علاج بالغذا کی اہمیت و وسعت
خداوندِکریم نے بھوک پیداکی ہے تاکہ انسان کواپنی ضرورتِ غذاکااحساس ہولیکن بھوک میں جوخوبیاں پنہاں ہیں انسان نے ان کو نظرانداز کرکے اپنی غذائی ضرورت کا دارومدار اپنی خواہشات پرمقرر کر دیاہے یعنی جس چیز کودل چاہاجب بھی چاہاکھالیا۔اس طرح رفتہ رفتہ بھوک کا تصورہی ختم کردیا اس طرح ضرورتِ غذااور خواہشِ غذاکا فرق ہی ختم ہوگیالیکن قدرت کے فطری قوانین ایسے ہیں جولوگ ان کی پیروی نہیں کرتے یا ان کو سمجھے بغیر زندگی میں من مانی کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ امراض کی شکل میں ظاہر ہوتاہے۔
تاریخی اہمیت
جمہورحکماء اور اطبائے متقدمین ومتاخرین بلکہ ہر مذہب کے علماء کا بھی اس حقیقت پراتفاق ہے کہ بھوک ایک مرض ہے اور اس کا علاج حسب ضرورت اور مناسب غذاکا کھانا ہے۔دنیا میں کوئی بھی ایسا مذہب نہیں ہے جس نے غذاکی ضرورت واہمیت اور استعمال پرکچھ نہ کچھ نہ لکھاہواور اسلام میں تو اس قدر کہاگیاہے کہ اس پرایک طویل کتاب بن سکتی ہے۔اسلام نے اس کو اس قدر وسعت اس لئے دی ہے کہ
۱۔غذا سے انسانی کردارپیداہوتاہے۔(۲)غذا انسانی ضرورت ہے۔(۳)جن لوگوں کی رزق کی فراہمی کے بارے حقائق پر نظرہے وہ شخصیت اور قوم کی تعمیر کیلئے بڑاکام کرسکتے ہیں۔
ایورویدک
انتہائی قدیم طریق علاج ہے۔اس کی قدامت اس قدرقدیم ہے کہ اس کاتعین مشکل ہے البتہ یہ کہا جاسکتاہے کہ چین کی تہذیب وتمدن ہند سے قدیم ہے۔ اس لئے اس کا علم وفن قدیم کہاجاسکتاہے۔بہرحال جہاں تک دونوں کے علم وفن کا تعلق ہے دونوں کی بنیاد کیفیات ومزاج اور اخلاط پرہے۔یہ بھی کہاجاتاہے کہ قدیم زمانے میں ہنداورچین ایک ہی ملک تھے اور ان کی تہذیب وتمدن بھی ایک تھا اسلئے ممکن ہے کہ ایورویدک ہی نے چینی طب کی شکل اختیارکرلی ہو۔بہرحال ایورویدک اپنی بنیادپت وپرکرتی اور دوشوں کے مطابق ہرغذاودوااور آب وہوا کے استعمال میں ارکان و مزاج اور اخلاط کومدنظررکھے بغیر علاج نہیں کرسکتی۔اس طریقِ علاج میں سب سے اہم تاکیدیہ ہے کہ علاج کے دوران میں پت وپرکرتی اور دوشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اول غذاسے علاج کیاجائے ۔پھر بھی اگر مرض باقی ہو تومجرب مرکبات سے مرض کودورکیاجائے اور ادویات کے علاج کے دوران میں بھی غذاکوپت پرکرتی اور دوشوں کے تحت ہی استعمال کیاجائے اور یہی صحیح ایورویدک علاج ہے۔
طب یونانی میں غذاکی اہمیت
طب یونانی کی قدامت بھی تقریباًایورویدک کے برابرقدیم ہے کیونکہ ابتداً جب یونان میں اس کی ترتیب و تدوین ہوئی اور اس نے کتابی صورت اختیارکی تواس کانام طب یونانی رکھاگیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ طب ہزاروں سالوں یونانی طب سے قدیم ہے۔ جس طرح مختلف تہذیبوں اور تمدنوںمیں عروج وزوال پیداہوتاگیاطب میں بھی نشووارتقاء پیدا ہوتا گیا۔چین وہند کے بعد تہذیب وتمدن بابل ونینوا میں نظر آتی ہے جس کو آج کل عراق وعرب اور مڈل ایسٹ کہتے ہیں۔ا س کے بعد کی تہذیب وتمدن کا کمال مصرمیں نظرآتا ہے۔ابولہول ، اہرام مصر (پیرامائڈ) آج بھی اس چیزکے گواہ ہیں جہاں پر بے شمارفرعون گزرے ہیں۔اس کے بعد یہی تہذیب وتمدن اور ثقافت روما سے گزرتی ہوئی ہزاروں سال میں یونان پہنچی۔اگرچہ مصرمیں کاغذکی ابتداہوئی تھی اور علم وفن کی تحریرمقبروں سے ملی ہیں لیکن یونان میں خصوصاً بقراط کے زمانے میں علم وفن طب کی کتابی صورت میں ترتیب وتدریس ہوئی جس پر اسلامی دورتہذیب وتمدن میں چارچاند لگ گئے۔لفظ ــ ’’طب‘‘بذاتِ خود عربی زبان کالفظ ہے لیکن احتراماً یونانی لفظ ساتھ قائم رہاہے۔یہ علم وفن میں ایمانداری کی دلیل ہے۔
طب یونانی میں علاج تین صورتوں میں کیاجاتاہے۔(۱)علاج بالتدبیر۔(۲)علاج بالدوا۔ (۳)علاج بالید( (4سرجری
علاج بالتدبیر:علاج بالتدبیرمیں تین باتیں شامل ہیں۔
اول ۔اسباب ستہ ضرو ریہ جو مندرجہ ذیل ہیں ۔(۱)ہواوروشنی۔ (۲)ماکولات ومشروبات۔ (۳)حرکت وسکونِ بدنی۔(۴) حرکت وسکونِ نفسانی۔ (۵)نیندو بیداری ۔ (۶)استفراغ واحتباس۔
دوم۔کیفیات ومزاج اور اخلاط میں تغیروتبدل۔سوم۔ماحول وحالات میں نظم یعنی مریض جس تکلیف دہ ماحول میں گھراہواہے اور جس مشکل حالت میں ہے اس میں بہتر تبدیلی پیداکرنا۔چونکہ ان تینوں اجزاءکاتعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ غذاسے ہے اس لئے یہ سب کچھ علاج بالغزامیں شریک ہیں۔
ماکولات ومشروبات
ماکول ومشروب(کھانا پینا)میں وہ سب چیزیں شامل ہیں جومنہ کے ذریعے جسم میں پہنچائی جاتی ہیں ان کی چھ صورتیں ہیں۔(۱)غذائے مطلق۔(۲)دوائے مطلق۔(۳)سم مطلق ۔ (۴)غذائی دوائی۔(۵)دوائے غذائی۔(۶)دوائے سمی۔تفصیل یہ ہے۔
غذائے مطلق: خالص غذاکوکہتے ہیں۔جب وہ بدن میں داخل ہوتی ہے تو بدن سے متاثر ہوکر متغیر ہوجاتی ہے لیکن بدن میں کوئی تغیر پیدانہیں کرتی بلکہ خود جزوبدن بن کر بدن کے مشابہ ہوجاتی ہے یعنی خون میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مثلاً دودھ،گوشت اور روٹی وغیرہ۔
دوائے مطلق: خالص دوا جب بدن میں داخل ہوتی ہے توبدن سے متاثر ہوکر بدن میں تغیر پیداکردیتی ہے اور آخرکار جزو بدن ہوئے بغیر بدن سے خارج ہوجاتی ہے ۔جیسے زنجبیل،بادیان اور ملٹھی وغیرہ۔
سم مطلق: خالص زہرجب جسم میں داخل ہوتووہ خود توبدن سے متاثر نہ ہولیکن بدن کو متغیر کرکے اس میں فساد پیداکردے مثلاً سنکھیا،کچلہ اور افیون وغیرہ۔
غذائے دوا: غذامیں کچھ دوائی اثرات شامل ہوں۔جب بدن میں داخل ہوتی ہے توبدن سے متاثرہوکر متغیرہوجاتی ہے اور خود بھی بدن کو متاثر کرتی ہے۔اس کا زیادہ حصہ جزوبدن بنے اور کچھ حصہ جزوبدن بنے بغیر جسم سے خارج ہو جاتاہے۔مثلاًمچھلی ، میوہ جات وغیرہ۔
دوائے غذائی: دوامیں کچھ غذائی اثرات شامل ہوں۔جب بدن میں داخل ہوتی ہے توبدن سے متاثرہوکرمتغیرہوجاتی ہے اور خود بھی بدن کومتاثر و متغیر کرتی ہے۔اس کا تھوڑاحصہ جزوبدن بنتاہے اور زیادہ حصہ جزوبدن بنے بغیر جسم سے خارج ہوجاتاہے۔مثلاًمیوہ جات وگھی اورنمک ومٹھاس۔
دوائے سمی: دواجس میں کچھ زہریلے اثرات شامل ہوں۔جب بدن میں داخل ہوتی ہے توبدن سے کم متاثرہوتی ہے اور بدن کو بہت زیادہ متاثر ومتغیر کرتی ہے اور نقصان پہنچاتی ہے۔مثلاً نیلاتھوتھا اور پارہ وغیرہ۔
ماکول ومشروبات کی صورتیں: ماکول ومشروبات (کھانے پینے)کے اثرات کی صورتیں یہ ہیں کہ اگرفقط مادہ سے اثر اندازہوتواسے غذاکہتے ہیں ۔اگرصر ف کیفیات کا اثرزیادہ ہوتودواہے۔اگراس کااثرمادہ وکیفیات دونوں سے ہوتو اگرمادہ زیادہ ہے تو غذائے دوا اور اگرکیفیت زیادہ تو دوائے غذائی ہے۔اگر صرف اپنی صورت نوعیہ سے اثرکرے تواسے ذوالخاصہ کہتے ہیں جس کی دوصورتیں ہیں۔اول ذوالخاصہ مواقفہ یعنی تریاق۔دوم ذوالخاصہ مخالفہ جیسے زہر۔ اگرمادے اور صورت نوعیہ سے اثرکرے توغذائے ذالخاصہ اور اگر کیفیت اورصورت نوعیہ سے اثرکرے تواس کودواذوالخاصہ کہتے ہیں۔
اس مختصر سی تفصیل سے اندازہ ہوگاکہ غذاکے اثرات اور وسعت کس قدرطویل ہے یعنی ادویات میں بھی غذائی اثرات شامل ہیں ۔اس لئے علاج بالغزامیں ایسی تمام ادویات شامل ہیں اور ہماری روزانہ زندگی میں ان کا کثرت سے استعمال بھی ہوتاہے۔جیسے نمک ومٹھاس وغیرہ اور ایسی خالص ادویات بھی شامل ہیں جوروزانہ زندگی کاجزو ہیں جیسے زنجبیل،مرچ سیاہ اور گرم مصالحہ وغیرہ۔
غذاکی اقسام: غذاکی دو اقسام ہیں جومندرجہ ذیل ہیں۔(۱)غذائے لطیف۔(۲)غذائے کثیف
غذائے لطیف: ہلکی پھلکی قسم کی ایسی غذاجس سے رقیق خون پیداہو۔جیسے آبِ انار وغیرہ۔
غذائے کثیف: بھاری یابھدی قسم کی ایسی غذاجس سے غلیظ(گاڑھا)خون پیداہو۔جیسے گائے کاگوشت وغیرہ۔
پھر ہرایک کی دوصورتیں ہیں۔(۱)صالح الکیموس یا فاسدالکیموس۔(۲)کثیرالغزا یا قلیل الغزا
صالح الکیموس: ایسی غذاجس سے جسم کیلئے بہترین خلط پیداہو۔ جیس بھیڑ کا گوشت اور ابلاہواانڈہ وغیرہ۔
فاسدالکیموس: وہ غذاجس سے ایسی خلط پیداہوجوبدن کیلئے مفیدنہ ہو۔ جیسے نمکین سوکھی ہوئی مچھلی یامولی۔
کثیرالغزا:وہ غذاہے جس کا اکثر حصہ خون بن جائے ۔جیسے نیم برشٹ انڈے کی زردی وغیرہ۔
قلیل الغزا: وہ غذا جس کا بہت تھوڑا سا حصہ خون بنے۔ جیسے پالک کا سالگ وغیرہ۔
غذائے لطیف، کثیرالغزا اور صالح الکیموس کی مثال زردی بیضہ نیم برشٹ،انگور اورماء الحم(یخنی) ہے۔غذائے کثیف،قلیل الغزا اورفاسدالکیموس کی مثال خشک گوشت،بینگن، مسور اور باقلا ہیں۔
پانی
پانی چونکہ ایک بسیط رکن ہے اس لئے بدن کی غذانہیں بنتا بلکہ غذاکابدرقہ بنتاہے یعنی غذاکوپتلاکرکے باریک تنگ راستوں میں پہنچانے کاکام کرتا ہے۔
بہترین پانی: چشموں کاپانی سب سے بہترہوتاہے اور چشموں میں سے بہترین چشمہ وہ ہے جس کی زمین طبنی (خاکی) ہواور کی صفت یہ ہو کہ اس کا پانی شیریں ہو،مشروق کی طرف بہتاہو،اس کا سرچشمہ دورہو،بلندی سے پستی کی طرف آئے اور اس پرآفتاب کی روشنی پوری طرح پڑتی رہے۔
یہ یادرہے کہ موجودہ پانی جوہمارے گردوپیش میں ہے وہ بسیط پانی نہیں ہے جیساکہ ارکان کے بیان میں ہے ۔بلکہ یہ مرکب پانی ہے اور کئی چیزوں سے مرکب ہے۔یہ پیٹ میں جاکرپھٹ جاتاہے اور اس میں سے خالص (رکن)پانی جسم میں اپنے فرائض انجام دیتاہے جواوپرمذکورہیں۔
دوسرے درجہ کاپانی: چشموں کے بعد بارش کے پانی کادرجہ ہے لیکن اس میں بھی بہترین پانی وہ ہے جوپتھریلے گڑھے میں جمع ہوگیاہواور اس پر خوب دھوپ پڑتی ہو اور اس کے ساتھ شمال اور مشرق کی ہواؤں کے تھپیڑے لگتے ہوں ان پانیوں کے علاوہ دوسرے سب پانی تیسرے درجہ کے ہیں جیسے دریاؤں ، نہروں اور ندی نالوں وغیرہ کا پانی۔
آج کل شہروں کے اندر پمپکنگ اور ڈسٹلنگ کاانتظام ہے یعنی پانی کو مشین کے ذریعے کھینچ کراس کی تطہیر کی جاتی ہے جو انسانی ضرورت کیلئے ایک اچھی قسم کاپانی بن جاتاہے۔لیکن یہ پانی بھی چشموں اور بارش کے پانی کاجواپنی صفات میں پورے ہوں مقابلہ نہیں کرسکتا۔امریکہ کا ایک ڈاکٹر” ویلے” نے جو ماہرعلاج بالغزاسمجھاجاتاتھا نے ایک بارکہاتھا کہ بہت جلدایسادورآنے والاہے کہ ڈاکٹر مریضوں کوجونسخے لکھ کر دیں گے وہ ادیات نہیں بلکہ اغذیہ ہوں گے۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جوکچھ ڈاکٹر موصوف نے کہاتھا وہ درست ہے کیونکہ موجودہ سائنسی دور میں جوکچھ غذائیات پر تحقیقات ہوئی ہے اگر اس کو سلیقہ سے ترتیب دے دیاجائے توعلاج بالغزاپر ایک بہت بڑاخزانہ سامنے آجاتاہے جس کی مختصر حقیقت درج ذیل ہے۔
غذائی تجزیہ: غذامیں پانچ اجزاءکاہوناضروری ہے۔(۱)پروٹین۔اجزاءئے لحمیہ(۲) فیٹس۔اجزاءئے روغنیہ (۳) کاربوہائیڈریٹس۔شکری اورنشاستہ دار غذا۔(۴) سالٹس۔ نمکیات۔(۵)پانی۔جس غذامیں ان میں سے کسی ایک جزوکی کمی بیشی رہے گی توامراض پیداہوں گے اور ایساہوتاہے۔
وٹامن کی ضرورت: مندرجہ بالا غذائی اجزاءکے ساتھ ان میں ایک قسم کا جوہربھی ہوتاہے جس کووٹامن (حیاتین) کہاجاتاہے۔جس غذامیں یہ وٹامن نہ ہوں یاضائع ہوجائیں یاضرورت کے مطابق استعمال نہ کئے گئے جائیں توجسم انسان میں امراض پیداہوجاتے ہیں۔ یہ تجربات کیے گئے اور درست ثابت ہوئے ہیں۔
علاج بالغزامیں غلط فہمی: عام طورپر علاج بالغزا میں یہ سمجھاجاتاہے کہ اس کاتعلق ان امراض کے ساتھ ہے جو اعضائے غذائیہ سے پیداہوتے ہیں جن میں منہ کے غدودومری ، معدہ امعائی،جگروطحال اور لبلبہ شریک ہیں۔زیادہ سے زیادہ یہ خیال کیاجاتاہے کہ
(۱)وہ امراض جو اعضائے ہضم کی خرابی سے ظاہر ہوں۔(۲)وہ امراض جو غذاکی کمی بیشی یا اجزاءئے غذائیہ کی کمی بیشی سے پیداہوتے ہیں۔بعض مخصوص اغذیہ جوبعض امراض میں مفید ہیں لیکن ایسا خیال کرناغلط ہے بلکہ لاعلمی پرمنحصرہے۔
حقیقت علاج بالغزا: علاج بالغزاکی حقیقت یہ ہے کہ انسان کے اعضائے غذائیہ خصوصاً منہ سے لے کر مقعد تک کوئی ایک ہی قسم کاعضو نہیں ہیں اور نہ ہی ایک ہی قسم کی نسیج (ٹشو)سے بنے ہیں بلکہ انہی انسجہ سے بنے ہیں جن سے اعضائے رئیسہ بنے ہیں اور ہر مفردعضو(نسیج)کاتعلق ان کے ساتھ ہے۔اس لئے جب بھی اعضائے غذائیہ میں کسی حصہ میں خرابی پیداہوتی ہے تو وہ عضو رئیس میں مبتلائے مرض ہوجاتاہے۔اس لئے متعلقہ عضو درست ہونے پر صحت کاملہ حاصل ہوجاتی ہے چونکہ خون جسم کی غذابنتاہے اورغذاسے خون پیداہوتاہے اس لئے غذائی اجزاء ہی صحیح معنوں میں صحت و طاقت قائم رکھتے ہیں۔
زندگی اور ضرورت غذا
زندگی کے لازمی اسباب:
ہر زندگی کیلئے وہ انسانی ہویا حیوانی اس میں اسباب زندگی لازمی ہیں۔ جن میں (۱)ہوا و روشنی۔(۲)کھانا پینا۔(۳)حرکت و سکون۔(۴)حرکت و سکون نفسانی۔(۵)نیندو بیداری۔ (۶)ا حتباس واستفراغ ۔
یہ ایسے قوانین اورصورتیں ہیں جن سے زندگی کاتعلق کائنات سے بھی پیداہوگیاہے انہی کواسباب زندگی کہاجاتا ہے۔ طبی اصطلاح میں ان کو اسباب ستہ ضروریہ کہتے ہیں۔ ا ن میں جب کمی بیشی واقع ہوجاتی ہے۔اسی وجہ سے بدن انسانی میں جوحالت پیداہوتی ہے اس کومرض کانام دیاجاتاہے جن کی تفصیل کتب طبیہ میں درج ہے۔
یہ چھ اسباب ضروریہ دراصل عملی حیثیت میں تین صورتیں اختیار کرلیتے ہیں۔
(اول)جسم کوغذائیت مہیاکرنا۔جیسے ہوااور روشنی اور ماکولات و مشروبات ہیں۔
(دوم)جسم میں غذائیت کوہضم کرکے جزو بدن بناتے ہیں جیسے نیند وبیداری ، حرکت وسکون جسمانی اور حرکت وسکون نفسانی ہیں۔
(سوم)جسم کے اندر غذائیت ایک مقررہ وقت تک قائم رکھتے ہیں تاکہ جزوبدن جائے اور جب ان کی ضرورت نہ ہوتواس کو خارج کردے۔ان کو احتباس واستفراغ کہتے ہیں۔
غذائیت زندگی: غذائیت میں ہوااور روشنی کے ساتھ ہر قسم کی وہ اشیاء شامل ہیں جوکھانے پینے میں استعمال ہوسکتی ہیں جن میں تیزابات و زہر بھی شامل ہیں۔ان کے متعلق یہ امورذہن نشین کرلیں کہ وہ سب جسم میں صرف غذائیت مہیانہیں کرتی ہیں بلکہ جسم بھی بناتی ہیں اورجسم کومتاثر بھی کرتی ہیں اس کے ساتھ بدل مایتحلل کی تکمیل بھی ہوتی ہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حرارت غریزی اور رطوبت غریزی کی مدد کرتی ہے۔ان حقائق سے ثابت ہواکہ غذائیت کی ضرورت ذیل کی صورتوں میں لازم ہے۔
(۱)غذائیت سے اخلاط خصوصاً خون پیداہوتاہے۔
(۲)غذائیت سے کیفیات بنتی ہیں۔
(۳)غذائیت سے جسم کی تعمیر ہوتی ہے۔
(۴)جو کچھ جسم انسانی میں کسی حیثیت سے خرچ ہوتاہے وہ پھر مکمل ہوجاتاہے۔
(۵)غذائیت سے حرارت غریزی کومدد ملتی ہے۔
(۶)غذائیت سے رطوبت غریزی قائم رہتی ہے۔
غذاکی ضرورت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جس طرح تیل چراغ کی بتی میں خرچ ہوتاہے اور جلتاہے اسی طرح انسان اور حیوان کے بدن کی حرارت اور رطوبت بھی خرچ ہوتی ہے۔بالکل چراغ کے تیل اور بتی کی طرح جب وہ دونوں خرچ ہوجائیں تووہ بجھ کررہ جاتاہے۔اسی طرح حرارت اور رطوبت انسانی کے فنا ہوجانے سے انسانی زندگی کا چراغ بھی گل ہوجاتاہے۔پس حرارت اور رطوبت انسانی جوانتہائی ضروری اور لابدی اشیاء ہیں ان کا بدل اور معاوضہ ہونا لازمی امرہے تاکہ حرارت غریزی اور رطوبت غریزی فوراًجل کر فنانہ ہوجائیں۔اس لئے غذائیت ایک انتہائی ضروری اور لابدی شے ہے ۔اس لئے اس کی طلب اور تقاضا ایک اضطراری اور غیر شعوری حالت ہے۔
انسان کے جسم کی حرارت غریزی اور رطوبت غریزی کی مثالیں چراغ کی بتی اور تیل کی سی ہیں جوچراغ کے جلنے کو قائم رکھتے ہیں۔کبھی بتی جل جانے سے چراغ بجھ جاتاہے اور کبھی تیل خرچ ہوجانے سے چراغ گل ہوجاتاہے۔یہی صورت انسانی جسم میں پائی جاتی ہے اور حرارت غریزی اور رطوبت غریزی ختم ہوکر انسانی زندگی کو فناکرتی رہتی ہیں۔اس لئے اگر انسان حرارت غریزی کی حفاظت کرتارہے تونہ صرف طبعی عمر کوپہنچتاہے بلکہ امراض سے بھی محفوظ رہتاہے اور اس کے قویٰ اور طاقتیں قائم رہتی ہیں۔
اس حقیقت سے اکثر انسان ناواقف ہیں کہ حرارت کیسے پیداہوتی ہے اور رطوبت کیسے قائم رہتی ہے۔عام طورپر یہی ذہن نشین کرلیاگیاہے کہ جو غذا وقت بے وقت کھالی جائے وہ ضرورخون اور طاقت بن جاتی ہے۔زیادہ سے زیادہ گرم یامرغن اغذیہ کاکھالیناکافی ہے لیکن ایسی باتیں حقیقت سے بہت دور ہیں۔اگر اتنا سمجھ لینا کافی ہوتاتو ہر امیر آدمی انتہائی صحت مند اور ان میں کوئی مریض نظرنہ آتابلکہ اگرغور سے دیکھا جائے تو امیروں میں مریض زیاہ ہوتے ہیں اور بھوکے فقیروں اور غریبوں میں مریض خصوصاً پیچیدہ امراض کے مریض تومشکل سے نظرآتے ہیں۔اس سے ثابت ہواکہ صرف غذاکاکھالینا ہی صحت وطاقت کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کیلئے کچھ اصول بھی ہیں تاکہ وہ غذاجسم میں جا کر مناسب طورپر حرارت اور رطوبت کی شکل و صورت اختیارنہ کرلے اور خرچ ہو۔ ایسانہ ہو کہ بجائے مفیدومعاون اثرات کے مضراور غیر معاون ثابت ہوکرمرض یافناکا باعث بن جائے۔ یہی صحیح غذاکے استعمال اور غذائیت سے مفید اثرات حاصل کرنے کاراز ہے۔
طاقت غذامیں ہے:جاننا چاہیے کہ انسانی جسم میں طاقت خصوصاً قوت مردانہ کے کمال کا پیداکرناصرف مقوی اور اکسیر ادویات پر ہی منحصر نہیں ہے کیونکہ ادویات توہمارے جسم کے اعضاء کے افعال میں صرف تحریک وتقویت اور تیزی پیداکرسکتی ہیں لیکن وہ جسم میں بذاتِ خود خون اور گوشت و چربی نہیں بن سکتیں کیونکہ یہ کام اغذیہ کا ہے۔
پس جب تک صحیح اغذیہ کے استعمال کواصولی طور پر مدنظر نہ رکھاجائے تواکسیر سے اکسیر مقوی اغذیہ وادویہ بھی اکثربے سود ثابت ہوتی ہیں۔اگر ان کے مفیداثرات ظاہر بھی ہوں توبھی غلط اغذیہ سے بہت جلد ان کے اثرات ضائع ہوجاتے ہیں۔حصولِ قوت میں اغذیہ کی اہمیت کااندازہ اس امر سے لگائیں کہ حکماء اور اطباء نے تقویت کیلئے جوادویات تجویز کی ہیں ۔ان میں عام طورپر اغذیہ کوزیاہ سے زیادہ شامل کیاہے ۔ مثلاً حلوہ جات وحریرہ جات اور مربہ جات اورخمیرہ جات وغیرہ شامل ہوتے ہیں ۔ان سے زیادہ تیز قسم کی اغذیہ کوادویات میں تبدیل کرنے کی صورت میں مثلاً ماء اللحم دو آتشہ وسہ آتشہ اور قسم قسم کی شرابیں شامل کرلی ہیں اور کسی جگہ بھی غذائی اثرات کونظرانداز نہیں اوریہی فن طب قدیم کا کمال ہے۔
ہم روزا نہ زندگی میں جوپلاؤ زردہ اور متنجن وفرنی وغیرہ چاولوں کی شکل میں استعمال کرتے ہیں ۔یہ سب کچھ اغذیہ کوادویات سے ترتیب دے کر ان میں تقویت پیداکی گئی ہے۔اسی طرح سوجی کی بنی ہوئی سویاں، ڈبل روٹی،حلوہ ، حریرہ اور پراٹھے یہ سب کچھ طاقت کومدنظررکھ کر اطباء اور حکماء نے ترتیب دیے ہیں۔البتہ ان کے صحیح مقام استعمال کوجاننے اور مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔
غذاسے طاقت کی پیدائش: غذاصرف کھالینے ہی سے طاقت پیدانہیں ہوتی بلکہ حقیقی طاقت اس وقت پیداہوتی ہے جب غذاکھالینے کے بعد صالح اور مقوی خون بن جاتاہے۔صالح اور مقوی خون میں حرارت اور رطوبت ہوتی ہے جورطوبت غریزی اورحرارت غریزی کی مددکرتی ہے۔رطوبت غریزی اورحرارت غریزی کا صحیح طوروپیدائش افعال واثرات اورخواص وفوائد کچھ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر ربوبیت اور رحمت کی حقیقت واہمیت ،افعال واثرات اور خواص وفوائدکوذہن نشین کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کویہ شوق و جذبہ پیداہواہے کہ وہ زمانے میں ایک ربانی شخصیت بن جائے۔
بہرحال یہ اگرہرایک کے لئے سہل کام نہیں ہے توکم ازکم اس قدرہی سمجھ لے کہ صحت وطاقت کادارومدارصالح اور مقوی خون پر ہے اور اس خون سے بدن انسان کوہرقسم کی غذائیت اور قوت مل سکتی ہے اور ہماری غذامیں وہ تمام اجزاءء شامل ہوتے ہیں جن سے صحت منداور صالح خون پیداہوسکتاہے جو انسان میں غیرمعمولی طاقت پیداکردے بلکہ وہ طاقت اس کوشیرکے مقابلے میں کھڑاکرسکتی ہے۔ اس کے ثبوت میں ہم پہلوان کودیکھ سکتے ہیں جوکبھی کوئی دوا کھاکرپہلوان نہیں بنتے بلکہ غذاکھاکرپہلوان بنتے ہیں ۔البتہ ان کواس بات کاعلم ہوتاہے کہ وہ کیسی غذاکھائیں اور اس کو کس طرح ہضم کریں۔
غذااورطاقت:
یہ حقیقت ذہن نشین کرلیں کہ دنیا میں کوئی غذابلکہ دواایسی نہیں ہے جو انسان کوبلاوجہ اور بلاضرورت طاقت بخشے مثلاً دودھ ایک مسلمہ طورپر مقوی غذاسمجھی جاتی ہے لیکن جس کے جسم میں ریشہ اوربلغم اور رطوبات کی زیادتی ہواس کیلئے سخت مضرہے۔گویاجن لوگوں کے اعصاب میں تحریک اور تیزی وسوزش ہووہ اگردودھ کوطاقت کیلئے استعمال کریں گے توان کامرض روزبروز بڑھتاجائے گااور طاقتور ہونے کی بجائے کمزورہوتے جائیں گے۔اسی طرح مقوی اور مشہورغذاگوشت ہے ۔ہرمزاج کے لوگ اس طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایک فاضل حکیم جانتاہے کہ گوشت کاایک خاص مزاج ہے جس کسی کا وہ مزاج نہ ہواس کیلئے وہ مفید ہونے کی بجائے مضر ہے مثلاً لوگوں کے جسم میں جوشِ خون یاخون کادباؤ (ہائی بلڈپریشر)بڑھاہواہو۔ان کواگرگوشت خصوصاًبھناہوا گوشت کھلایاجائے توان کوالٹا کر مارے گا۔گویاجن لوگوں کے گردوں میں سوزش ہواس میں گوشت کااستعمال بجائے طاقت دینے کے سخت نقصان دہ ثابت ہوتاہے۔تیسری مقوی اور مشہور غذاگھی ہے جواس قدر ضروری ہے کہ تقریباً ہرقسم کی غذاتیارکرنے میں استعمال ہوتاہے۔لیکن جن لوگوں کوضعف جگرہووہ اگر گھی کااستعمال کریں گے تو ان کے ہاتھ پاؤں بلکہ تمام جسم پھول جائے گا اورسانس کی تنگی پیداہوجائے گی اور ایسا انسان جلدمرجاتاہے۔
یہی صورتیں ادویات میں بھی پائی جاتی ہیں۔دنیامیں کوئی ایسی دوامفردومرکب نہیں ہے جس کوبلاوجہ اور بلاضرورت استعمال کریں اور وہ طاقت پید ا کرے۔یہی وجہ ہے کہ آج جبکہ فن علاج کوپیداہوئے ہزارو ں سال گزرچکے ہیں کوئی حاذق اور فاضل حکیم بلاوجہ اور بغیرضرورت کسی ایک دوایاغذاکو عام طورپر مقوی(جنرل ٹانک)قرارنہیں دے سکتا ۔
غذاکھانے کاصحیح طریقہ: میں نے سالہاسال کے طبی مطالعہ اور تجربات میں کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جوصحیح اور عوامی طریق پر انسان کوغذاکھانے کے اصول بتائے۔اس میں طب یونانی کے ساتھ ویدک کتب اور ماڈرن میڈیکل سائنس کی وٹامنی تھیوری تک شریک ہیں۔لیکن قرآن حکیم ہی ایک ایسی کتاب ہے جو صحیح اور عوامی طریق پرغذا کھانے کاانسان کوصحیح طریقہ بتاتی ہے۔میںیہ بات اپنے مذہب ،ایمان اور عقیدہ کی بناء پر نہیں کہتابلکہ علم وفن اور سائنس کومدنظر رکھ کر کہتاہوں جس کومیری اس بات میں مبالغہ معلوم ہو اس کو چیلنج ہے کہ قرآن حکیم کے سیدھے سادے اوریقینی طریق غذاکے استعمال کو دنیا کی کسی طبی یا سائنسی کتاب سے نکال کردکھادے میں اس شخص کی عظمت کوتسلیم کرلوں گا۔ایک بات میں یہاں اور بیان کر دوں گاکہ میں نے گذشتہ تیس سالوں میں کسی اسلامی قا نون کواس وقت تک تسلیم نہیں کیا جب تک اس کی حکمت وسائنس اورنفسیات کے قانون کوپرکھ نہیں لیا۔البتہ بعض مقامات پردنیا کی حکمت وسائنس اور نفسیات کے اصول غلط ہوجاتے ہیں لیکن قرآن حکیم کے قوانین اور سنت الہیہ میں فرق نہیں آتا۔ کیونکہ حقیقت ہی قانون ہے اور قرآنِ حکیم سرتاپا حقیقت ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے ۔
کلو وشرابوولاتسریفو
ترجمہ:کھاؤپیو مگربغیر ضرورت کے صرف نہ کرو۔
کتنی سادگی سے تین باتیں کہہ دی ہیں اور اس میں کھا نے پینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جس قدر جس کادل چاہے کھائے پئے کوئی کمی بیشی کی مقدار مقرر نہیں کی گئی ۔زیادہ کھانے والے بھی ہوتے ہیں اور کم کھانے والے بھی۔ ہر ایک کو کھلی اجازت ہے مگر تاکیدہے کہ بغیر ضرورت کھاناپینا منع ہے۔ اس ضرورت کا اندازہ کون لگائے۔اس کیلئے ہمارے سامنے پیٹ کی طلب ہے یعنی جوکچھ وہ مانگ رہاہے وہ اس کی ضرورت ہے اس کو بھوک ہے یا جوکچھ کھایا پیا جا رہاہے وہ صرف ایک خواہش کے تحت کھایاجارہاہے ۔اگربھوک پیاس کے بغیر صرف خواہش اور لذت کیلئے کھایا پیا جارہاہے تو پھریہ اصراف ہے ۔اس کوقرآن منع کرتاہے۔بھوک اورپیاس کا کون اندازہ لگائے ۔اس کاآسانی سے اندازہ روزوں سے لگایا جاسکتاہے کہ بھوک اور پیاس کیاہوتی ہے اور اس وقت کتناکھایاپیا جاسکتاہے۔گویاصحیح بھوک اور پیاس کے اندازکے مطابق بھوک پیاس ہے تو کھایاپیاجاسکتاہے ورنہ اس سے کم بھوک اورپیاس میں کھاؤ پیوگے تویہ خواہش اور لذت ہوگی ضرورت نہیں۔
مقدارغذاکااندازہ: مقدار غذاجوایک وقت کھانی چاہیے اور شدید بھوک پر ۔بھوک کا اندازہ چاہے وہ تیسرے روزہی کیوں نہ لگے پیٹ بھرنے سے کرسکتاہے۔مثلاً شدید بھوک میں انسان اپنے علاقہ ومقام اور معمول کے مطابق تین عدد روٹیاں یاچپاتیاں یا اتنی تھالیاں بھرکرکھاسکتاہے توپھرانسان پرلازم ہے کہ جب تک اس قدر کھانے کی ضرورت نہ ہوغذا کو ہاتھ نہ لگائے ۔جولوگ کم غذاکھاتے ہیں۔ان کے پیٹ میں پہلے ہی غذاپڑی ہوئی خمیر بن رہی ہوتی ہے ۔ اس لئے وہ تھوڑی غذاکھاتے ہیں اور وہ بھی پیٹ میں غذاسے مل کر خمیر بن جاتی ہے۔اس طرح خمیر کے ساتھ تبخیر کاسلسلہ جاری رہتاہے جوبڑھ کر زہرکی صورت اختیار کرلیتاہے جس کا نتیجہ مرض ا ور ضعف کی صورت میں ظاہر ہوتاہے۔
بلاضرورت غذاضعف پیداکرتی ہے: عام طورپر اس قول وفعل اوربات و عمل پر سوفیصد یقین پایاجاتاہے کہ ضرورت وبلاضرورت غذاکھالی جائے تووہ جسم انسان کے اندرجاکریقینا طاقت پیداکرے گی۔اسی یقین کے ساتھ کمزوری اور مرض کی حالت میں بھی یہی کوشش کی جاتی ہے اور مریض کو مقوی غذادی جاتی ہے لیکن یہ نظریہ اور یقین حقیقت میں غلط ہے کیونکہ بلاضرورت غذاہمیشہ ضعف اور مرض پیداکرتی ہے۔جولوگ صحت اور طاقت کے متلاشی ہیں ان کو بلاضرورت کھانا تورہاایک طرف اس کوہاتھ لگانے اوردیکھنے سے بھی دور رہناچاہیے۔کیونکہ ہر غذاکودیکھنے اور چھونے سے بھی جسم میں لطف ولذت پیداہوتی ہے۔اس کابھی جسم پراثرہوتاہے جیسے ترشی کو دیکھ کرمنہ میں پانی آجاتاہے۔
ہضم غذا:جوغذاہم کھاتے ہیں اس کا ہضم منہ سے شروع ہوتاہے۔لعاب دہن اور منہ اور دانتوں کی حرکات ودباؤ اس کی شکل وکیفیت کوبدل کراس کو ہضم کرنے کی ابتداشروع کر دیتے ہیں ۔جب غذامعدہ میں اترجاتی ہے تو اس میں ضرورت کے مطابق رطوبت ِمعدی اپنااثر کرکے اس کوایک خاص قسم کا کیمیائی محلول بنادیتی ہے اوراس کااکثرحصہ ہضم ہوکرخون میں شامل ہوجاتاہے۔اور باقی خوراک آنتوں میں اتر جاتی ہے۔معدہ کے فعل وعمل میں تقریباًتین گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔چھوٹی آنتوں میں پھراس کی رطوبت اور لبلبہ کی رطوبت اورجگرکا صفراباری باری اوروقتاً فوقتاًشریک ہوکراس میں ہضم ہونے کی قوت پیداکرتے ہیں ۔اس عمل وفعل میں تقریباًچارگھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ پھرکہیں جاکر غذاپورے طورپر جگرکے ذریعے پختہ ہو کر خون میں شامل ہوتی ہے۔
ظاہر میں توایسا معلو م ہوتاہے کہ غذاہضم ہوگئی ہے کیونکہ وہ خون میں بن جاتی ہے لیکن طب قدیم میں صحیح معنوں میں غذااس وقت تک ہضم نہیں ہوتی جب تک وہ خون سے جداہوکر جسم پر مترشح نہ ہواور پھر طبیعت اس کوجذب کرکے جزوبدن نہ بنادے ۔ غذاکوخون بننے تک اگرگیارہ گھنٹے صرف ہوتے ہیں توجزوبدن ہونے تک تین چار گھنٹے اور خرچ ہو جاتے ہیں۔
غذاکادرمیانی وقفہ: ظاہرہ تویہ معلوم ہوتاہے کہ جب تک ایک وقت کی کھائی ہوئی غذاخون بن کرجزوبدن نہ بن جائے اس وقت تک دوسری غذانہیں کھانی چاہیے کیونکہ جوغذاہضم ہورہی ہے اس کی طرف پورے جسم وروح اور خون ورطوبت کی توجہ ہے۔جب بھی اس ہضم کے دوران میں غذاکھائی جائے گی توجوتوجہ اول غذاکی طرف ہے وہ یقینا نئی غذاکی طرف لگ جائے گی۔اس طرح اول غذاپوری طرح ہضم ہونے سے رہ جائے گی اور جہاں وہ رہ گئی ہے وہاں پڑی رہنے سے متعفن ہوجائے گی۔اور یہ تعفن باعث امراض ہوگااور یقینا طاقت پیداکرنے کی بجائے ضعف پیداکرے گی۔اگر طبیعت دوسری غذاکی متوجہ نہیں ہوگی تو یقیناوہ بغیر ہضم ہوئے پڑی رہے گی اور متعفن ہوجائے گی۔اب اصولاًاور فطرتاً پندرہ سولہ گھنٹے اس پر عمل کرنا انتہائی مشکل ہے۔اس لئے اطباء اور حکماء نے اس وقت کو زیادہ اہمیت دی ہے جس وقت ہضم میں تیزی اور طبیعت کی توجہ زیادہ ہو یہ صورت اس وقت تک قائم رہتی ہے ۔ جب تک غذاچھوٹی آنتوں سے بڑی آنتوں میں اترجائے اس عرصہ میں تقریباً پانچ سات گھنٹے لگ جاتے ہیں ۔ دوسرے معنوں میں اس طرح سمجھ لیں کہ
جب تک غذا کے ہضم میں خون کی مختلف رطوبات شامل ہوتی رہتی ہیں اس وقت تک دوسری غذانہیں کھانی چاہیے کیونکہ اس طرح وہ رطوبات جو ہضم غذامیں شامل ہوتی رہتی ہیں رک جاتی ہیں اور اس طرح وہ خراب اور نامکمل رہ جاتی ہیں ۔گویا چھ سات گھنٹے وقفہ ہر غذا کے درمیان لازمی اور یقینی امر ہے ورنہ صحت کا قائم رہناناممکن ہے ۔
روزہ اور وقفہ غذا: اسلام میں روزہ فرض ہے۔ہرسال پورے ایک ماہ کے روزے ہر بالغ اور صحیح الدماغ انسان پر فرض ہیں۔ہر روزہ کی ابتدا صبح سورج نکلنے سے تقریباً ڈیرھ گھنٹہ پہلے شروع ہوتاہے اور سورج غروب ہونے کے ساتھ ختم ہوجاتاہے۔اس حساب سے روزے کاوقفہ تیرہ چودہ گھنٹے سے پندرہ سولہ گھنٹے بن جاتاہے ۔اس وقفہ پر اگر غورکیاجائے توپتہ چلتاہے کہ ہرسال میں ایک ماہ کے روزے رکھنا ہضم غذا کے مکمل نظام کوچلانااور قائم کرناہے۔ اس طرح سارے جسم کی مکمل صفائی ہوجاتی ہے اور خون کیمیائی طورپرمکمل ہوجاتاہے اور تمام اعضاء کے افعال اور انسجہ درست ہوجاتے ہیں ۔
روزہ اور کنٹرول غذا: روزے میں سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ وقت مقررہ کے بعد نہ روزہ رکھاجاسکتاہے اور نہ ہی وقتِ مقررہ سے پہلے کھولا جا سکتا ہے ۔گویا روزہ رکھ لینے کے بعد ہرقسم کاکھاناپینا بالکل بندبلکہ کھانے پینے کی چیزوں کودیکھنا بھی اچھاخیال نہیں کیاجاتا۔اس لئے دوسروں کو تاکید ہے کہ روزہ دار کے سامنے کھانااور پینا نہیں چاہیے ۔ گویاماہ رمضان میں غذا پورے طورپر کنٹرول ہوجاتی ہے البتہ مسافر اور مریض کوغذاکی اجازت ہے اور ان کوتاکید ہے کہ وہ اپنے روزوں کی گنتی سکون اور صحت کے زمانے میں پوری کرسکتے ہیں۔
اگراس حقیقت کوسامنے رکھاجائے کہ قرآن حکیم کانزول ماہ رمضان میں ہواتو تسلیم کرناپڑے گاکہ اسلام کی ابتدا کنٹرول غذاسے ہوتی ہے اور جولوگ کنٹرول غذاکرتے ہیں ا ن کو متقی اور پرہیزگارکہتے ہیں جیسے قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
’’روزے تم پر فرض ہیں جیسے پہلے لوگوں پر فرض تھے تاکہ تم متقی اور پرہیزگاربن جاؤ”
جولوگ جائز اوراپنی حلال کی کمائی اللہ تعالیٰ کی مرضی(کنٹرول)کے بغیر نہیں کھاتے وہ دوسروں کی دولت کی طرف کیسے آنکھ اٹھاکر دیکھ سکتے ہیں۔بس یہی تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔
اس تقویٰ اور پرہیزگاری اور اطاعت ورضاالہیٰ کومدنظررکھیں اور اس طرف غورکریں کہ
ان اللہ لایحب المسرفین
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ بلاضرورت خرچ کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
اللہ تعالیٰ جوتمام طاقتوں کاخالق ہے جس سے ان کی محبت نہ رہے گی توپھر اس کوطاقت کیسے حاصل ہوسکتی ہے۔اس لئے غذا میں ضرورت کااحساس اور تصور انتہائی ضروری بات ہے اور عین حقیقت وفطرت ہے۔ باقی رہاغذا کاتوازن یعنی کس قسم کی غذاکھانی چاہیے۔اس کیلئے مزاج و ماحول اور قوت کومدنظررکھنا پڑتاہے۔یہ سب کچھ بالاعضاء ہی تسلی بخش طریق پر عمل میں آسکتاہے جس کی تحقیقات علم الغزا میں بیان کی جا سکتی ہیں۔البتہ اس حقیقت کو مدنظررکھیں کہ کسی قسم کی غذاہواس لئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ حلال اورطیب ہو جیسے قرآن حکیم میں لکھاہے۔
کلوحلال طیب
ترجمہ:حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔
جس سے مراد اللہ تعالیٰ کانام لیاگیاہویااللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق حاصل کی گئی ہو۔ طیب سے مراد ہے کہ اس شے میں نہ صرف خوشبو ہوبلکہ اس میں تازگی کی بھی خوشبوہو۔ یہاں پر یہ مقام قابلِ غور ہے کہ طیب شے کوحلال کے ساتھ بیان کیاگیاہے۔یعنی اگر وہ شے طیب نہیں ہے تو یقینا نجس ہے جس کا درجہ حرام کے بالکل قریب ہے۔
ہضم غذا: زندگی کے لازمی اسباب جن کواسباب ستہ ضروریہ کہاجاتاہے ان کی عملی حیثیت تین ہے جیسا کہ لکھاگیاہے اس کی اول صورت جسم کیلئے غذاحاصل کرنا ہے جیسے ہوا، روشنی اور ماکولات ومشروبات وغیرہ۔ان کی دوسری عملی صورت جسم میں غذاکوہضم کرکے جزو بدن بنانے کے لوازم زندگی ہیں۔یہ اسباب ضروری ہضم غذامیں اس لئے لازمی ہیں کہ اگر حرکت وسکون جسمانی،حرکت سکون نفسانی اور نیندو بیداری اعتدال پرنہ رہیں تونہ صرف ہضم غذامیں فرق پڑجاتاہے بلکہ صحت میں بھی خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔
حرکت سکون جسمانی اور ہضم غذا: حرکت ایک ایسی صفت کانام ہے جس سے کوئی جسم یاشے کسی خاص وضع(قیام وسکون)سے فعل میں آئے۔در حقیقت اس دنیا میں سکون مطلق کاوجود نہیں ہے البتہ جب اس کاذکرکیاجاتاہے تواس سے مراد حرکت سکون نسبتی ہوتاہے یعنی جب کوئی جسم بلحاظ دوسرے جسم کے کسی خاص وضع یاحالت میں فعل میں آتاہے تو اس کوحرکت کہتے ہیں۔بہرحال یہ نسبتی حرکت وسکون اپنے خواص واثرات رکھتے ہیں جب کوئی جسم حرکت میں آتاہے تو اس کے ساتھ ہی جسم کاخون حرکت میں آتاہے اور جسم کے جس حصے کی طرف سے حرکت کی ابتداہوتی ہے اس طرف روانہ ہوجاتاہے۔پھر طبیعت اس کو سارے جسم میں پھیلادیتی ہے۔اس طرح خون کی تیزی اور شدت بدن کوگرم کردیتی ہے ۔اس لئے کہاجاتا ہے کہ حرکت جسم میں گرمی پیداکرتی ہے اور اس کی زیادتی جسم کوتحلیل کردیتی ہے۔اس کے مقابلے میں سکون جسم میں سردی پیداکرتاہے۔اس سے خون کی حرکت سستی اور رطوبت میں زیادتی ہوجاتی ہے گویا نسبتاً ہرحرکت ہرسکون کے مقابلہ میں گرمی وخشکی اور تیزی کاباعث ہواکرتی ہے۔اس کے ساتھ ہی خون جسم کے جس حصہ میں پہنچتاہے ۔وہاں پر اپنی حرارت سے وہاں کے اعضاء میں تیزی اور گرمی پیداکرکے وہاں کی غذاکو ہضم کرتاہے اور مواد کوتحلیل کرکے خارج کرتاہے اور اپنی تیزی سے وہاں کی رطوبات خشک کرتاہے۔
