علم طب کا سفر جادو سے عملی سائنس تک

طب کے لغوی معنی جادو کرنے یا علاج کرنے کے ہیں۔ اس کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود انسان کی۔ ایک عرصے تک اس علم کے بارے میں خیال رہا کہ یہ الہامی ہے اور آسمان سے نازل ہوا ہے جس کی وجہ سے یونان کے مندر اور دیوی دیوتا ہی علاج کا مرکز بنے رہے۔ یونان میں سب سے پہلے اسفلی بیوس نے باقاعدہ علاج شروع کیا مگر جلد ہی اس کی شہرت اس قدر بڑھی کہ اسے دیوتا تسلیم کرلیا گیا اور اس کی مورتی کی پوجا شروع کر دی گئی۔ اس زمانے میں یہ طریقہ رائج تھا کہ جب کسی دوا سے مریض کو آرام آجاتا تھا۔

تو اسے وہ سونے یا چاندی کی تختی پر کندہ کروا کے مندر میں لٹکا دیتا تھا، اس طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہاں بہت سی تختیاں اکٹھی ہوجاتی تھیں اور بعد میںبیمار ہونے والے لوگ ان تختیوں کو پڑھ کر اپنا علاج کرتے تھے یا مندروں کے پجاری ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ بقراط نے سب سے پہلے ان تختیوں کو یک جا کرکے کتابی شکل دی اور طلبہ کو جمع کرکے انھیں باقاعدہ طب کی تعلیم دینا شروع کی تاکہ وہ دور دور پھیل کر مریضوں کا علاج کرائیں۔ اس طرح معالج و طبیب وجود میں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ بقراط کو ’’بابائے طب‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ بقراط کے بعد ارسطو نے جو کہ سکندرِ اعظم کا استاد بھی تھا، طب کے لیے بڑے نمایاں کام سر انجام دیے ہیں۔ اس نے کھلے ذہن کے ساتھ طبی معاملات کو علمی کسوٹی پر پرکھا۔ اس کے بعد جالینوس نے علم طب کو آگے بڑھایا اس کی پیدائش 95ء میں ہوئی تھی۔ خاص طور پر تشریح البدن یا ایناٹومی پر اس نے بڑا کام کیا۔ یونان میں اور کئی اطبا گزرے ہیں جنھوں نے دیگر طبی موضوعات خصوصاًجڑی بوٹیوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔

