فطرانہ صدقہ فطر کی مقدار

فطرانہ صدقہ فطر

صدقہ فطر 2023

صدقہ الفطر وہ صدقہ ہے جسے رمضان کے بابرکت مہینے میں ادا کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے، یہ وہ صدقہ ہے جسے ایک مسلمان اپنی طرف سے اور اپنے تمام زیر کفالت افراد کی طرف سے ادا کرتا ہے، خواہ وہ بچہ ہو یا بالغ، اور اس کی قیمت چھوٹے بڑے سب کے لیے  برابر ہے۔ صدقہ فطر میں انسانی بنیادی ضرورت کی غذائیں جیسے چاول، جو، آٹا، دال یا دودھ، اور دیگر کھانے پینے کی چیزیں جو کمیونٹی کے لوگوں کے اہم کھانے میں استعمال ہوتی ہیں، وہ دی جاتی ہیں، یا ان کی قیمت بھی دے سکتے ہیں۔

صدقہ الفطر ہر مسلمان پر واجب سمجھا جاتا ہے، اور اسے عید کی نماز سے کم از کم ایک یا دو دن پہلے ادا کرنا ضروری ہے، اور اسے مذکورہ بالا اشیائے خوردونوش یا ان کی مالی قیمت کے ساتھ معاشرے میں ضرورت مندوں کو ادا کرنا ضروری ہے، اور یہ ایک ایسا صدقہ ہے جو ضرورت مندوں کی تکالیف کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے اور انہیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے روزے اور عید کو وقار کے ساتھ جاری رکھ سکیں۔ یہ سب سے اہم خیراتی کاموں میں سے ایک ہے جو مسلمان کر سکتے ہیں۔

فطرانہ 2023

صدقہ فطر کے نصاب کی تفصیل یہ ہے:

گندم: دو کلو کی قیمت: 250روپے

جو: ساڑھے تین کلو کی قیمت 460روپے

کھجور: ساڑھے تین کلو کی قیمت 1470روپے

کشمش:ساڑھے تین کلو کی قیمت 2630روپے

باقی صدقۂ فطر کی مقدار گندم کے اعتبار سے پونے دو کلو گندم یا پونے دو کلو گندم کی مارکیٹ کی قیمت ہے ، احتیاطاً دو کلو گندم یا اس کی قیمت کا حساب کرلیا جائے۔

اور جو، کھجور اور کشمش کے اعتبار سے یہی اشیاء ساڑھے تین کلو یا ان کے ساڑھے تین کلو کی بازار میں جو قیمت ہے، وہ صدقہ فطر کی مقدار ہے۔

صدقہ فطر فطرانہ

یہ بھی پڑھیں: شیزو فرینیا  گچھی مشروم  ٹونگ کٹ علی

اہم نوٹ:

صدقہ فطر میں چاول، دالیں، دودھ وغیرہ دینا

صدقہ فطر میں بنیادی انسانی خوراک یا اس کی قیمت دی جاتی ہے۔ عام طور پر صدقہ فطر کی مقدار بیان کرتے ہوئے گندم، جو، کھجور، اور کشمش کو بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں گندم تو بنیادی انسانی خوراک میں شامل ہے لیکن جو، کھجور یا کشمش کا شمار بنیادی انسانی ضروریات میں نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے بجائے، چاول، مختلف اقسام کی دالیں، چنے، دودھ وغیرہ آج کل بنیادی انسانی ضرورت میں شامل ہیں۔ اس لیے کشمش، کجھور یا جو کے بجائے چاول، دالیں یا دودھ بطور فطرانہ دیا جا سکتا ہے۔

صحیح قول یہ ہے کہ صدقہ فطر ہر اس جنس سے ادا کرنا جائز ہے جو آدمیوں کے کھانے کے کام آتی ہو جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

«کُنَّا نُخْرِجهاُ علی عَهْدِ النبی ِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍٍ وَکَانَ طَعَامَنَا التمرو الشَّعِيرُ وَالزَّبِيبُ وَالْأَقِطُ» (صحيح البخاري، الزکاة، باب الصدقة قبل العبد، ح: ۱۵۱۰)

’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کھانے کی اشیاء میں ایک صاع بطور صدقہ فطر ادا کیا کرتے تھے۔ اس وقت ہمارا کھانا کھجورجو، کشمکش، اورپنیر تھا۔‘‘

راوی نے یہاں گندم کا ذکر نہیں کیا اور مجھے نہیں معلوم کہ کسی صحیح صریح حدیث میں صدقہ فطر کے ضمن میں گندم کا بھی ذکر آیا ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ صدقہ فطر میں گندم دینا بھی جائز ہے.

ابو سعید خدری کی ایک اور حدیث میں ہے:

’’رسول اللہ ﷺکے زمانہ میں ہم لوگ صدقہ فطر میں ایک صاع کھانا دیا کرتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاری،بَابُ الصَّدَقَۃِ قَبْلَ العِیدِ،رقم:۱۵۰۹)

ابو سعید خدری فرماتے ہیں:

’’ہمارا کھانا جو، منقیٰ، پنیر اور کھجوریں ہوتا تھا۔‘‘ (صحیح البخاری،بَابُ الصَّدَقَۃِ قَبْلَ العِیدِ،رقم:۱۵۱۰)

علمائے کرام نے اس پر قیاس کرکے ہراس چیز کو اس حکم میں شامل کیا ہے جسے لوگ خوراک کے طور پر استعمال کرنے لگیں مثلاً چاول، دالیں وغیرہ ۔ وہ کہتے ہیں :صدقہ فطر ادا کرنے والے کو چاہئے کہ اس چیز کاایک صاع ادا کرے جو علاقے کی عام غذا ہو۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کا عام طعام (کھانا) یہ چیزیں تھیں:
جو، گیہوں/گندم، کھجور، پنیر، اور خشک انگور.
اب اگر کسی علاقے کی غذا ان چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہو تو اس سے بھی صدقہ فطر نکال سکتے ہیں، لہذا جن علاقوں میں:
چاول، آٹا، چنا، دال، مٹر، مکئی، باجرہ اور گوشت (بعض فقہا کے قول کے مطابق) وغیرہ بطور غذا استعمال ہوتے ہوں تو وہاں کے لوگ ان اجناس / اشیا سے بھی فطرانہ ادا کر سکتے ہیں. 
ایسی چیز جو انسانی غذا نہ ہو بلکہ جانور کی خوراک ہو اس کا نکالنا کافی نہیں ہوگا.
اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسان کا طعام (خوراک/غذا /قوت) زمان اور مکان کے اعتبار سے مختلف ہو سکتا ہے.
مثلاً “جَوْ” اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک(بلکہ کچھ دہائیاں قبل ہندوستان)میں عام لوگوں کی خوراک تھی، لیکن اب یہ خلیجی ممالک میں جانور کی خوراک ہے، لہذا اب اس کا نکالنا کافی نہیں.
اسی طرح “مکئی” کی کھیتی ہمارے علاقے میں خوب ہوتی ہے، لیکن بہت ہی کم لوگ اس کی روٹی یا ستو کھاتے ہیں، بلکہ سارے لوگ اسے بیچ دیتے ہیں یا کچھ جانور(گائے اور بھینس) کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں، لہذا اس کا فطرانہ نکالنے سے پہلے انسان کو غور کر لینا چاہیے.

Leave a ReplyCancel reply

Discover more from Nukta Guidance Articles

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Exit mobile version