فرد اور اجتماعیت
(سیدعبدالوہاب شیرازی)
پہلی بات:
*۔۔۔زمین اپنے محور کے گرد گھومتی ہے،(یعنی اپنا کام کررہی ہے) زمین اپنی اس گردش کے دوران سورج کے گرد بھی گھومتی ہے۔
*۔۔۔زمین اپنی اس انفرادی حیثیت کے ساتھ ساتھ ایک اجتماعی نظام ’’نظام شمسی‘‘ کا بھی حصہ ہے۔ اور وہ پورا نظام شمسی بھی (اپنے سیاروں اور چاندوں سمیت)رواں دواں ہے، پھر وہ بھی اپنے سے بڑی ایک اور اجتماعیت ’’کہکشاں ‘‘ کا حصہ ہے۔پھر یہ کہکشائیں بھی اپنے سے بڑی ایک اور اجتماعیت ’’گلیکسی‘‘ کا حصہ ہیں۔الغرض ہر کرہ حرکت میں بھی ہے اور کسی اجتماعیت کا حصہ بھی ہے۔
اسی طرح دنیا کی ہر چیز اپنی انفرادی حیثیت کے ساتھ ساتھ کسی اجتماعیت کا حصہ بھی ہے۔ چاہے وہ درخت ہوں یا پھل پھول پودے۔ درند، چرند، پرند ہوں یا خشکی تری کے جاندار وغیرہ۔ ہر کوئی کسی نا کسی اجتماعیت کا حصہ ہے۔اس سے معلوم ہوا کائنات کا مزاج اجتماعیت والا ہے۔
دوسری بات:
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
یاایہاالذین آمنوا اتقواللہ وکونوا مع الصادقین۔
اے ایمان والو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ جڑ جاو۔ اس آیت کریمہ میں دو باتوں کا حکم ہے:
۱۔ انفرادی سطح پر تقویٰ اور خدا خوفی پیدا کرو۔ ۲۔ اس کے ساتھ ساتھ سچے اور نیک لوگوں کے ساتھ جڑ جاو۔
یعنی اپنی ذات میں تقوے والی زندگی (جس میں فرائض، واجبات اور اللہ رسول کی اطاعت ۔ اور حرام اور نافرمانی سے بچتے ہوئے)گزارو۔
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سچے اور نیک لوگوں کے ساتھ جڑنا بھی شروع کرو، اکیلے نہ رہو۔
تیسری بات:
آخرت کا منظر اور سین: قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وکلہم آتیہ یوم القیامۃ فردا۔
اور وہ سب کے سب قیامت والے دن اکیلے اکیلے آئیں گے۔
یعنی قیامت والے دن اللہ کے حضور پیشی انفرادی ہوگی، ایک ایک فرد کو اکیلے اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر حساب کتاب دینا ہوگا، وہاں پیشی قوموں، قبیلوں، جماعتوں کی شکل میں نہیں ہوگی، کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکے گا ۔وہاں اپنے ہی اعمال کام آئیں گے، کوئی دوسرا کسی کے کام نہیں آئے گا، نہ اپنی ذمہ داری کسی دوسرے پر ڈالی جاسکے گی۔یہاں تک کہ شیطان پر بھی ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکے گی حالانکہ دنیا میں وہ بہکاتا بھی رہا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث میں یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ انسان کو اعمال صالحہ کی حفاظت اور پابندی کے لیے پاکیزہ اجتماعیت کا حصہ بننا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ اکیلا ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے۔ جیسے اکیلے کو چور ڈاکو آسانی سے لوٹ سکتے ہیں اور آٹھ دس کو لوٹنا مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح دین ایمان کے ڈاکو شیاطین اور انسان نما شیاطین بھی اکیلے آدمی کا دین ایمان آسانی سے لوٹ لیتے ہیں جبکہ جہاں’’ کونوا مع الصادقین‘‘ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے چند سچے اور نیک لوگ اپنی اجتماعیت قائم کردیں ان کو لوٹنا یا گمراہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔لہٰذا فرد اور اجتماعیت کے اپنے اپنے دائرے ہیں۔
اجتماعیت کی اہمیت
