کے لئے کامیابی کی بشارتیں دی گئی ہیں۔(آیت156,157)
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ ہلاکت اقوام کے بارے میں یہ حقیقت واضح کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جیسے افراد کی موت کا وقت مقرر ہے، اسی طرح اقوام کی موت کا وقت بھی مقرر ہے جس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ (آیت34، ولکل امۃ اجل)
سورہ اعراف کی آیت کریمہ87پر آٹھویں پارے کی تکمیل اور آیت کریمہ88سے نویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر9
خلاصہ سورۃُ الْاَنْفَال……………………سورہ نمبر8
سورہ انفال مَدَنی ہے جس میں 10رکوع اور 75آیاتِ بینات ہیں۔
انفال کا معنی مالِ غنیمت ہے، یعنی وہ سورت جس میں مالِ غنیمت کی تقسیم کے بارے میں احکام نازل ہوئے۔ اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام ”انفال“رکھا گیا۔
٭یہ سورہ مبارکہ جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی، اس سورہ مبارکہ میں اسلامی ریاست کے اہم اصول بیان کیے گئے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں جہاد کی ضرورت، اہمیت، غرض وغایت، فلسفہ جہاد، آدابِ جہاد، ترغیبِ جہاد اور فضائل جہاد سمیت اسلام کا قانونِ صلح وجنگ، فتح و شکست کے چھ اسباب،مسلمانوں کے لئے سَمع وطاعت، قریش مکہ کے جرائم، مالِ غنیمت اور جنگی قیدیوں کے احکام، شیطان کی چالبازیاں، منافقین کا رویہ، غزوہ بدر کے واقعات، اللہ کی مدد ونصرت، حضورﷺ کے معجزات، آسمان سے فرشتوں کانزول اور اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی اور عسکری پالیسی کا بیان بھی ہے اور مسلمانوں کو دشمنوں کے مقابلے میں مادی، عسکری اور روحانی تینوں اعتبار سے مکمل تیاری رکھنے کا حکم بھی ہے۔
٭سورہ انفال میں فلسفہ جہاد کے ضمن میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کی جنگ ملک گیری، مال ودولت کے حصول یا لوگوں کو غلام بنانے کے لئے نہیں بلکہ اقامتِ دین کے لئے ہوتی ہے۔
٭جب تک لوگوں میں تغیر نہیں آتا اس وقت تک اللہ کی نعمت بھی نہیں بدلتی، جب لوگوں کے اعمال میں تبدیلی آتی ہے تو اللہ کے انعامات میں بھی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مشرکین مکہ کو مسجد حرام کی تولیت سے معزول کرکے مسلمانوں کو مسجد حرام کا متولی بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔(34)
سورہ انفال کی آیت کریمہ40پر نویں پارے کی تکمیل اور آیت کریمہ41سے دسویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر10
خلاصہ سورۃُ التَّوْبَۃ……………………سورہ نمبر9
سورہ توبہ مَدَنی ہے جس میں 16رکوع اور129(ایک سو اُنتیس)آیاتِ بینات ہیں۔
توبہ کا معنی ہے ”پلٹنا،اور اللہ کی طرف رجوع“ کرنا۔اس سورہ مبارکہ میں بعض اہل ایمان کی توبہ کا ذکر ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام”توبہ“ رکھا گیا۔
٭صلح حدیبیہ کے بعد مشرکین مکہ کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی، جس پر اللہ رب العزت کی طرف سے اعلان برأت اور جنگ تبوک میں بعض مسلمانوں کی کمزوریوں پر گرفت اورپھر معافی کااعلان کیا گیا۔
٭اس کے علاوہ اس سورہ مبارکہ میں اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی، عسکری پالیسی اور اقتصادی پالیسی بھی بیان کی گئی۔ چنانچہ خارجہ پالیسی کے ضمن میں معاہدوں کی خلاف ورزی اور پاسداری کے احکام بیان ہوئے۔ اور عسکری پالیسی کے ضمن میں مشرکین عرب، اہل کتاب اور منافقین کے خلاف عَلمِ جہاد بلند کرنے کا حکم ہے۔ جبکہ اقتصادی پالیسی کے ضمن میں اللہ کے ہی دیئے ہوئے مال میں سے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے اور زکوۃ دینے کا حکم آیا، زکوۃ کے مصارف بھی بیان ہوئے اور زکوۃ نہ دینے کی صورت میں سخت عذاب کی وعید بھی بیان ہوئے۔
٭اس سورہ مبارکہ میں فرقہ وارانہ بنیاد پر مسجد کی تعمیر کرنے کا ذکربھی ہے اور مسلمانوں کو ایسی مسجد کا بائیکاٹ کرنے کا حکم بھی ہے۔ چنانچہ ایسی ہی ایک مسجد یعنی مسجدِ ضرار کو آگ لگا دی گئی۔
٭اس سورہ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد بعثت بھی بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوقرآن اور دین حق دے کر اس لئے بھیجا تاکہ آپ دینِ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کردیں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہیکہ اگر غیر مسلم اسلامی ریاست کا”تعلیمی ویزا“لے کر دین اسلام سیکھنے آئیں تو ان کی حفاظت کی جائے اور بخیریت واپسی کی سہولت فراہم کی جائے۔(6)
سورہ توبہ کی آیت کریمہ93پر دسویں پارے کی تکمیل اور آیات کریمہ94سے گیارہویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر11
خلاصہ سورۃ یُوْنُسْ……………………سورہ نمبر10
سورہ یونس مکی ہے جس میں 11رکوع اور 109آیاتِ بینات ہیں۔
”یونس“ اللہ رب العزت کے ایک برگزیدہ پیغمبر کا نام ہے۔ اس سورہ مبارکہ کی آیت کریمہ98 میں یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ کے قبول ہونے کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام”یونس“ رکھا گیا۔
٭مشرکین قرآن کریم کو جھٹلاتے ہوئے کبھی اسے انسانی کلام کہتے تھے،اور کبھی اس میں تبدیلی لانے کی باتیں کرتے تھے، چنانچہ اس سورہ مبارکہ میں قرآن کریم کا تفصیلی تعارف کرایا گیا کہ یہ اللہ کا کلام ہے، مؤمنین کے لئے رحمت ہے، کلامِ برحق ہے۔ اگر تمہیں اس میں شک ہے تو تم سب مل کر اسی جیسی ایک سورت بنا کر دکھاؤ۔(38)
٭اللہ تعالیٰ کا قانونِ ہلاکت اقوام یہ ہے کہ وہ پہلے دکھ کے امتحان میں مبتلا کرتا ہے، پھر سکھ کے امتحان میں۔ ظالم ومکارلوگ ان دونوں امتحانوں میں ناکام ہو جاتے ہیں۔(دکھ میں بے صبری اور سکھ میں ناشکری کرتے ہیں) اور پھر اللہ اپنی تدبیر چلتا ہے، اس کے فرشتے ان کے مکروفریب کو ان کے اعمال ناموں میں درج کرتے رہتے ہیں۔(21)
٭مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کو ”خالق ومالک“ اور ”آسمانوں کا رب“ تسلیم کرتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ کو زمین کا رب نہیں تسلیم کرتے تھے، جس کی وجہ سے اللہ کی عبادت اور اطاعت، اس کی ”الوہیت“ اور اس کی ”حاکمیت وتشریع“ میں شرک کیا کرتے تھے۔چنانچہ اس سورہ مبارکہ میں رب کا صحیح تعارف کرایا گیا ہے۔(3،31تا35)
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ لوگ کئی چیزوں پر خوشیاں مناتے ہیں، لیکن ایک چیز ایسی ہے جس پر خوشی منانے کا حکم اللہ دیتا ہے اور وہ ہے قرآن کے ساتھ تعلق۔ یعنی جس کو قرآن کے ساتھ مضبوط تعلق نصیب ہو جائے وہ اس بات پر خوشیاں منائے۔(58)
پارہ نمبر11
خلاصہ سورۃُ ہُوْد……………………سورہ نمبر11
سورہ ہود مکی ہے جس میں 10رکوع اور123(ایک سو تَیس)آیاتِ بینات ہیں۔
ہود علیہ السلام اللہ رب العزت کے ایک جلیل القدر پیغمبر کا نام ہے۔ اس سورہ مبارکہ کے پانچویں رکوع میں ہود علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر ہے، اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام”ہود“ رکھا گیا۔
٭اس سورہ مبارکہ میں کفار ومشرکین کے نظریات کی تردید کے بعد اقوام گذشتہ(قومِ نوح، قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ لوط، قومِ شعیب،اور قوم فرعون)کے واقعات بیان کرکے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ انسانوں کے دو گروہ ہیں، ایک گروہ وہ ہے جس کی زندگی اور جُہدوعمل کا ہدف صرف دنیا ہے، وہ ہر وقت اسی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ بنانے میں لگا رہتا ہے۔ جبکہ دوسرا گِروہ وہ ہے جو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت سنوارنے کی کوشش بھی کرتا ہے، پہلے گِروہ کی مثال اندھوں اور دوسرے گِروہ کی مثال بینائی سے سرفراز لوگوں جیسی ہے۔
٭اقوام گذشتہ کے ان واقعات میں ایک طرف تو عقل وفہم اور سمع وبصر رکھنے والوں کے لئے عبرتیں اور نصیحتیں ہیں، اور دوسری طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کے لئے تسلی اور ثابت قدمی کا سامان اور سبق ہے۔ ان قصوں میں اس شخص کے لئے عبرت ہے جو عذابِ آخرت سے ڈرتا ہے کیونکہ جس اللہ نے نافرمان بستیوں پر کل عذاب نازل کیا تھا وہ آج بھی سرکش قوموں کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔
٭صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک میں سفید بال دیکھتے تو کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھاپا تیزی سے آرہا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: مجھے سورہ ہود، سورہ واقعہ، سورہ مرسلات، سورہ نباء، اور سورہ تکویر نے بوڑھا کردیا ہے۔ (ترمذی،کتاب التفسیر)
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں اللہ نے اپنا قانون ہلاکت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
جب تک کسی قوم میں اصلاح کا عمل یعنی نہی عن المنکر جاری رہتا ہے اس وقت تک اللہ تعالیٰ اس قوم کو ہلاک نہیں کرتا۔(117)
سورہ ہود کی آیت کریمہ5پر گیارہویں پارے کی تکمیل اور آیت کریمہ6سے بارہویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر12
خلاصہ سورۃُ یُوسُف……………………سورہ نمبر12
سورہ یوسف مکی ہے جس میں 12رکوع اور111آیاتِ بینات ہیں۔
یوسف علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حسین وجمیل پیغمبر کا نام ہے، جن کا حُسن وجمال مشہور زمانہ ہے، اس سورہ مبارکہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات وواقعات کی روشنی میں غلبہ اسلام کی بشارت دی گئی ہے، اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام ”یوسف“ رکھا گیا۔
٭قرآن حکیم میں بہت سے قصے مذکور ہیں لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے کو ”اَ حسنَ القِصَص“ کہا گیا ہے، کیونکہ اس قصے میں جتنی عبرتیں اور نصیحتیں پائی جاتی ہیں شاید ہی کسی اور قصے میں پائی جاتی ہوں۔
٭اس قصے میں دین بھی ہے دنیا بھی ہے، توحید وفقہ بھی ہے اور سیرت وسوانح بھی، خوابوں کی تعبیر بھی ہے اور سیاست وحکومت کے رُموز بھی، انسانی نفسیات بھی ہے اور معاشی خوشحالی کی تدبیریں بھی، حُسن وعشق کی حشر سامانیاں بھی ہیں اور زُہدوتقویٰ کی دستگیری بھی۔
٭اس سورہ مبارکہ میں انبیاء وصالحین کا تذکرہ بھی ہے اور ملائکہ وشیاطین کا بھی، جِنّوں اور انسانوں کا بھی، تو چوپاؤں اور پرندوں کا بھی، بادشاہوں، تاجروں، عالموں اور جاہلوں کے حالات بھی ہیں تو راہِ راست سے ہٹ جانے والی عورتوں کی حیلہ سازی، مکاری اور حیاء باختگی بھی۔
٭کفارِ مکہ نے یہود کے اشارے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور امتحان دو سوال کئے تھے: ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ بنی اسرائیل شام سے مصر کس طرح پہنچے؟ اور ان کا دوسرا سوال یہ تھا کہ یوسف علیہ السلام کے واقعے کی تفصیل کیا ہے؟ انہی دوسوالوں کے جواب کے لئے یہ سورہ مبارکہ نازل کی گئی۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص باتیں یہ ہیں کہ اگر آباء و اجداد صحیح راستے پر ہوں تو ان کی پیروی ضرور کرنی چاہیے۔ اپنی خوبیاں ہر کسی سے بیان نہیں کرنی چاہیے۔بحیثیت مسلمان جہاں کہیں بھی دو بول کہنے کا موقع ملے تو ایک بول دعوت الی اللہ کا ضرور کہیں۔
سورہ یوسف کی آیت کریمہ52پر بارہویں پارے کی تکمیل اور آیت کریمہ53سے تیرہویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر13
خلاصہ سورۃُ الرَّعْد……………………سورہ نمبر13
سورہ رعد مکی ہے جس میں 6رکوع اور 43(تینتالیس) آیاتِ بینات ہیں۔
”رَعد“ بادل کی گرج کو کہتے ہیں،آیت کریمہ31میں اس کا ذکر ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام ”رَعد“ رکھا گیا۔
٭سورہ یوسف میں حق وباطل کو ایک قصے کے ذریعے سمجھایا گیا تھا، جبکہ سورہ رَعد میں حق وباطل کو عقلی اور آفاقی دلائل کے ذریعے سمجھایا گیاہے۔
٭سورہ رَعد بلاغَت،جامعِیت،منفرد اُسلوب کے اعتبار سے ایک نہایت پُرتاثیر سورت ہے۔اس سورہ مبارکہ کا موضوع حق وباطل کی تمیز ہے، چنانچہ حق وباطل کے فرق کو ایک مثال کے ذریعے سمجھایاگیا ہے۔(17)اور پھر حق کا ساتھ دینے والوں کی دس صفات اور مخالفت کرنے والوں کی سات علامات کا ذکرکیاگیا ہے۔(20تا30)
٭اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے شاہکار ذکر فرماکر ایک اصولی بات یعنی قوموں کے عروج وزوال کا ضابطہ بھی بیان فرمادیا کہ:اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالتِ امن وعافیت کو اس وقت تک آفت و مصیبت میں نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود ہی اپنے اعمال و احوال کو برائی اور نافرمانی میں تبدیل نہ کردے۔(11)
٭اللہ کے عذاب اور پکڑ سے کوئی کسی کو نہیں بچا سکتا، سوائے اپنے ایمان اور عمل کے۔فرشتے بھی اللہ کے خوف سے لرزتے رہتے ہیں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید میں لگے ہوئے ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ رعد یعنی آسمانی بجلی کی گرج اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کرتی ہیجبکہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز یعنی مطیع وفرمانبردار ہے۔ بس انسان اور جن ایسی مخلوق ہیں جو کو اختیار دیا گیا ہے۔(15)
پارہ نمبر13
خلاصہ سورۃ ابراہیم……………………سورہ نمبر14
سورہ ابراہیم مکی ہے جس میں 7رکوع اور 52(باون) آیاتِ بینات ہیں۔
”ابراہیم“ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر کا نام ہے، چھٹے رکوع میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کا ذکر ہے، اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام”ابراہیم“ رکھا گیا۔
٭اس سورہ مبارکہ کا خاص موضوع ”شکر خداوندی“ ہے۔چنانچہ ”اَیَّامُ اللہ“یعنی وہ مشہور دن جب قوموں کے عروج و زوال کا فیصلہ ہو، اور شکروکفر کے درمیان کشمکش کی تاریخ بتاتے ہوئے ایک اصولی بات بیان فرمائی کہ، شکر کرنے سے نعمت میں اضافہ،اور ناشکری کرنے سے نہ صرف نعمت چھین لی جاتی ہے، بلکہ دردناک عذاب کا سامنا بھی کرنا پڑے گا(5تا17)۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو نہیں گن سکتے۔
٭اس سورہ مبارکہ میں دو مثالیں بھی دی گئی ہیں:
کافروں، ریاء کاری کرنے والوں اور حرام کمانے والے لوگوں کے اعمال کی مثال راکھ جیسی ہے۔ قیامت والے دن ایک ہوا چلے گی اور اس راکھ کو بکھیر کررکھ دے گی(18).
اچھے نظریے کی مثال ایسے درخت کی سی ہے جس کی جڑیں خوب زمین میں جمی ہوئی ہوں اور شاخیں آسمان کی بلندی کو چھوتی ہوئی محسوس ہوں، جبکہ گمراہ کن نظریے کی مثال اس جھاڑ جھنکار کی سی ہے جو زمین پر اُگ آیا ہو اور ذرا سی کوشش سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے(24تا27)۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں شیطان کی وہ تقریر بیان ہوئی ہے جوشیطان قیامت والے دن لوگوں کے سامنے کرے گا۔ چنانچہ وہ کہے گا: اللہ نے جتنے وعدے کیے وہ سچے تھے، اور میں نیجتنے وعدے کیے سب جھوٹے تھے۔ میں نے تم پر کوئی زبردستی نہیں کی، میں صرف بلاتا تھا، تم میرے پیچھے چلے آتے تھے، آج مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو، آج نہ میں تمہارے کسی کام آسکتا ہوں اور نہ تم میرے کسی کام آسکتے ہو۔
پارہ نمبر14
خلاصہ سورۃ حِجَر……………………سورہ نمبر15
سورہ ”حجر“مکی ہے جس میں 6رکوع اور99آیاتِ بینات ہیں۔
”حجر“ ایک شہر کا نام ہے جہاں قوم ثمود آباد تھی، چھٹے رکوع میں حجر کی بستی اور اس کے باشندوں کا ذکر آیا ہے، اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام ”حجر“ رکھا گیا۔
٭مکی زندگی کے آخری زمانے میں جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر اور کبھی پاگل کہا جارہا تھا، جس سے آپ کو بہت تکلیف پہنچتی تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورہ حجر نازل فرماکر یہ تسلی دی کہ اس قرآن کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت بھی کریں گے۔
٭اس کے ساتھ ساتھ منکرین کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کی یاد دہانی بھی کروائی، انسان کی ابتدائی تخلیق کا ذکر کیا، اور پھر اپنی دو شانوں کا ذکر بھی کیا کہ: میں غفور الرحیم بھی ہوں اور سخت عذاب دینے والا بھی۔٭سردارانِ قریش کو تنبیہ کرنے کے لئے ہم جنس پرستوں یعنی قومِ لوط، اصحاب الایکہاور ناپ تول میں کمی کرنے والی قومِ شعیب،اور اصحاب حجر یعنی قوم ثمودکا ذکر کرکے مشرکین کو تنبیہ کی گئی کہ اللہ کی پکڑ تم پر بھی آسکتی ہے۔
٭آخر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی کہ آپ غم نہ کریں اور تبلیغ کا کام انفرادی سطح سے بڑھا کر اعلانیہ کریں، ہم نے آپ کو سورہ فاتحہ اور قرآن جیسی عظیم دولت عطا کی ہے، اس دولت کے ملنے کے بعد آپ دنیوی مال و دولت کی طرف نظراٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہم جنس پرستوں پر آنے والے خوفناک عذاب کا ذکرکرنے کے بعد فرمایا دیہان دینے والوں کے لیے اس میں عبرت کا سامان ہے اور اس عذاب کے کھنڈرات آج بھی تمہارے راستے(بحرمیت اردون میں) موجود ہیں۔
سورہ حجر کی پہلی آیت کریمہ پر تیرہویں پارے کی تکمیل اور دوسری آیت کریمہ سے چودہویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر14
خلاصہ سورۃُ النَّحَل……………………سورہ نمبر16
سورہ نحل مکی ہے جس میں 16رکوع اور128آیاتِ بینات ہیں۔
”نحل“ عربی زبان میں شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ اس سورہ مبارکہ کی آیتِ کریمہ اڑسٹھ 68 میں اس کا ذکر آیا ہے، اسی مناسبت سے بطور علامت اس سورہ مبارکہ کا نام ”نحل“ رکھا گیا۔
٭شہد کی مکھی بھی عام مکھیوں جیسی ایک مکھی ہے لیکن وہ حکم الٰہی سے ایسے حیرت انگیز کام کرتی ہے جن کے کرنے سے انسانی عقل عاجز ہے۔ خواہ چھتہ بنانے کا عمل ہو یا دور دراز واقع باغات اور فصلوں سے قطرہ قطرہ شہد کا حصول، اُن کا ہر عمل بڑا ہی عجیب ہوتا ہے۔ اُن کے بناے ہوئے چھتوں میں ہزاروں مُسَدَّس خانے ہوتے ہیں جن میں شہد جمع کرنے کا گودام، فُضلہ رکھنے کے لئے سٹور اور بچے جننے کے لئے الگ حصہ ہوتا ہے۔
٭اس چھوٹی سی مملکت پر ایک ملکہ حکمرانی کرتی ہے، اسی کے حکم سے مختلف ڈیوٹیاں لگتی ہیں۔ کچھ مکھیاں دربانی اور سیکورٹی پر معمور ہوتی ہیں اور کچھ انڈوں کی حفاظت پر، بعض نابالغ بچوں کی دیکھ بال کرتی ہیں اور بعض انجینئرنگ اور چھتے کی تراش خراش میں لگی رہتی ہیں۔ جب کسی مکھی کو تلاش وجستجو کے بعد شہد مل جائے تو وہ باقی مکھیوں کو وہاں لے کر جاتی ہے، ایک مکھی جس پھول کو نچوڑ لے تو وہاں ایک خاص قسم کی نشانی لگالیتی ہے تاکہ بعد میں آنے والی مکھی کا وقت ضائع نہ ہو، اگر کوئی مکھی کسی گندگی پر بیٹھ جائے یا کوئی زہریلا مواد لے کر آئے تو سیکورٹی پر مامور عملہ اندر داخل ہونے سے قبل ہی اس کا ”سر“تن سے جدا کرلیتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مکھی یہ سارے کام ہمارے حکم سے سرانجام دیتی ہے، سوچنے والوں کے لئے اس میں نشانی ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گھوڑے، خچراور گدھے کے بارے فرمایا یہ تمہاری سواریاں اور زیب و زینت ہیں۔ اور مستقبل میں اللہ مزید ایسی ایسیچیزیں (مثلا جہاز،ریل گاڑی،کاریں،بسیں وغیرہ) پیدا کرے گا جنہیں تم ابھی نہیں جانتے۔(8)
سورہ نحل کی آیتِ کریمہ128پر سورہ نحل اور چودہویں پارے کی تکمیل اور سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیتِ کریمہ سے پندرہویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر15
خلاصہ سورۃُ بنی اسرائیل……………………سورہ نمبر17
سورہ بنی اسرائیل مکی ہے جس میں 12رکوع اور 111آیاتِ بینات ہیں۔
بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو کہتے ہیں چونکہ اس سورہ مبارکہ میں بنی اسرائیل کی دو مرتبہ تباہی کا ذکر کیا گیا ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام ”بنی اسرائیل رکھا گیا۔اس سورہ مبارکہ میں معراج کا ذکر بھی ہے اس لئے اسے”اِسراء“ بھی کہتے ہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سورہ بنی اسرائیل اور سورہ زمر کی تلاوت کیے بغیر بستر پر نہیں لیٹتے تھے(ترمذی، فضائل قرآن)