حرکت کاتعلق عضلات سے ہے: اس امرکوذہن نشین کرلیں کہ جسم انسان میں ہرقسم کی احساسات اعصاب کے ذمہ ہیں جن کامرکز دماغ ہے اور ہرقسم کی حرکات جوجسم میں پیداہوتی ہیں ان کاتعلق عضلات سے ہے جن کا مرکز قلب ہے۔اسی طرح جسم کوجوغذاملتی ہے اس کاتعلق غدد سے ہے جن کامرکز جگر ہے اوریہی اعضائے رئیسہ ہیں۔ جب جسم میں یا اس کے کسی عضومیں حرکت ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی قلب کے فعل میں تیزی آجاتی ہے۔اس کے فعل میں تیزی کے ساتھ ہی وہ جسم کے خون کوجسم میں تیزی کے ساتھ روانہ کرناشروع کردیتاہے جس کے ساتھ ہی جسم میں حرارت بڑھنی شروع ہوجاتی ہے۔جس کے نتیجہ میں ریاح کااخراج ہوناشروع ہوجاتاہے اور جہاں جہاں پر غیر ضروری رطوبات اور مواد جمع ہوتے ہیں طبیعت ان کو تحلیل کرناشروع کردیتی ہے۔اس کے ساتھ ہی دوران خون کی تیزی کے ساتھ اس کادباؤغدد کی طرف بڑھ جاتاہے اور وہ جسم کوزیادہ سے زیادہ غذا حرارت کی صورت میں دینا شروع کردیتے ہیںجواس میں شریک ہوتی ہے،ساتھ ہی بھوک بڑھ جاتی ہے اور غذازیادہ سے زیادہ ہضم ہوتی ہے جس کا لازمی نتیجہ خون کی زیادتی وصفائی اور طاقت میں ظاہر ہوتاہے۔ ان حقائق سے ثابت ہواکہ حرکت جسم میں حرارت وخون اور قوت وصفائی پیداکرتی ہے اور اس کے برعکس سکون سے جسم میں سردی اور کمی خون اور کمی قوت اور زیادتی مواد کاپیداہونا لازمی امرہے۔بس یہی دونوں صورتوں کابین فرق ہے۔
حرکت اور حرارت غریزی: جاننا چاہیے کہ بدن انسان کایہ کام ہے کہ جوچیز بدن انسان میں از قسم اغذیہ واشربہ وغیرہ خارج سے اور رطوبت و مواد اوراخلاط وغیرہ داخل بدن سے کسی بے محل جگہ یاغیر طبعی حالت سے کسی عضوبدن میں وارد ہوں اس میں حرارت غریزی اپنا فعل کرتی رہتی ہے۔ چونکہ اس دوام فعل اور محنت سے حرارت غریزی میں ضعف پیداہوجانایقینی امرہے اور ضعف وکسل وغیرہ افعال کے لاحق ہونے سے اس کے فضلات کی تحلیل سے عاجز ومجبورہوتی ہے۔اس وجہ سے تھوڑاتھوڑامواداور فضلہ جمع ہوکر کافی مقدارمیں حرارت غریزی کومغلوب کردیتاہے ۔اس لئے حرکات کی طلب ضروری ہوجاتی ہے تاکہ اس سے ایک دوسری گرمی پیداہواور اس کی مدد سے طبیعت مواد اور فضلات کو تحلیل کردے۔اگرچہ مواد اور فضلات قے واسہال اور پسینہ کے ذریعہ سے خارج ہوسکتے ہیں مگر ان طریقوں سے ان کا اخراج ضعف جسم کاباعث ہوتاہے۔دوسری طرف متعلقہ اعضاء میں قوت اخراج کوفطری طورپرکمزورکردیتاہے اور یہ مسلسل عمل ہمیشہ کیلئے انسا ن کوہلاکت کے قریب کردیتاہے۔اس لئے اس کاعلاج حرکات جسم کو متوازن کرنالازمی امرہے ۔یہی حرکات کااحتیاج ہے گویاحرکت جسم حرارت غریزی کیلئے بہترین مددگار ہے اورمحافظ صحت وقوت ہے۔
تحریک قدرت کافطری قانون ہے: خداوندحکیم کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ضرورت بدن انسان کیلئے ایک تحریک پیداکی گئی ہے مثلاًغذاکیلئے بھوک،پانی کیلئے پیاس اور نیند کیلئے اونگھ وغیرہ۔چونکہ انسانی طبیعت کااعتدال پر قائم رہنامشکل ہے اس لئے ان تحریکات میں اکثر کمی ہوتی رہتی ہے اس سے ماکولات ومشروبات اور آرام میں بے اعتدالی پیداہوجاتی ہے۔بس انہی ضروریات کوقائم رکھنے کیلئے یہ تحریکات پیداکی گئی ہیں۔پس محرکات فطری طورپرقدرت کی طرف سے پیدانہ کئے جاتے تولازمی امر تھا کہ انسان اپنی مطلوبہ ضروریات مذکورہ سے غافل ہوجاتا جس کانتیجہ لازمی طورپریہ ہوتاکہ بدن انسان میں خلل واقع ہوجاتا۔اس سے ہلاکت تک کی نوبت پہنچ سکتی تھی۔اس لئے جب انسان کی ان تحریکات میں خلل واقع ہوجائے تواس کوصحت کی خرابی سمجھناچاہیے اور ان تحریکات کواعتدال پرلانے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے نہ صرف صحت قائم رہتی ہے بلکہ طاقت بھی پیداہوتی ہے۔
حرکات کی فطری صورت: ضروریات زندگی خصوصاً ماکولات ومشروبات کیلئے انسان میں جو احتیاج پیداکی گئی ہے اس کیلئے انسان کولازمی طورپر بھاگ دوڑاور جدوجہد کرناپڑتی ہے۔بس یہی کوشش اس میں فطری طورپراس کی تحریکات کوبیداررکھتی ہے لیکن افراد کواپنی ضروریات زندگی کیلئے یہ جدوجہدکرنی پڑتی ہے ۔بس یہی کوشش اس میں فطری طورپراس کی تحریکات کو بیداررکھتی ہے لیکن افراد کواپنی ضروریات زندگی کیلئے یہ جدوجہد اور کوشش نہیں کرناپڑی ۔بہرحال ان تحریکات کوتیزکرنے کیلئے حرکات کاکرنالازمی امرہے۔اس مقصد کوحاصل کرنے کیلئے حکماء نے ریاضت اور ورزش کی مختلف صورتیں پیداکی ہیں تاکہ انسان اپنی تحریکات اور صحت کو قائم رکھ سکیں جوزندگی کیلئے لازم ہیں۔
ریاضت کی حقیقت: ریاضت انسان کیلئے ایک اختیاری حرکت کانام ہے جیسے ورزش ودوڑ،کھیل کود،سیروگھوڑسواری، کُشتی لڑنا اور کَشتی چلانا۔ اسی طرح ہاتھ پاؤں کی مختلف پے درپے حرکات سے ریاضت کی صورتیں پیداکی جاتی ہیں اگرچہ عوام وخواص بلکہ ورزش ماسٹر بھی اس علم سے واقف نہیں ہیں کہ مختلف اقسام کی ورزشیں اور ریاضت سے کس قسم کے اعضاء متاثرہوتے ہیں۔کس عضو کی تقویت کیلئے کس قسم ورزش اور ریاضت ضروری ہے کیونکہ لوگ افعال الاعضاء اور تشریح انسانی سے واقف نہیں ہوتے۔بہرحال عمومی طورپر ریاضت اور ورزش بے حد مفیدعمل ہے۔اگرورزش یا ریاضت کے متعلق یہ پتاچل جائے کہ کس قسم کے کھیل ہمار ے جسم پرخاص طورپراعصاب و دماغ،عضلات وقلب اور جگر وگردوں پراثرانداز ہوسکتے ہیں توایسی ریاضت اور ورزش بہت مفیدہوتی ہے۔
حرکت وسکون نفسانی: نفس کی ایسی حرکت جوضرورت کے وقت کبھی جسم کے اندراور کبھی جسم کے باہرظاہرہوجس کے ساتھ حرارت جسم بھی کبھی اندر کی طرف چلی جاتی ہے اور کبھی باہر کی طرف ظاہرہوتی ہے۔اس کو حرکت و سکون نفسانی کہتے ہیں۔نفس سے مراد نفس انسانی ہے جس کونفس ناطقہ کہتے ہیں جس کا تعلق اور ربط انسان کے قلب سے ہے جو اپنے معانی جزئیہ اورمفہومات کو بذریعہ مختلف قوتوں کے ادراک کرتاہے۔پھر اس کی تین صورتیں ہیں نفس امارہ(غیرشعور)،نفس لوامہ(نیم شعور)اور نفس مطمعنہ(شعور)۔
حرکت وسکون نفسانی کی ضرورت: یہ محال ہے کہ کوئی نفس انسانی اس عالم میں فکر زندگی اور آخرت یا ضرورت معاش و معاشرت یا محبت اولاد یا عمل حبیب یا لطف ولذت سے رغبت یا موذی مرض کاخوف یا دشمن سے خطرہ ونفرت وغیرہ کیفیات و عوارض کے ردعمل اور انفعلات سے متاثرنہ ہوچنانچہ یہی تقاضے نفس انسانی کے ضروریات کے حصول ودفع کی غرض سے باعث حرکت بدن ہوتے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ اگر عوارض مذکورہ کا عارض ہونا ضروری ہے تو ا ن کے ردعمل سے متاثر ہونا بھی یقینی امرہے ۔اس سے روح قلب کو تحریک دے گی اورقلب کی تحریک کے ساتھ خون میں گردش شروع ہوجائے گی جس سے وہ خون شعوری یا غیر شعور ی طورپر اپنا شوق اور دفع پوراکرے گا۔پس جو عوارض و کیفیات اس کیلئے نافع اور بہتر ہوں گے ان کاوہ طالب ہوگااور ان کا وہ شوق کرے گااور وہ جو اس کیلئے مضر اور تکلیف کا باعث ہوں اس سے وہ بھاگے گااور ان کو دفع کرتارہے گا۔ بس انسان کی ان طلب وفرار اور شوق ودفع حرکات ہی سے ہوسکتی ہے بس انہی کیفیات و عوارض کے ردعمل کا نام حرکت وسکون نفسانی ہے ۔
نفس بذات خود متحرک نہیں ہے: کہا تو یہ جاتاہے کہ ’’حرکت و سکون نفسانی‘‘لیکن حقیقت یہ ہے کہ نفس بذاتِ خود متحرک نہیں ہے بلکہ حرکت قویٰ کو ہی لاحق ہوتی ہے جو بذریعہ ارواح محرکہ ظہورمیں آتے ہیں۔اس لئے قویٰ متحرک ہیں اورارواح محرک ہیں۔ ان کے اعمال سے جن جذبات کا اظہار ہوتاہے انہی کوہی حرکت وسکون نفسانی کہتے ہیں۔مگر یہ امربھی یہاں ذہن نشین کرلیں کہ ارواح (یہاں روح سے مراد روح طبی ہے جس کا حامل خون ہے) کوحرکت بھی بذاتِ خود نہیں ہوتی بلکہ حسبِ ضرورت اور ارادہ نفس ناطقہ سے ہوتی ہے جس طرح کوئی مشین خودبخود متحرک نہیں ہوتی جب تک کہ اس کوحرکت دینے والاکوئی نہ ہواس لئے یہاں حرکت وسکونِ کالفظ مجازاً ہی استعمال کیاجاتاہے۔
نفس میں حرکت وسکون کی صورتیں: نفس ضرورت کے وقت کبھی جسم کے اندرکبھی جسم کے باہر حرکت کرتاہے جس کے ساتھ خون اور اس کی حرارت بھی کبھی اندرکی طرف چلی جاتی ہے اور کبھی باہر کی طرف نمایاں طورپرظاہر ہوتی ہے۔پھراس کی تین صورتیں ہیں۔(۱)حرکت کادفعتاًاور یک لخت اندریا باہر کی طرف جانا۔(۲)نفس کابیک وقت کبھی اندراور کبھی باہرحرکت کرنا۔(۳)آہستہ آہستہ اندریاباہر کی طرف جانا۔یہ بات یادرکھیں کہ نفس جس طرف حرکت کرتاہے وہاں پر دورانِ خون تیزہوکرحرارت پیداکرتاہے جہاں سے حرکت کرکے جاتاہے وہاں پردورانِ خون کی کمی ہوکرسردی پیدا ہو جاتی ہے۔
یہ امرذہن نشین کرلیں کہ حرکت وسکون نفسانی دراصل نفس کی حرکت وسکون نہیں ہے کیونکہ نفس اپنامفاد نہیں بدلتاایسا صرف مجازاً کہاجاتاہے۔در حقیقت نفس کے تاثرات اور انفعالات (رد عمل )روح طبعی اور خون میں حرکت پیداکردیتے ہیں۔باالفاظِ دیگر یہ تاثرات اور انفعالات صالح اور فطرت کے مطابق ہوں تو حامل قوت و صحت اور باعثِ نشووارتقائے جسم ہوتے ہیں۔انہی کواسلام لفظ دین سے تعبیرکرتاہے۔
یہ حرکت سکون نفسانی بدن کیلئے ویسی ہی ضروری ہے جیسی حرکت سکون بدن کیونکہ بدنی حرکات کادارومدار ہواو ہوس اور خواہشات وجذبات نفسانیہ پر ہے۔جیسے شوق کے وقت طلب کی حرکت ، نفرت کے وقت بیزاری کی صورت غصے کے وقت چہرے کا سرخ ہوجانا۔ یہ سب کچھ روح اورخون کے زیر اثررہتے ہیں اور اس کے برعکس نفسانی سکون کی ضرورت اس لئے ہے کہ روح اور خون کو نسبتاً آرام حاصل ہوکہ ان میں کمی واقع نہ ہواور جسم کو تحلیل ہونے سے بچایاجائے۔
جانناچاہیے کہ نفس جب کسی مناسب یامخالف شے کاادراک حاصل کرتاہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ مناسب کو حاصل کرنا اورمخالف سے بچنا چاہتا ہے ۔اس وقت وہ اپنی نفسانی قوتوں کوحرکت میں لاتاہے اگراس حرکت وسکون میں تسلسل قائم رہے تو باعث مرض وضعف اور رفتہ رفتہ باعث موت ہے اور بعض اوقات ان کی یک بارگی شدت دفعتاً زندگی ختم کردیتی ہے۔جیسے شادی مرگ اورغم مرگ کی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں۔انسان کے انہی تاثرات اور انفعالات اور خواہشات وجذبات کامطالعہ اور نتائج سے جو صورتیں پیداہوتی ہیں اس کو علم نفسیات کہتے ہیں۔
نفسانی جذبات کی حقیقت: نفسانی جذبات کو سمجھانے کیلئے اور انتہائی سہولت کی خاطر جس کاذکر قدیم وجدیدبلکہ ماڈرن نفسیات میں بھی نہیں ہے۔ہم نے ان کو طب مفرد اعضاء کے تحت اعضائے رئیسہ کے مطابق تین حصوں میں تقسیم کردیاہے۔ہر مفردعضو(نسیج)کیلئے دوجذبے مخصوص کر دئیے ہیں۔ان جذبوں میں ایک عضوانبساط سے پیدا ہوتا ہے اور دوسراانقباض سے۔ان کی ترتیب یہ ہے۔
۱۔دل: عضلات میں انبساط سے مسرت اور انقباض سے غم پیداہوتاہے۔
۲۔دماغ: اعصاب میں انبساط سے لذت اور انقباض سے خوف پیداہوتاہے۔
۳۔جگر: غددمیں انبساط سے ندامت اور انقباض سے غصہ پیداہوتاہے۔
لیکن یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ جب دل،دماغ اورجگر(عضلات،اعصاب اور جگر)کے کسی ایک نسیج (ٹشو)میں کسی خاص قسم کی تحریک پیداہوگی تو باقی دو اعضاء میں بھی کوئی نہ کوئی حالت ضرورپائی جائے گی۔ مثلاًاگر اعصاب میں تحریک ہوگی تویہ ضروری بات ہے کہ غددمیں تحلیل اور دل میں تسکین ہوگی۔گویااس امرکالحاظ رکھنا ضروری ہے کہ جب کسی جذبہ کے تحت کسی عضو کامطالعہ مقصودہوتوباقی اعضاء کونظر اندازنہ کیاجائے۔اس طرح تمام جسم کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔یہ وہ علمِ نفسیات ہے جس کے علم سے ماڈرن سائنس اور جدیدعلم نفسیات بھی بے خبر ہے۔
نفسیاتی اثرات: جسم انسانی پر نفسیاتی اثرات اور انفعالات کی تین مقابل صورتوں کے کل چھ جذبات ہیں۔ (۱)مسرت(۲)غم(۳)لذت(۴) خوف(۵)غصہ(۶)شرمندگی۔یہ چھ بنیادی جذبات ہیں ان کے تحت ہی باقی دیگر جذبات پائے جاتے ہیں۔ان کی مختصرتفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔مسرت میں نفس بغرض حصول مرغوب شے قلب سے بدن کی طرف رفتہ رفتہ متحرک ہوتی ہے۔بشرطیکہ بے انتہاخوشی کی کیفیت نہ ہوورنہ یکدم متحرک ہوگی۔خوشی کاحالت میں چہرہ سرخ ہوجائے گا۔
۲۔غم میں نفس موذی پر قادرنہ ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ داخل بدن یعنی دل کی طرف حرکت کرتاہے اور چہرے کارنگ زرد ہوجاتاہے۔
۳۔لذت کی حالت میں بغرض قیام مرغوب شے نفس رفتہ رفتہ کبھی اندراور کبھی باہرکی طرف حرکت کرتاہے۔
۴۔خوف میں نفس موذی کے مقابلے میں ناامیدہوکر یکبارگی داخل جسم رجوع کرتاہے۔ کمی خوف میں یہ عمل رفتہ رفتہ ہوتاہے اور چہرہ سفیدہوجاتاہے
احتباس واستفراغ: اسباب ستہ ضروریہ کی جوتین صورتیں ہیں یعنی( اول)جسم کیلئے غذائیت مہیاکرناجیسے ہوااور روشنی اورماکولات ومشروبات۔ (دوم)جسم میں غذائیت کوہضم کرکے جزوبدن بناناجیسے نیندو بیداری اورحرکت و سکون جسمانی اورسکون نفسانی۔(سوم)جسم کے اندرغذائیت کا ایک مقررہ وقت تک رکے رہناتاکہ ہضم ہوکر جزو بدن بن جائے اورجب اس کی ضرورت نہ ہوتوفضلات کی صورت میں خارج کردینا۔اس کواحتباس واستفراغ کہتے ہیں۔
استفراغ کے معنی ہیں مواداورفضلات کااخراج پانااور طبی اصطلاح میں لفظ استفراغ سے ان چیزوں کابدن سے خارج کرنامرادہے تاکہ اگروہ چیزیں باقی رہ جائیں توبدن میں طرح طرح کے فسادپیداہوکرافعال انسانی سلیم طورسے صادر نہ ہوں۔اس کے برعکس احتباس کے معنی ہیں غذائی اجزاءاور فضلات کاجسم میں رکنااوربوقت ضرورت اخراج نہ پانا دراصل یہ ایک دوسرے فعل کی ضدکااظہارہے ورنہ دونوں میں سے کسی ایک لفظ کاہوناہی کافی ہے۔کیونکہ قادر مطلق نے طبیعت مدبرہ بدن پیداکی ہے۔لہٰذاحسب طاقت وہ مناسب راستوں سے فضلات مذکورہ دفع پرہمیشہ سر گرم رہتی ہے لیکن بعض اوقات ایسی رکاوٹیں پیش آجاتی ہیں کہ اس کے دفع فضلات اور مواد میں کمی بیشی واقع ہو جاتی ہے گویا استفراغ اوراحتباس کااعتدال صحت ہے اور ان میں کمی بیشی کاہونامرض میں داخل ہے۔
فضلات کی حقیقت: فضلا ت دراصل اضافی لفظ ہے۔حقیقت میں اس کائنات اورزندگی میں فضلات کوئی شے نہیں ہیں۔جن موادکی کسی جسم کیلئے ضرورت نہیں ہوتی تووہ اس کیلئے فضلات بن جاتے ہیں۔اکثرایساہی ہوتاہے کہ جسم کے اندر غیرضروری غذائی اجزاء یامفید موادجن کوطبیعت قبول نہیں کرتی یاطبیعت کوجن کی ضرورت نہیں ہوتی وہ سب فضلات میں شامل ہیں۔فضلات سے مراد فاضل سے ہے یعنی جوچیززائدیافالتوہو۔
جوغذاکھائی جاتی ہے تندرستی کی حالت میں جسم کاایک خاص حصہ جذب کرکے جزوبدن بنادیتاہے اورباقی کوفضلات کی شکل میں خارج کردیتاہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ فضلات میں جسم انسان کیلئے غذائیت باقی نہیں رہتی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس قدراچھی صحت ہوتی ہے اوراعضاء مضبوط ہوتے ہیں اسی قدر زیادہ غذائی اجزاءجذب اور جزوبدن بنتے ہیں اور فضلات کم خارج ہوتے ہیں یابعض اعضاء میں اس قدرتیزی ہوتی ہے کہ وہ غذا کو پورے طورپر ہضم کئے بغیر خارج کردیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جن مریضوں کے اعضاء میں افراط وتفریط اورضعف ہوتاہے وہ جتنی بھی زیادہ سے زیادہ غذاکھائیں ان کے اندر طاقت اور خون کی مقدار میں زیادتی نہیں ہوتی۔سوال غذاکی قلت اورکثرت اوراعلیٰ وادنیٰ کانہیں ہے بلکہ اعلیٰ درجہ کی صحت اور مضبوط اعضاء کاہے جس سے خودبخودزیادہ غذاہضم ہوتی ہے اور جزو بدن بنتی ہے جس کانتیجہ خون کی کثرت اورطاقت کی زیادتی ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بدن کے وجود اور اس کی طاقت کادارومدارغذاپر ہے کیونکہ خون کی تعمیراورتکمیل صرف غذاپرہوتی ہے دواسے نہیں ہوتی کیونکہ دواجزو بدن نہیں ہوتی اورنہ ہی خون کاجزوہے۔دواصرف اعضائے جسم میں تحریک اور شدت کاباعث ہوتی ہے۔جس سے اعضائے جسم اپنے مفیداجزاءخون میں شامل کرکے اس میں تعمیراورتکمیل کرتے ہیں لیکن غذاکوئی بھی ایسی نہیں ہے جوساری کی ساری جزوبدن جائے اور اس کا فضلہ نہ بنے۔ پھر اگریہ فضلہ باقی رہے اور اس کااخراج نہ ہوتوبدن میں فاسدمادے اکھٹے ہوجاتے ہیں جن مواد کوفضلات کی صورت میں خارج ہوناچاہیے تاکہ اس کی جگہ نیا موادبنے یاموادسے اس راہ گذرمجراری کوغذائیت اور تقویت حاصل ہو۔اس لئے استفراغ کی انتہائی ضرورت ہے اور احتباس کی ضرورت اس لئے ہے کہ غذاکچھ عرصہ جسم میں ٹھہرے تاکہ اس جوہر طبیعت حاصل کرلے۔
استفراغ واحتباس کا اعتدال صحت اور طاقت کیلئے نہایت ضروری اور مفیدہے۔استفراغ کی زیادتی بدن میں خشکی پیدا کرتی ہے اور احتباس کی زیادتی جسم میں فضلات کی زیادتی کی وجہ سے اس کوبوجھل بنادیتی ہے جس سے اکثر سدے اور تعفن پیداہوتاہے۔
استفراغ کی صورتیں: جسم انسان سے استفراغ کی مندرجہ ذیل تین صورتیں ہیں ۔(۱)طبعی فضلات۔(۲)غیرطبعی فضلات۔ (۳) مفیدفضلات۔
طبعی فضلات: طبعی فضلات وہ ہیں جوہمارے مجاری اور اعضاء سے طبعی طورپرضرورت کے مطابق خارج ہوتے ہیں مثلاً نزلہ،زکام،کان کامیل،آنکھ کے آنسو،لعاب دہن،بلغم،بول وبراز،حیض اورمنی وغیرہ۔ان کے اخراج ایک طرف مجاری اور اعضاء جہاں سے وہ گزرتے ہیں ان کونرم رکھتے ہیں دوسرے وہاں کی سوزش وغیرہ کودورکرتے ہیں۔ اگر ان کے اخراج میں کمی بیشی واقع ہوجائے توباعث امراض ہوتے ہیں۔جب ان میں کمی واقع ہوتی ہے تو ذیل کی صورت اختیارکرجاتی ہے ۔
۱۔مسہلات: بذریعہ دست آورادویات ناقص اخلاط، مواداور متعفن فضلات کاانسانی بدن سے خارج کرنا۔اس کی دو اقسام ہیں (۱)بذریعہ ادویہ مشروبہ یعنی کھانے پینے کی ادویہ(۲) بذریعہ حقنہ اور عمل احتقان (بذریعہ)پچکاری۔
۲۔مدرات: پیشاب آورادویات اور آلات وغیرہ کے ذریعے مواداور فضلات کااخراج۔
۳۔تصریحات: بذریعہ پسینہ،حمام یابھپارہ اور دیگر اعمال سے براہ مسامات بدن سے متعفن اخلاط ومواداور فضلات کااخراج۔
۴۔مقیات: قے آورادویات یادیگر اعمال کے ذریعے مواداورفضلات کاجارج از جسم کرنا۔
۵۔حجامت: شگاف رگ،پچھنے اورنشتروغیرہ کے ذریعے ردی اخلاط ومواد اورفضلات بدن کاانسان کے بدن سے خارج کرنا۔
۶۔انزال: جماع کے ذریعے غیرمفیداور ردی موادوفضلات کابدن سے خارج کرنا وغیرہ۔
غیرطبعی فضلات: ایسے ناقص مواد ہیں جوخون سے پیداہوجاتے ہیں جن سے خون کامزاج اور اخلاط یا اس کے عناصر میں کمی بیشی واقع ہوجاتی ہے یا خون رگوں کے اندریاباہر متعفن ہوجاتاہے۔جب ایسے غیرطبعی فضلات رک جاتے ہیں توان کے اخراج کی صورت بھی مندرجہ بالاطریق پرکی جاتی ہے البتہ ضرورت کے مطابق ادویات بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔
۳۔ مفیدفضلات: دراصل یہ فضلات نہیں ہوتے چونکہ جسم سے اخراج پاتے ہیں یا ان کواخراج پاناچاہیے اس لئے ان کوفضلات کہہ دیاگیاہے مثلاًجسم میں غیرمعمولی کیفیاتی و نفسیاتی اور مادی تحریکات ہوکرمفیدرطوبات وخون اور منی کااخراج پاناجس میں مذی اور ودی بھی شریک ہیں ۔رطوبات کی صورت میں لعاب دہن،آنسو،مذی اور ودی ہیں۔خون کی صورت میں نفث الدم،قے الدم،نکسیر ،زحیرخونی اوربواسیروغیرہ ہیں۔منی کی صورت میں جریان و احتلام اور سرعت انزال ہیں۔کبھی مفیدرطوبات وخون اور منی کے اخراج کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ طبیعت کارجحان اس طرف زیادہ ہو۔ ان چیزوں کی پیدائش بڑھے۔اس مقصدکیلئے کیفیاتی ونفسیاتی اور مادی تحریکات لطف ولذت اور سمعی وبصرنوازی کے ساتھ ساتھ جذبہ شوق ومحبت کے بھڑکانے سے بھی پیداکی جاتی ہیں۔یہاں تک کہ اطباء اورحکماء نے ا س کی آخری حد جماع رکھی ہے اور یہی ضرورت عقد اور نکاح ہے۔استفراغ و احتباس میں یہ اہم مقام ہے۔اس لئے ہم نے ستہ ضروریہ کاباب قائم کیاہے۔جنسی امراض میں عام طورپریہ سمجھ لیاگیاہے کہ صرف مجربات و مرکبات ہی کافی ہوسکتے ہیں۔کوئی شک نہیں کہ مجربات کاعلاج بہت بڑامقام رکھتاہے لیکن جب تک ستہ ضروریہ سامنے نہ ہوں خصوصاً احتباس واستفراغ کی اہمیت کومدنظرنہ رکھاجائے جنسی امراض کاعلاج کیسے ممکن ہوسکتاہے۔ اگرصرف مجربات تک ہی ممکن ہوتاتوہرقسم کے مجربات کی کتب کی اس قدر کثرت ہے کہ مزیدمجربات کی ضرورت نہیں ہے۔مگرہم دیکھتے ہیں کہ طبی دنیامیں جنسی مجربات کی آج پہلے سے بھی زیادہ ضرورت وطلب ہے۔اس کی وجہ صرف ہے کہ مرض کی تشخیص اور صحیح دواکی تجویزآج بھی ضرورت باقی ہے اور وہ لوگ بہت بڑی غلطی پرہیں جوبغیر تشخیص اور بغیر صحیح تجویز کے صرف جنسی مجربات طلب کرتے ہیں۔ جنسی امراض کی حقیقت اور ان کیلئے صحیح دوا اور غذاکے اصول اور مجربات کیلئے ہماری کتاب تحقیقات وعلاج جنسی امراض کامطالعہ کریں۔
غذا اورحفظانِ صحت
حفظانِ صحت کے اہم عناصرحسبِ ذیل تین ہیں۔
۱۔ صحت کے قیام کیلئے بدل مایتحلل کی جوضرورت ہے وہ ایک مسلمہ امرہے اوربدل مایتحلل ہمیشہ اغذیہ واشربہ سے حاصل کیاجاتاہے۔اس لئے حفظانِ صحت میں سب سے اول چیزاغذیہ واشربہ ہیں کہ ان کواپنی ضرورت کے مطابق صحیح اصولوں پر استعمال کیاجائے اور ان سے بدل مایتحلل حاصل ہو۔
۲۔ غذاکے بعد دوسری اہم چیزیہ ہے کہ انسان کے جسم میں غذاکھانے کے بعدجوفضلات اکٹھے ہوتے ہیں ان کا باقاعدگی کے ساتھ اخراج ہوتارہے۔ اس کی صورت جسم کواعتدال کے ساتھ حرکت دینے اورکام میں لگانے سے عمل میں آتی ہے جس میں ورزش بھی شامل ہے کیونکہ سکون محض جسم میں فضلات کوروک دیتاہے۔
۳۔ انسان اپنی قوتوں کوضرورت سے زیادہ خرچ ہونے سے بچائے اورضرورت سے زیادہ جسمانی ،دماغی محنت اور حرکت سے یہ قوتیں ضائع ہونے لگتی ہیں۔
یہ تینوں باتیں اگر اعتدال پرقائم رہیں توصحت انسانی کی حفاظت اچھے طریق پرہوسکتی ہے۔اس مقصد کیلئے اسباب ستہ ضروریہ جن کاذکر گزشتہ صفحات میں کیاگیاہے بہت حدتک کافی ہیں لیکن بعض اہم باتوں کاذکر مندرجہ بالاتین اصولوں کے متعلق کیاجاتاہے جوصحت کیلئے بے حدمفیدہیں۔
۱۔اغذیہ واشربہ: غذاکی مقدار میں اعتدال کوقائم رکھنااورغذاکے استعمال کے بعد کچھ سکون کرناضروری ہے۔
نوٹ: غذاکھانے سے قبل یہ ضروری ہے کہ بھوک شدت سے لگی ہوئی ہو۔بغیربھوک کے کبھی غذاکی طرف ہاتھ نہیں بڑھاناچاہیے۔بھوک میں بھی اس امرکوملحوظ رکھاجائے کہ وہ دو قسم کی ہوتی ہے۔(۱)اشتہائے صادق۔ (۲) اشتہائے کاذب۔
اشتہائے صادق کی صفات یہ ہیں کہ جسم میں فرحت ہوگی اور وہ ہلکااور گرم معلوم ہوگا۔ غذاکھاتے ہوئے لذت محسوس ہوگی۔اشتہائے کاذب میں یہ باتیں نہ ہوں گی بلکہ کمزوری محسوس ہوگی۔دل میں گھٹنے کی سی حالت پائی جائے گی اورکھانے میں بے دلی سی قائم رہے گی۔ کھانے کے بعدجسم بے حد سست اور بوجھل رہے گا۔بلکہ بعض اوقات حرکت کرنے کوجی نہیں چاہتا۔ہرغذاپہلی غذاکے ہضم ہونے کے بعد کھانی چاہیے اگرچہ بھوک ہی کیوں نہ لگی ہوئی ہواور اشتہائے صادق کی تمام علامات پائی جائیں کیونکہ ہرغذاجوہم کھاتے ہیں اس کے ہضم ہونے میں کم سے کم چھ سات گھنٹے خرچ ہوتے ہیں اس کے بعد وہ غذامعدے اورچھوٹی آنتوں سے اترکربڑی آنتوں میں چلی جاتی ہے۔اگر چھ سات گھنٹے سے قبل کھا لیاجائے توطبیعت جوپہلی غذا کی طرف مصروف ہوتی ہے اس کو ہضم کئے بغیرچھوڑدے گی اور دوسری طرف مصروف ہوجائے گی۔اس سے پہلی غذامیں تعفن وفسادپیداہوجائے گا اگر دوسری کی طرف توجہ نہ دے تواس میں تعفن اور فسادکاپیداہوناضروری ہے۔
ایک وقت میں مختلف غذاؤں کااکٹھاکھانادرست نہیں ہے۔اغذیہ میں بعض لطیف اوربعض کثیف ہوتی ہیں اور طبیعت لطیف اغذیہ کوجلدی ہضم کرلیتی ہے اور ثقیل اغذیہ دیرتک اندرپڑی رہتی ہیں۔نیزبعض اغذیہ ایک دوسری کی ضدہوتی ہیں مثلاً مچھلی اور دودھ،ترشی اوردودھ،ستواوردودھ،انگوراور سری کاگوشت،اناراورہریسہ ،چاول اور سرکہ ان کوایک ساتھ کھانے سے پرہیزکرناچاہیے۔
اگرغذاچرب ہوتواس کے ساتھ نمکین یاچرپری چیزیں کھائی جائیں اور اسی طرح اس کے برعکس بہتریہ ہے کہ ہمیشہ ایک ہی غذانہ کھائی جائے بلکہ تبدیلی کے ساتھ کھائی جائے۔ بھوک کاروکنامناسب نہیں کیونکہ ایساکرنے سے معدے کی طرف خراب موادکرتے ہیں ۔غذادن کے معتدل وقت میں کھانی چاہیے۔موسم سرمامیں دوپہر کے وقت اور موسم گرمامیں صبح وشام کھانامناسب ہے۔کھانے سے مراد یہاں پیٹ بھرکرکھانااور پورا کھانامراد ہے۔
ایک ہی قسم کے کھانے باربارکھانے سے اورایک ہی ذائقہ باربار استعمال کرنے سے جسم میں نقصان پیداہوتاہے مثلاً ترش غذاؤں کے بکثرت اور متواتراستعمال سے بڑھاپاجلد آتاہے۔نزلہ زکام اکثررہتاہے اعضاء میں خشکی پیداہوجاتی ہے اور اعصاب کمزورہوجاتے ہیں۔اسی طرح نمکین چیزیں بدن کولاغراوردل میں ضعف پیداکرتی ہیں۔میٹھی چیزیں بھوک کوضعیف اوربدن کولاغرکرتی ہیں۔ان کی مضرت کوترش غذاسے ، ترش غذاکی مضرت کومیٹھی غذاسے دفع کرناچاہیے۔اکثرپھیکاکھانے سے بھوک جاتی رہتی ہے اوربدن میں سستی پیداہوجاتی ہے۔اس لئے اس کی مضرت کونمکین اورچرپری چیزوں کے استعمال سے دوررکھناچاہیے۔
مشروبات: مشروبات میں مندرجہ ذیل تین چیزیں خاص طورپرشریک ہیں۔ (۱)پانی۔(۲)دودھ۔(۳)شراب
۱۔پانی: پانی اکثرپیاس کے وقت پیاجاتاہے اور یہ پیاس کھانے کے دوران بھی لگتی ہے اور بعدمیں بھی اور بغیرکھانے کے بھی۔پانی پینے کاوقت پیاس ہے خواہ غذاکے ساتھ ہویااس کے بعد۔
نوٹ: جاننا چاہیے کہ پیاس دوقسم کی ہوتی ہے۔(۱)صادق پیاس(۲)کاذب پیاس۔صاد ق پیاس کامقصد یہ ہوتاہے کہ وہ معدہ میں پڑی ہوئی غذا کو رقیق بنائے اور اس کوباریک شریانوں میں گذرنے کاذریعہ بنے۔غذاکے دوران میں بھی جب پیاس لگتی ہے تواس کی دوصورتیں آتی ہیں۔اول معدے میں تیزی اور سوزش پیداکرنے والی اغذیہ کی بے چینی اور دوسرے معدے میں انتہائی خشکی جو غذاکے کھانے سے اکثربڑھ جاتی ہے اور طبعیت اس کو رقیق کرنے کیلئے پانی طلب کرتی ہے۔کاذب پیاس کی پہچان یہ ہے کہ اگرپیٹ بھرکر تسلی کے ساتھ پانی پی لیاجائے اورپھربھی پیاس نہ بجھے۔ اس کی وجہ عام طورپرشوربلغم یالیسدارموادکی معدہ میں زیادتی ہوتی ہے جس کوطبعیت رفع کرناچاہتی ہے۔ لیکن ٹھنڈاپانی پینے سے بلغم اوربھی جم جاتی ہے اور شورمادہ میں زیادتی ہوجاتی ہے۔اسی طرح تخمہ اورہیضہ میں بھی پیاس کی شدت ہوتی ہے جس کی وجہ غذاکاکچاہونااورمعدہ میں سوزش اور متعفن مواد کی موجودگی ہوتی ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ پانی کیلئے کچھ دیرتوقف کیاجائے اورتوقف ناممکن ہوتوگرم پانی تھوڑاتھوڑادیاجائے یابغیردودھ کے چائے دی جائے۔مرض میں شدت ہوتو مناسب علاج کیاجائے۔بعض دفعہ دماغی اوراعصابی سوزش میں بھی شدید پیاس لگتی ہے ۔ اس کابھی مناسب علاج کیاجائے۔بعض اوقات ترمیوؤں کے استعمال ،سخت ورزش، محنت،حمام اور جماع کے بعد پیاس لگے توپانی سے روکناچاہیے۔جہاں تک ممکن ہونہارمنہ پانی نہیں پیناچاہیے۔
۲۔دودھ: دودھ غذامیں شامل ہے اور اس کوغذاکے طورپریاغذاکے ہمراہ استعمال کرنا چاہیے۔یہ ہرگزنہ کیاجائے کہ اس کوپانی کے طورپراور بغیر غذا کے استعمال کیاجائے۔ دودھ استعمال کرنے کابہترین وقت صبح کاناشتہ ہے۔ناشتے کے ہمراہ اس کواستعمال کرنے سے صحت پر بہت اچھااثرپڑتاہے دودھ ہمیشہ نیم گرم ہواور اس کوہلکا شیریں بھی کرلینا چاہیے۔اس طرح بعض لوگ دودھ میں پانی ملاکراس کی لسی بھی پیاس کے وقت پیتے ہیں ۔ اس کے متعلق یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے اثرات اپنے اندر دودھ کی غذائیت کے ہیں۔البتہ اس میں برودت زیادہ پیداہوجاتی ہے۔اور اس کے کثرت استعمال سے معدہ ٹھنڈااور سوئے مزاج باردکے امراض پیداہوجاتے ہیں اول تو اس کااستعمال کرناہی نہیں چاہیے لیکن جب یہ استعمال کی جائے توغذااور اس کے درمیان کافی وقفہ ہوناچاہیے۔
دہی کی لسی: دہی کی لسی بھی غذامیں شریک ہے اور اس کوبھی ہمیشہ غذاکے مقام یااس کے ہمراہ استعمال کرناچاہیے۔ اس کے بکثرت استعمال سے حرارت غریزی کم ہوجاتی ہے اور نفخ شکم کی شکایت پیداہوجاتی ہے۔اس کااستعمال دوپہر کوغذاکے ہمراہ کرناچاہیے۔
شراب: شراب کااستعمال بغیر طبیب کی مرضی کے کبھی نہیں کرناچاہیے کیونکہ اس میں فوائد بہت کم اور نقصانات بہت زیادہ ہیں۔اس کاسب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کے استعمال سے نفسانی خواہشات بھڑک اٹھتی ہیں جو کسی صورت بھی نہیں بجھتی ہیں۔جس سے طبیعت انتہائی منقبض ہوکردل کیلئے بے حد نقصان کاباعث ہوتی ہے۔جہاں تک اس کے فوائد کاتعلق ہے اس کو اکثراعتدال سے قلیل مقدارمیں ضرورت کے مطابق طبیب حاذق کے مشورہ سے استعمال کیاجائے توتمام جسم کے اعضاء میں نشووارتقاء اورقوت کی صلاحیت پیداہوجاتی ہے اور ساتھ ہی گندے فضلات کوچھانٹ دیتی ہے اور جسم میں صالح رطوبات کوجذب کرنے صلاحیت پیداکرتی ہے لیکن ان فوائد کے ساتھ ساتھ جب اس کے اثرات بڑھتے جاتے ہیں توانہی چیزوں کیلئے سخت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔اس کے اثرات بڑھنے کاسبب یہ ہوتاہے کہ اس کوایک دفعہ شروع کرنے کے بعد خواہ وہ دواکے طورپرہی کیوں نہ کیاجائے چھوڑنامشکل ہو جاتاہے۔گویایہ تھوڑے ہی عرصہ میں ایک ایسی عادت بن جاتی ہے جس کاچھوڑناتقریباً ناممکن ہے۔اس کوچھوڑنابھی بجائے فوائدکے باعث صدنقصان ہے۔
حرارت غریزی ورطوبت غریزی: علم حفظان صحت کاجہاں تک انسان کے جسم سے تعلق ہے اس کیلئے یہ نہایت ضروری ہے کہ انسان کے اعضائے جسم اور ان کے افعال کاپوری طرح علم ہو۔یہ علم اسی وقت سے شروع ہوجاتاہے جب انسان کانطفہ قرارپاتاہے ۔ کیونکہ اگر اس دوران میں بھی اس نطفے کی نگرانی نہ کی جائے تواس کے ضائع ہونے کااحتمال ہوتاہے۔ جس چیز کے انسان کے حفظان صحت میں نگرانی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ اس کامزاج ، طبیعت اورطاقت کااعتدال ہے اور یہی چیزقرارنطفہ سے انسان کی موت تک مدنظررہتی ہے۔سوال پیداہوتاہے کہ یہ مزاج ،طبیعت اور طاقت شے کیاہے اور ان کی نگرانی کیسے ہوسکتی ہے۔یہ ایک نہایت اہم سوال ہے اور صحت کے قیام کیلئے اس کاذہن نشین کرناسب سے پہلی بات ہے۔ جاننا چاہیے کہ نطفہ قرار پاتے وقت کرم منی،حرارت غریزی اور رطوبت غریزی کامجموعہ ہوتاہے۔یہ نطفہ ایک جسم ہے جس کی پرورش رطوبت غریزی اور حرارت غریزی سے عمل میں آتی ہے۔انہی دونوں چیزوں سے اس کوغذاملتی ہے اور اس میں نشووارتقاء اور تصفیہ کاعمل جاری رہتاہے۔یہ دونوں چیزیں اگراعتدال سے اپناعمل جاری رکھیں تونطفہ صحت کے ساتھ نشووارتقاء کے مراحل طے کرلیتاہے ۔ اور اگران کاتوازن قائم نہ رہے تونطفہ کے ضائع ہونے میں کوئی شبہ نہیں جس کی صورت یہ ہے کہ اگر ان میں کوئی ایک بڑھ جائے تودوسری کوفناکردے گی جس سے نطفے کی غذائیت یا تصفیہ و پرورش میں خلل واقع ہوجائے گااور نطفہ ضائع ہوجائے گا۔مثلاً اگرحرارت بڑھ جائے تورطوبت کوجلادے گی اور رطوبت کی زیادتی حرارت کوختم کر دے گی ۔اسی توازن سے جسم انسان زندہ رہتاہے اور اگر اس میں نمایاں فرق واضح ہوجائے توانسان کی صحت نہ صرف خراب بلکہ بعض اوقات تباہ ہوجاتی ہے۔
بدل مایتحلل: نطفے کی حرارت ورطوبت اس قدرقلیل ہوتی ہے کہ انہی سے انسان کے جسم کاکم وبیش ساٹھ ستر سال تک زندہ رہنامحال ہے۔اس لئے قدرت نے ان دونوں کے قیام وتقویت اورامدادکیلئے بیرونی طورپربھی رطوبت و حرارت کاانتظام کردیاہے جواس حرارت غریزی کامعاون ہوتا ہے اوراس تھوڑی بہت حرار ت ورطوبت غریزی کوجونطفہ قرارپانے کے بعد خرچ ہوناشروع ہوجاتی ہے پوراکرتارہتا ہے اورانسان کی ضرورت کوپورا کرتا رہتا ہے۔ اس رطوبت اورحرارت کوجوانسان کی ضروریات کوپوراکرتی رہتی ہے بدل مایتحلل کہتے ہیں۔
سوال پیداہوتاہے کہ بدل مایتحلل حرارت غریزی اوررطوبت غریزی کی کمی کوپوراکرتاہے یادماغ پرخرچ ہوکران کاقائم مقام بن جاتاہے۔
اعتراض: یہاں پر یہ اعتراض واردہوتاہے کہ اگر بدل مایتحلل خودحرارت غریزی اور رطوبت غریزی کی کمی کو پورا کرتاہے یعنی خودحرارت ورطوبت غریزی بن جاتاہے توپھر حرارت غریزی اور رطوبت غریزی جن کوحرارت اصلی اور رطوبت اصلیہ بھی کہتے ہیں اور جن سے اعضائے اصلیہ تیار ہوتے ہیں۔ان کی کوئی ہستی نہ رہی کیونکہ ہم ان کو مصنوعی طورپر تیارکرسکتے ہیں اوراگروہ حرارت اور رطوبت جوان کابدل مایتحلل بنتی ہے وہی کام انجام دے سکتی ہے جوحرارت غریزی اور رطوبت غریزی انجام دیتی ہے توبڑھاپاکیوں آتاہے اور موت کیوں واقع ہوتی ہے۔
جواب: اس کاجواب یہ ہے کہ حرارت غریزی اور رطوبت غریزی کابدل مایتحلل نہیں بن سکتا۔جو رطوبت اور حرارت بدل مایتحلل کے طورپرخرچ ہوتی ہے وہ صرف ایک ضرورت ہے جوپوری کی جاتی ہے اور اس سے رطوبت و حرارت غریزی کی مددکی جاتی ہے تاکہ وہ جلدی تحلیل ہوکرختم نہ ہوجائے۔ اس کی مثال ایک چراغ کی ہے جس کی روشنی،بتی اور تیل تینوں بیک وقت کام کرتی ہے۔چراغ کی روشنی حرارت غریزی،بتی رطوبت غریزی اور تیل بدل مایتحلل ہے۔یہ بدل مایتحلل جہاں ایک طرف چراغ کی روشنی کوقائم رکھتاہے وہاں دوسری طرف اس کی بتی کوبھی جلنے نہیں دیتا صحت کی حفاظت کیلئے یہ ضروری ہے کہ حرارت غریزی چراغ کی روشنی کی طرح اعتدال سے جلتی رہے اور اس کی رطوبت غریزی بھی یک دم فنانہ ہوجائے۔یہ وہ اعتدال ہے جودونوں میں رکھاجاتاہے۔اگررطوبات بڑھ جائیں توحرارت کاختم ہونااغلب ہے اورحرارت کی زیادتی سے رطوبات کا جل جانالازمی ہے۔
خون: نطفہ جب تک علقہ نہیں بنتااس وقت تک وہ اپنی غذااپنے اندرکی رطوبت سے حاصل کرتاہے اور جب علقہ بن جاتاہے تواس کاتعلق رحم سے پیداہوجاتاہے اوراپنی غذاماں کے رس سے حاصل کرتاہے۔پیدائش کے بعد اس کو اول یہ غذاماں کے دودھ سے اور پھر دنیاوی اغذیہ اور اشربہ سے حاصل ہوتی رہتی ہے جس سے اس کابدل مایتحلل پورا ہوتارہتاہے۔
ان امور سے ثابت ہواکہ طبیب انسانی صحت کی حفاظت توکرسکتاہے لیکن اس پریہ فرض عائد نہیں ہوتاکہ وہ انسان کاشباب برقراررکھے یااس کوایک طویل عمرتک زندگی دے سکے۔موت کوروک دیناتواس کے بس کابالکل روگ نہیں کیونکہ نطفہ قرارپانے کے بعدحرارت غریزی اور رطوبت غریزی کچھ نہ کچھ ضرورخرچ ہوتی رہتی ہے اور عمر کے ساتھ ساتھ ان میں ایک خاص قسم کی کمی ہوتی رہتی ہے۔جس طرح تیل جلنے کے سے اس کی بتی تھوڑا تھوڑاجلنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ ختم ہوجاتی ہے یہی صورت انسانی زندگی کی ہے کہ وہ آخر میں حرارت غریزی اور رطوبت غریزی کے ختم ہونے کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ہمیشہ کیلئے شباب اور زندگی ناممکنات میں سے ہے۔
اطباء کے فرائض صرف حفظانِ صحت کے اصولوں کاذہن نشین کراناہے تاکہ صحت قائم رہے البتہ جب مرض پیدا ہوجائے تواس کوصحت کی طرف لوٹانا اس کاکام ہے۔صحت کے قیام کیلئے اہم چیزحرارت غریزی اور رطوبت غریزی کی پوری نگرانی اور ان کے بدل مایتحلل کوصحیح طریقوں پرپوراکرنا ہے اور یہ کوشش بھی جاری رکھناہے کہ رطوبت اصلیہ میں کوئی فساد یاتعفن پیدانہ ہونے دے۔اگروہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہاتواپنی طبعی عمرکوپہنچے گااور اس کی قوت اور صحت صحیح حالت پرقائم رہے گی۔