*۔۔۔علیکم باالجماعۃ، وایاکم والفُرقۃ، فان الشیطان مع الواحد، وھو من الاثنین اَبعدُ۔
تم جماعت کو لازم پکڑو، اور فرقہ فرقہ ہونے سے بچو۔ کیونکہ شیطان اکیلے کے ساتھ اور دو سے دور ہوتا ہے۔
*۔۔۔یداللہ علی الجماعۃ، ومَن شَذَّ شُذَّ الی النار۔
اجتماعیت اور جماعت کے ساتھ اللہ کی مدد ہوتی ہے، اور جو جماعت سے کٹا وہ جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔
*۔۔۔انہ لا اسلام الا باالجماعۃ، ولا جماعۃً الا بِاَمارۃٍ، ولا امارۃ الا بطاعۃٍ۔
جماعت کے بغیر کوئی اسلام نہیں۔ اور امیر کے بغیر کوئی جماعت نہیں۔ اور اطاعت امیر کے بغیر کوئی امارت نہیں۔
*۔۔۔مَن مات ولیس فی عنقہٖ بیعۃٌ مات میتۃً جاھلیۃً۔
جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں (امیر جماعت کی)بیعت کا قلادہ نہ ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
یعنی بغیر جماعت اور بغیر بیعت امیر کے زندگی گزارنا اسلام سے پہلے جاہلیت کے دور کی باتیں ہیں، اسلام نے اپنا ایک نظام دیا ہے جس میں ہر فرد اجتماعیت کی لڑی میں پرویا ہوا اور امیر کی بیعت میں بندھا ہوا ہے، شتر بے مہارکی طرح کوئی نہیں۔
*۔۔۔عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: قرآن میں ’’حبل اللہ‘‘ سے مراد جماعت اور اجتماعیت ہے
*۔۔۔یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان فطرتاً اجتماعیت پسند ہے۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام جنت میں بھی اکیلے اداس اداس تھے لیکن جب حضرت حوا کو پیدا کیا گیا تو تب ان کی اداسی ختم ہوئی کیونکہ اب دو افراد کی چھوٹی سی اجتماعیت قائم ہوگئی۔ اس سے یہ بھی پتا چلا کے اجتماعیت پسند فطرت انسانی میں رکھی ہوئی ہے۔
*۔۔۔انسان گروہوں، قبیلوں، اور جماعتوں کی شکل میں رہنا پسند کرتا ہے۔چنانچہ تاریخ انسانی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ انسان ہمیشہ مل جل کر رہتے رہے ہیں۔
*۔۔۔ماہرین نفسیات بھی کہتے ہیں: ایک طرف انسان میں ’’انا‘‘ خودی اور انفرادیت ہے تو دوسری طرف اجتماعیت کا حصہ بننا بھی پسند کرتا ہے۔
*۔۔۔اسلام میں ایک طرف اپنی ذات اور اعمال کا ذمہ دار انسان کو خود قرار دیا گیا ہے تو دوسری طرف اجتماعیت کے ساتھ جڑے رہنے کا حکم بھی اسلام نے ہی دیا ہے۔
حاصل سبق
اگر کوئی فرد بہت متحرک ہو لیکن کسی اجتماعیت کا حصہ نہ بنے تو یہ مطلوب نہیں، کیونکہ یہ فطرت کے خلاف بھی ہے اور اسلام کے خلاف بھی۔
اگر کوئی فرد ساکت ہولیکن ساتھ ہی کسی اجتماعیت کا حصہ بن جائے تو یہ بھی پسندیدہ نہیں کیونکہ اپنی ذات اور اعمال کا وہ خود ذمہ دار ہے۔
ایک فرد اپنی ذات میں کتنا ہی متقی کیوں ہو لیکن قرآن اسے سچوں کے ساتھ جڑنے کا حکم دیتا ہے تاکہ یہ انفرادی نیکی کسی بڑے اجتماعی نظام کے قیام میں حصہ ڈال سکے۔
ایک فرد نافرمان ہو، بدی کے راستے پر چل رہا ہو، لیکن ساتھ وہ کسی اجتماعیت کا حصہ بن کر یہ سمجھے کہ یہ اجتماعیت مجھے آخرت میں بچا لے گی تو یہ بھی اس کی بھول ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اجتماعیت مضبوط کیسے ہوتی ہے؟
ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفاً کأنہ بنیانٌ مرصوص۔
بے شک اللہ کو وہ لوگ محبوب ہیں جو اس کی راہ میں صف بنا کر ایسے قتال کریں جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار۔
یہ بہت جامع آیت ہے جس میں کئی سبق مضمر ہیں:
