قسط 24 عملیات سے توبہ کرنے والے کی کہانی

عملیات سے توبہ کرنے والے  استادبشیر احمد کی سبق آموز خودنوشت

جب میں نے عملیات کی دنیا میں قدم رکھا:

یہ1960ءکی بات ہے۔ میری عمر14برس تھی۔ ان دنوں میری چچی جان پر جنات کا سایہ تھا۔ آئے دن کوئی نہ کوئی عامل‘ جنات کو ماربھگانے کے لئے بلایاجاتا لیکن تمام تردعووں کے باوجود وہ جنات کسی کے قابو میں نہ آتے۔ بہرحال مجھے اس وقت یہ خیال آیا کہ ضرور کوئی ایسا عمل سیکھنا چاہئے کہ اگر کہیں ضرورت پڑجائے تو اس سے کام لیاجاسکے یا کسی کی پریشانی کو دورکرنے میں مدد لی جاسکے۔ لیکن آہستہ آہستہ جب میں نے اس شوق کی خاطر بھاگ دوڑ شروع کی تو کوئی عامل یااستاد صحیح رہنمائی نہ کرتا۔ میں نے ہمت نہ ہاری اور کوشش جاری رکھی۔ ہمارے شہر میں ایک سائیں صفاں والا ہوا کرتا تھا۔ میں نے اس کی بہت خدمت کی بلکہ میں نے انہی سے آغاز کیا۔ میرے علاوہ بھی بہت سے شائقین کی تعداد موجود تھی جو ہردم خدمت پر کمربستہ رہتی۔ ہرایک کو یہ فکر تھی کہ استاد کسی طرح خوش ہوجائے اور شاید کوئی عمل ہمیں سکھادے۔ لیکن اس نے کسی کو کچھ نہیں دیا۔ ابلیس کا تو بس نام ہی بدنام ہے۔ اصل کام تویہ ظالم لوگ کرتے ہیں جو دوسروں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ ان کی رہنمائی کرنے کی بجائے انہیں مزید گمراہ کرتے ہیں۔ اللہ اللہ کرکے سائیں نے مجھے ایک عمل بتایا جس کے وہ خود بھی عامل تھے۔ میں نے تین بار وہ عمل کیا لیکن مجھے کچھ حاصل نہ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ عامل لوگ ”عمل“ سے متعلق ایک آدھ اہم بات شاگرد کو نہیں بتاتے۔ اس طرح وہ عمل میں ناکام رہتاہے۔ پھراسے کہاجاتا ہے کہ عمل تم سے بھاری ہے یا اس میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ شاگرد مزید خدمت جاری رکھتاہے اورعامل کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ یہ سائیں کیونکہ ہمارے گھر کے قریب ہی تھے‘ اس لئے جو بھی فالتو وقت ہوتا‘میں ان کے پاس گزارتا۔ اس شوق کے ہاتھوں گھر سے کئی مرتبہ ڈانٹ ڈپٹ کاسامنا کرناپڑا۔ جب مجھے یہاں سے کچھ نہ ملنے کا یقین ہوگیا تو میں نے کسی اور استادکی تلاش شروع کردی۔ مجھے کسی نے بتایا کہ منڈی ڈھاباں سنگھ کے قریب نواں پنڈ میں صوفی عبداللہ رہتے ہیں جو ”باباجناںوالا“کے نام سے مشہورہیں۔ شوق کے ہاتھوں مجبورہوکر میں ایک دن اکیلاان کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا توانہوں نے کمال مہربانی فرمائی اور مجھے ایک عمل بتایا جس کو ایک مرتبہ پڑھنے پر دس منٹ صرف ہوتے تھے اور اسے 101مرتبہ پڑھنا تھا۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ یہ کتنا وقت بنتا ہوگا۔(یہ تقریباً16‘17گھنٹے کا عمل بنتاہے۔اس دوران سوچیں انسان کوئی نمازاداکرنے کے قابل تو کیا‘ اپنے کوئی معاشی اورمعاشرتی ذمہ داریاں بھی نہیں اداکرسکتا)یہ عمل 71 دن میں مکمل ہوا تو مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ میں غصے میں ان کے پاس گیا۔ انہیں امید نہ تھی کہ یہ لڑکا اتناسخت عمل کرلے گا۔ انہوں نے جعل سازی کو چھپانے کے لئے صرف ایک بات کہہ کر ٹال دیا کہ آپ کا منہ دوسری طرف تھا۔فلاں طرف نہیں تھا جس طرح سے جنات نے آنا تھا۔ میں نے کہا یہ میری حالت دیکھیں مجھے کس بات کی سزا دی ہے اور آپ نے یہ تو بتایا ہی نہیں تھا کہ منہ کس طرف کرنا ہے۔کہنے لگا بیوقوف تم ہو جس نے پوچھانہیں۔ جب انہوں نے یہ بات کہی تو میں غصے میں آپے سے باہر ہوگیا۔ جب میں واپس آنے لگا تو باباجی کہنے لگے ‘مجھے معلوم ہے تم بہت غصے میں ہو۔ اس لئے تمہیں کچھ ملنا چاہئے۔ تم نے بہت سخت محنت کی ہے۔ اس کا مجھے بھی دکھ ہے۔ اب ایک عمل ہے۔ وہ کرلو۔ ساڑھے چار گھنٹے کا عمل تھا جو 41دن مسلسل کرنا تھا۔ میں یہاں اس عمل کا طریقہ بتادیتا ہوں تاکہ لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں کہ کالے جادو کے لئے انسان کیا کچھ کر گزرنے پر آمادہ ہوتاہے۔ اس عمل میں صرف مردوں کو پکارنا تھا۔ میں رات بارہ بجے اٹھتا۔ گھر سے غسل کرکے قبرستان پہنچ جاتا۔پہلے سے منتخب بوسیدہ اور پرانی قبر کے پاوں کی طرف بیٹھ کر وہاں ساڑھے چار گھنٹے جو عمل انہوں نے بتایاتھا‘ اس کی پڑھائی کرتا۔ لیکن افسوس کہ 41دن مسلسل یہ سب کچھ کرنے کے باوجود مجھے کچھ حاصل نہ ہوا۔ بے مقصد وقت ضائع کیا۔آپ میرے دل کی کیفیت نہیں جان سکتے۔ میری تمام کوششیں بے کار ثابت ہورہی تھیں۔ جبکہ میرا شوق اتنا ہی بڑھتا جا رہا تھا۔ میں نے جعلی عاملوں کے پیچھے 15قیمتی سال ضائع کئے۔