٭سردارنِ قریش حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل یا مکے سے بے دخل کرنا چاہتے تھے،اِس پر خوشخبری سنائی گئی کہ اللہ سردارانِ قریش کو غیرمستحکم(Up-Root) کردے گا۔اورکفار مکہ کو تنبیہ کی گئی اور بطور عبرت یہ سمجھایا گیا کہ بنی اسرائیل نے دو مرتبہ ملک شام میں فساد مچایا تو دونوں بار اُن کو سزا دی گئی۔ پہلی بار598قبل مسیح میں اس وقت جب بنی اسرائیل نے تورات کو جھٹلایا، تو اللہ تعالیٰ نے بخت نصر جیسے جابر بادشاہ کو مسلط کردیا، جس نے ہزاروں اسرائیلی قتل کرکے بیت المقدس میں خوب تباہی مچائی۔ پھر حضرت عُزیر علیہ السلام کی اصلاحی کوششوں سے بنی اسرائیل کو دوبارہ عروج حاصل ہوا لیکن ان کے بعد بنی اسرائیل نے دوبارہ نافرمانی اور سرکشی شروع کردی، اور حضرت زکریہ اور حضرت یحیٰ علیہماالسلام کو بے دردی سے قتل کردیا۔ چنانچہ اللہ کا قانون بھی دوبارہ پلٹا اور پھر بابل کے ایک ظالم بادشاہ ٹائٹس نے70ء میں حملہ کرکے اُسی طرح کی تباہی مچائی۔ سامعین! اللہ کا قانون آج بھی اسی طرح قائم ہے اگر ہم اِس کتاب قرآن حکیم سے روگردانی کریں گے تو شہروں میں تباہیاں ہوتی رہیں گی۔
٭اس سورہ مبارکہ میں اسلامی ریاست کی معاشرتی اقدار اور منشور بھی تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے(23تا39)۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص باتیں یہ ہیں کہ انسان اپنی قسمت اوروں کے پاس تلاش کرتا پھرتا ہے لیکن وہ تو اس کے اپنے گلے کا ہار ہے۔(13) ہرانسان اپنے شاکلہ یعنی سانچے کے مطابق عمل کرتا ہے، اگر شاکلا اچھا ہو تو عمل بھی اچھا ہوگا۔(84)کائنات کی ہر چیز تسبیح کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔(44)
پارہ نمبر15
خلاصہ سورۃُ الْکَھَفْ……………………سورہ نمبر18
سورہ کہف مکی ہے جس میں 12رکوع اور 110آیاتِ بینات ہیں۔
”کہف“عَرَبی زبان میں ”غار“ کو کہتے ہیں۔ چونکہ اس سورہ مبارکہ میں اصحابِ کہف یعنی غار والوں کا قصہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام”کہف“ رکھا گیا۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:جو شخص سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات محفوظ رکھے گا، وہ دجال سے محفوظ رہے گا۔(مسلم)اور تم میں سے جو شخص دجال کو پائے، اسے چاہیے کہ وہ سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے، اس لئے کہ یہ دجال کے فتنے سے پناہ دینے والی سورت ہے۔(ابوداؤد) سامعین! ایسا تبھی ممکن ہے جب یہ آیات یاد ہوں اور آدمی پڑھتا رہے۔
٭مفسرین نے لکھا ہے اس سورہ مبارکہ کا موضوع ”معرکہ ایمان ومادیت“ ہے۔ چنانچہ اس سورہ مبارکہ کا آخری دور کے فتنوں سے خاص تعلق ہے جس کا سب سے بڑا علمبردار دجال ہوگا۔ یہ سورہ مبارکہ اہل ایمان کو دجال کے فتنہ سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرتی ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں جتنے اشارے،واقعات اور مثالیں بیان ہوئی ہیں وہ سب ”ایمان اور مادیت“ کی کشمکش کو بیان کرتی ہیں۔اس سورہ مبارکہ کے شروع میں بتایا گیا کہ زمین پر موجود تمام اشیاء کی رنگا رنگی کا مقصد انسان کی آزمائش ہے، چنانچہ ایمان کی آزمائش کے ضمن میں ”قصہ اصحابِ کہف“ بیان ہوا۔ دولت کی کمی بیشی کی آزمائش کے ضمن میں ”دوزمین داروں کاقصہ“ بیان ہوا۔ علم کی کمی بیشی کی آزمائش کے ضمن میں ”قصہ موسیٰ وحضر“ بیان ہوا۔اقتدار کی کمی بیشی کی آزمائش کے ضمن میں ”قصہ ذوالقرنین“ بیان ہوا۔
٭ مشرکین مکہ نے حضورﷺسے تین سوال کئے تھے: اصحاب کہف کون تھے اور ان کا قصہ کیا ہے؟۔ حضرت حِضراور حضرت موسیٰ علیہماالسلام کے قصے کی حقیقت بتائیں؟۔ ذوالقرنین کون تھے اور ان کا قصہ کیا ہے؟۔ اِن تینوں سوالات کا جواب سورہ کہف میں دیا گیا۔
اس سورت کی خاص بات یہ ہے کہ انسانوں کا ایک قبیلہ ”یاجوج ماجوج“ ہے جو اسی زمین پر موجودہے،وہ دنیا میں پہلے بھی بڑی تباہی پھیلاتا رہا ہے لیکن قرب قیامت میں بہت بڑی تباہی پھیلائیں گے۔
سورہ کہف کی آیت کریمہ74پر پندرہویں پارے کی تکمیل اور آیت کریمہ75سے سولہویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر16
خلاصہ سورۃُ مریم……………………سورہ نمبر19
سورہ مریم مکی ہے جس میں 6رکوع اور98آیاتِ بینات ہیں۔
”مریم سلامُ اللہ علیھا“ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ کا نام ہے۔ آیت کریم16سے34تک حضرت مریم سلام اللہ علیھا کا تذکرہ کیا گیا ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام”مریم“ رکھا گیا۔
٭نبوت کے پانچویں سال مشرکین مکہ کے مظالم سے تنگ آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا، چونکہ حبشہ میں مسلمانوں کا واسطہ عیسائیوں سے پڑنا تھا اسی بنا پرہجرت حبشہ سے پہلے یہ سورہ مبارکہ نازل کی گئی تاکہ مسلمان عیسائیوں کے سامنے اللہ کے دین کو صحیح پیرائے میں بیان کرسکیں۔
٭اس سورہ مبارکہ کا مرکزی مضمون عقیدہ تثلیث(Trinity) کی تردید اور توحید کا اثبات ہے۔چنانچہ اثبات توحید کے لئے ایک عقلی دلیل دی گئی کہ جس اللہ نے انسان کو عدم سے وجود بخشا ہے، کیا وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے؟(67)۔پھر عیسائیوں کو اُن کی اپنی تاریخ سے توحید کی ایک اور دلیل دی کہ جس اللہ نے حضرت زکریہ علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد دی، اُسی اللہ نے حضرت مریم کو بغیر شوہر کے بیٹا عطا فرمایا۔ پھرحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے فورا بعدکی گفتگونقل کی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اسی کی عبادت کرو۔ یہ گفتگو نقل کرکے عقیدہ تثلیث (Trinity) کی تردید کردی۔
٭سورہ مبارکہ کے آخر میں اللہ کی اولاد کا عقیدہ رکھنے پر سخت وعید بیان کرتے ہوئے غیض وغضب کا اظہار کیا گیا اور فرمایا: قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہوجائیں۔
٭اس کے علاوہ حضرت زکریہ کی دعاؤں، حضرت عیسیٰ و یحیٰ کی پیدائش، حضرت مریم کی پاکدامنی، حضرت ابراہیم،حضرت اسماعیل،حضرت موسیٰ، حضرت ہارون، حضرت ادریس علیھم السلام کا ذکرخیر بھی ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں ہر امت کے بگاڑ کا آغاز نماز چھوڑنے اور من مانی زندگی یعنی میری زندگی میری مرضی کی سوچ سے ہوا(59) قیامت والے دن ہر شخص اکیلااکیلا اللہ کے سامنے پیش ہوگا۔(95) کوئی سفارشی،کوئی سہارا پیشی کے وقت ساتھ نہیں ہوگا۔
پارہ نمبر16
خلاصہ سورۃُ طٰہٰ……………………سورہ نمبر20
سورہ طٰہٰ مکی ہے جس میں 8رکوع اور135آیاتِ بینات ہیں۔
”طہ“ حروف مقطعات ہیں، چونکہ اس سورہ مبارکہ کی ابتداء انہی حروف سے ہوتی ہے اس لئے بطور علامت اس سورہ مبارکہ کا نام”طٰہٰ“ رکھا گیا۔
٭اس سورہ مبارکہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی داستانِ حیات بڑی تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔چنانچہ مشرکین کی قیادت کو یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے طاغوتی رویئے فرعون جیسے ہیں، قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح توحید، آخرت اور نماز ہی کی دعوت دے رہے ہیں۔ اس دعوت سے اعراض کا انجام بھی فرعون اور اس کے لشکر کی طرح تباہی اور رسوائی کی صورت میں ظاہر ہوگا(14,15)۔
٭اس سورہ مبارکہ میں مسلمانوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے نشیب وفراز سے سبق لے کر قرآن کے سائے میں ابلیس اور اپنے وقت کے فرعونوں کا صبرواستقلال سے مقابلہ کرو۔(132)
٭اس سورہ مبارکہ میں یہ وعید بھی سنائی گئی ہے کہ جو شخص قرآنی تعلیمات سے اعراض کرے گا تو اللہ تعالیٰ چین وسکون ختم کرکے اس کی زندگی تنگ کردے گا۔(124) بیش بہا دولت کے باوجودزندگی میں بے چینی ہی ہوگی۔
٭پچھلی سورہ مریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی سے استدلال کرکے عیسائیوں کو دعوت توحید تھی، جبکہ اس سورہ طٰہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی سے استدلال کرکے یہودیوں کو دعوت توحید ہے۔ اور اس سے اگلی سورت سورۃ الانبیاء میں 18انبیاء کی تاریخ، ان کے کردار اور کارناموں پر روشنی ڈال کر پوری دنیا کو آخری رسول پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ فرمایا: اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیتے رہو اور خود بھی اس پر جمے رہو۔ یاد رکھو! ہم آپ سے رزق کموانا نہیں چاہتے،رزق تو ہم آپ کو دیتے ہیں۔(132)
سورہ طٰہ کی آیتِ کریمہ135پر سولہویں پارے اور سورہ طٰہ کی تکمیل ہوتی ہے جبکہ سورۃ الانبیا کی پہلی آیت کریمہ سے سترہویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر17
خلاصہ سورۃُ الْاَنْبِیَاءَ……………………سورہ نمبر21
سورۃ الانبیاء مکی ہے جس میں 7رکوع اور112آیاتِ بینات ہیں۔
”انبیاء“ نبی کی جمع ہے، چونکہ اس سورہ مبارکہ میں بہت سارے انبیائے کرام کا تذکرہ کیا گیا ہے اسی مناسبت سے اس کا نام ”انبیاء“ رکھا گیا۔
٭کفارِمکہ قرآن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سخت تذبذب کا شکار تھے، کبھی کہتے ہماری طرح کا ہی تو انسان ہے،کھاتا پیتا ہے،کبھی کہتے یہ جادو گر ہے، کبھی کہتے یہ شاعر ہے، کبھی کہتے یہ جو کچھ بتاتا ہے اس کے پریشان خواب ہیں، کبھی کہتے یہ اپنی طرف سے بناتا ہے اور کبھی کہتے اسے کوئی سکھلاتا ہے۔(3تا8)
٭چنانچہ سورہ انبیاء میں 18نبیوں کا نام لے کر ذکر کیا گیا اور ان کی حیثیت، کردار، دعوت اور ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب بشر تھے، کھاتے پیتے اور موت کا سامنا کرتے تھے۔ نیکیوں کا کام بڑھ چڑھ کرکرتے، نماز زکوۃ اداکرتے، سچے وفادار اعلیٰ کردار کے حامل اور صبرواستقامت کا پیکر تھے۔
اس سورہ مبارکہ کی چند خاص باتیں یہ ہیں:
۱۔ ہم نے تمہاری طرف وہ کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا ذکر بھی ہے،کیاتم غور نہیں کرتے؟(10)چنانچہ ہر شخص اپنے آپ کو قرآن میں تلاش کرسکتا ہے کہ اس کا تذکرہ کہاں ہے اور وہ کہاں کھڑا ہے۔
۲۔اس سورہ مبارکہ میں یہ عجیب وغریب انکشاف بھی ہے کہ زمین وآسمان پہلے آپس میں جڑے ہوئے تھے اللہ نے انہیں جدا جدا کردیا(30) اسے ہمارے دور کے سائنس دان(Big Bang Theory)کہتے ہیں۔
۳۔ جنگی ہتھیاروں کی پہلی صنعت یا فیکٹری حضرت داؤد علیہ السلام نے لگائی تھی(80)
۴۔قرب قیامت میں یاجوج ماجوج کا خروج ہوگا(96)۔
۵۔ اور مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہونے کی خوشخبری سنائی گئی ہے(105)۔
۶۔ اس سورہ مبارکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا کے لئے رحمت قرار دے کر آپ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے(107)۔
یہ بھی پڑھیں: حج کا طریقہ
پارہ نمبر17
خلاصہ سورۃُ الْحَج……………………سورہ نمبر22
سورہ حج مَدَنی ہے جس میں 10رکوع اور78آیاتِ بینات ہیں۔
”حج“ارکانِ اسلام کا پانچواں رُکن ہے، اس سورہ مبارکہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی لوگوں پر حج کی فرضیت کے اعلان کا ذکر ہے، اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام”حج“ رکھا گیا۔
٭سورہ حج کا آغاز قیامت کی ایسی ہولناکی بیان کرتے ہوئے ہوا ہے کہ دل دِہل جائیں، اور جسم پر کپکپی طاری ہو جائے۔اس سورہ مبارکہ میں ایک انسانی رویے کو بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ کچھ لوگ ایسے ہیں اگر دنیوی فائدہ حاصل ہو تو عبادت اور دین پر جمے رہتے ہیں لیکن قربانی اور آزمائش کا سامنا کرنا پڑے تو پیٹھ پھیر لیتے ہیں (11)۔ گویا انہوں نے دین کو کرنسی سمجھ رکھا ہے جس کے کھرا یا کھوٹا ہونے کا فیصلہ وہ دنیوی نفع یا نقصان کے اعتبار سے کرتے ہیں
٭سورہ حج کا زمانہ نزول وہ دور تھا جب اسلامی تحریک ایک نئے اور حساس دور میں داخل ہورہی تھی، 13سال کی محنت اور اس کے جواب میں ہونے والے ظلم وستم اور مکہ سے اخراج وقتل کے منصوبوں کے بعد مدینہ منورہ میں ایک ٹھکانہ فراہم ہورہا تھا، جہاں اسلامی ریاست کی بنیاد پڑ رہی تھی۔ اس سورہ مبارکہ میں جابجا مسلمان قیادت اور قریش کی قیادت کے مابین تقابل پیش کیا گیا ہے۔قریش کی متکبر قیادت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی میراث کھو چکی تھی، توحید کے بجائے شرک اور آخرت پر یقین کے بجائے شک میں مبتلا ہوچکی تھی، نماز،طواف اور حج میں بدعتوں کو جگہ دے چکی تھی۔ حلال وحرام کے خود ساختہ قوانین بنا کر اللہ کی حاکمیت کو چیلنج کررہی تھی، اس سب کے باوجود خانہ کعبہ کی متولی(Custodian) بھی تھی اور ان کی ساکھ اور معیشت کا انحصار اسی مرتبہ پر تھا، دراصل قریشی قیادت اُن پیرزادوں پر مشتمل تھی جن کے اندر نہ خوف خدا تھا اور نہ ہی خوف آخرت۔ ان تمام باتوں کے باوجود وہ کسی عقلی یا نقلی دلیل کے بغیر محض تکبر کی بناء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث وتکرار کررہی تھی۔چنانچہ اس سورہ مبارکہ میں قریش کے خلاف فردِجرم(Charge sheet)عائد کرکے خانہ کعبہ کی تولیت سے معزول بھی کیاگیااور مسلمانوں کوان کے خلاف جہاد و قتال کاجواز(Legitimacy of War)بھی پیش کیا گیا(39)۔
٭اس سورہ مبارکہ میں مقاصدِ جہاد اور مقاصدِریاست بھی بتائے گئے اور اسلامی ریاست کی چار اہم ذمہ داریوں (نماز۔زکوۃ،امربالمعروف،نہی عن المنکر) سمیت مسلمانوں کو دس نکاتی ہدایت نامہ بھی دیا گیا۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو پہلی بار باقاعدہ قتال کرنے کی اجازت اسی سورہ مبارکہ میں دی گئی اور قتال کے جواز کی وجوہات بھی بیان کردیں گئیں۔
اور یہ بھی بتادیا گیا کہ تمہارا نام مسلمان ہے، لہٰذا مسلمان کے علاوہ اپنے دیگر نام رکھ کر امت میں انتشار پھیلانے کے بجائے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑکر اسی نام کو اختیار کرو۔
سورہ حج کی آیت کریمہ78پر سورہ حج اور سترہویں پارے کی تکمیل اور سورہ مومنون کی پہلی آیت کریمہ سے اٹھارہویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر18
خلاصہ سورۃُ المُؤمنون……………………سورہ نمبر23
سورہ مؤمنون مکی ہے جس میں 6رکوع اور118آیاتِ بینات ہیں۔
”مؤمنون“ مؤمن کی جمع ہے، چونکہ اس سورہ مبارکہ کی ابتدائی آیات میں مؤمنین کی کچھ صفات کا ذکر کیا گیا ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام”مؤمنون“ رکھا گیا۔
٭اس سورہ مبارکہ میں مسلمانوں سے ایمان کے بعد اخلاقی، عباداتی، اور مالی اعمال کا مطالبہ کیا گیا ہے جو انفرادی اہمیت کے حامل ہیں۔ جبکہ اگلی سورہ نور میں اسلامی ریاست اور اس کے اداروں کی تنظیم کے لئے قانونی، معاشرتی، اور فوجداری قوانین کے نفاذ کا مطالبہ ہے جو اجتماعی اہمیت کے حامل ہیں۔
٭سورہ مبارکہ کے آغاز میں بندہئ مؤمن کی کردار سازی اور تعمیرِ سیرت کے لئے بنیادی صفات بیان ہوئی ہیں (1تا11)۔ بعض لوگ خالص دہریے اور مادہ پرست منکر آخرت ہوتے ہیں (37,82)۔ چنانچہ اس سورہ مبارکہ میں توحید انفسی کی دلیلیں بیان کرتے ہوئے انسانی تخلیق کے مختلف مراحل بیان ہوئے(12)۔ پھر توحید آفاقی کی دلیلیں بیان کرتے ہوئے سات آسمانوں،بارش،پھلوں اور چوپایوں کا ذکرکیاگیا(17)۔ پھرتوحید کی نقلی دلیلیں بیان کرتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بعد کی قوموں کا تذکرہ ہے(23تا69)۔پھر توحید کی عقلی دلیلیں سوالیہ انداز میں بیان کیں (84تا91)۔
٭اس سورہ مبارکہ میں ایک طرف مؤمنین کی ظاہری اور باطنی صفات بیان ہوئیں ہیں تو دوسری طرف مشرکین اور منکرین کے بُرے اوصاف کا ذکر بھی ہوا ہے(33,47)۔ایک طرف قوموں کے قانون استبدال(Low of Replacement) کاذکرہے تو دوسری طرف قوموں کی ہلاکت کے اصول(Law of Annihilation) بھی بیان ہوئے ہیں۔ایک طرف اللہ سے رحمت ومغفرت کی دعائیں مانگنے کا حکم ہے تو دوسری طرف ہر کسی سے بے پرواہ ہو کر دعوت وتبلیغ کاکام جاری رکھنے کی ہدایت بھی ہے(93تاآخر)۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اچھے اعمال کرنے اور نیک بننے میں حلال کھانے پینے کا بہت عمل دخل ہوتا ہے، اس لیے حلال کھاؤاور اچھے اعمال کرو، حرام کھاؤگے تو کرتوت ہی کرو گے۔(51)
پارہ نمبر18
خلاصہ سورۃُ النُّور……………………سورہ نمبر24
سورہ نور مَدَنی ہے جس میں 9رکوع اور64(چونسٹھ)آیاتِ بینات ہیں۔
نور کا معنی روشنی ہے، چونکہ اس سورہ مبارکہ کی آیت کریمہ35 میں اللہ تعالیٰ کے نور ہونے کا تذکرہ کیا گیا ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام”نور“ رکھا گیا۔
٭اس سورہ مبارکہ میں ایسے آداب وفضائل اور احکام وقواعد بیان ہوئے ہیں جو اجتماعی زندگی کی راہ کو منور اور روشن کردیتے ہیں۔ سورہ نور میں زیادہ تر ایسے احکام بیان ہوئے ہیں جو عفت وعصمت سے تعلق رکھتے ہیں، اسی لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ سورہ مبارکہ خواتین کو سکھانے کی خاص تاکید فرمائی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا: اپنے مردوں کو سورہ مائدہ اور اپنی عورتوں کو سورہ نور سکھاؤ۔
٭چنانچہ اس سورہ مبارکہ میں زناکرنے اور پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے کی سزا، گھروں میں داخل ہونے، بیڈروم میں داخل ہونے کے احکام،زیب وزینت اور زیور کے احکام، اجتماعی،فوجداری،عائلی اور معاشرتی احکام سمیت امُّ المؤمنین سیدہ،طیبہ،طاہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر منافقین کے لگائے گئے الزامات کی تردید اور الزام لگانے والوں کے لئے ”عذابِ عظیم“ کی وعید اور فتح مکہ کی خوشخبری دی گئی ہے۔
٭سورہ نور کی پہلی ہی آیت میں یہ بات سمجھا دی گئی کہ: یہ احکام محض سفارشات نہیں بلکہ فرض احکام ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ فرمایا: اللہ کی حدود یعنی شرعی سزائیں دیتے ہوئے ذرا بھی ترس نہ کھاؤ اور شرعی سزائیں لوگوں کے سامنے دو تاکہ باقیوں کو عبرت حاصل ہو(2)
جوکوئی بھی مسلمانوں یا مسلمان معاشرے میں فحاشی پھیلائے گا اللہ اسے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دردناک عذاب سے دوچار کرے گا۔(19)
کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور ہر چیز اپنی نماز اور تسبیح جانتی ہے کہ اس نے کیسے اپنی نماز پڑھنی ہے۔(41)
پارہ نمبر18
خلاصہ سورۃُ الْفُرقان……………………سورہ نمبر25
سورہ فرقان مکی ہے جس میں 6رکوع اور77آیاتِ بینات ہیں۔
فرقان کا معنی فرق کرنا اور جدا کرنا ہے، یعنی وہ چیز جس کے ذریعے حق وباطل کے درمیان فرق کیا جاسکے، قرآن کریم کے بہت سے ناموں میں سے ایک نام ”الفرقان“ بھی ہے، جو اس سورہ مبارکہ کی پہلی ہی آیت میں مذکور ہے۔اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام بھی ”فرقان“ رکھا گیا۔
٭ اس سورہ مبارکہ میں مشرکین کے مختلف اعتراضات کو ذکرکیا گیا ہے کہ وہ کبھی تو قرآن کریم کو گذشتہ لوگوں کی قصے کہانیاں، من گھڑت،اور جادو کہتے ہیں، اور کبھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ کو یہی غریب اور یتیم نظر آیا تھا؟اس پر خزانے کیوں نہیں نازل ہوتے؟ یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا پیتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟ کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل ہوا؟ اللہ نظر کیوں نہیں آتا؟قرآن سارا اکھٹا نازل کیوں نہ ہوا؟ چنانچہ اس سورہ مبارکہ میں ان اعتراضات کے مُسکِت جوابات بھی دیئے گئے ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا شکوہ ذکرکیا گیا ہے جو آپ ﷺ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ سے کریں گے: اے میرے رب! میری قوم نے اِس قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔
قرآن کو چھوڑنے کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن پر ایمان نہ لائے۔ دوسری صورت یہ کہ ایمان تو ہو، لیکن تلاوت نہ کرے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ تلاوت تو کرے لیکن قرآن کو نہ سمجھتا ہو اور نہ تدبر کرے۔چوتھی یہ کہ قرآن کا مفہوم تو سمجھتا ہو لیکن عمل نہ کرے اور نہ ہی زندگی کے معاملات اور تنازعات میں قرآن کو فیصل نہ بنائے۔ پانچویں صورت یہ ہے کہقرآن کی تبلیغ نہ کرے۔
سامعین! ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ ہم قرآن کو کس کس صورت میں چھوڑ چکے ہیں۔
سورہ فرقان کی آیتِ کریمہ20پر اٹھارہویں پارے کی تکمیل اور آیتِ کریمہ21سے انیسویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر19
خلاصہ سورۃُ الشُّعَرَآء……………………سورہ نمبر26
سورہ شعراء مکی ہے جس میں 11رکوع اور227آیاتِ بینات ہیں۔
”شعراء“ شاعر کی جمع ہے، اس سورہ مبارکہ کی آخری آیاتِ بینات میں شاعروں کی حقیقت بیان کی گئی ہے اسی مناسبت اس سورہ مبارکہ کا نام”شعرآء“ رکھاگیا۔
٭مشرکین مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے ہوئے کبھی شاعر کہتے اور کبھی اپنی مرضی کا معجزہ پیش کرنے کا مطالبہ کرتے تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہلاکت اقوام کے چھ بڑے قصے بیان کرکے مشرکین کو تنبیہ کرنے کے ساتھ ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلجوئی کی کہ اگر اللہ چاہے تو ایسی نشانی یا معجزہ ظاہر کرسکتا ہے جسے دیکھ کر وہ ایمان لے آئیں، لیکن اللہ کو تو وہ ایمان مطلوب ہے جو بالغیب ہو۔
