فلاسفی طب مفرداعضاء

الحکمۃ من یشاء من یوۃ الحکمۃ فقد اوتی خیراً کثیرا

فلاسفی طب مفرداعضاء

خداوند کریم اوررب العالمین نے اس حیات وکائنات کی ہر شے کو کسی نہ کسی قانون کے تحت بنایاہے اوریہ قانون فطرت کے کسی پہلو کا اظہار ہے۔ ان قوانین کا جاننافطرت کی تسخیر اوراس پر قبضہ پالینا ہے۔اس لیے انسانی جوہر میں یہ جذبہ دویعت کردیاگیا ہے کہ قوانین فطرت جانے اورسمجھے تا کہ اسرارورموزفطرت سے آگاہ ہوکراس کی تسخیراور اس پرقبضہ کرلے۔سو ازل ہی سے انسان فطر ت کے ان قوانین کی تلاش جدوجہداورسعی وعمل کر رہا ہے جس کے نتیجہ میں وہ بے شمار قوانین فطرت کو سمجھ کران پر فتح حاصل کر چکا ہے۔ بلکہ ان کو زیرعمل لا کر سمندر کی گہرائیوں سے خزانہ نکال رہا ہے اور آسمانوں پر پرواز کر رہا ہے۔اس کامیابی اور فتح سے اس کے جذبات میں اور بھی شدت پیداہوگئی ہے۔اس لئے شب و روز نئی قدروں اور راہوں پردوڑا چلا جاتا ہے۔جس سے روزبروزفتح منداورکامیاب ہے۔اللہ تعالیٰ کی مشیت بھی یہی ہے کہ متلاشی کو ملتاہے۔انہی لوگوں کوحق پرست ر کہتے ہیں اور یہی لوگ پیغمبروں اوررسولوں کی تعلیم کوذریعہ تحقیق بناتے ہیں۔

مجددطب حکیم انقلاب جناب دوست محمد صابرؔملتانی داعی تحریک طب وپاکستان لاہور کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ملک بھرکاہر ماہرعلم وفن ان کی شخصیت سے آگاہ ہے۔انہوں نے تجدیدطب علم و فن طب کیلئے تقریباً ڈیڑھ درجن کتب تحریرکی ہیں۔جن میں علم وفن طب کواپنے نظریہ مفرداعضاء کے تحت نہ صرف ذہن نشین کرایاہے بلکہ یہ ثابت کیاہے کہ سوائے قانون نظریہ مفرد اعضاء کے اور کوئی ایسا طریقہ علاج نہیں ہے جوقوانین فطرت کے عین مطابق ہو۔اس کتب میں بھی انہوں اس اہم امورکی جانب تمام اطباء وحکماء کی توجہ مبذول کرائی ہے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے انتہائی کدوکاوش سے یہ ثابت کیاہے کہ انہوں نے اس قانون کی خاطر کتنی جدوجہد سے کام کیاہے۔

دیباچہ

ایک دوسری قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو خود توجدوجہداورسعی و عمل کے ایسے شدید جذبات تونہیں رکھتے مگروہ لوگ قانون فطرت کے ان حقائق کو جو معلوم ہو چکے ہیں جان کر ذہن نشین کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مستفیدہوتے ہیں ایسے لوگوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان قوانین فطرت اور حقائق لوگوں تک پہنچائیں تاکہ تمام دنیاکے انسان ان سے فوائد حاصل کریں ایسے لوگ حق پسند ہوتے ہیں اور پیغمبروں اور رسولوں کی تعلیم کوحق اور مفیدخیال کرتے ہیں اور دوسروں تک پہنچانے کی تکالیف برداشت کرتے ہیں ۔ایسے لوگ دین اور دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں۔
ایک تیسری قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جونہ محقق ومجددہوتے ہیں اورنہ ہی مبلغ ومجددہوتے ہیں البتہ علم وفن اور حقیقت شناسی کے زیورات سے آراستہ ضرورہوتے ہیں مگران کے نفس میں کجی ہوتی ہے۔ایسے لوگ خود تومحققوں اور مجددوں کی تحقیقات اورتجدیدات سے مستفیدتو ضرور ہوتے   ہیں مگرظاہرمیں نہ تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی ظاہرکرتے ہیں اور تحقیقات وتجدیدات کوچھپاچھپاکررکھتے ہیں اور عام طورپران کی مخالفت کرتے رہتے ہیں ایسے لوگ حق شناس ہوتے ہیں لیکن اپنے نفس کی کجی ست ضمیرفروش ہوتے ہیں ان کے ضمیران کولعنت ملامت ضرور کرتے ہیں لیکن ان پرنفس امارہ کاغلبہ ہوتاہے اور وہ اس میں گرفتاررہتے ہیں اور حق شناسی کا اظہارنہیں کرسکتے اور اکثرذلیل وخوارہوکرمرتے ہیں ۔اس لئے دوسروں کی تحقیق اور تجدیدکو ظاہر کرکے ان کوعزت دینا نہیں چاہتے اوران کے تحت الشعورمیں یہ جذبہ ہوتاہے کہ یہ مقام ان کو کیوں نہیں ملا۔ بہرحال یہ تو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے اور وہ جس کوچاہتاہے نوازتاہے اور جولوگ جرات کرکے حقیقت کااظہارکردیتے ہیں وہ بھی ذلت وخواری سے نکل کر  کامیاب وکامران اور شادمان ہوجاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کجی نفس وضمیرفروشی اور تنگ دلی سے محفوظ رکھے۔یہی خوش بختی ہے۔
جوتحقیقات پیش کی جارہی ہیں وہ تحقیقات علم وفن طب کی تصدیق اور تجدید کیلئے پیش کی گئی ہیں ان میں ہم نے دعویٰ کیاہے کہ علم وفن طب نہ صرف بالکل صحیح ہے بلکہ قوانین فطرت کے مطابق ہے اور ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کیاہے کہ سوائے ایورویدک کے دنیاکے تمام طریق علاج غیرعلمی اور غلط ہیں ۔ان میں خاص طورپرفرنگی طب اور فرنگی میڈیکل سائنس نہ صرف اَن سائنٹیفک (Unscientific)غیرعلمی اور ان سسٹومیٹک (Unsystematic)بے اصول ہے۔ اور انہی اصولوں کومدنظررکھ کرفرنگی طب کی غلطیوں پرایک کتاب لکھی ہے۔جس کانام ہیــ’’فرنگی طب غیرعلمی اورغلط ہے‘‘۔جس کے ساتھ ایک چیلنج ہے کہ اگرکوئی فرنگی طب کوسائنٹیفک اور بااصول ثابت کرے ہم اس کی خدمت میں مبلغ 10,000روپے پیش کریں گے۔لیکن کئی سال گزرنے کے باوجودتاحال کسی کوایساکرنے کی جرأت نہیں ہوئی اور انشاء اللہ تعالیٰ کبھی اس کی ہمت بھی نہ ہوگی۔یہی ہماری تحقیقات کاکمال اورصداقت کا منہ بولتاثبوت ہے۔
ہماری تحقیقات میں دوسری حقیقت علم وفن طب میں تجدیدکی صورت ہے۔کیونکہ یہ امرمسلمہ ہے کہ ہرعلم وفن میں بھی اصلاح وتجدیدکی ضرورت  ہمیشہ محسوس کی جاتی رہی ہے۔اگرایسانہ کیاجائے تووہ علم وفن زمانے کاساتھ نہیں دے سکتے اگرکوئی علم وفن سوفیصدبھی صحیح ہوتوبھی اس میں  اصلاح وتجدیدناگزیرہوتاہے۔کیونکہ اول صورت یہ ہے کہ ہرزمانے میں فطرت کے نئے نئے قوانین کا انکشاف ہوتارہتاہے اور انسانی عقلیات نئے مسائل کا استخراج کرتی رہتی ہے یاقدیم مسائل کو نئے زاویہ نگاہ سے دیکھتی رہتی ہے۔ اس لئے اس امرکی ضرورت رہتی ہے کہ علم وفن اور مذاہب کو سمجھاجائے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ زمانے کے نشیب وفرازاور انقلاب زمانہ سے اکثرعلم وفن اور مذہب میں انحطاط بھی آجاتاہے۔جس میں صحیح مسائل اور حقیقت الامرکی جگہ غلط مسائل اور توہمات پیداہو جاتے ہیں جیساکہ تاریخ سے ظاہرہے۔اس لئے ضرورت پیداہوتی ہے کہ اصلاح اورتجدید کے ساتھ علم وفن کوصحیح راہ اور فطری ترقی کی منزل کی طرف گامزن کر دیا جائے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ غلامی کے دور میں بعض ایسے علم وفن پیداہوجاتے ہیں جن کی سرپرستی غیرملکی حکومتیں کرتی ہیں اور ان کی غیرمعمولی نشرواشاعت اورعزت وشہرت کودیکھ کرنئے ذہن و دماغ اور ترقی پسندطبائع ان کوقبول کرلیتے ہیں کچھ عرصہ بعد اس کوقبول واختیارکرنے سے حقیقی علم وفن دب کررہ جاتے ہیں۔اگران خس وخاشاک کوپاک نہ کیاجائے توعلم وفن لایعنی اور نکما و غیر مفیدبن کررہ جاتے ہیں اوراس سے قوم وملک اور انسانیت وآدمیت کی خدمت کی بجائے اکثرنقصان ہوتاہے۔اس لئے اصلاح وتجدیدضروری امرہے۔
اصلاح وتجدیداور احیائے علم وفن کی اہمیت کے بعدان کے طریق کاربھی ایک اہم مسئلہ ہے اور اس میں بے حدغلطیاں اور بے شمارغیراصولیاں کی جارہی ہیں۔گذشتہ ایک صدی کی تاریخ سے صاف ظاہرہے ایسی ذمہ داریوں سے کام لیاگیاہے کہ اصل علم وفن کی شکل وصورت اور اہمیت بدل کررکھ دی ہے۔عام طورپریہی دیکھاگیاہے کہ غلط یاصحیح،ضروری وغیرضروری مروجہ روزگار اور مشہورزمانہ علوم وفنون اورمذاہب محققہ یاغیرمحققہ سائنسی علوم وفنون کوبغیراصول و مبادیات اور قوانین کے آپس میں شامل کرلیاگیا جن سے کلیات وجزئیات اور استخراج واستنباط کی اہمیت ختم ہوکررہ گئی ہے۔ اس طرح ان کی اہمیت بھی ختم ہوگئی ہے اور وہ علوم وفنون نہ صرف ختم ہوگئے بلکہ ان کی بنیادیں بھی بربادہوگئیں۔
اصلاح وتجدید اوراحیائے علم وفن کاطریقہ کاریہ ہے کہ اول یہ دیکھاجائے کہ ان کے مبادیات کیا ہیں دوسرے وہ کن قوانین فطرت کے تحت کام کرتے ہیں بس انہی مبادیات اورقوانین فطرت کے تحت اصلاح وتجدیداوراحیاء ہوناچاہیے اگرجدیدعلم وفن نے ان مبادیات اورقوانین فطرت کے علاوہ کسی نئی چیزکوبیان کیاہے توپھریہ دیکھناضروری ہے کہ اس نے فطرت کے کس قانون پر روشنی ڈالی ہے۔اگروہ واقعی جدیدہے تو قبول کر لینا چاہیے اوراگراس کے ساتھ اپنے کسی قانون کی تطبیق ہوسکتی ہے تواس کو تطبیق دے کرقبول کرلینا چاہیے اس طرح علوم فنون میں سلسلہ ترتیب قائم رہتاہے۔
انہی اصولوں اورقوانین پرہم نے فرنگی طب اورجدیدسائنس کوپرکھاہے۔اور اپنی مسلسل بیس(20)سال کی جدوجہداور تحقیق سے ان کوسمجھنے کیلئے ایک نظریہ وضع کیاگیاہے ۔جس کانام ہے ’’نظریہ مفرداعضاء‘‘(Simple Organs Tib)اس نظریہ کے تحت ہم نے تمام دنیا کے طبی علوم وفنون کوپرکھااور سمجھاہے۔آخرہم اس نتیجہ پرپہنچے ہیں کہ سوائے طب اور ایورویدک کے باقی تمام طبی علوم وفنون خاص طورپرفرنگی طب اور ماڈرن میڈکل سائنس غلط ہیں رہاموجودہ دوراور سائنسی تحقیقات کے مطابق ان کوذہن نشین کراناتوہمارے اس نظریہ مفرد اعضاء کی مددسے بہت احسن طریق پرپرکھااور سمجھابلکہ ذہن نشین کیاجاتاہے۔طب وایورویدک اور فرنگی طب اور علاج بالمثل کاکوئی بھی ایسامسئلہ اور اصول باقی نہیں رہ جاتا۔جس کی پوری تشریح اور تفصیل بیان نہ کردی گئی ہوبلکہ سائنس کی حقیقت کوذہن نشین کرادیاگیاہے۔
نظریہ مفرداعضاء کاتعارف ہم نے اپنی تقریباً ڈیڑھ درجن کتب میں جگہ جگہ مختلف انداز میں پیش کیاہے اوریہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اس نظریے کوہم نے جوہراورمادے کے قانون تخلیق سے حاصل کیاہے۔یہ بھی فطرت کاقانون ہے جس میں تخلیق جوہر سے مادے کی پیدائش کوبیان کیاگیاہے جس کوہم نے اپنی کتاب ’’فرنگی طب غیرعلمی اورغلط ہے‘‘ میں تفصیل سے لکھ دیاہے۔باوجودیکہ نظریہ ایک قانون فطرت سے اخذ کیا گیاہے اور خود ایک قانون کی حیثیت رکھتا ہے ۔مگر ہم اس کو اس وقت تک نظریہ ہی کہیں گے جب تک یہ سائنس و فلسفہ اور حکمت کی دنیا میں زبردست اور غیرمعمولی انقلاب پیدا نہ کر دے ہمیں یقین ہے کہ بہت جلد یہ نظریہ ایک قانون کی صورت میں تسلیم ہو جائے گا۔