موت:
موت کی دواقسام ہیں۔(۱)طبعی۔(۲)غیرطبعی۔طبعی موت وہ ہے جوحرارت اور رطوبت غریزی کے پورے طورپرخرچ ہونے کے بعد واقع ہو۔ جس کے متعلق اطباء کا خیال ہے کہ وہ سواسوسال سے ڈیڑھ سوسال تک ہونی چاہیے کیونکہ ان کااندازہ ہے کہ انسان پچیس تیس سال تک اپنی جوانی کوپہنچتاہے اور اس کواس کے بعدپانچ گنا عرصے تک زندہ رہناچاہیے اوراگراس دوران میں وہ کسی مرض کاشکارہوجاتاہے یاڈوب جاتاہے یا پھانسی لگ جاتاہے یاگرکرمرجاتاہے تویہ اس کی غیرطبعی موت ہوگی۔
طب مفرداعضاء
تعریف: یہ ایک ایسی تحقیق ہے جس سے ثابت کیاگیاہے کہ امراض کی پیدائش مفرد اعضاء(گوشت،پٹھے اورغدد) میں ہوتی ہے اور اس کے بعد مرکب اعضاء کے افعال میں افراط وتفریط اورضعف پیداہوتاہے۔علاج میں بھی مرکب اعضاء کی بجائے مفرداعضاء کو مدنظررکھناچاہیے کیونکہ انسان کے تمام مرکب اعضاء مفرداعضاء کی بافتوں اور انسجہ(Unit) سے مل کربنتے ہیں۔
یہ علمی نظریہ ایک ایسافلسفہ ہے جس سے جسم انسان کومفرداعضاء کے تحت تقسیم کردیا ہے۔اعضائے رئیسہ دل، دماغ اور جگرمفرداعضاء ہیں جوعضلات ، اعصاب اور غددکے مراکزہیں۔جن کی بناوٹ جداجدااقسام کے انسجہ (Tissues)سے بنی ہوئی ہے اور ہرنسیج بے شمارزندہ حیوانی ذرات(Cell) سے مرکب ہے۔حیوانی ذرہ انسانی جسم کی اولین بنیاد(First Unit)ہے۔ہرحیوانی ذرہ اپنے اندرحرارت وقوت اور رطوبت(Heat, Energy and Force)رکھتاہے۔جس کے اعتدال کانام صحت ہے۔جب اس حیوانی ذرہ کے افعال میں افراط وتفریط یاضعف واقع ہوتا ہے تو اس کے اندرکی حرارت وقوت اور رطوبت میں اعتدال قائم نہیں رہتاپس اسی کانام مرض ہے۔اس حیوانی ذرہ کااثرنسیج پر پڑتاہے۔اس کے بعد مفرد اعضاء کے تعلق سے اعصاب وغدداورعضلات وغیرہ کے مطابق گزرتا ہوااپنے متعلقہ عضورئیس میں ظاہرہوتاہے ان میں افراط وتفریط اورضعف کی شکل میں امراض وعلامات پیداہوتی ہیں۔علاج کی صورت میں انہی مفرداعضاء کے افعال درست کردینے سے ایک حیوانی ذرہ سے لے کرعضورئیس تک کے افعال درست ہوجاتے ہیں۔بس یہی طب مفرداعضاء ہے۔
طب مفرداعضاء کی تحقیق کامقصد: طب مفرداعضاء کی ضرورت اور تحقیق کامقصد یہ تھاکہ طب قدیم کی کیفیات ، مزاج اوراخلاط کی مفرد اعضاء سے تطبیق دے دی جائے تاکہ ایک طرف ان کی ا ہمیت واضح ہوجائے اوردوسری طرف یہ حقیقت سامنے آجائے کہ کوئی طریق علاج جس میں کیفیات ومزاج اور اخلاط کومدنظر نہیں رکھاجاتاوہ نہ صرف غلط ہے بلکہ وہ غیرعلمی(Unscientific)اورعطایانہ علاج ہے۔اس میں یقینی شفانہیں ہے اور وہ عطایانہ طریق علاج ہے۔جیسے فرنگی طب ہے جس میں کیفیات ومزاج اور اخلاط کوکوئی اہمیت حاصل نہیں ہے اس لئے انہی مقاصدکے تحت ہم نے طب مفرداعضاء کی بنیاد احیائے فن اورتجدیدطب پررکھی ہے۔ہم نے طب مفرداعضاء کے ساتھ کیفیات ومزاج اوراخلاط کے اثرات کے بغیر عمل میں نہیں آسکتے ۔اس لئے ان کے اثرات کومدنظررکھنا ضروری ہے تاکہ اعضاء کے افعال کودرست رکھاجاسکے۔اگر اثرات کومدنظررکھاجائے تو پھر لازم ہے کہ مفرداعضاء کے مطابق ادویہ اوراغذیہ اورتدابیرکوعمل میں لایا جائے۔ گویامفرداعضاء کے افعال بالکل کیفیات ومزاج اوراخلاط کے اثرات کے مطابق ہیں۔
اس تحقیق وتطبیق سے افعال مفرداعضاء اور کیفیات ومزاج اور اخلاط سے ایک طرف ان کی اہمیت سامنے آگئی ہے اور طب قدیم میں زندگی پیداہوگئی ہے تودوسری طرف اعضاء کے افعال کی علاج میں ضرورت سامنے آگئی ہے۔اس طرح تجدیدطب کاسلسلہ قائم کردیاگیاہے اور ساتھ ہی علم الادویہ میں بھی سی صورت کوثابت کیاگیاہے۔وہ بھی صرف انہی مفرداعضاء پراثرکرتی ہیں جن سے امراض وعلامات رفع ہوجاتی ہیں۔پوری طرح صحت صحیح ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ہماری تحقیق ہے کہ کوئی دوابھی مفرداعضاء کی بجائے سیدھی امراض وعلامات پراثرانداز نہیں ہوسکتی۔
طب مفرداعضاء کی تشریح:نظریہ مفرداعضاء بالکل نیانظریہ ہے۔تاریخ طب میں اس کا کہیں اشارہ تک نہیں پایا جاتااس نظریہ پرپیدائش امراض اورصحت کی بنیادرکھی گئی ہے،اس نظریہ سے قبل بالواسطہ یابلاواسطہ پیدائش امراض مرکب اعضاء کی خرابی کوتسلیم کیاجاتارہاہے۔مثلاً معدہ وامعاء ،شش ومثانہ۔آنکھ ومنہ،کان وناک بلکہ اعضائے مخصوصہ تک کے امراض کوان کے افعال کی خرابی سمجھا جاتا ہے ۔ یعنی معدہ کی خرابی کواس کی مکمل خرابی ماناگیاہے۔جیسے دردمعدہ،سوزش معدہ،ورم معدہ،ضعف معدہ اوربدہضمی وغیرہ پورے معدہ کی خرابی بیان کی جاتی ہے۔لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ معدہ ایک مرکب عضوہے اور اس میں عضلات واعصاب اورغدد وغیرہ ہرقسم کے اعضاء پائے جاتے ہیں اورجب مریض ہوتا ہے تووہ تمام اعضاء جومفردہوتے ہیں بیک وقت مرض میں گرفتارنہیں ہوتے بلکہ کوئی مفردعضومریض ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ معدہ میں مختلف قسم کے امراض پیداہوتے ہیں۔
جب معدہ کے مفرداعضاء میں سے کوئی گرفتارمرض ہوتاہے۔مثلاًمعدہ کے اعصاب مرض میں مبتلاہوتے ہیں تواس کی دیگر علامات بھی اعصاب میں ہوں گی اوران کااثردماغ تک جائے گا ۔ اسی طرح اگراس کے عضلات مرض میں مبتلاہوں گے توجسم کے باقی عضلات میں بھی یہی علامات پائی جائیں گی اوراس کااثر قلب تک چلاجاتاہے۔یہی صورت اس کے غددکے مرض کی حالت میں پائی جاتی ہے،یعنی دیگرغددکے ساتھ جگروگردوں کوبھی متاثر کرتے ہیں یابالکل معدہ کے مفرداعضاء اعصاب غددوعضلات کے برعکس اگردل،دماغ اورجگروگردہ میں امراض پیدا ہو جائیں تومعدہ وامعاء اور شش ومثانہ بلکہ آنکھ ومنہ اورناک وکان میں بھی علامات ایسی ہی پائی جائیں گی۔
اس لئے پیدائش امراض اورشفائے امراض کیلئے مرکب عضوکی بجائے مفرد عضوکو مدنظررکھنا یقینی تشخیص اوربے خطاعلاج کی صورتیں پیداہوجاتی ہیں۔ اس طرح ایک طرف کسی عضوکی خرابی کا علم ہوجاتا ہے تودوسری طرف اس کے صحیح مزاج کاعلم ہو جاتاہے،کیونکہ ہرمفردعضوکسی نہ کسی کیفیت ومزاج بلکہ اخلاط کے اجزاءء سے متعلق ہے۔ یعنی دماغ واعصاب کامزاج ترسردہے اور ان میں تحریک سے جسم میں سردی تری اوربلغم بڑھ جاتے ہیں۔اسی طرح جگروغددکامزاج گرم خشک ہے اس کی تحریک سے جسم میں گرمی خشکی اورصفرابڑھ جاتاہے۔یہی صورت قلبی (عضلات) ہے اورمفرداعضاء کے برعکس اگرجسم میں کسی کیفیت یامزاج اوراخلاط کی زیادتی ہو جائے توان کے متعلق مفرداعضاء پراثراندازہوکران میں تیزی کی علامات پیداہوجائیں گی۔
اس طرح دونوں صورتیں نہ صرف سامنے آجاتی ہیں بلکہ علاج میں بھی آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ایک خاص بات یہ ذہن نشین کرلیں کہ مفرد اعضاء کی جوترتیب اوپربیان کی گئی ہے ان میں جو تحریکات پیداہوتی رہتی ہیں وہ ایک دوسرے مفرداعضاء میں تبدیل ہوتی رہتی ہیں اورکی جاسکتی ہیں۔اسی طرح سے امراض پیداہوتے ہیں اوراسی طرح ہی ان تحریکات کوبدل کران کوشفاء اورصحت کی طرف لایاجاسکتاہے۔
عملی تشریح:جاننا چاہیے کہ انسان تین چیزوں سے مرکب ہے (1)جسم۔ Body(2) نفس۔Vital Force (3)روح۔Soul ۔نفس اور روح کاذکربعدمیں ہوگا۔اول جسم کوبیان کرناضروری ہے۔
انسانی جسم تین چیزوں سے مرکب ہے(1)بنیادی اعضاء۔(2) Basic Organs حیاتی اعضاء۔Life Organs (3)خون۔Blood ان کی مختصر سی تشریح درج ذیل ہے۔
(1)۔بنیادی اعضاء۔Basic Organs
ایسے اعضاء ہیں جن سے انسانی جسم کاڈھانچہ تیارہوتاہے جن میں مندرجہ ذیل تین اعضاء شریک ہوتے ہیں۔
(1) ہڈیاں۔Bones (2) رباط۔Ligaments (3) اوتار۔ Tendons
(2)۔ حیاتی اعضاء۔Life Organs
ایسے اعضاء ہیں جن سے انسانی زندگی اوربقاقائم ہے۔یہ تین قسم کے ہیں۔(1) اعصاب ۔ Nerves ان کامرکزدماغ(Brain)ہے۔ (2)غدد۔Glands جن کامرکزجگر (Liver) ہے۔عضلات(Muscles)جن کامرکزقلب(Heart) ہے۔ گویادل،دماغ اورجگر جو اعضائے رئیسہ ہیں وہی انسان کے حیاتی اعضاء ہیں۔
(3) ۔خون۔Blood
سرخ رنگ کا ایک ایسا مرکب ہے جس میں لطیف بخارات(Gases)،حرارت (Heat)اوررطوبت (Liquid) پائے جاتے ہیں۔یاہو ا ، حرارت اورپانی سے تیارہوتا ہے۔ دوسرے معنوں میں سودا،صفرااوربلغم کاحامل ہوتاہے۔ ان کی تفصیل آئندہ بیان کی جائے گی۔اس مختصرسی تشریح کے بعد جانناچاہیے کہ قدرت نے ضرورت کے مطابق جسم میں اس کی ترتیب ایسی رکھی ہے کہ اعصاب باہر کی جانب اورہرقسم کے احساسات ان کے ذمہ ہیں ۔ اعصاب کے اندرکی طرف غددہیں اورہرقسم کی غذا جسم کومہیاکرتے ہیں۔ غددسے اندرکی جانب عضلات ہیں اورہرقسم کی حرکات ان کے متعلق ہیں۔ یہی تینوں ہر قسم کے احساسات ،اغذیہ اورحرکات کے طبعی افعال انجام دیتے ہیں۔
غیرطبعی افعال: حیاتی اعضاء کے غیرطبعی افعال صرف تین قسم کے ہیں۔
(1)ان میں سے کسی عضومیں تیزی آ جائے یہ ریاح کی زیادتی سے پیداہو گی (2)۔ان میں سے کسی عضومیں سستی پیداہوجائے یہ رطوبت یابلغم کی زیادتی سے پیداہوگی۔
(3)۔ان میں سے کسی عضومیں ضعف پیداہوجائے یہ حرارت کی زیادتی سے پیداہوگا۔
یادرکھیں چوتھا کوئی غیرطبعی فعل واقع نہیں ہوتا۔اعضائے مفردکاباہمی تعلق جاننانہایت ضروری ہے کیونکہ علاج میں ہم ان ہی کی معاونت سے تشخیص ، تجویزاورعلامات کورفع کرتے ہیں۔ان کی ترتیب میں اوپریہ بیان کیاگیاہے کہ اعصاب جسم کے بیرونی طرف یااوپرکی طرف ہیں اور ان کے نیچے یا بعدمیں غددکورکھاگیاہے اورجہاں پرغددنہیں ہیں وہاں ان کے قائم مقام غشائے مخاطی بنادی گئی ہیں اوران کے نیچے یابعدمیں عضلات رکھے گئے ہیں اورجسم میں ہمیشہ یہی ترتیب قائم رہتی ہے۔افعال کے لحاظ سے بھی ہرعضو میں صرف تین ہی افعال پائے جاتے ہیں ۔
(1)۔عضوکے فعل میں تیزی پیداہوجائے توہم اس کوتحریک کہتے ہیں۔
(2)۔عضوکے فعل میں سستی نمودارہوجائے توہم اس کوتسکین کہتے ہیں۔
(3)۔عضوکے فعل میں ضعف واقع ہوجائے توہم اس کوتحلیل کی صورت قراردیتے ہیں۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ ہر عضومیں ظاہرہ دو ہی صورتیں ہوتی ہیں۔اول تیزی اوردوسرے سستی ۔ لیکن سستی دوقسم کی ہوتی ہے۔اول سستی سردی یابلغم کی زیادتی اوردوسرے سستی حرارت کی زیادتی ہے ۔ اس لئے اول الذکرکانام تسکین رکھاجاسکتاہے۔اورثانی الذکرکی سستی کوتحلیل ہی کہنا بہترہے۔کیونکہ حرارت اورگرمی کی زیادتی سے ضعف پیداہوتاہے۔اوریہ بھی ایک قسم کی سستی ہے۔لیکن چونکہ ضعف حرارت اورگرمی کی زیادتی سے پیداہوتا ہے اور اس میں جسم یاعضوگھلتاہے اور یہ صورت مرض کی حالت میں آخرتک قائم رہتی ہے بلکہ صحت کی بحالی میں بھی ایک ہلکے قسم کی تحلیل جاری رہتی ہے۔ اس لئے انسان بچپن سے جوانی،جوانی سے بڑھاپے اور بڑھاپے سے موت کی آغوش میں چلاجاتاہے۔اس لئے اس حالت کانام تحلیل بہت مناسب ہے۔
ساتھ ہی اس امرکوبھی ذہن نشین کرلیں کہ یہ تینوں صورتیں یاعلامات تینوں اعضاء اعصاب،غدداور عضلات میں کسی ایک میں کوئی حالت ضرورپائی جائے گی۔البتہ ایک دوسرے میں بدلتی رہتی ہیں اور اس غیرطبعی بدلنے ہی سے مختلف امراض پیداہوتے ہیں اورانہی کی طبعی تبدیلی سے صحت حاصل ہوجاتی ہے۔اعضاء کی اندرونی تبدیلیوں کوذیل کے نقشہ سے آسانی کے ساتھ سمجھاجاسکتاہے۔
نام اعضاء اعصاب غدد عضلات نتیجہ
دماغ تحریک تحلیل تسکین جسم میں رطوبات یعنی بلغم کی زیادتی
جگر تسکین تحریک تحلیل جسم میں حرارت یعنی صفراکی زیادتی
دل تحلیل تسکین تحریک جسم میں ریاح یعنی سوداکی زیادتی
اشارہ کا نشان یہ ظاہرکرتاہے کہ علاج کی صورت میں فوراًشفاحاصل کرنے کیلئے اشارہ کے مطابق دماغ (اعصاب) سے دل یعنی عضلات کوتحریک دی جائے۔عضلات یعنی دل سے جگریعنی غددکوتحریک دی جائے۔ا س طرح جگریعنی غددسے دماغ یعنی اعصاب کوتحریک دی جائے۔یہ اشارہ فطری اشارہ ہے کیونکہ فطرت بلغم کوسوداسے ختم کرتی ہے اورسودا کوصفراسے پھرصفراکوبلغم سے ختم کرتی ہے۔گویاہرعضومیں یہ تینوں حالتیں یاعلامات فرداً فرداً ضرورپائی جائیں گی۔
1)۔اگراعصاب میں تحریک ہے توغددمیں تحلیل اورعضلات میں تسکین ہوگی ۔نتیجۃًجسم میں رطوبات بلغم یاکف کی زیادتی ہوگی۔
(2۔اگرغددمیں تحریک ہوگی توعضلات میں تحلیل اوراعصاب میں تسکین ہوگی۔ نتیجۃًجسم میں حرارت صفراویت کی زیادتی ہوگی۔
(3۔اگرعضلات میں تحریک ہوگی تواعصاب میں تحلیل اورغددمیں تسکین ہوگی۔نتیجۃ جسم میں ریاح سوداویت کی زیادتی ہوگی۔
تشریح مزید بامثال نزلہ: نزلہ ایک علامت ہے جوکسی مرض پردلالت کرتاہے۔اس کوکسی صورت میں بھی مرض کہناصحیح نہ ہو گااوراس کوابوالامراض کہنا تو انتہائی غلط فہمی ہے۔کیونکہ نزلہ موادیارطوبت کی صورت میں گرتا ہے اس علامت سے کسی عضوکے فعل کی طرف دلالت کرتاہے اس عضوکے افعال کی خرابی ہی کو مرض کہاجاسکتاہے۔البتہ عضوکے افعال کی خرابی کی جس قدرصورتیں ہوسکتی ہیں وہ تمام امراض میں شامل ہوں گی۔
موادیارطوبت کا طریق اخراج: رطوبت(لمف)یامواد(میٹر)یاسکریشن کااخراج ہمیشہ خون میں سے ہوتاہے اس کو پوری طرح سمجھنے کیلئے پورے طوردوران خون کوذہن نشین کرلینا چاہیے۔یعنی دل سے صاف شدہ خون بڑی شریان اورطئی سے چھوٹی شریانوں میں سے عروق شعریہ کے ذریعہ غدد اورغشائے مخاطی میں جسم کی خلاؤں پرترشح پاتاہے یہ ترشح کبھی زیادہ ہوتاہے کبھی کم کبھی گرم ہوتاہے اورکبھی سرد،کبھی رقیق ہوتاہے کبھی غلیظ اورکبھی سفید ہوتاہے توکبھی زرد وغیرہ وغیرہ۔اس سے ثابت ہواکہ نزلہ یا ترشح (سکریشن) کا اخراج ہمیشہ ایک ہی صورت میں نہیں ہوتا بلکہ مختلف صورتیں یا کیفیتیں اور رنگ پائے جاتے ہیں۔گویانزلہ ایک علامت ہے وہ بھی اپنے اندر کئی انداز رکھتا ہے۔اس لئے اس کوابوالامراض کہتے ہیں۔
نزلہ کے تین انداز
(1)۔نزلہ پانی کی طرح بے تکلف رقیق بہتاہے۔عام طورپراس کارنگ سفیداورکیفیت سرد ہوتی ہے۔اس کوعام طورپرزکام کانام دیتے ہیں۔
(2) ۔نزلہ لیس دارجوذراکوشش اورتکلیف سے خارج ہوتاہے۔عام طورپراس کارنگ زرد اورکیفیت گرم ہوتی ہے۔اس کونزلہ حارکہتے ہیں۔
(3)۔نزلہ سفید ہوتاہے انتہائی کوشش اورتکلیف سے بھی اخراج کانام نہیں لیتا ایسامعلوم ہوتاہے کہ جیسے بالکل جم گیاہواورگاڑھاہوگیاہو ،عام طورپر رنگ میلایاسرخی مائل اورکبھی کبھی زورلگانے سے خون نے لگتاہے۔اس کوبند نزلہ کہتے ہیں۔
نزلہ کی تشخیص:(1)۔اگرنزلہ پانی کی طرح بے تکلف رقیق بہ رہاہے تویہ اعصابی (دماغی) نزلہ ہے۔یعنی اعصاب کے فعل میں تیزی ہے اس کا رنگ سفیداور کیفیت سردہوگی اس میں قارورہ کارنگ بھی سفید ہوگا۔
(2)۔اگرنزلہ لیس دار ہوجوذراکوشش وتکلیف اورجلن سے خارج ہورہاہوتویہ غدی کبدی نزلہ ہے یعنی جگرکے فعل میں تیزی ہوگی۔اس کارنگ عام طورپرزردی مائل اورکیفیت گرم وترہوگی اس میں قارورہ کارنگ زردسرخی مائل ہوگا۔گویایہ حارنزلہ ہے۔
(3)۔اگرنزلہ بندہواورانتہائی کوشش اورتکلیف سے بھی اخراج کانام نہ لے ایسے معلوم ہوکہ جیسے بالکل جم گیاہے اورگاڑھاہوگیاہے۔تویہ نزلہ عضلاتی (قلبی) ہوگا۔یعنی اس میں عضلات کے فعل میں تیزی ہوگی اس کارنگ عام طورپرمیلایاسرخی وسیاہی مائل اورکبھی کبھی زیادہ زورلگانے سے خون بھی آ جاتاہے۔
اول صورت جسم میں رطوبات سردبلغم کی زیادتی ہوگی۔دوسری صورت میں جسم میں صفراگرمی خشکی کی زیادتی ہو گی۔تیسری صورت میں سوداویت سردی خشکی اورریاح کی زیادتی ہوگی ۔اورانہی اخلاط و کیفیات کی تمام علامات پائی جائیں گی۔
گویا نزلہ کی تین صورتیں ہیں ان کواس مقام پرذہن نشین کرلیناچاہیے۔چوتھی صورت کوئی نہ ہوگی البتہ ان تینوں صورتوں کی کمی بیشی اورانتہائی شدت ہوسکتی ہے۔انتہاکی شدت کی صورت میں انہی مفرد اعضاء کے اندردردسوزش یاورم پیداہوجائے گا۔انہی شدید علامات کے ساتھ بخار ، ہضم کی خرابی،کبھی قے ،کبھی اسہال،کبھی پیچش،کبھی قبض ہمراہ ہوں گے۔لیکن یہ تمام علامات انہی اعضاء کی مناسبت سے ہوں گی۔اس طرح کبھی معدہ وامعاء اورسینہ کے انہی اعضاء کے افعال میں کمی بیشی اورشدت کی وجہ سے بھی ان کی خاص علامات کے ساتھ ساتھ نزلہ کی بھی علامات پائی جائیں گی جن کااوپرذکرکیا گیاہے۔
نزلہ کے معنی میں وسعت: نزلہ کے معنی ہیں گرنا۔اگراس کے معنی کوذراوسعت دے کراس کے مفہوم کو پھیلا دیا جائے توجسم انسان کی تمام رطوبات اورمواد کونزلہ کہہ دیاجائے توان سب کی بھی اس نزلہ کی طرح تین ہی صورتیں ہوسکتی ہیں اوران کے علاوہ چوتھی صورت نظر نہیں آئے گی مثلاً اگر پیشاب پر غور کریں تو اس کی تین صورتیں یہ ہوں گی۔
(1)۔اگراعصاب میں تیزی ہوگی توپیشاب زیادہ اوربغیرتکلیف کے آئے گا۔
(2)۔اگرغددمیں تیزی ہوگی توپیشاب میں جلن کے ساتھ قطرہ قطرہ آئے گا۔
(3)۔اگرعضلات میں تیزی ہوگی توپیشاب بندہوگا یابہت کم آئے گا۔
یہی صورتیں پا خانہ پربھی وارد ہوں گی۔
(1)۔اعصاب میں تیزی ہوگی تواسہال۔
(2)۔غددمیں تیزی ہوگی توپیچش۔
(3)ََ۔عضلات میں تیزی ہوگی توقبض پائی جائے گی۔
اس طرح لعاب،دہن۔آنکھ،کان اورپسینہ وغیرہ ہرقسم کی رطوبات پرغورکرلیں۔البتہ خون کی صورت رطوبات سے مختلف ہے،یعنی اعصاب کی تیزی میں جب رطوبات کی زیادتی ہوتی ہے تو خون کبھی نہیں آتا۔جب غددمیں تیزی ہوتی ہے توخون تکلیف سے تھوڑاتھوڑاآتاہے۔جب عضلات کے فعل میں تیزی ہوتی ہے توشریانیں پھٹ جاتی ہیں اوربے حد کثرت سے خون آتا ہے ۔اس سے ثابت ہوگیاکہ جب خون آتاہے تورطوبات کااخراج بندہوجاتاہے اور اگر رطوبات کااخراج زیادہ کردیاجائے توخون کی آمدبندہوجائے گی۔
نظریہ مفرداعضاء کے جاننے کے بعداگرایک طرف تشخیص آسان ہوگئی ہے تودوسری طرف امراض اورعلامات کا تعین ہوگیاہے اب ایسا نہیں ہوگاکہ آئے دن نئے نئے امراض اورعلامات فرنگی طب تحقیق کرتی رہے اوراپنی تحقیقات کادوسروں پررعب ڈالتی رہے بلکہ ایسے امراض و علامات جوبے معنی صورت رکھتے ہوں وہ ختم کردئیے جائیں گے جیسے وٹامنی امراض،غذائی امراض اورموسمی امراض وغیرہ وغیرہ۔پس ایسے امراض اورعلامات کاتعلق کسی نہ کسی اعضاء سے جوڑنا پڑے گااورانہی کے افعال کوامراض کہناپڑے گا۔گویاکیمیائی اوردموی تغیرات کوبھی اعضاء کے تحت لاناپڑے گا۔
دموی اورکیمیائی تغیرات بھی اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتا کہ جسم انسان میں خون کی پیدائش اوراس کی کمی بیشی انسان کے کسی نہ کسی عضوکے ساتھ متعلق ہے اس لئے جسم انسان میں دموی اور کیمیائی تبدیلیاں بھی اعضائے جسم کے تحت آتی ہیں۔اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ جسم میں ایک بڑی مقدارمیں زہریلی ادویات اوراغذیہ سے موت واقع ہوجاتی ہے لیکن ایسے کیمیائی تغیرات بھی اس وقت تک پیدا نہیں ہوتے جب تک جسم کاکوئی عضو بالکل باطل نہ ہوجائے۔
دیگر اہم علامات: نزلہ کی طرح دیگر علامات بھی چند اہم علامات میں تقسیم ہوجاتی ہیں۔اگر ان اہم علامات کوذہن نشین کرلیاجائے تونزلہ کی طرح جن مفرداعضاء سے ان کاتعلق ہوگاان کے ساتھ ہی وہ ایک مرض کی شکل اختیار کر لیں گے۔ورنہ تنہاان علامات کو امراض کانام نہیں دیاجاسکتا وہ اہم علامات درج ذیل ہیں۔
1۔سوزش 2۔ورم 3۔بخار 4۔ضعف
سوزش :سوزش ایک ایسی جلن ہے جو کیفیاتی ونفسیاتی اور مادی تحریکات سے جسم کے کسی مفردعضو میں پیداہوجائے ۔سوزش میں سرخی اور دردوحرارت لازم ہوتی ہے۔تحریک سے سوزش تک بھی چندمنزلیں ہیں۔
۱۔لذت۔۲۔بے چینی ۔۳۔سوزش ۔
کبھی طبیعت انہی علامات میں سے کسی ایک پر رک جاتی ہے اور کبھی گزرکر سوزش بن جاتی ہے ۔
ورم: ورم کی علامت سوزش کے بعد پیداہوتی ہے ۔اس میں سوزش کی علامات کے ساتھ سوجن بھی ہوتی ہے اور جب سوجن زیادہ ہوجائے یازدت اختیارکرلے تو حرارت بخارمیں تبدیل ہوجاتی ہے ۔جسم کے پھوڑے اور پھنسیاں اور دانے وغیرہ بھی اورام میں شریک ہیں۔سوزش وا ورام کا تفصیلی مطالعہـ’’تحقیقات سوزش واورامـ‘‘ میں کیاجا سکتاہے
بخار: بخار ایک ایسی اور غیر معمولی حرارت ہے جس کو حرارتِ غریبہ(بیرونی)بھی کہتے ہیں جوجزوخون کے ذریعہ قلب سے تمام بدن میں پھیل جاتی ہے جس سے بدن کے اعضاء میں تحلیل اور ان افعال میں نقصان واقع ہوتاہے۔ غصہ اور تھکان کی معمولی گرمی بخار کی حد سے باہرہے کیونکہ اس سے کوئی غیرمعمولی تبدیلی بدن انسان میں لاحق نہیں ہوتی۔اس کو عربی میں حمیٰ فارسی میں تپ کہتے ہیں۔ بخارکاتفصیلی مطالعہ ’’تحقیقات حمیات‘‘ میں کیاجا سکتا ہے۔
ضعف: جسم کی ایک ایسی حالت کانام ہے جس میں گرمی کی زیادتی سے کسی مفرد عضو میں تحلیل پیداہوجائے۔ضعف کے مقابلے طاقت کاتصور کیا جاسکتاہے۔ ضعف کا تفصیلی مطالعہ ’تحقیقات اعادہ و شباب‘‘ میں کیاجاسکتاہے
مفرداعضاء کاباہمی تعلق: مفرداعضاء کاباہمی تعلق بھی ہے اس تعلق سے تحریکات ایک عضو سے دوسرے عضو کی طرف منتقل ہوتی ہیں مثلاً جب غدد میں تحریک ہے تو اس امرکو ضرور جانناپڑے گاکہ اس تحریک کاتعلق عضلات کے ساتھ ہے یااعصاب کے ساتھ ہے،کیونکہ اس تحریک کاتعلق کسی نہ کسی دوسرے عضو کے ساتھ ہوناضروری ہے کیونکہ مزاجاً بھی کبھی کوئی کیفیت مفردنہیں ہوتی جیسے گرمی یاسردی کبھی تنہا نہیں پائی جائیں گی وہ ہمیشہ گرمی تری، گرمی خشکی ہوگی،اسی طر ح سردی تری یاسردی خشکی ہو گی ۔ یہی صورت اعضاء میں بھی قائم ہے یعنی غدی عضلاتی (گرم خشک)یاغدی اعصابی (گرم تر ) وغیرہ وغیرہ۔
البتہ اس میں اس امرکوذہن نشین کرلیں کہ اول تحریک عضوی(مشینی)ہوگی اوردوسری تحریک کیمیائی خلطی ہو گی۔جب کسی مفردعضو میں تحریک ہوگی تواس کاتعلق جس دوسرے مفردعضو سے ہوگااس کی کیمیائی صورت خون میں ہوگی۔مثلاً غدی عضلاتی تحریک ہے تواخلاط میں خشکی پائی جائے گی۔ جب غدی اعصابی تحریک ہوگی توخون میں تری پائی جائے گی۔وغیرہ وغیرہ۔ ان کایہ سلسلہ قائم رہے گا۔
مفرد اعضاء کے تعلق کی چھ صورتیں: مفرد اعضاء صرف تین ہیں لیکن ان کاآپس میں تعلق ظاہرکیاجائے توکل چھ صورتیں بن جاتی ہیں۔
(1)۔اعصابی غدی (2)۔اعصابی عضلاتی (3)۔عضلاتی اعصابی (4)۔عضلاتی غدی (5)۔غدی عضلاتی (6)۔غدی اعصابی
یادرکھیں کہ جولفظ اول ہوگاوہ عضوکی تحریک ہے اورجولفظ بعد میں ہو گاوہ کیمیائی تحریک کہلاتا ہے ۔ چونکہ کیمیائی تحریک ہی صحت کی طرف جاتی ہے اس لئے ہرعضوکی تحریک کے بعد اس سے جو کیمیائی اثرات پیداہوں گے انہی کوبڑھاناچاہیے بس اسی میں شفاہے یہی وجہ ہے کہ ہومیوپیتھی میں بھی ری ایکشن کی علامات کوبڑھایاجاتاہے،اس مقصد کیلئے قلیل بلکہ اقل مقدار میں بھی دوانہ صرف مفید ہو جاتی ہے بلکہ اکسیراورتریاق کاکام دے دیتی ہے۔
—————————PAGEBREAK——————————–
ظاہری تقسیم جسم انسانی بہ نظریہ مفرداعضاء
جسم انسان کوہم نے اعضائے رئیسہ یادوسرے الفاظ میں دوسرے الفاظ میں انسجہ(Tissues) میں تقسیم کردیاہے جن کے مرکزیہی اعضائے رئیسہ دل ، دماغ اورجگرہیں۔جیسا کہ گزشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں یہ انسجہ تمام جسم میں اس طرح اوپر تلے پھیلے ہوئے ہیں کہ جسم کاکوئی مقام ایسا نہیں کہ جہاں صرف ایک یادواقسام کے انسجہ ہوں یاان کا آپس میں تعلق نہیں ہو۔اس لئے امراض کی صورت میں تینوں اقسام کے حیاتی انسجہ متاثرہوتے ہیں البتہ ان کی صورتیں جداجداہوتی ہیں جیساکہ لکھاجا چکاہے۔ہرعضوکی زیادہ سے زیادہ تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔۱۔تحریک ۔۲ ۔ تحلیل۔۳۔تسکین۔ جب کسی میں ایک حالت پائی جاتی ہیں توباقی دودوسرے اعضائے مفرد (انسجہ)۔ Tissues))میں پائی جاتی ہیں ایسا اس لئے ہوتاہے کہ دوران خون کی گردش ہی قدرت نے فطری طورپرایسی بنائی ہے۔اگرمعالج دوران خون کی گردش کوپورے طورپر ذہن نشین کرلے توامراض کی ہیت کوآسانی سے سمجھ سکتا ہے۔تفصیل درج ذیل ہے۔
دوران خون اور نظریہ مفرداعضاء نظریہ مفرداعضاء کے تحت دوران خون دل(عضلاتی انسجہ)سے جسم میں دھکیلا جاتاہے۔پھرشریانوں کی وساطت سے جگر (غدی انسجہ)سے گزرتاہوا دماغ(اعصابی انسجہ)پرگرتاہے۔تمام جسم کی غذابننے کے بعدپھرباقی رطوبت (غددجاذبہ)کے ذریعے جو طحال کے ماتحت غددکی وساطت سے کام کرتے ہیں جذب ہوکراورپھرخون میں شامل ہوکردل(عضلات )کے فعل کوتیزکرتاہے اورہرخون غدد سے چھننے سے رہ جاتاہے وہ بھی وریدوں کے ذریعے واپس قلب میں چلاجاتاہے۔اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتاہے۔
طب قدیم کی حقیقت کی تصدیق: یہاں پر سمجھنے والی یہ بات وہ حقیقت ہے جوطب قدیم نے ہزاروں سال قبل لکھی ہے کہ دوران خون میں جب تک جگر(غدد)سے نہ گزرے وہ جسم میں نہیں پھیلتایاترشہ نہیں پاتا۔اسی طرح ترشہ پانے کے بعد جب بقایارطوبات طحال (غددجاذبہ)میں جذب ہوکرکیمیائی طورپرتبدیلی حاصل نہ کرلیں ان کاکھاری پن ترشی میں تبدیل نہ ہو وہ دل (عضلات)پرنہیں گرتیں اور ان کوتیزنہیں کرسکتیں۔ صرف سمجھانے کیلئے دل و جگراوردماغ وطحال کے اعضاء کے نام لکھے ہیں ورنہ جسم میں ہرجگہ عضلات وغدد اوراعصاب وغددجاذبہ اپنے علاقہ اورحدود میں وہی کام انجام دے رہے ہیں جواعضائے رئیسہ اداکررہے ہیں۔خون اور دوران خون کی ان چار تبدیلیوں کوطب قدیم میں خون وصفرا،بلغم اور سودا کے نام دئیے گئے ہیں ۔جہاں جہاں یہ کیمیائی تبدیلیاں ہوتی ہیں انہی جگہوں کوان کامقام قرار دیاگیاہے۔خون کامقام دل ،صفراکامقام جگر اور بلغم کا مقام دماغ اور سوداکامقام طحال ہے۔لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ باقی جسم میں یہ تبدیلیاں نہیں ہوتیں بلکہ ہرجگہ جسم میں تمام انسجہ (Tissues) دل، دماغ،جگراورطحال کے کام انجام دے رہے ہیں۔دلیل وتصدیق اور ثبوت کے طورپرہم ان اعضاء کامزاج پیش کرسکتے ہیں جہاں ہروہ رطوبات کیمیائی تبدیلیاں حاصل کرتی ہیں ۔دونوں کی کیفیاتی وخلطی اور کیمیائی مزاجوں میں ذرا بھرکوئی فرق نہیں ہے۔
تحقیقات امراض: امراض کی تحقیقات کوذہن نشین کرنے کیلئے اس رازکوسمجھ لیں کہ دوران خون دل (عضلات) سے شروع ہوکرجگر(غدد)اور دماغ(اعصاب) اور طحال (غددجاذبہ)میں گزرتے ہوئے دل(عضلات)کی طرف واپس لوٹتاہواجسم کے کسی حصہ کے مجری مفرداعضاء (Tissues)میں افراط وتفریط اورتحلیل پیداکردیتاہے۔بس وہی مرض پیداہوتاہے اور اس کی علامات انہی مفرد اعضاءانسجہ(Tissues)کی وساطت سے تمام جسم میں ظاہر ہوتی ہیں اور خون میں بھی کیمیائی طورپروہی تغیر ہوتے ہیں ۔انہی مشینی اور کیمیائی علامات کودیکھ کرتشخیص مرض کیا جاتا ہے اور پھرجس مفردعضو، نسیجTissue) ) میں سکون ہوتاہے اس کوتیزکردینے سے فوراًصحت ہوناشروع ہوجاتی ہے۔
جسم انسانی کی بالمفرداعضاء تقسیم: امرا ض تقسیم کیلئے نبض وقارورہ اور براز دیکھنے کافی ہیں۔ایک قابل معالج ان کی مددسے مریض کے جسم میں جو کیفیاتی ،خلطی اور کیمیائی تبدیلیاں ہوتی ہیں مفرداعضاء،انسجہ۔Tissues))کے افعال کی خرابی کوسمجھ سکتاہے اور ان کے علاوہ دیگررطوبات جسم جن کاذکرنزلہ کے بیان میں کیاگیاہے کے افعال کوسمجھ کر امراض کا تعین کرسکتاہے مگرہم نیززیادہ سہولت اور آسانی کی خاطرجسم انسانی کوچھ حصوں میں تقسیم کردیاہے تاکہ مریض اپنے حصہ پرہاتھ رکھے معالج فوراًمتعلقہ مفرداعضاء کی خرابیوں کوجان جائے اور اپناعلاج یقین کے ساتھ کرے تاکہ قدرت کی قوتوں کے تحت فطری طورپرشرطیہ آرام ہوجائے۔
یادرکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی فطرت نہیں بدلتی۔انسان کافرض ہے کہ وہ فطرت اللہ کا صحیح علم رکھے تاکہ نتیجہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق نکلے۔اللہ تعالیٰ کی اسی فطرت کے مطابق علاج کانام شرطیہ طریقِ علاج ہے۔قرآن حکیم نے کئی بارتاکیدکی ہے۔
لن تجدلسنت اللہ تبدیلا۔
بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے نظامِ فطرت میں ہرگزہرگزتبدیلی نہیں آتی۔جیسے آگ اپنی فطرت حرارت سے جدانہیں اور پانی اپنی برودت سے الگ نہیں ۔
جانناچاہیے کہ ہم نے انسان کوسرسے پاؤں تک دوحصوں میں تقسیم کردیاہے۔پھرہرحصے کو تین تین مقاموںمیں تقیسم کردیاہے۔اس طرح چھ مقام بن جاتے ہیں۔اس طرح ان میں سے جس مقام پرکوئی تکلیف ہوگی اور ایک ہی قسم کے مفرداعضاء انسجہ (Tissues)کے تحت ہوگی اور ان کا علاج بھی ایک ہی قسم کی مشینی اور کیمیائی تبدیلی سے کیاجاسکتاہے۔یہ فطرت کا ایک عظیم راز ہے۔
جسم انسان کے دو حصوں کی تقسیم اس طرح کی گئی ہے کہ سر کے درمیان میں جہاں پرمانگ نکلتی ہے وہاں سے ایک سیدھی فرضی لکیر لے کربالکل ناک کے اوپرسے سیدھی منہ وتھوڑی اور سینہ وپیٹ سے گزرتی ہوئی مقعدکی لکیرتک پہنچ جاتی ہے۔اسی طرح پشت کی طرف سے ریڑھ کی ہڈی پرسے گزرتی ہوئی پہلی لکیر سے مل جاتی ہے۔اس طرح انسان کے دوحصے ہوجاتے ہیں۔
یہ تقسیم اس لئے کی گئی ہے کہ سالہاسال کے تجربات نے بتایاہے کہ قدرت نے جسم انسان کواس طرح بنایا ہے کہ وہ بیک وقت تمام جسم کوکسی مرض کے نقصان پہنچنے سے روکتی ہے بلکہ کسی ایک حصہ جسم میں تحریک سے تکلیف ہورہی ہوتی ہے۔کسی دوسرے حصہ میں تقویت (ابتدائی تحلیل اور کسی تیسرے حصہ میں تسکین )رطوبت غذائیت پہنچا رہی ہوتی ہیں اوریہ کوشش اسی لئے جاری رہتی ہے کہ انسان کوتکلیف اور مرض سے اسی طاقت کے مطابق بچایاجائے اوریہ کوشش اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کوئی جسم بالکل بے کاراور ناکارہ ہوکردوسروں سے تعلق نہ توڑ دے اورموت واقع ہوجائے مثلاً اگرجگراور غددکے فعل میں تیزی اور تحریک ہوتودورانِ خون دل وعضلات کی طرف جاکراس کی پوری حفاظت کرتاہے اور دماغ و اعصاب کی طرف رطوبت اورسکون پیداکردیتاہے تاکہ تمام جسم صرف جگروغددکی بے چینی سے محفوظ رہے اور قوتیں اس کامقابلہ کرسکیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص ربوبیت اور رحمت ہے۔
مرض کی ابتداہمیشہ ایک طرف ہوتی ہے: اسی طرح جسم انسان کے دائیں یابائیں حصے میں کوئی تکلیف یامرض ہوتو طبیعت مدبرہ بدن دوسرے حصے کومحفوظ رکھتی ہے۔اور یہ اوپروالے طب مفرداعضاء کے تحت ہوتاہے مثلاً دردسر کبھی دائیں طرف ہوتاہے اورکبھی بائیں طرف ہوتاہے۔ کبھی سرکی پچھلی جانب ہوتاہے اورکبھی پھیل کرسارے سر میں ہوتاہے۔اسی طرح کبھی دائیں آنکھ میں کوئی تکلیف ہوتی ہے اورکبھی بائیں آنکھ میں۔ پھردونوں میں پھیل جاتی ہے لیکن کمی بیشی ضرورقائم رہتی ہے۔اسی طرح ناک میں کبھی دائیں طرف مرض ہوتاہے اور کبھی بائیں طرف مرض ظاہرہوتا ہے۔اور بہت کم دونوں میں ایک سی حالت ہوتی ہے۔یہی صورت کانوں،دانتوں اورمنہ کے باقی حصوں کی ہوتی ہے۔اسی صورت کواگرپھیلاتے جائیں توصاف پتہ چلتاہے کہ گردن کے دونوں طرف دونوں شانوں ،دونوں بازوؤں،سینہ اورمعدہ وامعاء کے ساتھ ساتھ جگروطحال اوردونوں گردے یہاں تک کہ مثانہ وخصیے اور دونوں ٹانگیں اپنی اپنی تکالیف میں جداجداصورتیں رکھتی ہیں۔یہ تقریباً ناممکن ہے کہ دونوں طرف بیک وقت تکلیف شروع ہو۔البتہ رفتہ رفتہ دوسری طرف کے وہی مفرداعضاءانسجہ۔Tissues))متاثرہوکرکم وبیش اثرقبول کرلیتے ہیں۔یہ وہ رازجواللہ تعالیٰ نے طب مفرداعضاء کے تحت دنیائے طب پرظاہرکیاہے۔اس سے قبل دنیائے طب میں اس کا کسی کوعلم نہیں تھا۔
مفرداعضاء کی ظاہری تقسیم کی تشریح: انسانی جسم کوہم نے چھ(Six) مقامات میں اس طرح تقسیم کیاہے۔
پہلامقام(اعصابی عضلاتی ): اس مقام میں سرکادایاں حصہ،دایاں کان،دائیں آنکھ، دائیں ناک،دایاں چہرہ مع دائیں طرف کے دانت و مسوڑھے اورزبان،دائیں طرف کی گردن شامل ہے۔ گویاسرکے دائیں طرف سے دائیں شانہ تک جس میں شانہ شریک نہیں ہے۔جب کبھی بھی ان مقامات پرکہیں تیزی ہوگی اعصابی عضلاتی تحریک ہوگی۔
دوسرامقام(عضلاتی اعصابی): اس مقام میں دایاں شانہ،دایاں بازو،دایاں سینہ،دایاں پھیپھڑہ اوردایاں معدہ شریک ہے۔گویادائیں شانہ سے لے کرجگرتک لیکن اس میں جگرشامل نہیں ہے۔جب کبھی ان مقامات میں سے کسی میں تیزی ہوتوعضلاتی اعصابی تحریک ہوگی۔
تیسرامقام(عضلاتی غدی): اس مقام میں جگر،دائیں طرف کی آنتیں،دائیں طرف کامثانہ،دایاں خصیہ،دائیں طرف کامقعد اور دائیں ساری ٹانگ کولہے سے لے کرپائوں کی انگلیوں تک سب شامل ہیں۔جب کبھی ان مقامات پرکسی میں تیزی ہوگی توعضلاتی غدی تحریک ہوگی۔
چوتھامقام(غدی عضلاتی): اس میں سرکابایاں حصہ،بایاں کان،بائیں آنکھ وناک،بایاں چہرہ مع بائیں طرف کے دانت و مسوڑھے اورزبان اور گردن شامل ہیں۔گویا بائیں جانب سرسے لے کربائیں مثانہ تک جس میں شانہ شریک نہیں ہے۔جب کبھی ان مقامات پر تیزی ہوگی توغدی عضلاتی تحریک ہوگی۔
پانچواں مقام(غدی اعصابی): اس مقام میں بایاں شانہ،بایاں بازو،بایاں سینہ،بایاں پھیپھڑہ اور بایاں معدہ شریک ہیں گویا بایاں شانہ سے لے کر طحال تک جس میں طحال شریک نہیں ہے۔جب کبھی ان مقامات میں سے کسی میں تیزی ہوگی توغدی اعصابی تحریک ہوگی۔
چھٹا مقام(اعصابی غدی): اس مقام میں طحال ولبلبہ،بائیں طرف کی آنتیں،بائیں طرف کامقعد،بائیں طرف کا مثانہ ، بایاں خصیہ،بائیں ساری ٹانگ کولہے سے لے کرپائوں کی انگلیوں تک شریک ہیں۔
تاکید: یہ تقسیم دورانِ خون کی گردش کے مطابق ہے جودل(عضلات) سے شروع ہوکر جگر(غدد)سے گزرتے ہوئے دماغ(اعصاب) اورطحال (غددجاذبہ) سے گزر کر پھر دل (عضلات) میں شامل ہوتاہے۔اس کابیان عضلاتی غدی سے شروع ہوکرترتیب وارچھ مقام بیان کئے گئے ہیں جو عضلاتی اعصا بی پرختم ہوتے ہیں۔لیکن ہم نے ایک سرے کومدنظررکھتے ہوئے دائیں طرف سرے سے شروع کرکے بائیں طرف کی ٹانگ پرختم کردیاہے تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے۔
یادداشت: یہ چھ مقام صرف تحریک کے ہیں لیکن اس امرکونہ بھولیں کہ یہ مقام دراصل تین مفرداعضاء کے تعلقات اور تشخیص کوسمجھانے کیلئے ہیں کہ جسم اور خون کی تحریک کس طرف چل رہی ہے۔اس لئے اس امرکویاد رکھیں کہ جس ایک مفردعضو میں تحریک ہوباقی دومیں تحلیل وتسکین ترتیب کے ساتھ ہوں گی اور ان کا دیگر مفرد اعضاء پروہی اثرہوگا۔
امراض وعلامات بہ طب مفرداعضاء
علاج بالغزا سے تمام امراض کاسرلے کرپائوں تک یقینی طورپرکامیابی کے ساتھ ہو سکتاہے۔یہ ہماری تقریباًپچیس سالہ تحقیق ہے جوپہلی دفعہ ہم دنیائے طب کے سامنے پیش کررہے ہیں۔یہ علاج بالغزا طب مفرداعضاء کے تحت ہی کیاجاسکتاہے۔ جس کامختصر بیان ہم گذشتہ صفحات میں کرچکے ہیں۔ اس علاج بالغزاکے دلائل درج ذیل ہیں۔