گوکہ یونان میں طب کی باقاعدہ تعلیم شروع ہوگئی تھی اور پہلے طبیہ کالج کا قیام بھی عمل میں آگیا تھا مگر وہاں کی مذہبی بندشیں اور دیوی دیوتاؤں سے نسبت اس کی ترقی میں بری طرح سے حائل رہی۔ آخر کار علمِ طب مسلمانوں کے پاس منتقل ہونا شروع ہوا۔ یہاں پر دیوی دیوتاؤں کے اثرات سے بالا تر ہو کر طب کو خالص علم اور تجربے کی کسوٹی پر پرکھا گیا اور کھلے دل سے اس کی تائید یا تردید کی گئی کیوں کہ مسلمانوں کی رائے میں طب تجربے اور قیاس پر مبنی ایک علم تھا۔ سب سے پہلا کام اسلامی دور میں یہ ہوا کہ علمِ طب پر جس قدر کتابیں جس زبان میں بھی میسر تھیں، ان کے ترجمے عربی زبان میں کیے گئے۔ دوسری صدی ہجری تک حنین بن اسحق، باسر جویا، موسیٰ بن خالد، ابو یوسف بطریق نے بیش تر کتب کے ترجمے کر دیے تھے۔ چوتھی صدی ہجری تک تو نہ صرف یونانی بلکہ رومی، ایرانی اور ہندی طب عربی زبان میں ان کے سامنے موجود تھی۔ اب وہ اس حیثیت میں تھے کہ علمِ طب کی کایا کلپ کر دیں لہٰذا انھوں نے ہر اس چیز کو طب میں شامل کرلیا جو کہ عقل اور تجربے کی کسوٹی پر پوری اترتی تھی اور ہر اس چیز کو نکال باہر کیا جو فہم و فراست سے بالاتر تھی۔ اس دور میں علم طب ایک نئی اور واضح شان کے ساتھ ابھرا کیوں کہ اس کی بنیادی سوچ سے مذہبی دباؤ نکل چکا تھا اور اس وقت دنیا میں موجود علمِ طب کے ذخائر اس کی دسترس میں تھے۔ مسلمان اطبا کی وسیع القلبی تھی کہ انھوں نے علمی دیانت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا اور اس کا نام طب اسلامی کے بجائے طب یونانی رہنے دیا۔ اس دور میں نئے نئے امراض اور ان کا علاج دریافت کیا گیا۔ قرابا دین (فارماکوپیا) ترتیب دی گئی، پہلا اسپتال بنایا گیا، حفظانِ صحت کو ایک الگ مضمون کی شکل دی گئی۔ یہ کام آٹھویں صدی ہجری تک پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں اور نامور حکما اور ان کی تصنیف کردہ بے شمار کتب کی فہرست سامنے ہے۔ جن میں محمد بن زکریا رازی کی حادی کبیر، علی بن عباس مجوسی کی کامل اصنائمہ۔ ابن اطبری کی فردوس الحکمت۔ بو علی سینا کی قانون۔ اور ابوالقاسم زہراوی کی ’’اتصریف‘‘ نے دنیا میں دھوم مچا دی اور یہ کتب یورپ کے میڈیکل کالجز میں کئی صدیوں تک شاملِ نصاب رہیں اور دنیا کی تمام معروف زبانوں میں ان کے ترجمے ہوئے ہیں۔

اسلامی سلطنتوں میں خانہ جنگی اور ان کے کم مزور پڑنے کے نتیجے میں وہاں تمام علوم کی ترقیاں ماند پڑگئیں اور وہاں کے علوم لاطینی ترجموں کی شکل میں یورپ منتقل ہونا شروع ہوگئے۔ بارہویں صدی عیسوی میں اندلس میں مسلمانوں کی حکومت کے زوال کے ساتھ ساتھ تاریخ طب نے ایک نئی کروٹ لی اور وہاں کے کتب خانے اور دیگر علمی ذخیرہ یورپ کے ہاتھ لگا اور اس پر انھوں نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ کام کیا اور ہر چیز کو سائنسی کسوٹی پر پرکھا۔ نت نئی ایجادات و انکشافات ہوئے بہت سی نئی باتیں سامنے آئیں۔

سترہویں صدی عیسوی کے آخر میں طبِ یونانی اور طبِ مغربی میں نمایاں فرق پیدا ہونا شروع ہوا۔ طبِ یونانی کے بنیادی نظریات مزاج، اخلاط اور ارواح سے ہٹ کر تشخیص و علاج کے دوسرے ذرائع اختیار کیے گئے اور فطری و قدرتی ادویہ کی جگہ مصنوعی اور کیمیاوی چیزوں نے لینا شروع کر دی۔ یونانی طب کے حاملین کی نظر میں یہ انسانی جسم کی بناوٹ اور اس کے مزاج کے لحاظ سے درست نہیں ہے چوں کہ وہ چیزیں انسانی جسم کے لیے اجنبی ہیں جس کی وجہ سے مرض دور کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے مضر اثرات بھی پیدا کرتی ہیں۔ قدرتی دواؤں سے انسانی جسم مانوس ہوتا ہے جس کی وجہ سے مابعد پیدا ہونے والے نقصانات کا امکان بہت کم ہوجاتا ہے۔ اطبا جسم انسانی کو کوئی کیمیاوی مرکب یا مشین نہیں مانتے بلکہ ان کی نظر میں روح کی موجودگی بھی لازمی ہے کیوں کہ اگر روح کو جسم سے خارج کر دیا جائے تو ہر چیز کے موجود ہونے کے باوجود بھی زندگی برقرار نہیں رہ سکتی۔ روح کو چوں کہ کسی لیب میں ثابت نہیں کیا جاسکتا اس لیے اسے طبِ مغربی سے خارج کر دیا گیا۔ یہی سلوک مزاج کے ساتھ بھی کیا گیا جب کہ اطبا کے علاج کی بنیادہی مزاج پر ہے۔ ان کی رائے میں دو انسانوں کا مزاج ایک جیسا نہیں ہوسکتا اس لیے ایک ہی مرض میں مبتلا دو مریضوں کو ایک ہی دوا نہیں دی جاسکتی ہے۔ چوں کہ کسی کو موسم گرما راس آتا ہے اور کسی کو سردی کا موسم۔ کوئی انڈے بڑی رغبت سے کھاتا ہے، کسی کو وہ برداشت نہیں ہوتے۔ دودھ کسی کے لیے من بھاتا کھاجا ہے اور کوئی اسے چند گھونٹ بھی نہیں لے سکتا۔۔۔یہ سب مزاج کا فرق ہے اور اسبات کو نسخہ تجویز کرتے وقت سامنے رکھنا ضروری ہے۔