مفرد اعضاء کا نظریہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ پہلے سے تحقیق شدہ ہے اور وہ بھی فطرت کا ایک قانون ہے۔ہم نے اس سے اصلاح و تجدید اور احیاء و تحقیق کاایک اصول قائم کر دیا ہے۔دنیا بھرکے تمام علوم وفنون اورمذاہب خاص طور پر طب و حکمت اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔اس کائنات و حیات اور مادہ کی تخلیق اورترتیب ذرات سے ہوئی ہے۔ان ذرات میں زندگی ہے۔اس زندگی میں نشوو ارتقاء ہے اس لیے اس کو حیوانی ذرہ کہتے ہیں ۔انگریزی میں اس کو(Cell) کہتے ہیں۔یہ جب آپس میں مل جا تے ہیں تو ان کو سا خت اور بافت کہتے ہیں جن کو نسیج بھی کہتے ہیں۔انگریزی میں ان کو ٹشوز کہتے ہیں۔جب یہ انسجہ(Tissues) باہم مل جاتے ہیں تو ایک جسم اور اس کے اعضاء بن جاتے ہیں۔طب وایورویدک اورفرنگی طب و سائنس تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کی ابتدااس کے مفرداعضاء سے ہوتی ہے۔البتہ طب اورایورویدک مفرداعضاء کی پیدائش اخلاط اوردوشوں سے ابتداکرتے ہیں جوانہو ں نے چار(4)تسلیم کئے ہیں اورفرنگی طب وسائنس مفرداعضاء کی بناوٹ ٹشوز(انسجہ)سے ثابت کرتی ہے۔لیکن ہم نے تحقیق سے یہ ثابت کیاہے کہ طب اورایورویدک کے اخلاط ودوش جب صورت مادہ اورجسم اختیار کرتے ہیں توپہلے انسجہ(Tissues)ہی بنتے ہیں اورپھرمفرداعضاء کی شکل اختیارکرتے ہیں جس پرہم نے دلیل یہ دی ہے کہ فرنگی طب اورسائنس کل چارقسم کے ٹشوزتسلیم کرتی ہے جویہ ہیں
۱۔اعصابی انسجہ(Nerves Tissues)
۲۔عضلاتی انسجہ(Muscular Tissues)
۳۔غدی انسجہ(Glandular Tissues)
۴۔الحاقی انسجہ(Connective Tissues)
اور یہی اخلاط اور دوش جب مجسم ہوتے ہیں توانسجہ بن جاتے ہیں ۔گویا ٹشوزمجسم اخلاط ہیں۔
یہاں پرفرنگی طب اور ماڈرن سائنس کی یہ غلطی بھی سامنے آجاتی ہے کہ وہ چار اخلاط اور دوشوں کی بجائے صرف ایک خلط اور دوش یعنی خون کوتسلیم کرتی ہے۔اگر جسم میں صرف ایک ہی خلط اور دوش ہوتا توبجائے چاراقسام کے ٹشوز کے صرف ایک ہی قسم کے ٹشوز ہوتے ۔یہ ان کی اپنی تحقیق نے ہی غلط ثابت کردیاہے اور ہم نے دلائل اور شواہد سے اس کی تصدیق پیش کردی ہے۔اسی طرح ہم نے ساری فرنگی طب کوغلط اور غیر علمی ثابت کیاہے۔
یہاں پر ایک دلیل اور ثبوت اور بھی ذہن نشین کرلیں کہ جب کسی ٹشو(نسیج)کے فعل کوتیزکردیا جائے توجسم میں وہی خلط بڑھ جاتی ہے اسی طرح اگرہم جسم میں کسی خلط کوبڑھادیں تواسی نسیج (Tissues)کے فعل میں تیزی آجاتی ہے۔گویااخلاط اورانسجہ باکل لازم وملزوم ہیں اور ان کے افعال خودکارہیں۔مثلاً اگرجگر کے فعل کوتیزکردیاجائے توجسم میں صفراء کی پیدائش بڑھ جاتی ہے اوراگر جسم میں صفراء بڑھانے کی کوشش کی جائے توجگر کے فعل میں تیزی آجاتی ہے اس حقیقت کامقصدیہ ہواکہ جواغذیہ اور ادویہ جسم میں صفراء پیداکرتی ہیں وہی اشیاء جگر کے فعل کوبھی تیز کردیتی ہیں بالکل اسی طرح دماغ کے فعل میں تیزی اور بلغم اوررطوبت پیداکرتی ہے اور بلغم اور رطوبت کی زیادتی دماغ میں تیزی پیداکردیتی ہے وغیرہ۔باقی انسجہ اور اخلاط کوبھی اسی طرح سمجھ لیں۔دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ ایک روپے کے سوپیسے بنتے ہیں اس کویوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک سوپیسوں کاایک روپیہ بنتاہے یعنی حقیقت میں ایک روپیہ اور ایک سو پیسوں میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ ظاہراً اور شکلاًدونوں مختلف ہیں بس یہی صورت انسجہ اور اخلاط کی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ان میں قرب ہے کیونکہ ایک سو پیسے مجسم ہوکرایک روپے کی شکل اختیار نہیں کر سکتے یہ صرف ذہنی افہام وتفہیم ہے لیکن اخلاط مجسم ہوکریقینا انسجہ بن جاتے ہیں ۔اخلاط کامجسم ہوکرانسجہ بن جاناایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی سائنس انکارنہیں کرسکتی ۔یہی ہماری تجدید طب اور احیائے فن کی بنیاد ہے۔
تمام طریق ہائے علاج خصوصاًطب و ایورویدک اورفرنگی طب اس حقیقت پرمتفق ہیں کہ مرض اس حالت کانام ہے کہ جب جسم کے کسی عضویا مجرائے کے فعل میں کمی بیشی اور ضعف پیداہو جائے اور جب ان میں سے کوئی صورت پیدانہ ہواور تمام اعضاء اپنااپنا فعل صحیح طورپرانجام دے رہے ہوں تواس حالت جسم کانام صحت ہے۔ان کاباہم اختلاف صرف اسباب اور وجہ پیدائش مرض میں ہے،بہرحال صورت اورمرض میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے۔ہرطریق علاج کی کتب میں اسی طرح درج ہے۔مثلاً معدہ وامعاء اور سینہ ومثانہ کے امراض وغیرہ وغیرہ۔مگرہم نے اپنی تحقیقات سے ثابت کیاہے کہ ان اعضاء کی خرابی سے امراض پیدانہیں ہوتے کیونکہ یہ اعضاء انسجہ سے مرکب ہیں اورانسجہ مفرداعضاء ہیں۔ گویامرض کی ابتداانسجہ(Tissue)سے ہوتی ہے جومفرداعضاء ہیں اورانہی سے جسم کے مرکب اعضاء بنتے ہیں۔مثلاًمعدہ وامعاء اور سینہ ومثانہ وغیرہ۔سرسے لے کرپاؤں تک تمام اعضاء وعضلات اورغددوغشاء سے مرکب ہیں مرض کی ابتداان میں سے کسی ایک میں ہوتی ہے اور اس کااثرکسی مرکب عضو اورباقی جسم میں ان کی علامات کے مطابق ہوتاہے۔اس لئے علاج کی بھی یہی صورت ہے کہ اسی مفردعضو (نسیج)کو معلوم کرکے اس کے افعال درست کئے جائیں جس سے جسم میں ضروری خلط کی کمی پوری ہو جائے گی یا جس خلط میں کمی ہواس کوپوراکردیں۔اس سے وہ مفردعضوخودبخود درست ہوجائے گا یہی حقیقی و سہل اور یقینی وآسان علاج ہے۔اس سے نہ طب وایورویدک اختلاف کرسکتے ہیں اور نہ ہی فرنگی طب اور ماڈرن میڈیکل سائنس انکارکرسکتی ہے۔یہی ہماری تحقیق وتدقیق اور تجدید طب و احیائے فن ہے۔یہی وہ تحقیق ہے جس سے طب وایورویدک کوپورے طورپر سمجھاجاسکتا ہے اور سائنس کے صحیح مسائل سے تطبیق دی جاسکتی ہے اور فرنگی طب کی غلطیوں کوظاہرکیاجاسکتا ہے۔ہم سے پہلے کسی نے اس حقیقت کوبیان نہیں کیا۔اب یہ صاحب علم اور اہل فن کافرض ہے کہ اس پرغوروفکرکریں اورخودبھی مستفیدہوں اورانسانیت کی خدمت بھی کریں۔
مفرداعضاء کوذہن نشین کر لینے کے بعد تشریح الابدان اور منافع الاعضاء کوسمجھنے میں بے حد آسانیاں پیداہوگئی ہیں۔گویا سمندرکوڈبیہ میں بندکردیاگیاہے۔ڈبیہ کھولنے کے بعدیہ علوم ایک نظرمیں ذہن نشین ہوجاتے ہیں پھرپھیلاتے جائیں اور سمجھتے جائیں یہاں تک کہ ان کوپھیلا کر سمندرکردیں مگروہ انسانی دسترس سے کسی صورت میں باہرنہیں جاسکتے ہیں۔
جانناچاہیے کہ اخلاط کل چارہیں ایورویدک میں بھی چارہیں وہ تین دوشوں( وات،کف،پت((سودا،صفراء اور بلغم)کے علاوہ رکت(خون)کوالگ تسلیم کرتے ہیں ۔فرنگی طب اور سائنس بھی چارٹشوز(انسجہ)تسلیم کرتی ہے جن کوہم نے مجسم اخلاط اور دوش ثابت کیا ہے۔یہی مفرداعضاء ہیں ۔
جیساکہ اوپرتحریرکیاجاچکاہے۔کہ مفرداعضاء دواقسام کے ہیں ۱۔بنیادی اعضاء  (۲)۔ حیاتی اعضاء ۔بنیادی اعضاء میں فرنگی طب اور سائنس صرف نسیج الحاقی (Connective Tissues)کوتسلیم کرتی ہے اورطب وایورویدک میں ان کی پیدائش الحاقی مادہ سے تسلیم کی جاتی ہے۔اسی سے ہمارے تمام جسم کی بنیادیں بنتی ہیں جس کی تین صورتیں ہیں۔
۱۔ہڈیاں
۲۔رباط
۳۔اوتار
اس میں ہڈیاں وکریاں اور بندھن شامل ہیں۔حیاتی اعضاء میں نسیج الحاقی ،عضلاتی نسیج اورقشری نسیج جوبلغم،سودااور صفراء (وات،کف اور پت)سے بنتے ہیں ۔ان سے اعضائے رئیسہ دل ، دماغ اورجگرجوعضلات ،اعصاب اور غددکے مرکزہیں۔بنیادی اعضاء کے سواباقی جسم انہی تین اخلاط ودوش اور انسجہ کابناہواہے۔ان کے سوا جسم میں خون وروح اورنقس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔پس اب اندازہ لگالیں کہ تشریح الابدان کس قدر آسا ن ہوگیاہے۔
جہاں تک ان کے افعال واثرات اورمنافع کاتعلق ہے ان کو اس طرح سمجھیں کہ یہی انسجہ تمام جسم میں اس طرح ترتیب دئیے گئے ہیں کہ باہرکی طرف اعصاب ہیں اس کے بعد غددیاغشاء اور آخر میں عضلات ہوتے ہیں ۔دل کی بھی یہی ترتیب ہے۔البتہ دماغ میں عضلاتی انسجہ باہراور قشری انسجہ درمیان میں ہوتے ہیں اور جگر میں اعصابی انسجہ باہراور عضلاتی انسجہ درمیان میں ہوتے ہیں ۔یہی صورتیں تمام جسم کے اعصاب وغددکی قائم رہتی ہے۔اس طرح تمام جسم کاعلم چند منٹوں میں ہوجاتاہے۔جہاں تک ان کے افعال واثرات اور منافع کا تعلق ہے وہ اخلاط و دوش اور انسجہ کے اعمال سے ظاہرہیں۔
یاد رکیں کہ خون میں بھی کیمیا وی طور پر ان کے یہی افعال و اثرات اور منا فع پائے جاتے ہیں ۔ چاہے سائنس ان کو بارہ چودہ اپنے بنیادی عناصر میں تقسیم کر دے جو کیلشیم و فیرم اور سلفروپوٹاشیم وغیرہیں جن کو طب میں چارارکان آگ،ہوا،پانی،اورمٹی اورایورویدک میں پانچ تت آکاش،اگنی،وایوجل اور پرتھوی کے ناموں سے موسوم کرتے ہیں۔ جس طرح بھی خون کا کیمیاوی تجزیہ کریں ۔ان کے سوا کچھ نہیں پا یا جاتا۔ گویا یہ سب کچھ ڈبیہ میں بند کر دیا گیا ہے۔
جہاں تک دوران خون کاتعلق ہے ۔وہ غذا سے تیار ہوتا ہے جو معدہ و امعار میں رقیق و ہضم ہو کر جگر میں جا کا خون بنتا ہے۔پھر دل میں جا کے پھیپھڑوں میں صاف ہوتا ہے۔پھرشریانوں کے راستے جگر و غددسے ہوتاہوادماغ واعصاب پراثراندازہوتاہے جس کے نتیجہ میں جسم پرترشح ہوتا ہے۔پھرطحال وغددجاذبہ کے ذریعے دوبارہ دل و عضلات کی طرف جاتاہے اور اپنا نیادورشروع کرتاہے۔دوران کی صورت میں جس مفردعضو کی طرف خون جا رہا ہوتا ہے وہاں پر تحریک ہوتی ہے اور جہاں سے گز رہا ہے وہا ں پر تحلیل ہے اور جہاں پر نہیں پہنچا، وہاں پرسکون ہے۔بس یہی سلسلہ ان مفرداعضاء میں قائم رہتاہے اور یہی تینوں صورتیں ان میں قائم رہتی ہیں۔دوران خون کی اس صورت کوسمجھنے کیلئے مفرداعضاء کی ترتیب کوجواوپر بیان کی گئی ہے سامنے رکھیں اورذہن نشین کرلیں کہ جب خون دماغ واعصاب کی طرف ہوگاتووہاں خون میں تیزی ہوگی جس کانام ہم نے تحریک رکھاہے۔اعصابی انسجہ کے اندرجوغدی (جگری)قشری انسجہ ہیں ان میں خون کی کمی ہوگی جس کانام ہم نے تحلیل رکھاہے اور آخرمیں عضلاتی انسجہ میں تسکین ہوگی اور جب دل و عضلات میں تحریک ہوگی تودماغ واعصاب میں تحلیل اور جگروغددمیں تسکین ہوگی۔اسی طرح جب جگروغددمیں تحریک ہوتی ہے تودل وعضلات میں تحلیل اور دماغ واعصاب میں تسکین ہوگی گویادوران خون کے ساتھ ساتھ جسم کی یہ حالت بدلتی رہتی ہے اور جس جگہ تحریک رک جاتی ہے وہاں مرض پیداہوجاتاہے اگر اس تحریک کوجاری کردیاجائے تومرض رفع ہوجاتاہے۔جس کا علاج یہ ہے کہ جس مفردعضومیں تسکین ہے وہاں تحریک پیداکردی جائے بس مرض رفع ہوجائے گا یاجسم میں جس خلط کی کمی ہوگئی ہے اس کوپوراکردیاجائے لیکن یہ ہرگزنہ کریں کہ جوخلط یادوش زیادہ ہواس کوکم کرنے کی کوشش کریں جیساکہ اکثر کیاجاتاہے اس طرح جسم میں طاقت بحال رہتی ہے اور مرض اور اس کی تمام علامات فوراً رفع ہوناشروع ہوجاتی ہیں ۔گویا معجزہ عمل میں آگیا ہے۔
صابرؔ ملتانی

