سید عبدالوہاب شیرازی
عمر کے چالیس سالوں میں علم وفکر کے ارتقائی اَدوار
انسان جب دنیا میں آتا ہے سب پہلے اسے صرف اتنا علم ہوتا ہے کہ ماں کی چھاتی سے دودھ کیسے پینا ہے، دنیا میں آکر اسے کوئی نہیں سکھاتا اور نہ ہی سکھانا ممکن ہوتا ہے بلکہ پیدائش کے فورا بعد اسی دن وہ ایسے دودھ پینا شروع کردیتا ہے جیسے اسے اچھا خاصا تجربہ ہے۔ یہ اللہ کی ذات ہے جو اسے یہ علم وتجربہ دے کر اس دنیا میں بھیجتی ہے،اللہ اکبر۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسان عمر کے جس حصے میں ہوتا ہے اپنے آپ اور اپنی سوچ وفکر اور علم کو کامل ومکمل سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے دوسروں سے جھگڑے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی انسان یہ سمجھے کہ میری معلومات ناقص ہیں تو کبھی بھی جھگڑا پیدا ہی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ الحدید کی آیت نمبر بیس میں ایک انسان کی زندگی میں اس کی فکر،سوچ،علم اور ترجیحات کے مراحل کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: اِعلموا انما الحیوة الدنیا لعب ولھو وزینة وتفاخر بینکم وتکاثر فی الاموال والاولاد۔کمثل غیث اعجب الکفار نباتہ ثم یہیج فترہ مصفرا ثم یکون حطاما۔ ترجمہ: خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال واولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات نے کاشت کاروں کو خوش کردیا، پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی، پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔
عام طور پر اس آیت کا لفظی ترجمہ کرکے ہم آگے گزر جاتے ہیں اور اس بات میں غور وحوض نہیں کرتے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے پانچ مختلف الفاظ میں انسانی زندگی کے پانچ ادوار بیان کیے ہیں، جنہیں ہم ایک انسان کا علمی یا ترجیحاتی ارتقاءبھی کہہ سکتے ہیں۔ لعب پانچ سال سے دس گیارہ سال کی عمر کا دور ہے۔ پھر”لہو“اٹھارہ انیس سال تک کی عمر کا دور ہے۔ پھر”زینہ“اٹھائیس تیس سال تک کا دور ہے۔ پھر”تفاخر“ اڑتیس چالیس سال تک کا دور ہے اور پھر اس کے بعد تکاثر فی الاموال والاولاد کا دور ہے۔
ذرا غور کیجیے! فرمایا: جان لو دنیا کی زندگی ”لعب“ ۔”لھو“۔ ”زینت“۔ ”تفاخر“۔ اور ”مال میں کثرت کی خواہش“ کا نام ہے۔ اب آپ ہرہر لفظ کو کسی ڈکشنری کی مدد سے دیکھیں کہ ان کے معانی کیا ہیں۔
1۔مثلا پہلا لفظ ہے ”لعب“، المنجد میں اس کا معنی لکھا ہے۔ بچے کے منہ سے رال ٹپکنا، کھیلنا، ایسا فعل کرنا جس پر کوئی فائدہ مرتب نہ ہو۔ چنانچہ بچوں کے اکثر افعال ایسے ہی ہوتے ہیں جن پر کوئی فائدہ مرتب نہیں ہوتا، جیسے ریت کے گھر بنانا، کھلونا گاڑیاں چلانا، وغیرہ وغیرہ تمام کام بالکل فضول اور کھیل برائے کھیل ہوتے ہیں۔ جن میں کوئی جسمانی لذت بھی نہیں ہوتی، لیکن وہ بچہ انہیں فضول نہیں سمجھتااس کے علم اور فکرکے مطابق یہ بہت بڑے کام ہوتے ہیں، چنانچہ اگر کوئی شخص کسی بچے کی گاڑی توڑ دے تو وہ روتا ہے اور اس کو اتنا ہی دکھ ہوتا ہے جتنا دکھ تیس سال کے شخص کو ایک کروڑ کا نقصان ہونے سے ہوگا۔