ایک دھوکہ باز عامل سے ملاقات:

نارووال کے قریب ایک گاوں تھا۔وہاں ایک راجپوت قوم کا سائیں کالے خاں یاکالے شاہ رہتاتھا۔میں اس کے پاس پہنچا۔ اس نے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے بہت زبردست انتظام کیا ہوا تھا۔ وہ جہاں رہتاتھا‘ اس راستے پر اس نے ایک فرلانگ کے فاصلے پر اپنا ایک آدمی بٹھایا ہوتاتھا۔ جب میں وہاں جانے کے لئے اس راستے پر چلا تو ایک آدمی نے مجھے آواز دے کر بلایا اورمیرے ساتھ بہت محبت کے ساتھ پیش آیا۔ مجھے شربت پلاکرکہنے لگا کہ کیاکام ہے؟ کہاں جارہے ہو؟ میں نے سب کچھ بتادیا۔ ادھر یہ مجھ سے باتیں کررہاتھا اورادھرتمام باتیں واکی ٹاکی(وائرلیس) پرمذکورہ عامل سن رہا تھا۔ انہوں نے نیچے لائن بچھائی ہوئی تھی۔ اب جب میں وہاں پہنچا تو کالے شاہ نے مجھے میرے نام سے مخاطب کیا اور سب کچھ بتادیا کہ اس کام سے آئے ہو۔ میں اس کے کمال پر بہت حیران ہوا اور دل میں سوچا کہ اس شخص سے ضرور کچھ ملے گا۔ وہ مجھے کہنے لگا‘ ہم کام ضرور کرتے ہیں مگرمفت میں نہیں۔ میں 525روپے لوں گا۔میں نے کہا‘ میرے پاس تو صرف 50روپے ہیں۔ اس نے مجھے طنزیہ کہا شوق علم سیکھنے کا ہے اور پاس کچھ بھی نہیں۔ میں وہاں سے واپس آگیا لیکن کسی پل دل کو چین نہیں آتا تھا۔ دل کرتا تھا کہ اڑ کر وہاں پہنچ جاوں۔ بہت مشکل سے مطلوبہ رقم اکٹھی کی۔ ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے بہت عزت کی۔اپنے قریب بٹھایا‘روٹی کھلائی اورچند الفاظ کا عمل بتایا جو بہت مختصر تھا۔ جب 41دن پورے ہو گئے توحسب سابق کچھ حاصل نہ ہوا۔ سائیں صاحب کے پاس پہنچا اور انہیں بتایا۔وہ کہنے لگے کہ ہم نے تمہارے نام کی چراغی (ختم) پڑھائی تھی۔لیکن اسے جنات کے بادشاہ نے قبول نہیں کیا۔ اب 2100روپے کا مزید انتظام کرو۔ دوبارہ حاضری کے لئے اتنا خرچہ آجائے گا۔( آج کے حساب سے یہ رقم بہت زیادہ بنتی ہے، یہ 1960 کی بات ہورہی ہے)۔ اس کے بعد میں دوبارہ وہاں نہیں گیا۔ رقم بھی گنوائی‘سخت محنت کے نتیجے میں کچھ حاصل بھی نہ ہوا۔ لیکن میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ کچھ بھی ہو اس علم کو حاصل کرناہے۔ چودہ پندرہ سال کی انتھک محنت ‘راتوں کا جاگنا‘ گھرسے ڈانٹ ڈپٹ اور اس کے ساتھ ساتھ خراد کاکام بھی کرنا۔ جہاں کہیں عامل کاپتاچلتا‘ وہیں پہنچ جانا یہ میرامعمول تھا۔