۱۔انسانی جسم سرسے لے کر پاؤں تک صرف چارقسم کے مفرداعضاء سے بناہے۔یہ مفرد اعضاء چاراقسام کے انسجہ (Tissues)سے بنے ہیں جن کی ترتیب و ترکیب اوربافت و ساخت ابتدائی حیوانی ذرہ(Cell)سے ہوئی ہے اورتمام جسم انہی کے تحت کام کرتا ہے۔اعضائے رئیسہ ان کے عامل اور مراکز ہیں ۔ (ا)اعصاب(Nerves)جن کا مرکز دماغ ہے۔(۲)عضلات(Muscles)جن کامرکزدل ہے۔ (۳)غدد(Liver)جن کا مرکزجگرہے۔ان سب کا آپس میں گہراتعلق ہے۔انہی مفرداعضاء کے غذاپرعمل اورتصرف کانتیجہ خون واخلاط اور کیفیات ومزاج ہیں۔
۲۔جسم انسانی کی پرورش وصحت اور نشوونماخون سے ہوتی ہے۔حکماء اوراطباء نے اس خون کوچار اخلاط اور چارکیفیات سے مرکب کہاہے۔
اخلاط۔(ا)خون(۲)بلغم(۳)صفرا(۴)سودا۔کیفیات(۱)گرمی(۲)تری(۳)سردی(۴)خشکی۔
انہی چاروں اخلاط اور کیفیات اور کیفیات کے اعتدال پرجسم کی صحت اور طاقت قائم ہے اوریہی چاروں،انہی چاروں مفرداعضاء(Tissues) کی الگ الگ غذابنتے ہیں۔جن کوہمارے اعضاء تیارکرتے ہیں گویاخون کی مثال پانی کی ہے جوہرقسم کے درخت کواس کی ضرورت کے مطابق غذادیتاہے یامٹی کی ہے جوہرقسم کے درخت کوغذاپہنچاتی ہے۔ خون غذاسے تیارہوتاہے ادویات سے نہیں۔
۳۔ماڈرن میڈیکل سائنس نے خون کاتجزیہ کرکے اس میں چودہ پندرہ عناصر کوثابت کیاہے۔یہی عناصرہمارے عضوی (Organic)عناصرہیں اوریہ عناصرانہی مفرداعضا ء (Tissues)جوصرف چاراقسام کے ہیں کی غذابنتے ہیں۔
۴-ہم جوبھی غذاکھاتے ہیں وہ چاراقسام کے ارکان اورچارہی اقسام کی کیفیات سے مرکب ہوتی ہے۔وہ خون میں بھی چار ہی قسم کے اخلاط تیارکرتی ہےاور پانی ان سے جداہے۔یہی خون چاراقسام کے مفرداعضاءTissues))کی غذابنتاہے۔یادرہے کہ طب کایہ مسلمہ قانون ہے کہ خون غذاسے تیارہوتاہے۔ کوئی بھی دواخون کاجزونہیں ہے۔
5۔کسی مرض کا علاج کبھی بھی کامیابی سے نہیں ہوسکتابلکہ یقیناًموت واقع ہوجاتی ہے جب تک کہ خون کے اندر طاقت نہ ہو۔گویا خون ہی زندگی اور طاقت ہے اوراس سے صحت بھی حاصل ہوتی ہے۔
6۔خون کے اندرسے اس کے عناصرواجزاءء اوراخلاط وکیفیات اگر کم ہوجائیں توپھراس کی قوت مدافعت اورقوت مدبرہ بدن کمزورہوجاتی ہےجوصرف غذاہی سے اعضاءکے ذریعے پیداہوسکتی ہے۔کسی دواسے نہ خون کے اجزاءءاور عناصر بن سکتے ہیں اورنہ ہی قوت مدافعت اور قوت مدبرہ بدن ہی پیداہوسکتی ہےچاہے وہ دواتیز سے تیز اور کتنی ہی زہریلی کیوں نہ ہواور اس کو منہ کی بجائے انجکشن کے ذریعے بھی کیوں نہ دے دیاجائےکبھی صحت نہ ہوگی بلکہ یقینی موت واقع ہوگی۔ انسانی صحت وزندگی اور طاقت کارازغذامیں ہے۔ دوامیں نہیں۔دواکاکام صرف یہ ہے کہ وہ ہمارے جسم کے مفرداعضاءکے فعل کوتیزیا سست کرسکتی ہےاوربس۔ان حقائق سے ثابت ہوتاہے کہ زندگی وصحت اور طاقت کارازدواؤں میں نہیں بلکہ صرف غذامیں ہے۔یہ وہ دلائل اوار حقائق ہیں جن کو کوئی بھی جھٹلا سکتا۔کیونکہ یہ تمام حقائق بالکل فطری ہیں۔
مکمل اورکامیاب علاج کا راز
کسی تکلیف کایہ علاج نہیں ہے کہ اس تکلیف کورفع کردیاجائے۔یہ تکلیف کادبا دیناہے۔اصل علاج یہ ہے کہ اس کے اسباب کورفع کردیا جائے۔جس تکلیف کودبایاجارہاہےوہ تواس تکلیف کی علامت ہے اس کوہرگزدبانانہیں چاہئےبلکہ اس وجہ سے ہی اس مرض کاعلم ہوتاہےاگر اسے ہی دبادیاگیا تومرض اور اس کے اصل سبب کے رفع ہونےکاکیا ثبوت ہے؟لیکن اصل سبب رفع ہونے کے بعد اس کی علامت اورتکلیف خودبخودرفع ہوجائے گی۔اس سے ثابت ہوگاکہ واقعی مرض ختم ہوگیاہے۔
یادرکھیں کہ سبب واصلہ ہمیشہ کسی مفردعضوTissues))کی خرابی ہوگی اوراس کے افراط وتفریط اورتحلیل سے مرض نمودارہوتاہے۔اس میں مفردعضوکے فعل میں خرابی تو اصل مرض ہےاوراس مفردعضوکے عمل کی نوعیت افراط و تفریط اورتحلیل اس کی علامات ہیں۔یہی تینوں علامات کمی بیشی اور مختلف حالات کے ساتھ بے شمارعلامات بن جاتی ہیں۔اب ایک حقیقت باقی رہ گئی ہے۔وہ ہے اصل سبب جس نے سبب واصلہ پیداکیاہے۔یعنی کسی مفرد عضو کے فعل میں خرابی پیداکی ہے۔وہ دواسباب (1 )۔سبب بادیہ (2)۔سبب سابقہ۔ ان میں سے کوئی ایک ہوگا۔اوریہ سبب اس وقت کام کرے گاجب خون کے اندراپنی پوری کیفیت و مادی اثرات پیداکرے گا۔یہ جسم کی کیمیائی حالت ہےاورمفردعضوکی خرابی اس کی مشینی حالت۔اگر صرف اس مفردعضوکی مشینی حالت کی خرابی درست کردی جائےگی توعارضی اوروقتی علاج ہےاور اگرخون کی کیمیائی حالت درست کردی جائے تومرض بالکل ختم ہوجائے گا بس یہی مکمل اورکامیاب علاج کا راز ہے۔
اس مکمل اور کامیاب علاج کے رازپرغورکریں تویہ بھی علاج بالغزاپر ایک زبردست دلیل ہےکیونکہ جسم انسان کے خون کی کیمیائی حالت یعنی اس کی مصفی ومقوی اورمکمل صورت صرف غذاہی سے ہوسکتی ہےکسی دواسے نہیں ہوسکتی ۔اگرکوئی اس حقیقت کوغلط ثابت کردےتو ہم اس کا چیلنج قبول کرتے ہیں۔جو معالج بھی اس حقیقت پر غورکریں گے یقیناً زندگی میں کامیاب معالج ہوں گے۔یہ رازطب یونانی اورایورویدک کاپیش کردہ ہے کیونکہ ان کےعلاج اخلاط و کیفیات اور دوشوں اور پرکرتیوں پرقائم ہیں جوکیمیائی طریق علاج ہیں۔
ایلوپیتھی اورہومیوپیتھی علاماتی علاج ہیں
اس میں کوئی انکارنہیں ہےکہ فرنگی طب(ایلوپیتھی)میں ماہیت مرض اورحقیقت ِاسباب پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ مگرعلاج کی صورت میں عملی طورپرکوشش صرف یہ کی جاتی ہےکہ مریض کوصرف علامات تکلیف دے رہی ہیں ان کو رفع کردیا جائے۔مثلاً کہیں جسم میں سوزش وبخاریا کوئی بھی علامت ظاہرہوتواس کودورکرنے کی کوشش کی جاتی ہے چاہےاس کے رفع کرنے سے مریض کوکتنی ہی تکلیف ہویامرجائےیاہمیشہ کےلئے ناکارہ ہوجائےمگران کی کوشش یہی ہوتی ہےکہ وہ علامات دورہوجائیں اوراس پرفخرکیاجاتاہے۔ اوریہ سب کام مسکنات ومخدرات اور منشیات سے کیاجاتاہے۔تقریباً تمام ادویات نشہ آورہیں۔ اورہومیوپیتھی میں نہ امراض کانام ہے اورنہ ان کےاسباب کاذکرہے اور نہ ہی علم الغزاکی حقیقت پربحث ہے۔ صرف علامات ہی علامات ہیں اورانہیں ہی رفع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ صرف خواص الادویہ کاایک خاص طریقہ علاج ہےاس لئے اس سے مکمل اورکامیاب علاج نہیں ہو سکتا۔
علم الامراض اور علامات
علم الامراض دراصل علم وفن طب کی جان ہے۔جب تک علم الامراض پرپورا پورا عبورحاصل نہ ہواس وقت تک کوئی انسان پورے طور پرمعالج کہلانے کامستحق نہیں ہوسکتا اورنہ ہی صحت کی پوری حفاظت کرسکتاہے۔اس لئے یہ امرذہن نشین کرلیں کہ اس علم کے بغیرہم کسی مرض کاپوری طرح علاج نہیں کرسکتے۔مثلاً ایک مریض کسی معمولی مرض کی شکایت کرتاہے جیسے بدہضمی۔ظاہرمیں یہ معمولی تکلیف ہے لیکن اہل فن جانتے ہیں کہ اس تکلیف کاتعلق پورے نظام اغذیہ سے ہے جومنہ سے لے کرمقعدتک پھیلاہواہے۔اس میں منہ ودانت،معدہ وامعاء، جگر و طحال اور لبلبہ شریک ہیں اور ان کے علاوہ دیگر نظام ہائے جسم کابھی ان پراثرہےجیسے نظام ہوائیہ،نظام دمویہ،نظام بولیہ۔یہ تمام مرکب نظام ہیں جو جسم کے مفرداعضاء کے نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔1)۔نظام عصبی(2)۔نظام عضلاتی ۔ (3)۔نظام غدی۔ان مفرداعضاءکی تدوین بے شمارمختلف حیوانی ذرات، خلیات(Tissues)سے عمل میں آئی ہے۔جب تک نظام ہضم کی صحیح خرابی کامقام وسبب اوردیگراعضاء کا تعلق سامنے نہ آجائے اس وقت تک اس معمولی بدہضمی کاصحیح معنوں میں علاج نہیں ہوسکتاصرف ہاضم ومقوی معدہ اور ملین ومسہل ادویات کا استعمال کردینا علاج نہیں کہلاسکتا اور ایساکرناعطیانہ علاج ہوگاچاہے پیٹنٹ Patent))ادویات اورانجکشنوں سے کیوں نہ کھیلاجائے یہ مریضوں پرظلم ِعظیم اور فن علاج کی بدنامی ہے۔
علم الامراض کی حقیقت کوذہن نشین کرنے سے قبل انسان کوعلم تشریح الابدان،علم افعال الاعضاءاور علم افعال نظام ہائےجسم کاپوری طرح علم ہونا چاہئے۔یعنی صحت کی حالت میں اعضاء کی صورت اورمقام اوران کے صحیح افعال اور نظام ہائےجسم کے حقیقی اعمال کی مکمل کیفیت کیسی ہوتی ہے اس کےبعدجسم انسان کے جس حصہ میں کسی قسم کی کوئی خرابی واقع ہوجائے گی توفوراًاس کے بارے مرض کی پوری حقیقت ذہن نشین ہوجائے گی۔
علم الامراض کی تعریف
یہ ایک ایساعلم ہےجس سے ہرمرض کی ماہیت اورحقیقت اس طرح ذہن نشین ہوجاتی ہے کہ مرض کی ابتدااس کی شکل وصورت ،جسم کی تبدیلیاں، خون میں تغیرات،خراب مادوں کی پیدائش اور ان کے نظام کاپورانقشہ سامنے آجاتاہے۔اس کوانگلش میں پتھالوجیPathology))کہتے ہیں۔
حقیقت ِ مرض
مرض بدن کی اس حالت کانام ہے جب اعضائے بدن اورمجاری(راستے)اپنے افعال صحیح طورپرانجام نہ دے رہے ہوں۔یہ صورت جسم کے تمام اعضاء اور مجاری یاکسی ایک عضواور مجرامیں واقع ہوجائےمرض کہلاتاہے۔ گوہر حالت میں مرض کی دو صورتیں سامنے آئیں گی۔اول عضو کے فعل میں خرابی ہونااوردوسرے خون میں تغیرپیدا ہوجانا۔اول صورت کانام مشینی(Mechanically)خرابی اور دوسری صورت کانام کیمیائی(Chemically) نقص ہو گا ۔
مشینی افعال
مشینی افعال کی تشخیص کےلئےاول نظام ہائے جسم پرمرکب اعضاء اورآخر میں مفرداعضاء پرغورکرنے کے بعد ان کے افعال کی کمی بیشی کومدنظر رکھنا چاہئے ۔
کیمیائی افعال
کیمیائی اثرات کےلئے کیفیات واخلاط کے ساتھ ساتھ ان کےاجزاءئے حرارت وہوااور رطوبت کی کمی بیشی اور تغیرات کاجاننا ضروری ہے تاکہ مشینی افعال کے ساتھ کیمیائی اثرات کے توازن کااندازہ ہو۔
علامت کی حقیقت
علامت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ وہ مرض کی دلیل بن سکے یعنی علامات مرض کی طرف رہنمائی کرسکیں۔گویا مرض اورعلامات دومختلف حقیقتیں ہیں۔ علاج میں کامیابی کاراز یہ ہے کہ علاج مرض کاکیاجائے اور علامت کوکبھی مرض قرار نہ دیاجائے۔
اگرشیخ الرئیس کی تعریف ِمرض کوسامنے رکھاجائےتوعلامت اس پرصحیح صادق آتی ہے یعنی جسم انسان کےجومجریٰ اپنے افعال صحیح طورپرانجام نہیں دے رہے ہیں۔ان سے جسم انسان کی طرف جوصورتیں دلالت کرتی ہیں بس وہی علامات ہیں مثلاً نزلہ ہے جوبذاتِ خود ایک بڑی علامت ہے۔آنکھ،ناک،حلق کی سوزش ،دردسراوردردگلو،سردی یاگرمی اورتری یاخشکی کااحساس،قبض یااسہال،ہاضمہ کی خرابی یابھوک اورپیاس کی شدت،بدن کابہت زیادہ سردیا گرم ہونایابخارہوجانا،شدیدصورتوں میں ناک اورحلق کے اندرسوجن یا نکسیرکاآنا،پیشاب کی کمی یا زیادتی کاپیدا ہونا وغیرہ وغیرہ یہ سب علامتیں ہیں ان کوعلامتیں ہی رہناچاہئے۔کبھی بھی مرض کامقام نہیں دیناچاہئےاگریہی علامات تمام اس عضوکے ساتھ مخصوص کردی جائیں جس کے افعال میں یہ خرابی پیداہوئی ہیں توتشخیص مرض اورعلاج میں تمام خرابیاں دورہوجاتی ہیں اس کے ساتھ تشخیص آسان اورعلاج سہل ہوجاتاہے۔
امراض اور علامات کافرق
اس وقت دنیا میں جس قدرطریق ہائے علاج ہیں جن میں ایورویدک،طب یونانی،ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی شامل ہیں سب میں مرض اورعلامت کاصحیح فرق پیش نہیں کیاگیا۔ان سب میں اگرایک موقع پرایک حالت کومرض کہہ دیا ہے تودوسرے موقعہ پراس کوعلامت بنادیاہےمثلاًمطلق دردیادرد سریاکسی اورجسم کے درد کوایک وقت میں مرض کاعنوان دے دیاہے اوردوسری جگہ کسی مرض میں اسی درد کوکسی کی علامت قرار دے دیا ہے۔ طالب علم جب اس صورت کودیکھتاہے تو پریشان ہوجاتاہےکہ اس کومرض قراردے یا علامت کی صورت میں جگہ دے۔یہیں پربس نہیں بعض اوقات تو سر سے پاؤں تک مختلف اعضاءکے تحت مختلف صورتوں اورمختلف کیفیات میں یہی دردکبھی مرض اورکبھی علامت بناکرپیش کیاجاتا ہے۔پھرہردردکی ماہیت جدا،اصول علاج الگ اورعلاج کی صورتیں علیحدہ بیان کردی جاتی ہیں مثلاًسوزش وورم اوربخاروضعف میں پائی جاتی ہیں۔پھران کی اقسام میں جوکمی بیشی یامقام کے بدلنے سےپیداہوتے ہیں،اسی طرح ان کے فرق حادومزمن اور شرکی وغیرہ شرکی کے تحت بھی بیان کئے جاتے ہیں پھران کے ساتھ ہی علاج وادویات اوراغذیہ بد ل کرایک پریشانی پیداکردی جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہےکہ علامت ہرجگہ علامت ہےجومرض کی رہنمائی کرتی ہے اور مرض مفرداعضاء کی خرابی کانام ہے۔
ہماری تحقیقات کانتیجہ
ہماری تحقیقات سے اول یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ امراض و علامات صرف انسانی جسم کی دومختلف صورتیں ہیں۔ علاج صرف امراض کاکرنا چاہئے علامات کانہیں کیونکہ امراض کے ختم ہونے کے بعد تمام علامات خودبخودرفع ہوجاتی ہیں۔دوسرے امراض خون میں خرابی (کیمیائی تغیرات)سے پیداہوتے ہیں اور خون غذاسے پیداہوتاہے ۔ خون میں جو خرابی ہوگی وہ غذاکی کمی بیشی کانتیجہ ہے۔ تیسرے کسی قسم کی دوایازہرجسم یاخون کاجزنہیں ہے۔تمام جسم صرف خون سے بنتاہے اورخون صرف غذاسے بنتاہے دوا اورزہراعضائے جسم میں داخل ہونے کے بعداپنے اثرات سے صرف اعضاء میں کمی بیشی اورتحلیل ایک عرصہ تک قائم رکھنے کے بعد جسم سے خارج ہوجاتے ہیں اوراپنی شدت سےموت کاباعث بن جاتے ہیں۔ چوتھے اغذیہ ادویہ اور زہرتینوں صرف مفرداعضاء پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن خون کی تکمیل صرف غذاسے ہوتی ہےاوراس کادائمی اثر (کیمیائی)اعضاء کے افعال پرقائم رہتاہے۔پانچواں مستقل اورمکمل علاج صرف غذاسے ہوسکتاہے۔دوااورزہرسے صرف عارضی علاج ہوتاہے۔چھٹے دوااورزہرکے علاج سے صرف خون کی کمی بیشی اورخرابی وکمزوری پوری نہیں ہوسکتی اس لئے اس سے عارضی علاج ہوتاہے۔ ساتواں جسم میں جہاں کہیں مرض ہوتاہےوہاں کے اعضاء اپنی ضرورت کےلئےغذاکوطلب کرتے ہیں جوغذاہی سے پوری ہوتی ہے دواسے نہیں ہوسکتی۔
خواص الاغذیہ بہ نظریہ مفرداعضاء
تمام امراض چونکہ مفرداعضاءکی خرابی(کمی بیشی اورتحیل)سے پیداہوتے ہیں جیسا کہ گذشتہ تحقیقات سے ثابت ہو چکاہے۔اس لئے ہرقسم کی اغذیہ بلکہ دویہ اور زہروں وغیرہ کے اثرات بھی صرف انہی مفرداعضاء پرعمل میں آتے ہیں۔اغذیہ توہضم ہوکرخون بن جاتی ہیں لیکن ادویہ اورزہرتواپنے اثرات کے بعدخارج ہوتے یااپنی شدت سے موت کاباعث بن جاتے ہیں۔انسجہ یعنی مفرداعضاء چونکہ چاراقسام کے ثابت ہوچکے ہیں اس لئے اغذیہ بلکہ ادویہ اورزہربھی اپنے اندرصرف چاراقسام کے اثرات رکھتے ہیں جوانہی انسجہ(مفرداعضاء)پراثرانداز ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چارانسجہ کے علاوہ کوئی نسیج ہی نہیں ہے۔ غذاودوا اورزہرکس پراثرکرسکتےہیں۔ایورویدک نے تین دوش وات، پت،کف اورچوتھے رکت(خون)کوتسلیم کیاہےاورطب یونانی نے چاراخلاط خون،بلغم، صفرا اور سوداتسلیم کئے ہیں۔گویا ایورویدک اورطب یونانی بھی ہرغذاودوا اورزہر کے ماڈرن سائنس کی طرح چارہی قسم کے خواص اوراثرات تسلیم کرتی ہیں جن سے ان چارقسم کے انسجہ(مفرداعضاء)کی غذابنتی ہے۔
جیساکہ ہم اپنے رسائل میں انسجہ اوراخلاط کی تخلیق میں ثابت کرچکے ہیں اورماڈرن سائنس نے خون کے اندر جو پندرہ سولہ اجزاءء پیش کئے ہیں وہ بھی انہی چارانسجہ کی غذابنتے ہیں۔اگرغورسے دیکھاجائے تو ایورویدک کے دوش و رکت اوراخلاط بھی انہی خون کے اثرات سے مرکب ہیں۔ان حقائق سے ثابت ہواکہ ایورویدک اور طب یونانی کی تحقیقات ماڈرن سائنس اور فرنگی طب سے کہیں زیادہ صحیح اور کامیاب ہے۔
اشیاء کے اثرات اور جسم انسان
اغذیہ واشیاء اورادویہ وزہرکے اثرات صدیوں سے جسم انسان پرمعلوم کئے جارہے ہیں اورہزاروں اشیاء کے اثرات اس وقت ہمیں معلوم ہو چکے ہیں جوروزانہ اغذیہ اور ادویات کی صورت میں استعمال ہورہی ہیں اور بہت حدتک یقین کے ساتھ ہورہی ہیں اور یہ سب کچھ تجربہ ومشاہدہ اور تحقیقات کے کمالات ہیں لیکن حیرت اس بات پرہےکہ جب بھی ان اغذیہ اور اشیاء وادویہ اور زہروں پر تجربات ومشاہدات کئے جاتے ہیں ان میں نئے نئے اسرارورموزسامنے آتے رہتے ہیں۔
اشیاء کے اثرات و حقیقت
ایورویدک اور طب یونانی کے عملی دورسے قبل امراض صرف علامات تک محدودتھےجب کسی کوکوئی تکلیف ہوتی تھی تو مذہبی پیشوااپنے تجربات ومشاہدات یا معلومات اورخوابوں کے ذریعے جوعلم رکھتے تھے لوگوں کوان کی تکالیف اورخراب علامات کورفع کرنے کےلئے اغذیہ وادویہ یا کوئی شے یاکوئی عمل بتا دیا کرتے تھے۔صدیوں تک یہ سلسلہ جاری رہااوراکثرادویہ واغذیہ اوراشیاء کے خواص تحریر میں آگئے تاکہ ضرورت کے وقت ان سے کام لیاجاسکےلیکن ایسے علاج صرف ادویات کےاستعمال تک محدودتھے ان میں علاج کے اصول ونظریات اورقانون وفلسفہ کودخل نہیں ہواکرتاتھابلکہ ان کوجادوٹونہ اور تعویذ گنڈے کے طورپراستعمال کیاجاتاتھا آج کل بھی اس قسم کےعطایانہ علاج اکثردیکھے جاتے ہیں
جب ایورویدک اورطب یونانی کے دورشروع ہوئے تواغذیہ وادویہ اوراشیاء کوتکلیف اورخراب علامات کے رفع کرنے کی بجائے بالواسطہ دوشوں اوراخلاط وکیفیات کے تحت استعمال کرناشروع کردیا۔البتہ ان میں ادویات کے بالخاصہ اثرات کوکسی نہ کسی تکلیف اورخراب علامات کےلئے مخصوص کردیاگیااوراس طرح یہ سلسہ بھی صدیوں چلتا رہا۔ اسلامی دورمیں تحقیقات خواص اغذیہ وادویہ اوراشیاء وزہروں کوکیفیات واخلاط کے ساتھ ساتھ اعضاءکے افعال واثرات کوبھی مدنظررکھاگیا۔البتہ بالخاصہ فوائدکوبھی ضرور مدنظررکھاگیاکیونکہ ان کی نوعیتی صورت کے تحت یہ فوائد بھی ضروری سمجھے گئے یہ سلسلہ بھی کئی سوسالوں تک جاری رہا اس کے بعداسلامی دور تحقیقات پرہی فرنگی طب کی بنیادرکھی گئی کچھ عرصہ تویہ سلسلہ جاری رہالیکن جلدہی اس کی تحقیقات کے موڑبدل گئےاوراغذیہ اشیاء اور ادویہ وزہروں کے افعال واثرات کواعضاء کے ساتھ مخصوص کرنے کی بجائےجراثیم کی طرف بدل دیاگیا اورپھر ہر تکلیف اورعلامت کےلئے جراثیم تلاش کئے گئے جس تکلیف وعلامت کے جراثیم نہ معلوم ہوسکے ان کومخصوص یا عمومی قسم کی کمزوری کہہ دیاگیااگران کے اثرات وافعال بالاعضاء لئے گئے توان کا تعلق مرکب اعضاء تک رہایاکسی نہ کسی تکلیف اورعلامت کے ساتھ مخصوص کردئیے گئے۔اس طرح فرنگی میڈیکل سائنس کارخ بالکل بدل دیااور جو تحقیقات اسلامی دور میں کمال تک پہنچی تھی وہ فرنگی دورمیں ختم ہوگئیں اور یہ انتہائی گہری سازش تھی جوبڑی آسانی پایہ تکمیل تک پہنچ گئی۔جس کے ساتھ فرنگی طب کی نشووارتقاء کی گئی اور اب صرف پیٹنٹ ادویات میں ڈوب کرفنا ہوگئی ہےجہاں سے اس کانکلنا بہت مشکل ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ماڈرن میڈیکل سائنس نے تشریح الابدان Anatomy))میں اس قدرتحقیقات کی ہیں کہ اس کو انسجہ وخلیات(Tissues)تک پہنچادیامگراغذیہ وادویہ اور زہروں کے اثرات وافعال کی بنیادان انسجہ،ٹشوز(مفرداعضاء)پرنہ رکھی اورعلم وفن طب اپنے کمال کونہ پہنچ سکا۔
خدائے واحداورخالق قدرت وفطرت نے یہ عزت وکامیابی ہمارے نام لکھ دی تھی اور امراض وعلامات کی تحقیقات کاکام ہم سے پوراکراناتھا یعنی امراض کے بنیادی اعضاء و مفرداعضاء اور انسجہ پر ہم سے تحقیقات مکمل کرانی تھی۔ سو ہم نے تحقیقات سے ثابت کردیاہے امراض مفرداعضاء (انسجہ)کی خرابی(کمی بیشی اورتحلیل)کانام ہے۔باقی ہر قسم کی تکلیف علامات ہیں۔علاج میں امراض کو مدنظررکھناچاہئےدیگر الفاظ میں مفرداعضاء (انسجہ)کے افعال کو درست کرناچاہئےکیونکہ اغذیہ اشیاء اورادویہ اورزہروں کااثرانہی پرہوتاہے اور انہی کی درستگی سے صالح خون پیداہوتاہے جوحقیقی شفاہے۔
اشیاء کی تین اقسام
قدرت نے اپنی فطرت کی تکمیل کےلئےدنیابھرکی اشیاءکوصرف تین اقسام میں تقسیم کر دیاہےتاکہ ان کے افعال واثرات کوسمجھنے میں آسانی اور سہولت رہے۔اول جمادات،دوئم نباتات،سوئم حیوانات جن کو موالید ِثلاثہ کانام دیا گیاہے۔جمادات کائنات وزندگی کی ابتدائی صورت ہے جس کی نشووارتقاء سے نباتات کی صورت پیداکی ہے۔ جمادات اور نباتات میں نمایاں فرق ہے۔جمادات میں مٹی،پتھرسے لے کرنمک اورگندھک اور ہرقسم کی دھاتیں اورپارہ تک پائے جاتے ہیں۔اگرچہ مٹی کاتیلاورپتھرکا ست (سلاجیت)بھی قدرت نے پیداکئے ہیں لیکن نباتات میں جوفولادوچونااورنمکیات وگندھک،تیل وشکر،پھلوں کے رس اورمیوہ جات کےروغن پیداکردئیے ہیں وہ جمادات میں بالکل نہیں پائے جاتے پھراسی نباتات کوحیوانات کی خوراک بنادیاہےلیکن حیوانات میں جو خوبیاں قدرت نے پیداکی ہیں وہ فطرت کی نشووارتقاء میں کمال درجہ رکھتی ہیں۔ حیوانات میں گوشت وچربی اوردودھ اورگھی کے خزانے اورندیاں بہا دی ہیں۔یہ چیزیں نباتات میں ناپیدہیں اور ان کے ساتھ ہی حیوانی چونا،حیوانی فولاد،گندھک،حیوانی نمکیات اورحیوانی رطوبات،دودھ اور شہدکے اپنے نشووارتقاءکادرجہ انتہائی کمال پہلو ہے۔
موالید ثلاثہ کااستعمال
جہاں تک موالید ِ ثلاثہ(جمادات،نباتات اورحیوانات)استعمال کرنے کاتعلق ہےاورمیں سےجمادات میں صرف کھانے کانمک بطورغذااستعمال ہوتاہے اورباقی تمام جمادات ان میں پتھروجواہرات ہوں یالوہایاسونااورسمیات وپارہ تمام ادویات میں استعمال ہوتے ہیں،نباتات میں اغذیہ بھی ہیں اورادویہ بھی شامل ہیں۔اغذیہ میں اناج وسبزیاں، پھل اور میوے،تیل وشکرسب ہمارے روزانہ کھانے پینے میں شامل ہیں۔ادویہ میں زہریلی اور غیرزہریلی جڑی بوٹیاں۔ان کے پھول وپھل اور ان کے پتے اورشاخیں سب شریک ہیں جن کےمتعلق پوری تمیزاورپہچان کتب میں لکھ دی گئی ہے۔اسی طرح حیوانات میں جن حیوانات کے جسم میں زہراورتعفن نہیں ہے ان کاگوشت چربی اوردودھ وگھی انسانی غذامیں استعمال ہوتاہے۔جہاں تک ان اشیاء کے جزوِبدن ہونے کاتعلق ہےجمادات توجزوِبدن ہوتے ہیں۔نباتات بہت کم جزوِبدن ہوتے ہیںاوراور زیادہ مقدارمیں جسم سے خارج ہوجاتے ہیں لیکن حیوانات جوقابلِ غذاہیں زیادہ تر جزوبدن ہوتے ہیںاور بہت کم ان کا فضلہ خارج ہوتاہے۔جولوگ گوشت وچربی بہت کم استعمال کرتے ہیں ان کی غذا میں حیوانی دودھ وگھی اورشہدہوتاہے۔اورجوگوشت وچربی کھاتے ہیں وہ پرندوں کے انڈے اورمچھلی بھی کھاتے ہیں اوریہ اشیاءبھی گوشت میں شامل ہیں۔دنیامیں غذاکے طورپرجوشے سب سے زیادہ کھائی جاتی ہے وہ کسی نہ کسی شکل میں گوشت ہوتاہے۔دوسرے درجہ پر دودھ ہے اور تیسرے درجہ میں پھل اورمیوہ جات ہیں اورآخری درجہ میں اناج ہیں۔گوشت اوردودھ کے زیادہ استعمال سے ثابت ہوتاہے کہ اجزاءئے لحمیہ جودونوں میں پائے جاتے ہیں انسانی غذاکاسب سے نہ صرف بڑاجزوہیں بلکہ ضروری جزاوربے حد مفید ہیں۔بچہ کی پرورش دوسالوں تک دودھ پرہوتی ہے اور پھرتمام عمردودھ یااس کے مختلف اجزاء مکھن وگھی،دہی وپنیروغیرہ کسی نہ کسی رنگ میں روزانہ کھاتاپیتارہتاہے۔جب یہ دونوں اشیاءمیسرنہ ہوں توغذاکاتوازن بگڑجاتاہےاورانسانی صحت بگڑنااورگرناشروع ہو جاتی ہے۔گوشت اوردودھ کے اجزاءکی ضرورت پھلوں اوراناجوں سے ہرگزپوری نہیں ہوتی۔ اگرچہ ان میں اجزاءئے لحمیہ کسی نہ کسی حدتک موجودہوتے ہیں لیکن نباتاتی اجزاءئے لحمیہ حیوانی اجزاءئے لحمیہ کا مقابلہ کسی صورت میں نہیں کرسکتے۔یہی فرق تیل وگھی اوربناسپتی گھی اوراصل گھی کاہوتاہے۔
ماڈرن سائنس کی غذاکے متعلق تحقیقات
فرنگی طب نے اغذیہ کاتجزیہ کرکے ثابت کیاہے کہ انسانی غذامیں کم ازکم ان چار اجزاءکاہوناضروری ہے۔ 1)۔اجزاءئے لحمیہProtein)) ۔ 2۔ اجزاءئے روغنیہ( Fates )۔3۔اجزاءئے شکریہ ونشاستہ (Carbohydrates)۔4۔ نمکیات(Salts) اوران کے ساتھ پانچویں شے پانی شریک ہے اوراس نے ثابت کیا ہےکہ گوشت وانڈہ اوردودھ میں کم وبیش یہ پانچوں اجزاء پائے جاتے ہیں۔اگرچہ یہ اجزاء اناجوں، سبزیوں،پھلوں اورمیوہ جات میں پائے جاتے ہیںلیکن ہر ایک میں تمام اجزاء شریک نہیں ہوتے اس لئے اس کو مکمل غذانہیں کہا جا سکتااور جب تک غذاکے مکمل اجزاء جسمِ انسان میں داخل نہ ہوں اس وقت تک نہ ہی مکمل اورصالح خون بنتاہے اور نہ ہی صحت قائم رہ سکتی ہے۔اس لئے صحت وطاقت اور زندگی کےلئےغذاکاصحیح توازن بے حد ضروری ہے۔ان تحقیقات سے یہ ثابت ہوتاہے کہ گوشت اور دودھ(Protein)اجزاءئے لحمیہ کوغذا میں اولین اہمیت حاصل ہے۔
اشیاء کے صرف تین اثرات
خداوندِکریم نے دنیا میں جس قدر اشیاء پیداکی ہیں ان کاشمارناممکن ہےلیکن حکماء نے ان کوموالیدثلاثہ جمادات ونباتات اور حیوانات تین اقسام میں تقسیم کردیاہے اوران کانمایاں فرق حکماء اورعقلمندوں کے سامنے ہے جس سے ان کےافعال واثرات اورخواص وفوائد حاصل کرنے میں نہ صرف سہولتیں ہوتی ہیں بلکہ ا ن کے استعمال میں آسانیاں پیداہوگئی ہیں۔
موالیدثلاثہ کی تقسیم کی طرح ہم نے بھی دنیاکی بے شماراشیاء کے فوائدوخواص کوجاننے کےلئے انہیں مفرداعضاء (انسجہ)کے تحت صرف تین اثرات میں تقسیم کردیاہے تاکہ ان کے افعال واثرات کوسمجھنے میں مشکلات پیدانہ ہوں اورانہی تین اثرات وافعال کوضرورت کے مطابق آئندہ پھیلایاجاسکتاہے اس طرح علاج میں کسی قسم کی غلطی کا امکان بہت کم ہوتاہے اورعوام بھی سہولت سے ہرشے کویقین سے استعمال کرکے مستفید ہوسکتے ہیں۔جاننا چاہئے کہ دنیا بھر میں موالید ثلاثہ کی شکل میں جس قدر اشیاء پائی جاتی ہیں وہ اپنے اندرصرف تین اثرات رکھتی ہیں۔ خالقِ مطلق نے چوتھا اثرپیداہی نہیں کیا۔البتہ انہی تین اثرات کوخلط ملط کرنے سے سینکڑوں اورہزاروں رنگ بنائے جاسکتے ہیں۔وہ تین اثرات کھار،ترشی اورنمک ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ نمک بھی کھاراورترشی کامرکب ہے۔
دنیا بھر کی کسی شے کواستعمال کریں اس کے اثرات وافعال میں کھاری پن ہوگایاترشی کی کیفیت یانمکین حالت پائی جائے گی۔جب ہم ان تینوں چیزوں کوبارباراستعمال کرتے اور تجربہ ومشاہدہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں تو پتہ چلتاہےکہ کھارکے استعمال سے جسم میں رطوبت اورٹھنڈک بڑھ جاتی ہےاوران کااخراج بھی زیادہ ہوتاہے۔ترشی کے استعمال سے جسم میں خشکی اورجوش بڑھ جاتے ہیں اورریاح کے اثرات نمایاں ہوجاتے ہیں۔اسی طرح نمک کے استعمال سے جسم میں حرارت اور تیزی زیادہ ہوجاتی ہے اور جسم میں نرمی پیداہوجاتی ہے۔
کھاروترشی اور نمک کے اثرات بالمفرداعضاء
1۔کھاری اشیاء جوجسم میں رطوبات وتری اور بلغم پیداکرتی ہیں۔ان کا اثرنسیج اعصابی پر ہوتاہے۔جس کامرکزدماغ ہے اور اس میں قارورہ مقدار میں زیادہ اوراس کارنگ سفیدیامائل نیلاہٹ ہوتاہے۔
2۔ترش اشیاء جوجسم میں خشکی اورجوش اور ریاح پیداکرتی ہیں ان کااثرنسیج عضلاتی پر ہوتاہے جس کامرکزدل ہے اس میں قارورہ مقدارمیں کم اوراس کارنگ سرخ یامائل زردی ہوتاہے۔
3۔نمکین اشیاء جوجسم میں حرارت وتیزی اورصفراء پیداکرتی ہیں ان کااثرنسیج قشری پر ہوتاہےجس کامرکز جگرہے اس میں قارورہ کارنگ زردیا زردسفیدی مائل ہوتاہے۔تین ہی حیاتی اعضاء ہیں اور یہی اعضائے رئیسہ ہیں۔ چوتھا مفردعضونسیج المعانی بنیادی عضو میں شریک ہے اس کوغذاحیاتی اعضاء سے ملتی ہے۔
مفرداعضاء کے تحت ذائقے
ہرمفردعضو(Tissue)کےلئےدودوذائقے ہیں۔اعصاب کے تحت ایک شیریں دوسرا کسیلا۔عضلات کے تحت ایک ترش دوسراتلخ۔غدد کے تحت ایک چرپرااور دوسرا نمکین۔گویا کل چھ ذائقے اورمزے ہیں۔ان کوایورویدک میں رس اورانگلش میں(Taste) ہتے ہیں۔دنیابھر کی کوئی غذادوا اورزہرایسا نہیں ہے جوان چھ ذائقوں اور مزوں سے باہرہو۔بس یہی تین افعال واثرات اورچھ ذائقے اور مزے خواص وفوائد غذائی علاج کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔
ضرورت غذا
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ انسان کی زندگی وقوت اور صحت کادارو مدارصرف کھانےپینے اورہواپرہے اور ان میں غذاکوبھی زبردست اہمیت حاصل ہے۔کیونکہ انسان بغیرغذاکے ہوا اورپانی پرکچھ عرصہ زندہ رہ سکتاہے لیکن بغیزغذااس کی طاقت روزبروز گھٹتی جاتی ہے اور صحت بگڑنا شروع ہوجاتی ہے۔یہاں تک کہ وہ انتہائی کمزور ہوکر مرجاتاہے۔اس سے ثابت ہواہے کہ زندگی کے ساتھ ساتھ صحت اورطاقت کاراز غذامیں پوشیدہ ہے کیونکہ اس غذا سے جوطاقت پیداہوتی ہےوہ اس قوت کابدل بنتی ہےجوروزانہ انسانی جسم اپنے احساسات وحرکات اور ہضم غذا پر خرچ کرتاہے۔گویا غذاکاسب سے بڑا کام بدل مایتحلل کوپوراکرناہے۔بعض لوگوں میں کثرتِ محنت کی وجہ سے زیادہ قوت خرچ ہوتی ہے اوران میں زیادہ تحلیل واقع ہوتی ہے۔ان میں بھی بعض دماغی محنت کرتے ہیں جس سے ان کے اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں جن کاتعلق دماغ سے ہے۔اور بعض محنت توکسی قسم کی نہیں کرتےمگرکثرتِ خوراک کے عادی ہوتے ہیں ان کے گردے اورغددکمزور ہوجاتے ہیں جن کاتعلق جگرسے ہوتاہےکیونکہ کثرتِ خوراک سے ان کے جگراورغددکوبہت محنت کرناپڑتی ہےاس لئے جس قسم کی جسم انسان محنت کرناپڑتی ہےاسی قسم کی کمزوری پیداہوجاتی ہے۔آخرکار انسان مرجاتاہے۔
اسی طر ح ہرعمر میں مختلف قسم کی غذاکی ضرورت ہوتی ہے۔اگر اس عمرمیں ویسی غذامیسرنہ ہوتوکمزوری واقع ہوکر صحت بگڑناشروع ہوجاتی ہے۔ مثلاً بچپن میں جب اس کےلئے نشوو ارتقاء کی ضرورت ہوتی ہے یہ زمانہ پیدائش سے اکیس تاپچیس سالوں تک ہوتا ہے۔بچوں کامزاج اعصابی ہوتاہے اس میں تری زیادہ ہوتی ہےجو اس کی گرمی پر غالب رہتی ہے۔یعنی ترگرم(اعصابی غدی)ہوتاہے۔جوانوں کا مزاج غدی ہوتاہے۔اس میں گرمی اورتری برابر ہوتی ہےیعنی گرم تر(غدی اعصابی)ہوتاہے۔بوڑھوں کامزاج عضلاتی ہوتاہےان میں خشکی غالب رہتی ہےیعنی خشک گرم(غدی عضلاتی)ہوتاہے۔جب بھی ان کے مزاجوں کے مطابق غذانہیں ملتی تو ان میں کمزوری پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے جس سے اس کے اندر امراض پیداہوجاتے ہیں۔جب غذا کے مطابق میسرآجاتی ہے تومرض رفع ہوجاتاہے اسی طرح آب وہوا نفسیاتی وکیفیاتی اثرات کے تحت بھی غذامیں کمی بیشی ہوکرضعف اور مرض پیداہو جاتا ہے۔
جاننا چاہئے کہ جب بھی کسی قسم کی محنت کی جاتی ہے تو اس کا اثرخون کے ساتھ جسم انسان کے ان مفرداعضاء (انسجہ) پرپڑتاہے جن سے جسم انسانی مرکب ہےاسی محنت سے ایک طرف جسم میں خون اور اس کی طاقت خرچ ہوتی ہے اور دوسری جسم کے خلیات ، سیلزCells))میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے۔جن سے مفرداعضاء (انسجہ)بنتے ہیں۔یہ ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ خون حرارت ورطوبت اورریاح سے مرکب ہے۔ان کاپوراپوراامتزاج ہی اس کی صحیح معنوں میں طاقت ہے۔اسی طرح ہمارےمفردحیاتی اعضاء(انسجہ)بھی تین قسم کے ہیں۔اعصابی،عضلاتی اور غدی۔ان کے بھی صحیح معنوں میں افعال ہی ان کی قوت ہیں۔یہ بھی ہم واضح کرچکے ہیں کہ اعصاب کاتعلق رطوبت اوربلغم سے ہے۔غددکاتعلق حرارت اورصفراء سے ہے۔عضلات کاتعلق ریاح اورخون سے ہے۔اس لئے خون کی کمی اور کمزوری اور خلیات کی ٹوٹ پھوٹ کےلئے ہمیں متوازن خوراک کی ضرورت ہے۔اگرکوئی مرض پیداہوجائے تو اس کےلئے مناسب غذاکی ضرورت ہے ۔یہ بات ہم واضح کرچکے ہیں کہ خون صرف غذاسے بنتاہے دواسے نہیں بنتا۔ اسی طرح مفرداعضاء (انسجہ) خون سے بنتے ہیں۔البتہ دوااور زہران کے افعال میں کمی بیشی اورتحلیل ضرورکرسکتے ہیں۔اس لئے زندگی وقوت اورصحت کادارومدارصرف غذاپرہے۔
جسم انسان کوکیسی غذاکی ضرورت ہے
انسان اشرف المخلوقات ہےفلسفہ ارتقاء کے تحت انسان کا مقام حیوان سے اعلیٰ وافضل ہے۔اس لئے انسان کی غذا حیوانات پرہے۔اس پردلیل یہ ہے کہ بچے کی پہلی غذاماں کادودھ ہے جوحیوانی غذاہےجب انسان بڑاہوتاہےتواس کی غذاحیوانی گوشت ہوتا ہےجس میں انڈے اور مچھلی بھی شریک ہے۔اس حیوانی غذامیں انسانی زندگی وقوت اور صحت کوقائم رکھنے کےلئےسب اجزاء ہوتے ہیں لیکن جب انسان کوحیوانی غذامیسرنہ رہی یاوہ قلیل ہوگئی توپیٹ بھرنے کےلئے انسان نے پھلوں اور میوہ جات کا استعمال شروع کردیا۔ان میں ایک طرف پیٹ کےلئے تسکین تھی اور دوسری طرف ان میں غذاہضم کرنے کی بھی قوت تھی کیونکہ پھلوں اور میوہ جات میں غذاؤں کے کم وبیش اجزاء کے ساتھ نمکیات کی کثرت ہوتی ہے جوخون کےلئے ضروری ہیں۔
جب دنیا میں تہذیب پھیلی اور ہرطرف تمدن کا دور دورہ ہواتوحیوانی غذاؤں اورپھلوں ومیوہ جات پرقوت ودولت اورحسن کاقبضہ ہوگیاتوکمزوراورغریب عوام کےلئے غذا کاحصول مشکل ہوگیااورانہوں نے اصل غذاکی بجائےاناج اورسبزیوں سے زندگی اورقوت وصحت کےلئے پیٹ پُری شروع کردی۔مغلوب ہونے کی وجہ سے وہ اس کے سوا اورکربھی کیا سکتے تھےلیکن گوشت وچربی اوردودھ وگھی میں جوغذائیت وقوت ہے وہ اناجوں اورسبزیوں سے کیسے حاصل ہوسکتی ہے لیکن رفتہ رفتہ انہی اناجوں ،دالوں، چاولوںاورسبزیوں کو ضرورت کے مطابق گوشت،انڈوں، دودھ،چربی اورگھی سے ملاکرپکانے سے ان میں غذائیت وقوت اورلذت پیداکرلی گئی جس کا نتیجہ یہ ہواکہ کمزوراور غریب عوام کے ساتھ ساتھ صاحبِ ثروت وقوت ودولت اورمالکِ حسن نے بھی ان چیزوں کوکھانا شروع کردیا جس کانتیجہ یہ ہواکہ اصل غذائیت کی اہمیت انسان کے دل سے نکل گئی اوراصل قوت جس سے وہ درندوں اور شیروں سے لڑاکرتاتھا ختم ہوگئی اور وہ اپنی طاقت کو قائم رکھنے کےلئے دواؤں اور زہروں کااستعمال کرنے لگا۔
گوشت کے اثرات
جسم انسان کے تمام عضلات جن کامرکزدل ہے یہ سب گوشت ہے اس کامزاج ترگرم ہے اورجب پک جاتاہے تو گرمی تری میں معتدل ہوجاتاہے اور یہی انسان کابہترین مزاج ہے۔گوشت کی بناوٹ میں فولاد اورچونابہت کثرت سے پایاجاتاہے۔جگراورتلی میں فولاد کی کثرت ہےاورمعدہ وپھیپھڑوں میں چونے کا خزانہ ہے۔اسی طرح مختلف قسم کے اعضائے حیوانی مختلف اقسام کی رطوبات وحرارت اورنمکیات اور دیگراجزاءء خون بناتے ہیں۔ان میں سے اگرکسی کوبھی استعمال کیاجائے گا وہ جسم میں جاکروہی اثرات واجزاءء پیداکرے گا۔علاج بالغزاکےلئے یہ بہت بڑا خزانہ ہے۔
مختلف چرند،پرنداورحیوانات کے گوشت میں قدرت نے بڑافرق رکھاہے۔اگر ہم بکری کے گوشت کامزاج کے لحاظ سے معتدل خیال کریں تو زیادہ بہترہے۔کیونکہ اس حرارت اور رطوبت اور ریاحی مادے تقریباًمعتدل ہیں۔ اگراس کے مقابلےمیں بھیڑ،دنبہ،گائے اوربھینس کے گوشت کواستعمال کریں توان میں بکری کی نسبت حرارت کم ،رطوبت اور ریاحی مادے زیادہ ہیں۔اسی طرح اگربکری کی نسبت مرغی اوربطخ اور تیتروبٹیر وغیرہ پرندوں کے گوشت استعمال کئے جائیں توان میں حرارت ورطوبت زیادہ اور ریاحی وارضی مادے کم ہیں چونکہ انسانی زندگی کوقوت اورصحت کےلئے پرورش وربوبیت کی زیادہ ضرورت ہے اس لئے بکری کے گوشت سے لے کر پرندوں کے گوشت تک کااستعمال زیادہ مفیدہے۔جسم میں سوزش،ورم اوردردوبخار کےلئے یہی گوشت مفیدہے۔البتہ اگر جسم میں حرارت و صفراء کی زیادتی سے رطوبات اور ارضی مادوں کی کمی ہوجائے توپھرگائے بھینس کے گوشت اکسیرکاکام کرتے ہیں۔
