فونز کو چلنے دو ملک کو کمانے دو!
سمارٹ فونز بند کرو گے یا ملک چلاؤ گے؟
کاش ہمارے حکومتی افسران کے دماغوں میں کچھ بنیادی عقل بھی ہو! جب ایک ترقی پذیر ملک میں ٹیکنالوجی کی دنیا آگے بڑھ رہی ہو، وہاں عقل و فہم کی کمی خود ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ آج ہم ایک ایسی ہی ستم ظریفانہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں جس میں حکومتی پالیسیوں نے قوم کو اربوں روپے کے ممکنہ ریونیو سے محروم کر رکھا ہے۔
پاکستان میں لاکھوں “نان-PTA” اسمارٹ فونز
ٹیلی کام ماہرین اور انڈسٹری ایکسپرٹس کے مطابق اس وقت پاکستان میں 30 سے 50 لاکھ ایسے اسمارٹ فونز استعمال ہو رہے ہیں جو PTA سے منظور شدہ نہیں ہیں۔ یہ فون صرف WiFi پر چلتے ہیں، اور انہیں موبائل نیٹ ورک پر کال، SMS یا ڈیٹا استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔
یہ فون آتے کہاں سے ہیں؟
ہر سال ہزاروں پاکستانی، خاص طور پر یو اے ای، سعودی عرب، اور امریکہ سے موبائل فونز اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ لیکن جب وہ PTA کی 10،000 سے 20،000 روپے تک کی بھاری فیس دیکھتے ہیں تو رجسٹریشن نہیں کرواتے۔ نتیجتاً یہ فون صرف WiFi پر ہی محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔
عام لوگوں پر اثرات
یہ رجحان طلباء، بچوں، گھریلو خواتین اور ان افراد میں زیادہ عام ہے جو موبائل نیٹ ورک استعمال نہیں کرتے بلکہ WiFi پر WhatsApp، YouTube، Zoom جیسے ایپس سے اپنا کام چلاتے ہیں۔ یعنی یہ فون مکمل طور پر قابلِ استعمال ہیں، لیکن حکومت کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے قومی خزانے میں ان سے ایک پیسہ بھی نہیں آتا۔
اب ذرا حساب لگائیے!
چلیں تھوڑی سی ریاضی کرتے ہیں:
اگر صرف 50 لاکھ نان-PTA اسمارٹ فونز کو رجسٹر کرنے کی اجازت دے دی جائے اور فی ڈیوائس صرف 10,000 روپے لیے جائیں:
5,000,000 x 10,000 = پچاس ارب روپے منافع
اور اگر یہی فیس 20,000 روپے ہو:
5,000,000 x 20,000 = ایک سو ارب روپے منافع
یعنی صرف ایک سمارٹ پالیسی کے ذریعے حکومت 50 سے 100 ارب روپے کا ریونیو حاصل کر سکتی ہے!
حل کیا ہے؟ سختی نہیں، لچک!
حکومت کو چاہیے کہ موبائل فون بند کرنے یا بلاک کرنے کے بجائے ایک لچکدار، قابلِ برداشت اور وقتی رجسٹریشن اسکیم متعارف کرائے تاکہ:
- عوام پر بوجھ نہ پڑے
- PTA کو جائز آمدنی ہو
- قومی خزانہ مستحکم ہو
- ٹیکنالوجی کا استعمال فروغ پائے