فرقہ واریت اور مسلک پرستی میں فرق

فرقہ واریت اور مسلک پرستی

فرقہ واریت اور مسلک پرستی میں فرق

(تحریر: سید عبدالوہاب شاہ شیرازی)

مسلمانوں میں فرقہ واریت اور مسلک پرستی یا گروہ بندی کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے، اگر ہم اس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ مسلک پرستی اور گروہ بندی ہمیں موسی علیہ السلام کی امت بنی اسرائیل کے دور میں بھی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔اس کے بعد سلیمان علیہ السلام کا زمانہ آتا ہے پھر ان کی وفات کے بعد یہودیوں نے سیاسی اور مسلکی اختلافات کی بنیاد پر اپنی قوم کو دو واضح حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ یہ سیاسی اور مسلکی اختلافات اس کے بعد ہمیشہ مسلمانوں میں اسی طرح چلتے رہے، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے بعد کے دور میں یہ اختلافات بہت گہرے ہوگئے۔

 جیسے آج مسلمانوں میں دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث وغیرہ وغیرہ جتنے تعارف ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے زمانے کے مسلمانوں نے اسی طرح اپنی پہچان یہودی اور عیسائی وغیرہ کے ذریعے کروائی تھی اور پھر اس پر اتنے پکے ہوگئے کے پیغمبر آخرالزمان کے آنے کے بعد بھی اپنے فرقے کو نہ چھوڑا اور آج تک دنیا میں یہودی اور عیسائی نامی باطل مذاہب موجود ہیں۔

اس چھوٹے سے رسالے فرقہ واریت اور مسلک پرستی میں، میں نے علمائے امت کے ان اقوال و خیالات کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے جس میں مسلکی اختلافات کی مذمت اور نقصانات پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔لیکن اس سے پہلے میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کے سامنے یہ واضح کر دیا جائے کہ فرقہ واریت اور چیز ہے اور مسلک پرستی اور چیز ہے۔ اگرچہ دونوں قابل مذمت ہیں لیکن ان میں فرق کرنا ضروری ہے۔چونکہ عام طور پر فرقہ واریت کا نام استعمال کرتے ہوئے علمائے اسلام اور مسلمانوں کو طعنے دیے جاتے ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو مسلمانوں کو گروہوں میں تقسیم کرکے مجموعی لحاظ سے کمزور کرنے اور زوال کا شکار کرنے والے علماء اسلام نہیں بلکہ سیاسی قائدین ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلک پرستی کو ہوا دے کر بعض علماء نے بھی مسلمانوں نے مذہبی گروہ بندی کو فروغ دیا ہے لیکن امت پر زوال لانے کے اصل ذمہ دار سیاسی قائدین ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو ایسی گروہ بندی میں تقسیم کیا ہے جس نے نہ صرف اسلام کو نقصان پہنچایا بلکہ مسلمانوں کو غلامی کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیا۔

فرقہ واریت اور مسلک پرستی میں فرق

یہاں ہمیں یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ اصل فرقہ واریت کیا ہے اور اسے کون پھیلا رہا ہے۔ قرآن کریم فرقان حمید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوْا شِیَعًالَسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَی

بے شک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور وہ ہو گئے پارٹی پارٹی،(اے پیغمبر) آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے جس فرقہ واریت کی مذمت کی ہے وہ”فرقہ واریت فی الدین“ ہے، یعنی دین میں فرقہ واریت کرنا، عام طور پر ہم جب بھی فرقہ واریت کا نام سنتے ہیں تو ہمارا ذہن دینی جماعتوں اور مسالک کی طرف چلا جاتا ہے، حالانکہ یہ فرقہ واریت فی الدین نہیں ہے، بلکہ یہ فرقہ واریت فی المذہب یا مسلک پرستی ہے۔یعنی ان کا اختلاف فروعی اختلاف ہے، جبکہ قرآن فرقہ فی الدین کی مذمت کر رہا ہے۔

 اب ہمیں پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ ”دین“ کسے کہتے ہیں؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے اس سے بھی پہلے یہ سمجھیں کہ انسانی زندگی کے چھ گوشے ہیں، یعنی دنیا کا ہر انسان اپنی زندگی میں ان چھ گوشوں کے ساتھ کسی نہ کسی صورت وابستہ ہوتا ہے:

عقائد،  2۔عبادات،  3۔رسومات،  4۔معاشرت،  5۔معیشت،  6۔سیاست

ان چھ چیزوں کے مجموعے کو دین کہا جاتا ہے، دنیا کے ہر انسان کا کوئی نا کوئی عقیدہ ضرور ہوتا ہے، ہر انسان کا کوئی نا کوئی عبادت کا طریقہ اور اپنی رسومات ادا کرنے کا طریقہ ضرور ہوتا ہے، دنیا کا ہر انسان کسی نا کسی معاشرے کا حصہ بھی ضرور ہوتا ہے، اور ہر انسان کسی نا کسی صورت معیشت کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے، اور دنیا کے ہر انسان کا کوئی نا کوئی سیاسی نظریہ اور سوچ بھی ضرور ہوتی ہے۔