امراض کی تشخیص کے لیے یونانی اطبا اپنے حواس کی تربیت پر زور دیتے ہیں اور ان کی مدد سے خواہ تشخیص دیکھ کر، چھو کر ٹھونک کر یا دبا کر کی جائے، بہتر سمجھتے ہیں اور اگر ان سے ممکن نہ ہو تو پھر مجبوری میں کیمیاوی امتحانات سے گزارا جاسکتا ہے۔ حواس کی تربیت کی بنا پر نبض، قارورہ اور عام جسم کے معائنے نیز حالات سن کر عموماً مرض کی تشخیص ہوجاتی ہے اور مریض پر غیر ضروری بار نہیں پڑتا۔ ان کی رائے میں انسان ایک جیسی شکل رکھنے کے باوجود اپنے مزاج، عادات و اطوار ، پسند ناپسند، انگلیوں کے نشانات، پتلیوں کی رنگت، بالوں کی رنگت، خون کے دباؤ اور خون کی کیمیاوی ترکیب کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں لہٰذا ایک فارمولے پر تیار کردہ لیبارٹری ٹیسٹ جن کی ترتیب ایک ہی ہوتی ہے صحیح نتائج نہیں دے سکتے۔ اس طرح ایک ہی فارمولے سے تیار کردہ ادویہ سرد سے سرد اور گرم سے گرم ممالک اور مزاج کے لوگوں کو یکساں طریقے پر دینا مناسب نہیں اور نہ ان سے یکساں نتائج نکلنے کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ اطبا کی رائے میں حواس کے ذریعے تشخیص کو فوقیت دی جانا چاہیے۔ کیمیاوی ٹیسٹ اور ایکسرے کے امتحانات سے کسی قدر مدد ضرور لی جاسکتی ہے، مگر ان پر ہی انحصار کرنا درست نہیں ہے۔