   مقدمہ

یہ نظریہ مفرداعضاء جوتحقیق و تجدید علم وفن طب کیلئے مختصر طورپرپیش کیاگیاہے ، مفصل اپنی کتاب میں بیان کردیاگیاہے جوڈیڑھ درجن کے قریب ہیں ۔اس نظریہ سے ایک طرف طب وایور ویدک میں احیاء وتجدید اور تحقیق واصلاح کی صورتیں پیش کی گئی ہیں اور دوسری طرف فرنگی طب اور سائنس کی غلطیوں کوظاہرکیاگیاہے۔دنیا بھر میں اگر کسی نے نظریہ یاایسا کوئی نظریہ علم و فن طب کی بہتری کیلئے پیش کیاہوتوہم اس کے ساتھ تعاون کرنے کوتیارہیں اگر آج تک دنیا کے کسی ملک میں کوئی دعویٰ نہیں کیاگیاتوپھر صاحب علم و فن طب اور ماہر معا لجین کافرض ہے کہ وہ سنجیدگی سے غور کریں اور حق کواختیارکرکے اس کوبلندکریں اس سے ان کے مرتبے بھی بلند ہوجائیں گے اور یہی حق کاکمال بھی ہے۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں راہِ مستقیم اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی۔اسی میں ہماری بھلائی اور فلاح کا راز مضمر ہے ۔تحقیق وتجدید اور ہماری نشووارتقاء اسی سے قائم ہے ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہـ’’اللہ تعالی ہدایت بھی انہی لوگوں کودیتاہے جومتقی اور پرہیزگارہوتے ہیں۔لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم بھی راہ مستقیم اختیارکریں اور اپنے علم وفن کوقانون فطرت کے مطابق سمجھیں اور قدرت کے مقررکردہ قوانین کے مطابق چلائیں  توکوئی وجہ نہیں ہے کہ ہمارے علم وفن طب میں نشووارتقاء اور تحقیق وتجدید کاسلسلہ قائم نہ ہو۔
اسی مقصد کیلئے میں نے یہ کتاب مرتب کرنے کی حقیرکوشش کی ہے۔ اس میں نظریہ مفرد اعضاء کو آسان صورت میں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔نظریہ مفرداعضاء قدرت کاایک بہت بڑاراز ہے۔جوالحاج حکیم دوست محمدصابرؔملتانی صاحب نے تخلیق کیا ہے۔چونکہ یہ نیا نظریہ ہے۔پہلے  علم وفن طب اورمیڈیکل سائنس میں اس کااشارہ تک نہیں ہے اس لئے ہرنئے معالج وڈاکٹر کوسمجھنے میں بے حددقت ہوتی ہے۔جب اس نظریہ کی کسی کوسمجھ نہیں آتی تووہ اسے بے معنی اور بے مقصد سمجھ کرچھوڑ دیتاہے بلکہ ایک بہت بڑی گمراہی سمجھتاہے بلکہ وہ اس نوجوان ڈاکٹرکی طرح جو درس  گاہ کی حدودسے فارغ ہوکرابھی باہرنکلاہو دیسی طبوں کی حمدوثنااس لئے نہیں سنتا کہ اس نے کسی لیکچرمیں اس قسم کی آواز نہیں سنی ہے۔ اس کے استادکی زبان سے اس قسم کا کبھی کوئی لفظ نہیں نکلا۔اسی طرح ایک طبیب اور ایک وید کے چہرے کوسرخ بنادینے ،دوران خون کو تیز کردینے ، دماغ کوبرافروختہ کرنے،قلب کواختلاجی اور ذہن کومتخیل بنادینے کیلئے صرف جراثیم کاایک لفظ زبان سے نکال دینااس لئے کافی ہے کہ ان کے آبائے فن نے اس کے سپردہائے گوش کواس قسم کے تموجات الحانیہ سے کبھی آشنانہیں کیا۔
یہ ہے فلسفہ جذبات کا فولادی حجاب جو دلوں پر محیط ہوتا ہے اوریہی ہے وہ نا مقدس زنجیرجو قوموں کوبام عروج اور عوج ارتقاء پر چرھنے نہیں دیتی اور قدم قدم پر انہیں روکتی ہے۔اسی طرح ایک بے جان مٹی اوربے حس پتھر کے پتلے کا پوجنے والا انسان خدائے واحد کی ربوبیت اور والوہیت اور اس کی واحدنیت کی حرمت کو اس لیے اپنے دل و دماغ میں جگہ نہیں دے سکتا کہ ان انوارر بانیہ اور برکات صمدانیہ کے ورو د سے پہلے اس کے والدین نے اس کے دل و دماغ کو بتوں کے محامہ و محاسن سے لبریز کر دیا ہے اور اس سبقت جہل کی ظلمت اب کسی ضیاء و معرفت کو اندر گھسنے کی اجازت نہیں دیتی۔
پس اے اہل فن طب رہروان تلاش حقیقت اگر تمہیں  علم کی سچی تلاش ہے۔ اگر تمہیں معرفت کی جستجو ہے ۔ اگر تمہیں حکمت کا حقیقی تجسس ہے تو اپنے قلوب سے تعصب کے   حجا با ت ہٹاؤ۔اپنے اذہان کو عصبیت کی چادروںمیں نہ لپیٹو۔اپنے کانوں کے پردوں پر تقلیدکے میل نہ جمنے دو۔اپنے ادراک واحساسات کی کھڑ کیوں میں جدید معلومات کو گھسنے سے نہ روکو۔اپنے دماغوں میں انکار کے زنگ آلودقفل نہ ڈالو ۔اپنی طبیعتوں میں ا ٓہستہ آہستہ تسلیم کی خو پیدا کرو۔ہر جدید مسئلہ کا انکار اس لیے نہ کرو کہ شیخ اور ملا نفیس نے تمہیں اس سے آگاہ نہیں کیا۔ہر بات کی بغیر سمجھے تردیداس لیے نہ کرو کہ قانون وکامل الصناعہ میں اس کا ذکر نہیں ملتا بلکہ اگر تمہیں سچائی کی تلاش ہے توتمہارا فرض یہ ہونا چا ہیے کہ پہلے تم اپنے دل ودماغ سے تعصب و تقلید کے ناپاک آڑوں کو دور کرو کہ صداقت و حقیقت کی روشنی کو یہی روکتی ہے۔اس کے بعد ان جدید مسائل کو بغور فکر سوچواور انہیں  سمجھنے کی کو شش کرو۔بس اسی قدر تمہارا فرض ہے ۔جس کے لیے میں اس قدر زور دے رہا ہوں۔میں یہ نہیں کہتا کہ خواہ مخواہ تم ان مسائل کے صحیح ہونے کا یقین ہی کر لو۔یہ بھی اس لئے کہ رہا ہوں کہ تھوڑی دیر کے لئے اگر ہم بجرواحتراہ تسلیم کر لیں کہ یہ جدید مسائل مفید اور صحیح تھے۔ لیکن ہم نے ان کی طرف محض اس لئے توجہ نہیں دی کہ یہ نئے مسائل ہیں۔اس لئے ہم ان کوسمجھنے سے قاصررہے تواب بتائیں کہ ہمیں کیاملاہم ایک مفیدشے سے محروم نہیں رہے کیاہم نے علم کے ایک مفیدحصے کواپنے جہل سے نہیں چھوڑدیاکہ ہماری معلومات کے خزانہ میں اس علم کے بعدتھوڑاسااضافہ نہیں آتا؟کیاہم اس حالت میں سچائی سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں علم وحقیقت کی تلاش ہے؟نہیں ہرگزنہیں۔اگر ہماری یہی حالت ہے توہمیں یقین کرلیناچاہیے کہ ہم اس دعویٰ میں سراسرجھوٹے ہیں ہمیں صحیح علم کی ہرگزجستجونہیں ہے۔ہمیں ہرگزحقیقت کی تلاش نہیں ہے اور بالفرض اگرہے توہم بالکل غلط راہ پرپڑے ہوئے ہیں۔کیونکہ قانون فطرت یہ ہے کہ راہ مستقیم صرف ایک ہی ہوسکتی ہے۔
لیکن برعکس اس کے فرض کریں کہ ہم نے اس جدید مسئلہ پرغورکیا اور اسے ہم نے سمجھ کراپنے وسیع خزانہ خیال کے ایک گوشہ میں جمع کردیا تواب بتائیں کہ ہمارا کیابگڑاہم سے کیا چھن گیاکیا ہم اس کی وجہ سے جاہل ناکندہ تراش ہوگے۔کیاہم سے اس جدیدعلم کے بعد دماغ کاکوئی ٹکڑانکال لیا گیا۔ہرگزایسانہیں ہے توپھرکیوں نہ امن وسکون کے ساتھ ہم اس جدید نظریہ مفرداعضاء کی داستان سنیں اور اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔
میں آپ کو بتاتاہوں کہ آپ مجھے ایک باغبان تصور فرمائیں جوآپ کوایک باغ کی سیرکرارہاہے جس میں کھٹے میٹھے کڑوے اور کسیلے ،لذیذاور بے لذت  ،پختہ اور خام ہرقسم کے ثمرات درختوں کی مختلف شاخوں پرجھو م رہے ہیں۔میں ایک مالی ہوں جوپھول کی کیاریوں میں آپ کوگشت کرارہاہوں  جس کی بیلوں اور پودوں میں رنگ برنگے خوشبوداراور بے بوغرض ہررنگ وبوکی کلیاں اور پھول نکلے ہوئے ہیں ۔آپ کوپورا پورااختیارہے کہ جس پھل کوآپ پسندکریں توڑلیں اور جسے ناپسندکریں اسے چھوڑ دیں۔
اگرآپکے ہاتھ حقیقت وسچائی کوحاصل کرنے کے لیے پھیلے ہوئے ہیں۔آپ کو حکمت و عرفان کی جستجو میں جدت و قدامت کی اس جستجو میں ھمدم و ہمراز بنوں گا اور اس مقدس سفر میں آپ کا رفیق ثابت ہوں گا۔آپ کو ہر قدم پر ٹھوکروں سے بچانے اور راستہ صاف کرنے کے لیے آپ کا پیشرو خادم رہوں گا۔اللہ مجھے اور آپ کو کامیاب فر مائے۔آمین
استاد ذی المکرم و محترم حکیم انقلاب صابر ملتانی صاحب کی ہر کتاب جو انھوں نے اٹھارہ کے قریب لکھی ہیں،کسی میں تفصیلاً۔کسی میں اختصارکے ساتھ نظریہ  مفرد اعضاء سمجھے بغیر ان کا مطالعہ کرنا اور یاد رکھنا بیحدمشکل ہے۔میں مدت سے یہ محسوس کررہا تھا کہ استاد محترم صرف نظریہ مفرد اعضاء پر ایک کتاب لکھیں جس میں اس کی تعریف۔اس کی اہمیت ۔اس کے فوائد۔امراض علامات کے ساتھ تطبیق۔موسم و کیفیات اور کائنات کے ساتھ تعلق  لکھناضروری تھا۔جب میں نے استاد صاحب کی توجہ اس اہم کام کی طرف مبذول کروائی تو انہوں نے کہا میں مدت سے اس ضرورت کو محسوس کر رہا ہوں لیکن چونکہ ابھی بہت سی طبی کتب لکھنی ہیں جن کے بغیر علم و فن طب نا مکمل رہ جاتا ہے ۔اس لیے ان کے لکھنے کے بعد لکھوں  گا۔اس پر میں نے ان سے اجازت چاہی کہ میں مرتب کروں تو انھوں نے بخوشی مجھے کہا اگر تم اسے مرتب کرو تو میں تمہیں ہر ممکن امداد دوں گا ۔اس پر میں نے  یہ کتاب مرتب کرنی شروع کی اور کوشش کی کہ نظریہ مفرد اعضاء اس صورت میں لکھوں کہ عام آدمی بھی آسانی سے سمجھ سکے۔نظریہ مفرد اعضاء میں چونکہ ہم نے صرف تین امراض تسلیم کئے ہیں۔اس لیے ان کے نام اعصابی۔غدی۔عضلاتی رکھے ہیں۔باقی سب علامات ہیں جوان تین امراض میں تقسیم ہوجاتی ہیں یعنی ہم جتنے دکھ،درد اور بخار وغیرہ کوامراض کانام دیتے ہیں یہ سب اعصابی،غدی اورعضلاتی امراض کی علامات ہیں انہی علامات کوسادہ نقشوں میں ان تین امراض کے تحت  لکھاہے اور ساتھ تھوڑی تھوڑی تشریح بھی لکھی ہے یہ علامات اور خاص خاص نکات تم کتب سے لے کرلکھے گئے ہیں ۔
خادم فن: صابرملتانی

فلسفہ

فلسفہ کے لفظی معنی حکمت ودانش کے ہیں۔انگریزی لفظ(Philosophy)قدیم یونانی زبان کے دوالفاظ(Philien)اور(Sophia)سے مل کربناہے۔اس کے لغوی معنی Philienبمعنی محبت کرنے والا اورSophiaبمعنی عقل ودانش،حکمت ودانائی ہیں۔چنانچہ فلسفہ کے لفظی معنی (Philosophy loves wisdom)یعنی حکمت ودانش سے محبت کرنا کے ہیں۔ گویا فلسفہ اشیاء یاحقائق کے معنی،قدروقیمت اور اہمیت معلوم کرنے کانام ہے۔

تعریف

“Philosophy is a search of truth or reality through logical reasoning.”
OR
“It is infact a point of view through which a philosopher looks at the universe.
اس سے یہ مراد ہے کہ فلسفہ کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے۔
’’فلسفہ کائنات کے حقائق کے غوروفکر کے ذریعے حقیقت یااصل اصول تک پہنچنے کانام ہے‘‘۔یا اس کو یوں بھی بیان کیاجاسکتاہے۔
’’ فلسفہ کائنات،علم اور انسانی سیرت کی ماہیت کے گہرے تنقیدی مطالعہ کانام ہے ‘‘۔
یا اسے یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ
فلسفہ وہ علم ہے جس کے ذریعے قدرت کو سمجھنے اور کائنات کے ساتھ انسانی تعلق کہ تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

فلسفہ کی اہمیت

فلسفہ کے دائرہ عمل اوراہمیت کااحاطہ کرناناممکن ہے۔گوسائنس کے حالیہ کارنامے عظیم الشان ہیں لیکن اس کی اہمیت اوردائرہ کارطبعی دنیاسے آگے نہیں بڑھ سکتا۔حقیقت اصلیہ کے ادراک سے وہ عاجزہے۔یہ مذہب کاامتیازہے یافلسفے کاکہ وہ اس مادی کائنات سے آگے بڑھ کرعالم حقیقی کے ادراک اورکائنات ہی نہیں خالق کائنات کی معرفت کوبھی اپنانصب العین ٹھہراتے ہیں۔
اخلاقیات کی زندگی میں فلسفہ ہی انسان کی تسکین کیلئے آگے بڑھتاہے۔اس کاموضوع یہ ہے کہ انسان کیلئے کیاخیرہے کیاشر؟کیاجائزہے اور کیا ناجائز؟یہ رویوں،جذبوں اور روابط تک پھیلاہوااور انسان مسلسل ان کاسامناکرتارہتاہے۔سائنس ان سوالوں کاجواب دینے سے قاصرہے کیونکہ یہ  فلسفے کامیدان اور اصطلاحاً اس شعبے کوقدریات کانام دیاجاتاہے۔
معاملہ اخلاقیات کاہویاحقیقت اصلیہ کے ادراک کایاوجودیات کاہرسنجیدہ شخص کے ذہن میں بہرحال یہ سوال ابھرتاہے کہ کسی وجودکے برحق ہونے یاکسی قدرکے مطلوب ہونے کا معیارآخرکیاہے؟یہ علمی معیارفلسفے کے مطالعے سے ہاتھ آتاہے۔کیونکہ اس کاایک اہم پہلوعلم کی حقیقت سے تعلق رکھتاہے اورفلسفہ ہمیں بتاتاہے کہ علم کے ذرائع کون کون سے ہیں اوران سے حاصل ہونے والاعلم کس قدرقابل اعتمادہے۔فلسفہ کی اہمیت زندگی کے بنیادی تصورات وفکر کے احاطہ پرمحیط ہے۔گویانظریہ حیات کادوسرانام فلسفہ ہے اور یہ امرواضح ہے کہ نظریہ حیات ہی بالآخر طرزحیات کی بنیادڈالتاہے۔
الغرض فلسفہ کی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان اس کائنات بلکہ اس کے مظاہرکے بارے سوچتاہے،سوال پوچھتاہے اور پھرجواب تلاش کرنے کی سعی کرتاہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کی تواس کوذہن بھی عطاکیااور یہ ذہن اردگرداورہرطرح کے مظاہراورامور کے بارے سوچتاہے اور ان کے بارے کوئی رائے دیتاہے۔پس اسی عمل سے فلسفہ جنم لیتاہے اور جب کوئی انسان غوروفکر اور تدبر سے کام لیتاہے تو اس وقت وہ فلسفی ہوتاہے اور ہر علم کی انتہا فلسفے پر ہوتی ہے۔اور اس طرح یہ ہمارے ہرعمل میں ہمارے ساتھ ساتھ چلتاہے۔

ضرورت

فلسفہ ایک عالمگیرسائنس ہے جوہماری زندگی کے تما م تصورات اور خیالات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ویسے تواس کا اولین فریضہ انسان اور کائنات کو سمجھتاہے لیکن حقیقت میں ہماری زندگی کے ہرعمل میں فلسفہ کے اثرات ملتے ہیں۔یہ جہاں انسانی زندگی کی اساس ڈھونڈتاہے وہاں فلسفہ تمام علوم پر حاوی ہے۔ اس کی ضرورت ہر شعبہ ہائے زندگی میں پڑتی ہے اس کے بغیر تمام علوم بے جان اوربے روح نظرآتے ہیں۔یعنی زندگی کی حقیقت کیا ہے؟یہ کائنات کیا ہے ؟ انسان کااس کائنات میں کیامقام ہے یازندگی میں انسان کا صحیح مقام کیاہے؟ وغیرہ ان سب سوالوں کے جواب کیلئے ہمیں فلسفہ کی ضرورت پڑتی ہے۔
علاوہ ازیں ہرقوم کاایک فلسفہ حیات ہوتاہے جس کی بنیاد پروہ اپنی تمدنی زندگی کارسمی ڈھانچہ استوارکرتی ہے۔لہذاعلم ہی وہ واحدذریعہ ہے جس سے کوئی قوم اپنے فلسفیانہ عقائدو نظریات اور نظریہ حیات دوسری نسلوں تک منتقل کرتی ہے۔فلسفیانہ افکارکی حفاظت ،ترویج و اشاعت اور منتقلی کاواحد  ذریعہ تعلیم ہی ہے۔یعنی فلسفہ کاعملی پہلوتعلیم ہے اور تعلیم کانظریاتی پہلو فلسفہ ہے۔المختصر علم اور فلسفہ ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے  ہیں اور یہ انسانی شخصیت کی نشوونماکیلئے بنیادی ضرورت ہے ۔

قدیم فلسفیوں کی آراء

مختلف مفکرین نے فلسفہ کے بارے مختلف آراء دی ہیں۔جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
+ فلسفہ حقیقت کی تلاش کاعلم ہے۔ (سقراط(
+فلسفہ ایک شعوری کوشش ہے جس میں ماورائی سوالات کاجواب مسلسل جائزہ لینے کے بعددیاجاتاہے۔ (برٹرینڈرسل(
+فلسفہ اشیاء کی فطری اہمیت کے لازمی اورابدی علم کانام ہے۔ (افلاطون(
+کسی چیزکے بارے میں جاننے اور مربوط انداز میں سوچنے کی کوشش کانام فلسفہ ہے۔ (ولیم جیمز(
+ فلسفہ ایک ایسی سرگرمی ہے جس کی روح آزادانہ تحقیق ہے۔یہ ہراس بات کوشک وشبہ کی نظر سے دیکھتاہے جس کی بنیادحکم پرہو۔اس کا کام ان مفروضات کے مخفی گوشوں کا سراغ لگانا ہے جوفکرانسانی نے بغیرکسی معقول وجہ کے قبول کررکھے ہیں۔ (علامہ اقبالؒ(
+مربوط انداز میں سوچنے اور کسی چیز کوجاننے کی کوشش کانام فلسفہ ہے۔ (ولیم جیمز(
+فلسفہ کاکام دانشمندی کاحصول ہے جوزندگی کے کردارکومتاثرکرتاہے۔ (جان ڈیوئی(
+فلسفہ ایک ایساعلم ہے جوعقل کی روشنی میں ہمارے خیالات وتصورات کی وضاحت کرتا ہے۔ (ہاسپر(
+فلسفہ ایک فکری تحقیق ہے جس میں انسان اور کائنات جیسے مسائل پرغوروفکرکیا جاتاہے ۔ (ایچ۔جے ہرسٹ(
+فلسفہ ایک شعوری کوشش ہے جس میں ماورائی(غیرمادی)سوالات کاجواب مسلسل جائزہ لینے کے بعد دیاجاتاہے۔ (رسل(
+فلسفہ ایک ایسی سرگرمی ہے جس کاتعلق تصورات کی پیش کاری ،تعبیراور تصریح سے ہے۔ (مقبول(
Philosophy is the activity of clarifying our ideas in the light of wisdom.
+فلسفہ ایک ایسی سرگرمی ہے جوعقل کی روشنی میں تصورات کی وضاحت کرتی ہے۔

قانون الہٰی ۔قانون فطرت

قران حکیم میں ارشاد ربانی ہے۔

لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذَاالْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَل ْ  (۸۹/۱۷(

ترجمہ: (بے شک)ہم نے لوگوں کیلئے اس قرآن میں ہرقسم کی مثال بیان فرمائی۔
اس آیہ کریمہ میں کل مثل یعنی ہرقسم کی مثال یہ واضح کرتی ہے کہ دنیا کے تمام علوم کے حصول کیلئے قرآن حکیم سے راہنمائی حاصل کرنامسلمان کیلئے  ضروری ہے۔اس لئے اس حقیقت کوتسلیم کرناپڑے گاکہ طبی علوم کامنبع ومحوربھی قرآن حکیم ہی ہے جس میں قانون فطرت کے مطابق پیدائش  انسان وکائنات کے واضح اور بیّن احکامات ملتے ہیں (جن میں سے اکثرکی پیچھے وضاحت ہوچکی ہے)۔
اس کائنات پرغوروخوض کرنے سے یہ حقیقت نمایاں ہوکرسامنے آجاتی ہے کہ اس کائنات میں علت ومعلول(Cause and Effects)کاسلسلہ جاری وساری ہے یعنی کائنات میں ہرحادثہ کے نمودارہونے کیلئے کسی نہ کسی سبب کی ضرورت ہوتی ہے۔ سبب(Cause) کے بغیرکوئی واقعہ نمودار نہیں ہوسکتاہے۔لیکن جب ہم اس سلسلۂ علت ومعلول کوپیچھے کی طرف لے جائیں توآخرالامرایک ایسامقام آجائے گا جہاں تسلیم کرناپڑے گاکہ اس  زنجیرکی پہلی کڑی کسی نہ کسی طرح بلاسبب وجود میں آگئی تھی اسے کہتے ہیں کسی شے کاعدم سے وجود میں آجانا۔یہ کس طرح سے ہواتھا۔یہ بات انسان کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔قرآن حکیم اس کے متعلق اتناہی کہتا ہے کہ خدابدیع السمٰوات والارض(2/117)ہے۔یعنی تمام سلسلۂ کائنات کاماخذ یعنی (Originator) ۔قرآن حکیم نے اس مقام کوعالمِ امرسے تعبیرکیاہے۔اور وہاں کی کارفرمائی کے متعلق بس اتنابتایاہے کہ

اِنَّمَا اِذَا اَرَادَ شَیْأً اَنْ یَّقُوْلَ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْن (36 / 82(