استاد عبدالقیوم کی شاگردی، جس نے ٹھیک ٹھیک بتادیا

اس دوران مایوس ہوکر میں نے اپنے استاد سے بات کی۔ میں نے لکڑی کے خراد کاکام ان سے سیکھا تھا۔ وہ ملنگ جوگی تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ بہت وقت ضائع کیاہے لیکن کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔مجھے ان کے الفاظ آج بھی یاد ہیں۔کہنے لگے دورنگی چھوڑ‘یک رنگ ہوجا۔کہنے لگے اپنے آپ کومسلمان کہلواتے ہو اور یہ علم بھی مانگتے ہو۔شوق کا یہ عالم تھاکہ میں نے کہا‘ استاد جی ٹھیک ہے‘ آپ جو کہتے ہیں‘ وہی کروں گا۔ پھر میں نے جائز و ناجائز نہیں دیکھا۔ استاد جی نے کہا کہ اب تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ گھر میں ہی بیٹھو اور عمل کرو۔ بس عمل شروع کرنے سے پہلے ہم سے اجازت لے جاو۔ جادوگری اورشیطانی علوم سیکھنے کے لئے پہلے کام کا آغاز ہی شرک سے کرناتھا۔ غیر اللہ کو پکارناتھا۔ توحیدپرست ہونے کے باوجود میں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ کیا کررہا ہوں۔چند وظائف جو استاد نے بتائے تھے ‘میں نے ان کی اجازت سے شروع کئے۔ ان وظائف میں اللہ کے نام کا شائبہ تک نہ تھا۔ تمام تروظائف شرکیہ کلمات پرمبنی تھے۔ جب میں نے پہلا عمل مکمل کیا تو مجھے وہ کچھ حاصل ہوگیا جو میں کرنا چاہتاتھا۔ جب میں استاد صاحب کے پاس گیا توانہوں نے کہا کہ بتاو کچھ ملا کہ نہیں۔ تومیں نے ان کا بہت شکریہ اداکیا۔ ان عملیات کو سیکھنے کے بعد میں نے ان کو ہرجائز و ناجائز کام کے لئے خوب استعمال کیا۔لیکن اس دوران میرے بہت نقصان بھی ہوئے۔ میرے ہاں جواولاد پیداہوتی‘ فوت ہوجاتی۔ علامت یہ تھی کہ بچے کی پیدائش کے فوراً بعد اس کے جسم کی رنگت نیلی ہوجاتی۔علاج معالجہ سے بھی کوئی فرق نہ پڑتا۔ اس دوران میرے 4بچے فوت ہوگئے۔پراسرار علوم کا حصول اذیت ناک ہے۔ اس کے حصول کے لئے مصائب سے گزرنا پڑتاہے اور اس کے حصول کے بعدانسان نہ صرف ایمان کی دولت سے محروم ہوجاتاہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ شیطان کا ہمنوا بن کر اس کی خوشنودی کے حصول میں مگن رہتا ہے۔ اس واقعہ سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا۔ میرے ایک دوست صوفی کشور رحمان نے بھی اس دشت زار میں بہت وقت گنوایا لیکن وہ کچھ حاصل نہ کرسکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے۔

میں اللہ کاشکراداکرتاہوں کہ اس نے مجھے توبہ کی توفیق عطا کی۔ورنہ بہت سے عامل توبہ کی نعمت سے محروم ہی رہے اور وقت رخصت ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ میں اللہ سے دعا کرتاہوں کہ وہ مجھے استقامت دے تاکہ میں ان خطرناک نتائج کو منظر عام پر لاسکوں جس کے باعث ایک مسلمان اپنی آخرت برباد کرسکتاہے۔ہمارے ہاں عاملوں کی کثیر تعداد دم‘جھاڑ ‘غیر اللہ کی مدد سے کرتی ہے۔ لیکن عوام کو یہ کہہ کر دھوکہ دیاجاتاہے کہ ہم نوری علم کے ذریعے فیض پہنچارہے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جنہیں میں ذاتی طورپر جانتاہوں کہ وہ اپنے مریدوں کو متاثرکرنے کے لئے اندرون خانہ کالے علم کا سہارا لیتے ہیں۔بظاہر نیک نام اور شرافت کے پیکر یہ دھوکہ باز دنیاوی لالچ کے لئے اللہ کی کھلی نافرمانی کررہے ہیں۔

عورتوں کوآسانی سے بیوقوف بنایاجاسکتاہے:

ان دھوکہ بازوں کا چرچا عورتوں کی زبانی سنا جاسکتاہے۔ یہ عورتوں کے پیرمانے جاتے ہیں۔ عورتوں کا مسئلہ یہ ہے اگربیماری بھی آجائے تودواکی بجائے تعویذ کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس لئے انہیں آسانی سے بیوقوف بنایاجاسکتاہے۔ کیونکہ یہ کسی نہ کسی مشکل میں مبتلا رہتی ہیں۔ کسی کا شوہر ناراض ہے‘کسی نے رشتہ داروں سے بدلہ لینا ہے اور کسی کی بیٹی کی شادی نہیں ہوتی۔ یہ اس حد تک ضعیف الاعتقاد ہوتی ہیں کہ اگرکسی عورت کاکام نہ بھی ہو تو عامل یا پیر کو قصوروار نہیں ٹھہراتیں بلکہ اس کے الفاظ یہ ہوتے ہیں کہ پیرتو کامل تھا۔ بس قسمت نے میرا ساتھ نہ دیا ورنہ فلاں کابھی کام ہواہے‘فلاں کا بھی۔