۱۔یقاتلون:۔۔۔۔۔۔ اللہ کو اپنے بندوں میں سے وہ بندے محبوت ہیں جو اس کی خاطر اس کی راہ میں جان کی بازی لگانے اور خطرات مول لینے کے لیے تیار بیٹھے ہوں۔
۲۔فی سبیل اللہ۔۔۔۔۔۔ وہ بندے شعوری طور پر سوچ سمجھ کر اس کی راہ (فی سبیل اللہ) میں قتال کریں۔ نہ کہ کسی اور راہ یا کسی اور مقصد کے لیے۔
۳۔صفا۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ بدنظمی اور انتشار کا شکار نہ ہوں بلکہ مضبوط تنظیم کے ساتھ صف بستہ ہو کر لڑیں۔ یعنی وہ منظم اجتماعیت میں پروئے ہوئے ہوں۔صرف بھیڑ یا رش نہ ہو بلکہ انتہائی منظم اور ڈسپلن کی پابند اجتماعیت والے ہوں۔
۴۔بنیان مرصوص۔۔۔۔۔۔ کوئی بھی اجتماعیت اس وقت تک سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہیں بن سکتی جب تک چار صفات پیدا نہ ہوں:
۱۔عقیدے اور نصب العین میں مکمل اتفاق: اگر اس میں اختلاف ہوگا تو مضبوطی قائم نہیں رہ سکتی لہٰذا ایک عقیدے پر جمع ہونا اور ایک مقصد پر فوکس کرنا ضروری ہے۔
۲۔ایک دوسرے پر اعتماد: ایک دوسرے کے خلوص پر اعتماد کرنا، نہ کہ شک کیا جائے۔ اگر اعتماد نہیں ہوگا تو یہ اجتماعیت سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہیں بن سکتی ۔
۳۔اخلاق اور احترام کا اعلیٰ معیار:اگر یہ نہیں ہوگا تو نہ ایک دوسرے کی محبت پیدا ہوگی اور نہ عزت و احترام۔ نتیجۃً آپس میں ہی تصادم کا خطرہ ہے۔
۴۔اپنے مقصد اور نصب العین کے ساتھ عشق اور ایسا جذباتی لگاو جو سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ کردے۔
یہ وہ اوصاف تھے جو صحابہ کرام کی جماعت میں پیدا ہوئے تو دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئیں۔
یہ وہ اوصاف تھے جو اجتماعیت کو مضبوط بناتے ہیں۔ البتہ جہاں تک تعلق ہے اجتماعیت کو قائم رکھنے والی بنیادوں کا تو وہ مندرجہ ذیل ہیں:
اجتماعیت کو قائم رکھنے والی بنیادیں۔
1۔ بیعت
بیعت کا معنی ہے عہد وپیمان۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت لیتے تھے۔عام عہد باہمی رضامندی سے منسوخ ہو سکتے ہیں لیکن بیعت شرعی منسوخ نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ ایک دیہاتی نے بیعت کی اور مدینہ میں آباد ہوگیا، پھر آب وہوا موافق نہ آئی تو جاتے ہوئے بیعت کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا لیکن حضورﷺ نے یہ مطالبہ رد فرمادیا، اس نے باربار بیعت کی منسوخی کا مطالبہ کیا لیکن حضور ﷺ نے قبول نہیں فرمایا۔
2۔ سمع و طاعت
اطاعت فی المعروف واجب ہے۔علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں: اگر امیر خود تو فاسق و فاجر ہو لیکن معروف کا حکم کرے، یہاں تک کہ معروف مباح کا حکم بھی کرے تو اس کی اطاعت واجب ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا: اگر تمہارا امیر ’’حبشی‘‘ ’’غلام‘‘ ’’کان ناک کٹا‘‘ ہو تو بھی اطاعت کی جائے۔ (مسلم)
چنانچہ آپ ﷺ نے امیر کی اطاعت کو اطاعت الٰہی قرار دیا۔
3۔ نصح و خیر خواہی
یہ دونوں طرف سے ضروری ہے۔ مامور اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے اور امیر زیادتی اور ظلم نہ کرے۔ چنانچہ جہاں ایک طرف مامور کو ہر حال میں اطاعت امیر کا حکم دیا گیا ہے وہی امیر کو بھی وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ فرمایا:
جس امیر نے رعیت کے ساتھ دھوکہ کیا اس پر جنت حرام ہوگی۔(مسلم)