ترجمہ:جب وہ کسی شے کاارادہ کرتاہے اور کہہ دیتاہے کہ ہوجاتووہ ہوجاتی ہے۔
اس سے یہ بات بھی ظاہرہوجاتی ہے کہ ہروہ چیز جسے اللہ تعالیٰ عدم سے وجود میں لایا اس کی خصوصیات ،افعال واثرات بھی متعین کردیں تاکہ ُان کوانہی خصوصیات کے ساتھ استعمال میں لایاجائے۔ کیونکہ قانون الہٰی کے مطابق ہرشے اپنی خاص خصوصیات کولئے ہوئے ہے۔ اور اس میں سرمو بھی تفاوت نہیں ہوسکتی۔شہدکوشیرینی اورنمک نمکین خواص کیونکرملے؟بادل کیسے بنتے ہیں پھران سے پانی کیسے نکلتاہے؟سمندرکی تہہ میں سیپ میں  موتی کیسے تشکیل پاتے ہیں؟سنکھیا اورکچلہ قاطع زندگی کیوں ہیں؟شہداورسنڈھ میں زندگی کی نموکے کون سے اثرات ہیں؟یہ وہ امور ہیں جنہیں ہم  نہیں سمجھ سکتے کیونکہ اشیاء کی خصوصیات خداکی مشیت اور اس کے ارادے کے   مطابق متعین ہوئی ہیں لہذاان میں کیوں(Why)کاسوال پیدانہیں ہوسکتا۔کیونکہ قرآن حکیم میں ارشادربانی ہے کہ

اِنَّ اللَّہَ یَحْکُمُ مَایُرِیْدُ (5/1(

ترجمہ:بے شک اللہ تعالیٰ جس قسم کافیصلہ چاہتاہے کرتاہے۔
لہذاکسی کواس کاکوئی حق نہیں کہ اس سے پوچھے کہ اس نے فلاں چیزکوایسا کیوں بنایا اور فلاں فیصلہ ایسا کیوں کیا۔ایسا سارااختیاروارادہ اللہ نے اپنی تحویل میں لے رکھاہے۔
لیکن قرآن حکیم میں ایک اور طرف اشارہ کردیاگیا۔

لَایَسْئَلُ مِمَّایَفْعَلُ وَھُمْ یَسْئَلُوْنَ (21 / 23(

ترجمہ :اس(اللہ تعالیٰ)سے نہیں پوچھاجاسکتاکہ اس نے ایسا کیوں کیااور و ہ ایسا کیوں کرتاہے۔اس کے سوااور سب سے پوچھاجاسکتاہے۔
یہ ہے قانون الہیٰ جس میں اس کااختیاروارادہ مطلق حیثیت سے کارفرما رہتاہے اور جہاں وہ کسی قاعدے اور قانون کاپابند نہیں۔

قوانین فطرت

قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے

جَعَلَ اللَّہُ لِکُلِّ شَیْیٔ ٍ قَدْرًا (65/4(

ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے ہرچیزکے پیمانے اور اندازے مقررکئے ہیں۔
اور یہی چیزیں قوانین فطرت ہیں اور یہ چیزیں اپنی جگہ اٹل اور غیرمتبدل ہیں۔مثلاً پانی کیلئے یہ پیمانہ مقررکیاگیاکہ وہ عام حالات میں مائع رہے لیکن جب ٹھنڈک پہنچائی جائے توایک خاص درجہ تک پہنچنے کے بعد ٹھوس(برف) میں تبدیل ہوجائے اسی طرح جب اسے حرارت پہنچائی جائے توایک معین مقام پرپہنچ کربخارات میں تبدیل ہوجائے۔اگراس کاکیمیائی معائنہ کیا جائے تو پھٹ کرہائیڈروجن اور آکسیجن میں تبدیل ہوجائے۔وغیرہ وغیرہ۔پانی کے بارے یہ قوانین اٹل اورغیرمتبدل ہیں۔ان میں کسی قسم کاتغیروتبدل نہیں ہوگا۔انسان جہاں جی چاہے اس کا تجربہ کر سکتاہے۔کہیں بھی کوئی فرق نہیں پائے گا۔

وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللَّہِ تَبْدِیْلاً (33/61(

ترجمہ:تم سنت اللہ میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤگے۔
یہی وہ قوانین فطرت ہے جن کی بنیادوں پہ ہم مختلف اشیاء و ادویہ کے بارے اپناحکم دے سکتے ہیں اور ان کے متعلق اپنی تحقیقات پیش کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ انہی قوانین کی رو سے ہم پشین گوئی کرسکتے ہیں کہ چاندگرہن یاسورج کس وقت اور کس ملک میں دیکھاجاسکتاہے۔موسم خشک رہے گایا بارش ہوگی ۔آندھی آئے گی یاصرف بونداباندی ہوگی۔کیونکہ قوانین فطرت ایسے غیرمتبدل اور اٹل ہیں جن پرعلم الافلاک کی ایسی محیرالعقول عمارت کھڑی ہے۔کائنات کی کوئی بھی شے قوانین فطرت کی پابند ہے اور اس سے سرکشی اور روگردانی نہیں ہوسکتی۔قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے۔

وَلِلَّہِ یَسْجُدُ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَافِی الْارْضِ  (16/4)

ترجمہ: کائنات کی پستیوں اور بلندیوں میں جوکچھ ہے سب خداکے قوانین کے سامنے سجدہ ریز ہے۔
کسی بھی شے کوقوانین فطرت سے سرموانحراف یاتجاوز کااختیارنہیں دیاگیا ۔انسان ان قوانین کاعلم حاصل کرسکتاہے اور ان کے مطابق اشیائے کائنات کواپنے کام میں لاسکتاہے اسے تسخیرکائنات کانام دیاجاسکتاہے۔

قرآن حکیم اورقانون پیدائش  ۔تخلیق کائنات ومادہ

انسانی بچہ کی پیدائش آج ہمارے نزدیک ایک ایساعادی اور معمولی واقعہ بن چکی ہے جیسا سورج کا طلوع وغروب،لیکن اسباب و علل کی کڑیو ں میں جکڑا ہواانسان جب کتاب تخلیق کے اوراق کوپیچھے کی طرف الٹتا ہے تواس کی نگہ استعجاب کا اس جگہ جاکررک جانا ضروری ہے جسے وہ سلسلۂ تخلیق ِ انسانی کی سب سے پہلی کڑی قراردیتا ہے،اس وادی حیرت میں پہنچ کروہ ٹھٹک کررہ جاتاہے کہ سب سے پہلا انسان کس طرح وجود میں آگیا اس کا تحیربجااورتعجب درست ہے ، انسانی تحقیق وتفتیش کاماحصل اوراس کے تمام انکشافات وایجادات کی حقیقت صرف اس قدرہے کہ وہ کارگہٖ عالم کے مختلف پرزوں کے اسباب وعلل پرپَڑے ہوئے پردوں کواپنی مژگانِ کاوش سے اُٹھالیتاہے لیکن جہاں اس سلسلۂ دراز کی آخری کڑی آجاتی ہے اس کی نگہ ِتجسس کے سامنے پردۂ حیرت کے سوااور کچھ نہیں رہتا،یہ مقامِ حیرت واستعجاب انسانی علم و تحقیق کی نسبت سے متعین ہوتاہے یعنی جس قدر علم ودانش کی منازل آگے بڑھتی جائیں گی اسی نسبت سے یہ مقام بھی آگے سرکتا چلاجائے گا یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کرایک خدافراموش مادہ پرست اورایک حق شناس عبدمومن کافرق نمایاں طورپرسامنے آجاتاہے ،اول الذکر اس مقام سے آگے وادیِ حیرت کو اپنی ذہنی قیاس آرائیوں کی آماجگاہ بناتاہے اوراس طرح خود بھی ٹھوکریں کھاتاہے اوردوسروں کوبھی راہ سے گم کرتاہے۔لیکن ایک حکیم مومن وہاں پہنچ کربلاتامل پکاراُٹھتاہے کہ اس سلسلہ ٔدرازکی ابتدااس قادرمطلق کی اسباب فراموش مشیت اور علل نا آشنا صمدیت کی رہین منت ہے جوطبعی سلاسل اسباب وذرائع سے مستغنی اور علائق وعلل سے بے نیاز ہے،وہ علیٰ وجہ البصیرت اس حقیقت ِ عظمیٰ کااعلان کرتا ہے اوراس طرح حیرت واستعجاب کی وہ وادی جواس خدافراموش محقق کی قیاس آرائیوں سے تیرہ وتارہو چکی تھی اس مردِ خودآگاہ وخدامست کی مشعلِ ایمان وشمعِ ایقان سے جگمگااٹھتی ہے۔
قران حکیم’’سائنس کی تحقیقات‘‘کی کتاب نہیں اس کا اصل موضوع ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جس میں تمام نوعِ انسانی کی مضمر صلاحیتوں کی نشوونماہوجائے اوراس طرح شرفِ انسانیت اپنی تکمیل تک پہنچ جائے لیکن اس مقصد عظیم کی تبئین وتوضیح کے سلسلہ میں ضمناً و تبعاًدوسری چیزوں  کاذکربھی آجاتاہے اور چونکہ یہ ذکرخدائے علیم وحکیم کی طرف سے ہوتاہے جو کائنات کاخالق ہے اس لئے ہونہیں سکتاکہ اس کی طرف سے  کائنات کے متعلق کوئی اشارہ آ جائے اوروہ (معاذاللہ)حقیقت کے خلاف ہو،مشین کامبدع وخالق مشین کے متعلق ذرا سا اشارہ بھی کرے گاتومبنی علی الحقیقت ہوگا۔
جہاں تک تاریخی نوشتے ہماری راہنمائی کرتے ہیں علم وحکمت کااولین گہوارہ خطۂ یونان تصورکیاجاتاہے اور سقراط کووہاں کے حکمأکاابوالابأ قرار دیاجاتاہے۔سقراط کانظریہ تھاکہ مطالعہ کے قابل صرف انسان کی ذات ہے۔خارجی کائنات نہیں۔ افلاطون جوسقراط کاشاگرد لیکن خود ایک الگ مکتب ِفکرکاامام تھا اس سے بھی دو قدم آگے بڑھا۔اس نے کہاکہ یہ دنیا محسوسات(خارجی کائنات)درحقیقت اپناکوئی وجودنہیں رکھتی ۔حقیقی دنیا عالمِ امثال کی ہے جو کہیں آنسوئے افلاک واقع ہے۔اور یہ مرئی کائنات اس دنیاکاعکس ہے۔اس نظریہ سے جو منطقی نتیجہ مرتب ہوسکتاتھا وہ ظاہرہے یعنی  جب یہ عالم محسوسات درحقیقت اپناوجودنہیں رکھتا بلکہ  محض فریب اور دھوکہ ہے۔تواس کے متعلق جوعلم انسانی حواس(Senses)کے ذریعہ حاصل ہوگاوہ بھی اپنی کچھ حقیقت نہیں رکھے گا۔حقیقی علم وہی ہوگاجوانسان کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چشم بندوگوش بند و لب بہ بندکے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی دنیامیں جذب ہوجانے سے حاصل ہو۔یہی علم قابل اعتماداور یقینی ہوگا۔محسوسات کا علم(Perceptual Knowledge)قطعاً قابل اعتمادنہیں ہوگا۔
یہ تھا کائنات اور علم محسوسات کے متعلق افلاطون کا نظریۂ جس پریونانی عقیدہ کی عمارت استوارہوئی اور یہی نظریہ ہندوستان میں پہنچ کرویدانت کی شکل اختیارکرگیااور ہندوفلسفہ کی رو سے پراکرتی(مادی دنیا)مایا(فریب)ہے۔کائنات برہما(خدا)کاخواب ہے جس دن اس کی آنکھ کھل گئی یہ خواب معدوم ہوجائے گا۔یہ عظیم کارگۂ کائنات،ایشورکی لیلا(ناٹک کاکھیل) ہے جس میں کوئی شے اپنے حقیقی رنگ میں سامنے نہیں آتی۔بلکہ حقیقت کی تمثیل ہوتی ہے۔یہی وہ فلسفہ ہے جوایرانی مغبچوں کے ہاتھوں ــ’’شراب معرفت‘‘بن کرچھلکا اور عیسائیوں کی خانقاہوں تک کوکیف آلود کر گیا۔اسی فلسفہ کانتیجہ تھاکہ کائنات کوباطل قراردے دیاگیااور دنیاایک قابل  ِ نفرت شے تسلیم کرلی گئی جس سے دور بھاگنے میں ہی انسانی نجات کاراز پوشیدہ سمجھاگیا۔
لیکن قرآنِ حکیم فرقان حمیدکے ایک غلغلہ انگیز نعرہ سے طلسمِ فلاطون کی دھجیاں فضائے بسیط میں بکھیر کررکھ دیں اور اعلان فرمادیا۔

وَمَاخَلَقْنَاالَّمَآئَ وَالْاَرْضَ وَمَایَنْھُمَا بَاطِلاً

ترجمہ:کائنات کی پستیوںاور بلندیوں کواور جوکچھ ان کے درمیان ہے ،ہم نے باطل پیدانہیں کیا۔
مزیدوضاحت یوں قرآن حکیم میں یوں آئی ہے۔

وَمَاخَلَقْنَاالَّمٰوٰتِ وَالْارْضَ وَمَابَیْنَھُمَالَعِبِیْنَ (44/38(

ترجمہ:ہم نے کائنات کی پستیوں اوربلندیوں کواورجوکچھ ان کے درمیان ہے یوں ہی کھیلتے ہوئے پیدانہیں کیا۔
اس کے بعد مزیداس کی وضاحت کردی۔

ذَالِکَ ظَنُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا

ترجمہ:یہ ان لوگوں کاوہم وقیاس ہے جوحقیقت کاانکارکرتے ہیں۔
اس کے بعد پیدائش کائنات کی حقانیت کے بارے اپنی مہریوں ثبت کردی۔

اِنَّ فَیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلْمُوْمِنِیْنَ (29/44(

ترجمہ:بے شک اس میں ایمان والوں کیلئے (بہت بڑی)نشانی ہے۔

اَلَایَعْلَمُ مَنْ خَلَقٌط وھُوَاللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ (27/14(

ترجمہ:کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیداکیا ہے؟اوروہ بڑاباریک بیں اورانتہائی باخبرہے۔
حکیم مطلق اللہ تعالیٰ نے کائنات کوبالحق پیداکرنے کوثابت کرنے کے بعدکچھ یوں ارشاد فرمایا۔

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰ آ تِ وَالْاَرْضِ واخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِلَآ یٰتِ لِّاُوْلِی الْاَلْبَابِ(2/189(

بے شک کائنات کی بلندیوں کی تخلیق اور رات دن کی گردش میں صاحبانِ عقل وشعور کیلئے (بڑی بڑی)نشانیاں ہیں۔
اور ارباب دانش وبینش کی حالت کیاہوتی ہے اس کوبھی اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا۔

وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ۔

ترجمہ:اور تخلیق ارض وسمأ میں انتہائی غوروفکرکرتے ہیں۔
پھر ارباب دانش وبینش جودرحقیقت مفکرہوتے ہیں جب اپنے مسلسل تجربات اور پیہم مشاہدات سے علیٰ وجہ البصیرت اس کائنات اور اس کے اندر ہر چیزکی حقانیت کوسمجھتے اور پرکھتے ہیں تووہ بے اختیارپکاراٹھتے ہیں۔

رَبَّنَامَاخَلَقْتَ ھٰذا بَاطِلاً (3/190(

ترجمہ:اے رب !تونے اس کائنات کوباطل پیدانہیں کیا۔
لہذااللہ تعالیٰ نے تسخیر کائنات کیلئے دعوت عام دی اور کہا اس سرزمین پر چلوپھرواور اللہ کی تخلیق کردہ چیزوں کوجانو اور ان سے اپنے نفع کیلئے علوم کوحاصل کرو۔اس لئے وہ اقوام جو سمع و بصر وفوائد سے کام لے کرتسخیر فطرت کرتی ہیں اورپھر فطرت کی قو توں کو قوانین  ِخداوندی یعنی قرآن حکیم کے مطابق صرف کرتی ہیں حقیقت مین وہی لوگ مومن ومفکر ہیں ایسے لوگ اور اقوام اس دنیا اور آخرت میں سرخرواور کامیاب ہوتی ہیں اور انہی کے نصیب میں عروج ہوتاہے۔

وہ کل کے غم وعیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا جوآج خود افروزو جگرسوز نہیں ہے
وہ  قوم نہیں لائق ہنگامۂ  فردا۔۔۔۔۔۔! جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے

جبلت موالیدثلاثہ

قرآن حکیم کے مطابق اگر تحقیق کی جائے تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا کے تمام علوم کے حصول کیلئے اسی ایک کتاب واحدسے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔لہذاطبی علوم کا منبع ومحور بھی قرآن حکیم ہی ہے۔جس میں واضح طورپرقانون فطرت کے عین مطابق قانون پیدائش کو بیان کردیاگیاہے اور اس میں ان موالید ِثلاثہ کی واضح تشریح فرمادی جن پرزندگی کاانحصارہے ۔ یعنی (گرمی،تری،خشکی)جوہرذی روح کی پیدائش کیلئے ناگزیرہے۔اور پھر یہی نہیں قرآن حکیم فرقان حمید کایہ معجزہ نما اعجازہے کہ اس نے یہ علم عطافرمادیاکہ انسان کی ابتداخلیہ(Cell)سے ہوئی ہے۔
اس ضمنی وضاحت کے بعدآپ دیکھئے کہ اشیائے کائنات کے طبعی ارتقاء اورانسانی تخلیق کے متعلق قرآن حکیم نے کیاکہا ہے۔بیج کو درخت، قطرے کوگہر،خاک کے ذرے کوانسان بننے کے لئے ان تدریجی مراحل سے گزرناپڑتاہے،کارگہٖ مشیت کے ان عظیم المرتبت  ا مو ر (Schemes) میں سے ایک اہم اسکیم انسان کی تخلیق ہے اس سکیم کاآغاز،طین درجہ جمادات بتایاگیاہے۔

وَبَدَاَخَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْن(32/7)

ترجمہ:انسانی تخلیق کی ابتدامٹی سے کی۔
مٹی کاپتلا نہیں بنایا بلکہ مٹی کے خلاصہ سے اس کی تخلیق کی ابتداکی۔

وَلَقَدْخَلَقْنَاالْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مّنٍْ طِیْنٍ  (23/12)

ترجمہ:اورواقعہ یہ ہے کہ ہم نے انسان کومٹی کے خلاصہ سے پیداکیا۔
اس کے بعد ارشادِربانی کچھ یوں ہے کہ

وَھُوَاَلَّذِی خَلَقَ مِنَ اْلمَآئِ بَشَرًافَجَعَلَہٗ نَسَبًاوَّصِھْرًاط وَکَاَنَ رَبُّکَ قَدِیْرًا(25/54)

ترجمہ:اوراللہ وہ ہے جس نے انسان کوپانی سے پیداکیاؔ،پھراس کے رشتے اورناتے بنائے اورتیرے نشوونمادینے والے نے اپنے قانون کے مطابق ہرشے کے اندازے اورپیمانے مقرر کررکھے ہیں
نوٹؔ:اس سے اس اگلی منزل کی طرف اشارہ بھی ہوسکتاہے جس میں انسانی تولیدنطفے کے ذریعہ ہوتی ہے۔
پانی اورمٹی کے خلاصہ کے امتزاج کے ہیولیٰ کو قرآن حکیم نے طین لازب(کیچڑ کی سی چپ چپی مٹی)سے تعبیرکیاہے۔

آِنَّا خَلَقْنَاھُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ    (35/12)

ترجمہ:ہم نے انسانوں کوطین لازب سے تعبیرکیاہے۔
ایک اورجگہ ارشاد ربانی ہے۔

وَلَقَدْخَلَقْنَاالْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَاَلٍ مِّنْ حَمَاٍمَّسْنُونٍ (55/14)نیز (15/26)

ترجمہ: اوربلاشبہ یہ واقع ہے کہ ہم نے انسان کوخمیراُٹھے ہوئے گارے سے بنایا جوسوکھ کربجنے لگتاہے۔
پانی اورمٹی کی آمیزش سے جرثومۂ حیات نے پیکرکی شکل اختیارکی ان خلیات (Cells) میں ایک لیس دار مادہ(Nucleas)زندگی کے تمام عظیم المرتبت امکانات اپنے اندرلئے ہوتا ہے۔جیسے ایک ننھاسابیج ایک تناوردرخت کواپنے اندرسمیٹے نمودوشگفتگی کیلئے ہمہ تن اضطراب ہو۔ حیات کانقطہ ٔ آغازیہی نفس واحدہ(Life cell)ہے جس سے شجرزندگی کی شاخیں پھوٹتی ہیں اس ’’نفس واحدہ‘‘سے جاندارمخلوق کی شاخیں پھوٹیں اورایک طویل القامت درخت کی طرح سطح ارض پرپھیل گئیں،ہرشاخ کومخلوق کی ایک الگ نوع(Species)سمجھئے جوبڑھتی پھولتی پھلتی،اپنی اپنی سمت میں نشوارتقاء کے منازل طے کئے جارہی ہے ان تمام شاخوںمیں سربلند وہ شاخ ہے جواس ’’نفس واحدہ‘‘کے ننھے سے بیج سے مختلف مراحل طے کرتی،درجہ بدرجہ،قدم بقدم ،جادہ بہ جادہ،منزل بہ منزل انسانی پیکر تک آپہنچتی ہے۔

مَالَکُمْ لَاتَرْجُوْنَ لِلَّہِ وَقَارًا     وَقَدْخَلَقَکُمْ اَطْوَارًا  ۔۔۔۔۔۔وَاللَّہُ اَنْبَتَکُمْ مِنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا  (71/13 -17)

ترجمہ:  تمہیں کیاہوگیاہے کہ تم اللہ سے وقارکے آرزومندنہیں ہوتے اوریقینااس نے تمہیں مختلف مراحل سے گزارکرپیداکیاہے۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔اور تمہیں زمین سے اُگایاہے ایک طرح کا اُگانا ۔اورپھردرجہ بدرجہ طبقاً طبقاً یہاں تک پہنچادیا۔

لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًاعَنْ طَبَقٍ  (84/19)

ترجمہ:تم یقینا ایک حالت میں تبدیل ہوتے ہوئے شاہراہِ زندگی پرآگے بھی بڑھتے جاؤگے اوربلند بھی ہوتے جاؤگے۔
اس خوردبینی نفس واحدہ سے سلسلۂ تخلیق آگے بڑھا،اس نشاۃِ اولیٰ کے بعد وہ نفسِ واحدہ مختلف منازل میں ٹھہرتاہواآگے بڑھتاگیا۔حتیٰ کہ وہ اس پیکر بشریت کے مقام تک آپہنچا جواس حیاتِ ارضی میں اس کی جائے قرارہے۔

وَھُوَالَّذِیْ اَنْشَأَکُمْ مِّنْ نَفْسِ وَاحِدَۃٍفَمُسْتَقَرٌّوَمَسْتَوْدَعٌ ط قَدْفَصَّلْنَا الَاَیَاتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَھُوْنَ (6/99)

ترجمہ:وہی ہے جس نے تمہیں نفس واحدہ سے نشوونمادی پھرتمہارے لئے مختلف منازل مقررکیں کہ تم ایک وقت معین کیلئے ایک منزل میں ٹھہرواوروہ منزل پھرتمہیں اگلی منزل کے سپرد کر دے۔
اور پھر اپنے اس قانون پیدائش کے بارے ان الفاظ میں ارشادہوا۔

اٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْن (2/164)

ترجمہ:نشانیاں ہیں عقلمندوں کیلئے۔
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قوانین حیات کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کیلئے تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے ۔
اس کے بعددرجات زیست کے بارے یوں ارشادربانی ہے۔

اَللَّہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ م بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْم        بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفاً وَّ شَیْبَۃً ط  (30/54)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ ہے جس نے تمہیں کمزور بنایا پھرتمہیں کمزوری سے طاقت بخشی، قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپادیا۔
اس سے مدارج زندگی کے تین پہلوؤں کاعلم ہوتاہے یعنی بچپن،جوانی اور بڑھاپا۔یعنی بچپن(اعصابی)دور ہے جوارتقائی منزل طے کرکے جوانی(غدی)میں پہنچتاہے اور اس کی آخری ارتقائی کڑی بڑھاپا(عضلاتی)سے جاملتاہے۔
اسی طرح کائنات کے بارے غوروخوض کیاجائے تومعلوم ہوگاکہ موسم کی کیفیات(تر،خشک اورگرم) میں بھی یہی قانون کارفرماہے ۔یہ نشانیاں مفکرین کیلئے ہیں جوعقل ودانش سے کام لیتے ہیں اور اللہ کی بنائی ہوئی اس کائنات کے بارے دن رات سوچتے ہیں ۔اور یہی وہ لوگ ہیں جوفوزوکامران رہتے ہیں۔

قانون حیات

اللہ تعالیٰ نے انسانی تخلیق کی ایک اہم کڑی کوبیان کردینے کے بعد اس کاسلسلہ مذکر مونث کے لازوال تعلق سے جوڑدیا۔جوتاابد رہے گا۔تاکہ کائنات میں نسل انسانی کاسلسلہ چلتا رہے۔اس کیلئے بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں نہایت حسین اور دلکش طریقے سے واضح کردیا کہ کس طرح اس  نے جوڑابنایا۔اور موالیدثلاثہ کے حسین امتزاج سے آدم کی تخلیق کے بعددوسرا پہلوکس طرح ہمارے سامنے آیایعنی ایک سکے کادوسرا رخ ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کیسے لاتا ہے۔یہ ارتقائی سلسلہ جوخالق کائنات نے پیداکیا اس کی دوسری کڑی کیا ہے۔
اس نقل مکانی یعنی ایک مستقر سے دوسری منزل تک پہنچنے میں قرنہا قرن(الف سنۃ ) گزر گئے اوریوں جراثیم ِحیات(Life Cell)کے ابتدائی مرحلہ کے بعد وہ مقام آگیا جہاں تخلیق کاسلسلہ بذریعہ تناسل شروع ہوا۔

ثُمَّ جَعَل نَسْلَہ‘مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَائٍ مِّھِیْنٍ  (32/8)

ترجمہ:پھر اس کی(انسان کی)نسل کو کمزور سے پانی کے خلاصہ سے بنایا۔
یعنی ان تمام سابقہ طبقات سے گزرکرہزارہاسال کی تشکیل وتدبیراورساخت وبافت کے بعد اس کاسلسلہ’’کمزورسے پانی کے نچوڑ‘‘سے جاری رکھا ،یعنی حیوانی زندگی کاسلسلۂ افزائش نسل تولید کے ذریعے شروع ہوا۔

وَلَقَد ْخَلَقْنَاالْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ  ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فَیْ قَرَارٍمَّکِیْنٍ  (23/12-13)

ترجمہ:اوردیکھو!یہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کومٹی کے خلاصہ سے پیداکیا پھرہم نے اسے نطفہ سے بنایا ایک ٹھہرجانے اوردباؤپانے کی جگہ میں۔
دوسرے مقام پر ارشادِربانی ہے

اَلَمْ نَخْلُقُکُمْ مِّنْ مَآئٍ مَّھِیْنٍ  (77/20)

ترجمہ:کیا ہم نے تمہیں ایک کمزورپانی سے نہیں پیداکیا؟
سورۃ الطارق میں ارشادِ ربانی ہے کہ

فَلْیَنْظُرِالْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ    خُلِقَ مِنْ مَّآئٍ دَافِقٍ    (18/37)(86/5-6)

ترجمہ:پس انسان کو چاہیے کہ غورکرے کہ اسے کس چیز سے پیداکیاگیاہے؟اُسے پیدا کیا گیا ہے ایسے پانی سے جواُچھل کر(رحم میں)گرتاہے۔
قافلۂ حیات کی اس منزل میں جو مخلوق پیداہوئی اس میں رینگنے والے اورپاؤں کے بل چلنے والے حیوانات سب شامل ہیں۔

وَاللَّہُ خَلَقَ کُلَّ دَابَّۃٍ مِّنْ مَّآئٍ   فَمِنْھُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلیٰ بَطْنِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلیٰ رِجْلَیْنِ   وَمِنْھُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلیٰ اَرْبَعٍ   (24/45)

ترجمہ:اللہ نے ہرجاندارحیوان کو پانی سے پیداکیا،ان میںسے وہ ہے جواپنے پیٹ کے بل رینگتا ہے اوران میں وہ بھی ہے جودوپاؤں پرچلتاہے اوران میں وہ بھی ہے جوچارپاؤں پر چلتاہے۔
صرف رینگنے اورپاؤں پرچلنے والے ہی نہیں بلکہ پرندے بھی،یعنی وہ تمام مخلوق جس کا سلسلۂ افزائش بذریعہ تناسل آگے بڑھتا ہے یوں سمجھئے کہ زندگی کی اس بڑی شاخ سے بہت چھوٹی چھوٹی شاخیں اِدھراُدھر پھوٹیں۔اس کے بعدوہ مقام ہمارے سامنے آتاہے جہاں مونث ومذکر کاامتیازمحسوس طورپرہمارے سامنے آتاہے۔

وَاللَّہُ خَلَقَکُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا  (35/11)

ترجمہ:اور اللہ نے تمہیں مٹی سے پیداکیا ،پھرنطفہ سے،پھرتمہیں جوڑے بنادیا
یعنی اس مقام پرخلیاتِ حیات(Life Cell)میں جنسی تخلیق(Sexual Reproduction)کاجوہرنمایاں ہوگیا یہ جرثومے (Germ Cell or Gamete) دوحصوں میں تقسیم ہوگئے ایک(Ovum)یعنی مادہ خلیہ اور دوسرا (Spermatozoon) نرکا خلیہ،یعنی ایک جرثومۂ زندگی ذوقِ تخلیق سے نراورمادہ کے خلیوں میں بٹ گیا۔

ھُوَالَّذِی خَلَقَکُمْ مِّنْ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا    (7/189)

ترجمہ:وہی تمہاراپروردگار ہے جس نے تمہیں ایک نفسِ واحدہ (جرثومۂ حیات)سے پیداکیا اوراسی میں سے اس کاجوڑابنادیا۔
سورۃ روم میں ہے۔

وَ مِنْ اٰیٰتِہٖ اَنْ خَلَقَکُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَااَنْتُمْ بَشَرٌ تَنتَثِرُوْنَ    وَمِنْ اٰیٰتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔(30/20 – 21)

ترجمہ:یہ بھی اس کے قوانین میں سے ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیداکیااورتم مختلف مراحلِ ارتقاء طے کرکے آدمی کی صورت میں چلتے پھرتے ہو،اور یہ بھی اسی کے قوانین کی رو سے ہے کہ اس نے تمہیں میں سے تمہارے جوڑے بنائے۔
حیوانی زندگی کی ان تمام شاخوں میں سے ایک شاخ اوپرکوابھری یہ پیکر انسانی کی شاخ تھی یعنی پیکر حیوانی کوبتدریج سنوارا گیااسے حسوو زوائدسے پاک کرکے اس کے لطیف ونازک جوہروں میں جِلا دی گئی اوریوں عروسِ حیات حریم بشریت میں جلوہ ریز ہوئی۔

اَلَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوَّکَ فَعَدَلَکَ   (82/7)

ترجمہ:وہ ذات جس نے تجھے پیداکیاپھر(ہرطرح سے)درست کیا،پھر(اعضاء و جوارع میں) تناسب پیداکیا۔پھر اسے احسنِ تقویم عطا فرمائی،یعنی بہترین توازن وتناسب کو لئے ہوئے۔

لَقَدْخَلَقَنَاالْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(95/4(

ترجمہ:اوریہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کوبہترین ہیئت میں پیداکیا جس میں توازن و تناسب اپنے ٹھیک ٹھیک مقام تک پہنچ گیاہے۔
یہ احسنِ تقویم کیا ہے؟ اس بہترین ہیئت میں کون سی امتیازی خصوصیات ہیں؟وہ کون سا    جوہر خصوصی ہے جس کی بنا پرانسان سلسلۂ ارتقاء کی سابقہ کڑیوں سے الگ تھلگ حیثیت کامالک بن گیا؟اسے قرآن کریم نے ایک لفظ میں بیان فرمایا ہے اورحقیقت یہ ہے کہ وہی لفظ اس کی امتیازی خصوصیت کو ایک نمایاں جامعیت سے اداکرسکتاہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

ثُمَّ سَوَّاہُ وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ(32/9)

ترجمہ:پھر اسے درست کیا اوراس میں اپنی روح پھونکی۔
یعنی شجرِ ارتقاء کی اس شاخ بلندوبالا کوہرطرح سے درست کیا اس میں مناسب صلاحیت  واستعداد پیداکی اسے سنوارااورآگے بڑھایا اورجب اس میں یہ صلاحیتیں پیداہوگئیں تواسے درجۂ حیوانیت سے آگے بڑھاکراس میں خدائی قوت کاکرشمہ ڈالا ،اب وہ سننے،دیکھنے اورسوچنے سمجھنے والا انسان بن گیا۔

وَجَعَلَ لَکُمْ السَّمْعَ وَالْابْصَارَوَالْاَفْئِدَۃَ ط قَلِیْلًامَّا تَشْکُرُوْنَ  (32/9)

ترجمہ:اوراس نے تمہارے لئے سمع وبصر اورفوائد (قلب) بنایالیکن تھوڑے ہیں جو شکرگزارہیں۔
سمع وبصراوردل کہنے کویہ تین لفظ ہیں لیکن اگرغورسے دیکھئے توشرف ومجدانسانیت کی پوری کی پوری دنیا ان تین گوشوں میں سمٹ آئی ہے دنیا میں یہی ذرائع علم واحساسات ہیں اسی کانام انسانی ذات (Personality)تشخص (Individuality)یا (Ego) ہے یعنی خدا ’’انائے مطلق‘‘ہے اور انسان میں’’انائے اصغر‘‘ہے اس سمع و بصر سے انسان کن ذمہ داریوں کا حامل بن جاتاہے یہ بھی قرآنِ حکیم کی ایک آیۂ مقدسہ میں دیکھئے ارشادِ ربانی کچھ یوں ہے۔

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُطْفَۃِ اَمْشَاجٍ نَبْتَلِیْہٖ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًابَصِیْرًا  اِنَّاھَدِیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِر ًا وَّاِمَّاکَفُوْرًا  (72/2 -3)

ترجمہ:یعنی ہم نے انسان کو نطفہ سے پیداکیاجوباہمی مل جانے والا ہوتا ہے (پھر اسے ) ہم نے مختلف حالتوں میں گردش دیتے رہے(حتیٰ کہ)اسے سننے اوردیکھنے والابنا دیا  اسے (پھر) ہدایت کاراستہ دکھایا خواہ یہ اسے قبول کرلے یااس سے انکارکردے۔
مندرجہ بالاتفصیل سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کائنات کے اندرہرذی روح کی تخلیق مٹی،پانی اورآگ یعنی (خشکی ،تری اور حرارت)سے ہوئی۔اور یہی ہرذی روح کیلئے لازمی اور جزو لاینفک ہے ۔
یہی وہ نقطہ ماسکہ ہے جوبڑے بڑے فلسفیوں کے اذہان میں نہ آسکا لیکن اس رازکوحکیم مطلق نے قرآن حکیم میں بڑی آسانی سے سمجھادیابلکہ مفکرین کی تعریف بھی فرمادی۔تخلیق کائنات اور انسان ومادی اشیاء کی تفصیل اس سے بڑھ کرحسین وجمیل پیرائے میں ہوہی نہیں سکتی اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمادیاکہ تسخیرکائنات سے اپنے لئے منفعت بخش اشیاء کوچن لو۔اب یہ ہم پرہے کہ اس کیلئے ہم کتنی کدوکاوش کرتے ہیں ؟