اللہ کی پناہ دنیا کا کوئی اخبار پبلسٹی کا وہ کام نہیں کرسکتا جو ایک تن تنہا عورت سرانجام دے سکتی ہے۔ جب میں نے تعویذوں کے علم میں کمال حاصل کرلیا اوراپنے کام کاآغاز کیا تومیرا خیال تھا کہ میرے پاس کس نے آناہے۔ ابھی میں نے دو تین کام ہی کئے تھے کہ ضرورت مندوں کی قطاریں لگ گئیں۔ تعویذات کاعمل باقاعدہ ایک علم ہے۔ تعویذات کے عمل میں مجھے کس طرح کامیابی ہوئی‘ یہاں اس کا ذکر مناسب نہیں۔ اس سے لوگوں میں اسے سیکھنے کا شوق پیدا ہوگا۔ کیونکہ ہمارے ہاں سیدھے راستے پر چلنے کی بجائے الٹ راستے کاانتخاب کیاجاتاہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ جادو کے ذریعے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کیونکہ جادو نظروں پر کیاجاتاہے۔ جس طرح کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے مدمقابل جادوگروں نے رسیوں پر جو جادوکیا۔اس سے حقیقت توتبدیل نہیں ہوئی مگر موسیٰ علیہ السلام کو سانپ نظر آئے۔

جہنم میں جانے کاآسان طریقہ:

اس قسم کی باتوں میں ہرشخص دلچسپی محسوس کرتاہے اورکئی لوگوں کے دل میں وقتی طورپر یہ خیال ضرورآتاہوگا کہ کاش انہیں بھی کہیں سے ایک جن مل جائے یاکوئی کامل استاد ان کاوظیفہ عملیات مکمل کر دے۔لیکن یہ کام اتنے آسان نہیں۔ اس میں دنیا کے ساتھ ساتھ انسان کی آخرت بھی تباہ ہوجاتی ہے۔ یہ ایک ایسا شوق ہے جو انسان کو آسانی کے ساتھ جہنم میں لے جاسکتاہے۔ وہ لوگ جنہوں نے عملیات کی دنیا میں نام پیداکیا اوراخباروں میں ان کے بڑے بڑے اشتہار چھپتے ہیں ‘انہیں معلوم ہے کہ وہ کس عذاب سے گزر رہے ہیں۔بظاہر خوش وخرم نظرآنے والے اوربھاری نذرانوں کے عوض من کی مرادیں پوری کرنے والے اندرون خانہ کن حالات سے گزرتے ہیں‘ وہ ابھی آپ پڑھ لیں گے۔

کیاجنات قابومیں آتے ہیں؟

شب وروز کی محنت کے بعدعملیات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعدجولوگ جنات کوقابو کرنے کادعویٰ کرتے ہیں‘ میرے نزدیک وہ بے وقوف ہیں۔ کیونکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔جن کسی کے قابو میں نہیں آتے بلکہ عامل خود جنات کے قابو میں ہوتاہے۔ میرے ذاتی تجربات سے آپ دوباتوں کو آسانی سے سمجھ سکیں گے کہ عامل جنات کے قابو میں کس طرح آتاہے۔ یہاں اپنا ذاتی واقعہ بیان کررہاہوں۔ میں نے جو عمل کئے ہوئے تھے‘ ان میں بہت سے عمل جلالی اور جمالی تھے۔ کامیابی کے ساتھ عامل وظیفہ مکمل ہونے پر موکلات کو اپنا پابند کرنے کے لئے انہیں شرائط ماننے پر مجبور کرتاہے جس کے ذریعے اس نے ان سے کام لینے ہوتے ہیں۔ اس معاہدے میں بہت سی شرائط موکلات کی بھی ماننی پڑتی ہیں۔ ایک عمل میں جب مجھے کامیابی ہوئی تو موکلات نے مجھے تین باتوں کا پابند کردیا کہ لہسن نہیں کھانا‘ دہی نہیں کھانا‘اس نلکے کا پانی نہیں پینا جس میں چمڑے کی”بوکی“ استعمال کی گئی ہو۔ (دیکھیں کس طرح اس راہ میں حلال چیزیں حرام ہوجاتی ہیں)