عام طور پر پہلی تین چیزوں یعنی۔1۔ عقائد،  2۔عبادات،  3۔رسومات،کو مذاہب میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ اگلی تین چیزوں کو دین (نظام) میں شمار کیا جاتا ہے۔ دین اور مذہب میں عام خاص مطلق کی نسبت ہے۔

ان چھ چیزوں کے مجموعے کو دین کہا جاتا ہے اور دین کا جزوے اعظم سیاست ہے۔ اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ اگرچہ عقائد، عبادات اور رسومات میں لوگوں کو گروہ بندی میں تقسیم کرنا بھی فرقہ واریت ہے لیکن اصل فرقہ واریت اور گروہ بندی لوگوں کو سیاسی لحاظ سے تقسیم کرکے پارٹی پارٹی بناکر ایک دوسرے کا دشمن بنانا ہے۔ اور اسی سیاسی فرقہ واریت نے نہ صرف اسلام بلکہ پوری انسانیت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ہم انسانی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آتا ہے دنیا میں کروڑوں لوگوں کا قتل عام سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ہوا ہے، دنیا کی بڑی بڑی جنگیں سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ہوئی ہیں اور آج بھی مسلکی بنیادوں پر اگرچہ اختلاف تفرقہ بازی تو ہوتی ہے لیکن قتل عام نہیں ہوتا سوائے چند انفرادی واقعات کے۔

دنیا میں ہمیشہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور حکمرانوں نے عوام کو سیاسی لحاظ سے تقسیم رکھ کر اپنی حکومت کو مضبوط بھی کیا ہے اور طول بھی دیا ہے۔اگر آج ہم اپنے ملک پاکستان کو دیکھیں تو یہاں اگرچہ مسلک پرستی کی بنیاد پر گروہ بندی ہمیں نظر آتی ہے لیکن کیاہمارے دنیا میں زوال، ملک کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی تباہی کی ذمہ داریہ مسلک پرستی ہے؟ تو اس کا جواب ہے نہیں، ہمارے زوال کا اصل سبب سیاسی اور معاشی فرقہ واریت ہے، پوری قوم کو سیاسی لحاظ سے چار پانچ بڑی سیاسی گروہوں میں تقسیم کرکے چار پانچ سو خاندان 75 سال سے اس عوام کو غلام بنا کر ان پر حکومت کر رہے ہیں، ملک کی وہ تین پارٹیاں اور اسٹیبلشمنٹ جو اس ملک پر ہمیشہ حکمرانی کرتی آئی ہے ان تمام میں چند خاندان ہیں جو آپ میں رشتہ داریاں رکھتے ہیں اور بندر بانٹ سے حکمرانی کرتے ہوئے ملک و قوم کو لوٹ کر کھا رہے ہیں، عیاشیاں کررہے ہیں۔

کیا آپ نے کبھی سنا کہ رفع یدین نہ کرنے کی وجہ سے اندونیشیا نے ملائشیا پر حملہ کردیا؟ کیا آپ نے کبھی سنا کہ صلوۃ سلام نہ پڑھنے کی وجہ سے ترکی نے پاکستان پر میزائل مار دیا؟ امریکا نے عراق پر حملہ کرکے دس لاکھ لوگوں کو شہید کردیا، افغانستان پر حملہ کرکے پندرہ لاکھ لوگوں کو شہید کردیا، یہ کس لیا کیا؟ کیا اس لیے کہ تم جنازے کے بعد دعا کیوں کرتے ہو؟ نہیں نہیں، بلکہ یہ قتل عام اس لیے ہوا کہ تم اپنا نظام قائم نہیں کرسکتے، تمہیں ہمارا جمہوری نظام قائم کرنا ہوگا۔ اسی طرح روس نے افغانستان پر حملہ کرکے لاکھوں لوگوں کو شہید کردیا تھا، کیا یہ حملہ اس لیے ہوا تھا کہہم تو کسی خدا کو نہیں مانتے  تم خدا کو کیوں مانتے ہو؟  نہیں نہیں یہ حملہ خالصتا معاشی مفادات کے لیے تھا۔

اس ساری گفتگو سے ہمیں یہ معلوم ہوا اصل فرقہ واریت سیاسی فرقہ واریت ہے جس نے قوم کو پارٹیاں پارٹیاں بنا کر ایسے گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے جو ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں۔ اس حقیقت کے واضح ہونے کے بعد اب میں تمام مسالک کے علمائے دین کے اقوال اور تحریرات میں سے کچھ حوالے پیش کررہا ہوں جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اکابر علماء نے مسلک پرستی اور مسلکی شدت پسندی کے خاتمے کے لیے کتنی کوششیں کی ہیں۔



نوٹ: یہ تحریر فرقہ واریت اور مسلک پرستی میں فرق نامی کتابچے سے لی گئی ہے، جو کہ فرقہ واریت اور مسلک پرستی کی مذمت، نقصانات اور اتحاد امت کے فوائد پر اکابرین امت کے خیالات و اقوال پر مبنی اہم رسالہ۔ جس میں یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ فرقہ واریت اور مسلک پرستی میں فرق کیا ہے، اور اصل فرقہ واریت کیا ہے اور اس کے کون ذمہ دار ہیں؟

مکمل رسالہ پی ڈی ایف PDF ڈاون لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

فرقہ واریت اور مسلک پرستی
فرقہ واریت اور مسلک پرستی

Leave a Reply