نظریہ مفرد اعضاء کی خوبیاں

نظریہ مفرد اعضاء کے تحت تقسیم امراض اور علامات میں بہت سی خوبیاں ہیں ۔ذیل باقی میں ہیں:
(1)یقینی تشخیص  (۲)بے خطا علاج  (۳)امراض کی ماہیت پر یقین (۴) تجویز علاج میں سہولت (۵)مرض کا صرف ایک بار ہی بیان ہونا (۶)مختلف امراض میں شک و شبہ پیدا نہ ہونا (۷)دنیا بھر کے تمام طریق ہائے علاج تشخیص اور درست تجویزکا اس کے مطابق ہونا ۔ گویا نظریہ مفرد اعضاء صحیح تشخیص اور درست تجویز کے لیے ایک کسوٹی ہے (۸)اس نظریہ مفرد اعضاء کے تحت تقسیم امراض سمجھے۔
غلط طریق علاج کومعالج چھوڑدیتاہے اور مشکل تشخیص اور دشوار تجویزکے علاجوں سے دورہوجاتا ہے۔(۹)امراض کی تعدادمقررکردی گئی ہے اس کے بعدنئے امراض کی تحقیقات ختم ہوگئی ہے جیساکہ فرنگی طب اہل فن وصاحب اور عوام کونئے امراض کے نام سے دھوکہ دیتی رہتی ہے۔ (۱۰) مرض کے مختلف بے معنی اسباب ختم کر دیئے گئے ہیں اور صحیح اسباب مقرر کر دیئے ہیں (۱۱)طویل علاما ت کو مقررہ علامات ہیں محدود کر دیا گیا ہے تاکہ  تشخیص میں کوئی تکلیف نہ ہو ( ۱۲)سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے طریق ہائے علاج میںجوماہیت امراض بیان کی گئی ہیں ۔چاہے وہ اخلاط ودشوں کے تحت ہیں ۔ چاہے جراثیم اور روح کی بیماریوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔یا عناصر انسانی اور جذبات انسانی کو مدنظر رکھا گیا ہے ۔سب کے حسن وقبح کی حقیقت کھل جاتی ہے اور یہ ساری باتیں بیک وقت معالج کے ذہن میں آجاتی ہیں۔
نظریہ مفرد اعضاء کے تحت تقسیم امراض کا یہ کمال یہ ہے کہ اس سے تقسیم امراض کی ابتداء واحدخلیہ  حیوانی ذرہ سے شروع ہوتی ہے۔جس سے نسیح (ٹشو) بنا ہے اور پھر یہی مختلف انسجہ(ٹشو ز)اعضا ء کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ اس تقسیم امراض کی انتہا یہ ہے کہ اس میں حیوانی ذرہ کا دل و دماغ  چیرتے ہوئے اس کے ایٹمی اثرات تک پہنچ کر اس کی انرجی و پاور اور فورس کا پتہ چلاتے ہیں ۔گویا نظریہ مفرد اعضاء ایٹمی دور کی مکمل تصویر ہے۔  اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس سے دقیق تشخیص اورتقسیم نا ممکن ہے اور اگر کوئی  اور طریق علاج کسی ایسے نظریہ کا دعوی کرے تو ہم اسے چیلنج کرتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں: قسط ۔11 مبادیات طب

نظریہ مفرد اعضاء

ایور ویدک اور طب یونانی کے متعلق بنیادی طور پر یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ (۱)کیا وہ غلط طریقہ علاج ہے(۲)کیا اس کی بنیاد علاج پر ہے یا وہ عطایانہ طریق علاج ہے(۳)کیا میڈیکل سائنس اور ماڈرن سائنس نے فن علاج کی جو خد مت کی ہے وہ اس قدر علمی اور سائنسی ہے کہ ان کے مقابلے میں طب قدیم ایک وحشیانہ طریقہ علاج ہے۔
ان سوالات کا فیصلہ کن جواب یہ ہے کہ آجکل دنیا بھر کی کوئی سائنس طب قدیم کو غلط طریقہ علاج ثابت نہیں کر سکی ۔ بلکہ یورپ و امریکہ میں تا حال قدیم طریقہ علاج کسی نہ کسی رنگ میں قائم ہے ۔ملک چین میں  موجودہ سائنسی کمالات کے باوجود طب قدیم کو حکومت کی سر پرستی حاصل ہے۔ جس طرح فرنگی طب کو حکومت چلا رہی ہے۔
طب قدیم کو مفید اور کامیاب طریقہ علاج تسلیم کرنا اس کی قوت شفاء پر نہیں بلکہ اس کے قانون(LAW)پر قائم ہے اور قوت دوسرے نمبر پر ہے ۔ وہ بھی طب قدیم میں دوسرے طریق علاج سے بہت ذیادہ ہے۔گویا طب قدیم علمی سائنسی طریقہ علاج بھی ہے اور اس میں انتہائی قوت شفاء بھی پائی جا تی ہے۔
ان حقائق سے ثابت ہے کہ طب قدیم اس وقت تک فرنگی طب سے بہت ذیادہ خدمات نہ صرف انجام دے رہی ہے بلکہ اکثر امراض کا علاج جو فرنگی طب ماڈرن میڈیکل سائنس پیش نہیں کر سکی۔ان کا کامیاب علاج طب قدیم میں موجود ہے جس کو اکثر یورپ وامریکہ اور چین وروس کے چوٹی کے ڈاکٹروں نے تسلیم کیا ہے۔
ان حقائق کو تسلیم کرنے کے بعدایک اہل نظر اورصاحب علم کے ذہن میں فوراًیہ حقیقت آجاتی ہے اگرطب بالکل علمی‘سائنسی اورقانونی طریقہ علاج ہے اورفرنگی طب بھی اپنے آپ کو سائنسی اور تحقیقی علاج کہتی ہے۔تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دونوںایک دوسرے کے مخالف بھی ہوں اور صحیح طریقہ ہائے علاج بھی ہوں ۔ کیوں کہ زندگی اور کائنات کے انتظام کے لیے ایک قانون مقرر ہے ۔ جس کوقانون فطرت کہتے ہیں ۔دونوں ایک قانون پر کیسے صحیح کہے جاسکتے ہیں۔۔ہی حقیقت بالکل مسلمہ ہے۔
اسکے لیے ہم نے ثابت کیا ہے کہ طب قدیم بالکل صحیح عین فطرت کے مطابق علمی و سائنسی طریقہ علاج ہے اوراس کے مقابلے میں فرنگی طب غیر فطری اور غیر سائنسی بلکہ عطائیانہ طریقہ علاج ہے۔اس کے لیے دیکھیں ہماری ہماری کتاب فرنگی طب غیر علمی اور غلط ہے۔جس کے لئے مبلغ دس ہزار روپے کا چیلنج اس شخص کے لئے ہے جو فرنگی طب کو صحیح ثابت کرے ۔انشاء اللہ تعالی کوئی یہ چیلنج قبول نہیں کرے گااور نہ کسی کو اس کے قبول کرنے کی جرأت ہے۔اللہ تعالی نے طب کے معاملہ میں تمام دنیا پر ہمیں فوقیت عطا فرمائی ہے۔

 احیائے فن اور تجدید طب

قانون فطرت ہے کہ جب دنیا میں سچائی اور صدق و حقیقت پر خواہش وکذب اور نفس پرستی کے غباروپرد ے اورخس و خاشاک پڑ جاتے ہیں اور دنیا کی  اکثریت گمراہی اور اندھیرے میں سر گر داں و پریشان اور صحیح راہ سے دورچلی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے اس سچائی و صدق اور حقیقت کو دنیا میں روشن کر دیتے ہیںتاکہ اہل نظر، صاحب علم اورماہرفن ہدایت اور روشنی سے منور ہو کر اصل راہ اختیار کر لیں۔
بالکل اسی قانون کے تحت اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہی کام لیا ہے اوریہ کام ہم سے ایک معالج کی حیثیت سے لیا ہے ۔جس کا مقام ایک حکیم سے زیادہ نہیں ہے اور نعوذ باللہ اس میں کسی مسیح اور مہدی کا تصور تک نہیں ہے اورنبوت تو بالکل ختم ہو چکی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قانون فطرت  کو بالکل واضح کر دیا ہے ۔جس پر زندگی اور کائنات رواں دواں ہے ۔کیونکہ اس کے بعد کوئی بھی قانون فطرت نہیں ہے۔اس لئے ختم نبوت لازم آتا ہے۔ہماری خدمات صف احیائے فن اور تجدید طب تک محدود ہیں۔ہم نے ثابت کیا ہے کہ طب قدیم نہ صرف بالکل صحیح اورقانون فطرت کے عین مطابق ہے۔بلکہ دنیا کا کوئی بھی طریقہ علاج جو قانون فطرت کے مطابق نہیں ہے اس مقصد کے لئے ہم عرصہ بارہ سال سے دنیائے طب کے سامنے اپنی تحقیقات پیش کررہے ہیں ۔جو مسلسل بیس سال کی جدوجہد اور تحقیق وتد فین سے حاصل ہوئی ہیں۔

نظریہ مفرد اعضاء کی ضرورت

کسی فن کو اس وقت تک زند ہ نہیں کیا جا سکتا۔جب تک اس میں تجدید نہ کی جائے تجدیدکے معنی ہیں قدیم علم و فن کونیا مقام(Re New )دینا۔پھر یاد رکھیں کہ تجدید کے معنی کسی نئے علم وفن کا پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ قدیم علم و فن کی سچا ئی و صداقت اور حقیقت کو رو شن اور نیا کرنا ہے ۔ سو ہم نے بھی طب کو زندہ کرنے کے لئے طب میں تجدیدکی ہے ۔کوئی نئی طب پیش نہیں کی جس کو طب جدید کہا جائے ۔تجدید طب اورطب جدید دو مختلف صورتیں ہیں ۔ہم احیائے فن اور تجدید طب کے داعی ہیں ۔طب جدیدکو غلط سمجھتے ہیں ۔
یاد رکھیں کہ کسی فن کے احیاء اور تجدید کے لیے اس وقت تک کوئی صورت پیدا نہیں ہو سکتی جب تک فطرت کا کوئی ایسا قانون وکلیہ اور اصول و قاعدہ پیش نہ کر دیا جائے جن کی بنیاد وںپر اس میں احیاء کی جاسکے اور اس قانون و کلیہ اور اصول و قاعدہ کو فطرت کے مطابق ثابت کر نے کے لیے نئے تجربہ و مشاہدہ پیش کیا جا ئے یا کسی علمی اور سائنسی قانون و کلیہ اور اصول و قاعدہ کو سامنے رکھ کر فطرت کے مطابق کر دیا جائے بس یہی اس کی نظری و عملی صورت ہوگی ۔ہم نے بھی اس طرح کا نظریہ پیش کیا ہے جس کا نام ہم نے نظریہ مفرد اعضاء رکھا ہے۔

نظریہ مفرد اعضاء کا اہم مقصد

ماڈرن میڈیکل سائنس اور فرنگی طب جو آجکل تمام دنیا پر رائج ہیں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ طب نہ صرف قدیم ہے بلکہ موجودہ دورمیں زمانے کاساتھ نہیں دے سکتی اوراس قابل نہیں ہے کہ اس کوقائم رکھاجائے۔انہی اثرات کے تحت نظریہ مفرداعضاء کوپیش کیاگیاہے جس کامقصد یہ ثابت کرناہے کہ طب قدیم اورایورویدک نہ صرف صحیح طریقہ ہائے علاج ہیں بلکہ قانون فطرت کے عین مطابق ہیں اس طرح اس سے نہ صرف احیائے فن اور تجدید طب کی صورت پیداکی گئی ہے بلکہ یہ ثابت کیاگیاہے کہ ماڈرن میڈیکل سائنس بالکل غیرعلمی اور غلط ہے جس کے ساتھ تمام دنیاکو چیلنج کیاگیاہے کہ وہ ثابت کرے کہ ماڈرن سائنس علمی اور صحیح ہے اس چیلنج کیلئے ہم نے ایک کتاب ’’فرنگی طب غیرعلمی اورغلط ہے‘‘ پیش کی ہے جس کے چیلنج کے ساتھ 10,000روپے کی پیشکش کی ہے جوبھی اس کوصحیح اور سائنٹیفک ثابت کرے ہم اس کی خدمت میں یہ رقم پیش کردیں گے۔کتاب کوشائع ہوئے دس سال بیت گئے کسی کوسامنے آنے کی جرأت نہیں ہوئی۔نظریہ مفرداعضاء بالکل قانون فطرت کے عین مطابق ہے ۔ہم اس نظریہ پرتقریباً آٹھارہ کتابیں لکھ چکے ہیں جن سے تمام طب کی تدوین کی گئی ہے۔

تعریف

نظریہ مفرداعضاء ایک ایسی تحقیق ہے جس سے ثابت کیاگیاہے کہ امراض کی پیدائش مفرداعضاء گوشت،پٹھے اورغددمیں ہوتی ہے اوراس کے بعدمرکب اعضاء کے افعال میں افراط وتفریط اور ضعف پیداہوتاہے اورعلاج میں بھی مرکب اعضاء کی بجائے مفرد اعضاء کو مدنظر رکھنا چاہیے ، کیونکہ انسان کے تمام مرکب اعضاء مفرد اعضاء کی بافتوں اورانسجہ (بنیادوں) سے مل کربنتے ہیں ۔
یہی عملی نظریہ ایک ایسا فلسفہ ہے جس سے جسم انسان کومفرداعضاء کے تحت تقسیم کردیاگیاہے کہ اعضائے رئیسہ دل دماغ اورجگر مفرداعضاء ہیں جو عضلات اعصاب اورغددکے مراکزہیں جن کی بناوٹ جداجدااقسام کے انسجہ(ٹشوز)سے بنی ہوئی ہے اورہرنسیج بے شمارزندہ حیوانی ذرات (سیلز)سے مرکب ہے۔حیوانی ذرہ انسانی جسم کی اول بنیاد(فرسٹ یونٹ)ہے۔ہرحیوانی ذرہ اپنے اندرحرارت وقوت اوررطوبت(ہیٹ،فورس اور انرجی) رکھتاہے۔جس کے اعتدال کانام صحت ہے۔جب اس حیوانی ذرہ خلیہ کے افعال میں افراط وتفریط یاضعف واقع ہوجاتاہے تواس کے اندرکی حرارت وقوت اوررطوبت میں  اعتدال قائم نہیں رہتا۔پس اس کانام مرض ہے۔
اس حیوانی ذرہ کااثرنسیج پرپڑتاہے اس کے بعدمقررہ اعضاء کے تعلق سے اعصاب وغدد اور عضلات وغیرہ کے مطابق گزرتاہوااپنے متعلقہ عضورئیس میں ظاہرہوتاہے اوران میں افراط و تفریط اورضعف کی شکل میں امراض وعلامات پیداہوتی ہیں۔علاج کی صورت میں انہی مفرد اعضاء کے افعال درست کردینے سے ایک حیوانی ذرہ سے لے کرعضورئیس تک کے افعال درست ہوجاتے ہیں بس یہی نظریہ مفرداعضاء ہے۔

تحقیق کامقصد

نظریہ مفرداعضاء کی ضرورت اورتحقیق کامقصدیہ تھاکہ طب قدیم کی کیفیات،مزاج اوراخلاط کو مفرداعضاء سے تطبیق دے دی جائے تاکہ ایک طرف ان کی اہمیت واضح ہوجائے اوردوسری طرف یہ حقیقت سامنے آجائے کہ کوئی طریق علاج جس میں کیفیات ومزاج اوراخلاط کو مدنظرنہیں رکھاجاتا وہ نہ صرف غلط ہے بلکہ غیرعلمی،ان سائنٹیفک اورعطایانہ ہے۔اس میں یقینی شفانہیں ہے،اوروہ عطایانہ طریق علاج ہے جیسے فرنگی طب ہے۔جس میں کیفیات ومزاج اور اخلاط کوکوئی اہمیت حاصل نہیں ہے اس لئے اس کی تشخیص وتجویزمیں مطابقت اورموافقت پیدا نہیں ہوسکتی انہیں مقاصد کے تحت ہم نے’’نظریہ مفرداعضاء‘‘کی بنیاداحیائے فن اورتجدیدطب پررکھی ہے کیونکہ موجودہ فرنگی دورمیں فرنگی طب کی تقلیدمیں کیفیات ومزاج اوراخلاط کو چھوڑ کر صرف امراض وعلامات کے نام پران کے علاجات کرنے شروع کردئیے ہیں جونہ صرف طب قدیم کے قانون علاج کے خلاف ہے بلکہ بالکل غلط اورعطایانہ صورت اختیارکرگیاہے۔
ہم نے نظریہ مفرداعضاء کے ساتھ کیفیات ومزاج اوراخلاط کوتطبیق دے کرثابت کردیاہے کہ اعضاء کے افعال کیفیات ومزاج اوراخلاط کے اثرات کے بغیرعمل میں نہیں آسکتے اس لئے ان کے اثرات کو مدنظر نہ رکھنا ضروری ہے تاکہ اعضاء کے افعال کودرست رکھا جاسکے اگر اثرات کو مدنظر نہ رکھاجائے توپھر لازم ہے کہ مفرد اعضاء کے مطابق ادویہ اوراغذیہ اورتدابیر کوعمل میں لانا نہایت ضروری ہے۔گویامفرداعضاء کے افعال بالکل کیفیات ومزاج اور اخلاط کے اثرات کے مطابق ہیں۔
اس تحقیق وتطبیق سے افعال مفرداعضاء اورکیفیات ومزاج اوراخلاط سے ایک طرف ان کی اہمیت سامنے آگئی ہے اورطب قدیم میں زندگی پیدا ہو گئی ہے اوردوسری طرف اعضاء کے افعال کے علاج میں ضرورت سامنے آگئی ہے۔ اس طرح تجدیدطب کا سلسلہ قائم کردیاگیاہے۔اورنظریہ مفرد اعضاء کوقدیم طبوں کے تجدیدواحیاء کیلئے معیاراورکسوٹی مقررکیاگیاہے اورساتھ ہی علم الادویہ میں بھی اسی صورت کوثابت کیاگیاہے۔وہ بھی انہی مفرداعضاء پراثرکرتی ہیں جن سے امراض وعلامات رفع ہوجاتی ہیں پوری طرح صحت صحیح ہوجاتی ہے کیونکہ ہماری تحقیق ہے کہ کوئی دواکبھی بھی مفرداعضاء کی بجائے سیدھی امراض و علامات پراثراندازنہیں ہوسکتی۔