٭سات انبیاء کرام اور ان کی اپنی اپنی قوموں کے ساتھ کشمکش بیان کرکے یہ سمجھایا کہ ان سب کی پکار اور بنیادی دعوت ایک ہی تھی، اور اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ پیش کر رہے ہیں یہ نیا نہیں بلکہ اسی کا تسلسل ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں چند الفاظ باربار دہرائے گئے ہیں مثلا:
اَلا تَتَّقُون: ہر نبی نے تقوے کی دعوت دی۔
اِنِّیْ لَکم رَسُولٌ اَمِیْن: ہر نبی اللہ کا رسول اور امین تھا۔
فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ہرنبی نے تقوے اور اپنے اطاعت کی دعوت دی۔
وَمَااَسْءَلُکُمْ عَلَیہِ مِنْ اَجْرٍ: ہر نبی نے اپنی قوم پر واضح کیا کہ وہ معاوضے کا طالب نہیں۔
اِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِِیْم: ہر نبی نے رب کا تعارف کروایا۔
پارہ نمبر19
خلاصہ سورۃُ النَّمَل……………………سورہ نمبر27
سورہ نمل مکی ہے جس میں 7رکوع اور93آیاتِ بینات ہیں۔
”نمل“ عَرَبی زبان میں چیونٹی کو کہتے ہیں، اس سورہ مبارکہ کی آیت کریمہ18 میں ”وادیئ نمل“کا تذکرہ کیا گیا ہے، اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام”نمل“ رکھا گیا۔
٭سورہ شعراء میں ہلاک شدہ قوموں کے منفی رویوں سے عبرت حاصل کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے جبکہ اِس سورہ مبارکہ میں تصویر کا دوسرا رُخ ہے، یعنی یمن کی ملکہ نے نبی کی دعوت قبول کرکے کامیابی حاصل کی، لہٰذا اِس مثبت رویے سے عبرت حاصل کرو۔
٭سورہ نمل میں حضرت موسیٰ،حضرت صالح،اور حضرت لوط علیہم السلام کے قصے اجمالی طور پر جبکہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہماالسلام کے قصے قدرے تفصیل سے بیان کرکے یہ بات واضح کی کہ”اقتدار“کو دعوتِ توحید کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔ان دونوں حضرات نے اتنی بڑی سلطنت اور آئے روز پیش آنے والے عجیب و غریب مظاہر کو دیکھ کر کبھی تکبر نہیں کیا، بلکہ اللہ کے سامنے عاجزی اور انکساری کی، ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کیا اور ان انعامات کو اللہ کا فضل قرار دیا۔
٭ اس میں اللہ کی قدرت کے دلائل پانچ مرتبہ سوالیہ انداز میں بیان کیے گئے ہیں، یعنی آسمان وزمین کو کس نے پیدا کیا؟ بارش کون برساتا ہے؟ فصلیں اور کھیتیاں کون اُگاتا ہے؟ مصیبت،تکلیف اور بیماری میں کسے پُکارا جاتا ہے؟ بحروبَر کی تاریکیوں میں کس کو پُکارا جاتا ہے؟ انسان کو پہلی بار کس نے پیدا کیا اور دُوبارہ کون پیدا کرے گا؟۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی کابینہ میں موجود اللہ تعالیٰ کے ایک ولی نے ایسا بڑا کارنامہ سرانجام دیا جو جنات بھی نہ کرسکے۔ یعنی پلک جھپکتے ہی بلقیس کا تخت حاضر کردیا، یہ اس ولی اللہ کی کرامت تھی جو اللہ کے حکم سے اس کے ہاتھ پر ظاہر ہوئی۔
سورہ نمل کی آیتِ کریمہ59پر انیسویں پارے کی تکمیل اور آیتِ کریمہ60سے بیسویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر20
خلاصہ سورۃُ الْقَصَصْ……………………سورہ نمبر28
سورہ قصص مکی ہے جس میں 9رکوع اور 88آیاتِ بینات ہیں۔
”قصص“ کا معنی واقعات یا قصے ہیں، اس سورہ مبارکہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام”القصص“ رکھا گیا۔
٭مکی زندگی کی درمیانی مدت میں جب قریش حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حد سے زیادہ تنگ کررہے تھے اور طرح طرح کے الزامات بھی لگا رہے تھے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے سورہ شعراء، سورہ نمل، اور سورہ قصص نازل فرماکر مثبت اور منفی رویوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انسان کو تکبر اور فساد فی الارض سے بچنا چاہیے ورنہ فرعون اور قارون کی طرح اُخروی عذاب کے علاوہ دنیوی عذاب سے دوچار بھی کیا جاسکتا ہے۔ قریش کی متکبر قیادت کو ان تاریخی واقعات سے عبرت حاصل کرنے کا مشورہ دیاگیاہے۔
٭چنانچہ سورہ قصص میں حضرت موسی علیہ السلام کی تفصیلی سوانح حیات ذکر کرتے ہوئے فرعون جیسے متکبر ڈکٹیٹر(Dictator)، اس کے وزیر ”ہامان“ ان دونوں کے کے ماتحت کمانڈروں اور فسادی سرمایہ دار قارون(76) کے عبرت ناک انجام کا ذکر کیا اور ان نافرمانوں جیسے رویے رکھنے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تمہارا انجام بھی ایسا ہوسکتا ہے۔
٭اس سورہ مبارک میں فرعون کے خلاف فردِ جرم (Charge Sheet) بھی عائد کی گئی ہے:
۱۔فرعون متکبراور سرکش حکمران تھا۔ ۲۔لوگوں کو ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“کی پالیسی اختیار کیے ہوئے تھا۔
۳۔نسل پرست تھا۔ ۴۔نسل کُش بھی تھا۔ ۵۔ فسادی تھا۔ ۶۔الہ اور رب ہونے کا دعوے دار تھا۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ کتنی ہی قومیں ایسی گزری ہیں جن کو اپنی معاشی ترقی پر بڑا ناز تھا، لیکن اللہ نے اسی چیز کو جو ان کی ترقی کا ذریعہ تھی عذاب بنا کر تباہی پھیر دی۔اللہ کسی بستی کو اس وقت تک تباہ نہیں کرتا جب تک اپنی آیات پڑھ پڑھ کر سنانے والے اس بستی میں نہ بھیج دے۔ آج میڈیا کے ذریعے تلاوت آیات بھی اسی حجت کے تام ہونے کا ذریعہ بن رہی ہے۔(58,59)
پارہ نمبر20
خلاصہ سورۃ عنکبوت……………………سورہ نمبر29
سورہ عنکبوت مکی ہے جس میں 7رکوع اور69آیاتِ بینات ہیں۔
”عنکبوت“ مکڑی کے جالے کو کہتے ہیں، اِس سورہ مبارکہ کی آیتِ کریمہ 41میں کفارومشرکین کے عقائدِ باطلہ اور فتنوں کو مکڑی کے جالے سے تشبیہ دی گئی ہے، اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام ”عنکبوت“ رکھا گیا۔
٭مکی زندگی میں جب مشرکین کی طرف سے ظلم وستم کی انتہاء کردی گئی تو”نومسلم“صحابہ کرام بہت پریشان تھے، چنانچہ اللہ رب العزت کی طرف سے مسلمانوں میں عزم وہمت پیدا کرنے کے لئے یہ سورہ مبارکہ نازل کی گئی۔
٭جیسے مکڑی کا گھرظاہری اور باطنی لحاظ سے کمزور ہوتا ہے ایسے ہی فتنے اور غیراللہ کے سہارے کمزور ہوتے ہیں۔ مکڑی کا گھر ظاہری لحاظ سے گنجلک، نہ سمجھ آنے والا، انٹریکٹ یعنی توجہ کھینچنے والا، ڈراونا،اور حیرت زدہ کردینے والا ہوتا ہے لیکن جھاڑو کی ایک تیلی سے ایک سیکنڈ میں لپیٹ کر ختم کرنا ممکن ہوتا ہے۔ اسی طرح باطنی طور پر مکڑی کے گھر کی کمزوری یہ ہے کہ مادہ بچے جننے کے بعد نر کو قتل کردیتی ہے، اور پھر بچے بڑے ہو کر ماں کو قتل کردیتے ہیں۔
٭اس سورہ مبارکہ میں خبردار کیا گیا کہ محض زبان سے ایمان کا اقرار جہنم سے نہیں بچائے گا بلکہ اللہ آزمائش کے ذریعہ ظاہر کرے گا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔اگر زمین تم پر تنگ کردی گئی ہے تو کیا ہوا؟ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے کسی دوسرے علاقے میں ہجرت کرلو۔ دنیا کی زندگی محض ڈرامہ ہے، جس طرح ڈرامہ ختم ہوتے ہی سارے کردار اصل روپ میں آجاتے ہیں اس طرح زندگی کی سانسیں ختم ہوتے ہی امیر غریب، حکمران عوام سب ایک جیسے کفن میں ایک جیسی قبر کی کوٹھڑی میں چلے جاتے ہیں۔ اس سورہ مبارکہ میں یہ اہم ہدایت بھی دی گئی ہے کہ:
مشکل حالات سے نکلنے کے لیے تین کام کریں: ۱۔تلاوت قرآن، ۲۔اقامت صلوۃ، ۳۔ اللہ کا ذکر۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اگرکسی علاقے، دفتر،یاکسی کمپنی وغیرہ میں دین پر عمل درآمد مشکل ہو تو کسی دوسری جگہ ہجرت کرلینی چاہیے، اس بات سے نہیں گھبرانا چاہیے کہ رزق کہاں سے آئے گا۔ کیونکہ کتنے ہی جانور ہیں جو رزق اٹھائے نہیں پھرتے اللہ انہیں بھی رزق دیتا ہے تمہیں بھی دے گا۔(60)
سورہ عنکبوت کی آیت کریمہ44پر بیسویں پارے کی تکمیل اور آیت کریمہ45سے اکیسویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر21
خلاصہ سورۃُ الرُّوم……………………سورہ نمبر30
سورہ روم مکی ہے جس میں 6رکوع اور60آیاتِ بینات ہیں۔
نزول قرآن کے وقت ”روم“ایک ملک کا نام تھا، چونکہ اس سورہ مبارکہ میں رومیوں کے ایرانیوں پر غالب آنے کی پیشن گوئی(Prediction) کی گئی ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام”روم“ رکھا گیا۔
٭ 614ء میں روم پر آتش پرست مشرک ایرانیوں کا قبضہ ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے مشرکین عرب مسلمانوں سے کہتے تھے،جس طرح روم میں وحی ورسالت کے ماننے والے نصرانیوں کو شکست ہوئی ہے اسی طرح ہم عرب بھی تمہارے دین کو مٹا دیں گے۔ اس کے جواب میں رومیوں کے دوبارہ غالب آنے اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہونے کی پیشن گوئی دینے کے لئے یہ سورہ مبارکہ نازل ہوئی۔
٭ اس سورہ مبارکہ کا مرکزی مضمون فتح بدر کی بشارت اور اثبات آخرت ہے، چنانچہ توحید اور آخرت کے اثبات کے لئے عقلی، نقلی، آفاقی اور انفسی دلائل دے کر توحید اختیار کرنے، قرآن کو ماننے اور رسول پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، بصورت دیگر دنیاا ور آخرت میں رسوائی کی دھمکی دی گئی ہے۔
٭ انسان کی فطرت میں نیکی کی طرف رغبت اور بدی سے خلش رکھی ہوئی ہے اس لیے فطرت کی پکار پر لبیک کہو۔کائنات کی ہر چیز اللہ کی فرمانبردار ہے۔ بحروبر میں جتنا فساد ہے یہ لوگوں کے اعمال کا نتیجہ ہے۔
٭ قیامت والے دن مجرم لوگ قسمیں اٹھااٹھا کر کہیں گے ہم دنیا میں صرف ایک گھنٹہ رہے، اور پھر معذرتیں کریں گے لیکن قیامت والے دن کسی کی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے نزول کے بعد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ابی ابن خلف کے ساتھ ایک سو انٹوں کی شرط لگائی تھی کہ آئندہ دس سال کے اندر رومی ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، چنانچہ سات سال بعد ایسا ہوگیا، اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ابی ابن خلف کے بیٹوں سے سواونٹ وصول کیے۔
(نوٹ) بعد میں اسلام نے ایسی شرط لگانے کو حرام قرار دے دیا۔ یہ واقعہ جوئے کی حرمت سے پہلے کا ہے۔
پارہ نمبر21
خلاصہ سورۃُ لقمان……………………سورہ نمبر31
سورہ لقمان مکی ہے جس میں 4رکوع اور 34آیاتِ بینات ہیں۔
”لقمان“ ایک بزرگ حکیم کا نام ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں اُن نصیحتوں کا ذکر ہے جو لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو کیں تھیں، اسی مناسبت سے اس کا نام ”لقمان“ رکھا گیا۔
٭سورہ لقمان میں بتایا گیا ہے کہ اللہ بھی حکیم ہے اور اس کی کتاب قرآن بھی حکیم ہے۔ حضرت لقمان کو بھی حکمت عطاء کی گئی تھی کہ اللہ کا شکر ادا کرنا ضروری ہے۔ دنیا میں آزمائشیں اور آخرت میں جزاء وسزا کا نظام بھی حکمت پر مَبنی ہے۔
٭اس سورہ مبارکہ میں آباء پرستی کی مذمت، شرک کی نامعقولیت اور توحید کی صداقت کو سمجھانے کے لئے لقمان حکیم کی نصیحتوں کو پیش کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ ہمیشہ سے سلیم الفطرت اور معقول انسان شرک سے بیزار اور توحید کی صداقتوں کے قائل رہے ہیں۔نومسلم نوجوانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ انہیں اپنے مشرک والدین کے ساتھ حسنِ سلوک تو لازماً کرنا چاہیے، لیکن شرک اور اللہ کی نافرمانی کے مسئلے میں اُن کی اطاعت جائز نہیں۔
٭اللہ کے مقابلے میں اپنے والدین کے پیچھے چلنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے ایک ایسا دن بھی آنے والا ہے جس میں اولاد والدین کے اور والدین اولاد کے کسی کام نہ آئیں گے۔س
٭اگر سارے درخت قلم بن جائیں، سمندر دوات بن جائیں، سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ تعالیٰ کی صفات ختم نہ ہوں گیں۔(27)
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پانچ چیزوں کے بارے بتایا ان کا علم سوائے اللہ کے اور کسی کے پاس نہیں۔۱۔قیامت کب آئے گی ۲۔بارش کب ہوگی ۳۔ماں کے رحم میں کیا ہے ۴۔آدمی کل کیا کمائے گا،یا کیا کرے گا۔ ۵۔آدمی کس سرزمین پر مرے گا۔
پارہ نمبر21
خلاصہ سورۃُ سجدہ………………سورہ نمبر32
سورہ سجدہ مکی ہے جس میں 3رکوع اور30آیاتِ بینات ہیں۔
”سجدہ“عَربی زبان میں پیشانی زمین پر رکھنے کو کہتے ہیں۔آیتِ کریمہ 15میں سجدہ کرنے کا حکم ہے، اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام ”سجدہ“ رکھا گیا۔
٭توحید ورسالت اور آخرت سے متعلق کفار کے پیدا کردہ شبہات کو دور کرنے اور اِن تینوں حقیقتوں یعنی توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دینے کے لئے یہ سورہ مبارکہ نازل کی گئی۔
٭آخرت کی جوابدہی کا احساس نہ ہونے کی وجہ سے ہی انسان بدکردار، بدعمل، فاسق وفاجر اور مجرم بن جاتا ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں واضح کیا گیا ہے کہ فاسقین یعنی نافرمان اور بدعمل لوگ، مؤمنین اور فرماں بردارلوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے(18)۔ آزمائشوں پر صبر اور رب پر کامل ایمان ہی کے نتیجے میں غلبہ اور کامرانی نصیب ہوتی ہے۔
٭موت کے وقت ملک الموت تمہاری حیوانی زندگی(Biological life) نہیں بلکہ تمہاری خودی اور وہ ”انا“ (ego) جسے ”میں“ اور ہم، اور تم کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں، ِاس انا کو قبضے میں لیتا ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ بہت بڑی رحمت ہے کہ وہ انسان کے گناہوں پر فورا گرفت کرکے عذاب نازل نہیں کرتا بلکہ پہلے مختلف مصائب اور نقصانات کے ذریعے متنبہ کرتا ہے تاکہ اس کی آنکھیں کھل جائیں۔
پارہ نمبر21
خلاصہ سورُ اَحْزَاب……………………سورہ نمبر33
سورہ احزاب مَدَنی ہے جس میں 9رکوع اور 73آیاتِ بینات ہیں۔
احزاب”حِزْبٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی جماعت یا گِروہ ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں غزوہ احزاب کا ذکر ہے جس میں اسلام مخالف گِروہ اکھٹے ہوکر مسلمانوں کے مدمقابل آگئے تھے، اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام ”احزاب“ رکھا گیا۔
٭سورہ احزاب میں بنیادی طور پر تین بڑے موضوعات یعنی اجتماعی آداب، شرعی احکامات اور غزوہ احزاب وغزوہ بنی قریظہ اور اِن کے ضمن میں منافقین کے کردار سے بحث کی گئی ہے۔
٭ چنانچہ اس سورہ مبارکہ میں معاشرتی آداب، سماجی عدل وانصاف اور شرعی احکامات کے ضمن میں پردے اور حجاب کے احکامات تفصیل سے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے کی سزا(60,61) اور ختم نبوت کا اعلان کرتے ہوئے ایک اہم دستور، قانونی اور ایمانی نکتے کی وضاحت کے لئے مؤمنین کو صاف بتا دیا گیا کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے خلاف کوئی دوسرا مؤقف اختیار کرنے کی آزادی حاصل نہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کے بعض اعتقادات اور بدعات کی تردید کرتے ہوئے تین جاہلانہ خیالات اور تصورات کو بیان کیا گیا۔ایک یہ کہ اللہ نے کسی انسان کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے بلکہ ہر انسان کا ایک ہی دل ہوتا ہے جس میں یا ایمان ہوگا یا کفر، دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔دوسرا یہ کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ماں کے ساتھ مشابہت دے دے تو اس سے بیوی ہمیشہ کے لئے حرام نہیں ہوتی بلکہ کفارہ دینے سے حلال ہو جائے گی۔تیسرا یہ کہ منہ بولا بیٹا ہونے کی کوئی حیثیت نہیں اس سے کوئی حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ساری امت کے باپ اور آپ کی بیویاں ساری امت کی مائیں ہیں۔
سورہ احزاب کی آیتِ کریمہ30پر اکیسویں پارے کی تکمیل اور آیتِ کریمہ31سے بائیسویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر22
خلاصہ سورۃُ سباء……………………سورہ نمبر34
سورۃ”سباء“مکی ہے جس میں 6رکوع اور54آیاتِ بینات ہیں۔
”سباء“ ایک ملک کا نام تھا، آیتِ کریمہ15 میں قومِ سباء کا تذکرہ ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام ”سباء“ رکھا گیا۔
٭اس سورہ مبارکہ کا اہم موضوع ”شکر ِخداوندی“ ہے۔ مشرکین اور منکرینِ آخرت طرح طرح کے اعتراضات اور الزامات لگا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے تھے۔ وہ کہتے جب انسان مرکر مٹی میں مل جائے گا تو دوبارہ کیسے پیدا ہوگا؟ قرآن جادو ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجنون ہیں،قیامت کب آئے گی؟وغیرہ۔ ان اعتراضات کی وجہ وہ ”مال ودولت“ اور خوشحالی تھی جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دے رکھی تھی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں دو ”رویوں“ یعنی (شاکرا ورکافر) کو بیان کرکے ان کی مثال دی کہ شکر کرنے والوں اور ناشکری کرنے والوں کا انجام کیا ہوا، اس سے عبرت حاصل کرو۔
٭یہ سورت بتاتی ہے خوشحال لوگ کہتے ہیں، ہمارے پاس مال و اولاد بہت زیادہ ہے، جو کہ اللہ کے ہم سے راضی ہونے کی دلیل ہے، اس لیے ہمیں عذاب نہیں ہوسکتا۔ اس کا جواب دیا کہ رزق کی کمی بیشی اللہ کی مرضی پر منحصر ہے، جسے چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے جسے چاہتا ہے کم دیتا ہے۔ قرب الٰہی کے لیے مال و اولاد کام نہیں آئیں گے بلکہ انسان کا اپنا ایمان اور عمل کام آئے گا۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات دو مثالیں ہیں ایک حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام کی، جن کے پاس وہ کچھ تھا جو کسی اور کے پاس نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ اللہ کو نہیں بھولے اور نہ کبھی نماز و ذکر چھوڑا۔ جبکہ دوسری مثال قوم سباء ہے جسے اللہ نے بہت نوازا، تاریخ کا عطیم الشان ڈیم بنایا، اس ڈیم سے نکلنے والی نہروں سے پورے ملک میں سرسبز و شاداب خطے،مناسب فاصلے پر بستیاں، خوشحالی کا یہ عالم کہ برتن سونے چاندی کے، فرنیچر ہاتھی کے دانت کا، جلانے کے لیے صندل اور دار چینی کی لکڑیاں، اور آج سے ہزاروں سال قبل اس ملک میں ستر مزلہ عمارت جیسی اونچی عمارت تعمیر کی۔ لیکن اللہ کو بھول گئے اور پھر وہ ترقی کا زینہ ڈیم ان کے لیے تباہی کا سبب بن گیا۔
پارہ نمبر22
خلاصہ سورۃُ فاطر……………………سورہ نمبر35
سورہ فاطر مکی ہے جس میں 5رکوع اور45آیاتِ بینات ہیں۔
فاطر کا معنی ہے پہلی بار پیدا کرنیوالا۔ اس سورہ مبارکہ کی پہلی ہی آیت میں یہ لفظ آیا ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کو ”فاطر“کا نام دیا گیا ہے۔
٭اس سورہ مبارکہ میں انسانی نظروں کو ان تکوینی نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو اس کتابِ جہاں کے ہر ورق پر پھیلی ہوئی ہیں۔ مرنے کے بعد کی زندگی پر ایسے حِسی اور واضح دلائل دیئے گئے ہیں جو ہر شہری اور دیہاتی کی سمجھ میں آسکتے ہیں۔ جو اللہ بارش سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے، جو انسان کو تخلیق کے مختلف مراحل سے گزارتا ہے وہی مُردوں کو بھی دُبارہ زندہ کرے گا۔
٭یہ سورہ مبارکہ ایمان و ہدایت، اور کفروضلالت کے درمیان بھی حِسی مثالوں کے ذریعہ فرق کرتی ہے، اور یہ بتاتی ہے کہ جیسے بینا اور نابینا، زندہ اور مُردہ، ظلمت اور نور، دھوپ اور چھاؤں مساوی نہیں ہوسکتے یونہی کافر اور مؤمن بھی برابر نہیں ہوسکتے۔(19تا23)
٭یہ سورت بتاتی ہے، اللہ کے وعدے سچے ہیں، لہٰذا تمہیں دنیا کی زیب و زینت دھوکے میں نہ ڈال دے۔ شیطان تمہارا دشمن ہے، اسے دشمن سمجھو۔ جو عزت چاہتا ہے اسے جان لینا چاہیے عزتوں کا مالک بھی اللہ ہی ہے۔
اے انسانو! اپنی اوقات کو جانو، تم فقیر ہو، تمہارے پاس کچھ بھی نہیں اور اللہ بے نیاز ہے۔وہ اگر چاہے تو تمہیں ختم کرکے کوئی نئی مخلوق پیدا کرلے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں وارثین کتاب کی تین اقسام بیان ہوئی ہیں:
۱۔جو کتاب پر ایمان تو رکھتے ہیں مگر عمل سے دور ہیں۔
۲۔جو عمل تو کرتے ہیں مگر کبھی کبھی کوتاہی اور گناہ بھی کر لیتے ہیں۔
۳۔اللہ کی کتاب کے تمام حقوق ادا کرنے والے، دین کی خاطر قربانیاں دینے والے، گناہ سے بچنے والے، اگر غلطی سے ہو جائے تو فورا توبہ کرنے والے۔
پارہ نمبر22
خلاصہ سورۃُ یٰسین……………………سورہ نمبر36
سورہ یٰسین مکی ہے جس میں 5رکوع اور 83آیاتِ بینات ہیں۔
چونکہ اس سورہ مبارکہ کی ابتداء دو حروف مقطعات یعنی یاء اور سین سے ہوتی ہے اسی بناء پر بطور علامت اس سورہ مبارکہ کا نام ”یٰسین“رکھا گیا۔
٭”سورہ یٰسین“ ایک جلالی سورت ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت،طاقت اور اختیار کو بیان کرتے ہوئے توحیدوآخرت اور قرآن ورسول پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہوئے ”حبیبکارپنٹر“ کا قصہ بیان کیا ہے۔اللہ کے جلال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 45مرتبہ صیغہ جمع متکلم(ہم) آیاہے، یعنی ہم نے یہ کیا، ہم نے وہ کیا وغیرہ۔اسی طرح حبیبکارپنٹر کے قصے کے ضمن میں سچے جنتی مؤمن کی دس صفات بیان کیں، جن میں ایک داعی اسلام کے لیے بڑی رہنمائی ہے۔
٭وہ صفات یہ ہیں: ۱۔صاحب استقامت، ۲۔مستعد، ۳۔داعی، ۴۔مخلص، ۵۔صاحبِ کردار، ۶۔عابد، ۷۔صاحب تدبر، ۸۔درست تصور آخرت، ۹۔کامل موحد ۰۱۔شفاعت باطلہ کا منکرِ ۱۱۔اپنی ہدایت کی فکر ۲۱۔دعوت میں حکمت ۳۱۔دوسروں کے لیے درمند
