علماء کے اختلاف کا حکمرانوں پر اثر

علماء کے اختلاف کا حکمرانوں پر اثر

سیدعبدالوہاب شیرازی
علماء حق انبیاء کے وارث ہوتے ہیں، ان کے کاندھوں پر وہی ذمہ داری ہوتی ہے جو انبیاء پوری کرتے آئے ہیں، چنانچہ صحیح علماء میں وہی اوصاف ہوتے ہیں جو حضرت نوح، حضرت شعیب، حضرت موسیٰ، حضرت صالح، حضرت ابراہیم، اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم و علیہم الصلوۃ و السلام کے قرآن میں بیان ہوئے ہیں۔ علماء کاکام انذار وتبشیر ہوتا ہے، علماء عوام کو تذکیر کراتے اور رہنمائی کرتے ہیں۔پھر سب سے بڑھ کریہ کہ علماء خود نمونہ ہوتے ہیں، جیسے تمام انبیاء اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عملی نمونہ بن کر تبلیغ کی۔ جب تک علماء اس روش پر قائم رہے پوری امت مجموعی لحاظ سے صحیح ڈگر پر چلتی رہی، لیکن جیسے جیسے علماء میں خرابی پیدا ہوئی ساتھی ہی امت میں خرابی پیدا ہونا شروع ہوگئی۔ علماء کی مثال امت کے جسم میں دل کی سی ہے، جیسا کے حدیث میں ہے جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ صحیح ہوتا ہے تو پورا جسم ٹھیک ہوتا ہے اور جب وہ خراب ہوتا ہے تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے اور وہ دل ہے۔ باالکل یہی معاملہ علماء کا ہے جب علماء ٹھیک ہوتے ہیں پوری امت ٹھیک ہوتی ہے جب علماء خراب ہوتے ہیں پوری امت خراب ہوجاتی ہے۔