تشریح

نظریہ مفرداعضاء بالکل نیانظریہ ہے۔تاریخ طب میں اس کاکہیں اشارہ تک نہیں پایاجاتااس نظریہ پرپیدائش امراض اورصحت کی بنیادرکھی گئی ہے، اس نظریہ سے قبل بالواسطہ یابلاواسطہ پیدائش امراض مرکب اعضاء کی خرابی کوتسلیم کیاجاتارہاہے۔مثلاً معدہ وامعاء ،شش ومثانہ۔آنکھ ومنہ ،کان وناک بلکہ اعضائے مخصوصہ تک کے امراض کوان کے افعال کی خرابی سمجھا جاتا ہے ۔ یعنی معدہ کی خرابی کواس کی مکمل خرابی ماناگیاہے۔جیسے دردمعدہ،سوزش معدہ،ورم معدہ،ضعف معدہ اوربدہضمی وغیرہ پورے معدہ کی خرابی بیان کی جاتی ہے۔لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ معدہ  ایک مرکب عضوہے اور اس میں عضلات واعصاب اورغدد وغیرہ ہرقسم کے اعضاء پائے جاتے ہیں اورجب مریض ہوتاہے تووہ تمام اعضاء جو مفردہوتے ہیں بیک وقت مرض میں گرفتارنہیں ہوتے بلکہ کوئی مفردعضومریض ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ معدہ میں مختلف قسم کے امراض پیداہوتے ہیں۔
جب معدہ کے مفرداعضاء میں سے کوئی گرفتارمرض ہوتاہے۔مثلاًمعدہ کے اعصاب مرض میں مبتلاہوتے ہیں تواس کی دیگر علامات بھی اعصاب میں ہوں گی اوران کااثردماغ تک جائے گا ۔ اسی طرح اگراس کے عضلات مرض میں مبتلاہوں گے توجسم کے باقی عضلات میں بھی یہی علامات پائی جائیں گی اوراس کااثر قلب تک چلاجاتاہے۔یہی صورت اس کے غددکے مرض کی حالت میں پائی جاتی ہے،یعنی دیگرغددکے ساتھ جگروگردوں کوبھی متاثر کرتے ہیں یابالکل معدہ کے مفرداعضاء اعصاب غددوعضلات کے برعکس اگردل،دماغ اورجگروگردہ میں امراض پیدا ہو جائیں تومعدہ وامعاء اور شش ومثانہ بلکہ آنکھ ومنہ اورناک وکان میں بھی علامات ایسی ہی پائی جائیں گی۔
اس لئے پیدائش امراض اورشفائے امراض کیلئے مرکب عضوکی بجائے مفرد عضوکومدنظررکھنا یقینی تشخیص اوربے خطاعلاج کی صورتیں پیداہوجاتی ہیں۔اس طرح ایک طرف کسی عضوکی خرابی کا علم ہوجاتا ہے تودوسری طرف اس کے صحیح مزاج کاعلم ہوجاتاہے،کیونکہ ہرمفردعضوکسی نہ کسی کیفیت ومزاج بلکہ اخلاط کے اجزاء سے متعلق ہے۔یعنی دماغ واعصاب کامزاج ترسردہے اور ان میں تحریک سے جسم میں سردی تری اوربلغم بڑھ جاتے  ہیں۔اسی طرح جگروغددکامزاج گرم خشک ہے اس کی تحریک سے جسم میں گرمی خشکی اورصفرابڑھ جاتاہے۔یہی صورت قلبی (عضلات) ہے اورمفرداعضاء کے برعکس اگرجسم میں کسی کیفیت یامزاج اوراخلاط کی زیادتی ہو جائے توان کے متعلق مفرداعضاء پراثراندازہوکران میں تیزی کی علامات پیداہوجائیں گی۔
اس طرح دونوں صورتیں نہ صرف سامنے آجاتی ہیں بلکہ علاج میں بھی آسانیاں پیداہوجاتی ہیں۔ ایک خاص بات یہ ذہن نشین کرلیں کہ مفرد اعضاء  کی جوترتیب اوپربیان کی گئی ہے ان میں جو تحریکات پیداہوتی رہتی ہیں وہ ایک دوسرے مفرداعضاء میں تبدیل ہوتی رہتی ہیں اورکی جاسکتی ہیں۔اسی طرح سے امراض پیداہوتے ہیں اوراسی طرح ہی ان تحریکات کوبدل کران کوشفاء اورصحت کی طرف لایاجاسکتاہے۔

عملی تشریح

جاننا چاہیے کہ انسان تین چیزون سے مرکب ہے (1)جسم۔(2) Bodyنفس۔Vital Force (3)روح۔Soul  ۔نفس اورروح کاذکربعدمیں ہوگا۔اول جسم کوبیان کرناضروری ہے۔
انسانی جسم تین چیزوں سے مرکب ہے(1)بنیادی اعضاء۔Basic Organs (2)  حیاتی اعضاء۔Life Organs  (3)خون۔Blood  ان کی مختصر سی تشریح درج ذیل ہے۔

(1) ۔بنیادی اعضاء۔Basic Organs

ایسے اعضاء ہیں جن سے انسانی جسم کاڈھانچہ تیارہوتاہے جن میں مندرجہ ذیل تین اعضاء شریک ہوتے ہیں۔(1)ہڈیاں۔Bones   (2)رباط۔Ligaments  (3) اوتار۔ Tendons

(2) ۔ حیاتی اعضاء۔Life Organs

ایسے اعضاء ہیں جن سے انسانی زندگی اوربقاقائم ہے۔یہ تین قسم کے ہیں۔(1) اعصاب ۔ Nerves  ان کامرکزدماغ(Brain)ہے۔ (2) غدد۔Glands جن کامرکزجگر (Liver) ہے۔عضلات(Muscles) جن کامرکزقلب (Heart)ہے۔گویادل،دماغ اورجگرجواعضائے رئیسہ ہیں وہی انسان کے حیاتی اعضاء ہیں۔

(3) ۔خون۔Blood:

سرخ رنگ کا ایک ایسا مرکب ہے جس میں لطیف بخارات(Gases)،حرارت (Heat)اوررطوبت(Liquid)پائے جاتے ہیں۔یاہوا،حرارت اورپانی سے تیارہوتا ہے۔  دوسرے معنوں میں سودا،صفرااوربلغم کاحامل ہوتاہے۔ان کی تفصیل آئندہ بیان کی جائے گی۔اس مختصرسی تشریح کے بعد جانناچاہیے کہ قدرت نے ضرورت کے مطابق جسم میں اس کی ترتیب ایسی رکھی ہے کہ اعصاب باہر کی جانب اورہرقسم کے احساسات ان کے ذمہ ہیں ۔ اعصاب کے اندرکی طرف غددہیں اورہرقسم کی غذا جسم کومہیاکرتے ہیں۔غددسے اندرکی جانب عضلات ہیں اورہرقسم کی حرکات ان کے متعلق ہیں۔ یہی تینوں ہرقسم کے احساسات ،اغذیہ اورحرکات کے طبعی افعال انجام دیتے ہیں۔

غیرطبعی افعال

حیاتی اعضاء کے غیرطبعی افعال صرف تین قسم کے ہیں۔(1)ان میں سے کسی عضومیں تیزی آ جائے  یہ ریاح کی زیادتی سے پیداہوگی۔(2)۔ان میں سے کسی عضومیں سستی پیداہوجائے یہ رطوبت یابلغم کی زیادتی سے پیداہوگی۔(3)ان میں سے کسی عضومیں ضعف پیداہوجائے یہ حرارت کی زیادتی سے پیداہوگا۔
یادرکھیں چوتھا کوئی غیرطبعی فعل واقع نہیں ہوتا۔اعضائے مفردکاباہمی تعلق جاننانہایت ضروری ہے کیونکہ علاج میں ہم ان ہی کی معاونت سے تشخیص،تجویزاورعلامات کورفع کرتے ہیں۔ان کی ترتیب میں اوپریہ بیان کیاگیاہے کہ اعصاب جسم کے بیرونی طرف یااوپرکی طرف ہیں اور ان کے نیچے یابعدمیں غددکورکھاگیاہے اورجہاں پرغددنہیں ہیں وہاں ان کے قائم مقام غشائے مخاطی بنادی گئی ہیں اوران کے نیچے یابعدمیں عضلات رکھے گئے ہیں اورجسم میں ہمیشہ یہی ترتیب قائم رہتی ہے۔افعال کے لحاظ سے بھی ہرعضو میں صرف تین ہی افعال پائے جاتے ہیں
(1) ۔عضوکے فعل میں تیزی پیداہوجائے توہم اس کوتحریک کہتے ہیں۔
(2) ۔عضوکے فعل میں سستی نمودارہوجائے توہم اس کوتسکین کہتے ہیں۔
(3) ۔عضوکے فعل میں ضعف واقع ہوجائے توہم اس کوتحلیل کی صورت قراردیتے ہیں۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ ہر عضومیں ظاہرہ دو ہی صورتیں ہوتی ہیں۔اول تیزی اوردوسرے سستی ۔ لیکن سستی دوقسم کی ہوتی ہے۔اول سستی سردی یا بلغم کی زیادتی اوردوسرے سستی حرارت کی زیادتی ہے ۔ اس لئے اول الذکرکانام تسکین رکھاجاسکتاہے۔اورثانی الذکرکی سستی کوتحلیل ہی کہنا بہتر ہے۔کیونکہ حرارت اورگرمی کی زیادتی سے ضعف پیداہوتاہے۔اوریہ بھی ایک قسم کی سستی ہے۔لیکن چونکہ ضعف حرارت اورگرمی کی زیادتی سے پیداہوتاہے اوراس میں جسم یاعضوگھلتاہے اور یہ صورت مرض کی حالت میں آخرتک قائم رہتی ہے بلکہ صحت کی بحالی میں بھی ایک ہلکے قسم کی تحلیل جاری رہتی ہے۔اس لئے انسان بچپن سے جوانی،جوانی سے بڑھاپے اور بڑھاپے سے موت کی آغوش میں چلاجاتاہے۔اس لئے اس حالت کانام تحلیل بہت مناسب ہے۔
ساتھ ہی اس امرکوبھی ذہن نشین کرلیں کہ یہ تینوں صورتیں یاعلامات تینوں اعضاء اعصاب،غدداور عضلات میں کسی ایک میں کوئی حالت ضرور پائی جائے گی۔البتہ ایک دوسرے میں بدلتی رہتی ہیں اور اس غیرطبعی بدلنے ہی سے مختلف امراض پیداہوتے ہیں اورانہی کی طبعی تبدیلی سے صحت حاصل ہوجاتی ہے۔اعضاء کی اندرونی تبدیلیوںکوذیل کے نقشہ سے آسانی کے ساتھ سمجھاجاسکتاہے۔

نام اعضاء

اعصاب غدد عضلات نتیجہ
تحریک تحلیل تسکین جسم میں رطوبات یعنی بلغم کی زیادتی
تسکین تحریک تحلیل جسم میں حرارت یعنی صفراکی زیادتی
تحلیل تسکین تحریک جسم میں ریاح یعنی سوداکی زیادتی


اشارہ کا نشان یہ ظاہرکرتاہے کہ علاج کی صورت میں فوراًشفاحاصل کرنے کیلئے اشارہ کے مطابق دماغ (اعصاب)سے دل یعنی عضلات کوتحریک دی جائے۔عضلات یعنی دل سے جگریعنی غددکوتحریک دی جائے۔ا س طرح جگریعنی غددسے دماغ یعنی اعصاب کوتحریک دی جائے۔یہ اشارہ فطری اشارہ ہے کیونکہ فطرت بلغم کوسوداسے ختم کرتی ہے اورسودا کوصفراسے پھرصفراکوبلغم سے ختم کرتی ہے۔گویاہرعضومیں یہ تینوں حالتیں یاعلامات فرداًفرداًضرورپائی جائیں گی۔
(1۔اگراعصاب میں تحریک ہے توغددمیں تحلیل اورعضلات میں تسکین ہوگی ۔نتیجۃًجسم میں رطوبات بلغم یاکف کی زیادتی ہوگی۔
(2۔اگرغددمیں تحریک ہوگی توعضلات میں تحلیل اوراعصاب میں تسکین ہوگی۔نتیجۃًجسم میں حرارت صفراویت کی زیادتی ہوگی۔
(3۔اگرعضلات میں تحریک ہوگی تواعصاب میں تحلیل اورغددمیں تسکین ہوگی۔نتیجۃ جسم میں ریاح سوداویت کی زیادتی ہوگی۔

تشریح مزید بامثال نزلہ

نزلہ ایک علامت ہے جوکسی مرض پردلالت کرتاہے۔اس کوکسی صورت میں بھی مرض کہناصحیح نہ ہو گااوراس کوابوالامراض کہناتوانتہائی غلط فہمی ہے۔کیونکہ نزلہ موادیارطوبت کی صورت میں گرتا ہے اس علامت سے کسی عضوکے فعل کی طرف دلالت کرتاہے اس عضوکے افعال کی خرابی ہی کو مرض کہاجاسکتاہے۔البتہ عضوکے افعال کی خرابی کی جس قدرصورتیں ہوسکتی ہیں وہ تمام امراض میں شامل ہوں گی۔

موادیارطوبت کا طریق اخراج

رطوبت(لمف)یامواد(میٹر)یاسکریشن کااخراج ہمیشہ خون میں سے ہوتاہے اس کوپوری طرح سمجھنے کیلئے پورے طوردوران خون کوذہن نشین کرلیناچاہیے۔یعنی دل سے صاف شدہ خون بڑی شریان اورطئی سے چھوٹی شریانوں میں سے عروق شعریہ کے ذریعہ غدداورغشائے مخاطی میں جسم کی خلاؤں پرترشح پاتاہے یہ ترشح کبھی زیادہ ہوتاہے کبھی کم کبھی گرم ہوتاہے اورکبھی سرد،کبھی رقیق ہوتاہے کبھی غلیظ اورکبھی سفیدہوتاہے توکبھی زرد وغیرہ وغیرہ۔اس سے ثابت ہواکہ نزلہ یا ترشح(سکریشن)کااخراج ہمیشہ ایک ہی صورت میں نہیں ہوتا بلکہ مختلف صورتیں یا کیفیتیں اور رنگ پائے جاتے ہیں۔گویانزلہ ایک علامت ہے وہ بھی اپنے اندر کئی اندازرکھتاہے۔اس لئے اس کوابوالامراض کہتے ہیں۔

نزلہ کے تین انداز

(1) ۔نزلہ پانی کی طرح بے تکلف رقیق بہتاہے۔عام طورپراس کارنگ سفیداورکیفیت سردہوتی ہے۔اس کوعام طورپرزکام کانام دیتے ہیں۔
(2) ۔نزلہ لیس دارجوذراکوشش اورتکلیف سے خارج ہوتاہے۔عام طورپراس کارنگ زرداورکیفیت گرم ہوتی ہے۔اس کونزلہ حارکہتے ہیں۔
(3) ۔نزلہ سفید ہوتاہے انتہائی کوشش اورتکلیف سے بھی اخراج کانام نہیں لیتا ایسامعلوم ہوتاہے کہ جیسے بالکل جم گیاہواورگاڑھاہوگیاہو ،عام طورپررنگ میلایاسرخی مائل اورکبھی کبھی زورلگانے سے خون نے لگتاہے۔اس کوبندنزلہ کہتے ہیں۔

نزلہ کی تشخیص

(1) ۔اگرنزلہ پانی کی طرح بے تکلف رقیق بہ رہاہے تویہ اعصابی(دماغی)نزلہ ہے۔یعنی اعصاب کے فعل میںتیزی ہے اس کا رنگ سفیداور کیفیت سردہوگی اس میں قارورہ کارنگ بھی سفید ہوگا۔
(2) ۔اگرنزلہ لیس دار ہوجوذراکوشش وتکلیف اورجلن سے خارج ہورہاہوتویہ غدی کبدی نزلہ ہے یعنی جگرکے فعل میں تیزی ہوگی۔اس کارنگ عام طورپرزردی مائل اورکیفیت گرم وترہوگی اس میں قارورہ کارنگ زردسرخی مائل ہوگا۔گویایہ حارنزلہ ہے۔
(3) ۔اگرنزلہ بندہواورانتہائی کوشش اورتکلیف سے بھی اخراج کانام نہ لے ایسے معلوم ہوکہ جیسے بالکل جم گیاہے اورگاڑھاہوگیاہے۔تویہ نزلہ عضلاتی(قلبی) ہوگا۔یعنی اس میں عضلات کے فعل میں تیزی ہوگی اس کارنگ عام طورپرمیلایاسرخی وسیاہی مائل اورکبھی کبھی زیادہ زورلگانے سے خون بھی آجاتاہے۔
اول صورت جسم میں رطوبات سردبلغم کی زیادتی ہوگی۔دوسری صورت میں جسم میں صفراگرمی خشکی کی زیادتی ہوگی۔تیسری صورت میں سوداویت سردی خشکی اورریاح کی زیادتی ہوگی ۔اورانہی اخلاط و کیفیات کی تمام علامات پائی جائیں گی۔
گویا نزلہ کی تین صورتیں ہیں ان کواس مقام پرذہن نشین کرلیناچاہیے۔چوتھی صورت کوئی نہ ہوگی البتہ ان تینوں صورتوںکی کمی بیشی اورانتہائی شدت ہوسکتی ہے۔انتہاکی شدت کی صورت میں انہی مفرد اعضاء کے اندردردسوزش یاورم پیداہوجائے گا۔انہی شدید علامات کے ساتھ بخار ، ہضم کی  خرابی،کبھی قے ،کبھی اسہال،کبھی پیچش،کبھی قبض ہمراہ ہوں گے۔لیکن یہ تمام علامات انہی اعضاء کی مناسبت سے ہوں گی۔اس طرح کبھی معدہ وامعاء اورسینہ کے انہی اعضاء کے افعال میں کمی بیشی اورشدت کی وجہ سے بھی ان کی خاص علامات کے ساتھ ساتھ نزلہ کی بھی علامات پائی جائیں گی جن کااوپرذکرکیا گیاہے۔