٭عام طور پر لوگ اس سورہ مبارکہ کو محض ثواب کے لئے پڑھتے ہیں، لیکن جو شخص اس سورہ مبارکہ کو سمجھ کر پڑھتا ہے وہ اپنے آپ کو ایک”مرعوب کُن“ جلالی ماحول میں موجود پاتا ہے، اُس کے دل ودماغ سے غیر اللہ کا بھوت اُتر جاتا ہے، وہ اللہ کی طاقت اور قدرت کا پوری طرح قائل ہو جاتا ہے، ہر اگلی آیت اس کیفیت کو مضبوط کرتی چلی جاتی ہے اور جب وہ اختتام پر پہنچتا ہے تو”کُن فیکونی“ کی صفات کی تلاوت وسماعت سے بلندیوں کو چھولیتا ہے اور آخری ٹکڑے ”الیہ ترجعون“کو پڑھ کر آخرت کی تیاری کے احساس سے سرشار وسرگرم ہو جاتا ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ قیامت والے دن انسان کے ہاتھ اور پاؤں بولیں گے، اور انسان کا سارا کھٹا چھٹا کھول کر رکھ دیں گے۔
سورہ یٰسین کی آیت کریمہ21پر بائیسویں پارے کی تکمیل اور آیتِ کریمہ22سے تئیسویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر23
خلاصہ سورۃُ الصَّافات……………………سورہ نمبر37
سورہ صافات مکی ہے جس میں 5رکوع اور182آیاتِ بینات ہیں۔
صافات کا معنی ہے صف باندھنے والے، پہلی ہی آیت میں لفظ ”صافات“ آیا ہے اسی سے یہ نام ماخوذ ہے۔
٭مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے اور جنات کا اللہ سے نسبی رشتہ قائم کرتے تھے، قرآن کا مذاق اڑاتے اور مرنے کے بعد دُبارہ زندہ ہونے کا انکار کرتے تھے۔چنانچہ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اِن غلط عقائد کا ردّ کرتے ہوئے بتایا کہ فرشتے صف باندھے رہتے ہیں، اللہ کا ذکر کرتے ہیں الوہیت میں شریک نہیں۔ اس کے بعد توحید ذات اور مرنے کے بعد دُبارہ زندہ ہونے، حساب کتاب دینے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہوئے نو انبیاء کرام کی خدمات اور دعوت وتبلیغ کاذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انبیاء مخلص، مؤمن، محسن اور اللہ کے نیک وفادار بندے ہوتے تھے۔
٭مخلصین کو ایسی جنت ملے گی جس میں لذیذ چیزیں،باعزت زندگی،ستھری شراب کے جام و ساغر،جھکی نگاہ اور موٹی آنکھوں والی حوریں ہوں گی۔ جنتیوں کو ان کی فرمائش پر ان کے وہ دوست اور جاننے والے بھی دکھائے جائیں گے جو جہنم میں عذاب بھگت رہے ہوں گے۔ تب جنتی جنت کی نعمتوں کو یہ کہتے ہوئے مزید انجوائے کریں گے کہ یہ دوست تو مجھے بھی جہنم میں ڈالنے ہی والا تھا لیکن میں اللہ کے فضل و کرم سے بال بال بچا اور اس کی باتوں میں نہیں آیا۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ قیامت والے دن لوگ اپنی ناکامی کا ذمہ دار اس گمراہ شخص کو ٹھہرائیں گے جسے دنیا میں اپنا پیر ومرشد،یا لیڈر مان کر اس کے پیچھے چلتے رہے، اور ذرا بھی نہیں سوچا یہ ہمیں کہاں لے جار رہا ہے، آیا اس کا راستہ قرآن وسنت کے راستے کے خلاف تو نہیں؟بس آنکھیں،کان اور دل ودماغ کے دروازے بند کر کے اندھا دھند اس کی پیروی کرتے رہے۔اس کے اچھا کہے کو اچھا اور اس کے برا کہے کو برا سمجھتے رہے۔
پارہ نمبر23
خلاصہ سورۃ ص……………………سورہ نمبر38
سورہ ”ص“ مکی ہے جس میں 5رکوع اور88آیاتِ بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کا آغاز حرفِ ”ص“ سے ہوتا ہے اسی مناسبت سے اس کا نام ”ص“ رکھا گیا۔
٭نبوت کے دسویں سال جب ابوطالب مرضِ وفات میں مبتلا تھے، سردارانِ قریش سخت تکبر اور ہٹ دھرمی کررہے تھے، ان کاایک وفد ابوطالب کے پاس آیا اور کہا اپنے بھتیجے کو سمجھائیں کہ وہ ہمارے دین اور معبودوں کے بارے میں کچھ نہ کہیں ہم ان کو کچھ نہیں کہیں گے۔
٭چنانچہ اس سورہ مبارکہ میں کفارِ قریش کی احمقانہ اور جاہلانہ سوچ بتانے کے بعد امم سابقہ کے متکبرین کا انجام بتایاگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے دو طرح کے نبیوں کا ذکر کیا۔
٭ ایک حضرت داؤد وعلیہ السلام جنہیں اللہ تعالیٰ نے ظاہری اور باطنی، دینی اور دنیوی قوت سے نوازا تھا، وہ ایک دن روزہ رکھتے، ایک دن افطار کرتے، آدھی رات سوتے،آدھی رات عبادت کرتے، وسیع سلطنت کے بادشاہ اور جلیل القدر پیغمبر تھے، انہیں ذکر کرنے والا دل، شکر کرنے والی زبان اور سحرطاری کردینے والی آواز عطاء ہوئی تھی، جبکہ ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس سے بھی بڑی سلطنت عطاء ہوئی تھی، چرند،پرند،ہوااور جنات ان کے لئے مسخر کردیئے گئے تھے۔
٭دوسرا واقعہ حضرت ایوب علیہ السلام کا ہے، ان کے پاس ثروت وغنا کی بہتات تھی، باغات اور حویلیاں تھیں، زرعی زمینیں اور ڈھور ڈنگرتھے، نوکر چاکر اور کئی بیٹے تھے۔لیکن جب اللہ کی آزمائش آئی تو اولاد ہلاک ہوگئی، مال مویشی مرگئے، باغات اجڑ گئے، حویلیاں ویران ہوگئیں، عزیز واقارب نے تیور بدل دیئے، فقروفاقہ نے ڈیرے ڈال دیئے اور خود بھی تکلیف دِہ بیماری میں مبتلا ہوگئے، اٹھارہ سال تک یہی صورتِ حال رہی مگر حضرت ایوب علیہ السلام نے صبروشکر کا دامن نہیں چھوڑا، بالاخر آزمائش کا دور ختم ہوا اور اللہ نے پہلے سے بھی زیادہ نواز دیا۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات داؤد علیہ السلام کو ہدایات دیتے ہوئے واضح کیا کہ اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ ہے، بندہ اللہ کی نیابت میں اللہ کے احکام نافذ کرنے کا پابند ہے، اپنی طرف سے قانون بنانے کا ختیار اس کے پاس نہیں۔
پارہ نمبر23
خلاصہ سورۃُ الزُّمَرْ……………………سورہ نمبر39
سورہ زُمر مکی ہے جس میں 8رکوع اور75آیاتِ بینات ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سورہ بنی اسرائیل اور سورہ زمر کی تلاوت کیے بغیر بستر پر نہیں لیٹتے تھے(ترمذی، فضائل قرآن)
زُمر ”زُمْرَۃٌ“ کی جمع ہے جس کا معنی ہے ”گِروہ“۔ سردارانِ قریش نے ایک مرتبہ یہ پیش کش کی کہ معین مدت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے معبودوں کی عبادت کریں، پھر ہم بھی ایک اللہ کی عبادت کریں گے۔اس سورہ مبارکہ میں مشرکین کو واضح کیا گیا کہ ایسا ناممکن ہے کیونکہ نبی اللہ کا فرمانبردار ہوتا ہے وہ کسی کے ساتھ سمجھوتا نہیں کرتا۔
٭اِس کے علاوہ مشرکین کے اُس دعوے کی تردید بھی کی گئی کہ ُان کے خود ساختہ معبود قیامت والے دن اُن کے حق میں شفاعت کریں گے۔ چنانچہ اس ضمن میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ قیامت والے دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا، انسان کا اپنا ایمان اور عمل ہی اس کی نجات کا زینہ بن سکے گا۔
٭اِس کے ساتھ ساتھ گناہ گاروں کو خوشخبری بھی سنائی گئی کہ کثرت سے گناہ کرنے والوں کو بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اگر گناہ گار ندامت کے ساتھ سچی توبہ کریں اور آئندہ گناہ سے بچنے کا وعدہ کریں تو اللہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔اللہ کی پکڑ اور موت آنے سے پہلے تین کام کرلو: ایک یہ کہ موت سے پہلے پہلے اللہ کی طرف انابت اوررجوع کرلو۔ دوسرا یہ کہ اللہ کی فرمانبرداری شروع کردو۔ اورتیسرا یہ کہ قرآن کی اتباع شروع کردو۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ جیسے موت کے وقت روح قبض کر لی جاتی ہے ایسے ہی نیند میں بھی روح قبض کر لی جاتی ہے، پھر جس کا وقت پورا ہو جاتا ہے اس کی روح واپس نہیں لوٹائی جاتی اور جس کی زندگی ابھی باقی ہے اس کی روح واپس لوٹا دی جاتی ہے۔
سورہ زُمر کی آیت کریمہ31پر تئیسویں پارے کی تکمیل اور آیت کریمہ32سے چوبیسویں پارے کا آغاز ہوتا ہے
پارہ نمبر24
خلاصہ سورۃُ المؤمن……………………سورہ نمبر40
سورہ مؤمن مکی ہے جس میں 9رکوع اور85آیاتِ بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی آیتِ کریمہ اٹھائیس(28) میں ایک بندہ مومن کا ذکر آیا ہے اسی مناسبت سے اس کا نام مؤمن رکھا گیا۔اس سورہ مبارکہ سے آگے سات سورتیں مسلسل ”حم“ کے الفاظ سے شروع ہوتی ہیں، ان کو ”حم سبعہ“ بھی کہتے ہیں، ان سورتوں میں توحید،رسالت،آخرت اور قرآن پر ایمان لانے کے آفاقی،انفسی،عقلی اور نقلی دلائل زور دار انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔
٭مکی زندگی میں جب قریش کے متکبر سردار فرعون، ہامان اور قارون کی طرح اقتدار کے نشے میں دُھت ہو کر مسلمانوں پر ظلم وستم کررہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فضول بحث وتکرار میں مشغول تھے اللہ تعالیٰ نے یہ سورہ مبارکہ نازل فرماکر انہیں اُس بندہ مؤمن کا واقعہ سنایا جو فرعون کے خاص درباریوں میں سے تھا لیکن خفیہ طور پر مسلمان ہو چکا تھا۔جب فرعون نے اپنے دربار میں حضرت موسیٰ وہارون علیہماالسلام کے قتل کا منصوبہ پیش کیا تو اُس وقت اِس بندہ مؤمن نے فرعون کے سامنے کلمہ حق بیان کرتے ہوئے کہا کہ کیا تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟اُس بندہ مؤمن کی تقریرِ دلپذیر سے فرعون کے درباری بھی متاثر ہو رہے تھے چنانچہ فرعون نے اُس کی باتوں کو مذاق میں اڑانے کے لئے اپنے وزیر ہامان سے کہا ایک مینارہ بناؤ، میں ذرا اس پر چڑ کر موسی کے اللہ کو تلاش کروں۔ لیکن اللہ نے فرعون کو اپنے عذاب کی گرفت میں پکڑ لیا جبکہ بندہ مؤمن کو عذاب سے بچا لیا۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ نہی عن المنکریعنی اللہ کی نافرمانی اور برائیوں سے روکنا اتنا اہم کام ہے کہ فرعون کے درباریوں میں سے ایک نے جب یہ کام کیا تو اللہ نے قرآن میں نقل کرکے اس کی تعریف کی۔ یہی وہ کام ہے جسے کرنے والے پر دنیا میں کبھی بھی عذاب نہیں آتا، بلکہ اللہ کی مدد ہمیشہ ایسے شخص کے ساتھ ہوتی ہے اور اللہ اس کو مشکلات ومصائب اور تکالیف سے نکال لیتا ہے۔
پارہ نمبر24
خلاصہ سورۃُ حٰم سجدۃ……………………سورہ نمبر41
سورہ حم السجدہ مکی ہے جس میں 6رکوع اور54آیاتِ بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کا آغاز حروف مقطعات ”حم“ سے ہوتا ہے، اور آیتِ کریمہ اڑتیس(38)آیتِ سجدہ ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام ”حم سجدہ“ رکھاگیا۔
٭جب قریشِ مکہ شدتِ مخالفت کیساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے بارے میں بدستور شک میں مبتلا تھے، عربی قرآن پر اعتراض کررہے تھے اور عوام کو قرآن سننے سے روک رہے تھے، قرآن سے اعراض کرتے ہوئے سردارانِ قریش کا رویہ قومِ عاد اور ثمود کے متکبر لوگوں کی طرح تھا۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورہ مبارکہ نازل فرماکر قریش کے لیڈروں سے کہا کہ تم بھی قومِ عاد وثمود کی طرح اللہ کے دشمنوں میں شامل ہو۔
٭یہ سورہ مبارکہ آخرت کا احساس دلاتے ہوئے بتاتی ہے کہ قیامت والے دن انسان کی کھال، آنکھیں، اور کان انسان کے خلاف گواہی دیں گے تو انسان حیرانگی سے کہے گاتم ہم پر کیوں گواہی دیتے ہو؟ آج جدید دور میں جدید سائنس نے یہ بات ثابت کی ہے کہ ہم جو کچھ کرتے یا بولتے ہیں اس کی مکمل ریکارڈنگ ہماری کھال میں ہورہی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے میموری کارڈ میں ریکارڈنگ سیو ہو جاتی ہے۔ہماری کھال نہ صرف آڈیو ریکارڈر ہے بلکہ سی سی ٹی وی کیمرے کا کام کرتے ہوئے ویڈیو ریکارڈر بھی ہے۔(20)
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ پیشنگوئی کی گئی ہے کہ بہت جلد اس کائنات اور انسان کی ذات میں جوجو راز پوشیدہ ہیں وہ ظاہر ہوں گے۔ چنانچہ موجودہ دور میں سائنس کی ترقی کی وجہ سے کائنات میں اور میڈیکل سائنس کی وجہ سے انسان کی ذات میں پوشیدہ راز آئے روز ظاہر ہرتے رہتے ہیں۔(53)
آیتِ کریمہ46پر چوبیسویں پارے کی تکمیل اور آیت کریمہ47 سے پچیسویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر25
خلاصہ سورۃُ الشُّوریٰ……………………سورہ نمبر42
سورہ شوریٰ مکی ہے جس میں 5رکوع اور53آیاتِ بینات ہیں۔
”شوریٰ“ کا معنی مشورہ کرنا ہے۔ آیت کریمہ38(اڑتیس) میں لفظِ شوریٰ آیا ہے، اسی مناسبت سے اس کا نام ”شوریٰ“ رکھا گیا۔
٭یہ سورہ مبارکہ مکی زندگی کے آخری سال یعنی 13نبوی میں نازل ہوئی، دراصل یہ سورہ مبارکہ مدینہ میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست کی تمہید ہے، جس میں اللہ کے قانون یعنی شریعت کو نافذ کرنے، اقامت دین کی جدوجہد کرنے اور شورائیت پر مشتمل عادلانہ اسلامی ریاست قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
٭اس سورہ مبارکہ میں اللہ کے قانون اور انسانوں کے بنائے ہوئے خود ساختہ قوانین کا فرق بتا کر حاکمیت میں بھی توحید اختیار کرنے کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں اقامت دین کی جدو جہد کرنے والوں کی 10صفات بھی بیان کی گئی ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ ہمارا دین وہی دین ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کا تھا، اور جو حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کا تھا۔ یعنی دین تمام انبیاء کا ایک ہی رہا ہے،البتہ شریعت بدلتی رہی ہے۔ اس دین کی خاص بات یہ ہے کہ اسے قائم کیا جائے، اسی مشن پر حضرت نوح علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے اور اسی پر باقی رسول بھی مبعوث ہوئے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد اقامت دین کی ذمہ داری ہر ایمان والے کی ذمہ داری ہے۔
پارہ نمبر25
خلاصہ سورۃ الزُّخْرُفْ……………………سورہ نمبر43
سورہ زُخرف مکی ہے جس میں 7رکوع اورنواسی (89) آیاتِ بینات ہیں۔
زخرف کا معنی سنہرا، آراستہ، اور زینت ہے۔ سونے کے زیورات کو بھی زخرف کہا جاتا ہے، آیت کریمہ35میں لفظِ ”زخرف“ آیا ہے اسی مناسبت سے اس کا نام”زخرف“ رکھاگیا۔
٭انسانی تاریخ کے ہر دور میں انبیاء اور دین کے داعیمسلمانوں کا مذاق بھی اڑایا جاتا رہا ہے اور انہیں جھٹلایا بھی جاتا رہا ہے۔لیکن انجام کار کے لحاظ سے کامیابی دین دشمنوں کو نہیں بلکہ دین کے داعی لوگوں کو ہی ملی۔ لوگ اپنے رب کے احسانات کو بھول جاتے ہیں کہ وہ ہمارا خالق بھی ہے اور رب بھی، وہی ہمارا حاکم بھی ہے اور معبود بھی۔
٭لیکن مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کے بت بنا کر پوجتے تھے، اور خود ان کی اپنی ذہنیت یہ تھی کہ کسی کو خبر ملتی کے اس کے گھر بیٹی پیدا ہوئی ہے تو اس کا چہرہ غصے سے کالا ہوجاتا۔اس من گھڑت بات کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں، سوائے اس کے کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اسی طرح پایا۔
٭اس سورہ مبارکہ میں مشرکین کو اس بات کا جواب بھی دیا گیا کہ وہ کہا کرتے تھے اگر اللہ کو شرک ناپسند ہوتا تو ہم شرک کر ہی نہ سکتے، یعنی اللہ ہمیں روک لیتا۔ حالانکہ اللہ کا اذن اور چیز ہے اور اللہ کی رضا اور چیز ہے۔یعنی ہر کام اللہ کے اذن سے ہوتا ہے لیکن ہر کام میں اللہ کی رضا نہیں ہوتی۔وہ کہا کرتے تھے اللہ نے مکہ اور طائف کے کسی سردار یا سرمایہ دار کو نبی کیوں نہ بنایا؟اس کا جواب دیا کہ اللہ کے ہاں اہمیت کردار کی ہے دولت کی نہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ کفار سے فرمایاجارہا ہے:کیا ہم تمہیں نصیحت کرنا اس وجہ سے چھوڑ دیں کہ تم راہ راست سے بہت دور چلے گئے ہو؟ یعنی تم جتنے مرضی اسلام دشمن بن جاو، جتنے مرضی گمراہ ہو جاو ہم تمہیں نصحیت کرتے ہی رہیں گے۔چنانچہ ہر داعی اسلام کو یہ ہدایت مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کا پیغام ہرانسان تک پہنچانا چاہیے، بلکہ باربار پہنچانا چاہیے۔یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ فلاں تو حد سے گزر گیا ہے اسے نصیحت کرنے کا کیا فائدہ۔
پارہ نمبر25
خلاصہ سورۃُ دُخان……………………سورہ نمبر44
سورہ دُخان مکی ہے جس میں 3رکوع اوراُنسٹھ(59)آیاتِ بینات ہیں۔
عَرَبی زبان میں ”دُخان“ دھویں کو کہتے ہیں، آیت کریمہ10میں لفظِ دخان آیا ہے اسی مناسبت سے اس کا نام ”دخان“ رکھا گیا۔
٭مشرکین عرب اپنی دنیوی خوشحالی،مال ودولت کی وجہ سے اللہ کے پیغام کی طرف بالکل توجہ نہیں کررہے، بلکہ دین کی دعوت کے راستے میں رکاوٹ بن رہے ہیں، وہ اس بات کو بھول رہے ہیں کہ ان کی خوشحالی اللہ کی عطاء کردہ ہے، اللہ جب چاہے رسی کھینچ سکتا ہے۔ چنانچہ اللہ نے تنبیہ کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا قحط بھیجا، تو مشرکین عرب ایک ایک لقمے کو ترسنے لگے۔ آخر کار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قحط ختم کرنے کی دعا کی درخواست کرنے لگے، تو اللہ نے فرمایا ہم اس چھوٹے عذاب کو دور تو کردیتے ہیں لیکن یہ سدھرنے والے نہیں جب بڑی پکڑکا وقت آئے گا تو تب ہم انتقام لیں گے۔
٭اس ضمن میں انہیں فرعون اور اس کی خوشحالی کی مثال بھی دی گئی۔ اسی طرح قوم تبعکا ذکر بھی کیا کہ وہ تو تم سے بھی زیادہ خوشحال اور دنیوی لحاظ سے مال دار اور عیاش قوم تھی، لیکن نبیوں اور رسولوں کی نافرمانی کی صورت میں جب عذاب آیا تو دولت کسی کام نہ آئی۔ یاد رہے قوم تبع ہزاروں سال پہلے دنیا میں ایسی ہی حیثیت رکھتی تھی جیسے آج کی دنیا میں یورپ کی حیثیت ہے۔
اس سورہ مبارکہ میں خاص بات یہ ہے کہ فرمایا: ہم نے یہ قرآن ایک ایسی بابرکت رات میں نازل کیا ہے جس رات ہر معاملے کا حکیمانہ فیصلہ کیا جاتا ہے۔ یعنی قرآن اس رات نازل ہوا جو فیصلوں والی رات ہے، روایات سے پتا چلتا ہے اس رات پورے سال کے فیصلے کیے جاتے۔ سورۃ القدر سے پتا چلتا ہے قرآن لیلۃ القدر میں نازل ہوا۔ لہٰذا پتا چلا کہ وہ فیصلوں والی رات لیلۃ القدر ہے۔
پارہ نمبر25
خلاصہ سورۃُ الْجَاثِیَہ……………………سورہ نمبر45
سورہ جاثیہ مکی ہے جس میں 4رکوع اور37آیاتِ بینات ہیں۔
جاثیہ کا معنی گھٹنوں کے بل بیٹھنا ہے، قیامت والے دن لوگ اللہ کے خوف اور ہیبت سے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوں گے، آیت کریمہ28میں اس خوفناک منظر کا ذکر ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام جاثیہ رکھا گیا۔
٭قیامِ مکہ کی درمیانی مدت میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی روشنی میں توحید وآخرت کی عقلی، نقلی، تاریخی، آفاقی اور انفسی دلیلیں پیش کررہے تھے، جبکہ ان دلائل کے جواب میں مشرکین مکہ مذاق اور استہزاء سے کام لے رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں مشرکین مکہ کے خلاف فردِ جرم عائد کرتے ہوئے ان کے جرائم گِنوائے کہ یہ لوگ:
شرکِ ولایت میں مبتلا ہیں (10,19)متکبر ہیں (8,31)خواہشاتِ نفس کو الٰہ بنا لیا ہے(23)منکر آخرت ہیں (32)باطل حجتیں پیش کرتے ہیں (25)ملاقاتِ آخرت سے غافل ہیں (34)خالص دنیا پرست اور دہریئے ہیں (24)دنیا کی زندگی کا دھوکہ کھائے ہوئے ہیں (35)۔
چنانچہ صاف صاف بتادیا کہ قیامت والے دن سب لوگ اللہ کے سامنے ”جاثیہ“ یعنی گھٹنے ٹیکے ہوئے ہوں گے۔کسی کی سفارش یا شفاعت باطلہ کام نہ آئے گی۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ: ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب،نبوت،حکومت،رزق اور سارے عالم پر فضیلت عطاء کی تھی، لیکن وہ آپس میں تفرقے میں پڑ گئے۔ اب ہم تمہیں وہ شریعت کا عادلانہ نظام دے رہے ہیں، تم اسے نافذ کرو اور اپنی مرضی پر مت چلو۔ کیونکہ مرضی پر چلنا اپنے نفس کو اپنا ”الہ“ بنانا ہے۔ مسلمانی اپنی مرضی پر چلنے کا نام نہیں بلکہ مسلمانی اللہ کی مرضی پر چلنے کا نام ہے۔کیونکہ یہاں ہم کسی چیز کے مالک نہیں ہر چیز کا مالک اللہ ہے مرضی بھی اسی کی ہی چلے گی۔
سورہ جاثیہ کی آیتِ کریمہ37 پر سورہ اور پچیسویں پارے کی تکمیل، جبکہ سورہ احقاف کی پہلی آیتِ کریمہ سے چھبیسویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر26
خلاصہ سورۃ احقاف……………………سورہ نمبر46
سورہ احقاف مکی ہے جس میں 4رکوع اور35آیاتِ بینات ہیں۔
احقاف ”حِقْفٌ“ کی جمع ہے جس کا معنی ریت کا ٹیلہ ہے، یہ صحرائے عرب کے جنوب مغربی حصے کا نام ہے جہاں قدیم زمانے میں قومِ عاد آباد تھی، تیسرے رکوع میں یہ لفظ آیا ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام ”احقاف“ رکھا گیا۔
٭سورہ احقاف میں اثباتِ توحید، ردِ شرک اور منصب رسالت کی وضاحت کے بعد قریش کے وسیلے کے عقیدے کا سختی سے رد کیا گیا ہے اور ان کو بتایا گیا ہے کہ تمہارے وہ ”اِلٰہ“ جنہیں تم اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے پوجتے ہو بے بس اور لاچار ہیں۔
٭اس سورہ میں وادیئ احقاف کی قوم عاد کی ہلاکت کا تذکرہ بھی ہے اور جنات کا قرآن سن کر ایمان لانے کا ذکر بھی۔ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کاجواب بھی ہے اور استہزاء، اعراض، اجتناب اور انکار کرنے والوں کے لئے ہلاکت کی دھمکی بھی ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ ایک انسان زندگی کے کئی ادوار سے گزرتا ہے، کئی مہینے ماں کے پیٹ میں،پھرماں کی گود میں، پھربالغ اور جوان ہو کر اپنے قدموں پر اور پھر چالیس سال کا ہوتا ہے، تب اس کی فکری بلوغت ہوتی ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔اور اپنے لیے اپنے والدین اور اپنے بچوں کے لیے دعا مانگتا ہے۔جبکہ اس کے برعکس کچھ لوگ چالیس سال کے بعد بھی راہ راست پر نہیں آتے، یہی لوگ خسارے والے ہیں۔