ماضی میں اس علم کو سرکاری سطح پر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے لیکن اب تھوڑی بہت توجہ دی جانے لگی ہے۔طبِ یونانی کو عوام نے زندہ رکھا اور اس کی آبیاری کی۔ اب چند پڑوسی ممالک میں تو اس علم پر بڑی توجہ دی جا رہی ہے اور سرکاری سطح پر بھی بڑا کام ہو رہا ہے۔ یورپی ممالک بھی اس کی افادیت و اہمیت کے قائل ہوگئے ہیں اور وہاں بھرپور طریقے پر تحقیقات جاری ہیں۔ پاکستان میں نجی شعبے میں اس فن نے قابل ذکر ترقی کی ہے اور آئندہ کے لیے بھی واضح مواقع موجود ہیں۔ مگر سرکاری سطح پر اتنا ہوا ہے کہ مخالفت ترک کرکے ہمدر دانہ رویہ اختیار کرلیا گیا ہے مگر مالی بجٹ میں قابلِ ذکر رقم اس فن کی تعلیم و ترقی کے لیے نہیں رکھی گئی ہے اور نہ ہی واضح منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ مگر اب حکومت اس کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کرنے لگی ہے۔ چوں کہ اس وقت دنیا کے ہر ملک میں حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی علاج کے دیسی طریقوں پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے اور وہ اپنی قدرتی اور نباتاتی ادویہ سے علاج کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی زمین بھی ان قدرتی جڑی بوٹیوں سے مالا مال ہے جو ہر سال از خود اگتی اور ضائع ہوجاتی ہے۔ جنھیں محفوظ کرکے اور مریضوں کو استعمال کروا کے کروڑوں روپے کا زرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے، بلکہ دنیا میں اس وقت جڑی بوٹیوں کی تجارت اور برآمد اہم کاروبار سمجھے جا رہے ہیں۔ نہ صرف ان سے دوائیں تیار کی جا رہی ہیں بلکہ خوشبویات، شیمپو، پومیڈ، بلیچنگ کریمیں، کنڈیشنر وغیرہ تیار کرکے اربوں روپیہ کمایا جا رہا ہے۔

تعلیم و تربیت کے ادارے
اس وقت پاکستان میں سترہ طبیہ کالج ہیں جہاں طب کی تعلیم دی جا رہی ہے۔
1۔ہمدردطبی کالج، کراچی
2۔سندھ طبیہ کالج، حیدرآباد
3۔اعظم طبیہ کالج، لطیف آباد۔ حیدرآباد
4۔گورنمنٹ طبیہ کالج، بہاول پور
5۔اسلامی طبیہ کالج، ملتان،
6۔یونانی میڈیکل کالج، خوشاب
7۔جامعہ طبیہ اسلامیہ، فیصل آباد
8۔صحت یونانی میڈیکل کالج، فیصل آباد
9۔طبیہ کالج، لاہور
10۔اجمل طبیہ کالج راول پنڈی
11۔بلوچستان طبیہ کالج، کوئٹہ
12۔پنجاب طبیہ کالج، جھنگ صدر
13۔مہران طبیہ کالج، مورو،(نواب شاہ)
14۔سرحد طبیہ کالج تخت بھائی،(مردان)
15۔راول پنڈی طبیہ کالج، راول پنڈی
16۔ ابنِ سینا طبیہ کالج، ملتان،
17۔نیشنل طبیہ کالج، لاڑکانہ

بہاول پور طبیہ کالج سرکاری ہے۔ باقی تمام طبی درس گاہیں نجی شعبے میں ہیں۔ معیارِ تعلیم اور تعلیمی سہولتوں کے لحاظ سے ہمدرد طبی کالج کا مقام پہلے نمبر پر ہے۔ یہ واحد کالج ہے جس میں نعش پر تقطیع (ڈائی سیکشن) کرائی جاتی ہے اور دوا سازی کی عملی تعلیم کے لیے ہمدرد لیبارٹریز اور مطب کی عملی تعلیم کے لیے ہمدرد کے مختلف مطبوں میں بھیجا جاتا ہے۔ کالج میں بھی باقاعدہ دوا سازی کا شعبہ قائم ہے اور زنانہ و مردانہ مطب موجود ہیں جن میں مریضوں کا علاج بلامعاوضہ کیا جاتا ہے۔ ہمدرد طبی کالج میں مخلوط طریقہء تعلیم ہے یعنی لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ انھیں عملی تعلیم کے لیے شہر کے مختلف میٹرنٹی ہومز میں بھیج کر امراض اور ان کے علاج کے ساتھ ساتھ زچگی کی مکمل تربیت دی جاتی ہے۔ ہمدرد طبی کالج کے بعد تعلیم میں جو کالجز بہتر سمجھے جاتے ہیں ان میں طبیہ کالج لاہور، جامعہ طبیہ اسلامیہ، سندھ طبیہ کالج حیدرآباد ہیں۔ پنجاب طبیہ کالج جھنگ ابھی چند سال پیش تر قائم ہوا ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ وہاں بھی بہتر تعلیمی و عملی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔
تمام طبیہ کالجوں کا الحاق نیشنل کونسل فار طب اسلام آباد سے ہے اور وہی امتحانات لینے اور سند جاری کرنے کا مجاز ادارہ ہے۔ چار سالہ ڈپلوما کورس کے بعد فاضل طب و جراحت (ایف ٹی جے) کی سند دی جاتی ہے۔