نزلہ کے معنی میں وسعت

نزلہ کے معنی ہیں گرنا۔اگراس کے معنی کوذراوسعت دے کراس کے مفہوم کو پھیلا دیاجائے توجسم انسان کی تمام رطوبات اورمواد کونزلہ کہہ دیاجائے توان سب کی بھی اس نزلہ کی طرح تین ہی صورتیں ہوسکتی ہیں اوران کے علاوہ چوتھی صورت نظر نہیں آئے گی مثلاً اگرپیشاب پر غور کریں تو اس کی تین صورتیں یہ ہوں گی۔
(1) ۔اگراعصاب میں تیزی ہوگی توپیشاب زیادہ اوربغیرتکلیف کے آئے گا۔
(2) ۔اگرغددمیں تیزی ہوگی توپیشاب میں جلن کے ساتھ قطرہ قطرہ آئے گا۔
(3) ۔اگرعضلات میں تیزی ہوگی توپیشاب بندہوگا یابہت کم آئے گا۔
یہی صورتیں پاخانہ پربھی وارد ہوں گی۔
(1) ۔اعصاب میں تیزی ہوگی تواسہال۔
(2) ۔غددمیں تیزی ہوگی توپیچش۔
(3) ََ۔عضلات میں تیزی ہوگی توقبض پائی جائے گی۔
اس طرح لعاب،دہن۔آنکھ،کان اورپسینہ وغیرہ  ہرقسم کی رطوبات پرغورکرلیں۔البتہ خون کی صورت رطوبات سے مختلف ہے،یعنی اعصاب کی تیزی میں جب رطوبات کی زیادتی ہوتی ہے تو خون کبھی نہیں آتا۔جب غددمیں تیزی ہوتی ہے توخون تکلیف سے تھوڑاتھوڑاآتاہے۔جب عضلات کے فعل میں تیزی ہوتی ہے توشریانیں پھٹ جاتی ہیں اوربے حد کثرت سے خون آتا ہے ۔اس سے ثابت ہوگیاکہ جب خون آتاہے تورطوبات کااخراج بندہوجاتاہے اور اگر رطوبات کااخراج زیادہ کردیاجائے توخون کی آمدبندہوجائے گی۔
نظریہ مفرداعضاء کے جاننے کے بعداگرایک طرف تشخیص آسان ہوگئی ہے تودوسری طرف امراض اورعلامات کاتعین ہوگیاہے اب ایسا نہیں ہوگاکہ آئے دن نئے نئے امراض اورعلامات فرنگی طب تحقیق کرتی رہے اوراپنی تحقیقات کادوسروں پررعب ڈالتی رہے بلکہ ایسے امراض و علامات جوبے معنی صورت رکھتے ہوں وہ ختم کردئیے جائیں گے جیسے وٹامنی امراض،غذائی امراض اورموسمی امراض وغیرہ وغیرہ۔پس ایسے امراض اورعلامات کاتعلق کسی نہ کسی اعضاء سے جوڑنا پڑے گااورانہی کے افعال کوامراض کہناپڑے گا۔گویاکیمیائی اوردموی تغیرات کوبھی اعضاء کے تحت لاناپڑے گا۔
دموی اورکیمیائی تغیرات بھی اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتا کہ جسم انسان میں خون کی پیدائش اوراس کی کمی بیشی انسان کے کسی نہ کسی عضوکے ساتھ متعلق ہے اس لئے جسم انسان میں دموی اورکیمیائی تبدیلیاں بھی اعضائے جسم کے تحت آتی ہیں۔اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ جسم میں ایک بڑی مقدارمیں زہریلی ادویات اوراغذیہ سے موت واقع ہوجاتی ہے لیکن ایسے کیمیائی تغیرات بھی اس وقت تک پیدا نہیں ہوتے جب تک جسم کاکوئی عضو بالکل باطل نہ ہوجائے۔

دیگر اہم علامات

نزلہ کی طرح دیگر علامات بھی چند اہم علامات میں تقسیم ہوجاتی ہیں۔اگر ان اہم علامات کوذہن نشین کرلیاجائے تونزلہ کی طرح جن مفرداعضاء سے ان کاتعلق ہوگاان کے ساتھ ہی وہ ایک مرض کی شکل اختیارکرلیں گے۔ورنہ تنہاان علامات کوامراض کانام نہیں دیاجاسکتا وہ اہم علامات درج ذیل ہیں۔
1۔سوزش             2۔ورم               3۔بخار               4۔ضعف
سوزش وا ورام کا تفصیلی مطالعہـ’’تحقیقات سوزش واورامـ‘‘ میں کیاجاسکتاہے۔بخارکاتفصیلی مطالعہ ـ’’تحقیقات حمیاتــ ‘‘ میں کیاجاسکتاہے۔ اسی طرح ضعف کا تفصیلی مطالعہ ’’تحقیقات اعادہ و شباب‘‘ میں کیاجاسکتاہے۔

مفرداعضاء کاباہمی تعلق

مفرداعضاء کاباہمی تعلق بھی ہے اس تعلق سے تحریکات ایک عضو سے دوسرے عضو کی طرف منتقل ہوتی ہیں مثلاً جب غدد میں تحریک ہے تو اس امرکوضرور جانناپڑے گاکہ اس تحریک کاتعلق عضلات کے ساتھ ہے یااعصاب کے ساتھ ہے،کیونکہ اس تحریک کاتعلق کسی نہ کسی دوسرے عضو کے ساتھ ہوناضروری ہے کیونکہ مزاجاً بھی کبھی کوئی کیفیت مفردنہیں ہوتی جیسے گرمی یاسردی کبھی تنہا نہیں پائی جائیں گی وہ ہمیشہ گرمی تری،گرمی خشکی ہوگی،اسی طر ح سردی تری یاسردی خشکی ہو گی ۔ یہی صورت اعضاء میں بھی قائم ہے یعنی غدی عضلاتی(گرم خشک)یاغدی اعصابی(گرم تر ) وغیرہ  وغیرہ۔
البتہ اس میں اس امرکوذہن نشین کرلیں کہ اول تحریک عضوی(مشینی)ہوگی اوردوسری تحریک کیمیائی خلطی ہوگی۔جب کسی مفردعضو میں تحریک ہوگی تواس کاتعلق جس دوسرے مفردعضو سے ہوگااس کی کیمیائی صورت خون میں ہوگی۔مثلاً غدی عضلاتی تحریک ہے تواخلاط میں خشکی پائی جائے گی۔جب غدی اعصابی تحریک ہوگی توخون میں تری پائی جائے گی۔وغیرہ وغیرہ۔ ان کایہ سلسلہ قائم رہے گا۔

مفرداعضاء کے تعلق کی چھ صورتیں

مفرداعضاء صرف تین ہیں لیکن ان کاآپس میں تعلق ظاہرکیاجائے توکل چھ صورتیں بن جاتی ہیں۔
(1)۔اعصابی غدی  (2)۔اعصابی عضلاتی   (3)۔عضلاتی اعصابی  (4)۔عضلاتی غدی   (5)۔غدی عضلاتی    (6)۔غدی اعصابی
یادرکھیں کہ جولفظ اول ہوگاوہ عضوکی تحریک ہے اورجولفظ بعد میں ہو گاوہ کیمیائی تحریک کہلاتا ہے ۔ چونکہ کیمیائی تحریک ہی صحت کی طرف جاتی ہے اس لئے ہرعضوکی تحریک کے بعد اس سے جو کیمیائی اثرات پیداہوں گے انہی کوبڑھاناچاہیے بس اسی میں شفاہے یہی وجہ ہے کہ ہومیوپیتھی میں بھی ری ایکشن کی علامات کوبڑھایاجاتاہے،اس مقصد کیلئے قلیل بلکہ اقل مقدار میں بھی دوانہ صرف مفید ہو جاتی ہے بلکہ اکسیراورتریاق کاکام دے دیتی ہے۔

تغیرافعال اعضاء

جہاں پرہم نظریہ مفرداعضاء کے تحت اعضائے رئیسہ میں جوتغیرات ہوتے ہیں جن سے مرض کی صورت پیداہوتی ہے۔مختصر طورپربیان کرتے ہیںتاکہ قارئین کوسمجھنے میں سہولت ہو۔یہ صرف اس لئے بیان کیاہے کہ بعض طالبعلم تحریک تسکین اورتحلیل کی حقیقت نہیں جانتے حالانکہ ان ہی کو ایک دوسرے میں بدلنے سے امراض فوراًدورہو جاتے ہیں

(1) ۔تحریک

جب کسی مقام پرسوزش پیداہوتی ہے تووہاں پراول انقباض پیداہوتاہے یہ اس امرکااظہارہے کہ وہاں پرحرارت یاآکسیجن کی کمی اوربرودت یعنی سردی خشکی اورکاربن کی زیادتی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں وہاں پررطوبت کی کمی واقع ہوجاتی ہے بلکہ بالکل بندش ہوجاتی ہے۔کیونکہ جب تک رطوبت کی بندش نہ ہوتودوران خون کا اس طرف اجتماع نہیں ہوسکتا۔یہ اجتماع طبیعت مدبرہ بدن اس لئے کرتی ہے کہ خون کی حرارت سے سوزش کورفع کرسکے جس کے نتیجہ میں وہاں پر تناؤبڑھ جاتاہے اورحرکت کرنے میں دقت ہوتی ہے خاص طورپرجب سوزش عضلات یعنی دل میں ہوتی ہے تو طبعاًانسان آرام کاخواہش مند ہوتاہے جب آنکھ اورکان میں سوزش ہوتی ہے تو دیکھنے اورسننے میں تکلیف ہوتی ہے گویا حرکات اعضاء اورجسم میں تیزیاورتناؤ بلکہ انقباض شدید ہو جاتاہے۔

(2)ََََ۔تسکین

چونکہ سوزش کاابتدائی ردعمل رطوبات کاگراناہے اس لئے طبیعت مدبرہ بدن اکثر رطوبات کوگراتی ہے یہ رطوبات خون ہی سے جداہوکرگرتی ہیں اس طرح وہاں پررفتہ رفتہ کافی مقدار میں رطوبت بھی اکٹھی ہوجاتی ہے یہی رطوبت ہے جو جسم کی جلن اوردردوں کوروکتی ہے۔
یادرکھیں کہ جس قدر مخدراورمسکن ودافع دردادویات ہیں جوبذات خودجسم پرنہ کیمیائی طورپراورنہ ہی عضوی طورپرکچھ اثررکھتی ہیں بلکہ ان سے جسم میں رطوبات کااخراج بڑھا دیتی ہیں اوریہی رطوبت تسکین تخدیراوردردوں کودورکرنے کاباعث ہوتی ہیں بالکل اسی طرح جیسے جل جانے کے بعد کسی مقام پرچھالاپڑجاتاہے تواس چھالے کے پانی کاصرف یہی مقصد ہوتاہے کہ وہاں جلن اوردردکودورکرے۔بعض جاہل معالج اس چھالے کوکاٹ دیتے ہیںجس سے بجائے فائدے کے سوزش بہت بڑھ جاتی ہے گویاچھالا اوررطوبت قدرتی اورفطری طریق علاج ہے اس میں اضافہ کرناچاہیے اس سے جلن ودرد کے ساتھ بے چینی اورتناؤکم ہوجاتاہے۔

(3)۔تحلیل

تحلیل کے معنی ہیں حل کرنا۔طبی اصطلاح میں سوزش اورورم کوختم کردیناہے،جانناچاہیے کہ تحلیل حرارت کاضرورت کے مطابق قائم کرناہے جب حرارت قائم ہوجاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں خشکی اور کاربن دورہوجاتی ہے جیساکہ ہماری کتاب’’تحقیقات حمیات‘‘ میں تفصیلاً بیان کیاگیاہے۔
اس کی دو صورتین ہیں ابتدا میں ایسی گرمی چاہیے جس کے ساتھ رطوبات بھی شامل ہوں مثلاً گرم پانی کی بھاپ سے حرارت پیداکی جائے ۔دوسری صورت میں ایسی گرمی پیدا کی جائے جس میں گرمی کے ساتھ خشکی بھی لازمی ہو جیسے ریت اوراینٹ کی گرمی سے حرارت پیداکرنا وغیرہ۔تکمید تو ورم وسوزش پرہرمعالج توکیاہرضرورت مندکرتاہے مگر تحلیل کے رازکودس ہزارمیں سے ایک بھی نہیں جانتا اورفرنگی طب توایسے اسرار و رموزاوررازوں سے بالکل خالی دامن ہے۔
یادرکھیں کہ تحلیل اس وقت تک مفید ہے جب تک سوزش ورم،خشکی وبے چینی ،انقباض و تناؤ ، ریاح وکاربن اورجلن وبخارہو لیکن جب ان میں سے کوئی صورت بھی نہ ہوتولازم یہ تحلیل جسم میں ضعف پیدا کرتی ہے۔جیسے موم بتی پگھلتی ہے یابرف دھوپ میں رفتہ رفتہ ختم ہوکرپانی بن جاتی ہے ۔ یہ تحلیل حرکات جسم کوبھی کم کردیتی ہے جیسے خون کے دباؤکی زیادتی میں جب خون کا دباؤدماغ کی جانب ہوتا ہے توتحلیل اعصاب(نروس بریک ڈاؤن) واقع ہوجاتاہے۔گویا اگررطوبات کی زیادتی سکون سے اعضاء کے افعال میں کمی پیداکرتی ہے توحرارت کی زیادتی بھی تحلیل سے اعضاء کے افعال میں تفریط پیداکردیتی ہے۔

تحلیل کی حقیقت

تحلیل کی اصطلاح کاسمجھنااگرچہ مشکل نہیں ہے یہ ایک عام لفظ ہے۔لیکن عوام اطباء کوذہن نشین کرانے کیلئے مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس کی مکمل کیمیائی اورفعلی تشریح کردی جائے تاکہ اس کا صحیح تصور ذہن نشین ہوجائے یہی افہام وتفہیم نہ صرف اورام کے علاج میں بلکہ تمام علم العلاج کیلئے مفیدثابت ہوگا۔
ہم تحلیل کے معنی لکھ چکے ہیں۔حل کرنا،طبی اصطلاح میں سوزش وورم کوختم کرنا۔زیادہ وضاحت کیلئے یوں سمجھ لیں کہ رُکے ہوئے خون کواپنے مجریٰ میں جاری کرنایامجریٰ کی بندش میں جوکیمیائی اورفعلی موادپیداہوگئے ہوں ان کودورکرنا۔انگریزی میں اس کو(Resolvation)کہتے ہیں جس کی مثال دھوپ میں پڑی ہوئی برف سے دی تھی کہ اس میں تحلیل کی اک صورت قائم ہے اس طرح اگرگڑ کی ڈلی پانی میں ڈالی جائے تو عمل تحلیل شروع ہوجائے گا۔
لیکن طبی تحلیل تو اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک سوزش ورم موادکی بندش اورخون کی رکاوٹ دور کرتی ہواورسوزش ناک عضو اپنی اصلی جگہ پرلوٹ آئے یہ اس وقت واقع ہوتاہے جب کی التہاب کا بلب اس قدر سخت نہ ہوکہ ماؤف مقام کی قوت حیوانیہ(Vitality  Force)بالکل باطل نہ ہوجائے۔تحلیل کوسمجھنے کی آسان صورت یہ ہے کہ عمل سوزش کوذہن نشین کرلیاجائے کیونکہ تحلیل کافعل بالکل عمل سوزش کے الٹ ہے۔یعنی اگرعمل سوزش کانام ترتیب مواد(Synthesis of matter)اور اجتماع خون(Congestion of blood)ہے توتحلیل کوہم ترکیب مواد(Analysis of matter)اور خون کا اجراء (Reflow of blood) کہیں گے۔

بناوٹ جسم  ِ انسانی

چونکہ انسان جسم روح اورنفس سے مرکب ہے۔اس لئے ہرطالبعلم کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان کی ماہیت افعال واثرات اورتعلق سے واقف ہو اس لئے پہلے جسم کی بناوٹ کو سمجھیں جو چارقسم کے ٹشوز سے مرکب ہے۔

خون

خون سرخ رنگ کاایک ایسا مرکب ہے جس میں لطیف بخارات (Gases) ، حرارت(Heat) اوررطوبات(Liquid)پائے جاتے ہیں۔یاہوا،حرارت اورپانی سے تیار ہوا ہے۔دوسرے معنوں میں سودا،صفرا اوربلغم کاحامل ہے۔

Qanoon Mufrad Aza, Tibb e Sabir, Hakeem Sabir Multani, Health, قانون مفرد اعضاء, حکیم صابر ملتانی, طب و صحت, طب صابر,

Leave a ReplyCancel reply

Exit mobile version