پارہ نمبر26
خلاصہ سورۃُ محمد……………………سورہ نمبر47
سورہ محمد مَدَنی ہے جس میں 4رکوع اور 38(اڑتیس)آیاتِ بینات ہیں۔
”محمد“ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ نامی اسم گرامی ہے، چونکہ اس سورہ مبارکہ کی دوسری آیتِ کریمہ میں نامِ محمد آیا ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام ”محمد“ رکھا گیا۔
٭ہجرتِ مدینہ کے بعد مدینہ منورہ میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھ دی گئی تھی لیکن منافقین، قریش مکہ اور دیگر طاغوتی طاقتیں اس کو کمزور کرنے کی کوششوں میں لگی رہیں۔ جنگِ بدر سے پہلے اس سورہ مبارکہ کے نزول کی حکمت یہ تھی کہ مسلمانوں میں جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ ابھارا جائے، مسلمانوں پر جنگ کا جواز ثابت کیا جائے تاکہ وہ پورے انشراحِ صدر کے ساتھ لڑ یں۔
٭چنانچہ اس سورہ مبارکہ کے آغاز مین دو قومی نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے مسلمانوں اور کافروں میں فرق بتایا گیا۔ اللہ کی طرف سے کافروں کی پکڑ کے دوطریقے ہیں۔ ایک طریقہ ہے براہِ راست عذاب۔جبکہ دوسراطریقہ ہے مسلمانوں کے ہاتھوں عذاب۔ چنانچہ سورہ محمد میں دوسرے طریقہ کے مطابق مسلمانوں کو قتال پر ابھارا گیا ہے اور اپنی مدد اور سرپرستی کاوعدہ بھی کیا گیا۔منافقین کے جہاد سے فرار کی ذہنیت کا پول کھولتے ہوئے وعید سنائی گئی کہ جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے تو منہ اور پیٹھ پر تھپڑ بھی ماریں گے۔
٭سورہ مبارکہ کے آخر میں اسلامی ریاست کے قیام اور بقاء کے لئے اپنا مال خرچ کرنے کا زور دار حکم دیتے ہوئے دنیا کی زندگی کو کھیل تماشہ قرار دیا اور یہ وعید بھی سنائی کہ بخیل لوگوں سے حکومت اور امانت چھین لی جاتی ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ جب پہلی بار مدینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کی تیاری کرنے لگے اور مسلمانوں کو بھی جنگ کی ترغیب دینے لگے تو منافقین نے کہا جنگ کرنے کا حکم قرآن میں کہاں ہے، اللہ نے کوئی سورت کیوں نہ نازل کی جس میں ہمیں جنگ کرنے کا حکم دیا ہوتا تب ہم یقین کرتے۔ گویا کہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر یقین نہیں تھا، باالفاظ دیگر وہ منکر حدیث تھے، قرآن سے دلیل مانگ رہے تھے۔
پارہ نمبر26
خلاصہ سورۃ الْفَتْح……………………سورہ نمبر48
سور فتح مَدَنی ہے جس میں 4رکوع او ر انتیس (29) آیاتِ بینات ہیں۔
عَرَبی زبان میں فتح کا معنی کھلنا، کھولنا اور کامیابی ہے۔ چونکہ اس سورہ مبارکہ کی پہلی ہی آیت کریمہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک واضح اور کھلی فتح کی خوشخبری دی گئی ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام فتح رکھا گیا۔
٭مشرکین مکہ کے ساتھ صلح حدیبیہ جن شرائط کے ساتھ ہوئی تھی بظاہر مسلمانوں کے لئے وہ شرائط انتہائی ناگوار تھیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ سے واپسی پر یہ سورہ مبارکہ نازل فرماکر اس صلح کو بڑی فتح قرار دیا جیسا کہ بعد کے واقعات سے ثابت بھی ہوا۔
٭اس سورہ مبارکہ میں درخت کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت جہاد کرنے والے صحابہ کرام کو ”رضی اللہ“ کا خطاب دیتے ہوئے ان کے چند اوصاف بیان ہوئے(29) جبکہ دوسری طرف اس سفر میں ساتھ نہ چلنے والے افراد اور منافقین کے حیلے بہانوں کا پول کھولتے ہوئے آئندہ غزوہ خیبر میں ساتھ نہ لے جانے کی ہدایت کی گئی اور بتایا گیا کہ عنقریب ایک بڑی جنگ میں تمہیں شرکت کی دعوت دی جائے گی اور تمہارا ایمان آزمایا جائے گا(11تا15)۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد بعثت بیان ہوا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں قرآن وشریعت دے کر اس لئے بھیجا تاکہ دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کردیں (28)۔
پارہ نمبر26
خلاصہ سورۃ الْحُجُرَات……………………سورہ نمبر49
سورہ حجرات مَدَنی ہے جس میں 2رکوع اور18آیاتِ بینات ہیں۔
”حُجُرَات“ حُجرہ کی جمع ہے، عَرَبی زبان میں حجرہ کوٹھڑی کو کہتے ہیں اس سورہ مبارکہ کی آیت کریمہ 4میں الحجرات کا لفظ آیا ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام ”الحجرات“ رکھا گیا۔چونکہ اس سورہ مبارکہ میں ”مکارمِ اخلاق“ بھی بیان ہوئے ہیں اس لئے اسے سورۃ الاخلاق والآداب بھی کہاجاتا ہے۔
٭یہ سورہ اگرچہ چھوٹی سی ہے مگر کئی جامع مضامین کو بیان کرتی ہے، چنانچہ اس سورہ مبارکہ میں ان مجلسی برائیوں سے روکا گیا ہے جن کی وجہ سے باہم نفرت وعداوت پیدا ہوجاتی ہے، جیسے مذاق اڑانا، طعنہ دینا، بُرانام رکھنا، بدگمانی کرنا، کسی کی ٹوہ میں لگنا، اور غیبت کرنا۔ یہ ایسی برائیاں ہیں جودلوں کو پھاڑ دیتی ہیں۔ تمام انسان ایک خالق کی مخلوق اور ایک مرد عورت کی اولاد ہونے کے ناطے برابر اور یکساں احترام کے لائق ہیں۔انسانوں کی مختلف گروہوں اور قبائل میں تقسیم محض تعارف کے لئے ہے۔
٭ اس سورہ مبارکہ میں ”اِنَّمَاالْمُؤمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ“ کے ذریعے مسلمانوں کی عالمگیر برادری کی وضاحت کی گئی ہے، یہ جمعیت رنگ ونسل، خاندان ونسب، اور وطن کی بنیاد پر نہیں بنی بلکہ اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے۔(10)
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں اسلامی ریاست کی آئینی اور دستوری شِق کو بیان کیا گیا کہ کوئی قانون سازی قرآن وسنت کے خلاف نہ ہوگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور ادب واحترام کا خیال رکھا جائے گا۔ کسی بھی افواہ پر بغیر تحقیق کے کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔
پارہ نمبر26
خلاصہ سورۃ ق……………………سورہ نمبر50
سورہ ق مکی ہے جس میں 3رکوع اور پینتالیس (45) آیاتِ بینات ہیں۔
”ق“ حروفِ مقطعات میں سے ایک حرف ہے چونکہ اس سورہ مبارکہ کی ابتدا اسی حرفِ ق سے ہوتی ہے اسی مناسبت سے اس کا نام ”ق“ رکھاگیا۔
٭مشرکین مکہ کا ایک اعتراض یہ تھا کہ انسان کیسے نبی ہوسکتا ہے؟، دوسرا اعتراض مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں تھا کہ یہ بعید از عقل ہے۔
٭اس سورہ مبارکہ میں اسی قسم کے اعتراضات کے جوابات دیتے ہوئے عقلی،نقلی، اور تاریخی دلائل دیئے گئے ہیں۔ اللہ تو وہ ذات ہے جو قبر میں موجود لاش کے تغیر اور تحلیل کے بعد بھی اس کے ایک ایک ذرے کا علم رکھتا ہے۔ وہ خالق ہے دل میں آنے والے وسوسوں کو بھی جانتا ہے۔ اس کے فرشتے انسانوں کے اعمال نوٹ کررہے ہیں۔ موت کی سختیاں اور قیامت برحق ہے، قیامت والے دن آدمی کو دو فرشتے پکڑ کر اللہ کی عدالت میں پیش کریں گے، ایک ہانک رہا ہوگا اور دوسرے کے پاس انسان کی ساری زندگی کے ریکارڈ کا رجسٹر ہوگا۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں اللہ کے سامنے انسان کی پیشی کا منظرنامہ دکھایا گیا ہے کہ قبر سے اٹھتے ہی انسان کو مقررکردہ فرشتہ گرفتار کرلے گا، اور پھر وہ اللہ کی عدالت میں اس حال میں پیش کرے گا کہ انسان بالکل تنہاء ہوگا، سوائے اس فرشتے کے جس نے اسے پکڑرکھا ہوگا اور دوسرے نے اس کی فائل اٹھائی ہوگی۔ عدالت پیشی کے موقع پر فرشتہ ساری زندگی کی رپورٹ اللہ کی عدالت میں پیش کرے گا۔جب عدالت سے سزا سنائی جائے گی تو انسان اپنی گمراہی کا الزام، اپنے دنیوی لیڈر، رہبر اور شیطان پر لگا دے گا، اور پھر انسان کی شیطان کے ساتھ بحث وتکرار ہوگی، عدالت سے حکم آئے گا یہاں مت لڑو، یہ سارے وعدے وعیدیں ہم نے تمہیں دنیا میں بتادی تھیں اب کوئی فائدہ نہیں۔
پارہ نمبر26
خلاصہ سورۃُ الذَّارِیات……………………سورہ نمبر51
سورہ الذاریات مکی ہے، جس میں 3رکوع اور60آیاتِ بینات ہیں۔
ذاریات ان ہواؤں کو کہا جاتا ہے جو گردوغبار اڑاتی ہیں، پہلی ہی آیت میں مذکور لفظ ذاریات کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
٭اس سورہ مبارکہ کی آیت کریمہ 6میں ارشاد ہے ”وَاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعْ“جزاء وسزا کا دن واقع ہو کر رہے گا۔ پھر باقی پوری سورہ مبارکہ میں اسی بات کے دلائل دیئے گئے ہیں۔ چنانچہ کبھی فرمایا کہ گَردوغبار پھیلا کر بارشیں برسانے والی ہوائیں کسی کے لئے رحمت اور کسی کے لئے عذاب تقسیم کرتی ہیں یہی قیامت کی دلیل ہے کہ جزا وسزا ہوگی(1تا6)۔کبھی فرمایا تمہارا اپنا ضمیر بھی یہی کہتا ہے کہ اچھے کو اچھا اور بُرے کو بُرا بدلہ ملنا چاہیے، لہٰذا اسی طرح بدلے کا دن بھی آئے گا(21)۔ کبھی فرمایا انسانی تاریخ بھی اسی بات کی گواہی دیتی ہے کہ بُرے لوگوں کو تباہ کیا گیا اور اچھے لوگوں کو نجات اور کامیابی ملی، اسی طرح ایک دن بھی جزا وسزا کا آئے گا(24تا46)۔پھر فرمایا کائنات کی ہرچیز جوڑا جوڑا ہے، زمین کا جوڑا آسمان ہے، دن کا جوڑا رات ہے، اسی طرح عقل کا تقاضا ہے کہ دنیا کا بھی کوئی جوڑا یعنی آخرت ہونی چاہیے(49)۔ پھر عقل بھی یہی تقاضا کرتی ہے کہ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا ملنی چاہیے(59,60)۔
٭یہ سورہ مبارکہ اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھاتی ہے کہ یہ کائنات مسلسل پھیلتی جارہی ہے، یعنی نئے نئے ستارے اور کہکشائیں بنتی جارہی ہیں۔ چنانچہ آج جدید سائنس نے بھی اس حقیقت کو دیکھ لیا ہے کہ کائنات وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں انسانوں اور جنوں کی تخلیق کا مقصد بتایا گیا ہے کہ انسان کو اللہ نے اپنی بندگی کے لئے پیدا کیا(56)۔
زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی
سورہ ذاریات کی آیت کریمہ30پر چھبیسویں پارے کی تکمیل اور آیت کریمہ31سے ستائیسویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر27
خلاصہ سورۃ طور……………………سورہ نمبر52
سورہ طور مکی ہے جس میں 2رکوع اورانچاس (49) آیاتِ بینات ہیں۔
طور اس پہاڑ کا نام ہے جس پر حضرت موسی علیہ السلام، اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوئے تھے۔ چونکہ اس سورہ مبارکہ میں کوہِ طور کی قسم کھائی گئی ہے اسی مناسبت سے اس کا نام طور رکھا گیا۔
٭مشرکین مکہ نہ صرف قرآن بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور وقوع قیامت پر بھی اعتراض کرتے تھے چنانچہ اس سورہ مبارکہ میں ان کے تمام اعتراضات کے جوابات دیئے گئے ہیں۔سورہ مبارکہ کے آغاز میں پانچ قسمیں کھا کر فرمایا: بے شک تیرے رب کا عذاب واقع ہوکر رہے گا، اور اسے کوئی نہیں روک سکتا۔
٭ حضرت جبیر رضی اللہ عنہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، بدر کے قیدیوں کے سلسلے میں بات چیت کرنے کے لئے مدینہ آئے، اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب میں سورہ طور تلاوت فرمارہے تھے۔ جب یہ آیت پڑھی کہ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعْ”بے شک تیرے رب کا عذاب واقع ہوکررہے گا“ تو حضرت جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، مجھے یوں لگا کہ میرا دل پھٹ جائے گا، چنانچہ میں نے نزول عذاب سے ڈر کر اسلام قبول کر لیا۔
٭یہ سورہ مبارکہ بتاتی ہے کہ ہرانسان اپنے اعمال کے بدلے رہن رکھا ہوا ہے۔ یعنی اللہ کی طرف سے زندگی، اور زندگی کی نعمتیں دی گئی ہیں اور ان کے بدلے انسان اللہ کے پاس رہن ہے، اگر انسان نے دنیا میں اچھے اعمال کرکے نیکیاں کمالیں تو اپنی جان رہن سے چھڑوا سکے گا۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ قیامت والے دن جو لوگ جنت کے اعلیٰ درجات میں ہوں گے اور ان کی اولاد جنت کے ادنیٰ درجات میں ہوگی تو والدین کی خواہش پر ان کو اولاد کو بھی والدین کے ساتھ اعلیٰ درجات میں پہنچا دیا جائے گا۔
پارہ نمبر27
خلاصہ سورۃُ النَّجْم……………………سورہ نمبر53
سورہ ”النجم“مکی ہے جس میں 3رکوع اورباسٹھ(62)آیات بینات ہیں۔
عربی زبان میں ”نجم“ ستارے کو کہتے ہیں۔ النجم کے لفظ سے سورہ مبارکہ کا آغاز ہوا ہے اسی مناسبت سے اس کا نام ”النجم“ رکھا گیا۔
٭اس سورہ مبارکہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ معراج کی تصدیق کی گئی ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی فلسفی نہیں کہ اپنے غور وفکر اور نفس کی پیروی میں کلام کرتے ہوں، بلکہ آپ جو بولتے ہیں وہ وحی ہوتا ہے۔اس کے علاوہ مشرکین پر تنقید کرتے ہوئے بتایا گیا کہ وہ لات، منات، عُزّیٰ کی پوجا کرتے اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ان کی سفارش کریں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا، ہر انسان کو اس کا اپنا عمل کام دے گا۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اپنی پاکیزگی بیان کرے اوراپنی تعریف کرے، فرمایا: فَلَا تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ ھُوَ اَعْلَمُ بِمِنِ اتَّقٰی۔ اپنی پاکی نہ بیان کرو، اللہ بہتر جانتا ہے تم میں سے کون متقی ہے۔
پارہ نمبر27
خلاصہ سورۃ القمر……………………سورہ نمبر54
سورہ قمر مکی ہے جس میں 3رکوع اور55آیاتِ بینات ہیں۔
”قمر“ چاند کو کہتے ہیں، چونکہ اس سورہ مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ شق القمر کا ذکر کیا گیا ہے اسی مناسبت سے اسے قمر کا نام دیا گیا ہے۔
٭یہ سورہ مبارکہ بہت جامع سورت ہے۔ اس میں وعدے بھی ہیں اور وعیدیں بھی، مومنوں کے لئے بشارتیں بھی ہیں اور منکروں کے لئے ڈراوے بھی، واعظ ونصیحت اور عبرتیں بھی ہیں تو نبوت ورسالت، قیامت اور قضاء وقدر جیسے بنیادی عقائد بھی۔ ایک طرف شق القمر کے معجزے کا ذکر ہے تو دوسری طرف ہر شے کے نپے تلے ہونے کے سائنسی اصول کا ذکر بھی ہے(12اور49)
٭فہم قرآن کے دو درجے ہیں: ایک تدبر فی القرآن، یہ صرف اہل علم کرسکتے ہیں۔ اور دوسرا تذکرباالقرآن، یہ ہر ترجمہ پڑھنے والے کو حاصل ہوتا ہے، اسی لیے باربار یہ بات دہرائی گئی کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنایا ہے، ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟
٭ اس سورہ مبارکہ میں دو آیات چار بار رپیٹ ہوئی ہیں:
۱۔ فَکَیْفَ کَانَ عَذَابِیْ وَنَذُرْ۔ تو میرا عذاب اور میرا ڈراوا کیسا تھا؟
۲۔وَلَقَدْیَسَّرْنَاالْقُرْاٰنَ لِذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرْ۔ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے اعتبار سے نہایت آسان کیا ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں ایک بار چودھویں کا چاند تھوڑی دیر کے لیے آدھا ہو کر دو علیحدہ علیحدہ ٹکروں میں بٹ گیا تھا پھر دبارہ جڑ گیا، جسے بے شمار لوگوں نے دیکھا۔اللہ تعالیٰ نے چاند کو دو ٹکڑے کرکے یہ سمجھا دیا کہ دنیا کی کوئی چیز لازوال نہیں بلکہ زوال پذیر ہے، چاند کا ٹوٹنا قیامت کے قریب تر ہونے کی نشانی ہے۔
پارہ نمبر27
خلاصہ سورۃ الرحمن……………………سورہ نمبر55
سورہ رحمن مکی ہے جسمیں 3رکوع اور78آیاتِ بینات ہیں۔
پہلی چار آیات میں چار چیزوں کا ذکر ہے: ۱۔رحمن، ۲۔قرآن، ۳۔انسان، ۴۔بیان۔
اللہ تعالیٰ کی چوٹی کی صفت ”رحمن“ہے، اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی کی کتاب ”قرآن“ ہے،اللہ تعالیٰ کی چوٹی کی تخلیق انسان ہے، اورانسان کی چوٹی کی صلاحیت قوتِ بیان ہے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رحمن کی چوٹی کی مخلوق انسان کو چاہیے وہ اپنی چوٹی کی صلاحیت قوت بیان کو اللہ کی سب سے بڑی کتاب قرآن کو بیان کرنے پر لگائے۔
٭اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے قادرِ مطلق ہونے، رب اور پالن ہار ہونے، رحمن اور ذوالجلال والاکرام ہونے کا تفصیل کے ساتھ ذکرکیا ہے۔ اکتیس مرتبہ ”فبأی آلاء ربکما تُکذبان“کے ذریعے انسانوں اور جنات کے مردہ ضمیر کو تکذیب سے بچنے اور شکرگزاری کرنے کی دعوت دی ہے۔
٭اس کے علاوہ قیامت اور جہنم کے حالات کا تذکرہ کرکے کفار کو وعید اور جنت کی نعمتوں اور حوروں کا ذکر کے ایمان والوں کو بشارتیں بھی سنائی گئی ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں انسانوں اور جنوں کو چیلنج کیا گیا ہے کہ وہ اگر بھاگ سکتے ہیں تو بھاگ کر دکھائیں، اس کائنات سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔
پارہ نمبر27
خلاصہ سورۃ الواقعۃ……………………سورہ نمبر56
سورہ واقعہ مکی ہے جس میں 3رکوع اور96آیاتِ بینات ہیں۔
عربی زبان میں واقعہ کا معنی حادثہ، مصیبت اور لڑائی وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ واقعہ قیامت کو بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی ایک بڑے حادثہ کی صورت میں رونما ہوگی۔پہلی ہی آیت کریمہ میں لفظ واقعہ آیا ہے اسی مناسبت سے اس کا نام ”واقعہ“ رکھا گیا۔
٭اس سورہ مبارکہ میں بتایا گیا ہے کہ جب قیامت قائم ہوگی تو تمام انسانوں کی تین قسمیں بن جائیں گی:
ایک اصحاب الیمین جو کہ جنتی ہوں گے۔ دوسرے اصحاب الشمال جو کہ جہنمی ہوں گے۔ تیسرے السابقون جو عام مومنوں سے نیکی کے کاموں میں زیادہ آگے نکلتے تھے۔
٭اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور قدرت کے دلائل اور قیامت کے واقع ہونے کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی بیان کیا ہے کہ جنتیوں کو جنت میں پاکیزہ شراب، تازہ گوشت اور موٹی آنکھوں والی حوریں بھی ملیں گی۔ جبکہ جہنمیوں کو کھانے کے لئے زقوم کا درخت اور کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے ستاروں کے گرنے کی قسم کھا کر فرمایا یہ قرآن بہت عظمت والا ہے اور تمہیں علم ہو تو یہ بہت بڑی قسم ہے۔ چنانچہ آج کی سائنس نے ستاروں کے بارے میں کافی معلومات اکھٹی کی ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ اس کائنات میں سینکڑوں ملین کہکشائیں موجود ہیں، اور یہ کائنات بے حساب بڑی ہے، جس میں آئے روز ستارے بلیک ہول میں گرتے بھی ہیں اور نئے نئے ستارے بنتے بھی ہیں۔
پارہ نمبر27
خلاصہ سورۃ الحدید……………………سورہ نمبر57
سورۃ الحدید مَدَنی ہے جس میں 4رکوع اورانتیس (29) آیاتِ بینات ہیں۔
”حدید“ عربی زبان میں لوہے کو کہتے ہیں۔ آیتِ کریمہ 25میں لفظ”الحدید“ آیا ہے، اسی مناسبت سے اس کا نام ”الحدید“ رکھا گیا۔
٭غزوہ احد کے بعد کفار اسلامی ریاست کو مٹانے کے لئے ہر طرح کی زور آزمائی کررہے تھے، ان حالات میں اسلامی ریاست کی بقاء اور تحفظ کے لئے جان ومال کی قربانی دینے کی ترغیب کے لئے یہ سورہ مبارکہ نازل کی گئی۔چنانچہ اس سورہ مبارکہ میں چھ بار مختلف انداز سے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسی طرح زمین وآسمان کی چھ دن میں تخلیق اور انسانی زندگی کے چھ مراحل کو چھ ہی الفاظ میں بیان کیا گیاہے۔
٭صحابہ کرام کے مختلف درجات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ رسولوں کی بعثت کا مقصد یہ بتایا گیا کہ رسول صرف عقیدے اور عبادت کی تبلیغ کے لئے نہیں بلکہ اللہ کے دین اور نظامِ عدل وقسط کو قائم کرنے کے لئے بھیجے جاتے ہیں، چنانچہ اس نظام کو قائم کرنے کے لئے لوہے کی بھی ضرورت تھی اس لئے ہم نے لوہا بھی نازل کیا۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ”رہبانیت“ یعنی دنیا سے کٹ کر تنہائی کی زندگی اختیار کرنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بدعت قرار دیا ہے۔اس سورت کے موضوع اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے پتا چلتا ہے اس امت کی رہبانیت جہاد یعنی باطل کے ساتھ مسلسل کشمکش میں ہے نہ کہ گوشہ نشین ہونے میں۔
سورہ حدید کی آیت کریمہ 29پر سورہ حدید اور ستائیسویں پارے کی تکمیل اور سورہ مجادلہ کی پہلی آیت کریمہ سے اٹھائیسویں پارے کا آغاز ہوتا ہے
پارہ نمبر28
خلاصہ سورۃُ المُجادلۃ……………………سورہ نمبر58
سورہ مجادلہ مَدنی ہے جس میں 3رکوع اور22آیاتِ بینات ہیں۔
مجادلہ کا معنی ہے بحث وتکرار کرنا، حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا نے خاوند کے ظہارکرنے کے حوالے سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادب کے درجے میں رہتے ہوئے بحث وتکرار کی تھی جس کا ذکر اس سورہ مبارکہ کے شروع میں ہے، اسی مناسبت سے اس کا نام ”مجادلہ“ رکھا گیا۔
٭اس سورہ مبارکہ میں شرعی احکامات کے ساتھ ساتھ منافقین کی گھٹیا حرکتوں کا ذکر بھی ہے۔ منافقین اسلامی ریاست کو کمزور کرنے کے لئے خفیہ سرگوشیاں کرتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں آپ کی ہدایات کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔چنانچہ ایسی سرگوشیوں سے منع کرنے کے ساتھ ساتھ حزب الشیطان کی چار علامات اور حزب اللہ کی سات صفات بھی بیان کی گئیں۔
