علمائے کرام کے لئے آسان کاروبار۔۔۔

حامد حسن
علمائے کرام کے لئے آسان کاروبار۔۔۔
ذیل میں چندایسے آسان کاروبار کا ذکر کیا جارہا ہے جو مختصر انویسٹمنٹ سے شروع کئے جا سکتے ہیں اور اپنے فارغ اوقات کو کارآمد بنا کر تدریس، امامت کے ساتھ ساتھ بہترین آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔۔۔
اس سے پہلے ایک بات یاد رکھیں۔۔۔
مشورے ہر کوئی دیتا ہے مگر عملی طور پر میدان میں آنے والے بہت کم لوگ ہوتے ہیں، اپنے حالات کا ذمہ دار انسان خود ہوتا ہے، معاشی پریشانی ہو یا گھر میں کوئی تکلیف اس کے لئے خود ہی بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے، کوئی پریشانی آجائے تو تعزیت کرنے والے بہت ہوتے ہیں مگر تعاون کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔۔۔
لہذا علمائے کرام، آئمہ مساجد سے گزارش ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں، کسی کی اقتداء اور کسی کی طرف دیکھنے کے بجائےاپنے آپ پر فوکس کریں، اپنے حالات کو دیکھ کر فیصلہ کریں۔۔۔
لوگ کیا کہیں گے، آس پاس والے کیا سوچیں گے، فلاں کام میرے شان شان نہیں، دس بارہ سال لگا کر تجارت ہی کرنی تھی تو وقت کیوں ضائع کیا، فلاں کام علمائے کو زیب نہیں دیتا، یہ سب باتیں بلکل فضول لایعنی اور بے کار ہیں۔۔۔
عزت احترام اور قدر اپنی جگہ مگر یہ سب لوازمات انسان کی عملی زندگی میں کسی صورت کارگر نہیں ہوتی۔۔۔
حق تو یہ تھا کہ دینی مدارس اور ادارے تعلیم و تعلم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھاتے، تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سکلز اور ہنرمندی کے لئے بھی بجٹ اور وقت مختص کیا جاتا مگر افسوس۔۔۔
اس لئے علمائے کرام، آئمہ مساجد، مدرسین حضرات اپنے حالات پر رونے دھونے، معاشی استحصال پر خاموش ہوکر برداشت کرنے کے بجائے عملی زندگی میں آئیں، زمانے کا مقابلہ کریں اور اپنی صلاحیتیں اور وقت لگا کر اپنے حالات کو خود ہی درست کریں۔۔۔
علمائے کرام کو کمی کس بات کی ہے، 30 پارے کلام اللہ کےحفظ کر سکتے ہیں، علمی تقاریر اور تحاریر اور کتابوں میں قابل ترین ہونے کے باوجود کس بات کی کمی ہے، کون سی چیز حالات کو بدلنے میں رکاؤٹ ہے؟؟؟
موجودہ ڈیجیٹل دور میں اگر علمائے کرام محنت کریں اس فیلڈ میں اپنے آپ کو کھپائیں تو میں دعوے سے کہتا ہوں عام لوگوں کی بسنبت زیادہ فوائد اور ترقی حاصل کر سکتے ہیں۔۔۔
———–
علمائے کرام، قراء حضرات ،دینی مدارس کے مدرسین ، امامت خطابت اور تدریس کے ساتھ ساتھ ایسے کون کون سے آسان اور سستےکاروبار کر سکتے ہیں جن سے ان کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے اور اپنے دگرگوں حالات کو تبدیل کر سکیں۔۔۔
سیکنڈ ہینڈ موبائل کی خرید و فروخت کر یں ۔۔۔ دن کا ایک دو سیکنڈ ہینڈ سمارٹ فون فروخت کر دیں تو ہزار پندرہ سو دن کے کما سکتے ہیں۔۔۔