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے رشتہ داروں نے ہماری دعوت کی۔ مجبوراً مجھے وہاں جاناپڑا۔انہوں نے بہت اچھا انتظام کیاہواتھا لیکن مجھے ڈر تھا کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہوجائے اور وہی ہوا۔ انہوں نے جو گوشت پکایا ہواتھا‘ اس میں انہوں نے لہسن ڈالاہواتھا۔ جب کھانا شروع ہوا تو سب کھانا کھارہے تھے اور میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا اور تذبذب میں مبتلا تھاکہ کیاکروں اورکیا نہ کروں؟ دعوت کرنے والے بھی ناراض ہورہے تھے اور ان کااصرار بڑھتا جارہا تھاکہ آپ کھانا کیوں نہیں کھارہے؟ میں نے انہیں کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں۔ آپ مجھے چینی لا دیں۔ میں اس کے ساتھ روٹی کھالوں گا۔ تووہ کہنے لگے کہ تھوڑا سا ہی کھالو۔ ہم نے اس میں زہر تو نہیں ڈالا ہوا مگرمیں جانتا تھا کہ میرے لئے وہ زہر ہی تھا۔ معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں کھانا کھاتے ہی مجھ پر مصیبت ٹوٹ پڑنی تھی اور میں نہیں چاہتاتھا کہ ان پر میری اصلیت ظاہرہو۔ کیونکہ انہیں میری صلاحیتوں کے بارے میں علم نہ تھا۔ جب انہوں نے مجبور کیا تومیں نے ایک لقمہ لگایا۔ وہ لقمہ ابھی میرے حلق سے نیچے نہیں اترا تھا کہ ایک جن نے آکرمجھے گردن سے دبوچ لیا اور کہنے لگاکہ عامل صاحب آپ نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور شرط توڑدی۔ اب ہم آپ پرغالب ہیں۔اب بتائیں آپ کے ساتھ کیا سلوک کریں؟ تومیں نے دوسرے عملیات کے سہارے ان سے جان چھڑائی اور بعد میں ان سے معذرت کی۔اگرمجھے اس کے علاوہ عملیات پر عبور نہ ہوتا تووہ جن مجھے جان سے ماردینے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ اس سے آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ عامل نے جنات کو قابوکیا ہوتاہے یا خود ان کے جال میں پھنس جاتاہے۔

واقعات توبہت سے ہیں لیکن اس طرح کا ایک اور واقعہ بیان کردیتاہوں۔ میں نے ایک عمل کیا۔ اس کی شرط یہ تھی کہ پیشاب وغیرہ کرنے سے پہلے اپنے ساتھ پانی رکھ کر گول دائرے کا حصار کھینچنا ضروری تھا۔ ایک مرتبہ میں سفرکررہاتھا کہ مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی۔کچھ دیر تومیں نے کنٹرول کیا لیکن جب نہ رہا گیا تومیں نے گاڑی سے نیچے اترکر پانی کی تلاش شروع کردی۔ لیکن نزدیک کہیں پانی نہیں مل رہاتھا۔ آخر دور ایک جگہ بہت بڑی کھال میں پانی نظرآیا۔ وہاں پہنچا‘ پیشاب کی شدت سے میرا براحال تھا۔ بڑی مشکل سے اپنے اردگرد بہت بڑادائرہ لگایا اور پھر پیشاب کرکے اس عذاب سے نجات حاصل کی۔ آپ اندازہ لگائیں مصیبت میں جن گرفتار ہیں یاعامل…؟

یہ بھی پڑھیں:

قسط نمبر23: جن نکالنے کے جھانسے میں سینکڑوں خواتین کی عصمتیں پامال

قسط نمبر22: جنات نکالنے والے

قسط نمبر21: عاملوں کی فریب کاریاں

ایک عامل کی حالت زار:

ہمارے نزدیک ایک گاوں کے زمیندار کو یہ شوق پیداہوا کہ کسی طرح عامل بن جاوں۔بڑی مشکل سے اس نے کسی سے عمل پوچھا۔اس نے پانی کے کنارے بیٹھ کر وہ وظیفہ پڑھنا شروع کردیا۔ مگراس وظیفہ میں کامیابی ہونے کی بجائے عمل الٹ ہوگیا اور جن اس زمیندارپرغالب آگیا اور اسے اپنی جان چھڑانی مشکل ہوگئی۔وہ زمیندار اس جن سے جان چھڑانے کے لئے بہت سے عاملوں کے پاس گیا مگر ہرایک نے یہ کہا کہ تم نے یہ مصیبت خود خریدی ہے۔ ہم آپ کی مدد نہیں کرسکتے۔

کالے جادوکے ماہرکی زندگی تباہ اور اولاد ہلاک ہوجاتی ہے:

جب کسی انسان پراللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی آزمائش مسلط کی جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں اسے دنیاوی نقصانات اور ذہنی پریشانیوں کا سامنا کرناپڑے تو ایسے حالات میں وہ گھبرا جا تاہے اور صدقہ و خیرات‘ ذکر واذکار اور اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کے ذریعے رجوع کرنے کے بجائے بے تابی کے ساتھ کسی ایسے پیر یا عملیات کے ماہر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتاہے جس کے بتائے ہوئے وظیفوں یا دئیے گئے تعویذوں کی بدولت اپنی دکھ بھری زندگی کو راحت وسکون میں بدل سکے۔ شاید ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ مشکل کشااللہ کی ذات ہے۔ اللہ بزرگ و برتر بہت رحم کرنے والے اور مہربان ہیں۔ ہم ہی نادان ہیں کہ اس کے در پرحاضری کی بجائے دربدربھٹکتے رہتے ہیں۔