حزب الشیطان یعنی شیطانی گِروہ یہود سے دوستی رکھتا، جھوٹی قسمیں اٹھاتا،اسلامی ریاست کادشمن اور دوزخی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں حزب اللہ یعنی اللہ کا گِروہ اسلامی ریاست کا محافظ، مضبوط ایمان والا ایسا جنتی گروہ ہے کہ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں آدابِ مجلس کے ضمن میں یہ ہدایت دی گئی کہ مجلس میں سمٹ کر بیٹھنا چاہیے تاکہ آنے والوں کے لئے کشادگی ہو، اور جب امیر مجلس کسی کو اٹھنے کا کہے تو فورا اٹھ جانا چاہیے۔
پارہ نمبر28
خلاصہ سورۃ الحشر……………………سورہ نمبر59
سورہ حشر مَدَنی ہے جس میں 3رکوع اور 24آیاتِ بینات ہیں۔
حشر کا معنی ہے اکھٹا کرنا اور گھیرنا، چونکہ اس سورہ مبارکہ میں بنو نضیرکو گھیرنے کا ذکر ہے اسی مناسبت سے یہ نام رکھا گیا۔
٭اس سورہ مبارکہ میں منافقین اور یہودیوں کا تذکرہ ہے، بنو نضیر کے خلاف فردِ جرم عائد کی گئی کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور عہد شکنی کی، اس لئے اب بطورِ سزا انہیں جلا وطن کردیا گیا۔ اللہ کو عذاب دینے اور تباہی پھیرنے کے لیے فرشتے بھیجنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، کبھی اللہ اپنے ہی ہاتھوں تباہی کا سامان کر دیتا ہے۔
٭ اس سورت میں حدیث وسنت کی دستوری اور قانونی حیثیت کی واضح کی گئی ہے کہ اللہ کے رسول کا حکم بھی اسی طرح حجت ہے جیسے قرآن۔اس کے علاوہ یہ دعوت فکر بھی دی گئی ہے کہ ہر انسان سوچے اس نے اپنے کل یعنی آخرت کے لیے کیا بھیجا ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں اسلامی نظامِ معیشت کا اہم اصول ارتکازِ دولت اور اس کی ممانعت بیان کی گئی ہے۔ یعنی اسلام یہ نہیں چاہتا ہے کہ دولت چند امیروں کے درمیان گردش کرتی رہے، بلکہ اسلام اس کا پھیلاؤ چاہتا ہے تاکہ سوسائٹی کا کوئی فرد محروم نہ رہے(7)۔
پارہ نمبر28
خلاصہ سورۃُ الْمُمْتَحِنَۃٌ……………………سورہ نمبر60
سورہ ممتحنہ مَدَنی ہے، جس میں 2رکوع اور13آیاتِ بینات ہیں۔
ممتحنہ کا معنی ہے امتحان لینے والی۔ چونکہ اس سورہ مبارکہ میں مسلمانی کا دعویٰ کرنے والی عورتوں کا امتحان لینے کا ذکر ہے اسی مناسبت سے اس کا نام ممتحنہ رکھا گیا۔
٭اس سورہ مبارکہ میں اسلامی ریاست کے استحکام کے لئے اندرونی اور بیرونی جاسوسوں، خصوصاً خواتین جاسوسوں پر نظر رکھنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
٭ اس کے علاوہ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی (Foreigh policy) کے ضمن میں بتایا کہ اللہ اور مسلمانوں کے دشمنوں کی اپنا دوست اور راز دار نہ بناؤ۔ البتہ حلیف کا فرحکومتوں (Friendly Non Islamic States) سے دوستی کی جاسکتی ہے۔
٭ اسی طرح داخلہ پالیسی کے حوالے سے عورتوں کی شہریت کے قوانین (Sitizenship and immigration laws) کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کو یہ اہم سبق دیا گیا ہے کہ جس بیوی اور جن بچوں کی خاطر تم اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتے ہو وہ قیامت والے دن ہر گز تمہارے کام نہیں آئیں گے۔
پارہ نمبر28
خلاصہ سورۃ الصف……………………سورہ نمبر61
سورہ صف مَدَنی ہے جس میں 2رکوع اور14آیاتِ بینات ہیں۔
”صف“ کا معنی قطار ہے، آیت کریمہ 4میں یہ لفظ آیا ہے اسی مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کانام ”صف“ رکھا گیا۔
٭اس سورہ مبارکہ میں ایک مسلمان کو گفتار کا غازی بننے کی بجائے کردار کا غازی بننے کی پُرزور دعوت دی گئی ہے۔ تسبیح وتحمید تو زمین آسمان کی ہر چیز کرتی ہے، ہم سے اللہ کواقامت دین اور غلبہ دین کے لئے جان ومال کی قربانی مطلوب ہے۔
علامہ اقبال نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئی کہا:
یا وسعت افلاک میں تکبیرمسلسل یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
وہ مذہب مردانِ خود آگاہ وخدامست یہ مذہبِ ملا وجمادات ونباتات
٭یہود ونصاریٰ نے اپنے نبیوں کی نافرمانی کی، ہمیں ان کی روش ترک کرکے اس راستے پر چلنا چاہیے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد بعثت ہے،اس طرح ہم انصار اللہ یعنی اللہ کے دین کے مدد گار بن سکتے ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنے کا مقصد بتایا گیا ہے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قرآن اور دین حق دے کر اس لیے بھیجا تاکہ آپ اللہ تعالیٰ کے دین کو باقی ادیان پر غالب کر دیں، چنانچہ تئیس سال کے عرصے میں جزیرہ عرب کی حد تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کو غالب کرکے دکھایا، اور باقی امت کے ذمہ لگا کر تشریف لے گئے۔
پارہ نمبر28
خلاصہ سورۃ الجمعۃ……………………سورہ نمبر62
سورہ جمعہ مَدَنی ہے جس میں 2رکوع اور 11آیاتِ بینات ہیں۔
جمعہ دراصل اسلامی اصطلاح ہے اور ایک خاص دن کا نام ہے جس میں مسلمانوں کا خصوصی اجتماع ہوتا ہے اور اجتماعی طور پر جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہے۔
٭اس سورہ مبارکہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقصد بعثت کے حصول کے لیے عملی طور پر یہ طریقہ اختیار کیا کہ آپ لوگوں کو قرآن کی آیات پڑھ کر سناتے، ان کا تزکیہ کرتے اور کتاب وحکمت یعنی قرآن وسنت کی تعلیم دیتے ہیں۔
٭اس کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے اس دعوے کی تردید بھی کی گئی ہے کہ وہ اولیاء اللہ یعنی اللہ کے محبوب ہیں، ان سے کہا گیا ہے کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو موت کی تمنا کرو، یہودیوں کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ بنی اسرائیل کے علاوہ کسی دوسری قوم میں رسول نہیں آسکتا۔ ان دونوں دعوؤں کی تردید کرنے کے ساتھ ساتھ احکام جمعہ بتانے کے لئے یہ سورہ مبارکہ نازل کی گئی۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہودی علماء کو اس گدھے کے مشابہ قرار دیا ہے جس پر کتابیں لادی ہوئی ہوں، کہ کتابوں کا بوجھ اٹھانے سے گدھا عالم نہیں بن جاتا اور نہ وہ فوائد سمیٹ سکتا ہے جو کتاب کو سمجھ کر پڑھنے سے حاصل ہوتے ہیں۔یہ مثال برائے مثال نہیں بلکہ ہمارے لیے بھی دعوت فکر ہے کہ آیا ہم بھی اللہ کی کتاب کو نہ سمجھ کر اس گدھے کی طرح تو نہیں بن گئے جس پر کتابیں تو لادی ہوئیں ہیں لیکن وہ ان کو سمجھ نہیں سکتا۔
پارہ نمبر28
خلاصہ سورۃ منافقون……………………سورۃ نمبر63
سورہ منافقون مدنی ہے جس میں 2 رکوع، اور 11 آیات بینات ہیں۔
منافق کا معنی ہے ”دو رُخہ“ یعنی وہ لوگ جو بظاہر کچھ نظر آئیں اور دل میں کچھ اور ہوں۔ شریعت کی اصطلاح میں منافق اسے کہا جاتا ہے جو بظاہر مسلمان بنا ہو مگر دل سے کافر ہو۔
٭اس سورہ مبارکہ میں منافقین کی عادات، جھوٹ، بغض و عناد اور ظاہر وباطن کے تضاد سمیت ان کی بارہ بُری خصلتیں بیان کی گئی ہیں۔
٭یہ سورت بتاتی ہے کہ اس مرض نفاق کی ہلاکت خیزی یہ ہے کہ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے لیے استغفار کریں تو بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا۔ دوسرے رکوع میں اس مرض کا علاج یہ تجویز کیا گیا ہے کہ مال اور اولاد کی محبت دل سے نکال کر اسے خرچ کیا جائے اور موت کو یاد رکھا جائے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس چھوٹی سی سورت میں جہاں ایک طرف مرضِ نفاق کی علامات بتائی گئی ہیں تو دوسری طرف مرض نفاق کے نقصانات بھی بتا دیے گئے۔ اگر ایک طرف مرض نفاق کے اسباب بتائے گئے ہیں تو دوسری طرف مرض نفاق سے حفاظتی تدابیر اور علاج بھی بتادیا ہے۔
پارہ نمبر28
خلاصہ سورۃ تَغَابُنْ…………………………سورہ نمبر 64
سورۃ تغابن مدنی ہے، جس میں 2 رکوع اور 18 آیات بینات ہیں۔
٭تغابن قیامت کا نام ہے، جس کا معنی ہے گھاٹے اور خسارے کا دن۔ کیونکہ اس دن نافرمان اور کافر تو اپنے خسارے کو محسوس کریں گے ہی، فرمانبردار اور مسلمان بھی حسرت اور افسوس کریں گے کہ کاش ہمیں اور زیادہ اطاعت کرنی چاہیے تھی۔تغابن کاایک معنی ”ہار جیت کے فیصلے کا دن“ بھی ہے، کیونکہ اس دن فیصلہ ہو جائے گا کہ کون ہارا اور کون جیتا، کیا کھویا اور کیا پایا؟۔
٭اس سورہ مبارکہ کے آغاز میں یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے، اور نہ ہی یہ کائنات بے مقصد پیدا کی گئی ہے۔اس کائنات کو چلانے والی ایک ہستی ہے جس نے ایک مقصد کے لیے اس کائنات کو پیدا کیا ہے۔
٭یہ سورۃ مبارکہ شکرگزاروں اور ناشکروں کے انجام کا تذکرہ بھی کرتی ہے اوراہل ایمان کو مال، اولاد، اور ازواج کے فتنے سے بھی باخبر کرتی ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں انسانوں کو مخاطب کرکے ”دوقومی نظریے“ کو واضح کیا گیا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ کافر ہیں اور کچھ مومن۔
پارہ نمبر28
خلاصہ سورۃُ الطَّلاق…………………………سورہ نمبر 65
سورہ طلاق مدنی ہے جس میں 2 رکوع اور 12 آیات بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں عائلی اور ازدواجی زندگی کے کچھ احکام بیان ہوئے ہیں، جن میں سے ایک اہم مسئلہ طلاق ہے۔ چنانچہ اس سورہ مبارکہ میں طلاق دینے کا درست طریقہ بتایا گیا ہے کہ اگر بیوی کو طلاق دینی ہو توحالت حیض میں نہ دو بلکہ ایسی پاکی کے دنوں میں طلاق دو جن میں جماع بھی نہ کیا ہو، اور (تین طلاق دینے کے بجائے) صرف ایک طلاق رجعی دو۔ کیونکہ طلاق سے خاندان ٹوٹتے ہیں اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
٭گھر کے تمام معاملات کی اصل روح تقویٰ ہے۔ تقویٰ کا مطلب اللہ کا خوف اور آخرت میں جوابدہی کا احساس ہے۔ہماری تمام مشکلات، مصائب، نجات اورہر قسم کے دنیوی و اخروی مسائل کا حل تقوے کو قرار دیا گیا ہے۔تقویٰ نہ صرف دنیا میں رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھولتا ہے بلکہ آخرت میں ہماری مغفرت اور اجرعظیم ملنے کا ذریعہ بھی بنے گا۔
٭ماضی کی تاریخ میں ہم نے کتنی ہی بستیوں اور قوموں کا سخت محاسبہ کیااورانہیں سخت ترین عذاب سے دوچار کیا، جس کا سبب اللہ کی مسلسل نافرمانی تھی۔ اب ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب اور رسول بھیج کر ان خاندانی اور عائلی معاملات کے لیے مکمل رہنمائی دے دی ہے، تاکہ تم خاندانی معاملات میں ڈارک ایج، جہالت اور اندھیرے سے نکل کر اُس اصل روشن خیالی کی طرف آؤ جس کی طرف قرآن بلا رہا ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی آخری آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جیسے آسمان سات ہیں ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے زمینیں بھی سات پیدا کی ہیں۔
پارہ نمبر28
خلاصہ سورۃُ التحریم…………………………سورہ نمبر 66
سورہ تحریم مدَنی ہے جس میں 2 رکوع اور 12 آیات بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں گھریلو زندگی سے متعلق اہم ہدایات ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ شوہر اور بیوی کو یہ بتایا گیا ہے کہ آپس کی محبت کے باوجود حدود الٰہی کو کراس کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں ہے۔
٭بیوی کو چاہیے کہ وہ خاوند کے رازوں کی حفاظت کرے۔ اور تمام ایمان والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھی اور اپنے اہل و عیال کو بھی جہنم کی آگ سے بچائیں۔سچی اور پکی توبہ کریں، اور تقوے کی زندگی اختیار کریں۔
٭یہ سورت بتاتی ہے کہ میاں بیوی اپنے اپنے عمل کے جوابدہ ہیں، کوئی رشتہ ناطہ اللہ کی پکڑ سے کسی کو نہیں بچا سکتا، چنانچہ اس ضمن میں حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کی مثال دی گئی کہ نبی کی بیوی ہونا ان کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکا۔جبکہ اس کے برعکس فرعون کی بیوی آسیہ سلامٌعلیھا اپنے ایمان اور عمل کی بدولت جنت کی مستحق ٹھہری۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں حضور ﷺ کو اس بات کا حکم دیا گیا کہ آپ منافقین اور کفار پر سختی کریں،کیونکہ وہ آپ کی نرم مزاجی سے غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
سورہ تحریم کی آیت کریمہ 12 پرسورہ تحریم اور اٹھائیسویں پارے کی تکمیل ہو جاتی ہے اورسورہ ملک کی پہلی آیت کریم سے انتیسویں پارے کا آغاز ہوتا ہے۔
پارہ نمبر29
خلاصہ سورۃ الملک……………………سورہ نمبر67
سورہ ملک مکی ہے جس میں 2 رکوع اور 30 آیات بینات ہیں۔
ملک کا معنی بادشاہت اور حکومت ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ اس کائنات پر اصل بادشاہت صرف اللہ کی ہے، اسی کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے، وہی عزت و ذلت کا مالک ہے۔یہ سب کچھ اس اللہ نے انسانوں کے امتحان کے لیے بنایا ہے۔
٭یہ سورت بتاتی ہے کہ انسان دو طرح کے ہوسکتے ہیں: ایک وہ جن کی زندگی کا کوئی واضح مقصد نہیں ہوتا، وہ صرف پیٹ بھرنے، نسل بڑھانے اور سر چھپانے کے لیے محنت کرتے ہیں۔حالانکہ یہ تینوں کام چھوٹی سی چڑیا سمیت تمام حیوان بھی کرتے ہیں۔انسانوں کی دوسری قسم وہ ہے جن کا کوئی واضح مقصد زندگی ہوتاہے۔ اصل زندگی بھی اُس کی ہے جس کا حیوانی تقاضوں سے اوپر کوئی اعلیٰ مقصد حیات ہو۔اور وہ دنیا میں کوئی اعلیٰ کام کرنا چاہتا ہو۔ دنیا میں سب سے اعلیٰ کام وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی کیا، یعنی دعوت دین کے ذریعے انسانیت کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش اور اقامت دین کی جدوجہد۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں آنکھیں بند کرکے تقلید جامد کرنے والے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ نے تمہیں سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھ اور سوچنے سمجھنے کے لیے دل و دماغ کس لیے عطا کیے ہیں۔؟ یہ حواس اس لیے تو عطا کیے ہیں کہ ان کو استعمال کرتے ہوئے، دیکھ بھال کے حق راستے کا انتخاب کرو۔
پارہ نمبر29
خلاصہ سورۃ القلم …………………………سورۃ نمبر68
سورہ القلم مکی ہے جس میں 2رکوع اور 52 آیات بینات ہیں۔
قلم لکھنے کا آلہ ہے، سورہ مبارکہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم اٹھائی ہے۔ اس سے قلم کی عظمت کا بھی پتا چلتا ہے۔
٭اس سورہ مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت شان، اور عظمت و صداقت کو بیان کیا گیا ہے۔اور بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اخلاق حسنہ کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔
٭اس سورہ مبارکہ میں ایک باغ والوں کا قصہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے جب مسکینوں اور غریبوں کو دینے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے راتوں رات سارا باغ اجاڑ دیا اور وہ اپنے ہاتھ ملتے رہ گئے، بالکل ایسے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہہے کہ جو لوگ دنیا میں سجدے (یعنی نماز) سے بھاگتے ہیں قیامت والے دن جب اللہ تعالیٰ سارے انسانوں کو سجدے کا حکم دے گا اس وقت ان کا جسم تختہ بن جائے گا اور وہ سجدہ نہیں کر سکیں گے اور اس طرح سب کے سامنے رسوائی ہوگی۔
پارہ نمبر29
خلاصہ سورۃ الحاقۃ……………………سورۃ نمبر69
سورہ الحاقہ مکی ہے جس میں 2 رکوع اور 52 آیات بینات ہیں۔
سامعین! حاقہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ کیونکہ اس سورہ مبارکہ میں وقوع قیامت سے پہلے اور وقوع قیامت کے بعد کے کچھ مناظر بیان کیے گئے ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں صور پھونکے جانے کے بعد اس کائنات کا جو حشر نشر ہوگا اس کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اور پھر قیامت قائم ہونے کے بعد کامیاب اور ناکام ٹھہرنے والوں کو نامہ اعمال تھمائے جانے کا منظر بیان ہواہے، نامہ اعمال ملنے کے بعد کامیاب اور ناکام لوگوں کا ری ایکشن کیا ہوگا؟ وہ بھی اس سورہ مبارکہ میں بتایا گیا ہے۔
٭ قیامت والے دن جب مجرمین کو نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں ملے گا تو مجرم کو سب سے زیادہ افسوس ان چیزوں پر ہوگا جن کو دنیا میں اپنا سہارا سمجھتا رہا۔ چنانچہ وہ افسوس کرتے ہوئے کہے گا، ہائے کاش میرا مال میرے کسی کام نہ آیا، میرا اقتدار مجھ سے چھن گیا۔اس مجرم پر فردجرم عائد کرتے ہوئے کہا جائے گا، یہ اللہ عظیم پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی مسکینوں کی ضروریات پوری کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔
٭ یہ سورہ مبارکہ چند سابقہ اقوام کا انجام بد ذکر کرکے یہ بتاتی ہے کہ رسولوں کی نافرمانی دنیا و آخرت کی ناکامی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ یہ قرآن نہ تو کسی شاعر کا قول ہے اور نہ ہی کسی کاہن کاقول۔ بلکہ رب العالمین کی طرف سے اتارا گیا کلام الٰہی ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ قرآن میں اپنی مرضی سے کمی بیشی کرنا، یا من گھڑت کلام بنا کر اللہ کی طرف منسوب کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر یہ کام رسول بھی کرلیتا تو ہم اس کو داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے، پھر ہم اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔
پارہ نمبر29
خلاصہ سورۃُ الْمَعَارِجْ……………………سورۃ نمبر70
سورۃ المعارج مکی ہے جس میں 2رکوع اور جوالیس (44) آیات بینات ہیں۔
سورہ معارج کا موضوع بھی قیامت اور عذاب آخرت ہے، کفار مکہ قیامت کے بارے بار بار سوال کرتے تھے وہ کب آئے گی۔؟ چنانچہ اس سورہ مبارکہ میں بتایا گیا وہ اپنے وقت پر آئے گی۔ تم دراصل اس لیے جلدی مچاتے ہو کہ تم وقت کو اپنے پیمانوں سے ناپ رہے ہو،جبکہ اللہ کے ہاں وقت کے پیمانے کچھ اور ہیں۔ وہاں کا ایک دن ہمارے ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔
٭قیامت اتنی ہولناک ہے جب وہ آئے گی تو یہ لالچی انسان جس بیوی بچوں کے لیے دنیا میں اللہ کی نافرمانیاں کرتا رہا اسی بیوی اور بچوں کو اپنی جان کی خلاصی ک بدلے فدیے میں دینے کے لیے تیار ہو جائے گا۔یہ سورہ مبارکہ انسان کی یہ خصلت بھی بتاتی ہے کہ انسان کو تکلیف پہنچے تو چینختا چلاتا ہے اور اللہ کی طرف سے نعمت ملے تو اکڑنے لگتا ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں حقیقی نمازیوں کی 9 نشانیاں بتائی گئی ہیں:
۱۔ہمیشہ نماز کا اہتمام کرنا ۲۔اللہ کی محبت میں مال خرچ کرنا ۳۔قیامت پر یقین رکھنا
۴۔عذاب کا خوف ۵۔شرمگاہوں کی حفاظت ۶۔عہد پورا کرنا
۷۔امانت دار ہونا ۸۔ ٹھیک ٹھیک گواہی دینا ۹۔نماز کی حفاظت کرنا۔
پارہ نمبر29
خلاصہ سورۃُ نوح……………………سورۃ نمبر71
سورہ نوح مکی ہے جس میں 2رکوع اور اٹھائیس (28) آیات بینات ہیں۔
سامعین! جیسا کہ اس سورہ مبارکہ کا نام نوح ہے ایسے ہی اس کا موضوع بھی حضرت نوح علیہ السلام کی زندگی اور دینی جدوجہد ہے۔
٭حضرت نوح شیخ الانبیاء اور آدم ثانی کہلاتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام حضرت آدم کے بعد پہلے رسول ہیں، یہ سورہ مبارکہ ان کی سخت محنت اور کوشش کو بیان کرتی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے دن کو بھی تبلیغ کی اور رات کو بھی، خفیہ بھی کی اور اعلانیہ بھی کی، انفرادی بھی کی اور اجتماعی بھی، مگر اس کے جواب میں ان کی قوم کی نفرت بڑھتی ہی گئی۔ بالاخر 950 سال بعد حضرت نوح علیہ السلام نے قوم کی ہلاکت کی دعا کی جسے اللہ نے قبول کیا اور سوائے ایمان والوں کے سب کو غرق کردیا۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں استغفار کے دنیوی فوائد بتائے گئے ہیں۔ یعنی استغفار کرنے سے جہاں ایک طرف گناہ معاف ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف رحمت کی بارشوں کا نزول بھی ہوتا ہے۔ استغفار کی برکت سے اللہ تعالیٰ مال اور اولاد سمیت بابرکت کاروبارِ دنیا بھی عطا فرماتا ہے۔
پارہ نمبر29
خلاصہ سورۃُ الْجِنّ……………………سورہ نمبر72
سورۃ الجن مکی ہے جس میں 2رکوع اور اٹھائیس(28) آیات بینات ہیں۔
”جن“ اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے جو انسانوں کی طرح مکلف بھی ہے۔ اس سورہ مبارکی کی پہلی پندرہ آیات میں اُس واقعے کا ذکر ہے جب جنات کی ایک جماعت نے پہلی بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی قرآن کی تلاوت سنی تو وہ نہ صرف حیرت زدہ ہوئے بلکہ اسلام قبول کرکے اپنی قوم قبیلے کی طرف مبلغ اسلام بن کر گئے۔
٭یہ سورت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جنات تو ایک بار قرآن سن کر مبلغ قرآن بن گئے لیکن تم انسان کئی کئی سال تک قرآن سن کر ذرا بھی نہیں بدلتے۔ بقول علامہ اقبال مرحوم