داخلے کی اہلیت
داخلے کے لیے بنیادی تعلیم میٹرک (سائنس) یا درسِ نظامی لازمی ہے۔ انٹر سائنس پری میڈیکل اور اس سے زیادہ تعلیمی صلاحیت رکھنے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ امیدوار کی عمر ۸۱ سال سے کم اور تیس سال سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ فارم داخلہ تمام طبیہ کالجز کے دفاتر سے مل جاتے ہیں اور عموماً15 اگست تک انٹرویو کے بعد داخلے ہوتے ہیں۔ فارم جمع کرانے کی اور انٹرویو کی تاریخ کا اعلان ہر سال اخبارات کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
کالج کے اوقات ساڑھے آٹھ بجے سے 2بجے دوپہر تک ہوتے ہیں اس دوران عملی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
طب کے چار سالہ کورس کا نصاب درجِ ذیل ہے۔

سال اوّل
1۔ تشریح البدن (ایناٹومی): انسان کے جسم کی ساخت اور ترتیب پڑھائی بھی جاتی ہے، عملی طور پر چارٹ، ماڈل اور انسانی نعش پر تقطیع(ڈائی سیکشن) کے ذریعے تربیت بھی دی جاتی ہے۔
۔- منافع الاعضا (فزیولوجی): انسانی جسم کے افعال کی تعلیم یعنی وہ تندرست حالت میں کس طرح سے کام کرتا ہے ،پڑھایا جاتا ہے۔ (جدید تحقیقاتکی روشنی میں)۔3- کلیات : یونانی طب کا بنیادی فلسفہ (مزاج و اخلاط کی روشنی میں
4- علم الادویہ (فارماکولوجی): قدرتی دوائیں جو نباتات ،جمادات و حیوانات سے حاصل ہوتی ہیں ان کی شناخت، فوائد و نقصانات اور مقدارِ خوراک۔
5- حفظانِ صحت (کمیونٹی میڈیسن): فرد اور معاشرے کو صحت مند رکھنے کے اصول۔
6- تاریخِ طب(ہسٹری آف میڈیسن): طب اور اہم طبی شخصیات کا تعارف۔

سال دوئم
1۔2۔3۔ تشریح، منافع الاعضا اور کلیات: سال اوّل کی طرح مزید پڑھائی جاتی ہیں۔
-4 علم الادویہ قدیم مع تحقیقاتِ جدیدہ: قدیم یونانی ادویہ پر جدید تحقیقات کا علم۔
5۔دو اسازی (فارمیسی): دوائیں بنانے کے طریقے پڑھائے اور سکھائے جاتے ہیں تاکہ طبیب اپنے مطب کی ضرورت از خود دوا سازی کرکے پوری کرسکے یا بڑے پیمانے پر اس کا ارادہ ہو تو وہ اس فن سے واقف رہے۔
6۔میزانِ طب: چند چھوٹے موٹے امراض کا مختصر بیان اور علاج