انسان چونکہ گوشت پکاکرکھاتاہے اوراس میں مختلف قسم کے مصالحہ جات ڈالتاہےاس میں حرارت کی زیادتی کے ساتھ ساتھ ہضم کی بھی زیادتی ہوجاتی ہے۔گوشت اچھی طرح گلا کرکھانا چاہئےتاکہ اس کاایک ایک ریشہ ہضم ہو کر خون اورجزو بدن بن جائے۔کچاگوشت وحشت پیداکرتاہے اور بجائے قوت اور صحت کے تکلیف اورامراض پیدا کرتاہے۔
انڈے اورمچھلی
ہرقسم کے انڈے اورمچھلیاں بھی گوشت میں شریک ہیں جن پرندوں کے انڈے ہوتے ہیں وہی تاثیررکھتے ہیں۔ مچھلی کے گوشت میں حرارت سے زیادہ رطوبت غالب ہے۔اس لئے بہت جلد گندی اورمتعفن ہوجاتی ہے اس تعفن سے اعصاب میں انتہائی تیزی پیدا ہوجاتی ہے جس سے جسم میں چونے اورفولادکی نہ صرف کمی واقع ہوجاتی ہے بلکہ جلد کارنگ خراب ہوکرسفید داغ اور دھبے پڑجاتے ہیں۔مچھلی کے ساتھ رطوبت والی اغذیہ مثلاًدودھ اور دہی کھانے سے اس کو جلد متعفن کردیتاہے۔جب تک مچھلی جسم میں جاکر متعفن نہ ہواس کانقصان نہیں ہوتا چاہئے اس کے ساتھ کچھ کھالیاجائے۔مچھلی کھانے والوں کواس امرکی تاکیدہونی چاہئے کہ مچھلی ہمیشہ تازہ بلکہ زندہ لے کر پکائی جائے پھر اس سے کبھی نقصان نہیں ہوتااوربے حد مفید ثابت ہوتی ہے اس میں جوانی قائم رکھنے کی بہت بڑی طاقت ہے۔
دودھ اور گھی
دودھ کوآبِ حیات اورگھی کوتریاق کہنا زیادہ مناسب ہے۔انسان کی زندگی دودھ سے شروع ہوتی ہےاور باقی تمام زندگی اگر میسرآئےتودودھ مکھن ،دہی اور گھی پر گزار دیتاہے۔ان اشیاء کے استعمال سے انتہائی قوت اورصحت قائم رہتی ہے اور انسان لمبی عمرپاتاہے۔دودھ کامزاج ترگرم ہے اورجس جانورکادودھ ہوتاہے اپنی رطوبت کے ساتھ گرمی کے وہی اثرات اپنےاندررکھتاہے۔سفیداور سیاہ جانوروں کادودھ زیادہ زیادہ رطوبت اور سردی کی طرف مائل ہوتاہےجیسے گدھی کادودھ،گھی کامزاج گرم ترہے۔جسم انسان کے اندرکسی قسم کی سوزش،ورم اوردردوبخارہواس کا شرطیہ تریاق ہے۔جس ملک میں خالص گھی ملتاہووہاں تپ دق وسل نہیں ہوسکتا۔فالج وذیابیطس کےلئے بے حد مفیدہےاس کاجسم پرایساہی اثرہوتاہے جیسے پرزوں پرتیل اثرکرتاہے۔یہ حیوانی گندھک ہے دوسرے معنوں میں اس کو روغن گندھک کہہ دیں جس کے لئےکیمیادان ترستے ہیںکہ ہردھات کوسونابنادیتاہے۔اسی طرح یہ گھی بھی جسم میں سونےکے خواص پیدا کردیتاہے۔ہماری رائے میں انسانی غذاصرف گھی ہےجوکبھی گوشت کبھی دودھ اور کبھی اناج کےساتھ کھایاجاتاہےاورزندگی وقوت اورصحت بخشتا ہے۔ بناسپتی اس کے مقابلے میں زہرہے۔یہ تیل سے تیارہوتاہے۔تیل جسم میں تیزاب پیداکرتاہےگندھک پیدانہیں کرتااورجب تیل میں تیزادویات اور گیسیں شامل کرکےاس کوگھی بنایاجاتاہےتووہ زہربن جاتا ہے۔ دوسرے معنوں میں بناسپتی اورصابن کانسخہFormula))ایک ہے۔صابن گاڑھا ہوتا ہے اور بناسپتی گھی رقیق ہوتاہے اس میں جس قدر چائیں وٹامن ملالیں اس کے زہرہونے اورنقصان پہنچانےمیں کوئی کمی نہ ہوگی۔گویاقوت اورصحت کےلئے نقصانِ عظیم ہے۔
شہد
حیوانی اغذیہ میں شہدبھی شامل ہے۔جوشہدکی مکھیاں پھلوں اورپھولوں سے تیارکرتی ہیں۔اس میں قدرت کی جانب سےانتہائی مٹھاس کے ساتھ انتہائی حرارت کے اثرات پائے جاتے ہیں۔اس کے دوتین چمچےکھانے سےجسم فوراًگرم ہوجاتاہے۔باوجود انتہائی گرم ہونے کی وجہ سے جسم کے اندرکی ہرقسم کی سوزش اورورم کے لئےانتہائی مفیدہے۔ ان مقاصد کےلئے اس کاشربت یاچائےوقہوہ میں ڈال کراستعمال کرنامفیدہے۔شہدکامزاج گرم ترہے لیکن دیگر اغذیہ اور پانی کے ساتھ ہرمرض میں استعمال کیاجاسکتاہے۔کیونکہ یہ اپنی حرارت کی وجہ سے جگراوراعصاب کےلئے بے حد مقوی اورمحرک اثرکرتاہے۔شہد تیار کرنے کا موجودہ اورمروجہ طریقہ سے جوشہدحاصل ہورہاہے وہ ان خواص ،افعال واثرات کا حامل نہیں ہوتا جو قدرتی شہدکے اندرہوتی ہیں۔علاوہ ازیں شہد کی ایک قسم گلوکوزکی بھی ہے۔یہ نباتاتی مٹھاس ہےاوریہ شہدکانعم البدل ہرگزنہیں ہوسکتا۔ان کافرق ایساہی ہے جیسادیسی گھی اوربناسپتی کاہے۔گلوکوزکامزاج ترسرد ہے اس میں جتنے بھی وٹامن شامل کرلئے جائیں وہ شہد کی طرح نہیں ہوسکتااورشہد ہر مرض میں گلوکوزسے بدرجہابہترہے۔
نباتاتی اغذیہ میں مکمل غذائیت نہیں
نباتات میں ہر قسم کے میوہ جات،پھل،اناج،دالیں،سبزیاں اورجڑیں سب شامل ہیں۔ نباتاتی اغذیہ حیوانی اغذیہ کے مقابلے میں بالکل ایسی ہیں جیسے بھوسہ ، یعنی پیٹ بھرنا ورنہ جہاں تک غذائیت کاتعلق ہےان میں مکمل غذائیت نہیں ہےان میں افضلیت میوہ جات اورپھلوں کو حاصل ہےکیونکہ ان میں اجزائے لحمیہ،اجزائے روغنیہ،اجزائے شکریہ اور نمکیات کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔جس طرح پھل اورمیوہ جات حیوانی اغذیہ کامقابلہ نہیں کرسکتے اسی طرح ا ناج ودالیں اورسبزیاں وجڑیں،پھلوں اورمیوہ جات کامقابلہ نہیں کرسکتے۔
میوہ جات اور پھل
میوہ جات میں بادام،پستہ،ناریل،اخروٹ،مونگ پھلی،چلغوزہ اورکھاجایہ سب غذائے دوائی ہیں اپنے اندرکافی حرارت اورقوت رکھتے ہیں۔ان کا دوائی اثربھی غیرمعمولی شدت پیداکردیتاہے لیکن غذائی علاج میں ان سب کوبہت اہم مقام حاصل ہے۔سردیوں میں ان کا استعمال بے حدمفیدہے۔ پھلوں میں کھجور،انگور،آم،سیب،مالٹا، امرود، ناشپاتی، لیچی،کیلا،جامن،فالسہ،انجیر،انار،میٹھا،آلوچہ،آڑواورآلو بخارا وغیرہ۔ان میں بعض گرم ہیں جیسے کھجور،انگور،آم اور انجیر وغیرہ۔بعض اپنے اندرغذائیت رکھتے ہیں جیسے سیب، امرود، کیلا، جامن، خوبانی، شہتوت،لیچی،آلوبخارا،انار،میٹھا،انناس،تربوز،رس بھری،آلوچہ ،گنا اور سنگترہ وغیرہ۔
اناج ودالیں اور سبزیاں وجڑیں
اناجوں میں گہیوں کواولیت کادرجہ حاصل ہے۔اس کے بعد چاول پھرچنے اور دیگر دالیں ،م کئی ،باجرہ،جواراورجو وغیرہ۔ان میں درجہ بدرجہ نشاستہ اور غذائیت پائی جاتی ہے۔سبزیوں میں میتھی،پالک،کریلے،آلو،مٹر،گاجر، مولی، گوبھی،کھیرا ،ککڑی،شلغم،کدو،کچنار ،چقندر،سیم ،بینگن،بھنڈی،اروی ،ٹینڈے ،سرسوں کاساگ،ادرک،پیازان میں گرم و سرد دونوں اثررکھنے والی سبزیاں ہیں۔یہ دراصل دوائے غذاہیں۔ان میں غذائیت بہت کم پائی جاتی ہے۔ بہرحال پیٹ بھرنے کےلئےاستعمال کی جاتی ہیں اوربوقتِ ضرورت مختلف امراض کا علاج بھی ہیں۔
بھوک
بعض حکماءنے لکھاہےبھوک بھی ایک مرض ہے اس کاعلاج غذاہےاس کا مطلب یہ ہےکہ جب تک مرض کی طرح تکلیف نہ ہوتو غذانہیں لینی چاہئے ہم یہ کہتے ہیں کہ جب غذاکھانے سے امراض پیداہوں توغذاکھاناچھوڑدیناچاہئے۔ کیونکہ سوائے چوٹ و گر پڑنے اور بیرونی حادثات کے کوئی مرض بغیرضرورت غذا و اشیاء اور دوااورزہرکھانے پینے کے پیدانہیں ہوتا۔انتہائی بھوکا انسان کمزوری کااحساس تو ضرور کرئے گامگریہ نہیں کہے گاکہ وہ مریض ہے۔اس حقیقت سے یہ ظاہر ہےکہ صحت اورمرض کی حدفاصل بھوک ہے۔ بھوک کی شدت ہی غذاکی ضرورت کااظہارہے اور یہی ثقیل اورزیادہ سے زیادہ غذاکوہضم کرادیتی ہے۔بھوک دراصل ایک زبردست قوت اوراللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔بھوک کے یہ معنی نہیں ہیں کہ چندلقمےکھالئے جائیں بلکہ ایسی بھوک ہوجوانسانی معدے کے خلا (Capacity)کوپوری طرح بھر دے تاکہ طبیعت میں ہضم کادبائو(Pressure)پورے طورپرکام کرےمثلاً ایک انسان کے پیٹ میں اندازاًدرمیانہ درجہ کی تین روٹیاں پڑتی ہیں تویہی اس کی بھوک ہے۔اگرتین روٹیوں سے پیٹ بھرنے والاایک یا نصف روٹی کھائےگ اتویہ اس کی بھوک نہ ہو گی۔ یونہی بغیر ضرورت صرف خواہش یاشوق سے کھا لیاہےتوایسی غذامیں ہضم کاد بائوپورانہیں بنے گا اورغذاپڑی رہے گی اورمتعفن ہوجائے گی جس کانتیجہ امراض کاپیداہونا ہے ۔
کم کھانا
غذاکم کھانے کےمتعلق ایک بہت بڑی غلط فہمی پیداہوچکی ہے لیکن اس کی حقیقت سے کوئی واقف نہیں ہے۔بعض لوگ اپنی کم خواراکی پر فخرکرتے ہیں کہ وہ صرف چند لقمے کھاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے پیٹ میں بہت سی غذاغیرمنہضم پڑی رہتی ہےجس میں خمیر اورتعفن پیداہوتارہتاہےجوان کوکھانے نہیں دیتا۔جب تک پورے معدے کی بھوک نہ ہوکھانا نہیں چاہئے۔کم کھانااس کو کہتے ہیں کہ بھوک توتین چار روٹیوں کی ہومگر نصف یا ایک روٹی کھائی جائے ۔ اسی بھوک کی روشنی میں ہم نے چند اصول ترتیب دئیے ہیں تاکہ ہرشخص فائدہ اٹھاسکے۔کیونکہ تجربہ نے بتایاہے کہ ہرشخص بھوک کی ضرورت نہیں سمجھ سکتا اور کھا لیتا ہے ۔ پھرتکلیف اٹھاتاہے۔
1۔ہرایک غذاکے بعد دوسری غذاکم از کم چھ گھنٹے بعدلینی چاہئے کیونکہ پوری غذابارہ گھنٹوں میں ہضم ہوتی ہے۔چھ گھنٹوں میں وہ معدہ اور چھوٹی آنتوں میں سے گزرکربڑی آنتوں میں پہنچ جاتی ہےاس طرح دوہضم سے جوغذاخراب ہوجاتی ہے اس سے بچ جاتاہے۔
2۔ چھ گھنٹے کے بعد بھی یہ شرط ہے کہ بھوک شدید ہونی چاہئے ورنہ اور وقفہ بڑھادینا چاہئے البتہ اس وقفہ میں پانی پیا جاسکتاہے۔
3۔غذاخوب پُختہ گلی ہوئی اور ذائقے کے مطابق ہونی چاہئے۔اگرطبیعت نے پسندنہ کی توہضم نہ ہوگی۔
غذابطوردوا
غذا کی اہمیت وضرورت اور حقیقت کو سمجھنے کے بعد یہاں پریہ مقام آتاہے کہ غذاکوبجائے خوارک کے دواکےطور پر استعمال کیاجائے یعنی جس غذاکی مرض میں ضرورت ہے اس کواستعمال کیاجائے اور جوغذا نقصان دہ ہے اس کو استعمال نہ کیاجائےاس طرح مفید اغذیہ کے استعمال اورغیرمفیداغذیہ کونکال دینے سے مرض رفع ہوجاتاہےاس طرح خون میں ایسی طاقت پیداہوجاتی ہےجس سے ہرقسم کے مشکل اورپیچیدہ امراض بھی چند دنوں میں رفع ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔کیونکہ مکمل ومقوی اور مصفی خون ہی جسم ونفس اور روح کےلئے زندگی وقوت اور صحت ہے اور یہی علاج بالغزاکا راز ہے ۔
علاج بالغزا کی اہمیت و وسعت
خداوندِکریم نے بھوک پیداکی ہے تاکہ انسان کواپنی ضرورتِ غذاکااحساس ہولیکن بھوک میں جوخوبیاں پنہاں ہیں انسان نے ان کو نظرانداز کرکے اپنی غذائی ضرورت کا دارومدار اپنی خواہشات پرمقرر کر دیاہے یعنی جس چیز کودل چاہاجب بھی چاہاکھالیا۔اس طرح رفتہ رفتہ بھوک کا تصورہی ختم کردیا اس طرح ضرورتِ غذااور خواہشِ غذاکا فرق ہی ختم ہوگیالیکن قدرت کے فطری قوانین ایسے ہیں جولوگ ان کی پیروی نہیں کرتے یا ان کو سمجھے بغیر زندگی میں من مانی کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ امراض کی شکل میں ظاہر ہوتاہے۔
تاریخی اہمیت
جمہورحکماء اور اطبائے متقدمین ومتاخرین بلکہ ہر مذہب کے علماء کا بھی اس حقیقت پراتفاق ہے کہ بھوک ایک مرض ہے اور اس کا علاج حسب ضرورت اور مناسب غذاکا کھانا ہے۔دنیا میں کوئی بھی ایسا مذہب نہیں ہے جس نے غذاکی ضرورت واہمیت اور استعمال پرکچھ نہ کچھ نہ لکھاہواور اسلام میں تو اس قدر کہاگیاہے کہ اس پرایک طویل کتاب بن سکتی ہے۔اسلام نے اس کو اس قدر وسعت اس لئے دی ہے کہ
۱۔غذا سے انسانی کردارپیداہوتاہے۔(۲)غذا انسانی ضرورت ہے۔(۳)جن لوگوں کی رزق کی فراہمی کے بارے حقائق پر نظرہے وہ شخصیت اور قوم کی تعمیر کیلئے بڑاکام کرسکتے ہیں۔
ایورویدک
انتہائی قدیم طریق علاج ہے۔اس کی قدامت اس قدرقدیم ہے کہ اس کاتعین مشکل ہے البتہ یہ کہا جاسکتاہے کہ چین کی تہذیب وتمدن ہند سے قدیم ہے۔ اس لئے اس کا علم وفن قدیم کہاجاسکتاہے۔بہرحال جہاں تک دونوں کے علم وفن کا تعلق ہے دونوں کی بنیاد کیفیات ومزاج اور اخلاط پرہے۔یہ بھی کہاجاتاہے کہ قدیم زمانے میں ہنداورچین ایک ہی ملک تھے اور ان کی تہذیب وتمدن بھی ایک تھا اسلئے ممکن ہے کہ ایورویدک ہی نے چینی طب کی شکل اختیارکرلی ہو۔بہرحال ایورویدک اپنی بنیادپت وپرکرتی اور دوشوں کے مطابق ہرغذاودوااور آب وہوا کے استعمال میں ارکان و مزاج اور اخلاط کومدنظررکھے بغیر علاج نہیں کرسکتی۔اس طریقِ علاج میں سب سے اہم تاکیدیہ ہے کہ علاج کے دوران میں پت وپرکرتی اور دوشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اول غذاسے علاج کیاجائے ۔پھر بھی اگر مرض باقی ہو تومجرب مرکبات سے مرض کودورکیاجائے اور ادویات کے علاج کے دوران میں بھی غذاکوپت پرکرتی اور دوشوں کے تحت ہی استعمال کیاجائے اور یہی صحیح ایورویدک علاج ہے۔
طب یونانی میں غذاکی اہمیت
طب یونانی کی قدامت بھی تقریباًایورویدک کے برابرقدیم ہے کیونکہ ابتداً جب یونان میں اس کی ترتیب و تدوین ہوئی اور اس نے کتابی صورت اختیارکی تواس کانام طب یونانی رکھاگیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ طب ہزاروں سالوں یونانی طب سے قدیم ہے۔ جس طرح مختلف تہذیبوں اور تمدنوںمیں عروج وزوال پیداہوتاگیاطب میں بھی نشووارتقاء پیدا ہوتا گیا۔چین وہند کے بعد تہذیب وتمدن بابل ونینوا میں نظر آتی ہے جس کو آج کل عراق وعرب اور مڈل ایسٹ کہتے ہیں۔ا س کے بعد کی تہذیب وتمدن کا کمال مصرمیں نظرآتا ہے۔ابولہول ، اہرام مصر (پیرامائڈ) آج بھی اس چیزکے گواہ ہیں جہاں پر بے شمارفرعون گزرے ہیں۔اس کے بعد یہی تہذیب وتمدن اور ثقافت روما سے گزرتی ہوئی ہزاروں سال میں یونان پہنچی۔اگرچہ مصرمیں کاغذکی ابتداہوئی تھی اور علم وفن کی تحریرمقبروں سے ملی ہیں لیکن یونان میں خصوصاً بقراط کے زمانے میں علم وفن طب کی کتابی صورت میں ترتیب وتدریس ہوئی جس پر اسلامی دورتہذیب وتمدن میں چارچاند لگ گئے۔لفظ ــ ’’طب‘‘بذاتِ خود عربی زبان کالفظ ہے لیکن احتراماً یونانی لفظ ساتھ قائم رہاہے۔یہ علم وفن میں ایمانداری کی دلیل ہے۔
طب یونانی میں علاج تین صورتوں میں کیاجاتاہے۔(۱)علاج بالتدبیر۔(۲)علاج بالدوا۔ (۳)علاج بالید( (4سرجری
علاج بالتدبیر:علاج بالتدبیرمیں تین باتیں شامل ہیں۔
اول ۔اسباب ستہ ضرو ریہ جو مندرجہ ذیل ہیں ۔(۱)ہواوروشنی۔ (۲)ماکولات ومشروبات۔ (۳)حرکت وسکونِ بدنی۔(۴) حرکت وسکونِ نفسانی۔ (۵)نیندو بیداری ۔ (۶)استفراغ واحتباس۔
دوم۔کیفیات ومزاج اور اخلاط میں تغیروتبدل۔سوم۔ماحول وحالات میں نظم یعنی مریض جس تکلیف دہ ماحول میں گھراہواہے اور جس مشکل حالت میں ہے اس میں بہتر تبدیلی پیداکرنا۔چونکہ ان تینوں اجزاءکاتعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ غذاسے ہے اس لئے یہ سب کچھ علاج بالغزامیں شریک ہیں۔
ماکولات ومشروبات
ماکول ومشروب(کھانا پینا)میں وہ سب چیزیں شامل ہیں جومنہ کے ذریعے جسم میں پہنچائی جاتی ہیں ان کی چھ صورتیں ہیں۔(۱)غذائے مطلق۔(۲)دوائے مطلق۔(۳)سم مطلق ۔ (۴)غذائی دوائی۔(۵)دوائے غذائی۔(۶)دوائے سمی۔تفصیل یہ ہے۔
غذائے مطلق: خالص غذاکوکہتے ہیں۔جب وہ بدن میں داخل ہوتی ہے تو بدن سے متاثر ہوکر متغیر ہوجاتی ہے لیکن بدن میں کوئی تغیر پیدانہیں کرتی بلکہ خود جزوبدن بن کر بدن کے مشابہ ہوجاتی ہے یعنی خون میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مثلاً دودھ،گوشت اور روٹی وغیرہ۔
دوائے مطلق: خالص دوا جب بدن میں داخل ہوتی ہے توبدن سے متاثر ہوکر بدن میں تغیر پیداکردیتی ہے اور آخرکار جزو بدن ہوئے بغیر بدن سے خارج ہوجاتی ہے ۔جیسے زنجبیل،بادیان اور ملٹھی وغیرہ۔
سم مطلق: خالص زہرجب جسم میں داخل ہوتووہ خود توبدن سے متاثر نہ ہولیکن بدن کو متغیر کرکے اس میں فساد پیداکردے مثلاً سنکھیا،کچلہ اور افیون وغیرہ۔
غذائے دوا: غذامیں کچھ دوائی اثرات شامل ہوں۔جب بدن میں داخل ہوتی ہے توبدن سے متاثرہوکر متغیرہوجاتی ہے اور خود بھی بدن کو متاثر کرتی ہے۔اس کا زیادہ حصہ جزوبدن بنے اور کچھ حصہ جزوبدن بنے بغیر جسم سے خارج ہو جاتاہے۔مثلاًمچھلی ، میوہ جات وغیرہ۔
دوائے غذائی: دوامیں کچھ غذائی اثرات شامل ہوں۔جب بدن میں داخل ہوتی ہے توبدن سے متاثرہوکرمتغیرہوجاتی ہے اور خود بھی بدن کومتاثر و متغیر کرتی ہے۔اس کا تھوڑاحصہ جزوبدن بنتاہے اور زیادہ حصہ جزوبدن بنے بغیر جسم سے خارج ہوجاتاہے۔مثلاًمیوہ جات وگھی اورنمک ومٹھاس۔
دوائے سمی: دواجس میں کچھ زہریلے اثرات شامل ہوں۔جب بدن میں داخل ہوتی ہے توبدن سے کم متاثرہوتی ہے اور بدن کو بہت زیادہ متاثر ومتغیر کرتی ہے اور نقصان پہنچاتی ہے۔مثلاً نیلاتھوتھا اور پارہ وغیرہ۔
ماکول ومشروبات کی صورتیں: ماکول ومشروبات (کھانے پینے)کے اثرات کی صورتیں یہ ہیں کہ اگرفقط مادہ سے اثر اندازہوتواسے غذاکہتے ہیں ۔اگرصر ف کیفیات کا اثرزیادہ ہوتودواہے۔اگراس کااثرمادہ وکیفیات دونوں سے ہوتو اگرمادہ زیادہ ہے تو غذائے دوا اور اگرکیفیت زیادہ تو دوائے غذائی ہے۔اگر صرف اپنی صورت نوعیہ سے اثرکرے تواسے ذوالخاصہ کہتے ہیں جس کی دوصورتیں ہیں۔اول ذوالخاصہ مواقفہ یعنی تریاق۔دوم ذوالخاصہ مخالفہ جیسے زہر۔ اگرمادے اور صورت نوعیہ سے اثرکرے توغذائے ذالخاصہ اور اگر کیفیت اورصورت نوعیہ سے اثرکرے تواس کودواذوالخاصہ کہتے ہیں۔
اس مختصر سی تفصیل سے اندازہ ہوگاکہ غذاکے اثرات اور وسعت کس قدرطویل ہے یعنی ادویات میں بھی غذائی اثرات شامل ہیں ۔اس لئے علاج بالغزامیں ایسی تمام ادویات شامل ہیں اور ہماری روزانہ زندگی میں ان کا کثرت سے استعمال بھی ہوتاہے۔جیسے نمک ومٹھاس وغیرہ اور ایسی خالص ادویات بھی شامل ہیں جوروزانہ زندگی کاجزو ہیں جیسے زنجبیل،مرچ سیاہ اور گرم مصالحہ وغیرہ۔
غذاکی اقسام: غذاکی دو اقسام ہیں جومندرجہ ذیل ہیں۔(۱)غذائے لطیف۔(۲)غذائے کثیف
غذائے لطیف: ہلکی پھلکی قسم کی ایسی غذاجس سے رقیق خون پیداہو۔جیسے آبِ انار وغیرہ۔
غذائے کثیف: بھاری یابھدی قسم کی ایسی غذاجس سے غلیظ(گاڑھا)خون پیداہو۔جیسے گائے کاگوشت وغیرہ۔
پھر ہرایک کی دوصورتیں ہیں۔(۱)صالح الکیموس یا فاسدالکیموس۔(۲)کثیرالغزا یا قلیل الغزا
صالح الکیموس: ایسی غذاجس سے جسم کیلئے بہترین خلط پیداہو۔ جیس بھیڑ کا گوشت اور ابلاہواانڈہ وغیرہ۔
فاسدالکیموس: وہ غذاجس سے ایسی خلط پیداہوجوبدن کیلئے مفیدنہ ہو۔ جیسے نمکین سوکھی ہوئی مچھلی یامولی۔
کثیرالغزا:وہ غذاہے جس کا اکثر حصہ خون بن جائے ۔جیسے نیم برشٹ انڈے کی زردی وغیرہ۔
قلیل الغزا: وہ غذا جس کا بہت تھوڑا سا حصہ خون بنے۔ جیسے پالک کا سالگ وغیرہ۔
غذائے لطیف، کثیرالغزا اور صالح الکیموس کی مثال زردی بیضہ نیم برشٹ،انگور اورماء الحم(یخنی) ہے۔غذائے کثیف،قلیل الغزا اورفاسدالکیموس کی مثال خشک گوشت،بینگن، مسور اور باقلا ہیں۔
پانی
پانی چونکہ ایک بسیط رکن ہے اس لئے بدن کی غذانہیں بنتا بلکہ غذاکابدرقہ بنتاہے یعنی غذاکوپتلاکرکے باریک تنگ راستوں میں پہنچانے کاکام کرتا ہے۔
بہترین پانی: چشموں کاپانی سب سے بہترہوتاہے اور چشموں میں سے بہترین چشمہ وہ ہے جس کی زمین طبنی (خاکی) ہواور کی صفت یہ ہو کہ اس کا پانی شیریں ہو،مشروق کی طرف بہتاہو،اس کا سرچشمہ دورہو،بلندی سے پستی کی طرف آئے اور اس پرآفتاب کی روشنی پوری طرح پڑتی رہے۔
یہ یادرہے کہ موجودہ پانی جوہمارے گردوپیش میں ہے وہ بسیط پانی نہیں ہے جیساکہ ارکان کے بیان میں ہے ۔بلکہ یہ مرکب پانی ہے اور کئی چیزوں سے مرکب ہے۔یہ پیٹ میں جاکرپھٹ جاتاہے اور اس میں سے خالص (رکن)پانی جسم میں اپنے فرائض انجام دیتاہے جواوپرمذکورہیں۔
دوسرے درجہ کاپانی: چشموں کے بعد بارش کے پانی کادرجہ ہے لیکن اس میں بھی بہترین پانی وہ ہے جوپتھریلے گڑھے میں جمع ہوگیاہواور اس پر خوب دھوپ پڑتی ہو اور اس کے ساتھ شمال اور مشرق کی ہواؤں کے تھپیڑے لگتے ہوں ان پانیوں کے علاوہ دوسرے سب پانی تیسرے درجہ کے ہیں جیسے دریاؤں ، نہروں اور ندی نالوں وغیرہ کا پانی۔
آج کل شہروں کے اندر پمپکنگ اور ڈسٹلنگ کاانتظام ہے یعنی پانی کو مشین کے ذریعے کھینچ کراس کی تطہیر کی جاتی ہے جو انسانی ضرورت کیلئے ایک اچھی قسم کاپانی بن جاتاہے۔لیکن یہ پانی بھی چشموں اور بارش کے پانی کاجواپنی صفات میں پورے ہوں مقابلہ نہیں کرسکتا۔امریکہ کا ایک ڈاکٹر” ویلے” نے جو ماہرعلاج بالغزاسمجھاجاتاتھا نے ایک بارکہاتھا کہ بہت جلدایسادورآنے والاہے کہ ڈاکٹر مریضوں کوجونسخے لکھ کر دیں گے وہ ادیات نہیں بلکہ اغذیہ ہوں گے۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جوکچھ ڈاکٹر موصوف نے کہاتھا وہ درست ہے کیونکہ موجودہ سائنسی دور میں جوکچھ غذائیات پر تحقیقات ہوئی ہے اگر اس کو سلیقہ سے ترتیب دے دیاجائے توعلاج بالغزاپر ایک بہت بڑاخزانہ سامنے آجاتاہے جس کی مختصر حقیقت درج ذیل ہے۔
غذائی تجزیہ: غذامیں پانچ اجزاءکاہوناضروری ہے۔(۱)پروٹین۔اجزاءئے لحمیہ(۲) فیٹس۔اجزاءئے روغنیہ (۳) کاربوہائیڈریٹس۔شکری اورنشاستہ دار غذا۔(۴) سالٹس۔ نمکیات۔(۵)پانی۔جس غذامیں ان میں سے کسی ایک جزوکی کمی بیشی رہے گی توامراض پیداہوں گے اور ایساہوتاہے۔
وٹامن کی ضرورت: مندرجہ بالا غذائی اجزاءکے ساتھ ان میں ایک قسم کا جوہربھی ہوتاہے جس کووٹامن (حیاتین) کہاجاتاہے۔جس غذامیں یہ وٹامن نہ ہوں یاضائع ہوجائیں یاضرورت کے مطابق استعمال نہ کئے گئے جائیں توجسم انسان میں امراض پیداہوجاتے ہیں۔ یہ تجربات کیے گئے اور درست ثابت ہوئے ہیں۔
علاج بالغزامیں غلط فہمی: عام طورپر علاج بالغزا میں یہ سمجھاجاتاہے کہ اس کاتعلق ان امراض کے ساتھ ہے جو اعضائے غذائیہ سے پیداہوتے ہیں جن میں منہ کے غدودومری ، معدہ امعائی،جگروطحال اور لبلبہ شریک ہیں۔زیادہ سے زیادہ یہ خیال کیاجاتاہے کہ
(۱)وہ امراض جو اعضائے ہضم کی خرابی سے ظاہر ہوں۔(۲)وہ امراض جو غذاکی کمی بیشی یا اجزاءئے غذائیہ کی کمی بیشی سے پیداہوتے ہیں۔بعض مخصوص اغذیہ جوبعض امراض میں مفید ہیں لیکن ایسا خیال کرناغلط ہے بلکہ لاعلمی پرمنحصرہے۔
حقیقت علاج بالغزا: علاج بالغزاکی حقیقت یہ ہے کہ انسان کے اعضائے غذائیہ خصوصاً منہ سے لے کر مقعد تک کوئی ایک ہی قسم کاعضو نہیں ہیں اور نہ ہی ایک ہی قسم کی نسیج (ٹشو)سے بنے ہیں بلکہ انہی انسجہ سے بنے ہیں جن سے اعضائے رئیسہ بنے ہیں اور ہر مفردعضو(نسیج)کاتعلق ان کے ساتھ ہے۔اس لئے جب بھی اعضائے غذائیہ میں کسی حصہ میں خرابی پیداہوتی ہے تو وہ عضو رئیس میں مبتلائے مرض ہوجاتاہے۔اس لئے متعلقہ عضو درست ہونے پر صحت کاملہ حاصل ہوجاتی ہے چونکہ خون جسم کی غذابنتاہے اورغذاسے خون پیداہوتاہے اس لئے غذائی اجزاء ہی صحیح معنوں میں صحت و طاقت قائم رکھتے ہیں۔
زندگی اور ضرورت غذا
زندگی کے لازمی اسباب:
ہر زندگی کیلئے وہ انسانی ہویا حیوانی اس میں اسباب زندگی لازمی ہیں۔ جن میں (۱)ہوا و روشنی۔(۲)کھانا پینا۔(۳)حرکت و سکون۔(۴)حرکت و سکون نفسانی۔(۵)نیندو بیداری۔ (۶)ا حتباس واستفراغ ۔
یہ ایسے قوانین اورصورتیں ہیں جن سے زندگی کاتعلق کائنات سے بھی پیداہوگیاہے انہی کواسباب زندگی کہاجاتا ہے۔ طبی اصطلاح میں ان کو اسباب ستہ ضروریہ کہتے ہیں۔ ا ن میں جب کمی بیشی واقع ہوجاتی ہے۔اسی وجہ سے بدن انسانی میں جوحالت پیداہوتی ہے اس کومرض کانام دیاجاتاہے جن کی تفصیل کتب طبیہ میں درج ہے۔
یہ چھ اسباب ضروریہ دراصل عملی حیثیت میں تین صورتیں اختیار کرلیتے ہیں۔
(اول)جسم کوغذائیت مہیاکرنا۔جیسے ہوااور روشنی اور ماکولات و مشروبات ہیں۔
(دوم)جسم میں غذائیت کوہضم کرکے جزو بدن بناتے ہیں جیسے نیند وبیداری ، حرکت وسکون جسمانی اور حرکت وسکون نفسانی ہیں۔
(سوم)جسم کے اندر غذائیت ایک مقررہ وقت تک قائم رکھتے ہیں تاکہ جزوبدن جائے اور جب ان کی ضرورت نہ ہوتواس کو خارج کردے۔ان کو احتباس واستفراغ کہتے ہیں۔
غذائیت زندگی: غذائیت میں ہوااور روشنی کے ساتھ ہر قسم کی وہ اشیاء شامل ہیں جوکھانے پینے میں استعمال ہوسکتی ہیں جن میں تیزابات و زہر بھی شامل ہیں۔ان کے متعلق یہ امورذہن نشین کرلیں کہ وہ سب جسم میں صرف غذائیت مہیانہیں کرتی ہیں بلکہ جسم بھی بناتی ہیں اورجسم کومتاثر بھی کرتی ہیں اس کے ساتھ بدل مایتحلل کی تکمیل بھی ہوتی ہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حرارت غریزی اور رطوبت غریزی کی مدد کرتی ہے۔ان حقائق سے ثابت ہواکہ غذائیت کی ضرورت ذیل کی صورتوں میں لازم ہے۔
(۱)غذائیت سے اخلاط خصوصاً خون پیداہوتاہے۔
(۲)غذائیت سے کیفیات بنتی ہیں۔
(۳)غذائیت سے جسم کی تعمیر ہوتی ہے۔
(۴)جو کچھ جسم انسانی میں کسی حیثیت سے خرچ ہوتاہے وہ پھر مکمل ہوجاتاہے۔
(۵)غذائیت سے حرارت غریزی کومدد ملتی ہے۔
(۶)غذائیت سے رطوبت غریزی قائم رہتی ہے۔
غذاکی ضرورت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جس طرح تیل چراغ کی بتی میں خرچ ہوتاہے اور جلتاہے اسی طرح انسان اور حیوان کے بدن کی حرارت اور رطوبت بھی خرچ ہوتی ہے۔بالکل چراغ کے تیل اور بتی کی طرح جب وہ دونوں خرچ ہوجائیں تووہ بجھ کررہ جاتاہے۔اسی طرح حرارت اور رطوبت انسانی کے فنا ہوجانے سے انسانی زندگی کا چراغ بھی گل ہوجاتاہے۔پس حرارت اور رطوبت انسانی جوانتہائی ضروری اور لابدی اشیاء ہیں ان کا بدل اور معاوضہ ہونا لازمی امرہے تاکہ حرارت غریزی اور رطوبت غریزی فوراًجل کر فنانہ ہوجائیں۔اس لئے غذائیت ایک انتہائی ضروری اور لابدی شے ہے ۔اس لئے اس کی طلب اور تقاضا ایک اضطراری اور غیر شعوری حالت ہے۔
انسان کے جسم کی حرارت غریزی اور رطوبت غریزی کی مثالیں چراغ کی بتی اور تیل کی سی ہیں جوچراغ کے جلنے کو قائم رکھتے ہیں۔کبھی بتی جل جانے سے چراغ بجھ جاتاہے اور کبھی تیل خرچ ہوجانے سے چراغ گل ہوجاتاہے۔یہی صورت انسانی جسم میں پائی جاتی ہے اور حرارت غریزی اور رطوبت غریزی ختم ہوکر انسانی زندگی کو فناکرتی رہتی ہیں۔اس لئے اگر انسان حرارت غریزی کی حفاظت کرتارہے تونہ صرف طبعی عمر کوپہنچتاہے بلکہ امراض سے بھی محفوظ رہتاہے اور اس کے قویٰ اور طاقتیں قائم رہتی ہیں۔
اس حقیقت سے اکثر انسان ناواقف ہیں کہ حرارت کیسے پیداہوتی ہے اور رطوبت کیسے قائم رہتی ہے۔عام طورپر یہی ذہن نشین کرلیاگیاہے کہ جو غذا وقت بے وقت کھالی جائے وہ ضرورخون اور طاقت بن جاتی ہے۔زیادہ سے زیادہ گرم یامرغن اغذیہ کاکھالیناکافی ہے لیکن ایسی باتیں حقیقت سے بہت دور ہیں۔اگر اتنا سمجھ لینا کافی ہوتاتو ہر امیر آدمی انتہائی صحت مند اور ان میں کوئی مریض نظرنہ آتابلکہ اگرغور سے دیکھا جائے تو امیروں میں مریض زیاہ ہوتے ہیں اور بھوکے فقیروں اور غریبوں میں مریض خصوصاً پیچیدہ امراض کے مریض تومشکل سے نظرآتے ہیں۔اس سے ثابت ہواکہ صرف غذاکاکھالینا ہی صحت وطاقت کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کیلئے کچھ اصول بھی ہیں تاکہ وہ غذاجسم میں جا کر مناسب طورپر حرارت اور رطوبت کی شکل و صورت اختیارنہ کرلے اور خرچ ہو۔ ایسانہ ہو کہ بجائے مفیدومعاون اثرات کے مضراور غیر معاون ثابت ہوکرمرض یافناکا باعث بن جائے۔ یہی صحیح غذاکے استعمال اور غذائیت سے مفید اثرات حاصل کرنے کاراز ہے۔
طاقت غذامیں ہے:جاننا چاہیے کہ انسانی جسم میں طاقت خصوصاً قوت مردانہ کے کمال کا پیداکرناصرف مقوی اور اکسیر ادویات پر ہی منحصر نہیں ہے کیونکہ ادویات توہمارے جسم کے اعضاء کے افعال میں صرف تحریک وتقویت اور تیزی پیداکرسکتی ہیں لیکن وہ جسم میں بذاتِ خود خون اور گوشت و چربی نہیں بن سکتیں کیونکہ یہ کام اغذیہ کا ہے۔
پس جب تک صحیح اغذیہ کے استعمال کواصولی طور پر مدنظر نہ رکھاجائے تواکسیر سے اکسیر مقوی اغذیہ وادویہ بھی اکثربے سود ثابت ہوتی ہیں۔اگر ان کے مفیداثرات ظاہر بھی ہوں توبھی غلط اغذیہ سے بہت جلد ان کے اثرات ضائع ہوجاتے ہیں۔حصولِ قوت میں اغذیہ کی اہمیت کااندازہ اس امر سے لگائیں کہ حکماء اور اطباء نے تقویت کیلئے جوادویات تجویز کی ہیں ۔ان میں عام طورپر اغذیہ کوزیاہ سے زیادہ شامل کیاہے ۔ مثلاً حلوہ جات وحریرہ جات اور مربہ جات اورخمیرہ جات وغیرہ شامل ہوتے ہیں ۔ان سے زیادہ تیز قسم کی اغذیہ کوادویات میں تبدیل کرنے کی صورت میں مثلاً ماء اللحم دو آتشہ وسہ آتشہ اور قسم قسم کی شرابیں شامل کرلی ہیں اور کسی جگہ بھی غذائی اثرات کونظرانداز نہیں اوریہی فن طب قدیم کا کمال ہے۔
ہم روزا نہ زندگی میں جوپلاؤ زردہ اور متنجن وفرنی وغیرہ چاولوں کی شکل میں استعمال کرتے ہیں ۔یہ سب کچھ اغذیہ کوادویات سے ترتیب دے کر ان میں تقویت پیداکی گئی ہے۔اسی طرح سوجی کی بنی ہوئی سویاں، ڈبل روٹی،حلوہ ، حریرہ اور پراٹھے یہ سب کچھ طاقت کومدنظررکھ کر اطباء اور حکماء نے ترتیب دیے ہیں۔البتہ ان کے صحیح مقام استعمال کوجاننے اور مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔
غذاسے طاقت کی پیدائش: غذاصرف کھالینے ہی سے طاقت پیدانہیں ہوتی بلکہ حقیقی طاقت اس وقت پیداہوتی ہے جب غذاکھالینے کے بعد صالح اور مقوی خون بن جاتاہے۔صالح اور مقوی خون میں حرارت اور رطوبت ہوتی ہے جورطوبت غریزی اورحرارت غریزی کی مددکرتی ہے۔رطوبت غریزی اورحرارت غریزی کا صحیح طوروپیدائش افعال واثرات اورخواص وفوائد کچھ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر ربوبیت اور رحمت کی حقیقت واہمیت ،افعال واثرات اور خواص وفوائدکوذہن نشین کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کویہ شوق و جذبہ پیداہواہے کہ وہ زمانے میں ایک ربانی شخصیت بن جائے۔
بہرحال یہ اگرہرایک کے لئے سہل کام نہیں ہے توکم ازکم اس قدرہی سمجھ لے کہ صحت وطاقت کادارومدارصالح اور مقوی خون پر ہے اور اس خون سے بدن انسان کوہرقسم کی غذائیت اور قوت مل سکتی ہے اور ہماری غذامیں وہ تمام اجزاءء شامل ہوتے ہیں جن سے صحت منداور صالح خون پیداہوسکتاہے جو انسان میں غیرمعمولی طاقت پیداکردے بلکہ وہ طاقت اس کوشیرکے مقابلے میں کھڑاکرسکتی ہے۔ اس کے ثبوت میں ہم پہلوان کودیکھ سکتے ہیں جوکبھی کوئی دوا کھاکرپہلوان نہیں بنتے بلکہ غذاکھاکرپہلوان بنتے ہیں ۔البتہ ان کواس بات کاعلم ہوتاہے کہ وہ کیسی غذاکھائیں اور اس کو کس طرح ہضم کریں۔
غذااورطاقت: یہ حقیقت ذہن نشین کرلیں کہ دنیا میں کوئی غذابلکہ دواایسی نہیں ہے جو انسان کوبلاوجہ اور بلاضرورت طاقت بخشے مثلاً دودھ ایک مسلمہ طورپر مقوی غذاسمجھی جاتی ہے لیکن جس کے جسم میں ریشہ اوربلغم اور رطوبات کی زیادتی ہواس کیلئے سخت مضرہے۔گویاجن لوگوں کے اعصاب میں تحریک اور تیزی وسوزش ہووہ اگردودھ کوطاقت کیلئے استعمال کریں گے توان کامرض روزبروز بڑھتاجائے گااور طاقتور ہونے کی بجائے کمزورہوتے جائیں گے۔اسی طرح مقوی اور مشہورغذاگوشت ہے ۔ہرمزاج کے لوگ اس طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایک فاضل حکیم جانتاہے کہ گوشت کاایک خاص مزاج ہے جس کسی کا وہ مزاج نہ ہواس کیلئے وہ مفید ہونے کی بجائے مضر ہے مثلاً لوگوں کے جسم میں جوشِ خون یاخون کادباؤ (ہائی بلڈپریشر)بڑھاہواہو۔ان کواگرگوشت خصوصاًبھناہوا گوشت کھلایاجائے توان کوالٹا کر مارے گا۔گویاجن لوگوں کے گردوں میں سوزش ہواس میں گوشت کااستعمال بجائے طاقت دینے کے سخت نقصان دہ ثابت ہوتاہے۔تیسری مقوی اور مشہور غذاگھی ہے جواس قدر ضروری ہے کہ تقریباً ہرقسم کی غذاتیارکرنے میں استعمال ہوتاہے۔لیکن جن لوگوں کوضعف جگرہووہ اگر گھی کااستعمال کریں گے تو ان کے ہاتھ پاؤں بلکہ تمام جسم پھول جائے گا اورسانس کی تنگی پیداہوجائے گی اور ایسا انسان جلدمرجاتاہے۔
یہی صورتیں ادویات میں بھی پائی جاتی ہیں۔دنیامیں کوئی ایسی دوامفردومرکب نہیں ہے جس کوبلاوجہ اور بلاضرورت استعمال کریں اور وہ طاقت پید ا کرے۔یہی وجہ ہے کہ آج جبکہ فن علاج کوپیداہوئے ہزارو ں سال گزرچکے ہیں کوئی حاذق اور فاضل حکیم بلاوجہ اور بغیرضرورت کسی ایک دوایاغذاکو عام طورپر مقوی(جنرل ٹانک)قرارنہیں دے سکتا ۔
غذاکھانے کاصحیح طریقہ: میں نے سالہاسال کے طبی مطالعہ اور تجربات میں کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جوصحیح اور عوامی طریق پر انسان کوغذاکھانے کے اصول بتائے۔اس میں طب یونانی کے ساتھ ویدک کتب اور ماڈرن میڈیکل سائنس کی وٹامنی تھیوری تک شریک ہیں۔لیکن قرآن حکیم ہی ایک ایسی کتاب ہے جو صحیح اور عوامی طریق پرغذا کھانے کاانسان کوصحیح طریقہ بتاتی ہے۔میںیہ بات اپنے مذہب ،ایمان اور عقیدہ کی بناء پر نہیں کہتابلکہ علم وفن اور سائنس کومدنظر رکھ کر کہتاہوں جس کومیری اس بات میں مبالغہ معلوم ہو اس کو چیلنج ہے کہ قرآن حکیم کے سیدھے سادے اوریقینی طریق غذاکے استعمال کو دنیا کی کسی طبی یا سائنسی کتاب سے نکال کردکھادے میں اس شخص کی عظمت کوتسلیم کرلوں گا۔ایک بات میں یہاں اور بیان کر دوں گاکہ میں نے گذشتہ تیس سالوں میں کسی اسلامی قا نون کواس وقت تک تسلیم نہیں کیا جب تک اس کی حکمت وسائنس اورنفسیات کے قانون کوپرکھ نہیں لیا۔البتہ بعض مقامات پردنیا کی حکمت وسائنس اور نفسیات کے اصول غلط ہوجاتے ہیں لیکن قرآن حکیم کے قوانین اور سنت الہیہ میں فرق نہیں آتا۔ کیونکہ حقیقت ہی قانون ہے اور قرآنِ حکیم سرتاپا حقیقت ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے ۔
کلو وشرابوولاتسریفو
ترجمہ:کھاؤپیو مگربغیر ضرورت کے صرف نہ کرو۔
کتنی سادگی سے تین باتیں کہہ دی ہیں اور اس میں کھا نے پینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جس قدر جس کادل چاہے کھائے پئے کوئی کمی بیشی کی مقدار مقرر نہیں کی گئی ۔زیادہ کھانے والے بھی ہوتے ہیں اور کم کھانے والے بھی۔ ہر ایک کو کھلی اجازت ہے مگر تاکیدہے کہ بغیر ضرورت کھاناپینا منع ہے۔ اس ضرورت کا اندازہ کون لگائے۔اس کیلئے ہمارے سامنے پیٹ کی طلب ہے یعنی جوکچھ وہ مانگ رہاہے وہ اس کی ضرورت ہے اس کو بھوک ہے یا جوکچھ کھایا پیا جا رہاہے وہ صرف ایک خواہش کے تحت کھایاجارہاہے ۔اگربھوک پیاس کے بغیر صرف خواہش اور لذت کیلئے کھایا پیا جارہاہے تو پھریہ اصراف ہے ۔اس کوقرآن منع کرتاہے۔بھوک اورپیاس کا کون اندازہ لگائے ۔اس کاآسانی سے اندازہ روزوں سے لگایا جاسکتاہے کہ بھوک اور پیاس کیاہوتی ہے اور اس وقت کتناکھایاپیا جاسکتاہے۔گویاصحیح بھوک اور پیاس کے اندازکے مطابق بھوک پیاس ہے تو کھایاپیاجاسکتاہے ورنہ اس سے کم بھوک اورپیاس میں کھاؤ پیوگے تویہ خواہش اور لذت ہوگی ضرورت نہیں۔
مقدارغذاکااندازہ: مقدار غذاجوایک وقت کھانی چاہیے اور شدید بھوک پر ۔بھوک کا اندازہ چاہے وہ تیسرے روزہی کیوں نہ لگے پیٹ بھرنے سے کرسکتاہے۔مثلاً شدید بھوک میں انسان اپنے علاقہ ومقام اور معمول کے مطابق تین عدد روٹیاں یاچپاتیاں یا اتنی تھالیاں بھرکرکھاسکتاہے توپھرانسان پرلازم ہے کہ جب تک اس قدر کھانے کی ضرورت نہ ہوغذا کو ہاتھ نہ لگائے ۔جولوگ کم غذاکھاتے ہیں۔ان کے پیٹ میں پہلے ہی غذاپڑی ہوئی خمیر بن رہی ہوتی ہے ۔ اس لئے وہ تھوڑی غذاکھاتے ہیں اور وہ بھی پیٹ میں غذاسے مل کر خمیر بن جاتی ہے۔اس طرح خمیر کے ساتھ تبخیر کاسلسلہ جاری رہتاہے جوبڑھ کر زہرکی صورت اختیار کرلیتاہے جس کا نتیجہ مرض ا ور ضعف کی صورت میں ظاہر ہوتاہے۔