کمپوزنگ سیکھیں۔۔۔ مختلف مکتبوں کو کتابیں، رسائل وغیرہ کمپوز کر کے دیں۔۔۔
گرافکس ڈیزائننگ سیکھیں۔۔۔ اس سے فری لانسنگ یا مختلف اسلامی پیجز کی پوسٹ، اداروں کے اشتہارات وغیرہ ڈیزائن کریں۔۔۔
ویب ڈیزائننگ سیکھیں۔۔۔ دینی اداروں کو اور دوسرے عام کلائنٹ کو ویب سائٹ ڈیزائن کر کے دیں۔۔۔
ایپ ڈیزائننگ سیکھیں۔۔۔ اپلیکیش، گیمز بنائیں کلائنٹ کو بیچیں یاپلے سٹور پر لگائیں۔۔۔
آن لائن پڑھائیں۔۔۔ آن لائن قرآن ٹیچنگ اور اسلامک سبجیکٹ پڑھائیں۔۔
ڈیجیٹل مارکیٹنگ سیکھیں۔۔۔ آسانی کے ساتھ آن لائن کام کریں۔۔۔
آن لائن بزنس کریں۔۔۔ آپ کے پاس کوئی پروڈکٹ ہے اس کا آن لائن بزنس کریں ۔۔۔
ایفیلیٹ مارکیٹنگ کریں۔۔۔ کسی کمپنی کی پراڈکٹس یا کسی دوست کی اشیاء منافع رکھ کر آن لائن بیچیں اور اپنے حصے کا کمیشن حاصل کریں۔۔۔
یا کمپیوٹر سے متعلقہ کوئی سکل سیکھ کر آپ فارغ اوقات میں ادارے مدرسے گھر میں بیٹھ کر اچھی خاصی اضافی آمدن کر سکتے ہیں۔۔۔
اوپر ذکر کئے گئے سب کام کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے منسلک ہیں، فارغ اوقات کو قیمتی بنا کر موبائل اور کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئےآرام سکون سے بیٹھے بٹھائے اچھی خاصی آمدن حاصل کی جاسکتی ہے۔۔۔
اس کے علاوہ
اگرآپ کو آن لائن فیلڈ سمجھ نہیں آتی تو آپ دن کے چار پانچ گھنٹے لگا کرفزیکلی کئی کام کر سکتے ہیں
سردیوں میں جرابیں، بنیان، سویٹر کی مارکیٹنگ کریں۔۔۔
گرمیوں میں مچھردانی، شربت کی مارکیٹنگ کریں۔۔۔
چھوٹے بچوں کے سوٹ کی مارکیٹنگ کریں۔۔۔
خشک میوہ جات کی مارکیٹنگ کرسکتے ہیں۔۔۔
شہد، گھی، سلاجیت فروخت کر سکتے ہیں۔۔۔
علاقائی سوغات کی تجارت کر سکتے ہیں۔۔۔
حکمت اور حجامہ کا کام کر سکتے ہیں۔۔۔
کتابوں کی جلد کا کام کر سکتے ہیں۔۔۔
شوارما برگر کا کام کریں مغرب سے لے کر رات نو دس بجے تک ہزار پندرہ سو روز کے کما سکتے ہیں۔۔۔
اپنے ساتھ کسی عزیز رشتہ دار بھائی کو ملا کر انویسٹمنٹ کر کے کھانے پینے کا بزنس اور دوسرے بہت سارے بزنس کئے جا سکتے ہیں۔۔۔
———–
علمائے کرام قراء حضرات کو اللہ نے اضافی صلاحتیوں سے نوازا ہوتا ہے، دوسروں کی نسبت حافظ عالم میں ذہنی استعداد اور صلاحتیں زیادہ ہوتی ہیں
اس لئے ضرورت ہے تو صرف ہمت اور حوصلہ کی دل سے دوسروں کے جیب کی رغبت نکال پھینکیں اور مستغنی ہوکر کوئی ہنر سیکھیں اور اپنے آپ کو معاشرے کا خوشحال فرد بنائیں۔۔۔
کوئی جاد و کی چھڑی، سلمانی ٹوپی نہیں ملے گی کہ حالات بیٹھے بٹھائے اچھے ہوجائیں گے۔۔۔
آپ کو بھرپورمحنت کرنی ہوگی اور دل لگا کر اپنے حالات کو سدھارنا ہوگا۔۔۔
اگر آپ کو مسجد کی کمیٹی یا ادارہ فارغ اوقات میں کوئی تجارت یا کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا تو اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے اور اس کا کوئی حل بھی نہیں ہے۔۔۔ وما علینا الا البلاغ
Hamid Hassan

Leave a Reply