سال سوم
1۔معالجات (میڈیسن):مرض کے اسباب، علامات اور علاج کے بارے میں تفصیل۔
2۔طب قانونی و علم السموم(میڈیکل جیورس پروڈینس اینڈ ٹاکسی کولوجی): طبیب کی قانونی اہمیت اور زہر خورانی سے پیدا ہونے والی علامات واموات کی تفصیل
3۔مطب علمی و عملی (آؤٹ پیشینٹس): مطب کرنے کی علمی و عملی تربیت۔ زنانہ و مردانہ مطبوں میں ڈیوٹی لگائی جاتی ہے۔
4۔تشخیصِ عملی (کلینیکل میڈیسن): طلبہ کو عملی طور پر امراض کی تشخیص کی تربیت اور ان طریقوں سے واقف کرا یا جاتا ہے جو کہ تشخیصِ مرضمیں مدد کرتے ہیں (جدید و قدیم)۔
5۔تشخیص الامراض (پیتھالوجی):بیماری کی حالت میں بدن میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اور ان کی وجہ سے متاثر ہونے والے افعال کے رویے کے طریقے
6۔ فنِ ولادت (آپس ٹیٹرکس): حمل اور زچگی کے دوران اور اس کے بعد ماں اور بچے کی نگہداشت کی تعلیم۔ طالبات کو میٹرنٹی ہومز میں عملی تربیت کے لیے بھیجا جاتا ہے جہاں انھیں کم از کم دس ولادت کے کیس اپنے ہاتھ سے کرنے ہوتے ہیں۔

سال چہارمmedical-science
1۔امراضِ متعدی و مناطقہ حارہ (انفیکشن اینڈ ٹراپیکل ڈزیزز): متعدی امراض اور گرم علاقوں میں پیدا ہونے والے مخصوص امراض۔
2۔ معالجات: سال سوم کی طرح سے اس میں بھی باقی امراض پڑھائے جاتے ہیں۔
3۔ امراض اطفال (پیڈ یاٹرکس): بچوں کے مخصوص امراض کی تعلیم
4۔علم الجراحت(سرجری): معمولی اور عام جراحت (مائنرسرجری) اور عملی تربیت
5۔امراض نسواں (گائناکولوجی): عورتوں کے امراض کی تفصیل۔ طالبات کو عملی تربیت دی جاتی ہے۔
6۔نفسیات (سائیکالوجی): اس میں ذاتی و نفسیاتی امراض کی تعلیم ہوتی ہے۔
7۔بخارات: مختلف بخاروں کو طبِ یونانی میں بری اہمیت حاصل ہے اور ان کے بارے میں بڑی تفصیل موجود ہے اس لیے ایک الگ مضمون کے طور پر انھیںپڑھایا جاتا ہے۔

ہر مضمون میں 60دن کی حاضریاں ضروری ہیں تب امتحان میں شرکت کی اجازت دی جاتی ہے اور امتحان پاس کرنے کے لیے 60نمبر لینا ضروری ہوتے ہیں۔ علمی و عملی دونوں امتحانات میں پڑھائی کا سلسلہ ستمبر سے شروع ہوتا ہے اور 30جون تک مکمل ہوتا ہے۔ عام طور پر امتحانات 15 جون کے بعد ہوتے ہیں۔

رجسٹریشن اور عملی تربیت
چار سالہ کورس مکمل کرنے کے بعد سند دے دی جاتی ہے مگر رجسٹریشن کے لیے چھ ماہ تک کسی مستند اورتجربہ کار طبیب کے پاس باقاعدہ بیٹھ کر مطب کرنا اور پھر ان کا سرٹیفکیٹ حاصل کرکے کونسل کو ارسال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ رجسٹریشن کے بعد انفرادی طور پر مطب کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ ایک ایک طالب علم و طالبہ جن کے نمبر آخری سال میں سب سے اچھے آئے ہوتے ہیں انھیں ہمدرد طبی کالج کے مطب میں ہاؤس جاب دیا جاتا ہے جو کہ ایک سال مدت تک جاری رہتا ہے اور اس دوران ساڑھے چھ سو روپے ماہانہ جیب خرچ بھی دیا جاتا ہے۔ اسی طرح سے ہر سال اوّل آنے والے طلبہ کو دو سو روپے ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ جو سند دی جاتی ہے وہ ڈپلوما کے مساوی ہے۔ کسی مخصوص شعبے میں یا مضمون میں تخصیص(اسپیشلائزیشن) کا ابھی انتظام نہیں ہے۔ ابھی تک ڈگری کورس شروع نہیں کیا جاسکا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی یونی ورسٹی سے طبیہ کالجوں کا الحاق نہیں ہوسکا ہے۔ اس سلسلے میں ایک منصوبہ حکومت کے زیرِ غور ہے اور توقع ہے کہ اس سلسلے میں جلد پیش رفت ہوسکے گی۔ ہمدرد یونی ورسٹی مدینہ الحکمت کے قائم ہوجانے اور محترم حکیم محمد سعید صاحب کے اس کے تاحیات چانسلر نامزد ہوجانے کے بعد قوی امید ہے کہ اس شعبے میں تیزی کے ساتھ پیش قدمی ہوگی چوں کہ وہاں طبی تعلیم کو موجودہ علمی و سائنسی تقاضوں کے تحت بھرپور انداز میں پڑھانے اور اس میں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے انتظامات مکمل ہوچکے ہیں اور ان شاء اللہ جلد ہی ہمدرد طبی کالج بھی وہاں منتقل ہوجائے گا۔