بلاضرورت غذاضعف پیداکرتی ہے: عام طورپر اس قول وفعل اوربات و عمل پر سوفیصد یقین پایاجاتاہے کہ ضرورت وبلاضرورت غذاکھالی جائے تووہ جسم انسان کے اندرجاکریقینا طاقت پیداکرے گی۔اسی یقین کے ساتھ کمزوری اور مرض کی حالت میں بھی یہی کوشش کی جاتی ہے اور مریض کو مقوی غذادی جاتی ہے لیکن یہ نظریہ اور یقین حقیقت میں غلط ہے کیونکہ بلاضرورت غذاہمیشہ ضعف اور مرض پیداکرتی ہے۔جولوگ صحت اور طاقت کے متلاشی ہیں ان کو بلاضرورت کھانا تورہاایک طرف اس کوہاتھ لگانے اوردیکھنے سے بھی دور رہناچاہیے۔کیونکہ ہر غذاکودیکھنے اور چھونے سے بھی جسم میں لطف ولذت پیداہوتی ہے۔اس کابھی جسم پراثرہوتاہے جیسے ترشی کو دیکھ کرمنہ میں پانی آجاتاہے۔
ہضم غذا:جوغذاہم کھاتے ہیں اس کا ہضم منہ سے شروع ہوتاہے۔لعاب دہن اور منہ اور دانتوں کی حرکات ودباؤ اس کی شکل وکیفیت کوبدل کراس کو ہضم کرنے کی ابتداشروع کر دیتے ہیں ۔جب غذامعدہ میں اترجاتی ہے تو اس میں ضرورت کے مطابق رطوبت ِمعدی اپنااثر کرکے اس کوایک خاص قسم کا کیمیائی محلول بنادیتی ہے اوراس کااکثرحصہ ہضم ہوکرخون میں شامل ہوجاتاہے۔اور باقی خوراک آنتوں میں اتر جاتی ہے۔معدہ کے فعل وعمل میں تقریباًتین گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔چھوٹی آنتوں میں پھراس کی رطوبت اور لبلبہ کی رطوبت اورجگرکا صفراباری باری اوروقتاً فوقتاًشریک ہوکراس میں ہضم ہونے کی قوت پیداکرتے ہیں ۔اس عمل وفعل میں تقریباًچارگھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ پھرکہیں جاکر غذاپورے طورپر جگرکے ذریعے پختہ ہو کر خون میں شامل ہوتی ہے۔
ظاہر میں توایسا معلو م ہوتاہے کہ غذاہضم ہوگئی ہے کیونکہ وہ خون میں بن جاتی ہے لیکن طب قدیم میں صحیح معنوں میں غذااس وقت تک ہضم نہیں ہوتی جب تک وہ خون سے جداہوکر جسم پر مترشح نہ ہواور پھر طبیعت اس کوجذب کرکے جزوبدن نہ بنادے ۔ غذاکوخون بننے تک اگرگیارہ گھنٹے صرف ہوتے ہیں توجزوبدن ہونے تک تین چار گھنٹے اور خرچ ہو جاتے ہیں۔
غذاکادرمیانی وقفہ: ظاہرہ تویہ معلوم ہوتاہے کہ جب تک ایک وقت کی کھائی ہوئی غذاخون بن کرجزوبدن نہ بن جائے اس وقت تک دوسری غذانہیں کھانی چاہیے کیونکہ جوغذاہضم ہورہی ہے اس کی طرف پورے جسم وروح اور خون ورطوبت کی توجہ ہے۔جب بھی اس ہضم کے دوران میں غذاکھائی جائے گی توجوتوجہ اول غذاکی طرف ہے وہ یقینا نئی غذاکی طرف لگ جائے گی۔اس طرح اول غذاپوری طرح ہضم ہونے سے رہ جائے گی اور جہاں وہ رہ گئی ہے وہاں پڑی رہنے سے متعفن ہوجائے گی۔اور یہ تعفن باعث امراض ہوگااور یقینا طاقت پیداکرنے کی بجائے ضعف پیداکرے گی۔اگر طبیعت دوسری غذاکی متوجہ نہیں ہوگی تو یقیناوہ بغیر ہضم ہوئے پڑی رہے گی اور متعفن ہوجائے گی۔اب اصولاًاور فطرتاً پندرہ سولہ گھنٹے اس پر عمل کرنا انتہائی مشکل ہے۔اس لئے اطباء اور حکماء نے اس وقت کو زیادہ اہمیت دی ہے جس وقت ہضم میں تیزی اور طبیعت کی توجہ زیادہ ہو یہ صورت اس وقت تک قائم رہتی ہے ۔ جب تک غذاچھوٹی آنتوں سے بڑی آنتوں میں اترجائے اس عرصہ میں تقریباً پانچ سات گھنٹے لگ جاتے ہیں ۔ دوسرے معنوں میں اس طرح سمجھ لیں کہ
جب تک غذا کے ہضم میں خون کی مختلف رطوبات شامل ہوتی رہتی ہیں اس وقت تک دوسری غذانہیں کھانی چاہیے کیونکہ اس طرح وہ رطوبات جو ہضم غذامیں شامل ہوتی رہتی ہیں رک جاتی ہیں اور اس طرح وہ خراب اور نامکمل رہ جاتی ہیں ۔گویا چھ سات گھنٹے وقفہ ہر غذا کے درمیان لازمی اور یقینی امر ہے ورنہ صحت کا قائم رہناناممکن ہے ۔
روزہ اور وقفہ غذا: اسلام میں روزہ فرض ہے۔ہرسال پورے ایک ماہ کے روزے ہر بالغ اور صحیح الدماغ انسان پر فرض ہیں۔ہر روزہ کی ابتدا صبح سورج نکلنے سے تقریباً ڈیرھ گھنٹہ پہلے شروع ہوتاہے اور سورج غروب ہونے کے ساتھ ختم ہوجاتاہے۔اس حساب سے روزے کاوقفہ تیرہ چودہ گھنٹے سے پندرہ سولہ گھنٹے بن جاتاہے ۔اس وقفہ پر اگر غورکیاجائے توپتہ چلتاہے کہ ہرسال میں ایک ماہ کے روزے رکھنا ہضم غذا کے مکمل نظام کوچلانااور قائم کرناہے۔ اس طرح سارے جسم کی مکمل صفائی ہوجاتی ہے اور خون کیمیائی طورپرمکمل ہوجاتاہے اور تمام اعضاء کے افعال اور انسجہ درست ہوجاتے ہیں ۔
روزہ اور کنٹرول غذا: روزے میں سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ وقت مقررہ کے بعد نہ روزہ رکھاجاسکتاہے اور نہ ہی وقتِ مقررہ سے پہلے کھولا جا سکتا ہے ۔گویا روزہ رکھ لینے کے بعد ہرقسم کاکھاناپینا بالکل بندبلکہ کھانے پینے کی چیزوں کودیکھنا بھی اچھاخیال نہیں کیاجاتا۔اس لئے دوسروں کو تاکید ہے کہ روزہ دار کے سامنے کھانااور پینا نہیں چاہیے ۔ گویاماہ رمضان میں غذا پورے طورپر کنٹرول ہوجاتی ہے البتہ مسافر اور مریض کوغذاکی اجازت ہے اور ان کوتاکید ہے کہ وہ اپنے روزوں کی گنتی سکون اور صحت کے زمانے میں پوری کرسکتے ہیں۔
اگراس حقیقت کوسامنے رکھاجائے کہ قرآن حکیم کانزول ماہ رمضان میں ہواتو تسلیم کرناپڑے گاکہ اسلام کی ابتدا کنٹرول غذاسے ہوتی ہے اور جولوگ کنٹرول غذاکرتے ہیں ا ن کو متقی اور پرہیزگارکہتے ہیں جیسے قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
’’روزے تم پر فرض ہیں جیسے پہلے لوگوں پر فرض تھے تاکہ تم متقی اور پرہیزگاربن جاؤ”
جولوگ جائز اوراپنی حلال کی کمائی اللہ تعالیٰ کی مرضی(کنٹرول)کے بغیر نہیں کھاتے وہ دوسروں کی دولت کی طرف کیسے آنکھ اٹھاکر دیکھ سکتے ہیں۔بس یہی تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔
اس تقویٰ اور پرہیزگاری اور اطاعت ورضاالہیٰ کومدنظررکھیں اور اس طرف غورکریں کہ
ان اللہ لایحب المسرفین
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ بلاضرورت خرچ کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
اللہ تعالیٰ جوتمام طاقتوں کاخالق ہے جس سے ان کی محبت نہ رہے گی توپھر اس کوطاقت کیسے حاصل ہوسکتی ہے۔اس لئے غذا میں ضرورت کااحساس اور تصور انتہائی ضروری بات ہے اور عین حقیقت وفطرت ہے۔ باقی رہاغذا کاتوازن یعنی کس قسم کی غذاکھانی چاہیے۔اس کیلئے مزاج و ماحول اور قوت کومدنظررکھنا پڑتاہے۔یہ سب کچھ بالاعضاء ہی تسلی بخش طریق پر عمل میں آسکتاہے جس کی تحقیقات علم الغزا میں بیان کی جا سکتی ہیں۔البتہ اس حقیقت کو مدنظررکھیں کہ کسی قسم کی غذاہواس لئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ حلال اورطیب ہو جیسے قرآن حکیم میں لکھاہے۔
کلوحلال طیب
ترجمہ:حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔
جس سے مراد اللہ تعالیٰ کانام لیاگیاہویااللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق حاصل کی گئی ہو۔ طیب سے مراد ہے کہ اس شے میں نہ صرف خوشبو ہوبلکہ اس میں تازگی کی بھی خوشبوہو۔ یہاں پر یہ مقام قابلِ غور ہے کہ طیب شے کوحلال کے ساتھ بیان کیاگیاہے۔یعنی اگر وہ شے طیب نہیں ہے تو یقینا نجس ہے جس کا درجہ حرام کے بالکل قریب ہے۔
ہضم غذا: زندگی کے لازمی اسباب جن کواسباب ستہ ضروریہ کہاجاتاہے ان کی عملی حیثیت تین ہے جیسا کہ لکھاگیاہے اس کی اول صورت جسم کیلئے غذاحاصل کرنا ہے جیسے ہوا، روشنی اور ماکولات ومشروبات وغیرہ۔ان کی دوسری عملی صورت جسم میں غذاکوہضم کرکے جزو بدن بنانے کے لوازم زندگی ہیں۔یہ اسباب ضروری ہضم غذامیں اس لئے لازمی ہیں کہ اگر حرکت وسکون جسمانی،حرکت سکون نفسانی اور نیندو بیداری اعتدال پرنہ رہیں تونہ صرف ہضم غذامیں فرق پڑجاتاہے بلکہ صحت میں بھی خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔
حرکت سکون جسمانی اور ہضم غذا: حرکت ایک ایسی صفت کانام ہے جس سے کوئی جسم یاشے کسی خاص وضع(قیام وسکون)سے فعل میں آئے۔در حقیقت اس دنیا میں سکون مطلق کاوجود نہیں ہے البتہ جب اس کاذکرکیاجاتاہے تواس سے مراد حرکت سکون نسبتی ہوتاہے یعنی جب کوئی جسم بلحاظ دوسرے جسم کے کسی خاص وضع یاحالت میں فعل میں آتاہے تو اس کوحرکت کہتے ہیں۔بہرحال یہ نسبتی حرکت وسکون اپنے خواص واثرات رکھتے ہیں جب کوئی جسم حرکت میں آتاہے تو اس کے ساتھ ہی جسم کاخون حرکت میں آتاہے اور جسم کے جس حصے کی طرف سے حرکت کی ابتداہوتی ہے اس طرف روانہ ہوجاتاہے۔پھر طبیعت اس کو سارے جسم میں پھیلادیتی ہے۔اس طرح خون کی تیزی اور شدت بدن کوگرم کردیتی ہے ۔اس لئے کہاجاتا ہے کہ حرکت جسم میں گرمی پیداکرتی ہے اور اس کی زیادتی جسم کوتحلیل کردیتی ہے۔اس کے مقابلے میں سکون جسم میں سردی پیداکرتاہے۔اس سے خون کی حرکت سستی اور رطوبت میں زیادتی ہوجاتی ہے گویا نسبتاً ہرحرکت ہرسکون کے مقابلہ میں گرمی وخشکی اور تیزی کاباعث ہواکرتی ہے۔اس کے ساتھ ہی خون جسم کے جس حصہ میں پہنچتاہے ۔وہاں پر اپنی حرارت سے وہاں کے اعضاء میں تیزی اور گرمی پیداکرکے وہاں کی غذاکو ہضم کرتاہے اور مواد کوتحلیل کرکے خارج کرتاہے اور اپنی تیزی سے وہاں کی رطوبات خشک کرتاہے۔
حرکت کاتعلق عضلات سے ہے: اس امرکوذہن نشین کرلیں کہ جسم انسان میں ہرقسم کی احساسات اعصاب کے ذمہ ہیں جن کامرکز دماغ ہے اور ہرقسم کی حرکات جوجسم میں پیداہوتی ہیں ان کاتعلق عضلات سے ہے جن کا مرکز قلب ہے۔اسی طرح جسم کوجوغذاملتی ہے اس کاتعلق غدد سے ہے جن کامرکز جگر ہے اوریہی اعضائے رئیسہ ہیں۔ جب جسم میں یا اس کے کسی عضومیں حرکت ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی قلب کے فعل میں تیزی آجاتی ہے۔اس کے فعل میں تیزی کے ساتھ ہی وہ جسم کے خون کوجسم میں تیزی کے ساتھ روانہ کرناشروع کردیتاہے جس کے ساتھ ہی جسم میں حرارت بڑھنی شروع ہوجاتی ہے۔جس کے نتیجہ میں ریاح کااخراج ہوناشروع ہوجاتاہے اور جہاں جہاں پر غیر ضروری رطوبات اور مواد جمع ہوتے ہیں طبیعت ان کو تحلیل کرناشروع کردیتی ہے۔اس کے ساتھ ہی دوران خون کی تیزی کے ساتھ اس کادباؤغدد کی طرف بڑھ جاتاہے اور وہ جسم کوزیادہ سے زیادہ غذا حرارت کی صورت میں دینا شروع کردیتے ہیںجواس میں شریک ہوتی ہے،ساتھ ہی بھوک بڑھ جاتی ہے اور غذازیادہ سے زیادہ ہضم ہوتی ہے جس کا لازمی نتیجہ خون کی زیادتی وصفائی اور طاقت میں ظاہر ہوتاہے۔ ان حقائق سے ثابت ہواکہ حرکت جسم میں حرارت وخون اور قوت وصفائی پیداکرتی ہے اور اس کے برعکس سکون سے جسم میں سردی اور کمی خون اور کمی قوت اور زیادتی مواد کاپیداہونا لازمی امرہے۔بس یہی دونوں صورتوں کابین فرق ہے۔
حرکت اور حرارت غریزی: جاننا چاہیے کہ بدن انسان کایہ کام ہے کہ جوچیز بدن انسان میں از قسم اغذیہ واشربہ وغیرہ خارج سے اور رطوبت و مواد اوراخلاط وغیرہ داخل بدن سے کسی بے محل جگہ یاغیر طبعی حالت سے کسی عضوبدن میں وارد ہوں اس میں حرارت غریزی اپنا فعل کرتی رہتی ہے۔ چونکہ اس دوام فعل اور محنت سے حرارت غریزی میں ضعف پیداہوجانایقینی امرہے اور ضعف وکسل وغیرہ افعال کے لاحق ہونے سے اس کے فضلات کی تحلیل سے عاجز ومجبورہوتی ہے۔اس وجہ سے تھوڑاتھوڑامواداور فضلہ جمع ہوکر کافی مقدارمیں حرارت غریزی کومغلوب کردیتاہے ۔اس لئے حرکات کی طلب ضروری ہوجاتی ہے تاکہ اس سے ایک دوسری گرمی پیداہواور اس کی مدد سے طبیعت مواد اور فضلات کو تحلیل کردے۔اگرچہ مواد اور فضلات قے واسہال اور پسینہ کے ذریعہ سے خارج ہوسکتے ہیں مگر ان طریقوں سے ان کا اخراج ضعف جسم کاباعث ہوتاہے۔دوسری طرف متعلقہ اعضاء میں قوت اخراج کوفطری طورپرکمزورکردیتاہے اور یہ مسلسل عمل ہمیشہ کیلئے انسا ن کوہلاکت کے قریب کردیتاہے۔اس لئے اس کاعلاج حرکات جسم کو متوازن کرنالازمی امرہے ۔یہی حرکات کااحتیاج ہے گویاحرکت جسم حرارت غریزی کیلئے بہترین مددگار ہے اورمحافظ صحت وقوت ہے۔
تحریک قدرت کافطری قانون ہے: خداوندحکیم کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ضرورت بدن انسان کیلئے ایک تحریک پیداکی گئی ہے مثلاًغذاکیلئے بھوک،پانی کیلئے پیاس اور نیند کیلئے اونگھ وغیرہ۔چونکہ انسانی طبیعت کااعتدال پر قائم رہنامشکل ہے اس لئے ان تحریکات میں اکثر کمی ہوتی رہتی ہے اس سے ماکولات ومشروبات اور آرام میں بے اعتدالی پیداہوجاتی ہے۔بس انہی ضروریات کوقائم رکھنے کیلئے یہ تحریکات پیداکی گئی ہیں۔پس محرکات فطری طورپرقدرت کی طرف سے پیدانہ کئے جاتے تولازمی امر تھا کہ انسان اپنی مطلوبہ ضروریات مذکورہ سے غافل ہوجاتا جس کانتیجہ لازمی طورپریہ ہوتاکہ بدن انسان میں خلل واقع ہوجاتا۔اس سے ہلاکت تک کی نوبت پہنچ سکتی تھی۔اس لئے جب انسان کی ان تحریکات میں خلل واقع ہوجائے تواس کوصحت کی خرابی سمجھناچاہیے اور ان تحریکات کواعتدال پرلانے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے نہ صرف صحت قائم رہتی ہے بلکہ طاقت بھی پیداہوتی ہے۔
حرکات کی فطری صورت: ضروریات زندگی خصوصاً ماکولات ومشروبات کیلئے انسان میں جو احتیاج پیداکی گئی ہے اس کیلئے انسان کولازمی طورپر بھاگ دوڑاور جدوجہد کرناپڑتی ہے۔بس یہی کوشش اس میں فطری طورپراس کی تحریکات کوبیداررکھتی ہے لیکن افراد کواپنی ضروریات زندگی کیلئے یہ جدوجہدکرنی پڑتی ہے ۔بس یہی کوشش اس میں فطری طورپراس کی تحریکات کو بیداررکھتی ہے لیکن افراد کواپنی ضروریات زندگی کیلئے یہ جدوجہد اور کوشش نہیں کرناپڑی ۔بہرحال ان تحریکات کوتیزکرنے کیلئے حرکات کاکرنالازمی امرہے۔اس مقصد کوحاصل کرنے کیلئے حکماء نے ریاضت اور ورزش کی مختلف صورتیں پیداکی ہیں تاکہ انسان اپنی تحریکات اور صحت کو قائم رکھ سکیں جوزندگی کیلئے لازم ہیں۔
ریاضت کی حقیقت: ریاضت انسان کیلئے ایک اختیاری حرکت کانام ہے جیسے ورزش ودوڑ،کھیل کود،سیروگھوڑسواری، کُشتی لڑنا اور کَشتی چلانا۔ اسی طرح ہاتھ پاؤں کی مختلف پے درپے حرکات سے ریاضت کی صورتیں پیداکی جاتی ہیں اگرچہ عوام وخواص بلکہ ورزش ماسٹر بھی اس علم سے واقف نہیں ہیں کہ مختلف اقسام کی ورزشیں اور ریاضت سے کس قسم کے اعضاء متاثرہوتے ہیں۔کس عضو کی تقویت کیلئے کس قسم ورزش اور ریاضت ضروری ہے کیونکہ لوگ افعال الاعضاء اور تشریح انسانی سے واقف نہیں ہوتے۔بہرحال عمومی طورپر ریاضت اور ورزش بے حد مفیدعمل ہے۔اگرورزش یا ریاضت کے متعلق یہ پتاچل جائے کہ کس قسم کے کھیل ہمار ے جسم پرخاص طورپراعصاب و دماغ،عضلات وقلب اور جگر وگردوں پراثرانداز ہوسکتے ہیں توایسی ریاضت اور ورزش بہت مفیدہوتی ہے۔
حرکت وسکون نفسانی: نفس کی ایسی حرکت جوضرورت کے وقت کبھی جسم کے اندراور کبھی جسم کے باہرظاہرہوجس کے ساتھ حرارت جسم بھی کبھی اندر کی طرف چلی جاتی ہے اور کبھی باہر کی طرف ظاہرہوتی ہے۔اس کو حرکت و سکون نفسانی کہتے ہیں۔نفس سے مراد نفس انسانی ہے جس کونفس ناطقہ کہتے ہیں جس کا تعلق اور ربط انسان کے قلب سے ہے جو اپنے معانی جزئیہ اورمفہومات کو بذریعہ مختلف قوتوں کے ادراک کرتاہے۔پھر اس کی تین صورتیں ہیں نفس امارہ(غیرشعور)،نفس لوامہ(نیم شعور)اور نفس مطمعنہ(شعور)۔
حرکت وسکون نفسانی کی ضرورت: یہ محال ہے کہ کوئی نفس انسانی اس عالم میں فکر زندگی اور آخرت یا ضرورت معاش و معاشرت یا محبت اولاد یا عمل حبیب یا لطف ولذت سے رغبت یا موذی مرض کاخوف یا دشمن سے خطرہ ونفرت وغیرہ کیفیات و عوارض کے ردعمل اور انفعلات سے متاثرنہ ہوچنانچہ یہی تقاضے نفس انسانی کے ضروریات کے حصول ودفع کی غرض سے باعث حرکت بدن ہوتے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ اگر عوارض مذکورہ کا عارض ہونا ضروری ہے تو ا ن کے ردعمل سے متاثر ہونا بھی یقینی امرہے ۔اس سے روح قلب کو تحریک دے گی اورقلب کی تحریک کے ساتھ خون میں گردش شروع ہوجائے گی جس سے وہ خون شعوری یا غیر شعور ی طورپر اپنا شوق اور دفع پوراکرے گا۔پس جو عوارض و کیفیات اس کیلئے نافع اور بہتر ہوں گے ان کاوہ طالب ہوگااور ان کا وہ شوق کرے گااور وہ جو اس کیلئے مضر اور تکلیف کا باعث ہوں اس سے وہ بھاگے گااور ان کو دفع کرتارہے گا۔ بس انسان کی ان طلب وفرار اور شوق ودفع حرکات ہی سے ہوسکتی ہے بس انہی کیفیات و عوارض کے ردعمل کا نام حرکت وسکون نفسانی ہے ۔
نفس بذات خود متحرک نہیں ہے: کہا تو یہ جاتاہے کہ ’’حرکت و سکون نفسانی‘‘لیکن حقیقت یہ ہے کہ نفس بذاتِ خود متحرک نہیں ہے بلکہ حرکت قویٰ کو ہی لاحق ہوتی ہے جو بذریعہ ارواح محرکہ ظہورمیں آتے ہیں۔اس لئے قویٰ متحرک ہیں اورارواح محرک ہیں۔ ان کے اعمال سے جن جذبات کا اظہار ہوتاہے انہی کوہی حرکت وسکون نفسانی کہتے ہیں۔مگر یہ امربھی یہاں ذہن نشین کرلیں کہ ارواح (یہاں روح سے مراد روح طبی ہے جس کا حامل خون ہے) کوحرکت بھی بذاتِ خود نہیں ہوتی بلکہ حسبِ ضرورت اور ارادہ نفس ناطقہ سے ہوتی ہے جس طرح کوئی مشین خودبخود متحرک نہیں ہوتی جب تک کہ اس کوحرکت دینے والاکوئی نہ ہواس لئے یہاں حرکت وسکونِ کالفظ مجازاً ہی استعمال کیاجاتاہے۔
نفس میں حرکت وسکون کی صورتیں: نفس ضرورت کے وقت کبھی جسم کے اندرکبھی جسم کے باہر حرکت کرتاہے جس کے ساتھ خون اور اس کی حرارت بھی کبھی اندرکی طرف چلی جاتی ہے اور کبھی باہر کی طرف نمایاں طورپرظاہر ہوتی ہے۔پھراس کی تین صورتیں ہیں۔(۱)حرکت کادفعتاًاور یک لخت اندریا باہر کی طرف جانا۔(۲)نفس کابیک وقت کبھی اندراور کبھی باہرحرکت کرنا۔(۳)آہستہ آہستہ اندریاباہر کی طرف جانا۔یہ بات یادرکھیں کہ نفس جس طرف حرکت کرتاہے وہاں پر دورانِ خون تیزہوکرحرارت پیداکرتاہے جہاں سے حرکت کرکے جاتاہے وہاں پردورانِ خون کی کمی ہوکرسردی پیدا ہو جاتی ہے۔
یہ امرذہن نشین کرلیں کہ حرکت وسکون نفسانی دراصل نفس کی حرکت وسکون نہیں ہے کیونکہ نفس اپنامفاد نہیں بدلتاایسا صرف مجازاً کہاجاتاہے۔در حقیقت نفس کے تاثرات اور انفعالات (رد عمل )روح طبعی اور خون میں حرکت پیداکردیتے ہیں۔باالفاظِ دیگر یہ تاثرات اور انفعالات صالح اور فطرت کے مطابق ہوں تو حامل قوت و صحت اور باعثِ نشووارتقائے جسم ہوتے ہیں۔انہی کواسلام لفظ دین سے تعبیرکرتاہے۔
یہ حرکت سکون نفسانی بدن کیلئے ویسی ہی ضروری ہے جیسی حرکت سکون بدن کیونکہ بدنی حرکات کادارومدار ہواو ہوس اور خواہشات وجذبات نفسانیہ پر ہے۔جیسے شوق کے وقت طلب کی حرکت ، نفرت کے وقت بیزاری کی صورت غصے کے وقت چہرے کا سرخ ہوجانا۔ یہ سب کچھ روح اورخون کے زیر اثررہتے ہیں اور اس کے برعکس نفسانی سکون کی ضرورت اس لئے ہے کہ روح اور خون کو نسبتاً آرام حاصل ہوکہ ان میں کمی واقع نہ ہواور جسم کو تحلیل ہونے سے بچایاجائے۔
جانناچاہیے کہ نفس جب کسی مناسب یامخالف شے کاادراک حاصل کرتاہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ مناسب کو حاصل کرنا اورمخالف سے بچنا چاہتا ہے ۔اس وقت وہ اپنی نفسانی قوتوں کوحرکت میں لاتاہے اگراس حرکت وسکون میں تسلسل قائم رہے تو باعث مرض وضعف اور رفتہ رفتہ باعث موت ہے اور بعض اوقات ان کی یک بارگی شدت دفعتاً زندگی ختم کردیتی ہے۔جیسے شادی مرگ اورغم مرگ کی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں۔انسان کے انہی تاثرات اور انفعالات اور خواہشات وجذبات کامطالعہ اور نتائج سے جو صورتیں پیداہوتی ہیں اس کو علم نفسیات کہتے ہیں۔
نفسانی جذبات کی حقیقت: نفسانی جذبات کو سمجھانے کیلئے اور انتہائی سہولت کی خاطر جس کاذکر قدیم وجدیدبلکہ ماڈرن نفسیات میں بھی نہیں ہے۔ہم نے ان کو طب مفرد اعضاء کے تحت اعضائے رئیسہ کے مطابق تین حصوں میں تقسیم کردیاہے۔ہر مفردعضو(نسیج)کیلئے دوجذبے مخصوص کر دئیے ہیں۔ان جذبوں میں ایک عضوانبساط سے پیدا ہوتا ہے اور دوسراانقباض سے۔ان کی ترتیب یہ ہے۔
۱۔دل: عضلات میں انبساط سے مسرت اور انقباض سے غم پیداہوتاہے۔
۲۔دماغ: اعصاب میں انبساط سے لذت اور انقباض سے خوف پیداہوتاہے۔
۳۔جگر: غددمیں انبساط سے ندامت اور انقباض سے غصہ پیداہوتاہے۔
لیکن یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ جب دل،دماغ اورجگر(عضلات،اعصاب اور جگر)کے کسی ایک نسیج (ٹشو)میں کسی خاص قسم کی تحریک پیداہوگی تو باقی دو اعضاء میں بھی کوئی نہ کوئی حالت ضرورپائی جائے گی۔ مثلاًاگر اعصاب میں تحریک ہوگی تویہ ضروری بات ہے کہ غددمیں تحلیل اور دل میں تسکین ہوگی۔گویااس امرکالحاظ رکھنا ضروری ہے کہ جب کسی جذبہ کے تحت کسی عضو کامطالعہ مقصودہوتوباقی اعضاء کونظر اندازنہ کیاجائے۔اس طرح تمام جسم کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔یہ وہ علمِ نفسیات ہے جس کے علم سے ماڈرن سائنس اور جدیدعلم نفسیات بھی بے خبر ہے۔
نفسیاتی اثرات: جسم انسانی پر نفسیاتی اثرات اور انفعالات کی تین مقابل صورتوں کے کل چھ جذبات ہیں۔ (۱)مسرت(۲)غم(۳)لذت(۴) خوف(۵)غصہ(۶)شرمندگی۔یہ چھ بنیادی جذبات ہیں ان کے تحت ہی باقی دیگر جذبات پائے جاتے ہیں۔ان کی مختصرتفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔مسرت میں نفس بغرض حصول مرغوب شے قلب سے بدن کی طرف رفتہ رفتہ متحرک ہوتی ہے۔بشرطیکہ بے انتہاخوشی کی کیفیت نہ ہوورنہ یکدم متحرک ہوگی۔خوشی کاحالت میں چہرہ سرخ ہوجائے گا۔
۲۔غم میں نفس موذی پر قادرنہ ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ داخل بدن یعنی دل کی طرف حرکت کرتاہے اور چہرے کارنگ زرد ہوجاتاہے۔
۳۔لذت کی حالت میں بغرض قیام مرغوب شے نفس رفتہ رفتہ کبھی اندراور کبھی باہرکی طرف حرکت کرتاہے۔
۴۔خوف میں نفس موذی کے مقابلے میں ناامیدہوکر یکبارگی داخل جسم رجوع کرتاہے۔ کمی خوف میں یہ عمل رفتہ رفتہ ہوتاہے اور چہرہ سفیدہوجاتاہے
احتباس واستفراغ: اسباب ستہ ضروریہ کی جوتین صورتیں ہیں یعنی( اول)جسم کیلئے غذائیت مہیاکرناجیسے ہوااور روشنی اورماکولات ومشروبات۔ (دوم)جسم میں غذائیت کوہضم کرکے جزوبدن بناناجیسے نیندو بیداری اورحرکت و سکون جسمانی اورسکون نفسانی۔(سوم)جسم کے اندرغذائیت کا ایک مقررہ وقت تک رکے رہناتاکہ ہضم ہوکر جزو بدن بن جائے اورجب اس کی ضرورت نہ ہوتوفضلات کی صورت میں خارج کردینا۔اس کواحتباس واستفراغ کہتے ہیں۔
استفراغ کے معنی ہیں مواداورفضلات کااخراج پانااور طبی اصطلاح میں لفظ استفراغ سے ان چیزوں کابدن سے خارج کرنامرادہے تاکہ اگروہ چیزیں باقی رہ جائیں توبدن میں طرح طرح کے فسادپیداہوکرافعال انسانی سلیم طورسے صادر نہ ہوں۔اس کے برعکس احتباس کے معنی ہیں غذائی اجزاءاور فضلات کاجسم میں رکنااوربوقت ضرورت اخراج نہ پانا دراصل یہ ایک دوسرے فعل کی ضدکااظہارہے ورنہ دونوں میں سے کسی ایک لفظ کاہوناہی کافی ہے۔کیونکہ قادر مطلق نے طبیعت مدبرہ بدن پیداکی ہے۔لہٰذاحسب طاقت وہ مناسب راستوں سے فضلات مذکورہ دفع پرہمیشہ سر گرم رہتی ہے لیکن بعض اوقات ایسی رکاوٹیں پیش آجاتی ہیں کہ اس کے دفع فضلات اور مواد میں کمی بیشی واقع ہو جاتی ہے گویا استفراغ اوراحتباس کااعتدال صحت ہے اور ان میں کمی بیشی کاہونامرض میں داخل ہے۔
فضلات کی حقیقت: فضلا ت دراصل اضافی لفظ ہے۔حقیقت میں اس کائنات اورزندگی میں فضلات کوئی شے نہیں ہیں۔جن موادکی کسی جسم کیلئے ضرورت نہیں ہوتی تووہ اس کیلئے فضلات بن جاتے ہیں۔اکثرایساہی ہوتاہے کہ جسم کے اندر غیرضروری غذائی اجزاء یامفید موادجن کوطبیعت قبول نہیں کرتی یاطبیعت کوجن کی ضرورت نہیں ہوتی وہ سب فضلات میں شامل ہیں۔فضلات سے مراد فاضل سے ہے یعنی جوچیززائدیافالتوہو۔
جوغذاکھائی جاتی ہے تندرستی کی حالت میں جسم کاایک خاص حصہ جذب کرکے جزوبدن بنادیتاہے اورباقی کوفضلات کی شکل میں خارج کردیتاہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ فضلات میں جسم انسان کیلئے غذائیت باقی نہیں رہتی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس قدراچھی صحت ہوتی ہے اوراعضاء مضبوط ہوتے ہیں اسی قدر زیادہ غذائی اجزاءجذب اور جزوبدن بنتے ہیں اور فضلات کم خارج ہوتے ہیں یابعض اعضاء میں اس قدرتیزی ہوتی ہے کہ وہ غذا کو پورے طورپر ہضم کئے بغیر خارج کردیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جن مریضوں کے اعضاء میں افراط وتفریط اورضعف ہوتاہے وہ جتنی بھی زیادہ سے زیادہ غذاکھائیں ان کے اندر طاقت اور خون کی مقدار میں زیادتی نہیں ہوتی۔سوال غذاکی قلت اورکثرت اوراعلیٰ وادنیٰ کانہیں ہے بلکہ اعلیٰ درجہ کی صحت اور مضبوط اعضاء کاہے جس سے خودبخودزیادہ غذاہضم ہوتی ہے اور جزو بدن بنتی ہے جس کانتیجہ خون کی کثرت اورطاقت کی زیادتی ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بدن کے وجود اور اس کی طاقت کادارومدارغذاپر ہے کیونکہ خون کی تعمیراورتکمیل صرف غذاپرہوتی ہے دواسے نہیں ہوتی کیونکہ دواجزو بدن نہیں ہوتی اورنہ ہی خون کاجزوہے۔دواصرف اعضائے جسم میں تحریک اور شدت کاباعث ہوتی ہے۔جس سے اعضائے جسم اپنے مفیداجزاءخون میں شامل کرکے اس میں تعمیراورتکمیل کرتے ہیں لیکن غذاکوئی بھی ایسی نہیں ہے جوساری کی ساری جزوبدن جائے اور اس کا فضلہ نہ بنے۔ پھر اگریہ فضلہ باقی رہے اور اس کااخراج نہ ہوتوبدن میں فاسدمادے اکھٹے ہوجاتے ہیں جن مواد کوفضلات کی صورت میں خارج ہوناچاہیے تاکہ اس کی جگہ نیا موادبنے یاموادسے اس راہ گذرمجراری کوغذائیت اور تقویت حاصل ہو۔اس لئے استفراغ کی انتہائی ضرورت ہے اور احتباس کی ضرورت اس لئے ہے کہ غذاکچھ عرصہ جسم میں ٹھہرے تاکہ اس جوہر طبیعت حاصل کرلے۔
استفراغ واحتباس کا اعتدال صحت اور طاقت کیلئے نہایت ضروری اور مفیدہے۔استفراغ کی زیادتی بدن میں خشکی پیدا کرتی ہے اور احتباس کی زیادتی جسم میں فضلات کی زیادتی کی وجہ سے اس کوبوجھل بنادیتی ہے جس سے اکثر سدے اور تعفن پیداہوتاہے۔
استفراغ کی صورتیں: جسم انسان سے استفراغ کی مندرجہ ذیل تین صورتیں ہیں ۔(۱)طبعی فضلات۔(۲)غیرطبعی فضلات۔ (۳) مفیدفضلات۔
طبعی فضلات: طبعی فضلات وہ ہیں جوہمارے مجاری اور اعضاء سے طبعی طورپرضرورت کے مطابق خارج ہوتے ہیں مثلاً نزلہ،زکام،کان کامیل،آنکھ کے آنسو،لعاب دہن،بلغم،بول وبراز،حیض اورمنی وغیرہ۔ان کے اخراج ایک طرف مجاری اور اعضاء جہاں سے وہ گزرتے ہیں ان کونرم رکھتے ہیں دوسرے وہاں کی سوزش وغیرہ کودورکرتے ہیں۔ اگر ان کے اخراج میں کمی بیشی واقع ہوجائے توباعث امراض ہوتے ہیں۔جب ان میں کمی واقع ہوتی ہے تو ذیل کی صورت اختیارکرجاتی ہے ۔
۱۔مسہلات: بذریعہ دست آورادویات ناقص اخلاط، مواداور متعفن فضلات کاانسانی بدن سے خارج کرنا۔اس کی دو اقسام ہیں (۱)بذریعہ ادویہ مشروبہ یعنی کھانے پینے کی ادویہ(۲) بذریعہ حقنہ اور عمل احتقان (بذریعہ)پچکاری۔
۲۔مدرات: پیشاب آورادویات اور آلات وغیرہ کے ذریعے مواداور فضلات کااخراج۔
۳۔تصریحات: بذریعہ پسینہ،حمام یابھپارہ اور دیگر اعمال سے براہ مسامات بدن سے متعفن اخلاط ومواداور فضلات کااخراج۔
۴۔مقیات: قے آورادویات یادیگر اعمال کے ذریعے مواداورفضلات کاجارج از جسم کرنا۔
۵۔حجامت: شگاف رگ،پچھنے اورنشتروغیرہ کے ذریعے ردی اخلاط ومواد اورفضلات بدن کاانسان کے بدن سے خارج کرنا۔
۶۔انزال: جماع کے ذریعے غیرمفیداور ردی موادوفضلات کابدن سے خارج کرنا وغیرہ۔
غیرطبعی فضلات: ایسے ناقص مواد ہیں جوخون سے پیداہوجاتے ہیں جن سے خون کامزاج اور اخلاط یا اس کے عناصر میں کمی بیشی واقع ہوجاتی ہے یا خون رگوں کے اندریاباہر متعفن ہوجاتاہے۔جب ایسے غیرطبعی فضلات رک جاتے ہیں توان کے اخراج کی صورت بھی مندرجہ بالاطریق پرکی جاتی ہے البتہ ضرورت کے مطابق ادویات بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔
۳۔ مفیدفضلات: دراصل یہ فضلات نہیں ہوتے چونکہ جسم سے اخراج پاتے ہیں یا ان کواخراج پاناچاہیے اس لئے ان کوفضلات کہہ دیاگیاہے مثلاًجسم میں غیرمعمولی کیفیاتی و نفسیاتی اور مادی تحریکات ہوکرمفیدرطوبات وخون اور منی کااخراج پاناجس میں مذی اور ودی بھی شریک ہیں ۔رطوبات کی صورت میں لعاب دہن،آنسو،مذی اور ودی ہیں۔خون کی صورت میں نفث الدم،قے الدم،نکسیر ،زحیرخونی اوربواسیروغیرہ ہیں۔منی کی صورت میں جریان و احتلام اور سرعت انزال ہیں۔کبھی مفیدرطوبات وخون اور منی کے اخراج کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ طبیعت کارجحان اس طرف زیادہ ہو۔ ان چیزوں کی پیدائش بڑھے۔اس مقصدکیلئے کیفیاتی ونفسیاتی اور مادی تحریکات لطف ولذت اور سمعی وبصرنوازی کے ساتھ ساتھ جذبہ شوق ومحبت کے بھڑکانے سے بھی پیداکی جاتی ہیں۔یہاں تک کہ اطباء اورحکماء نے ا س کی آخری حد جماع رکھی ہے اور یہی ضرورت عقد اور نکاح ہے۔استفراغ و احتباس میں یہ اہم مقام ہے۔اس لئے ہم نے ستہ ضروریہ کاباب قائم کیاہے۔جنسی امراض میں عام طورپریہ سمجھ لیاگیاہے کہ صرف مجربات و مرکبات ہی کافی ہوسکتے ہیں۔کوئی شک نہیں کہ مجربات کاعلاج بہت بڑامقام رکھتاہے لیکن جب تک ستہ ضروریہ سامنے نہ ہوں خصوصاً احتباس واستفراغ کی اہمیت کومدنظرنہ رکھاجائے جنسی امراض کاعلاج کیسے ممکن ہوسکتاہے۔ اگرصرف مجربات تک ہی ممکن ہوتاتوہرقسم کے مجربات کی کتب کی اس قدر کثرت ہے کہ مزیدمجربات کی ضرورت نہیں ہے۔مگرہم دیکھتے ہیں کہ طبی دنیامیں جنسی مجربات کی آج پہلے سے بھی زیادہ ضرورت وطلب ہے۔اس کی وجہ صرف ہے کہ مرض کی تشخیص اور صحیح دواکی تجویزآج بھی ضرورت باقی ہے اور وہ لوگ بہت بڑی غلطی پرہیں جوبغیر تشخیص اور بغیر صحیح تجویز کے صرف جنسی مجربات طلب کرتے ہیں۔ جنسی امراض کی حقیقت اور ان کیلئے صحیح دوا اور غذاکے اصول اور مجربات کیلئے ہماری کتاب تحقیقات وعلاج جنسی امراض کامطالعہ کریں۔
غذا اورحفظانِ صحت
حفظانِ صحت کے اہم عناصرحسبِ ذیل تین ہیں۔
۱۔ صحت کے قیام کیلئے بدل مایتحلل کی جوضرورت ہے وہ ایک مسلمہ امرہے اوربدل مایتحلل ہمیشہ اغذیہ واشربہ سے حاصل کیاجاتاہے۔اس لئے حفظانِ صحت میں سب سے اول چیزاغذیہ واشربہ ہیں کہ ان کواپنی ضرورت کے مطابق صحیح اصولوں پر استعمال کیاجائے اور ان سے بدل مایتحلل حاصل ہو۔
۲۔ غذاکے بعد دوسری اہم چیزیہ ہے کہ انسان کے جسم میں غذاکھانے کے بعدجوفضلات اکٹھے ہوتے ہیں ان کا باقاعدگی کے ساتھ اخراج ہوتارہے۔ اس کی صورت جسم کواعتدال کے ساتھ حرکت دینے اورکام میں لگانے سے عمل میں آتی ہے جس میں ورزش بھی شامل ہے کیونکہ سکون محض جسم میں فضلات کوروک دیتاہے۔
۳۔ انسان اپنی قوتوں کوضرورت سے زیادہ خرچ ہونے سے بچائے اورضرورت سے زیادہ جسمانی ،دماغی محنت اور حرکت سے یہ قوتیں ضائع ہونے لگتی ہیں۔
یہ تینوں باتیں اگر اعتدال پرقائم رہیں توصحت انسانی کی حفاظت اچھے طریق پرہوسکتی ہے۔اس مقصد کیلئے اسباب ستہ ضروریہ جن کاذکر گزشتہ صفحات میں کیاگیاہے بہت حدتک کافی ہیں لیکن بعض اہم باتوں کاذکر مندرجہ بالاتین اصولوں کے متعلق کیاجاتاہے جوصحت کیلئے بے حدمفیدہیں۔
۱۔اغذیہ واشربہ: غذاکی مقدار میں اعتدال کوقائم رکھنااورغذاکے استعمال کے بعد کچھ سکون کرناضروری ہے۔
نوٹ: غذاکھانے سے قبل یہ ضروری ہے کہ بھوک شدت سے لگی ہوئی ہو۔بغیربھوک کے کبھی غذاکی طرف ہاتھ نہیں بڑھاناچاہیے۔بھوک میں بھی اس امرکوملحوظ رکھاجائے کہ وہ دو قسم کی ہوتی ہے۔(۱)اشتہائے صادق۔ (۲) اشتہائے کاذب۔
اشتہائے صادق کی صفات یہ ہیں کہ جسم میں فرحت ہوگی اور وہ ہلکااور گرم معلوم ہوگا۔ غذاکھاتے ہوئے لذت محسوس ہوگی۔اشتہائے کاذب میں یہ باتیں نہ ہوں گی بلکہ کمزوری محسوس ہوگی۔دل میں گھٹنے کی سی حالت پائی جائے گی اورکھانے میں بے دلی سی قائم رہے گی۔ کھانے کے بعدجسم بے حد سست اور بوجھل رہے گا۔بلکہ بعض اوقات حرکت کرنے کوجی نہیں چاہتا۔ہرغذاپہلی غذاکے ہضم ہونے کے بعد کھانی چاہیے اگرچہ بھوک ہی کیوں نہ لگی ہوئی ہواور اشتہائے صادق کی تمام علامات پائی جائیں کیونکہ ہرغذاجوہم کھاتے ہیں اس کے ہضم ہونے میں کم سے کم چھ سات گھنٹے خرچ ہوتے ہیں اس کے بعد وہ غذامعدے اورچھوٹی آنتوں سے اترکربڑی آنتوں میں چلی جاتی ہے۔اگر چھ سات گھنٹے سے قبل کھا لیاجائے توطبیعت جوپہلی غذا کی طرف مصروف ہوتی ہے اس کو ہضم کئے بغیرچھوڑدے گی اور دوسری طرف مصروف ہوجائے گی۔اس سے پہلی غذامیں تعفن وفسادپیداہوجائے گا اگر دوسری کی طرف توجہ نہ دے تواس میں تعفن اور فسادکاپیداہوناضروری ہے۔
ایک وقت میں مختلف غذاؤں کااکٹھاکھانادرست نہیں ہے۔اغذیہ میں بعض لطیف اوربعض کثیف ہوتی ہیں اور طبیعت لطیف اغذیہ کوجلدی ہضم کرلیتی ہے اور ثقیل اغذیہ دیرتک اندرپڑی رہتی ہیں۔نیزبعض اغذیہ ایک دوسری کی ضدہوتی ہیں مثلاً مچھلی اور دودھ،ترشی اوردودھ،ستواوردودھ،انگوراور سری کاگوشت،اناراورہریسہ ،چاول اور سرکہ ان کوایک ساتھ کھانے سے پرہیزکرناچاہیے۔
اگرغذاچرب ہوتواس کے ساتھ نمکین یاچرپری چیزیں کھائی جائیں اور اسی طرح اس کے برعکس بہتریہ ہے کہ ہمیشہ ایک ہی غذانہ کھائی جائے بلکہ تبدیلی کے ساتھ کھائی جائے۔ بھوک کاروکنامناسب نہیں کیونکہ ایساکرنے سے معدے کی طرف خراب موادکرتے ہیں ۔غذادن کے معتدل وقت میں کھانی چاہیے۔موسم سرمامیں دوپہر کے وقت اور موسم گرمامیں صبح وشام کھانامناسب ہے۔کھانے سے مراد یہاں پیٹ بھرکرکھانااور پورا کھانامراد ہے۔
ایک ہی قسم کے کھانے باربارکھانے سے اورایک ہی ذائقہ باربار استعمال کرنے سے جسم میں نقصان پیداہوتاہے مثلاً ترش غذاؤں کے بکثرت اور متواتراستعمال سے بڑھاپاجلد آتاہے۔نزلہ زکام اکثررہتاہے اعضاء میں خشکی پیداہوجاتی ہے اور اعصاب کمزورہوجاتے ہیں۔اسی طرح نمکین چیزیں بدن کولاغراوردل میں ضعف پیداکرتی ہیں۔میٹھی چیزیں بھوک کوضعیف اوربدن کولاغرکرتی ہیں۔ان کی مضرت کوترش غذاسے ، ترش غذاکی مضرت کومیٹھی غذاسے دفع کرناچاہیے۔اکثرپھیکاکھانے سے بھوک جاتی رہتی ہے اوربدن میں سستی پیداہوجاتی ہے۔اس لئے اس کی مضرت کونمکین اورچرپری چیزوں کے استعمال سے دوررکھناچاہیے۔
مشروبات: مشروبات میں مندرجہ ذیل تین چیزیں خاص طورپرشریک ہیں۔ (۱)پانی۔(۲)دودھ۔(۳)شراب
۱۔پانی: پانی اکثرپیاس کے وقت پیاجاتاہے اور یہ پیاس کھانے کے دوران بھی لگتی ہے اور بعدمیں بھی اور بغیرکھانے کے بھی۔پانی پینے کاوقت پیاس ہے خواہ غذاکے ساتھ ہویااس کے بعد۔