آج کے اس مضمون ایک واقعہ کی روشنی میں اس بات کو ملاحظہ فرمائیں کہ علماء کی خرابی کا اثر حکمرانوں پر کیسے پڑتا ہے اور اس دل کی خرابی سے کتنی بڑی خرابی وجود میں آتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اس بیماری کو ختم کرنے کے لئے سمر قند وترکستان سے کیسے خواجہ باقی بااللہ کو ہندوستان بھیج کر اصلاح کی کوششوں کو نئی زندگی بخشتے ہیں۔
منتخب التواریخ علامہ عبدالقادر بدایونی کی مشہور کتاب ہے ۔موصوف شہنشاہ اکبر کے ہم عصر ہیں ۔ اور اس کے دربارمیں رہے ہیں ۔ وہ اکبر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ ایک بادشاہ تھا جو حق کا طالب تھا اور اپنے اندر نفیس جوہر رکھتا تھا ۔ اکبر اپنی ابتدائی زندگی میں بڑا دیندار اور عبادت گزار تھا ۔ اس نے سات عالم صرف نماز کی امامت کے لئے مقرر کر رکھے تھے جن میں ایک خود ملا عبدالقادر بدایونی تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اکبر کی دربار میں پانچوں وقت جماعت کے ساتھ نماز ہوتی تھی جس میں بادشاہ خود شریک ہوتا تھا۔ اکبر جب سفر کے لیے نکلتا تو اس کے ساتھ ایک خاص خیمہ نماز کا ہوتا تھا جس میں بادشاہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتا تھا ۔شہنشاہ اکبر کے اس دیندارانہ مزاج کا یہ قدرتی نتیجہ ہوا کہ اس کے دربار میں علماء جمع ہونے لگے ۔ اکبر کو حدیثیں سننے اور مسائل دین پر گفتگو کرنے سے خاص دلچسپی تھی ۔ اس مقصد کے لئے وہ علماء کی صحبتوں میں دیر دیر تک بیٹھتا تھا ، ملا بدایونی نے لکھا ہے کہ اکبر کے گرد جمع علماء کی تعداد ایک سو سے بھی اوپر تک پہنچ گء تھی ۔ بادشاہ کے گرد جمع ہونے والے یہ علماء قدرتی طور پر بادشاہ کی عنایتوں میں حصہ پانے لگے ۔ بس یہیں سے وہ حالات پیداہوئے جس نے ایک دیندار بادشاہ کو بے دین بنا ڈالا ۔
ظاہر ہے کہ سو آدمی بیک وقت بادشاہ کے قریب نہیں بیٹھ سکتے تھے ۔ چنانچہ پہلا جھگڑا نشست گاہوں پر شروع ہوا ۔ہر ایک اس کوشش میں رہتا کہ وہ بادشاہ کے قریب بیٹھے ۔اب جس کو قریب جگہ نہ ملتی وہ جلن میں مبتلا ہوتا ۔ اسی طرح بادشاہ کے انعامات میں جس کو کم حصہ ملتا وہ اس سے حسد کرنے لگتا جس کو اتفاق سے زیادہ انعام مل گیا ہو ۔
علماء کا حال یہ ہوا کہ وہ ایک دوسرے کو گرانے کے لئے ایک دوسرے کی برائیاں کرنے لگے ۔ ملا بدایونی کے الفاظ میں علماء کے گروہ سے بہت سی بیہودگی ظاہر ہوئی ایک نے دوسرے کے خلاف زبان کی تلوار نکالی، ایک دوسرے کی نفی کی اور تردید میں لگ گیا ۔ ان کا اختلاف یہاں تک بڑھا کہ ایک نے دوسرے کو گمراہ ثابت کیا ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ شاہی دربار میں ان علماء کی گردنوں کی رگیں پھول آئیں ، آوازیں بلند ہوئیں اور زبردست شور برپا ہوا ۔علماء کی ان نازیبا حرکتوں سے بادشاہ کا متاثر ہونا فطری تھا ۔ اس کو سخت گراں گزرا اس کے بعد بادشاہ نے پہلی کارروائی یہ کی کہ ملا بدایونی کو حکم دیا کہ اس قسم کے نا معقول عالموں کو آئندہ بادشاہ کی مجلس میں آنے نہ دیں ۔ اس کے باوجود علماء کی حرکتیں بند نہ ہوئیں ۔ ان کی باتیں بادشاہ کے لئے ایمانی قوت کے بجائے بدگمانی اور برگشتگی میں اضافہ کا سبب بنتی رہیں ۔ علماء کا یہ حال تھا کہ ایک دوسرے کے ضد میں کوئی عالم ایک چیز کو حرام کہتا اور دوسرا اس کو حلال بتاتا ۔ ان چیزوں نے بادشاہ کو شک میں ڈال دیا ۔ اس کی حیرانی بڑھتی چلی گئی ، یہاں تک کہ اصل مقصد ہی سامنے سے جاتا رہا ۔
درباری علماء میں سے ایک ملا عبداللہ سلطان پوری تھے ۔ ان کا سرکاری لقب مخدوم الملک تھا ۔ انہوں نے مختلف طریقوں سے جو دولت جمع کی تھی اس کا حال ملا بدایونی نے ان الفاظ میں لکھا ہے ” ان کا انتقال ہوا تو بادشاہ کے حکم سے ان کے مکان کا جائزہ لیا گیا جو لاہور میں تھا ۔ اتنے خزانے اور دفینے ظاہر ہوئے کہ ان خزانوں کے تالوں کو دہم کی کنجیوں سے بھی کھولنا ممکن نہ تھا ،حتی کے سونے سے بھرے ہوئے چند صندوق مخدوم الملک کے خاندانی قبرستان سے برآمد ہوئے جنہیں مردوں کے بہانے سے زمین میں دفن کیا گیا تھا “۔شاہ عبدالقدوس گنگوہی کے پوتے ملا عبدالنبی تھے جو اکبر کے زمانہ کے سب سے بڑے عالم سمجھے جاتے تھے۔ پورے ملک کے خطباء اور ائمہ کے درمیان جاگیر تقسیم کرنے کا انہیں اختیار تھا ۔ شہنشاہ اکبر ان کا اتنا زیادہ احترام کرتا تھا کہ ان کی جوتیاں سیدھی کرتا تھا ، مگر مذکورہ مخدوم الملک اور ملا عبدالنبی کے درمیان رقیبانہ کش مکش شروع ہوئی ۔ ایک نے دوسرے کو جاہل اور گمراہ ثابت کرنے کے لئے رسالے لکھے ۔ ایک نے دوسرے کے بابت لکھا کہ چونکہ انہیں بواسیر ہے اس لئے ان کے پیچھے نماز نا جائز ہے ۔ دوسرے نے لکھا کہ تم اپنے باپ کے عاق کئے ہوئے بیٹے ہو اس لئے تمہارے پیچھے نماز جائز نہیں ۔ اس قسم کی لا یعنی بحثوں سے شاہی کیمپ صبح و شام گونجتا رہتا تھا ۔
شہنشاہ اکبر ابتدامیں نہایت دین دار تھا اور دینی شخصیتوں سے بڑی عقیدت رکھتا تھا ۔ مگر دین کے نمائندوں کی خرافات کو مسلسل دیکھنے کے بعد وہ دین سے بیزار ہو گیا اور دینی شخصیتوں سے بھی ۔ علماء کا یہ حال تھا کہ جانوروں کی طرح آپس میں لڑتے ۔ ایک عالم ایک فعل کو حرام بتاتا اور دوسرا عالم اسی فعل کو حلال قرار دیتا ۔
ملا بدایونی لکھتے ہیں :
اکبر اپنے زمانہ کے علماء کو غزالی اور رازی سے بہتر سمجھتا تھا ۔جب اس نے ان کی پست حرکتوں کو دیکھا تو حال پر ماضی کو قیاس کر کے سب کا منکر ہو گیا ۔اس کے بعد اکبر کے دربار میں علماء کا وقار ختم ہو گیا ۔ ابو الفضل اور فیضی جیسے لوگ دربار شاہی میں اہمیت اختیار کر گئے۔ اکبر کو علماء کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں رہی ۔ ابوالفضل اکبر کے سامنے علماء کا مذاق اڑاتا اور اکبر اس کو سن کر خوش ہوتا ۔ ملا بدایونی کے الفاظ میں : کسی بحث کے درمیان اگر ائمہ مجتہدین کی کوئی بات پیش کی جاتی تو ابوالفضل اس کو نظر انداز کرتے ہوئے کہتا کہ فلاں حلوائی ، فلاں کفش دوز اور فلاں چرم ساز کے قول سے تم میرے اوپر حجت قائم کرنا چاہتے ہو۔(اسباق تاریخ از مولانا عبدالقادر بدایوانی)۔
چنانچہ ابوالفضل اور فیضی جیسے لوگوں کے کہنے پر ہی ایک نئے دین’’دین الٰہی یا دین اکبری‘‘ کوبنایا گیا جس نے ہندوستان میں اسلام کی بنیادوں کو ہلاکررکھ دیا اور پھر علمائے حق جن میں مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی سرفہرست ہیں کی کوششوں سے اس گمراہی کو مٹایا گیا۔
اس واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علماء کی آپس کی لڑائیوں،ضد،ہٹ دھرمی نے کتنا بڑا فتنہ کھڑا کیا۔

Leave a ReplyCancel reply

Discover more from Nukta Guidance Articles

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Exit mobile version