اخراجات
فی الوقت پاکستان کے کسی طبیہ کالج میں ہوسٹل کی سہولت نہیں ہے رہائش کے انتظامات خود کرنے ہوتے ہیں۔ امتحان کے وقت تمام فیس اور دیگر اخراجات ملا کر تقریباً آٹھ سو روپے خرچ آتا ہے اور ہر ماہ سو روپے خرچ ہوتے ہیں۔

ذاتی خصوصیات
طب کی تعلیم حاصل کرنے والے میں کیا کیا اوصاف اور ذاتی صلاحیتیں ہونی چاہییں یا پیدا کرنی چاہییں اس کا جواب بقراط نے 460قبل مسیح میں دیا تھا جو آج تک اہم ہے اور اسی کے الفاظ کو ترجمہ کرکے پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ تحریر ’’بقراط کا وصیت نامہ‘‘ کے عنوان سے تاریخِ طب کی کتابوں میں محفوظ ہے:
’’طب کا طالب علم شریف خاندان سے وابستہ، تیز طبیعت اور نوعمر ہو۔ قد و قامت متوسّط اور اعضا مناسب ہوں۔ ذہین و شیریں کلام ہو۔ مشورے کے وقت صحیح رائے دینے والا ہو۔ پاک دامن و شجاع ہو۔ طبیعت میں لالچ نہ ہو۔ غصے کے وقت طبیعت پر قابو رکھ سکے۔ بزدل اور کند ذہن نہ ہو۔ مریض کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھے اس پر مہربانی کرے اور راز دار رہے۔مریضوں کی بدکلامی برداشت کرسکتا ہو۔ اس کے سر پر بال نہ بہت بڑے ہوں نہ بالکل منڈوائے۔ اسی طرح سے ناخن بھی بڑھے ہوئے نہ ہوں۔ اس کے کپڑے سفید، صاف اور نرم ہونا چاہییں۔ چلنے میں جلد جلد قدم نہ اٹھائے کہ یہ غصے کی علامت ہے، اور نہ اس قدر آہستہ خرام ہو کہ قدم اٹھاتے ہوئے ڈرے۔ جب مریض کو دیکھنے جائے توآرام سے بیٹھ کر اس کا حال معلوم کرے گھبراہٹ اور پریشانی کا مظاہرہ نہ کرے۔ چوں کہ یہ وضع قطع اور شکل و ترتیب میری رائے میں دوسری حالتوں سے بہتر ہے۔‘‘