ایسے لوگ تعداد میں زیادہ ہیں جو عاملوں کے کمالات او رفن کے مظاہرے دیکھ کر ان کے گرویدہ ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو عملیات سیکھنے کے شوق میں اپنی پرسکون زندگی کو نہ ختم ہونے والی بے سکونی کے زہر سے آلودہ کرلیتے ہیں۔ انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جس علم کو حاصل کرنے کی خواہش کررہے ہیں‘ اس کے حصول کی خاطر کن جان لیوا اور خطرناک مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

میرے استاد محترم کی آخری خواہش:

میرے استاد عبدالقیوم مرحوم کہاکرتے تھے۔مجھے ان عملیات کی بدولت بہت شہرت اورعزت نصیب ہوئی۔ دوست احباب کا وسیع حلقہ قائم ہوا۔ دولت کی بھی کوئی کمی نہیں لیکن یہ سب کچھ میرے کس کام کا؟ نہ ہی میری بیوی میرے پاس رہی اور اللہ کی خاص نعمت اولاد سے محروم رہا۔اب میرے بعد میرا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا۔ یہ سب دنیاوی آسائشیں میرے کسی کام نہیں آئیں گی۔ وہ کہا کرتے تھے‘ میں نے اپنی زندگی اپنے ہاتھوں تباہ کرلی۔ ان کی بہت خواہش تھی کہ کاش میری اولاد ہوتی۔ انہوں نے آخری عمر میں ان عملیات سے نجات حاصل کرنے کے لئے بہت جتن کئے کہ اللہ کا کوئی ایسا نیک بندہ مل جائے جو میری ان سے جان چھڑادے۔ لیکن انہوں نے اتنے بھاری اورسخت عمل کئے ہوئے تھے کہ مرتے دم تک تلاش بسیار کے باوجود انہیں کوئی ایسا عامل نہ مل سکا جو ان کی جان چھڑا دیتا اوروہ یہ حسرت دل میں لئے دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔

تعویذات ‘عملیات کے ذریعے من پسند شادیوں کاانجام:

یہاں میں ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے ایک بات بتادوں جوہزاروں روپے خرچ کرکے اس چکر میں رہتے ہیں کہ تعویذات کے ذریعے اپنی من پسند کی جگہ پرشادی کرالیں۔ اگروہ اس میں کامیاب ہوبھی جائیں توساری عمر ذلیل ہوتے رہتے ہیں۔ ایسی شادیاں کامیاب نہیں ہوتیں بلکہ انتہائی دردناک انجام سے دوچار ہوتی ہیں کیونکہ عامل نے لڑکی کے دل میں محبت پیداکرنے کے لئے جو موکل مسلّط کیاہوتاہے وہ آسانی کے ساتھ جان نہیں چھوڑتا۔اس کاعلاج بہت مشکل ہوتاہے۔ پھروہی موکل پورے خاندان یعنی بچوں اورخاوند کوبھی تنگ کرتاہے۔ اس طریقہ سے من پسند جگہ پر شادی کرانے والا شخص مرتے دم تک عاملوں کے لئے کمائی کا ذریعہ بن جاتاہے۔

میری توبہ کی کہانی:

پراسرارعلوم پر دسترس حاصل کرنے والے عاملوں کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔کالے پیلے عملیات اور موکلات کو زیر کرنے کے دوران مجھے بھی ان تلخ نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تمام عرصہ میں مجھے بہت سے نقصانات اٹھانے پڑے۔ میرے چار بچے یکے بعد دیگرے فوت ہوئے جو بچہ بھی پیدا ہوتا‘پیدائش کے چند گھنٹوں کے بعد اس کے جسم کی رنگت نیلی ہوجاتی جو اس بات کی نشانی تھی کہ یہ عملیات کا نتیجہ ہے۔ جنات کو قابو کرنے کا شوق ہی ایسا ہے کہ انسان کی عقل پر پردہ پڑ جاتاہے اوروہ اتنا بے حس ہوجاتاہے کہ اسے یہ احساس تک نہیں ہوتاکہ وہ جس راستے پرگامزن ہے اس کاانجام کتنا دردناک ہوگا۔ میری توبہ کا قصہ بھی عجیب ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کوکسی کی بھلائی مقصود ہوتی ہے تواس شخص کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے خود اسباب پیدا کردیتاہے۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم ہے کہ آدم کا ہربیٹا خطاکارہے۔ مگر بہترین خطاکار وہ ہے جواپنی غلطی تسلیم کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیتاہے اور آئندہ ایسے کاموں سے توبہ کرلیتاہے جسے اللہ پسند نہیں کرتے۔