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہوکر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں جنات کی زبانی یہ بات بتائی گئی ہے کہ ہم نے انسانوں اور جنوں کی اکثریت کو درست سمجھ کران کے پیچھے اس لیے چلنا شروع کیا کہ اتنی زیادہ تعداد جو بات کہہ رہی ہے تو وہ غلط نہیں ہو سکتی، لیکن اب ہمیں قرآن سن کر پتا چلا کہ انسانوں اور جنوں کی اکثریت غلط راستے پر چل رہی ہے، صحیح راستے پر چلنے والے تھوڑے لوگ ہیں۔
پارہ نمبر29
خلاصہ سورۃُ المُزَّمِّلْ…………………………سورہ نمبر73
سورہ مزمل مکی ہے جس میں 2رکوع اور 20 آیات بینات ہیں۔
مزمل کا معنی ہے چادر میں لپٹنے والا۔ اس خطاب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے مخاطب کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت توحید کے راستے میں ناموافق حالات اور غیر معمولی رکاوٹوں اور اس کٹھن کام میں پیش آنے والے چیلنچز کی وجہ سے جبکہ کوئی بھی آپ کا ساتھ دینے والا نہ تھا، آپ پر خلوت پسندی اور خلق خدا سے بے تعلقی کی کیفیت طاری ہو جایا کرتی تھی۔ چنانچہ اس کیفیت میں آپ گوشہ گیر ہو کر چادر میں لپٹ کر لیٹ جایا کرتے تھے۔
٭اس سورہ مبارکہ میں آپ کو اس کیفیت سے نکالنے کے لیے پیار سے مزمل کے خطاب سے مخاطب کرکے راتوں کو زیادہ قیام کرنے کا حکم دیا تاکہ دن کو مستعدی سے آپ انذار وتبشیر کا کام کر سکیں۔اس سورت میں یہ سمجھایا گیا کہ اب آپ کے آرام کے دن ختم ہو گئے ہیں آپ کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے، اس لیے راتوں کو قرآن کے ساتھ قیام اللیل کا اہتمام کریں اور دن کو مستعدی سے تبلیغ دین کا کام کریں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں نماز تہجد کی فرضیت کو ختم کردیا گیا اور حسبِ استطاعت اس کی ادائیگی کی ترغیب دی گئی۔ اور وجہ اس کی یہ بیان کی کہ اللہ جانتا ہے تم میں سے کچھ لوگ بیمار ہوتے ہیں اورکچھ دن بھر محنت مزدوری کرتے ہیں اور کچھ دن بھر جہاد و قتال میں مصروف ہوتے ہیں۔
پارہ نمبر29
خلاصہ سورۃُ المُدَّثِّرْ…………………………سورہ نمبر74
سورہ المدثر مکی ہے جس میں 2 رکوع اور چھپن (56) آیاتِ بینات ہیں۔
سورۃ العلق کی ابتدائی آیات”اقرأ باسم ربک الذی خلق“ پہلی وحی تھی لیکن اس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ آپ نے کرنا کیا ہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ وحی نہیں آئی اور پھر دُبارہ جب وحی کا آغاز ہوا تو سورہ مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔جن میں یہ بتایا گیا کہ آپ کس کار عظیم پر مامور ہیں۔ لہٰذا لحاف سے اٹھیں اور خلق خدا کو انجام بد سے ڈرائیں۔
٭آپ کو چونکہ ہر لحاظ سے دنیا کے لیے نمونہ بننا ہے اس لیے آپ کی زندگی ہر لحاظ سے پاکیزہ ہونی چاہیے، باطنی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ ظاہری صفائی اور دنیوی فوائد سے اعرض کرکے خالص اللہ کے لیے خلق خدا کی اصلاح کا فریضہ ادا کریں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں جنتیوں اور جہنمیوں کا مکالمہ ذکر کیا گیا ہے کہ جب جہنمیوں سے پوچھا جائے گا کہ ان کو کس گناہ کی پاداش میں جہنم میں ڈالا گیا تو وہ کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور مسکینوں کی ضروریات پوری نہیں کرتے تھے۔
پارہ نمبر29
خلاصہ سورۃُ الْقِیَامَۃ……………………سورہ نمبر75
سورہ القیامہ مکی سورہ ہے جس میں 2رکوع اور چالیس (40) آیاتِ بینات ہیں۔
قیامت کے بارے لوگوں کے مختلف تصورات رہے ہیں، اور اب بھی کئی تصورات موجود ہیں۔ چنانچہ
کچھ لوگ اللہ اور قیامت دونوں کے منکر ہیں۔ کچھ لوگ اللہ کو مانتے ہیں مگر قیامت کے منکر ہیں۔اور کچھ لوگ اللہ اور قیامت دونوں کو مانتے ہیں مگر قیامت میں نجات کے لیے اپنا من گھڑت تصور آخرت بنایا ہوا ہے۔
٭یہ سورہ مبارکہ ایک حرف ”لا“کے ذریعہ تمام باطل تصورات آخرت کی نفی کرتی ہے اور یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان آخرت کے بارے من گھڑت تصور کیوں قائم کرتا ہے، اصل میں انسان اپنے گناہوں کو جاری رکھنا چاہتا ہے اور وہ آخرت کا سوچ کر زندگی کا مزا خراب نہیں کرنا چاہتا لہٰذا آخرت کو ہی جھٹلا دیتا ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں قیامت کبریٰ کے ساتھ ساتھ قیامت صغریٰ یعنی موت کا منظر بیان کرتے ہوئے انسان کی بے بسی کا ذکر کیا ہے کہ زندگی کے آخری لمحات میں جب کوئی حربہ کام نہیں آتا تو انسان کہتا ہے، چلو کسی”دَم درود“ والے کو ہی بلا لو شاید اسی افاقہ ہو جائے۔
پارہ نمبر29
خلاصہ سورۃُ الدَّہْر……………………سورہ نمبر76
سورۃ دہر مکی ہے جس میں 2رکوع اور اکتیس (31) آیاتِ بینات ہیں۔
”دہر“ کا مطلب زمانہ ہوتا ہے، اس سورہ مبارکہ کا ایک نام سورۃ الانسان بھی ہے کیونکہ اس میں انسان کو اس کی حقیقت اور حیثیت یاد دلائی گئی ہے۔ اس سورہ مبارکہ کا ایک اور نام سورۃ الابرار بھی ہے کیونکہ اس میں ابرار یعنی نیک لوگوں کو آخرت میں ملنے والے انعامات کا ذکر تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔
٭یہ سورت بتاتی ہے کہ ہم نے انسان پر دونوں راستے واضح کر کے اختیار انسان کے ہاتھ میں دے دیا ہے اب انسان کی اپنی مرضی ہے چاہے تو شکر گزار بنتے اور چاہے تو کفر کرے۔ اس سورہ مبارکہ میں نیک لوگوں کی یہ نشانی بتائی گئی ہے کہ وہ مسکینوں، یتیموں، اور قیدیوں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں، اور یہ کام اتنے اخلاص سے کرتے ہیں کہ جواب میں شکریہ کی خواہش بھی نہیں رکھتے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک جنتی وہ ہوگا جو ادنی درجے کی جنت میں ہوگا، وہ کافور کی آمیزش والی شراب خود ہی اس کے چشمے سے پیئے گا۔ جبکہ دوسرا جنتی وہ ہوگاجو اس سے اعلیٰ درجے کی جنت میں ہوگا، جس کو ادرک کی آمیزش والی شراب چاندی کے شیشے کے برتنوں میں خدام پلائیں گے۔ جبکہ تیسرا خوش نصیب وہ جنتی ہے، جو اس سے بھی اوپر کے درجے میں ہوگا، جس کو اس کا رب خود شراب طہور پلائے گا۔
پارہ نمبر29
خلاصہ سورۃُ الْمُرْسَلَات……………………سورہ نمبر77
سورہ المرسلات مکی ہے جس میں 2 رکوع اور پچاس (50) آیاتِ بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی پہلی سات آیات میں ان ہواؤں کی قسم اٹھائی گئی ہے جو تباہی لاتی ہیں۔ پھر یہ ثابت کیا ہے کہ قیامت ضرور آکر رہے گی۔اللہ جب چاہتا ہے ان ہواؤں کو رحمت بنا دیتا ہے اور جب چاہتا ہے ان ہواؤں کو زحمت اور عذاب بنا دیتا ہے۔لہٰذا اس قادر مطلق ذات کے لیے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت قائم نہ کرسکے۔
٭اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے مظاہر کا ذکر کیا ہے جب قیامت قائم ہوگی، ستارے مٹ جائیں گے، آسمان پھٹ جائے گا، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ پھر انسان کو اس کی حقیقت بتائی کہ کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟۔اس کے بعد جہنم کے مناظر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جہنم کی چنگاریاں اتنی بڑی ہوں گی جیسے محل ہوتا ہے، گویا کہ زرد اونٹ ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ بہت ہی جلالی سورت ہے۔ اس میں ایک آیت ”وَیْلٌ یَّوْمَ اِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ“ یعنی جھٹلانے والوں کے لیے ہلاکت اور تباہی ہے۔ یہ آیت دس بار رپیٹ ہوئی ہے جو اس سورہ مبارکہ کے جلالی اندازِ بیان کو واضح کرتی ہے۔
پارہ نمبر30
نوٹ: ریڈیو پر اناؤسمنٹ کے لیے وقت بہت کم دیا جاتا ہے اور تیسویں پارے میں سورتوں کی تعداد 37 ہے۔ ہرہر سورت کا خلاصہ اور تعارف الگ الگ بیان کرنے پر کافی وقت صرف ہوتا ہے اس لیے عام طور پر تیسویں پارے کی سورتوں کا خلاصہ بیان کرنے کے بجائے پورے سپارے کا خلاصہ بیان کردیا جاتا ہے۔ اگرچہ مناسب تو یہی ہے کہ ہر ہر سورت کا مختصر خلاصہ بیان کر ہی دیا جائے۔ اس لیے میں پہلے پورے سپارے کا اکھٹا خلاصہ تحریر کروں گا اور پھر ہرہر سورت کا الگ الگ تعارف اور انتہائی مختصر خلاصہ لکھوں گا تاکہ موقع محل کے لحاظ سے جو بھی مناسب ہو پڑھ لیا جائے۔
شکریہ جزاک اللہ خیرا
تیسویں پارے کا خلاصہ
سامعین محترم: تیسویں پارے میں کل سینتیس(37) سورتیں ہیں، جن میں سے پانچ مدنی ہیں اور باقی سب مکی ہیں۔ یہ مکی سورتیں حضور ﷺ کی مکی زندگی کے مختلف اَدوار میں نازل ہوئی ہیں، یہ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا اس لیے مکی سورتوں میں عام طور پر چھوٹی چھوٹی آیات، اور اسلام کی بنیادی تعلیمات ہوتی ہیں۔
اسلام کی بنیادی تعلیمات میں تین چیزیں سب سے اہم ہیں: ۱۔ عقیدہ توحید، ۲۔عقیدہ رسالت، ۳۔عقیدہ آخرت۔ چنانچہ مکی سورتوں میں یہی تین مضامین مختلف انداز اور مثالوں سے واضح کیے گئے ہیں۔ پھر تیسویں پارے کی مکی سورتوں میں خاص طور پر عقیدہ آخرت، وقوع قیامت اور حساب کتاب کی حقانیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ نے فرمایا: اگر تم قیامت کا آنکھوں دیکھا حال دیکھنا چاہتے ہو تو سورہ تکویر، سورہ انفطار اور سورہ انشقاق پڑھو۔
تیسویں پارے میں جہاں وقوع قیامت کے خوفناک مناظر کی منظر کشی کی گئی ہے وہیں دنیا کی بے ثباتی، اور آخرت کے لازوال ہونے کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ جہاں ایک طرف حضور ﷺ کو تسلی،اور صبر کی تلقین کی گئی ہے وہیں کفار کو عذاب شدید اور اقوام سابقہ کے عبرتناک انجام سے ڈرایا بھی گیا ہے۔
اس سپارے میں بتایا گیا ہیکہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب زندہ درگور کی ہوئی بچی کو بھی انصاف ملے گا، اور اصحاب الاخدود کو بھی انصاف ملے گا۔ اللہ کے عذاب کا کوڑا کبھی دنیا میں بھی برستا ہے، چنانچہ ”اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی“ کا دعویٰ کرنے والااور مظلوموں کے جسم میں کیلیں ٹھوکنے والا فرعون ہو۔ یا ”مَنْ اَشَدُّمِنَّاقُوَّۃً“ کی دعوے دار قوم عاد و ثمودہو۔ یا بادشاہوں کے بادشاہ یعنی اللہ کے گھربیت اللہ پر حملہ کرنے والا ابرہہ، سب کا عبرتناک انجام دنیا کے سامنے ہے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃُ النباء……………………سورہ نمبر78
سورۃ النباء مکی ہے جس میں 2رکوع اورچالیس (40)آیات بینات ہیں۔
نباء۔ خبر کو کہتے ہیں۔ نباء العظیم کا معنی ہے بڑی نیوز مراد قیامت ہے۔ قیامت کے بارے لوگوں کے مختلف نظریات تھیکوئی کہتا ہے قیامت ہے ہی نہیں۔ کوئی کہتا ہے شاید ہو شاید نہ ہو۔ کوئی قیامت کو تو مانتا ہے مگر حساب کتاب اور عذاب و ثواب کا غلط تصور قائم کر بیٹھا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب لوگوں کو قیامت کا اصل تصور بتاتے تو لوگ استہزاء اور مذاق کرتے ہوئے کہتے یہ کب آئے گی۔؟ اس سورہ مبارکہ میں ان کے اسی سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے مظاہر کا ذکر کرکے بتایا جو اللہ ایسی ایسی قدرت کا مالک ہے اس کے لیے قیامت قائم کرنا کوئی مشکل نہیں۔
اس کے بعد یہ سورہ مبارکہ متقین کے اچھے انجام اور اصل کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے جنت میں ملنے والے انعامات کو بیان کرتی ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ قیامت والا دن اتنا ہولناک ہوگا کہ فرشتے صفوں میں خاموش اور بے بس کھڑے ہوں گے، کسی کو اللہ کے سامنے بات کرنے کی جرأت نہیں ہوگی چہ جائے کہ کوئی فرشتہ سفارش کرے۔
اس وقت اپنا رزلٹ دیکھ کرکافر یہ تمنا کرے گا کاش میں مٹی ہوتا۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ النازعات……………………سورہ نمبر79
سورۃ النازعات مکی ہے جس میں 2رکوع اور چھیالیس (46)آیات بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کا موضوع بھی آخرت ہے، چنانچہ دنیا کی زندگی میں سرکشی اور اعراض عن الدین کا برا انجام یہاں بیان ہوا ہے۔
اس سورہ مبارکہ کے آغاز میں خبردار کیا ہے کہ سرکش انسان کی جان بڑی مشکل سے نکلتی ہے، فرشتوں کو اس کے وجود میں ڈوب کر اور بڑی قوت سے کھینچ کر ان کی جان نکالنا پڑتی ہے۔ اس کے برعکس نیک انسان کی جان فرشتے بڑی آسانی سے محض ایک بند کھول کر نکال لیتے ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ جب قیامت سامنے آجائے گی تو اس وقت انسان دنیا میں اپنے مشاغل اور ان کاموں کو یاد کرے گا جن کے لیے اس نے زیادہ محنت کی زیادہ وقت لگایا اور زیادہ جان کھپائی، تب انسان کو احساس ہوگا کہ میں تو دنیا میں صرف چند گھڑیاں ہی گزار کر آیا ہوں۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ عبس……………………سورہ نمبر80
سورہ عبس مکی ہے جس میں 1رکوع اور چھیالیس (46)آیات بینات ہیں۔
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں سرداران قریش بیٹھے تھے اور آپ ان کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے، اسی اثناء میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے۔ نابینا ہونے کی وجہ سے انہیں اس بات کا علم نہ ہو سکا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مصروف ہیں اس لیے انہوں نے بار بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات پوچھنی چاہی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناگواری کا اظہار کیاتو اس واقعہ پر یہ سورہ مبارکہ نازل ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کی کہ آپ کو سرداران قریش کے اسلام لانے کی طمع میں اپنے مخلص ساتھی کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ قیامت کی ہولناکی کا نقشہ یوں کھینچا گیا کہ دنیا میں جن رشتوں ناطوں کے بغیر رہنا انسان کے لیے مشکل ہوتا ہے قیامت والے دن انسان ان تمام رشتوں ناطوں کو بھول جائے گا اور اسے ان کے بجائے صرف اپنی فکر ہوگی کہ میں بچ جاؤں۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ التکویر……………………سورہ نمبر81
سورہ تکویر مکی ہے جس میں انتیس (29) آیات بینات ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص یہ چاہتا ہو کہ قیامت کے احوال کو اپنی آنکھوں سے دیکھے تو سورہ تکویر، سورہ انفطار اور سورہ انشقاق پڑھ لے۔
چنانچہ اس سورہ مبارکہ کی پہلی چودہ آیات میں قیامت کے اس ہولناک انقلاب کا ذکر ہے جس کے اثرات سے کائنات کی کوئی چیز محفوظ نہیں رہے گی۔
پھر آیت پندرہ سے آگے قرآن حکیم کی حقانیت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ کی صدقت کا بیان ہے، کفار کے اس قول کی تردید بھی کی کہ یہ کسی جن یا شیطان کا قول ہے۔ فرمایا: یہ تو ہر اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو صراط مستقیم کا طلبگار ہے۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ قیامت کے وجود پر عجیب دلیل دی گئی ہے کہ اللہ کے عدل کا تقاضا ہے جن کو دنیا میں انصاف نہ مل سکا قیامت میں ان کو بھی انصاف ملے گا چنانچہ پیدا ہونے والی وہ بچی جسے اس کے محافظ باپ نے ہی زندہ درگور کردیا تھا قیامت میں اسے بھی انصاف ملے گا۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ الانفطار……………………سورہ نمبر82
سورہ انفطار مکی ہے جس میں انیس (19) آیات بینات ہیں۔
پہلی پانچ آیات میں وقوع قیامت کا ذکر ہے اور اس کے بعد انسان سے یہ شکوہ ہے کہ اے انسان تجھے رب کریم کے ساتھ کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے؟
جس رب نے تجھے بنایا اس کے لیے دبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے اگر اللہ نے کسی کو عذا نہیں دینا تو کراماً کاتبین کو کیوں بٹھایا۔؟
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ کہ قیامت والے دن معاملہ کسی کے اختیار میں نہیں ہوگا بلکہ صرف اللہ کا امر چلے گا۔ لہٰذا اس دنیا میں آستانوں، بت خانوں میں جا کر کسی اور کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے اللہ کی خوشنودی حاصل کی جائے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ المطففین……………………سورہ نمبر83
سورہ مطففین مکی ہے جس میں چھتیس (36) آیات بینات ہیں۔
تطفیف کا مطلب ہے چھوٹے پیمانے پر چپکے سے ہیرا پھیری کرنا، جسے عرف عام میں ڈنڈی مارنا کہتے ہیں۔ یہاں مطففین سے مراد ناپ تول میں کمی کرنے والے ہیں۔یعنی جن کا اپنے لیے اور معیار ہے اور دوسروں کے لیے اور معیار ہے۔جب خود لیتے ہیں تو پورا پورا اور جب دینے کی باری آتی ہے تو ڈنڈی مارتے ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس قسم کے دوہرے معیار کا تعلق صرف ناپ تول میں کمی بیشی سے نہیں بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں انسان کو مطفف نہیں بننا چاہیے۔ جو اپنے لیے پسند کرے وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرے۔ جوحق اپنے لیے مانگے وہی دوسروں کو بھی دے۔جس قسم کا انصاف خود چاہے وہ دوسروں کو بھی دے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ الانشقاق……………………سورہ نمبر84
سورہ انشقاق مکی ہے جس میں پچیس (25) آیات بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی ابتدائی آیات میں قیامت کے وقوع کے وقت کائناتی تبدیلیوں کا ذکر ہے۔اس کے بعد انسان کو مخاطب کرکے فرمایا جارہا ہے: اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب ہی کی طرف جارہا ہے پھر ایک وقت آئے گا تو رب کے سامنے حاضر کر دیا جائے گا۔ اس وقت جن کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا گیا، ان سے حساب بھی آسان لیا جائے گا اور وہ اب اپنے گھر والوں کی طرف خوشی خوشی پلٹے گا۔
اس کے برعکس جس کو نامہ اعمال پیٹھ پیچھے سے دیا گیا تو وہ موت مانگے گا اس سے کہا جائے گا تو دنیا میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر آیا ہے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ البروج……………………سورہ نمبر85
سورہ بروج مکی ہے جس میں اکیس (21) آیات بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں اصحاب الاخدود یعنی خندقوں میں ڈال کر جلائے جانے والے مسلمانوں کا ذکر ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے تقریبا پچاس سال پہلے 523ء میں یمن کے ایک یہودی حکمران نے اس وقت کے مسلمان جو عیسائی کہلاتے تھے ان کو ایمنا نہ چھوڑنے کی پاداش میں آگ کی خندقوں میں ڈال کر زندہ جلایا تھا۔
اس واقعہ کی طرف اشارہ کرکے قریش کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ تم بھی اسی طرح مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھا رہے ہو لہٰذا تمہارا انجام بھی برا ہوگا۔ اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ الطارق……………………سورہ نمبر86
سورہ طارق مکی ہے جس میں سترہ (17) آیات بینات ہیں۔
طارق کا معنی رات کو آنے والا ہے، مراد رات کو نمودار ہونے والا ستارہ ہے۔ ستاروں کی قسم اٹھا کر فرمایا جارہا ہے کہ ہر انسان کی نگرانی ہو رہی ہے ہر نفس پر ایک محافظ مقرر ہے جو اس کے اعمال کی نگرانی بھی کرتا ہے اور بوقت ضرورت اس کی جان کی حفاظت بھی کرتا ہے۔
اس کے بعد انسان کو اپنی تخلیق میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی جارہی ہے۔اور فرمایا جارہا ہے یہ قرآن فیصلہ کن کتاب ہے کوئی مذاق نہیں ہے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ الاعلیٰ……………………سورہ نمبر87
سورہ اعلیٰ مکی ہے جس میں انیس (19) آیات بینات ہیں۔
پہلی ہی آیت کریمہ میں اس بات کا حکم ہے کہ اپنے رب کی تسبیح اس کے برتر اور اعلیٰ نام کے ساتھ کریں۔ اسی مناسبت سے اس کا نام بھی سورۃ الاعلیٰ رکھا گیا ہے۔اس سورہ مبارکہ میں نہایت اختصار اور جامعیت کے ساتھ چند باتوں کا حکم دیا گیا ہے۔
پہلی بات یہ فرمائی کہ لوگوں کو قرآن حکیم کے ذریعہ نصیحت کریں، جس کے اندر خوف خدا ہوگا یہ قرآنی نصیحت اسے فائدہ دے گی۔
دوسری بات یہ فرمائی کہ کامیابی ان لوگوں کو ملتی ہے جو اپنا تزکیہ کرتے ہیں۔اللہ کا ذکر کرتے اور نماز ادا کرتے ہیں۔اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتے ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ پاک قرآن پاک کے حفظ کرنے کو آسان بنا دے گا۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ الغاشیۃ……………………سورہ نمبر88
سورہ غاشیہ مکی ہے جس میں چھبیس (26) آیات بینات ہیں۔
غاشیہ قیامت کا نام ہے جس کا معنی ہے چھا جانے والی۔ یہ سورہ مبارکہ روز جزاء یعنی دنیا کے امتحان کے بعد رزلٹ ڈے کی منظر کشی کرتی ہوئے بتاتی ہے کہ اس دن کئی لوگوں کے چہرے سخت خوفزدہ، نڈھال اور تھکے ہارے ہوں گے انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ جہاں کھولتا ہوا پانی اور جھاڑ جھنکار ان کی خوراک ہو گی۔اسی طرح کئی لوگوں کے چہرے شگفتہ اور خوش ہوں گے وہ اپنی دنیا کی سعی و جدوجہد پر راضی ہوں گے انہیں اونچی جنتوں میں داخل کیا جائے گا۔
اس سورہ مبارکہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سورت بتاتی ہے: ایک مسلمان کی حیثیت دنیا میں ”مُذکِّر“ یعنی نصیحت کرنے والے کی ہوتی ہے نہ کہ ”داروغہ“ کی۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ الفجر……………………سورہ نمبر89