مواقع
طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جہاں تک مواقع کار کا تعلق ہے تو اس میں ملازمتوں کے امکانات کم ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری سطح پر طب کی ڈسپنسریاں یا اسپتال قائم نہیں ہوئے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں کچھ ڈسپنسریاں بنائی گئی ہیں اس لیے وہاں صورت حال بہتر ہے۔ کراچی میں بلدیہ کی طرف سے چند ڈسپنسریاں قائم ہیں۔ بعض اداروں مثلاً پی آئی ڈی سی اور کے ای ایس سی وغیرہ نے باقاعدہ طبیب ملازم رکھے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے طبی اداروں جن میں ملازمت مل سکتی ہے ان میں سرفہرست ہمدرد دواخانہ ہے۔ ہمدرد نے ہر بڑے شہر میں مطب ہمدرد شروع کیے ہیں اور مزید کئی مطب کھولے جا رہے ہیں۔ دوا ساز اداروں میں ملازمتیں مل جاتی ہیں ان میں بھی ہمدرد لیباٹریز، اجمل لیبارٹریز، قرشی لیبارٹریز اور طبی دواخانہ شامل ہے۔ ان کے علاوہ دیگر بڑے مطبوں میں یا دواخانوں میں بھی ملازمت کا حصول ممکن ہے۔
محکمہ بہبودِ آبادی کے ذیل میں گریڈ سولہ میں کئی ملازمتیں اطبا کے لیے مخصوص کی جا رہی ہیں۔ حکومت نے حکیم پروجیکٹ بہبود آبادی کے لیے شروع کیا ہوا ہے جس کے ڈائریکٹر بھی حکیم ہیں اس کے تحت مزید اسامیاں بھی نکالی جا رہی ہیں۔ مگر یہ سب مل کر اتنی نہیں ہیں کہ ضرورت پوری ہوسکے۔

نجی پریکٹس
اس میدان میں نجی پریکٹس کے تحت زیادہ مواقع ہیں۔ اپنا مطب اگر مناسب جگہ پر کھولنے میں کامیاب ہوجائیں تو خاصے مواقع ہیں۔ خاص طور پر لڑکیوں کے لیے بہت اچھا اور جائز کام ہے جو کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھ کربھی کرسکتی ہیں بلکہ اگر وسائل اجازت دیں تو میٹرنٹی ہوم کھول سکتی ہیں۔ حالاتِ کار بھی مناسب ہیں چوں کہ اب جدید طریقہء علاج اس قدر مہنگا ہوگیا ہے کہ ہر ایک کی دسترس سے باہر ہے پھر ادویہ کے مابعد اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) نے بھی لوگوں کو متبادل مطبوں کی طرف متوجہ کیا ہے، اس لیے دن بہ دن اس دوسرے طریقے سے علاج کرانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

آمدنی
آمدنی کا انحصار بھی مواقع اور ذاتی صلاحیتوں پر ہے۔ بڑے دوا خانوں اور ان کے مطب کو چھوڑ کر عام مطبوں میں اطبا کی آمدنی دو ہزار سے لے کر اٹھارہ بیس ہزار روپے ماہانہ تک ہوجاتی ہے اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ اطبا کی تعداد تقریباً پینتالیس ہزار ہے اور ہر سال تقریباً نو سو طلبہ و طالبات طبیب بن کر نکل رہے ہیں۔
طب کے پیشے سے متعلقہ کاروبار میں سب سے بڑا کام دوا سازی کا ہے ۔جس طرح سے کہ ہندوستان و پاکستان میں بہت بڑے بڑے دوا ساز ادارے بھرپور طریقے پر کام کر رہے ہیں چھوٹے پیمانے پر بھی چند دوائیں یا کوئی ایک دوا پیٹنٹ کرکے مارکیٹ میں لائی جاسکتی ہے۔ چوں کہ یونانی دوائیں تیار کرنے پر کسی طرح کی کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔ مفرد دواؤں کا کاروبار بھی بڑے پیمانے پر اندرونِ ملک اور در آمد بر آمد کے انداز میں جاری ہے اور اسے مزید بڑھانے کے مواقع موجود ہیں چوں کہ پاکستان میں یہ کاروبار بہت اچھے طریقے پر نہیں ہو رہا ہے۔ اس شریف فن کو پیشہ کہنا مناسب نہیں ہے چند چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا پیشہ نہ بننا ہی بہتر ہے۔ یہ کسبِ معاش کا ذریعہ تو بن ہی جاتا ہے مگر اصل مقصد انسانیت کی خدمت اور ان کے دکھ درد کا مداوا ہی ہونا چاہیے۔

Leave a ReplyCancel reply

Exit mobile version