یہ جمعہ کا دن تھا اورمیں خراد کاپرزہ خریدنے کے لئے لاہور گیا۔ کافی تلاش کے باوجوود مجھے وہ پرزہ نہ ملاکیونکہ اکثر دکانیں جمعہ المبارک کی وجہ سے بند تھیں۔نماز جمعہ پڑھنے کے لئے میں نے دالگراں چوک میں حافظ عبدالقادر روپڑی کی مسجد کا انتخاب کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت میرا ارادہ کرنا اللہ کی طرف سے رحمت کا سبب بن گیا۔ میں خطبہ شروع ہونے سے دس منٹ پہلے مسجد میں پہنچ گیا۔حافظ صاحب نے اس جمعہ میں قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں جادوگری‘ عملیات اور جنات کے ذریعے ناجائز کام لینے والوں کو ابدی جہنمی قرار دیا مگر انہوں نے یہ بات بھی بیان کی کہ جوشخص یہ سمجھ کر کہ مجھ سے گناہ ہوگیاہے اوراللہ سے توبہ کرکے اس کام کو چھوڑ دے تواللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ وہ اسے معاف کردیں گے۔ ان کی باتوں کا میرے دل پر زبردست اثرہوا۔

نمازجمعہ سے فارغ ہونے کے بعد میں حافظ صاحب کی خدمت میں حاضرہوا اور پوچھا کہ اگرکوئی شخص عملیات کے کام کو چھوڑنا چاہے تواسے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے توانہوں نے کہا کہ ایک تومضبوط ارادے کے ساتھ چھوڑے اور دوسرا یہ کہ مسلسل توبہ استغفار کرتارہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے۔وہ اس پررحم کرے گا اور اسے معاف فرمادے گا۔ میں نے اسی وقت مسجد میں بیٹھ کر اللہ سے عہد کرلیا کہ یہ سب کام چھوڑ دوں گا اورآئندہ کے لئے عملیات سے توبہ کرلی۔ جب میں مسجد سے باہر نکلا توایک راہ گیر مجھے ملا۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ پرزہ مجھے نہیں مل رہا۔ وہ شخص مجھے بازو سے پکڑ کر ایک قریبی دکان پرلے گیا اورکہا کہ اگریہ پرزہ یہاں سے نہ ملا تو پھرکسی اوردکان سے بھی نہیں ملے گا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے ضرور مجھ پررحمت کادروازہ کھول دیا ہے۔ میں وہ پرزہ وہاں سے خرید کر گھرواپس آگیا۔

اب میں نے یہ جدوجہد شروع کردی کہ جلد ازجلد عملیات سے جان چھڑائی جائے۔ میں بہت سارے عاملوں کو جانتاتھا۔ ان میں بہت سے روحانی علوم پر دسترس رکھنے والے بھی تھے۔ سب سے پہلے میں سنت پورہ گوجرانوالہ میںحافظ محمد یوسف کے پاس گیا اور ان کو اپنے پاس موجود عملیات کے ذخیرے کی تفصیل سے آگاہ کیا اور بتایا کہ اب میں انہیں چھوڑنا چاہتاہوں۔ میری گفتگو سن کر حافظ صاحب نے میری طرف بہت غصے سے دیکھا اور کہا کہ بیٹا جو کچھ تمہارے پاس ہے‘ اس کو لے کریہاں سے نکلنے کی بات کرو۔ یہ میرے بس سے باہر ہے۔ کچھ دن بعد میں نے حافظ صاحب کے ایک قریبی دوست کو جس کی بات وہ ٹال نہیں سکتے تھے‘ منت سماجت کرکے ساتھ لیا اور دوبارہ حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگیا تاکہ میرا مسئلہ حل ہوجائے۔ حافظ صاحب نے اپنے دوست کے ساتھ ناراضگی کااظہار کیا‘ تم کس کی سفارش کرنے آئے ہو۔ پہلی بات تویہ ہے کہ اس بچے نے جوعمل کئے‘ وہ سارے قرآن وسنت کے خلاف ہیں۔ دوسری بات یہ کہ میرے پاس اتنی طاقت نہیں کہ میں انہیں سنبھال سکوں کیونکہ مجھے نظر آرہاہے کہ اس کے موکلوں میں کوئی سکھ ہے ‘کوئی عیسائی اورکوئی ہندو ہے مگر حافظ صاحب کے دوست اور میرے سفارشی نے سمجھداری کامظاہرہ کیا اورکہا کہ اگریہ آپ کے بس کا روگ نہیں توکسی کا پتہ ہی بتادیں۔انہوں نے کہا کہ ڈسکہ کے قریب نندی پور کی جھال کے قریب اللہ کا ایک بندہ رہتاہے۔آپ اس کے پاس پہنچ جائیں۔ شاید آپ کاکام ہوجائے۔