2۔اس کے بعد پھر دوسری سٹیج آتی ہے (نودس سال کے بعد)جسے Teen ager stage کہاجاتا ہے۔ یہ نہایت خطرناک دور ہوتا ہے، یہاں انسان صرف کھیلتا ہی نہیں بلکہ اب اس کے کھیلوں میں لذت کا حصول بھی شامل ہوجاتا ہے، یہ آوارگیوں کا دور ہوتا ہے، اس عمر میں کھیل برائے کھیل نہیں بلکہ کھیل برائے لذت ہوتا ہے۔ اس کے لئے قرآن نے ”لھو“ کا لفظ استعمال کیاجس کا معنی المنجد میں کھیل۔بہلاوا۔شغل اور غافل کرنے کی چیز کیا گیاہے۔
3۔اس کے بعد انسان پر تیسرا دور آتا ہے، جسے قرآن نے زینت کے الفاظ سے بیان کیا ہے، اس عمرکے نوجوان خصوصا لڑکیوں کے ذہن پر جو چیز ہروقت سوار ہوتی ہے وہ فیشن ہے۔ میں خوبصور ت لگوں، خوبصورت پہنوں۔ بال، چہرہ،لباس،جوتی سمیت ہرچیز خوبصورت ہو۔ گویا ساری سوچ وفکر،احساسات اور نفسیات میں نمایاں چیز یہی زینت ہوتی ہے۔
4۔پھرچھبیس ستائیس سال کے بعد زندگی کا وہ دور آتا ہے جس میں انسان ”تفاخر“ کا شکار ہوجاتا ہے۔وہ فخریہ طور پر دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ فخر علم پر بھی ہوسکتا ہے اور مال پر بھی۔ خوبصورتی پر بھی ہوسکتا ہے اور عبادت پر بھی، اپنے کنبے قبیلے پر بھی ہوسکتا ہے اور اپنے مسلک ومذہب پر بھی۔گویا اس دور میں آدمی ہر حال میں اپنی مونچھ اونچی رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
5۔پھر پینتیس چالیس سال کی عمر سے انسانی ذہن پچھلی ساری چیزوں کو فضول سمجھتے ہوئے بس ایک ہی دھن میں لگ جاتا ہے کہ کسی طریقے سے مال زیادہ سے زیادہ جمع ہوجائے، جسے قرآن نے ”تکاثر فی الاموال والاولاد“ سے تعبیر کیا ہے۔یعنی اس عمر میں آدمی سوچتا ہے مونچھ کٹتی ہے تو کٹ جائے لیکن پیسہ آجائے۔ یاد رہے مذکورہ پانچوں ادوار کے ہر دور میں آدمی اسی دور کو سب سے اعلیٰ،حتمی اور کامل ومکمل سمجھتے ہوئے پاگلوں کی طرح اس کام میںلگا رہتا ہے، نہ کسی سمجھانے والے کی نصیحت کا اثر قبول کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ڈراوا دھمکی اس کے آڑے آتی ہے۔
علم اور ترجیحات کے اس ارتقاءسے ہر انسان کا گزر ہوتا ہے، علم ،عمر اور مشاہدہ جیسے جیسے بڑھتا ہے انسان کی سوچ میں تبدیلی آتی رہتی ہے، پہلے دو ادوار میں انسان صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ تیسرے اور چوتھے دور میں خاندان،پھربرادری اور پھر مسلک اور فرقے کے بارے سوچتا ہے۔ لیکن چالیس سال کی عمر میں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ عقل مکمل ہوجاتی ہے انسان اپنے سے باہر نکلتا ہے اور پوری قوم، ساری امت اور پھرتمام انسانیت کے بارے سوچنا شروع کردیتا ہے۔سوچ کا یہ تغیرجتناجلدی مکمل ہواتنا ہی بہتر ہے اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی۔
آپ زندگی کے جس دور سے بھی گزر رہے ہیں آپ اس دور اور اس سے پہلے کے ادوار کو دیکھیں یہ حقیقت آپ کو صاف دکھائی دے گی۔ پھر آپ اپنے معاشرے کو دیکھیں، لوگوں کو دیکھیں، تنظیموں اور جماعتوں کو دیکھیں ان جماعتوں کی عمروں کو دیکھیں ان کے اندر بھی آپ کو یہی حقیقت نظر آئے گی۔اگر ایک جماعت کسی وقت اپنی مونچھ اونچی رکھنے کی کوشش کررہی تھی تو اب تیس چالیس سال کے بعد مفاہمت کی پالیسی پر گامزن ہے تو دوسری جماعت ابھی بھی وہی سوچ رکھتی ہے جو چوبیس پچیس سال کے نوجوان کی ہوتی ہے۔