نوٹ: جاننا چاہیے کہ پیاس دوقسم کی ہوتی ہے۔(۱)صادق پیاس(۲)کاذب پیاس۔صاد ق پیاس کامقصد یہ ہوتاہے کہ وہ معدہ میں پڑی ہوئی غذا کو رقیق بنائے اور اس کوباریک شریانوں میں گذرنے کاذریعہ بنے۔غذاکے دوران میں بھی جب پیاس لگتی ہے تواس کی دوصورتیں آتی ہیں۔اول معدے میں تیزی اور سوزش پیداکرنے والی اغذیہ کی بے چینی اور دوسرے معدے میں انتہائی خشکی جو غذاکے کھانے سے اکثربڑھ جاتی ہے اور طبعیت اس کو رقیق کرنے کیلئے پانی طلب کرتی ہے۔کاذب پیاس کی پہچان یہ ہے کہ اگرپیٹ بھرکر تسلی کے ساتھ پانی پی لیاجائے اورپھربھی پیاس نہ بجھے۔ اس کی وجہ عام طورپرشوربلغم یالیسدارموادکی معدہ میں زیادتی ہوتی ہے جس کوطبعیت رفع کرناچاہتی ہے۔ لیکن ٹھنڈاپانی پینے سے بلغم اوربھی جم جاتی ہے اور شورمادہ میں زیادتی ہوجاتی ہے۔اسی طرح تخمہ اورہیضہ میں بھی پیاس کی شدت ہوتی ہے جس کی وجہ غذاکاکچاہونااورمعدہ میں سوزش اور متعفن مواد کی موجودگی ہوتی ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ پانی کیلئے کچھ دیرتوقف کیاجائے اورتوقف ناممکن ہوتوگرم پانی تھوڑاتھوڑادیاجائے یابغیردودھ کے چائے دی جائے۔مرض میں شدت ہوتو مناسب علاج کیاجائے۔بعض دفعہ دماغی اوراعصابی سوزش میں بھی شدید پیاس لگتی ہے ۔ اس کابھی مناسب علاج کیاجائے۔بعض اوقات ترمیوؤں کے استعمال ،سخت ورزش، محنت،حمام اور جماع کے بعد پیاس لگے توپانی سے روکناچاہیے۔جہاں تک ممکن ہونہارمنہ پانی نہیں پیناچاہیے۔
۲۔دودھ: دودھ غذامیں شامل ہے اور اس کوغذاکے طورپریاغذاکے ہمراہ استعمال کرنا چاہیے۔یہ ہرگزنہ کیاجائے کہ اس کوپانی کے طورپراور بغیر غذا کے استعمال کیاجائے۔ دودھ استعمال کرنے کابہترین وقت صبح کاناشتہ ہے۔ناشتے کے ہمراہ اس کواستعمال کرنے سے صحت پر بہت اچھااثرپڑتاہے دودھ ہمیشہ نیم گرم ہواور اس کوہلکا شیریں بھی کرلینا چاہیے۔اس طرح بعض لوگ دودھ میں پانی ملاکراس کی لسی بھی پیاس کے وقت پیتے ہیں ۔ اس کے متعلق یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے اثرات اپنے اندر دودھ کی غذائیت کے ہیں۔البتہ اس میں برودت زیادہ پیداہوجاتی ہے۔اور اس کے کثرت استعمال سے معدہ ٹھنڈااور سوئے مزاج باردکے امراض پیداہوجاتے ہیں اول تو اس کااستعمال کرناہی نہیں چاہیے لیکن جب یہ استعمال کی جائے توغذااور اس کے درمیان کافی وقفہ ہوناچاہیے۔
دہی کی لسی: دہی کی لسی بھی غذامیں شریک ہے اور اس کوبھی ہمیشہ غذاکے مقام یااس کے ہمراہ استعمال کرناچاہیے۔ اس کے بکثرت استعمال سے حرارت غریزی کم ہوجاتی ہے اور نفخ شکم کی شکایت پیداہوجاتی ہے۔اس کااستعمال دوپہر کوغذاکے ہمراہ کرناچاہیے۔
شراب: شراب کااستعمال بغیر طبیب کی مرضی کے کبھی نہیں کرناچاہیے کیونکہ اس میں فوائد بہت کم اور نقصانات بہت زیادہ ہیں۔اس کاسب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کے استعمال سے نفسانی خواہشات بھڑک اٹھتی ہیں جو کسی صورت بھی نہیں بجھتی ہیں۔جس سے طبیعت انتہائی منقبض ہوکردل کیلئے بے حد نقصان کاباعث ہوتی ہے۔جہاں تک اس کے فوائد کاتعلق ہے اس کو اکثراعتدال سے قلیل مقدارمیں ضرورت کے مطابق طبیب حاذق کے مشورہ سے استعمال کیاجائے توتمام جسم کے اعضاء میں نشووارتقاء اورقوت کی صلاحیت پیداہوجاتی ہے اور ساتھ ہی گندے فضلات کوچھانٹ دیتی ہے اور جسم میں صالح رطوبات کوجذب کرنے صلاحیت پیداکرتی ہے لیکن ان فوائد کے ساتھ ساتھ جب اس کے اثرات بڑھتے جاتے ہیں توانہی چیزوں کیلئے سخت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔اس کے اثرات بڑھنے کاسبب یہ ہوتاہے کہ اس کوایک دفعہ شروع کرنے کے بعد خواہ وہ دواکے طورپرہی کیوں نہ کیاجائے چھوڑنامشکل ہو جاتاہے۔گویایہ تھوڑے ہی عرصہ میں ایک ایسی عادت بن جاتی ہے جس کاچھوڑناتقریباً ناممکن ہے۔اس کوچھوڑنابھی بجائے فوائدکے باعث صدنقصان ہے۔
حرارت غریزی ورطوبت غریزی: علم حفظان صحت کاجہاں تک انسان کے جسم سے تعلق ہے اس کیلئے یہ نہایت ضروری ہے کہ انسان کے اعضائے جسم اور ان کے افعال کاپوری طرح علم ہو۔یہ علم اسی وقت سے شروع ہوجاتاہے جب انسان کانطفہ قرارپاتاہے ۔ کیونکہ اگر اس دوران میں بھی اس نطفے کی نگرانی نہ کی جائے تواس کے ضائع ہونے کااحتمال ہوتاہے۔ جس چیز کے انسان کے حفظان صحت میں نگرانی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ اس کامزاج ، طبیعت اورطاقت کااعتدال ہے اور یہی چیزقرارنطفہ سے انسان کی موت تک مدنظررہتی ہے۔سوال پیداہوتاہے کہ یہ مزاج ،طبیعت اور طاقت شے کیاہے اور ان کی نگرانی کیسے ہوسکتی ہے۔یہ ایک نہایت اہم سوال ہے اور صحت کے قیام کیلئے اس کاذہن نشین کرناسب سے پہلی بات ہے۔ جاننا چاہیے کہ نطفہ قرار پاتے وقت کرم منی،حرارت غریزی اور رطوبت غریزی کامجموعہ ہوتاہے۔یہ نطفہ ایک جسم ہے جس کی پرورش رطوبت غریزی اور حرارت غریزی سے عمل میں آتی ہے۔انہی دونوں چیزوں سے اس کوغذاملتی ہے اور اس میں نشووارتقاء اور تصفیہ کاعمل جاری رہتاہے۔یہ دونوں چیزیں اگراعتدال سے اپناعمل جاری رکھیں تونطفہ صحت کے ساتھ نشووارتقاء کے مراحل طے کرلیتاہے ۔ اور اگران کاتوازن قائم نہ رہے تونطفہ کے ضائع ہونے میں کوئی شبہ نہیں جس کی صورت یہ ہے کہ اگر ان میں کوئی ایک بڑھ جائے تودوسری کوفناکردے گی جس سے نطفے کی غذائیت یا تصفیہ و پرورش میں خلل واقع ہوجائے گااور نطفہ ضائع ہوجائے گا۔مثلاً اگرحرارت بڑھ جائے تورطوبت کوجلادے گی اور رطوبت کی زیادتی حرارت کوختم کر دے گی ۔اسی توازن سے جسم انسان زندہ رہتاہے اور اگر اس میں نمایاں فرق واضح ہوجائے توانسان کی صحت نہ صرف خراب بلکہ بعض اوقات تباہ ہوجاتی ہے۔
بدل مایتحلل: نطفے کی حرارت ورطوبت اس قدرقلیل ہوتی ہے کہ انہی سے انسان کے جسم کاکم وبیش ساٹھ ستر سال تک زندہ رہنامحال ہے۔اس لئے قدرت نے ان دونوں کے قیام وتقویت اورامدادکیلئے بیرونی طورپربھی رطوبت و حرارت کاانتظام کردیاہے جواس حرارت غریزی کامعاون ہوتا ہے اوراس تھوڑی بہت حرار ت ورطوبت غریزی کوجونطفہ قرارپانے کے بعد خرچ ہوناشروع ہوجاتی ہے پوراکرتارہتا ہے اورانسان کی ضرورت کوپورا کرتا رہتا ہے۔ اس رطوبت اورحرارت کوجوانسان کی ضروریات کوپوراکرتی رہتی ہے بدل مایتحلل کہتے ہیں۔
سوال پیداہوتاہے کہ بدل مایتحلل حرارت غریزی اوررطوبت غریزی کی کمی کوپوراکرتاہے یادماغ پرخرچ ہوکران کاقائم مقام بن جاتاہے۔
اعتراض: یہاں پر یہ اعتراض واردہوتاہے کہ اگر بدل مایتحلل خودحرارت غریزی اور رطوبت غریزی کی کمی کو پورا کرتاہے یعنی خودحرارت ورطوبت غریزی بن جاتاہے توپھر حرارت غریزی اور رطوبت غریزی جن کوحرارت اصلی اور رطوبت اصلیہ بھی کہتے ہیں اور جن سے اعضائے اصلیہ تیار ہوتے ہیں۔ان کی کوئی ہستی نہ رہی کیونکہ ہم ان کو مصنوعی طورپر تیارکرسکتے ہیں اوراگروہ حرارت اور رطوبت جوان کابدل مایتحلل بنتی ہے وہی کام انجام دے سکتی ہے جوحرارت غریزی اور رطوبت غریزی انجام دیتی ہے توبڑھاپاکیوں آتاہے اور موت کیوں واقع ہوتی ہے۔
جواب: اس کاجواب یہ ہے کہ حرارت غریزی اور رطوبت غریزی کابدل مایتحلل نہیں بن سکتا۔جو رطوبت اور حرارت بدل مایتحلل کے طورپرخرچ ہوتی ہے وہ صرف ایک ضرورت ہے جوپوری کی جاتی ہے اور اس سے رطوبت و حرارت غریزی کی مددکی جاتی ہے تاکہ وہ جلدی تحلیل ہوکرختم نہ ہوجائے۔ اس کی مثال ایک چراغ کی ہے جس کی روشنی،بتی اور تیل تینوں بیک وقت کام کرتی ہے۔چراغ کی روشنی حرارت غریزی،بتی رطوبت غریزی اور تیل بدل مایتحلل ہے۔یہ بدل مایتحلل جہاں ایک طرف چراغ کی روشنی کوقائم رکھتاہے وہاں دوسری طرف اس کی بتی کوبھی جلنے نہیں دیتا صحت کی حفاظت کیلئے یہ ضروری ہے کہ حرارت غریزی چراغ کی روشنی کی طرح اعتدال سے جلتی رہے اور اس کی رطوبت غریزی بھی یک دم فنانہ ہوجائے۔یہ وہ اعتدال ہے جودونوں میں رکھاجاتاہے۔اگررطوبات بڑھ جائیں توحرارت کاختم ہونااغلب ہے اورحرارت کی زیادتی سے رطوبات کا جل جانالازمی ہے۔
خون: نطفہ جب تک علقہ نہیں بنتااس وقت تک وہ اپنی غذااپنے اندرکی رطوبت سے حاصل کرتاہے اور جب علقہ بن جاتاہے تواس کاتعلق رحم سے پیداہوجاتاہے اوراپنی غذاماں کے رس سے حاصل کرتاہے۔پیدائش کے بعد اس کو اول یہ غذاماں کے دودھ سے اور پھر دنیاوی اغذیہ اور اشربہ سے حاصل ہوتی رہتی ہے جس سے اس کابدل مایتحلل پورا ہوتارہتاہے۔
ان امور سے ثابت ہواکہ طبیب انسانی صحت کی حفاظت توکرسکتاہے لیکن اس پریہ فرض عائد نہیں ہوتاکہ وہ انسان کاشباب برقراررکھے یااس کوایک طویل عمرتک زندگی دے سکے۔موت کوروک دیناتواس کے بس کابالکل روگ نہیں کیونکہ نطفہ قرارپانے کے بعدحرارت غریزی اور رطوبت غریزی کچھ نہ کچھ ضرورخرچ ہوتی رہتی ہے اور عمر کے ساتھ ساتھ ان میں ایک خاص قسم کی کمی ہوتی رہتی ہے۔جس طرح تیل جلنے کے سے اس کی بتی تھوڑا تھوڑاجلنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ ختم ہوجاتی ہے یہی صورت انسانی زندگی کی ہے کہ وہ آخر میں حرارت غریزی اور رطوبت غریزی کے ختم ہونے کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ہمیشہ کیلئے شباب اور زندگی ناممکنات میں سے ہے۔
اطباء کے فرائض صرف حفظانِ صحت کے اصولوں کاذہن نشین کراناہے تاکہ صحت قائم رہے البتہ جب مرض پیدا ہوجائے تواس کوصحت کی طرف لوٹانا اس کاکام ہے۔صحت کے قیام کیلئے اہم چیزحرارت غریزی اور رطوبت غریزی کی پوری نگرانی اور ان کے بدل مایتحلل کوصحیح طریقوں پرپوراکرنا ہے اور یہ کوشش بھی جاری رکھناہے کہ رطوبت اصلیہ میں کوئی فساد یاتعفن پیدانہ ہونے دے۔اگروہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہاتواپنی طبعی عمرکوپہنچے گااور اس کی قوت اور صحت صحیح حالت پرقائم رہے گی۔
موت: موت کی دواقسام ہیں۔(۱)طبعی۔(۲)غیرطبعی۔طبعی موت وہ ہے جوحرارت اور رطوبت غریزی کے پورے طورپرخرچ ہونے کے بعد واقع ہو۔ جس کے متعلق اطباء کا خیال ہے کہ وہ سواسوسال سے ڈیڑھ سوسال تک ہونی چاہیے کیونکہ ان کااندازہ ہے کہ انسان پچیس تیس سال تک اپنی جوانی کوپہنچتاہے اور اس کواس کے بعدپانچ گنا عرصے تک زندہ رہناچاہیے اوراگراس دوران میں وہ کسی مرض کاشکارہوجاتاہے یاڈوب جاتاہے یا پھانسی لگ جاتاہے یاگرکرمرجاتاہے تویہ اس کی غیرطبعی موت ہوگی۔
طب مفرداعضاء
تعریف: یہ ایک ایسی تحقیق ہے جس سے ثابت کیاگیاہے کہ امراض کی پیدائش مفرد اعضاء(گوشت،پٹھے اورغدد) میں ہوتی ہے اور اس کے بعد مرکب اعضاء کے افعال میں افراط وتفریط اورضعف پیداہوتاہے۔علاج میں بھی مرکب اعضاء کی بجائے مفرداعضاء کو مدنظررکھناچاہیے کیونکہ انسان کے تمام مرکب اعضاء مفرداعضاء کی بافتوں اور انسجہ(Unit) سے مل کربنتے ہیں۔
یہ علمی نظریہ ایک ایسافلسفہ ہے جس سے جسم انسان کومفرداعضاء کے تحت تقسیم کردیا ہے۔اعضائے رئیسہ دل، دماغ اور جگرمفرداعضاء ہیں جوعضلات ، اعصاب اور غددکے مراکزہیں۔جن کی بناوٹ جداجدااقسام کے انسجہ (Tissues)سے بنی ہوئی ہے اور ہرنسیج بے شمارزندہ حیوانی ذرات(Cell) سے مرکب ہے۔حیوانی ذرہ انسانی جسم کی اولین بنیاد(First Unit)ہے۔ہرحیوانی ذرہ اپنے اندرحرارت وقوت اور رطوبت(Heat, Energy and Force)رکھتاہے۔جس کے اعتدال کانام صحت ہے۔جب اس حیوانی ذرہ کے افعال میں افراط وتفریط یاضعف واقع ہوتا ہے تو اس کے اندرکی حرارت وقوت اور رطوبت میں اعتدال قائم نہیں رہتاپس اسی کانام مرض ہے۔اس حیوانی ذرہ کااثرنسیج پر پڑتاہے۔اس کے بعد مفرد اعضاء کے تعلق سے اعصاب وغدداورعضلات وغیرہ کے مطابق گزرتا ہوااپنے متعلقہ عضورئیس میں ظاہرہوتاہے ان میں افراط وتفریط اورضعف کی شکل میں امراض وعلامات پیداہوتی ہیں۔علاج کی صورت میں انہی مفرداعضاء کے افعال درست کردینے سے ایک حیوانی ذرہ سے لے کرعضورئیس تک کے افعال درست ہوجاتے ہیں۔بس یہی طب مفرداعضاء ہے۔
طب مفرداعضاء کی تحقیق کامقصد: طب مفرداعضاء کی ضرورت اور تحقیق کامقصد یہ تھاکہ طب قدیم کی کیفیات ، مزاج اوراخلاط کی مفرد اعضاء سے تطبیق دے دی جائے تاکہ ایک طرف ان کی ا ہمیت واضح ہوجائے اوردوسری طرف یہ حقیقت سامنے آجائے کہ کوئی طریق علاج جس میں کیفیات ومزاج اور اخلاط کومدنظر نہیں رکھاجاتاوہ نہ صرف غلط ہے بلکہ وہ غیرعلمی(Unscientific)اورعطایانہ علاج ہے۔اس میں یقینی شفانہیں ہے اور وہ عطایانہ طریق علاج ہے۔جیسے فرنگی طب ہے جس میں کیفیات ومزاج اور اخلاط کوکوئی اہمیت حاصل نہیں ہے اس لئے انہی مقاصدکے تحت ہم نے طب مفرداعضاء کی بنیاد احیائے فن اورتجدیدطب پررکھی ہے۔ہم نے طب مفرداعضاء کے ساتھ کیفیات ومزاج اوراخلاط کے اثرات کے بغیر عمل میں نہیں آسکتے ۔اس لئے ان کے اثرات کومدنظررکھنا ضروری ہے تاکہ اعضاء کے افعال کودرست رکھاجاسکے۔اگر اثرات کومدنظررکھاجائے تو پھر لازم ہے کہ مفرداعضاء کے مطابق ادویہ اوراغذیہ اورتدابیرکوعمل میں لایا جائے۔ گویامفرداعضاء کے افعال بالکل کیفیات ومزاج اوراخلاط کے اثرات کے مطابق ہیں۔
اس تحقیق وتطبیق سے افعال مفرداعضاء اور کیفیات ومزاج اور اخلاط سے ایک طرف ان کی اہمیت سامنے آگئی ہے اور طب قدیم میں زندگی پیداہوگئی ہے تودوسری طرف اعضاء کے افعال کی علاج میں ضرورت سامنے آگئی ہے۔اس طرح تجدیدطب کاسلسلہ قائم کردیاگیاہے اور ساتھ ہی علم الادویہ میں بھی سی صورت کوثابت کیاگیاہے۔وہ بھی صرف انہی مفرداعضاء پراثرکرتی ہیں جن سے امراض وعلامات رفع ہوجاتی ہیں۔پوری طرح صحت صحیح ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ہماری تحقیق ہے کہ کوئی دوابھی مفرداعضاء کی بجائے سیدھی امراض وعلامات پراثرانداز نہیں ہوسکتی۔
طب مفرداعضاء کی تشریح:نظریہ مفرداعضاء بالکل نیانظریہ ہے۔تاریخ طب میں اس کا کہیں اشارہ تک نہیں پایا جاتااس نظریہ پرپیدائش امراض اورصحت کی بنیادرکھی گئی ہے،اس نظریہ سے قبل بالواسطہ یابلاواسطہ پیدائش امراض مرکب اعضاء کی خرابی کوتسلیم کیاجاتارہاہے۔مثلاً معدہ وامعاء ،شش ومثانہ۔آنکھ ومنہ،کان وناک بلکہ اعضائے مخصوصہ تک کے امراض کوان کے افعال کی خرابی سمجھا جاتا ہے ۔ یعنی معدہ کی خرابی کواس کی مکمل خرابی ماناگیاہے۔جیسے دردمعدہ،سوزش معدہ،ورم معدہ،ضعف معدہ اوربدہضمی وغیرہ پورے معدہ کی خرابی بیان کی جاتی ہے۔لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ معدہ ایک مرکب عضوہے اور اس میں عضلات واعصاب اورغدد وغیرہ ہرقسم کے اعضاء پائے جاتے ہیں اورجب مریض ہوتا ہے تووہ تمام اعضاء جومفردہوتے ہیں بیک وقت مرض میں گرفتارنہیں ہوتے بلکہ کوئی مفردعضومریض ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ معدہ میں مختلف قسم کے امراض پیداہوتے ہیں۔
جب معدہ کے مفرداعضاء میں سے کوئی گرفتارمرض ہوتاہے۔مثلاًمعدہ کے اعصاب مرض میں مبتلاہوتے ہیں تواس کی دیگر علامات بھی اعصاب میں ہوں گی اوران کااثردماغ تک جائے گا ۔ اسی طرح اگراس کے عضلات مرض میں مبتلاہوں گے توجسم کے باقی عضلات میں بھی یہی علامات پائی جائیں گی اوراس کااثر قلب تک چلاجاتاہے۔یہی صورت اس کے غددکے مرض کی حالت میں پائی جاتی ہے،یعنی دیگرغددکے ساتھ جگروگردوں کوبھی متاثر کرتے ہیں یابالکل معدہ کے مفرداعضاء اعصاب غددوعضلات کے برعکس اگردل،دماغ اورجگروگردہ میں امراض پیدا ہو جائیں تومعدہ وامعاء اور شش ومثانہ بلکہ آنکھ ومنہ اورناک وکان میں بھی علامات ایسی ہی پائی جائیں گی۔
اس لئے پیدائش امراض اورشفائے امراض کیلئے مرکب عضوکی بجائے مفرد عضوکو مدنظررکھنا یقینی تشخیص اوربے خطاعلاج کی صورتیں پیداہوجاتی ہیں۔ اس طرح ایک طرف کسی عضوکی خرابی کا علم ہوجاتا ہے تودوسری طرف اس کے صحیح مزاج کاعلم ہو جاتاہے،کیونکہ ہرمفردعضوکسی نہ کسی کیفیت ومزاج بلکہ اخلاط کے اجزاءء سے متعلق ہے۔ یعنی دماغ واعصاب کامزاج ترسردہے اور ان میں تحریک سے جسم میں سردی تری اوربلغم بڑھ جاتے ہیں۔اسی طرح جگروغددکامزاج گرم خشک ہے اس کی تحریک سے جسم میں گرمی خشکی اورصفرابڑھ جاتاہے۔یہی صورت قلبی (عضلات) ہے اورمفرداعضاء کے برعکس اگرجسم میں کسی کیفیت یامزاج اوراخلاط کی زیادتی ہو جائے توان کے متعلق مفرداعضاء پراثراندازہوکران میں تیزی کی علامات پیداہوجائیں گی۔
اس طرح دونوں صورتیں نہ صرف سامنے آجاتی ہیں بلکہ علاج میں بھی آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ایک خاص بات یہ ذہن نشین کرلیں کہ مفرد اعضاء کی جوترتیب اوپربیان کی گئی ہے ان میں جو تحریکات پیداہوتی رہتی ہیں وہ ایک دوسرے مفرداعضاء میں تبدیل ہوتی رہتی ہیں اورکی جاسکتی ہیں۔اسی طرح سے امراض پیداہوتے ہیں اوراسی طرح ہی ان تحریکات کوبدل کران کوشفاء اورصحت کی طرف لایاجاسکتاہے۔
عملی تشریح:جاننا چاہیے کہ انسان تین چیزوں سے مرکب ہے (1)جسم۔ Body(2) نفس۔Vital Force (3)روح۔Soul ۔نفس اور روح کاذکربعدمیں ہوگا۔اول جسم کوبیان کرناضروری ہے۔
انسانی جسم تین چیزوں سے مرکب ہے(1)بنیادی اعضاء۔(2) Basic Organs حیاتی اعضاء۔Life Organs (3)خون۔Blood ان کی مختصر سی تشریح درج ذیل ہے۔
(1)۔بنیادی اعضاء۔Basic Organs
ایسے اعضاء ہیں جن سے انسانی جسم کاڈھانچہ تیارہوتاہے جن میں مندرجہ ذیل تین اعضاء شریک ہوتے ہیں۔
(1) ہڈیاں۔Bones (2) رباط۔Ligaments (3) اوتار۔ Tendons
(2)۔ حیاتی اعضاء۔Life Organs
ایسے اعضاء ہیں جن سے انسانی زندگی اوربقاقائم ہے۔یہ تین قسم کے ہیں۔(1) اعصاب ۔ Nerves ان کامرکزدماغ(Brain)ہے۔ (2)غدد۔Glands جن کامرکزجگر (Liver) ہے۔عضلات(Muscles)جن کامرکزقلب(Heart) ہے۔ گویادل،دماغ اورجگر جو اعضائے رئیسہ ہیں وہی انسان کے حیاتی اعضاء ہیں۔
(3) ۔خون۔Blood
سرخ رنگ کا ایک ایسا مرکب ہے جس میں لطیف بخارات(Gases)،حرارت (Heat)اوررطوبت (Liquid) پائے جاتے ہیں۔یاہو ا ، حرارت اورپانی سے تیارہوتا ہے۔ دوسرے معنوں میں سودا،صفرااوربلغم کاحامل ہوتاہے۔ ان کی تفصیل آئندہ بیان کی جائے گی۔اس مختصرسی تشریح کے بعد جانناچاہیے کہ قدرت نے ضرورت کے مطابق جسم میں اس کی ترتیب ایسی رکھی ہے کہ اعصاب باہر کی جانب اورہرقسم کے احساسات ان کے ذمہ ہیں ۔ اعصاب کے اندرکی طرف غددہیں اورہرقسم کی غذا جسم کومہیاکرتے ہیں۔ غددسے اندرکی جانب عضلات ہیں اورہرقسم کی حرکات ان کے متعلق ہیں۔ یہی تینوں ہر قسم کے احساسات ،اغذیہ اورحرکات کے طبعی افعال انجام دیتے ہیں۔
غیرطبعی افعال: حیاتی اعضاء کے غیرطبعی افعال صرف تین قسم کے ہیں۔
(1)ان میں سے کسی عضومیں تیزی آ جائے یہ ریاح کی زیادتی سے پیداہو گی (2)۔ان میں سے کسی عضومیں سستی پیداہوجائے یہ رطوبت یابلغم کی زیادتی سے پیداہوگی۔
(3)۔ان میں سے کسی عضومیں ضعف پیداہوجائے یہ حرارت کی زیادتی سے پیداہوگا۔
یادرکھیں چوتھا کوئی غیرطبعی فعل واقع نہیں ہوتا۔اعضائے مفردکاباہمی تعلق جاننانہایت ضروری ہے کیونکہ علاج میں ہم ان ہی کی معاونت سے تشخیص ، تجویزاورعلامات کورفع کرتے ہیں۔ان کی ترتیب میں اوپریہ بیان کیاگیاہے کہ اعصاب جسم کے بیرونی طرف یااوپرکی طرف ہیں اور ان کے نیچے یا بعدمیں غددکورکھاگیاہے اورجہاں پرغددنہیں ہیں وہاں ان کے قائم مقام غشائے مخاطی بنادی گئی ہیں اوران کے نیچے یابعدمیں عضلات رکھے گئے ہیں اورجسم میں ہمیشہ یہی ترتیب قائم رہتی ہے۔افعال کے لحاظ سے بھی ہرعضو میں صرف تین ہی افعال پائے جاتے ہیں ۔
(1)۔عضوکے فعل میں تیزی پیداہوجائے توہم اس کوتحریک کہتے ہیں۔
(2)۔عضوکے فعل میں سستی نمودارہوجائے توہم اس کوتسکین کہتے ہیں۔
(3)۔عضوکے فعل میں ضعف واقع ہوجائے توہم اس کوتحلیل کی صورت قراردیتے ہیں۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ ہر عضومیں ظاہرہ دو ہی صورتیں ہوتی ہیں۔اول تیزی اوردوسرے سستی ۔ لیکن سستی دوقسم کی ہوتی ہے۔اول سستی سردی یابلغم کی زیادتی اوردوسرے سستی حرارت کی زیادتی ہے ۔ اس لئے اول الذکرکانام تسکین رکھاجاسکتاہے۔اورثانی الذکرکی سستی کوتحلیل ہی کہنا بہترہے۔کیونکہ حرارت اورگرمی کی زیادتی سے ضعف پیداہوتاہے۔اوریہ بھی ایک قسم کی سستی ہے۔لیکن چونکہ ضعف حرارت اورگرمی کی زیادتی سے پیداہوتا ہے اور اس میں جسم یاعضوگھلتاہے اور یہ صورت مرض کی حالت میں آخرتک قائم رہتی ہے بلکہ صحت کی بحالی میں بھی ایک ہلکے قسم کی تحلیل جاری رہتی ہے۔ اس لئے انسان بچپن سے جوانی،جوانی سے بڑھاپے اور بڑھاپے سے موت کی آغوش میں چلاجاتاہے۔اس لئے اس حالت کانام تحلیل بہت مناسب ہے۔
ساتھ ہی اس امرکوبھی ذہن نشین کرلیں کہ یہ تینوں صورتیں یاعلامات تینوں اعضاء اعصاب،غدداور عضلات میں کسی ایک میں کوئی حالت ضرورپائی جائے گی۔البتہ ایک دوسرے میں بدلتی رہتی ہیں اور اس غیرطبعی بدلنے ہی سے مختلف امراض پیداہوتے ہیں اورانہی کی طبعی تبدیلی سے صحت حاصل ہوجاتی ہے۔اعضاء کی اندرونی تبدیلیوں کوذیل کے نقشہ سے آسانی کے ساتھ سمجھاجاسکتاہے۔
نام اعضاء اعصاب غدد عضلات نتیجہ
دماغ تحریک تحلیل تسکین جسم میں رطوبات یعنی بلغم کی زیادتی
جگر تسکین تحریک تحلیل جسم میں حرارت یعنی صفراکی زیادتی
دل تحلیل تسکین تحریک جسم میں ریاح یعنی سوداکی زیادتی
اشارہ کا نشان یہ ظاہرکرتاہے کہ علاج کی صورت میں فوراًشفاحاصل کرنے کیلئے اشارہ کے مطابق دماغ (اعصاب) سے دل یعنی عضلات کوتحریک دی جائے۔عضلات یعنی دل سے جگریعنی غددکوتحریک دی جائے۔ا س طرح جگریعنی غددسے دماغ یعنی اعصاب کوتحریک دی جائے۔یہ اشارہ فطری اشارہ ہے کیونکہ فطرت بلغم کوسوداسے ختم کرتی ہے اورسودا کوصفراسے پھرصفراکوبلغم سے ختم کرتی ہے۔گویاہرعضومیں یہ تینوں حالتیں یاعلامات فرداً فرداً ضرورپائی جائیں گی۔
1)۔اگراعصاب میں تحریک ہے توغددمیں تحلیل اورعضلات میں تسکین ہوگی ۔نتیجۃًجسم میں رطوبات بلغم یاکف کی زیادتی ہوگی۔
(2۔اگرغددمیں تحریک ہوگی توعضلات میں تحلیل اوراعصاب میں تسکین ہوگی۔ نتیجۃًجسم میں حرارت صفراویت کی زیادتی ہوگی۔
(3۔اگرعضلات میں تحریک ہوگی تواعصاب میں تحلیل اورغددمیں تسکین ہوگی۔نتیجۃ جسم میں ریاح سوداویت کی زیادتی ہوگی۔
تشریح مزید بامثال نزلہ: نزلہ ایک علامت ہے جوکسی مرض پردلالت کرتاہے۔اس کوکسی صورت میں بھی مرض کہناصحیح نہ ہو گااوراس کوابوالامراض کہنا تو انتہائی غلط فہمی ہے۔کیونکہ نزلہ موادیارطوبت کی صورت میں گرتا ہے اس علامت سے کسی عضوکے فعل کی طرف دلالت کرتاہے اس عضوکے افعال کی خرابی ہی کو مرض کہاجاسکتاہے۔البتہ عضوکے افعال کی خرابی کی جس قدرصورتیں ہوسکتی ہیں وہ تمام امراض میں شامل ہوں گی۔
موادیارطوبت کا طریق اخراج: رطوبت(لمف)یامواد(میٹر)یاسکریشن کااخراج ہمیشہ خون میں سے ہوتاہے اس کو پوری طرح سمجھنے کیلئے پورے طوردوران خون کوذہن نشین کرلینا چاہیے۔یعنی دل سے صاف شدہ خون بڑی شریان اورطئی سے چھوٹی شریانوں میں سے عروق شعریہ کے ذریعہ غدد اورغشائے مخاطی میں جسم کی خلاؤں پرترشح پاتاہے یہ ترشح کبھی زیادہ ہوتاہے کبھی کم کبھی گرم ہوتاہے اورکبھی سرد،کبھی رقیق ہوتاہے کبھی غلیظ اورکبھی سفید ہوتاہے توکبھی زرد وغیرہ وغیرہ۔اس سے ثابت ہواکہ نزلہ یا ترشح (سکریشن) کا اخراج ہمیشہ ایک ہی صورت میں نہیں ہوتا بلکہ مختلف صورتیں یا کیفیتیں اور رنگ پائے جاتے ہیں۔گویانزلہ ایک علامت ہے وہ بھی اپنے اندر کئی انداز رکھتا ہے۔اس لئے اس کوابوالامراض کہتے ہیں۔
نزلہ کے تین انداز
(1)۔نزلہ پانی کی طرح بے تکلف رقیق بہتاہے۔عام طورپراس کارنگ سفیداورکیفیت سرد ہوتی ہے۔اس کوعام طورپرزکام کانام دیتے ہیں۔
(2) ۔نزلہ لیس دارجوذراکوشش اورتکلیف سے خارج ہوتاہے۔عام طورپراس کارنگ زرد اورکیفیت گرم ہوتی ہے۔اس کونزلہ حارکہتے ہیں۔
(3)۔نزلہ سفید ہوتاہے انتہائی کوشش اورتکلیف سے بھی اخراج کانام نہیں لیتا ایسامعلوم ہوتاہے کہ جیسے بالکل جم گیاہواورگاڑھاہوگیاہو ،عام طورپر رنگ میلایاسرخی مائل اورکبھی کبھی زورلگانے سے خون نے لگتاہے۔اس کوبند نزلہ کہتے ہیں۔
نزلہ کی تشخیص:(1)۔اگرنزلہ پانی کی طرح بے تکلف رقیق بہ رہاہے تویہ اعصابی (دماغی) نزلہ ہے۔یعنی اعصاب کے فعل میں تیزی ہے اس کا رنگ سفیداور کیفیت سردہوگی اس میں قارورہ کارنگ بھی سفید ہوگا۔
(2)۔اگرنزلہ لیس دار ہوجوذراکوشش وتکلیف اورجلن سے خارج ہورہاہوتویہ غدی کبدی نزلہ ہے یعنی جگرکے فعل میں تیزی ہوگی۔اس کارنگ عام طورپرزردی مائل اورکیفیت گرم وترہوگی اس میں قارورہ کارنگ زردسرخی مائل ہوگا۔گویایہ حارنزلہ ہے۔
(3)۔اگرنزلہ بندہواورانتہائی کوشش اورتکلیف سے بھی اخراج کانام نہ لے ایسے معلوم ہوکہ جیسے بالکل جم گیاہے اورگاڑھاہوگیاہے۔تویہ نزلہ عضلاتی (قلبی) ہوگا۔یعنی اس میں عضلات کے فعل میں تیزی ہوگی اس کارنگ عام طورپرمیلایاسرخی وسیاہی مائل اورکبھی کبھی زیادہ زورلگانے سے خون بھی آ جاتاہے۔
اول صورت جسم میں رطوبات سردبلغم کی زیادتی ہوگی۔دوسری صورت میں جسم میں صفراگرمی خشکی کی زیادتی ہو گی۔تیسری صورت میں سوداویت سردی خشکی اورریاح کی زیادتی ہوگی ۔اورانہی اخلاط و کیفیات کی تمام علامات پائی جائیں گی۔
گویا نزلہ کی تین صورتیں ہیں ان کواس مقام پرذہن نشین کرلیناچاہیے۔چوتھی صورت کوئی نہ ہوگی البتہ ان تینوں صورتوں کی کمی بیشی اورانتہائی شدت ہوسکتی ہے۔انتہاکی شدت کی صورت میں انہی مفرد اعضاء کے اندردردسوزش یاورم پیداہوجائے گا۔انہی شدید علامات کے ساتھ بخار ، ہضم کی خرابی،کبھی قے ،کبھی اسہال،کبھی پیچش،کبھی قبض ہمراہ ہوں گے۔لیکن یہ تمام علامات انہی اعضاء کی مناسبت سے ہوں گی۔اس طرح کبھی معدہ وامعاء اورسینہ کے انہی اعضاء کے افعال میں کمی بیشی اورشدت کی وجہ سے بھی ان کی خاص علامات کے ساتھ ساتھ نزلہ کی بھی علامات پائی جائیں گی جن کااوپرذکرکیا گیاہے۔
نزلہ کے معنی میں وسعت: نزلہ کے معنی ہیں گرنا۔اگراس کے معنی کوذراوسعت دے کراس کے مفہوم کو پھیلا دیا جائے توجسم انسان کی تمام رطوبات اورمواد کونزلہ کہہ دیاجائے توان سب کی بھی اس نزلہ کی طرح تین ہی صورتیں ہوسکتی ہیں اوران کے علاوہ چوتھی صورت نظر نہیں آئے گی مثلاً اگر پیشاب پر غور کریں تو اس کی تین صورتیں یہ ہوں گی۔
(1)۔اگراعصاب میں تیزی ہوگی توپیشاب زیادہ اوربغیرتکلیف کے آئے گا۔
(2)۔اگرغددمیں تیزی ہوگی توپیشاب میں جلن کے ساتھ قطرہ قطرہ آئے گا۔
(3)۔اگرعضلات میں تیزی ہوگی توپیشاب بندہوگا یابہت کم آئے گا۔
یہی صورتیں پا خانہ پربھی وارد ہوں گی۔
(1)۔اعصاب میں تیزی ہوگی تواسہال۔
(2)۔غددمیں تیزی ہوگی توپیچش۔
(3)ََ۔عضلات میں تیزی ہوگی توقبض پائی جائے گی۔
اس طرح لعاب،دہن۔آنکھ،کان اورپسینہ وغیرہ ہرقسم کی رطوبات پرغورکرلیں۔البتہ خون کی صورت رطوبات سے مختلف ہے،یعنی اعصاب کی تیزی میں جب رطوبات کی زیادتی ہوتی ہے تو خون کبھی نہیں آتا۔جب غددمیں تیزی ہوتی ہے توخون تکلیف سے تھوڑاتھوڑاآتاہے۔جب عضلات کے فعل میں تیزی ہوتی ہے توشریانیں پھٹ جاتی ہیں اوربے حد کثرت سے خون آتا ہے ۔اس سے ثابت ہوگیاکہ جب خون آتاہے تورطوبات کااخراج بندہوجاتاہے اور اگر رطوبات کااخراج زیادہ کردیاجائے توخون کی آمدبندہوجائے گی۔
نظریہ مفرداعضاء کے جاننے کے بعداگرایک طرف تشخیص آسان ہوگئی ہے تودوسری طرف امراض اورعلامات کا تعین ہوگیاہے اب ایسا نہیں ہوگاکہ آئے دن نئے نئے امراض اورعلامات فرنگی طب تحقیق کرتی رہے اوراپنی تحقیقات کادوسروں پررعب ڈالتی رہے بلکہ ایسے امراض و علامات جوبے معنی صورت رکھتے ہوں وہ ختم کردئیے جائیں گے جیسے وٹامنی امراض،غذائی امراض اورموسمی امراض وغیرہ وغیرہ۔پس ایسے امراض اورعلامات کاتعلق کسی نہ کسی اعضاء سے جوڑنا پڑے گااورانہی کے افعال کوامراض کہناپڑے گا۔گویاکیمیائی اوردموی تغیرات کوبھی اعضاء کے تحت لاناپڑے گا۔
دموی اورکیمیائی تغیرات بھی اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتا کہ جسم انسان میں خون کی پیدائش اوراس کی کمی بیشی انسان کے کسی نہ کسی عضوکے ساتھ متعلق ہے اس لئے جسم انسان میں دموی اور کیمیائی تبدیلیاں بھی اعضائے جسم کے تحت آتی ہیں۔اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ جسم میں ایک بڑی مقدارمیں زہریلی ادویات اوراغذیہ سے موت واقع ہوجاتی ہے لیکن ایسے کیمیائی تغیرات بھی اس وقت تک پیدا نہیں ہوتے جب تک جسم کاکوئی عضو بالکل باطل نہ ہوجائے۔
دیگر اہم علامات: نزلہ کی طرح دیگر علامات بھی چند اہم علامات میں تقسیم ہوجاتی ہیں۔اگر ان اہم علامات کوذہن نشین کرلیاجائے تونزلہ کی طرح جن مفرداعضاء سے ان کاتعلق ہوگاان کے ساتھ ہی وہ ایک مرض کی شکل اختیار کر لیں گے۔ورنہ تنہاان علامات کو امراض کانام نہیں دیاجاسکتا وہ اہم علامات درج ذیل ہیں۔
1۔سوزش 2۔ورم 3۔بخار 4۔ضعف
سوزش :سوزش ایک ایسی جلن ہے جو کیفیاتی ونفسیاتی اور مادی تحریکات سے جسم کے کسی مفردعضو میں پیداہوجائے ۔سوزش میں سرخی اور دردوحرارت لازم ہوتی ہے۔تحریک سے سوزش تک بھی چندمنزلیں ہیں۔
۱۔لذت۔۲۔بے چینی ۔۳۔سوزش ۔
کبھی طبیعت انہی علامات میں سے کسی ایک پر رک جاتی ہے اور کبھی گزرکر سوزش بن جاتی ہے ۔
ورم: ورم کی علامت سوزش کے بعد پیداہوتی ہے ۔اس میں سوزش کی علامات کے ساتھ سوجن بھی ہوتی ہے اور جب سوجن زیادہ ہوجائے یازدت اختیارکرلے تو حرارت بخارمیں تبدیل ہوجاتی ہے ۔جسم کے پھوڑے اور پھنسیاں اور دانے وغیرہ بھی اورام میں شریک ہیں۔سوزش وا ورام کا تفصیلی مطالعہـ’’تحقیقات سوزش واورامـ‘‘ میں کیاجا سکتاہے
بخار: بخار ایک ایسی اور غیر معمولی حرارت ہے جس کو حرارتِ غریبہ(بیرونی)بھی کہتے ہیں جوجزوخون کے ذریعہ قلب سے تمام بدن میں پھیل جاتی ہے جس سے بدن کے اعضاء میں تحلیل اور ان افعال میں نقصان واقع ہوتاہے۔ غصہ اور تھکان کی معمولی گرمی بخار کی حد سے باہرہے کیونکہ اس سے کوئی غیرمعمولی تبدیلی بدن انسان میں لاحق نہیں ہوتی۔اس کو عربی میں حمیٰ فارسی میں تپ کہتے ہیں۔ بخارکاتفصیلی مطالعہ ’’تحقیقات حمیات‘‘ میں کیاجا سکتا ہے۔
ضعف: جسم کی ایک ایسی حالت کانام ہے جس میں گرمی کی زیادتی سے کسی مفرد عضو میں تحلیل پیداہوجائے۔ضعف کے مقابلے طاقت کاتصور کیا جاسکتاہے۔ ضعف کا تفصیلی مطالعہ ’تحقیقات اعادہ و شباب‘‘ میں کیاجاسکتاہے
مفرداعضاء کاباہمی تعلق: مفرداعضاء کاباہمی تعلق بھی ہے اس تعلق سے تحریکات ایک عضو سے دوسرے عضو کی طرف منتقل ہوتی ہیں مثلاً جب غدد میں تحریک ہے تو اس امرکو ضرور جانناپڑے گاکہ اس تحریک کاتعلق عضلات کے ساتھ ہے یااعصاب کے ساتھ ہے،کیونکہ اس تحریک کاتعلق کسی نہ کسی دوسرے عضو کے ساتھ ہوناضروری ہے کیونکہ مزاجاً بھی کبھی کوئی کیفیت مفردنہیں ہوتی جیسے گرمی یاسردی کبھی تنہا نہیں پائی جائیں گی وہ ہمیشہ گرمی تری، گرمی خشکی ہوگی،اسی طر ح سردی تری یاسردی خشکی ہو گی ۔ یہی صورت اعضاء میں بھی قائم ہے یعنی غدی عضلاتی (گرم خشک)یاغدی اعصابی (گرم تر ) وغیرہ وغیرہ۔
البتہ اس میں اس امرکوذہن نشین کرلیں کہ اول تحریک عضوی(مشینی)ہوگی اوردوسری تحریک کیمیائی خلطی ہو گی۔جب کسی مفردعضو میں تحریک ہوگی تواس کاتعلق جس دوسرے مفردعضو سے ہوگااس کی کیمیائی صورت خون میں ہوگی۔مثلاً غدی عضلاتی تحریک ہے تواخلاط میں خشکی پائی جائے گی۔ جب غدی اعصابی تحریک ہوگی توخون میں تری پائی جائے گی۔وغیرہ وغیرہ۔ ان کایہ سلسلہ قائم رہے گا۔
مفرد اعضاء کے تعلق کی چھ صورتیں: مفرد اعضاء صرف تین ہیں لیکن ان کاآپس میں تعلق ظاہرکیاجائے توکل چھ صورتیں بن جاتی ہیں۔
(1)۔اعصابی غدی (2)۔اعصابی عضلاتی (3)۔عضلاتی اعصابی (4)۔عضلاتی غدی (5)۔غدی عضلاتی (6)۔غدی اعصابی
یادرکھیں کہ جولفظ اول ہوگاوہ عضوکی تحریک ہے اورجولفظ بعد میں ہو گاوہ کیمیائی تحریک کہلاتا ہے ۔ چونکہ کیمیائی تحریک ہی صحت کی طرف جاتی ہے اس لئے ہرعضوکی تحریک کے بعد اس سے جو کیمیائی اثرات پیداہوں گے انہی کوبڑھاناچاہیے بس اسی میں شفاہے یہی وجہ ہے کہ ہومیوپیتھی میں بھی ری ایکشن کی علامات کوبڑھایاجاتاہے،اس مقصد کیلئے قلیل بلکہ اقل مقدار میں بھی دوانہ صرف مفید ہو جاتی ہے بلکہ اکسیراورتریاق کاکام دے دیتی ہے۔
—————————PAGEBREAK——————————–
ظاہری تقسیم جسم انسانی بہ نظریہ مفرداعضاء
جسم انسان کوہم نے اعضائے رئیسہ یادوسرے الفاظ میں دوسرے الفاظ میں انسجہ(Tissues) میں تقسیم کردیاہے جن کے مرکزیہی اعضائے رئیسہ دل ، دماغ اورجگرہیں۔جیسا کہ گزشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں یہ انسجہ تمام جسم میں اس طرح اوپر تلے پھیلے ہوئے ہیں کہ جسم کاکوئی مقام ایسا نہیں کہ جہاں صرف ایک یادواقسام کے انسجہ ہوں یاان کا آپس میں تعلق نہیں ہو۔اس لئے امراض کی صورت میں تینوں اقسام کے حیاتی انسجہ متاثرہوتے ہیں البتہ ان کی صورتیں جداجداہوتی ہیں جیساکہ لکھاجا چکاہے۔ہرعضوکی زیادہ سے زیادہ تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔۱۔تحریک ۔۲ ۔ تحلیل۔۳۔تسکین۔ جب کسی میں ایک حالت پائی جاتی ہیں توباقی دودوسرے اعضائے مفرد (انسجہ)۔ Tissues))میں پائی جاتی ہیں ایسا اس لئے ہوتاہے کہ دوران خون کی گردش ہی قدرت نے فطری طورپرایسی بنائی ہے۔اگرمعالج دوران خون کی گردش کوپورے طورپر ذہن نشین کرلے توامراض کی ہیت کوآسانی سے سمجھ سکتا ہے۔تفصیل درج ذیل ہے۔
دوران خون اور نظریہ مفرداعضاء نظریہ مفرداعضاء کے تحت دوران خون دل(عضلاتی انسجہ)سے جسم میں دھکیلا جاتاہے۔پھرشریانوں کی وساطت سے جگر (غدی انسجہ)سے گزرتاہوا دماغ(اعصابی انسجہ)پرگرتاہے۔تمام جسم کی غذابننے کے بعدپھرباقی رطوبت (غددجاذبہ)کے ذریعے جو طحال کے ماتحت غددکی وساطت سے کام کرتے ہیں جذب ہوکراورپھرخون میں شامل ہوکردل(عضلات )کے فعل کوتیزکرتاہے اورہرخون غدد سے چھننے سے رہ جاتاہے وہ بھی وریدوں کے ذریعے واپس قلب میں چلاجاتاہے۔اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتاہے۔