سورہ فجر مکی ہے جس میں تیس (30) آیات بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کے آغاز میں چار بابرکت اوقات کی قسمیں اٹھائی گئی ہیں۔یعنی فجر، ذی الحجہ کا پہلا عشرہ، رمضان کا آخری عشرہ اور رات کا آخری پہر۔ ان چاروں اوقات میں تھوڑی سی عبادت پر ثواب کثیر حاصل ہوتا ہے لیکن دنیا پرست انسان اپنی ساری صلاحیتیں مادی چیزوں پر لگا دیتے ہیں۔
چنانچہ اس ضمن میں قوم عاد، قوم ثمود، اور فرعون کے انجام بد کا اجمالا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ فقر وغنی، صحت و بیماری اور خیر و شر کی آزمائشیں لاتا ہے۔ لیکن انسان غفلت میں زندگی گزار لیتا ہے پھر قیامت والے دن کہے گا: کاش میں نے اپنی مستقبل کی زندگی کے لیے دنیا میں کچھ سعی و کوشش کی ہوتی۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ البلد……………………سورہ نمبر90
سورہ بلد مکی ہے جس میں بیس (20) آیات بینات ہیں۔
بلد کا معنی شہر ہے اس سورۃ مبارکہ کا آغاز شہر مکہ کی قسم سے ہوتا ہے اس مناسبت سے اس کا نام سورۃ البلد رکھا گیا۔ اس سورہ مبارکہ میں انسان کی نیک بختی اور بدبختی بالکل واضح ہونے کا پیغام دیا گیا ہے۔
یہ سورہ مبارکہ مال کمانے اور خرچ کرنے سے متعلق انسان کے جاہلانہ تصور کی اصلاح بھی کرتی ہے اور مال سے بھی زیادہ قیمتی ان صلاحیتوں کو بھی یاد دلاتی ہے جنہیں درست استعمال کرکے انسان سعادت اور نیک بختی حاصل کرسکتا ہے۔اس ضمن میں بولنے کی صلاحیت کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
یہ سورہ مبارکہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے سخاوت اور انفاق کی گھاٹی عبور کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ الشمس……………………سورہ نمبر91
سورہ شمس مکی ہے جس میں پانچ آیات بینات ہیں۔
یہ سورہ مبارکہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کون سا انسان کامیاب ہے اور کون سا انسان ناکام ہے۔آغاز میں سورج چاند، دن رات، زمین آسمان اور نفس انسانی کی قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا: انسان کے نفس میں نیکی اور بدی کا شعور اللہ نے رکھ چھوڑا ہے۔ اب کامیاب وہی ہوگا جو اس نفس کا تزکیہ کرے گا اور جو ایسا نہیں کرے گا ناکام ہو جائے گا۔ اس ضمن میں حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کی مثال پیش کی گئی ہے کہ انہوں نے نفس کا تزکیہ نہ کیا تو کیا انجام ہوا۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ اللیل……………………سورہ نمبر92
سورہ لیل مکی ہے جس میں اکیس(21) آیات بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ انسانوں کی جدوجہد اور کوشش مختلف نوعیت کی ہوتی ہے اور انسان اپنی اسی کوشش اور جدوجہد کے حساب سے اللہ کا پسندیدہ یا ناپسندیدہ بنتا ہے۔
اس دنیا میں یہ اصول اور قانون بنا دیا گیا ہے کہ انسان جس چیز کی کوشش کرتا ہے وہ اسے مل جاتی ہے اور اس راستے پر چلنا انسان کے لیے آسان کر دیا جاتا ہے جس پر وہ چلنا چاہتا ہے۔لیکن آخرت کا معاملہ ایسا نہیں وہاں خواہشات کی بناء پر فیصلے نہیں ہوں گے بلکہ انسان کی دنیا میں مثبت اور درست سعی و جدجہد کی بناء پر فیصلے ہوں گے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ الضحی ……………………سورہ نمبر93
سورہ ضحی مکی ہے جس میں گیارہ آیات بینات ہیں۔
ایک بار نزول وحی میں طویل وقفہ ہوا تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پریشانی ہوئی اور کفار نے بھی طعنے دینے شروع کر دیے کہ آپ کے خدا نے آپ کو چھوڑ دیا ہے۔چنانچہ اس وقفے کے بعد یہ سورہ مبارکہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ اللہ نہ آپ سے ناراض ہوا ہے اور نہ ہی آپ کو چھوڑا ہے۔
اس سورہ مبارکہ میں یہ پیشن گوئی کی گئی ہے کہ آپ کا مستقبل آپ کے حال سے بہتر ہوگا، بالکل ویسے ہی جیسے:
۱۔آپ یتیم تھے تو اللہ نے آپ کو ٹھکانہ دیا۔
۲۔آپ دین سے بے خبر تھے تو اللہ نے آپ کو اس کا راستہ دکھایا۔
۳۔آپ تنگدست تھے تو اللہ نے آپ کو غنی کیا۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ الانشراح ……………………سورہ نمبر94
سورہ انشراح مکی ہے جس میں آٹھ آیات بینات ہیں
انشراح کا مطلب ہے کھولنا۔ اس سورہ مبارکہ میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے انشراح صدر کا ذکر ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ آپ نے غاز حراء میں اللہ سے لو لگائی ہوئی تھی اور ذکر اللہ کی لذت لے رہے تھے کہ اچانک حکم آیا غار حراء سے اتریں اور اس جاہل، مشرک اور جھگڑالو قوم کو خبردار کریں۔
اس کے جواب میں گستاخیاں، طعنے، ازامات اور ذہنی وجسمانی اذیت کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بھاری ذمہ داری سے بوجھل ہو رہے تھے لیکن بہت جلد اللہ نے آپ کے سینے کو اس کام کے لیے کھول دیا اور آپ کو سمجھ آگئی کہ غار میں ذکر اللہ اور تنہائی میں لو لگانے سے زیادہ عظیم کام یہ ہے جس پر مجھے معمور کیا گیا ہے، چنانچہ یہ سمجھ آتے ہی سارے بوجھ ختم ہوگئے۔
اللہ نے بھی آپ کا ذکر خیر بلند کردیا چنانچہ اذان، نماز، عبادات قرآن سمیت ہر جگہ اللہ کے ساتھ آپ کا ذکر خیر بھی موجود ہے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ التین ……………………سورہ نمبر95
سورۃ التین مکی ہے جس میں آٹھ آیات بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں دو پھلوں انجیر اور زیتوں، جبکہ دو مقامات یعنی طور سیناء اور شہر مکہ کی قسم اٹھائی گئی ہے۔ ان چار چیزوں کی قسم میں پانچ عظیم الشان پیغمبروں کی طرف اشارہ ہے۔
۱۔انجیر حضرت نوح علیہ السلام کے علاقے میں بہت زیادہ ہوتی تھی۔
۲۔زیتون حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاقے میں زیادہ ہوتا تھا۔
۳۔طور سیناء سے حضرت موسی علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے۔
۴۔اورشہر مکہ سے حضرت ابراہیم اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ ہے۔
یہ سورہ مبارکہ بتاتی ہے کہ یہ پانچ عظیم الشان پیغمبر اور ان کی زندگی عظمت اور شان یہ بتاتی ہے کہ انسان بہت خوبصورت پیدا کیا گیا ہے لیکن وہ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے نیچے گرا دیا جاتا ہے البتہ جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے ساھ جڑے رہتے ہیں وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ العلق……………………سوورہ نمبر96
سورہ علق مکی ہے جس میں انیس آیات بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ کی ابتدائی پانچ آیات نزول کے اعتبار سے قرآن کی سب سے پہلی آیات ہیں۔ اس پہلی وحی میں و بار ”اقراء“ کے لفظ کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا۔ علم اور قلم کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی کہ اللہ نے قلم کے ذریعہ علم سیکھایا۔ اس سے تعلیم و قلم اور پڑھنے لکھنے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس کے بعد انسان کے دنیا میں سرکش بننے کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں:
پہلی وجہ یہ کہ اللہ ڈھیل دیتا ہے فورا پکڑنہیں کرتا تو انسان سرکش ہوجاتا ہے۔اور دوسری وجہ ہے کہ مال ودولت کی فراوانی انسان کو سرکش بنا دیتی ہے۔اس کے بعد فرمایا اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے عنقریب پکڑے گا۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ القدر ……………………سورہ نمبر97
سورہ قدر مکی ہے جس میں پانچ آیات بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن پاک لیلۃ القدر میں نازل ہوا ہے اور اسی وجہ سے لیلۃ القدر کی اتنی فضیلت ہے کہ اس میں عبادت ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ یہ رات غروب آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک رحمت وبرکت اور سلامتی ہے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ البینۃ ……………………سورہ نمبر98
سورہ بینہ مدنی ہے جس میں آٹھ آیات بینات ہیں۔
”بینۃ“کا معنی ہے واضح دلیل۔
اس سورہ مبارکہ میں قرآن پاک اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو بینہ قرار دے کر اہل کتاب اور مشرکین پر حجت تام کی گئی ہے اور یہ بتایا کہ اس بینہ نے آکر کھرے کھوٹے کو جدا جدا کر دیا ہے۔
یہ سورہ مبارکہ دین اسلام کی دو بنیادوں یعنی ایمان اور اخلاص کو بھی واضح کرتی ہے اور ساتھ ساتھ اچھوں اور بروں کے انجام پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ الزلزال……………………سورہ نمبر99
سورہ زلزال مدنی ہے جس میں آٹھ آیات بینا ہیں
زلزال ہلانے کو کہتے ہیں، چونکہ پہلی ہی آیت میں وقوع قیامت کے زلزلے کا ذکر ہے اسی مناسبت سے اس کا نام زلزال رکھا گیا ہے۔
یہ سورہ مبارکہ بتاتی ہے کہ وقوع قیامت کے زلزلے سے سارے انسان اپنی اپنی قبروں سے نکل کر حساب کتبا کے لیے پیش کیے جائیں گے۔ یہ زمین بھی انسان کے اعمال کی گواہی دے گی اور اعمال کے حساب سے ہی انسانوں کی دو قسمیں بن جائیں گی۔ بعض شقی اور بعض سعید ہوں گے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ العادیات……………………سورہ نمبر100
سورہ عادیات مدنی ہے جس میں گیارہ آیات بینات ہیں۔
یہ سورہ مبارکہ انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ اپنے مالک کا وفادار نہیں ہے، چنانچہ انسان کے کردار کا موازنہ گھوڑوں کے کردار سے کیا گیا ہے۔ گھوڑے کا مالک اس کا حقیقی مالک نہیں ہوتا مگر پھر بھی گھوڑا اس کا اتنا وفادار ہوتا ہے کہ جان کی پرواہ کیے بغیر گھمسان کی جنگ میں کود جاتا ہے۔لیکن انسان اپنے حقیقی مالک کا ناشکرا اور بے وفا ہے اس ناشکری اور بے وفائی کا وبال قیامت والے دن اٹھانا ہوگا۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ القارعۃ……………………سورہ نمبر101
سورہ قارعہ مکی ہے جس میں گیارہ آیات بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں وقوع قیامت کی تباہ کاریوں اور ہولناکیوں کو بیان کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں کیے جانے والے اچھے برے اعمال کو قیامت والے دن تولا جائے گا۔ جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوا وہ عیش وعشرت میں زندگی گزارے گا اور جس کا بدیوں والا پلڑا بھاری ہوا وہ جہنم رشید ہوگا۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ التکاثر……………………سورہ نمبر102
سورہ تکاثر مکی ہے جس میں آٹھ آیات بینات ہیں
التکاثر کا مطلب ہے مال کی کثرت کی ہوس کرنا یہ سورہ مبارکہ ان لوگوں کو متنبہ کرتی ہے جو اپنا سارا وقت، قابلیت، صلاحیت، ہنر اور تجربہ صرف مال کمانے پر لگاتے ہیں اللہ کے دین کی سربلندی اور پیروی ان کے شیڈول میں شامل ہی نہیں ہوتی وہ اس دنیا کی دھن میں اسی طرح مست رہتے ہیں کہ اچانک اپنے قصر سے قبر میں جانا پڑتا ہے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ العصر……………………سورہ نمبر103
سورہ عصر مکی ہے جس میں تین آیات بینات ہیں۔
پہلی آیت کریمہ میں زمانے کی قسم اٹھا کر گویا انسانی تاریخ کو گواہ بنا کر پیش کیا گیا ہے کیونکہ یہ دس ہزار سالہ انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سارے انسان خسارے میں رہے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے چار کام کیے:
۱۔اللہ پر ایمان ۲۔اللہ کے احکامات پر عمل ۳۔اللہ کے احکامات کی تبلیغ
۴۔اپنے تمام تر پہلوؤں کے ساتھ مکمل صبر۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃُ الْھُمَزَۃِ……………………سورہ نمبر104
سورہ ہُمَزہ مکی ہے جس میں 9آیات بینات ہیں۔
”ہُمَزَہ اور لُمَزَہ“ کا مطلب ہے جگتیں مارنے والا، اشارہ سے طعنہ دینے والا، سامنے یا پیچھے سے برا کہنے والا، غیبت کرنے والا۔
مکی زندگی کے ابتدائی دور میں مکہ کے مالدار اور متکبر لیڈر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر جگتیں مارتے اور بدگوئیاں کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی اس قبیح حرکتوں پر متنبہ کرنے اور برے انجام سے آگاہ کرنے کے لیے یہ سورہ مبارکہ نازل ہوئی۔
٭یہ سورہ مبارکہ انسان کے پست کردار سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتاتی ہے کہ دولت کو گن گن کر جمع کرنا اور اس مقصد کے لیے جھوٹ، بددیانتی، لالچ اور دھوکہ دہی کا سہارا لینا کتنا خطرناک کھیل ہے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃُ الْفِیْلِ……………………سورہ نمبر105
سورہ فیل مکی ہے جس میں پانچ آیات بینات ہیں۔
فیل عربی زبان میں ہاتھی کو کہتے ہیں اس سورہ مبارکہ میں یمن کے ایک حکمران ابرہہ کے اس لشکر کا ذکر ہے جس میں ہاتھی بھی تھے۔ اور یہ لشکر بیت اللہ کو مسمار کرنے آیا تھا۔
اس لشکر کی تباہی کا ذکر کرکے قیامت تک آنے والے انسانوں کو یہ سبق دیا گیا کہ جیسے بیت اللہ کو گرانے کے لیے آنے والا لشکر تباہی سے دو چار ہوا تھا ایسے ہی اللہ کے رسولوں اور اس کے دین کے راستے میں رکاوٹ بننے والوں کا انجام بھی برا ہوگا۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃُ الْقُرَیْشِ……………………سورہ نمبر106
سورہ قریش مکی ہے جس میں چار آیات بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں ابرہہ کے لشکر کی تباہی کے نتیجے میں حاصل ہونے والے امن و اطمینان کا ذکر کرتے ہوئے دعوت دی گئی ہے کہ اُس بیت اللہ کے رب کی بندگی کرو جس کی وجہ سے تمہیں امن وسکون حاصل ہے۔ اور جس کی وجہ سے تم کھاتے پیتے ہو۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃُ المَاعُون……………………سورہ نمبر107
سورہ ماعون مکی ہے جس میں سات آیات بینات ہیں
”ماعون“ گھریلو استعمال کی معمولی سی چیز کو کہتے ہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں دو گروہوں کا ذکر ہے: ایک وہ جو منکرین آخرت ہیں، یہی لوگ یتیموں کے حقوق دبا لیتے ہیں اور غرباء ومساکین پر نہ خود خرچ کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو ترغیب دیتے ہیں۔
دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو نمازوں میں تساہل، اعمال میں ریاء کاری اور معاشرت ومعاملات میں بخیل واقع ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے تباہی کی وعید سنائی گئی ہے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃُ الْکَوْثَر……………………سورہ نمبر108
سورہ کوثر مکی ہے جس میں تین آیات بینات ہیں
اس سورہ مبارکہ میں ارشاد ہے ہم نے آپ کو کوثر عطاء کی ہے۔ ”کوثر“ خیر کثیر کو کہتے ہیں لہذا اس میں وہ سارے انعامات آجاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیے۔ مثلا قران جیسی کامل ہدایت، اسلام جیسا مکمل دین، صحابہ کرام جیسے جانثار ساتھی، بہترین امت اور محض اکیس برس میں عظیم غلبہ دین۔
لہٰذا ان انعامات کے شکرانے کے طور پر نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ اور ساتھ ہی یہ بشارت بھی سنا دی کہ آپ کا دشمن بے نام ونشان ہو کر مٹ جائے گا۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃُ الْکَافِرُوْن……………………سورہ نمبر109
سورہ کافرون مکی ہے جس میں چھ آیات بینات ہیں۔
مکی زندگی میں ایک دور ایسا بھی آیا تھا جب کفار نے آپ کو ایک شرط پر مصالحت کی دعوت دی۔ وہ شرط یہ تھی کہ ایک سال ہم آپ کے رب کی عبادت کرتے ہیں اور ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں۔
چنانچہ اس سورہ مبارکہ میں اس قسم کی کسی بھی مصالحت کی سختی سے تردید کردی گئی کہ ہم ان کی عبادت نہیں کریں گے جن کی تم کرتے ہو۔ تمہارا دین تمہارے لیے اور ہمارا دین ہمارے لیے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃُ النَّصْر……………………سورہ نمبر110
سورہ نصر مدنی ہے جس میں تین آیات بینات ہیں
یہ سورہ مبارکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بالکل آخری دور میں نازل ہوئی ہے۔ جس میں عنقریب بہت بڑی فتح یعنی فتح مکہ اور پھر اس کے نتیجے میں غلبہ دین اور لوگوں کے جوق در جوق اسلام قبول کرنے اور آپ کے مقصد بعثت کے مکمل ہونے کا ذکر ہے اور ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تسبیح و تحمید اور استغفار کرنے کا حکم بھی ہے۔ جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃُ الَّھَب……………………سورہ نمبر111
سورہ لہب مکی ہے جس میں پانچ آیات بینات ہیں۔
ابو لہب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا مگر آپ کا بدترین دشمن بھی تھا۔ اس کی بیوی ام جمیل بھی بہت بڑی دشمن تھی۔ اس سورہ مبارکہ میں ان دونوں دشمنان رسول کا انجام بد بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ان کا مال ان کے کسی کام نہ آیا۔ بالکل ایسے ہی قیامت تک آنے والے ہر انسان کے لیے یہی سبق ہے کہ کام آنے والی چیز ایمان و عمل ہے نہ کہ مال۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ الاخلاص……………………سورہ نمبر112
سورہ اخلاص مکی ہے جس میں چار آیات بینات ہیں۔
توحید کی بہت ساری اقسام ہیں مثلا توحید فی الاطاعت، توحید فی الحاکمیت، توحید فی العبادات، توحید فی الدعا، توحید فی الاطاعت، توحید فی الحاکمیت وغیرہ وغیرہ۔
اس سورہ مبارکہ میں توحید ذات پر زور دیا گیا ہے کیونکہ انسانوں کی ایک عظیم اکثریت نے توحیدذات میں ٹھوکر کھا کرشرک فی الذات کو اختیار کرلیا ہے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃُ الْفَلَقْ……………………سورہ نمبر113
سورہ فلق مدنی ہے جس میں پانچ آیات بینات ہیں۔
قرآن کریم کی اکثر سورتیں نہایت ہی گہرا ربط رکھتے ہوئے آپس میں جوڑا جوڑا ہیں۔ چنانچہ ایک سورہ میں تصویر کا ایک رخ بیان ہوتا ہے تو دوسری میں تصویر کا دوسرا رخ بیان ہوتا ہے۔ چنانچہ باقی تمام سورتوں کی طرح یہاں آخری دو سورتیں بھی آپس میں جوڑے کی شکل میں ہیں۔ سورۃ الفلق میں خارجی شر سے پنا مانگی گئی ہے تو سورہ الناس میں میں داخلی شر سے پناہ مانگی گئی ہے۔
سورۃ الفلق میں چار چیزوں کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے:
۱۔مخلوق کے شر سے
۲۔اندھیرے کے شر سے
۳۔گنڈوں پر پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے۔
۴حاسد کے شر سے۔
پارہ نمبر30
خلاصہ سورۃ الناس……………………سورہ نمبر114
سورۃ الناس مدنی ہے جس میں 6 آیات بینات ہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تین صفات یعنی: رب،مالک،الہ، کا ذکر کرکے ایک باطنی شر سے حفاظت مانگنے کا طریقہ سکھایا ہے، اور وہ باطنی شر ”وسوسہ“ ہے۔
سورہ فلق میں ایک صفت یعنی رب کا ذکر کرکے چار خارجی شرور سے حفاظت کی پناہ مانگنے کا طریقہ سکھایا تھا جبکہ یہاں تین صفات کا ذکر کے ایک باطنی شر وسوسہ سے پناہ مانگنے کا حکم ہے۔ یہ باطنی شر چونکہ دین کا نقصان کرتا ہے اس لیے یہ ان خارجی شرور سے زیادہ خطرناک ہے۔
صدق اللہ العظیم
٭………………٭……………………٭……………………٭
الحمدللہ رب العالمین۔ آج 14دسمبر 2019ء بروز ہفتہ بعد نماز مغرب قرآنی سورتوں کا خلاصہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ اور تمام انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے۔ اور میرے لیے، میرے اساتذہ، میرے والدین، اور آل اولاد کیلئے ذخیرہ آخرت بنائے۔ اور اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہمیشہ ہدایت اور ایمان پر قائم رکھے۔ آمین ثم آمین
(مولانا سید عبدالوہاب شاہ) اسلام آباد
یہ کتاب پی ڈی ایف میں ڈاون لوڈ کرنے کے لیے
Title: “Summary of Quranic Surahs: Unlocking the Wisdom of the Holy Quran”
Introduction:
In Our Book, “Summary of Quranic Surahs,” you embark on a journey to explore the profound teachings, stories, and divine wisdom contained within the chapters of the Quran, known as Surahs. The Quran is the central religious text of Islam, revered by over a billion Muslims worldwide. Your article seeks to provide readers, both Muslim and non-Muslim, with an accessible and informative overview of the major Surahs and their significance.
“Summary of Quranic Surahs” is a comprehensive and enlightening book that serves as an excellent introduction to the Quran’s fundamental teachings and its role in the lives of Muslims. It bridges cultural and religious gaps, fostering a better understanding of Islam’s sacred text and its universal principles of faith, morality, and spirituality. Readers, whether newcomers or those seeking to broaden their knowledge, will find this article a valuable resource for their exploration of the Quranic Surahs.