جس امیر نے رعیت کو مشقت میں ڈالا اللہ اسے مشقت میں ڈالے گا اور جس نے نرمی برتی اللہ اس سے نرمی برتے گا۔(مسلم)
*۔۔۔اگر امیر میں کمزوریاں ہوں توشرعی حدود اور ادب واحترام کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کو دور کرنے کی اسی طرح کوشش کرے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتادیا، چنانچہ فرمایا:
جو شخص کسی امیر یا صاحب منصب کو نصیحت کرنا چاہے تو اعلانیہ نہ کرے، بلکہ اس کا ہاتھ پکڑے اور تنہائی میں(ون ٹوون ملاقات، یا متعلقہ فورم پر) کرے۔ اگر تو وہ قبول کرلے تو ٹھیک، ورنہ نصیحت کرنے والے نے اپنا فرض ادا کرلیا۔
4۔عدل وانصاف
کسی بھی اجتماعیت کو قائم رکھنے کے لیے ’’عدل‘‘ بنیادی پتھر ہے۔اس کے بغیر اجتماعیت بکھر جاتی ہے۔ اسی لیے فرمایا:
ان اللہ یأمرباالعدل والاحسان
یعنی اللہ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔
احادیث میں عادل حکمران کے بارے فرمایا: یوم محشر وہ عرش کے سائے تلے ہوگا۔
عمربن عبدالعزیز ؒ نے کعب القرطی سے پوچھا عدل کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:
تم چھوٹوں کے حق میں باپ بن جاو، اور بڑوں کے حق میں بیٹا بن جاواور ہمسروں کے حق میں بھائی بھائی بن جاو۔
5۔مشاورت
یعنی دوسروں سے رائے لینا۔ اس سے دوسروں میں احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے۔ غووفکر اور تبادلہ خیال کا طریقہ آتا ہے۔ خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ مشاورت میں اپنی رائے خلوص اور دلائل کے ساتھ دینے کے بعد دوسروں کی رائے کا احترام بھی ضرور ی ہے۔
6۔ تنقید و احتساب
کسی بھی اجتماعیت میں تنقید برائے اصلاح بہت اہم ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسی تنقید جو برائے اصلاح ہو اس کی حوصلہ افزائی لازما کرنی چاہیے۔ کیونکہ اجتماعیت میں کمزوریوں کا پیدا ہونا کوئی حیرت انگیز یا عجیب بات نہیں، بلکہ ایسا تو ہوتا رہتا ہے۔
*۔۔۔تنقید کی بھی کچھ حدود ہیں۔ اگر تنقید مناسب وقت، مناسب انداز، مناسب ماحول میں مناسب طریقہ کار سے کی جائے تو فائدہ مند ہوتی ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو نقصادہ ثابت ہوتی ہے۔
*۔۔۔مخلصانہ تنقید سے کسی کو بھی بالاتر نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ جو جتنا بڑا ذمہ دار ہے اسے اتنی ہی زیادہ تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھنا چاہیے۔
*۔۔۔تنقید کرنے والے کو بھی بڑے چھوٹے کے آداب اور مراتب کا خیال رکھتے ہوئے تنقید کرنی چاہیے، کیونکہ :
جراحات السنان لہاالتیام ولا یلتام ماجرح بہ اللسان
تلواروں کے زخم تو بھر جاتے ہیں لیکن زبان کے زخم نہیں بھرتے۔
چھری کا، تیرکا، تلوار کا گھاوبھرا
لگا جو زخم زبان کا رہا ہمیشہ ہرا۔
*۔۔۔اگر کوئی غلط انداز سے تنقید کررہا ہو تو اس کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے ورنہ مسلسل غلط انداز سے تنقید، اجتماعیت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
*۔۔۔غلط تنقید کرنے والوں کو بھی اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ: ان کی بیجا اور حدود سے نکلی ہوئی تنقید ان لوگوں کی قدرومنزلت میں بے جا اضافہ کررہی ہے جو ہر وقت تعریف وتحسین کرتے رہتے ہیں۔
*۔۔۔ہر فرد کو اپنی اصلاح ’’بے دردی‘‘ سے کرنی چاہیے۔ جبکہ دوسروں کی اصلاح میں نرمی برتنی چاہیے۔