آپ اندازہ کریں کہ جس علم کو حاصل کرنے کے لئے میں نے اپنی ساری زندگی کا سنہری دور ضائع کردیا اور دن رات سخت محنت ومشقت میں گزارے‘اب اس کوچھوڑنے کے لئے نئے سفر کا آغاز ہوا۔ چند دن بعدمیں حافظ صاحب کے بتائے ہوئے پرپتے پر پہنچ گیا۔ اس وقت اس اللہ کے بندے کی عمر 90,85سال کے قریب ہوگی۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے سختی سے کہا کہ نکل جاو یہاں سے۔ تم جو کچھ لے کر آئے ہو‘ یہ ہمارے والاکام نہیں۔ میں نے اس وقت اللہ سے فریاد کی کہ یااللہ! میں کس مصیبت میں پھنس گیاہوں۔ میں نے ان کی بہت منت سماجت کی کہ میری ان عملیات سے جان چھڑائیں لیکن انہوں نے بھی یہی کہا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں۔ ہاں البتہ آزادکشمیر میں ایک کالے علم کا ماہر عامل تمہاری مشکل حل کردے گا۔ مجھے سوفیصد یقین ہے کہ وہ تمہارے تمام عملیات کوخوش دلی سے قبول کرلے گا اورتمہاری جان چھوٹ جائے گی۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد میری بے قراری میں مزید اضافہ ہوگیا۔ چند دن کے بعد میں مظفرآباد آزادکشمیر میں اس عامل کے ڈیرے پرپہنچ گیا۔ اس نے آبادی سے کچھ فاصلے پر ایک پہاڑی کو اپنا مسکن بنایاہواتھا۔ شاید اسے پہاڑی پیر کہتے تھے۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تووہ مجھے دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ اس نے میری بہت عزت کی۔ میں نے اسے اپنی پریشانی سے آگاہ کیا تووہ مجھے کہنے لگا!ہماری مثال ان دوقیدیوں جیسی ہے جو ایک جیل میں بند ہیں۔ ایک قیدی دوسرے سے کہتاہے کہ مجھے آزاد کراو لیکن جو خود قیدمیں ہے‘ وہ دوسرے کو کیسے آزاد کرائے۔ اس نے کہا کہ میں بھی تمہاری طرح ان سے جان چھڑانا چاہتا ہوں لیکن ابھی تک اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوا۔مختصر یہ کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی کچھ مدد نہیں کرسکتے۔ میں نے اس کی بہت منت سماجت کی اور کہا کہ تمہاری جان چھوٹتی ہے یا نہیںلیکن جو کچھ میرے پاس ہے‘ اسے اللہ کے لئے اپنے پاس رکھ لو اوراپنے موکلات کی تعداد میں اضافہ کرلو۔وہ مجھے کہنے لگے کہ برخوردار! میں تم سے یہ سب کچھ لے لوں مگرمیرے موکلات اورنسل کے ہیں اورتمہارے موکل اورنسل کے۔ میں نئی مصیبت مول نہیں لے سکتا۔ میں جس مصیبت میں پہلے پھنسا ہوا ہوں‘ میرے لئے وہی کافی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ پھرمجھے کوئی ایسا عامل بتادیں جومیرا مسئلہ حل کردے تو وہ کہنے لگا کہ میرے خیال میں اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ جس شخص سے تم نے یہ عمل سیکھے ہیں‘ اگروہ زندہ ہے تواس کی منت سماجت کرو۔ وہ تمہاری جان چھڑا سکتاہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں یہ کام کرکے بھی دیکھ چکاہوںلیکن میرے استاد کہتے ہیں کہ جوتیرایک مرتبہ کمان سے نکل جائے‘ وہ کبھی واپس نہیں آتا۔ آزادکشمیر والا عامل بندہ توٹھیک نہیں تھالیکن اس نے مجھے جومشورہ دیا‘ اس سے مجھے کچھ حوصلہ ہوا۔ اس نے کہا کہ جب انسان بے بس ہوجائے اور اس کا کہیں چارہ نہ چلے توپھر ایک ذات اللہ بزرگ وبرترکی ہے۔ اگراس سے رجوع کرلے تووہ خود ہی کوئی سبب پیدا کردیتی ہے۔

میں اس کی یہ باتیں سن کر ناکام و نامراد آزاد کشمیر سے لوٹ آیا۔ اس کے بعد مجھے گجرات کے نزدیک کوٹلی تنوروالی میں ایک بزرگ کے بارے میں علم ہوا۔ میں ان کے پاس پہنچاتو انہوں نے بھی مجھے یہ کہہ کر جواب دے دیا کہ بیٹا جوکچھ تمہارے پاس ہے‘ مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کوسنبھال سکوں۔ تم نے سب سے مختلف اور مشکل عمل کئے ہیںلہٰذا کسی اور سے رابطہ کرو۔ایک دن میں نے شہر سے باہر آبادی سے دور ایک ویران مقام پر اللہ کے حضور طویل دعامیں اپنے دل کا غبار نکالا اور رو رو کر التجا کی کہ یا اللہ مجھے معاف کردیں اور میرے لئے آسانیاں پیدافرمائیں۔ اللہ کے حضوردعا کے دوران مجھ پر ایسی کیفیت طاری ہوئی جو زندگی میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی اور نہ شایدآئندہ کبھی ہوسکے۔ اس بناءپر میرے دل نے شہادت دی کہ اللہ نے تمہاری دعا سن بھی لی ہے اورقبول بھی کرلی ہے اور جلد تیرے علم کا سورج غروب ہوجائے گا اس کے بعد میں مطمئن گھرواپس آگیا۔(اورقارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے واقعی ان کی دعاسن لی اور انہیں ان عملیات سے نجات دے دی۔)

Leave a ReplyCancel reply

Discover more from Nukta Guidance Articles

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Exit mobile version