طب قدیم کی حقیقت کی تصدیق: یہاں پر سمجھنے والی یہ بات وہ حقیقت ہے جوطب قدیم نے ہزاروں سال قبل لکھی ہے کہ دوران خون میں جب تک جگر(غدد)سے نہ گزرے وہ جسم میں نہیں پھیلتایاترشہ نہیں پاتا۔اسی طرح ترشہ پانے کے بعد جب بقایارطوبات طحال (غددجاذبہ)میں جذب ہوکرکیمیائی طورپرتبدیلی حاصل نہ کرلیں ان کاکھاری پن ترشی میں تبدیل نہ ہو وہ دل (عضلات)پرنہیں گرتیں اور ان کوتیزنہیں کرسکتیں۔ صرف سمجھانے کیلئے دل و جگراوردماغ وطحال کے اعضاء کے نام لکھے ہیں ورنہ جسم میں ہرجگہ عضلات وغدد اوراعصاب وغددجاذبہ اپنے علاقہ اورحدود میں وہی کام انجام دے رہے ہیں جواعضائے رئیسہ اداکررہے ہیں۔خون اور دوران خون کی ان چار تبدیلیوں کوطب قدیم میں خون وصفرا،بلغم اور سودا کے نام دئیے گئے ہیں ۔جہاں جہاں یہ کیمیائی تبدیلیاں ہوتی ہیں انہی جگہوں کوان کامقام قرار دیاگیاہے۔خون کامقام دل ،صفراکامقام جگر اور بلغم کا مقام دماغ اور سوداکامقام طحال ہے۔لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ باقی جسم میں یہ تبدیلیاں نہیں ہوتیں بلکہ ہرجگہ جسم میں تمام انسجہ (Tissues) دل، دماغ،جگراورطحال کے کام انجام دے رہے ہیں۔دلیل وتصدیق اور ثبوت کے طورپرہم ان اعضاء کامزاج پیش کرسکتے ہیں جہاں ہروہ رطوبات کیمیائی تبدیلیاں حاصل کرتی ہیں ۔دونوں کی کیفیاتی وخلطی اور کیمیائی مزاجوں میں ذرا بھرکوئی فرق نہیں ہے۔
تحقیقات امراض: امراض کی تحقیقات کوذہن نشین کرنے کیلئے اس رازکوسمجھ لیں کہ دوران خون دل (عضلات) سے شروع ہوکرجگر(غدد)اور دماغ(اعصاب) اور طحال (غددجاذبہ)میں گزرتے ہوئے دل(عضلات)کی طرف واپس لوٹتاہواجسم کے کسی حصہ کے مجری مفرداعضاء (Tissues)میں افراط وتفریط اورتحلیل پیداکردیتاہے۔بس وہی مرض پیداہوتاہے اور اس کی علامات انہی مفرد اعضاءانسجہ(Tissues)کی وساطت سے تمام جسم میں ظاہر ہوتی ہیں اور خون میں بھی کیمیائی طورپروہی تغیر ہوتے ہیں ۔انہی مشینی اور کیمیائی علامات کودیکھ کرتشخیص مرض کیا جاتا ہے اور پھرجس مفردعضو، نسیجTissue) ) میں سکون ہوتاہے اس کوتیزکردینے سے فوراًصحت ہوناشروع ہوجاتی ہے۔
جسم انسانی کی بالمفرداعضاء تقسیم: امرا ض تقسیم کیلئے نبض وقارورہ اور براز دیکھنے کافی ہیں۔ایک قابل معالج ان کی مددسے مریض کے جسم میں جو کیفیاتی ،خلطی اور کیمیائی تبدیلیاں ہوتی ہیں مفرداعضاء،انسجہ۔Tissues))کے افعال کی خرابی کوسمجھ سکتاہے اور ان کے علاوہ دیگررطوبات جسم جن کاذکرنزلہ کے بیان میں کیاگیاہے کے افعال کوسمجھ کر امراض کا تعین کرسکتاہے مگرہم نیززیادہ سہولت اور آسانی کی خاطرجسم انسانی کوچھ حصوں میں تقسیم کردیاہے تاکہ مریض اپنے حصہ پرہاتھ رکھے معالج فوراًمتعلقہ مفرداعضاء کی خرابیوں کوجان جائے اور اپناعلاج یقین کے ساتھ کرے تاکہ قدرت کی قوتوں کے تحت فطری طورپرشرطیہ آرام ہوجائے۔
یادرکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی فطرت نہیں بدلتی۔انسان کافرض ہے کہ وہ فطرت اللہ کا صحیح علم رکھے تاکہ نتیجہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق نکلے۔اللہ تعالیٰ کی اسی فطرت کے مطابق علاج کانام شرطیہ طریقِ علاج ہے۔قرآن حکیم نے کئی بارتاکیدکی ہے۔
لن تجدلسنت اللہ تبدیلا۔
بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے نظامِ فطرت میں ہرگزہرگزتبدیلی نہیں آتی۔جیسے آگ اپنی فطرت حرارت سے جدانہیں اور پانی اپنی برودت سے الگ نہیں ۔
جانناچاہیے کہ ہم نے انسان کوسرسے پاؤں تک دوحصوں میں تقسیم کردیاہے۔پھرہرحصے کو تین تین مقاموںمیں تقیسم کردیاہے۔اس طرح چھ مقام بن جاتے ہیں۔اس طرح ان میں سے جس مقام پرکوئی تکلیف ہوگی اور ایک ہی قسم کے مفرداعضاء انسجہ (Tissues)کے تحت ہوگی اور ان کا علاج بھی ایک ہی قسم کی مشینی اور کیمیائی تبدیلی سے کیاجاسکتاہے۔یہ فطرت کا ایک عظیم راز ہے۔
جسم انسان کے دو حصوں کی تقسیم اس طرح کی گئی ہے کہ سر کے درمیان میں جہاں پرمانگ نکلتی ہے وہاں سے ایک سیدھی فرضی لکیر لے کربالکل ناک کے اوپرسے سیدھی منہ وتھوڑی اور سینہ وپیٹ سے گزرتی ہوئی مقعدکی لکیرتک پہنچ جاتی ہے۔اسی طرح پشت کی طرف سے ریڑھ کی ہڈی پرسے گزرتی ہوئی پہلی لکیر سے مل جاتی ہے۔اس طرح انسان کے دوحصے ہوجاتے ہیں۔
یہ تقسیم اس لئے کی گئی ہے کہ سالہاسال کے تجربات نے بتایاہے کہ قدرت نے جسم انسان کواس طرح بنایا ہے کہ وہ بیک وقت تمام جسم کوکسی مرض کے نقصان پہنچنے سے روکتی ہے بلکہ کسی ایک حصہ جسم میں تحریک سے تکلیف ہورہی ہوتی ہے۔کسی دوسرے حصہ میں تقویت (ابتدائی تحلیل اور کسی تیسرے حصہ میں تسکین )رطوبت غذائیت پہنچا رہی ہوتی ہیں اوریہ کوشش اسی لئے جاری رہتی ہے کہ انسان کوتکلیف اور مرض سے اسی طاقت کے مطابق بچایاجائے اوریہ کوشش اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کوئی جسم بالکل بے کاراور ناکارہ ہوکردوسروں سے تعلق نہ توڑ دے اورموت واقع ہوجائے مثلاً اگرجگراور غددکے فعل میں تیزی اور تحریک ہوتودورانِ خون دل وعضلات کی طرف جاکراس کی پوری حفاظت کرتاہے اور دماغ و اعصاب کی طرف رطوبت اورسکون پیداکردیتاہے تاکہ تمام جسم صرف جگروغددکی بے چینی سے محفوظ رہے اور قوتیں اس کامقابلہ کرسکیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص ربوبیت اور رحمت ہے۔
مرض کی ابتداہمیشہ ایک طرف ہوتی ہے: اسی طرح جسم انسان کے دائیں یابائیں حصے میں کوئی تکلیف یامرض ہوتو طبیعت مدبرہ بدن دوسرے حصے کومحفوظ رکھتی ہے۔اور یہ اوپروالے طب مفرداعضاء کے تحت ہوتاہے مثلاً دردسر کبھی دائیں طرف ہوتاہے اورکبھی بائیں طرف ہوتاہے۔ کبھی سرکی پچھلی جانب ہوتاہے اورکبھی پھیل کرسارے سر میں ہوتاہے۔اسی طرح کبھی دائیں آنکھ میں کوئی تکلیف ہوتی ہے اورکبھی بائیں آنکھ میں۔ پھردونوں میں پھیل جاتی ہے لیکن کمی بیشی ضرورقائم رہتی ہے۔اسی طرح ناک میں کبھی دائیں طرف مرض ہوتاہے اور کبھی بائیں طرف مرض ظاہرہوتا ہے۔اور بہت کم دونوں میں ایک سی حالت ہوتی ہے۔یہی صورت کانوں،دانتوں اورمنہ کے باقی حصوں کی ہوتی ہے۔اسی صورت کواگرپھیلاتے جائیں توصاف پتہ چلتاہے کہ گردن کے دونوں طرف دونوں شانوں ،دونوں بازوؤں،سینہ اورمعدہ وامعاء کے ساتھ ساتھ جگروطحال اوردونوں گردے یہاں تک کہ مثانہ وخصیے اور دونوں ٹانگیں اپنی اپنی تکالیف میں جداجداصورتیں رکھتی ہیں۔یہ تقریباً ناممکن ہے کہ دونوں طرف بیک وقت تکلیف شروع ہو۔البتہ رفتہ رفتہ دوسری طرف کے وہی مفرداعضاءانسجہ۔Tissues))متاثرہوکرکم وبیش اثرقبول کرلیتے ہیں۔یہ وہ رازجواللہ تعالیٰ نے طب مفرداعضاء کے تحت دنیائے طب پرظاہرکیاہے۔اس سے قبل دنیائے طب میں اس کا کسی کوعلم نہیں تھا۔
مفرداعضاء کی ظاہری تقسیم کی تشریح: انسانی جسم کوہم نے چھ(Six) مقامات میں اس طرح تقسیم کیاہے۔
پہلامقام(اعصابی عضلاتی ): اس مقام میں سرکادایاں حصہ،دایاں کان،دائیں آنکھ، دائیں ناک،دایاں چہرہ مع دائیں طرف کے دانت و مسوڑھے اورزبان،دائیں طرف کی گردن شامل ہے۔ گویاسرکے دائیں طرف سے دائیں شانہ تک جس میں شانہ شریک نہیں ہے۔جب کبھی بھی ان مقامات پرکہیں تیزی ہوگی اعصابی عضلاتی تحریک ہوگی۔
دوسرامقام(عضلاتی اعصابی): اس مقام میں دایاں شانہ،دایاں بازو،دایاں سینہ،دایاں پھیپھڑہ اوردایاں معدہ شریک ہے۔گویادائیں شانہ سے لے کرجگرتک لیکن اس میں جگرشامل نہیں ہے۔جب کبھی ان مقامات میں سے کسی میں تیزی ہوتوعضلاتی اعصابی تحریک ہوگی۔
تیسرامقام(عضلاتی غدی): اس مقام میں جگر،دائیں طرف کی آنتیں،دائیں طرف کامثانہ،دایاں خصیہ،دائیں طرف کامقعد اور دائیں ساری ٹانگ کولہے سے لے کرپائوں کی انگلیوں تک سب شامل ہیں۔جب کبھی ان مقامات پرکسی میں تیزی ہوگی توعضلاتی غدی تحریک ہوگی۔
چوتھامقام(غدی عضلاتی): اس میں سرکابایاں حصہ،بایاں کان،بائیں آنکھ وناک،بایاں چہرہ مع بائیں طرف کے دانت و مسوڑھے اورزبان اور گردن شامل ہیں۔گویا بائیں جانب سرسے لے کربائیں مثانہ تک جس میں شانہ شریک نہیں ہے۔جب کبھی ان مقامات پر تیزی ہوگی توغدی عضلاتی تحریک ہوگی۔
پانچواں مقام(غدی اعصابی): اس مقام میں بایاں شانہ،بایاں بازو،بایاں سینہ،بایاں پھیپھڑہ اور بایاں معدہ شریک ہیں گویا بایاں شانہ سے لے کر طحال تک جس میں طحال شریک نہیں ہے۔جب کبھی ان مقامات میں سے کسی میں تیزی ہوگی توغدی اعصابی تحریک ہوگی۔
چھٹا مقام(اعصابی غدی): اس مقام میں طحال ولبلبہ،بائیں طرف کی آنتیں،بائیں طرف کامقعد،بائیں طرف کا مثانہ ، بایاں خصیہ،بائیں ساری ٹانگ کولہے سے لے کرپائوں کی انگلیوں تک شریک ہیں۔
تاکید: یہ تقسیم دورانِ خون کی گردش کے مطابق ہے جودل(عضلات) سے شروع ہوکر جگر(غدد)سے گزرتے ہوئے دماغ(اعصاب) اورطحال (غددجاذبہ) سے گزر کر پھر دل (عضلات) میں شامل ہوتاہے۔اس کابیان عضلاتی غدی سے شروع ہوکرترتیب وارچھ مقام بیان کئے گئے ہیں جو عضلاتی اعصا بی پرختم ہوتے ہیں۔لیکن ہم نے ایک سرے کومدنظررکھتے ہوئے دائیں طرف سرے سے شروع کرکے بائیں طرف کی ٹانگ پرختم کردیاہے تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے۔
یادداشت: یہ چھ مقام صرف تحریک کے ہیں لیکن اس امرکونہ بھولیں کہ یہ مقام دراصل تین مفرداعضاء کے تعلقات اور تشخیص کوسمجھانے کیلئے ہیں کہ جسم اور خون کی تحریک کس طرف چل رہی ہے۔اس لئے اس امرکویاد رکھیں کہ جس ایک مفردعضو میں تحریک ہوباقی دومیں تحلیل وتسکین ترتیب کے ساتھ ہوں گی اور ان کا دیگر مفرد اعضاء پروہی اثرہوگا۔
امراض وعلامات بہ طب مفرداعضاء
علاج بالغزا سے تمام امراض کاسرلے کرپائوں تک یقینی طورپرکامیابی کے ساتھ ہو سکتاہے۔یہ ہماری تقریباًپچیس سالہ تحقیق ہے جوپہلی دفعہ ہم دنیائے طب کے سامنے پیش کررہے ہیں۔یہ علاج بالغزا طب مفرداعضاء کے تحت ہی کیاجاسکتاہے۔ جس کامختصر بیان ہم گذشتہ صفحات میں کرچکے ہیں۔ اس علاج بالغزاکے دلائل درج ذیل ہیں۔
۱۔انسانی جسم سرسے لے کر پاؤں تک صرف چارقسم کے مفرداعضاء سے بناہے۔یہ مفرد اعضاء چاراقسام کے انسجہ (Tissues)سے بنے ہیں جن کی ترتیب و ترکیب اوربافت و ساخت ابتدائی حیوانی ذرہ(Cell)سے ہوئی ہے اورتمام جسم انہی کے تحت کام کرتا ہے۔اعضائے رئیسہ ان کے عامل اور مراکز ہیں ۔ (ا)اعصاب(Nerves)جن کا مرکز دماغ ہے۔(۲)عضلات(Muscles)جن کامرکزدل ہے۔ (۳)غدد(Liver)جن کا مرکزجگرہے۔ان سب کا آپس میں گہراتعلق ہے۔انہی مفرداعضاء کے غذاپرعمل اورتصرف کانتیجہ خون واخلاط اور کیفیات ومزاج ہیں۔
۲۔جسم انسانی کی پرورش وصحت اور نشوونماخون سے ہوتی ہے۔حکماء اوراطباء نے اس خون کوچار اخلاط اور چارکیفیات سے مرکب کہاہے۔
اخلاط۔(ا)خون(۲)بلغم(۳)صفرا(۴)سودا۔کیفیات(۱)گرمی(۲)تری(۳)سردی(۴)خشکی۔
انہی چاروں اخلاط اور کیفیات اور کیفیات کے اعتدال پرجسم کی صحت اور طاقت قائم ہے اوریہی چاروں،انہی چاروں مفرداعضاء(Tissues) کی الگ الگ غذابنتے ہیں۔جن کوہمارے اعضاء تیارکرتے ہیں گویاخون کی مثال پانی کی ہے جوہرقسم کے درخت کواس کی ضرورت کے مطابق غذادیتاہے یامٹی کی ہے جوہرقسم کے درخت کوغذاپہنچاتی ہے۔ خون غذاسے تیارہوتاہے ادویات سے نہیں۔
۳۔ماڈرن میڈیکل سائنس نے خون کاتجزیہ کرکے اس میں چودہ پندرہ عناصر کوثابت کیاہے۔یہی عناصرہمارے عضوی (Organic)عناصرہیں اوریہ عناصرانہی مفرداعضا ء (Tissues)جوصرف چاراقسام کے ہیں کی غذابنتے ہیں۔
۴-ہم جوبھی غذاکھاتے ہیں وہ چاراقسام کے ارکان اورچارہی اقسام کی کیفیات سے مرکب ہوتی ہے۔وہ خون میں بھی چار ہی قسم کے اخلاط تیارکرتی ہےاور پانی ان سے جداہے۔یہی خون چاراقسام کے مفرداعضاءTissues))کی غذابنتاہے۔یادرہے کہ طب کایہ مسلمہ قانون ہے کہ خون غذاسے تیارہوتاہے۔ کوئی بھی دواخون کاجزونہیں ہے۔
5۔کسی مرض کا علاج کبھی بھی کامیابی سے نہیں ہوسکتابلکہ یقیناًموت واقع ہوجاتی ہے جب تک کہ خون کے اندر طاقت نہ ہو۔گویا خون ہی زندگی اور طاقت ہے اوراس سے صحت بھی حاصل ہوتی ہے۔
6۔خون کے اندرسے اس کے عناصرواجزاءء اوراخلاط وکیفیات اگر کم ہوجائیں توپھراس کی قوت مدافعت اورقوت مدبرہ بدن کمزورہوجاتی ہےجوصرف غذاہی سے اعضاءکے ذریعے پیداہوسکتی ہے۔کسی دواسے نہ خون کے اجزاءءاور عناصر بن سکتے ہیں اورنہ ہی قوت مدافعت اور قوت مدبرہ بدن ہی پیداہوسکتی ہےچاہے وہ دواتیز سے تیز اور کتنی ہی زہریلی کیوں نہ ہواور اس کو منہ کی بجائے انجکشن کے ذریعے بھی کیوں نہ دے دیاجائےکبھی صحت نہ ہوگی بلکہ یقینی موت واقع ہوگی۔ انسانی صحت وزندگی اور طاقت کارازغذامیں ہے۔ دوامیں نہیں۔دواکاکام صرف یہ ہے کہ وہ ہمارے جسم کے مفرداعضاءکے فعل کوتیزیا سست کرسکتی ہےاوربس۔ان حقائق سے ثابت ہوتاہے کہ زندگی وصحت اور طاقت کارازدواؤں میں نہیں بلکہ صرف غذامیں ہے۔یہ وہ دلائل اوار حقائق ہیں جن کو کوئی بھی جھٹلا سکتا۔کیونکہ یہ تمام حقائق بالکل فطری ہیں۔
مکمل اورکامیاب علاج کا راز
کسی تکلیف کایہ علاج نہیں ہے کہ اس تکلیف کورفع کردیاجائے۔یہ تکلیف کادبا دیناہے۔اصل علاج یہ ہے کہ اس کے اسباب کورفع کردیا جائے۔جس تکلیف کودبایاجارہاہےوہ تواس تکلیف کی علامت ہے اس کوہرگزدبانانہیں چاہئےبلکہ اس وجہ سے ہی اس مرض کاعلم ہوتاہےاگر اسے ہی دبادیاگیا تومرض اور اس کے اصل سبب کے رفع ہونےکاکیا ثبوت ہے؟لیکن اصل سبب رفع ہونے کے بعد اس کی علامت اورتکلیف خودبخودرفع ہوجائے گی۔اس سے ثابت ہوگاکہ واقعی مرض ختم ہوگیاہے۔
یادرکھیں کہ سبب واصلہ ہمیشہ کسی مفردعضوTissues))کی خرابی ہوگی اوراس کے افراط وتفریط اورتحلیل سے مرض نمودارہوتاہے۔اس میں مفردعضوکے فعل میں خرابی تو اصل مرض ہےاوراس مفردعضوکے عمل کی نوعیت افراط و تفریط اورتحلیل اس کی علامات ہیں۔یہی تینوں علامات کمی بیشی اور مختلف حالات کے ساتھ بے شمارعلامات بن جاتی ہیں۔اب ایک حقیقت باقی رہ گئی ہے۔وہ ہے اصل سبب جس نے سبب واصلہ پیداکیاہے۔یعنی کسی مفرد عضو کے فعل میں خرابی پیداکی ہے۔وہ دواسباب (1 )۔سبب بادیہ (2)۔سبب سابقہ۔ ان میں سے کوئی ایک ہوگا۔اوریہ سبب اس وقت کام کرے گاجب خون کے اندراپنی پوری کیفیت و مادی اثرات پیداکرے گا۔یہ جسم کی کیمیائی حالت ہےاورمفردعضوکی خرابی اس کی مشینی حالت۔اگر صرف اس مفردعضوکی مشینی حالت کی خرابی درست کردی جائےگی توعارضی اوروقتی علاج ہےاور اگرخون کی کیمیائی حالت درست کردی جائے تومرض بالکل ختم ہوجائے گا بس یہی مکمل اورکامیاب علاج کا راز ہے۔
اس مکمل اور کامیاب علاج کے رازپرغورکریں تویہ بھی علاج بالغزاپر ایک زبردست دلیل ہےکیونکہ جسم انسان کے خون کی کیمیائی حالت یعنی اس کی مصفی ومقوی اورمکمل صورت صرف غذاہی سے ہوسکتی ہےکسی دواسے نہیں ہوسکتی ۔اگرکوئی اس حقیقت کوغلط ثابت کردےتو ہم اس کا چیلنج قبول کرتے ہیں۔جو معالج بھی اس حقیقت پر غورکریں گے یقیناً زندگی میں کامیاب معالج ہوں گے۔یہ رازطب یونانی اورایورویدک کاپیش کردہ ہے کیونکہ ان کےعلاج اخلاط و کیفیات اور دوشوں اور پرکرتیوں پرقائم ہیں جوکیمیائی طریق علاج ہیں۔
ایلوپیتھی اورہومیوپیتھی علاماتی علاج ہیں
اس میں کوئی انکارنہیں ہےکہ فرنگی طب(ایلوپیتھی)میں ماہیت مرض اورحقیقت ِاسباب پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ مگرعلاج کی صورت میں عملی طورپرکوشش صرف یہ کی جاتی ہےکہ مریض کوصرف علامات تکلیف دے رہی ہیں ان کو رفع کردیا جائے۔مثلاً کہیں جسم میں سوزش وبخاریا کوئی بھی علامت ظاہرہوتواس کودورکرنے کی کوشش کی جاتی ہے چاہےاس کے رفع کرنے سے مریض کوکتنی ہی تکلیف ہویامرجائےیاہمیشہ کےلئے ناکارہ ہوجائےمگران کی کوشش یہی ہوتی ہےکہ وہ علامات دورہوجائیں اوراس پرفخرکیاجاتاہے۔ اوریہ سب کام مسکنات ومخدرات اور منشیات سے کیاجاتاہے۔تقریباً تمام ادویات نشہ آورہیں۔ اورہومیوپیتھی میں نہ امراض کانام ہے اورنہ ان کےاسباب کاذکرہے اور نہ ہی علم الغزاکی حقیقت پربحث ہے۔ صرف علامات ہی علامات ہیں اورانہیں ہی رفع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ صرف خواص الادویہ کاایک خاص طریقہ علاج ہےاس لئے اس سے مکمل اورکامیاب علاج نہیں ہو سکتا۔
علم الامراض اور علامات
علم الامراض دراصل علم وفن طب کی جان ہے۔جب تک علم الامراض پرپورا پورا عبورحاصل نہ ہواس وقت تک کوئی انسان پورے طور پرمعالج کہلانے کامستحق نہیں ہوسکتا اورنہ ہی صحت کی پوری حفاظت کرسکتاہے۔اس لئے یہ امرذہن نشین کرلیں کہ اس علم کے بغیرہم کسی مرض کاپوری طرح علاج نہیں کرسکتے۔مثلاً ایک مریض کسی معمولی مرض کی شکایت کرتاہے جیسے بدہضمی۔ظاہرمیں یہ معمولی تکلیف ہے لیکن اہل فن جانتے ہیں کہ اس تکلیف کاتعلق پورے نظام اغذیہ سے ہے جومنہ سے لے کرمقعدتک پھیلاہواہے۔اس میں منہ ودانت،معدہ وامعاء، جگر و طحال اور لبلبہ شریک ہیں اور ان کے علاوہ دیگر نظام ہائے جسم کابھی ان پراثرہےجیسے نظام ہوائیہ،نظام دمویہ،نظام بولیہ۔یہ تمام مرکب نظام ہیں جو جسم کے مفرداعضاء کے نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔1)۔نظام عصبی(2)۔نظام عضلاتی ۔ (3)۔نظام غدی۔ان مفرداعضاءکی تدوین بے شمارمختلف حیوانی ذرات، خلیات(Tissues)سے عمل میں آئی ہے۔جب تک نظام ہضم کی صحیح خرابی کامقام وسبب اوردیگراعضاء کا تعلق سامنے نہ آجائے اس وقت تک اس معمولی بدہضمی کاصحیح معنوں میں علاج نہیں ہوسکتاصرف ہاضم ومقوی معدہ اور ملین ومسہل ادویات کا استعمال کردینا علاج نہیں کہلاسکتا اور ایساکرناعطیانہ علاج ہوگاچاہے پیٹنٹ Patent))ادویات اورانجکشنوں سے کیوں نہ کھیلاجائے یہ مریضوں پرظلم ِعظیم اور فن علاج کی بدنامی ہے۔
علم الامراض کی حقیقت کوذہن نشین کرنے سے قبل انسان کوعلم تشریح الابدان،علم افعال الاعضاءاور علم افعال نظام ہائےجسم کاپوری طرح علم ہونا چاہئے۔یعنی صحت کی حالت میں اعضاء کی صورت اورمقام اوران کے صحیح افعال اور نظام ہائےجسم کے حقیقی اعمال کی مکمل کیفیت کیسی ہوتی ہے اس کےبعدجسم انسان کے جس حصہ میں کسی قسم کی کوئی خرابی واقع ہوجائے گی توفوراًاس کے بارے مرض کی پوری حقیقت ذہن نشین ہوجائے گی۔
علم الامراض کی تعریف
یہ ایک ایساعلم ہےجس سے ہرمرض کی ماہیت اورحقیقت اس طرح ذہن نشین ہوجاتی ہے کہ مرض کی ابتدااس کی شکل وصورت ،جسم کی تبدیلیاں، خون میں تغیرات،خراب مادوں کی پیدائش اور ان کے نظام کاپورانقشہ سامنے آجاتاہے۔اس کوانگلش میں پتھالوجیPathology))کہتے ہیں۔
حقیقت ِ مرض
مرض بدن کی اس حالت کانام ہے جب اعضائے بدن اورمجاری(راستے)اپنے افعال صحیح طورپرانجام نہ دے رہے ہوں۔یہ صورت جسم کے تمام اعضاء اور مجاری یاکسی ایک عضواور مجرامیں واقع ہوجائےمرض کہلاتاہے۔ گوہر حالت میں مرض کی دو صورتیں سامنے آئیں گی۔اول عضو کے فعل میں خرابی ہونااوردوسرے خون میں تغیرپیدا ہوجانا۔اول صورت کانام مشینی(Mechanically)خرابی اور دوسری صورت کانام کیمیائی(Chemically) نقص ہو گا ۔
مشینی افعال
مشینی افعال کی تشخیص کےلئےاول نظام ہائے جسم پرمرکب اعضاء اورآخر میں مفرداعضاء پرغورکرنے کے بعد ان کے افعال کی کمی بیشی کومدنظر رکھنا چاہئے ۔
کیمیائی افعال
کیمیائی اثرات کےلئے کیفیات واخلاط کے ساتھ ساتھ ان کےاجزاءئے حرارت وہوااور رطوبت کی کمی بیشی اور تغیرات کاجاننا ضروری ہے تاکہ مشینی افعال کے ساتھ کیمیائی اثرات کے توازن کااندازہ ہو۔
علامت کی حقیقت
علامت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ وہ مرض کی دلیل بن سکے یعنی علامات مرض کی طرف رہنمائی کرسکیں۔گویا مرض اورعلامات دومختلف حقیقتیں ہیں۔ علاج میں کامیابی کاراز یہ ہے کہ علاج مرض کاکیاجائے اور علامت کوکبھی مرض قرار نہ دیاجائے۔
اگرشیخ الرئیس کی تعریف ِمرض کوسامنے رکھاجائےتوعلامت اس پرصحیح صادق آتی ہے یعنی جسم انسان کےجومجریٰ اپنے افعال صحیح طورپرانجام نہیں دے رہے ہیں۔ان سے جسم انسان کی طرف جوصورتیں دلالت کرتی ہیں بس وہی علامات ہیں مثلاً نزلہ ہے جوبذاتِ خود ایک بڑی علامت ہے۔آنکھ،ناک،حلق کی سوزش ،دردسراوردردگلو،سردی یاگرمی اورتری یاخشکی کااحساس،قبض یااسہال،ہاضمہ کی خرابی یابھوک اورپیاس کی شدت،بدن کابہت زیادہ سردیا گرم ہونایابخارہوجانا،شدیدصورتوں میں ناک اورحلق کے اندرسوجن یا نکسیرکاآنا،پیشاب کی کمی یا زیادتی کاپیدا ہونا وغیرہ وغیرہ یہ سب علامتیں ہیں ان کوعلامتیں ہی رہناچاہئے۔کبھی بھی مرض کامقام نہیں دیناچاہئےاگریہی علامات تمام اس عضوکے ساتھ مخصوص کردی جائیں جس کے افعال میں یہ خرابی پیداہوئی ہیں توتشخیص مرض اورعلاج میں تمام خرابیاں دورہوجاتی ہیں اس کے ساتھ تشخیص آسان اورعلاج سہل ہوجاتاہے۔
امراض اور علامات کافرق
اس وقت دنیا میں جس قدرطریق ہائے علاج ہیں جن میں ایورویدک،طب یونانی،ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی شامل ہیں سب میں مرض اورعلامت کاصحیح فرق پیش نہیں کیاگیا۔ان سب میں اگرایک موقع پرایک حالت کومرض کہہ دیا ہے تودوسرے موقعہ پراس کوعلامت بنادیاہےمثلاًمطلق دردیادرد سریاکسی اورجسم کے درد کوایک وقت میں مرض کاعنوان دے دیاہے اوردوسری جگہ کسی مرض میں اسی درد کوکسی کی علامت قرار دے دیا ہے۔ طالب علم جب اس صورت کودیکھتاہے تو پریشان ہوجاتاہےکہ اس کومرض قراردے یا علامت کی صورت میں جگہ دے۔یہیں پربس نہیں بعض اوقات تو سر سے پاؤں تک مختلف اعضاءکے تحت مختلف صورتوں اورمختلف کیفیات میں یہی دردکبھی مرض اورکبھی علامت بناکرپیش کیاجاتا ہے۔پھرہردردکی ماہیت جدا،اصول علاج الگ اورعلاج کی صورتیں علیحدہ بیان کردی جاتی ہیں مثلاًسوزش وورم اوربخاروضعف میں پائی جاتی ہیں۔پھران کی اقسام میں جوکمی بیشی یامقام کے بدلنے سےپیداہوتے ہیں،اسی طرح ان کے فرق حادومزمن اور شرکی وغیرہ شرکی کے تحت بھی بیان کئے جاتے ہیں پھران کے ساتھ ہی علاج وادویات اوراغذیہ بد ل کرایک پریشانی پیداکردی جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہےکہ علامت ہرجگہ علامت ہےجومرض کی رہنمائی کرتی ہے اور مرض مفرداعضاء کی خرابی کانام ہے۔
ہماری تحقیقات کانتیجہ
ہماری تحقیقات سے اول یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ امراض و علامات صرف انسانی جسم کی دومختلف صورتیں ہیں۔ علاج صرف امراض کاکرنا چاہئے علامات کانہیں کیونکہ امراض کے ختم ہونے کے بعد تمام علامات خودبخودرفع ہوجاتی ہیں۔دوسرے امراض خون میں خرابی (کیمیائی تغیرات)سے پیداہوتے ہیں اور خون غذاسے پیداہوتاہے ۔ خون میں جو خرابی ہوگی وہ غذاکی کمی بیشی کانتیجہ ہے۔ تیسرے کسی قسم کی دوایازہرجسم یاخون کاجزنہیں ہے۔تمام جسم صرف خون سے بنتاہے اورخون صرف غذاسے بنتاہے دوا اورزہراعضائے جسم میں داخل ہونے کے بعداپنے اثرات سے صرف اعضاء میں کمی بیشی اورتحلیل ایک عرصہ تک قائم رکھنے کے بعد جسم سے خارج ہوجاتے ہیں اوراپنی شدت سےموت کاباعث بن جاتے ہیں۔ چوتھے اغذیہ ادویہ اور زہرتینوں صرف مفرداعضاء پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن خون کی تکمیل صرف غذاسے ہوتی ہےاوراس کادائمی اثر (کیمیائی)اعضاء کے افعال پرقائم رہتاہے۔پانچواں مستقل اورمکمل علاج صرف غذاسے ہوسکتاہے۔دوااورزہرسے صرف عارضی علاج ہوتاہے۔چھٹے دوااورزہرکے علاج سے صرف خون کی کمی بیشی اورخرابی وکمزوری پوری نہیں ہوسکتی اس لئے اس سے عارضی علاج ہوتاہے۔ ساتواں جسم میں جہاں کہیں مرض ہوتاہےوہاں کے اعضاء اپنی ضرورت کےلئےغذاکوطلب کرتے ہیں جوغذاہی سے پوری ہوتی ہے دواسے نہیں ہوسکتی۔
خواص الاغذیہ بہ نظریہ مفرداعضاء
تمام امراض چونکہ مفرداعضاءکی خرابی(کمی بیشی اورتحیل)سے پیداہوتے ہیں جیسا کہ گذشتہ تحقیقات سے ثابت ہو چکاہے۔اس لئے ہرقسم کی اغذیہ بلکہ دویہ اور زہروں وغیرہ کے اثرات بھی صرف انہی مفرداعضاء پرعمل میں آتے ہیں۔اغذیہ توہضم ہوکرخون بن جاتی ہیں لیکن ادویہ اورزہرتواپنے اثرات کے بعدخارج ہوتے یااپنی شدت سے موت کاباعث بن جاتے ہیں۔انسجہ یعنی مفرداعضاء چونکہ چاراقسام کے ثابت ہوچکے ہیں اس لئے اغذیہ بلکہ ادویہ اورزہربھی اپنے اندرصرف چاراقسام کے اثرات رکھتے ہیں جوانہی انسجہ(مفرداعضاء)پراثرانداز ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چارانسجہ کے علاوہ کوئی نسیج ہی نہیں ہے۔ غذاودوا اورزہرکس پراثرکرسکتےہیں۔ایورویدک نے تین دوش وات، پت،کف اورچوتھے رکت(خون)کوتسلیم کیاہےاورطب یونانی نے چاراخلاط خون،بلغم، صفرا اور سوداتسلیم کئے ہیں۔گویا ایورویدک اورطب یونانی بھی ہرغذاودوا اورزہر کے ماڈرن سائنس کی طرح چارہی قسم کے خواص اوراثرات تسلیم کرتی ہیں جن سے ان چارقسم کے انسجہ(مفرداعضاء)کی غذابنتی ہے۔
جیساکہ ہم اپنے رسائل میں انسجہ اوراخلاط کی تخلیق میں ثابت کرچکے ہیں اورماڈرن سائنس نے خون کے اندر جو پندرہ سولہ اجزاءء پیش کئے ہیں وہ بھی انہی چارانسجہ کی غذابنتے ہیں۔اگرغورسے دیکھاجائے تو ایورویدک کے دوش و رکت اوراخلاط بھی انہی خون کے اثرات سے مرکب ہیں۔ان حقائق سے ثابت ہواکہ ایورویدک اور طب یونانی کی تحقیقات ماڈرن سائنس اور فرنگی طب سے کہیں زیادہ صحیح اور کامیاب ہے۔
اشیاء کے اثرات اور جسم انسان
اغذیہ واشیاء اورادویہ وزہرکے اثرات صدیوں سے جسم انسان پرمعلوم کئے جارہے ہیں اورہزاروں اشیاء کے اثرات اس وقت ہمیں معلوم ہو چکے ہیں جوروزانہ اغذیہ اور ادویات کی صورت میں استعمال ہورہی ہیں اور بہت حدتک یقین کے ساتھ ہورہی ہیں اور یہ سب کچھ تجربہ ومشاہدہ اور تحقیقات کے کمالات ہیں لیکن حیرت اس بات پرہےکہ جب بھی ان اغذیہ اور اشیاء وادویہ اور زہروں پر تجربات ومشاہدات کئے جاتے ہیں ان میں نئے نئے اسرارورموزسامنے آتے رہتے ہیں۔
اشیاء کے اثرات و حقیقت
ایورویدک اور طب یونانی کے عملی دورسے قبل امراض صرف علامات تک محدودتھےجب کسی کوکوئی تکلیف ہوتی تھی تو مذہبی پیشوااپنے تجربات ومشاہدات یا معلومات اورخوابوں کے ذریعے جوعلم رکھتے تھے لوگوں کوان کی تکالیف اورخراب علامات کورفع کرنے کےلئے اغذیہ وادویہ یا کوئی شے یاکوئی عمل بتا دیا کرتے تھے۔صدیوں تک یہ سلسلہ جاری رہااوراکثرادویہ واغذیہ اوراشیاء کے خواص تحریر میں آگئے تاکہ ضرورت کے وقت ان سے کام لیاجاسکےلیکن ایسے علاج صرف ادویات کےاستعمال تک محدودتھے ان میں علاج کے اصول ونظریات اورقانون وفلسفہ کودخل نہیں ہواکرتاتھابلکہ ان کوجادوٹونہ اور تعویذ گنڈے کے طورپراستعمال کیاجاتاتھا آج کل بھی اس قسم کےعطایانہ علاج اکثردیکھے جاتے ہیں
جب ایورویدک اورطب یونانی کے دورشروع ہوئے تواغذیہ وادویہ اوراشیاء کوتکلیف اورخراب علامات کے رفع کرنے کی بجائے بالواسطہ دوشوں اوراخلاط وکیفیات کے تحت استعمال کرناشروع کردیا۔البتہ ان میں ادویات کے بالخاصہ اثرات کوکسی نہ کسی تکلیف اورخراب علامات کےلئے مخصوص کردیاگیااوراس طرح یہ سلسہ بھی صدیوں چلتا رہا۔ اسلامی دورمیں تحقیقات خواص اغذیہ وادویہ اوراشیاء وزہروں کوکیفیات واخلاط کے ساتھ ساتھ اعضاءکے افعال واثرات کوبھی مدنظررکھاگیا۔البتہ بالخاصہ فوائدکوبھی ضرور مدنظررکھاگیاکیونکہ ان کی نوعیتی صورت کے تحت یہ فوائد بھی ضروری سمجھے گئے یہ سلسلہ بھی کئی سوسالوں تک جاری رہا اس کے بعداسلامی دور تحقیقات پرہی فرنگی طب کی بنیادرکھی گئی کچھ عرصہ تویہ سلسلہ جاری رہالیکن جلدہی اس کی تحقیقات کے موڑبدل گئےاوراغذیہ اشیاء اور ادویہ وزہروں کے افعال واثرات کواعضاء کے ساتھ مخصوص کرنے کی بجائےجراثیم کی طرف بدل دیاگیا اورپھر ہر تکلیف اورعلامت کےلئے جراثیم تلاش کئے گئے جس تکلیف وعلامت کے جراثیم نہ معلوم ہوسکے ان کومخصوص یا عمومی قسم کی کمزوری کہہ دیاگیااگران کے اثرات وافعال بالاعضاء لئے گئے توان کا تعلق مرکب اعضاء تک رہایاکسی نہ کسی تکلیف اورعلامت کے ساتھ مخصوص کردئیے گئے۔اس طرح فرنگی میڈیکل سائنس کارخ بالکل بدل دیااور جو تحقیقات اسلامی دور میں کمال تک پہنچی تھی وہ فرنگی دورمیں ختم ہوگئیں اور یہ انتہائی گہری سازش تھی جوبڑی آسانی پایہ تکمیل تک پہنچ گئی۔جس کے ساتھ فرنگی طب کی نشووارتقاء کی گئی اور اب صرف پیٹنٹ ادویات میں ڈوب کرفنا ہوگئی ہےجہاں سے اس کانکلنا بہت مشکل ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ماڈرن میڈیکل سائنس نے تشریح الابدان Anatomy))میں اس قدرتحقیقات کی ہیں کہ اس کو انسجہ وخلیات(Tissues)تک پہنچادیامگراغذیہ وادویہ اور زہروں کے اثرات وافعال کی بنیادان انسجہ،ٹشوز(مفرداعضاء)پرنہ رکھی اورعلم وفن طب اپنے کمال کونہ پہنچ سکا۔
خدائے واحداورخالق قدرت وفطرت نے یہ عزت وکامیابی ہمارے نام لکھ دی تھی اور امراض وعلامات کی تحقیقات کاکام ہم سے پوراکراناتھا یعنی امراض کے بنیادی اعضاء و مفرداعضاء اور انسجہ پر ہم سے تحقیقات مکمل کرانی تھی۔ سو ہم نے تحقیقات سے ثابت کردیاہے امراض مفرداعضاء (انسجہ)کی خرابی(کمی بیشی اورتحلیل)کانام ہے۔باقی ہر قسم کی تکلیف علامات ہیں۔علاج میں امراض کو مدنظررکھناچاہئےدیگر الفاظ میں مفرداعضاء (انسجہ)کے افعال کو درست کرناچاہئےکیونکہ اغذیہ اشیاء اورادویہ اورزہروں کااثرانہی پرہوتاہے اور انہی کی درستگی سے صالح خون پیداہوتاہے جوحقیقی شفاہے۔
اشیاء کی تین اقسام
قدرت نے اپنی فطرت کی تکمیل کےلئےدنیابھرکی اشیاءکوصرف تین اقسام میں تقسیم کر دیاہےتاکہ ان کے افعال واثرات کوسمجھنے میں آسانی اور سہولت رہے۔اول جمادات،دوئم نباتات،سوئم حیوانات جن کو موالید ِثلاثہ کانام دیا گیاہے۔جمادات کائنات وزندگی کی ابتدائی صورت ہے جس کی نشووارتقاء سے نباتات کی صورت پیداکی ہے۔ جمادات اور نباتات میں نمایاں فرق ہے۔جمادات میں مٹی،پتھرسے لے کرنمک اورگندھک اور ہرقسم کی دھاتیں اورپارہ تک پائے جاتے ہیں۔اگرچہ مٹی کاتیلاورپتھرکا ست (سلاجیت)بھی قدرت نے پیداکئے ہیں لیکن نباتات میں جوفولادوچونااورنمکیات وگندھک،تیل وشکر،پھلوں کے رس اورمیوہ جات کےروغن پیداکردئیے ہیں وہ جمادات میں بالکل نہیں پائے جاتے پھراسی نباتات کوحیوانات کی خوراک بنادیاہےلیکن حیوانات میں جو خوبیاں قدرت نے پیداکی ہیں وہ فطرت کی نشووارتقاء میں کمال درجہ رکھتی ہیں۔ حیوانات میں گوشت وچربی اوردودھ اورگھی کے خزانے اورندیاں بہا دی ہیں۔یہ چیزیں نباتات میں ناپیدہیں اور ان کے ساتھ ہی حیوانی چونا،حیوانی فولاد،گندھک،حیوانی نمکیات اورحیوانی رطوبات،دودھ اور شہدکے اپنے نشووارتقاءکادرجہ انتہائی کمال پہلو ہے۔
موالید ثلاثہ کااستعمال
جہاں تک موالید ِ ثلاثہ(جمادات،نباتات اورحیوانات)استعمال کرنے کاتعلق ہےاورمیں سےجمادات میں صرف کھانے کانمک بطورغذااستعمال ہوتاہے اورباقی تمام جمادات ان میں پتھروجواہرات ہوں یالوہایاسونااورسمیات وپارہ تمام ادویات میں استعمال ہوتے ہیں،نباتات میں اغذیہ بھی ہیں اورادویہ بھی شامل ہیں۔اغذیہ میں اناج وسبزیاں، پھل اور میوے،تیل وشکرسب ہمارے روزانہ کھانے پینے میں شامل ہیں۔ادویہ میں زہریلی اور غیرزہریلی جڑی بوٹیاں۔ان کے پھول وپھل اور ان کے پتے اورشاخیں سب شریک ہیں جن کےمتعلق پوری تمیزاورپہچان کتب میں لکھ دی گئی ہے۔اسی طرح حیوانات میں جن حیوانات کے جسم میں زہراورتعفن نہیں ہے ان کاگوشت چربی اوردودھ وگھی انسانی غذامیں استعمال ہوتاہے۔جہاں تک ان اشیاء کے جزوِبدن ہونے کاتعلق ہےجمادات توجزوِبدن ہوتے ہیں۔نباتات بہت کم جزوِبدن ہوتے ہیںاوراور زیادہ مقدارمیں جسم سے خارج ہوجاتے ہیں لیکن حیوانات جوقابلِ غذاہیں زیادہ تر جزوبدن ہوتے ہیںاور بہت کم ان کا فضلہ خارج ہوتاہے۔جولوگ گوشت وچربی بہت کم استعمال کرتے ہیں ان کی غذا میں حیوانی دودھ وگھی اورشہدہوتاہے۔اورجوگوشت وچربی کھاتے ہیں وہ پرندوں کے انڈے اورمچھلی بھی کھاتے ہیں اوریہ اشیاءبھی گوشت میں شامل ہیں۔دنیامیں غذاکے طورپرجوشے سب سے زیادہ کھائی جاتی ہے وہ کسی نہ کسی شکل میں گوشت ہوتاہے۔دوسرے درجہ پر دودھ ہے اور تیسرے درجہ میں پھل اورمیوہ جات ہیں اورآخری درجہ میں اناج ہیں۔گوشت اوردودھ کے زیادہ استعمال سے ثابت ہوتاہے کہ اجزاءئے لحمیہ جودونوں میں پائے جاتے ہیں انسانی غذاکاسب سے نہ صرف بڑاجزوہیں بلکہ ضروری جزاوربے حد مفید ہیں۔بچہ کی پرورش دوسالوں تک دودھ پرہوتی ہے اور پھرتمام عمردودھ یااس کے مختلف اجزاء مکھن وگھی،دہی وپنیروغیرہ کسی نہ کسی رنگ میں روزانہ کھاتاپیتارہتاہے۔جب یہ دونوں اشیاءمیسرنہ ہوں توغذاکاتوازن بگڑجاتاہےاورانسانی صحت بگڑنااورگرناشروع ہو جاتی ہے۔گوشت اوردودھ کے اجزاءکی ضرورت پھلوں اوراناجوں سے ہرگزپوری نہیں ہوتی۔ اگرچہ ان میں اجزاءئے لحمیہ کسی نہ کسی حدتک موجودہوتے ہیں لیکن نباتاتی اجزاءئے لحمیہ حیوانی اجزاءئے لحمیہ کا مقابلہ کسی صورت میں نہیں کرسکتے۔یہی فرق تیل وگھی اوربناسپتی گھی اوراصل گھی کاہوتاہے۔
ماڈرن سائنس کی غذاکے متعلق تحقیقات
فرنگی طب نے اغذیہ کاتجزیہ کرکے ثابت کیاہے کہ انسانی غذامیں کم ازکم ان چار اجزاءکاہوناضروری ہے۔ 1)۔اجزاءئے لحمیہProtein)) ۔ 2۔ اجزاءئے روغنیہ( Fates )۔3۔اجزاءئے شکریہ ونشاستہ (Carbohydrates)۔4۔ نمکیات(Salts) اوران کے ساتھ پانچویں شے پانی شریک ہے اوراس نے ثابت کیا ہےکہ گوشت وانڈہ اوردودھ میں کم وبیش یہ پانچوں اجزاء پائے جاتے ہیں۔اگرچہ یہ اجزاء اناجوں، سبزیوں،پھلوں اورمیوہ جات میں پائے جاتے ہیںلیکن ہر ایک میں تمام اجزاء شریک نہیں ہوتے اس لئے اس کو مکمل غذانہیں کہا جا سکتااور جب تک غذاکے مکمل اجزاء جسمِ انسان میں داخل نہ ہوں اس وقت تک نہ ہی مکمل اورصالح خون بنتاہے اور نہ ہی صحت قائم رہ سکتی ہے۔اس لئے صحت وطاقت اور زندگی کےلئےغذاکاصحیح توازن بے حد ضروری ہے۔ان تحقیقات سے یہ ثابت ہوتاہے کہ گوشت اور دودھ(Protein)اجزاءئے لحمیہ کوغذا میں اولین اہمیت حاصل ہے۔
اشیاء کے صرف تین اثرات
خداوندِکریم نے دنیا میں جس قدر اشیاء پیداکی ہیں ان کاشمارناممکن ہےلیکن حکماء نے ان کوموالیدثلاثہ جمادات ونباتات اور حیوانات تین اقسام میں تقسیم کردیاہے اوران کانمایاں فرق حکماء اورعقلمندوں کے سامنے ہے جس سے ان کےافعال واثرات اورخواص وفوائد حاصل کرنے میں نہ صرف سہولتیں ہوتی ہیں بلکہ ا ن کے استعمال میں آسانیاں پیداہوگئی ہیں۔
موالیدثلاثہ کی تقسیم کی طرح ہم نے بھی دنیاکی بے شماراشیاء کے فوائدوخواص کوجاننے کےلئے انہیں مفرداعضاء (انسجہ)کے تحت صرف تین اثرات میں تقسیم کردیاہے تاکہ ان کے افعال واثرات کوسمجھنے میں مشکلات پیدانہ ہوں اورانہی تین اثرات وافعال کوضرورت کے مطابق آئندہ پھیلایاجاسکتاہے اس طرح علاج میں کسی قسم کی غلطی کا امکان بہت کم ہوتاہے اورعوام بھی سہولت سے ہرشے کویقین سے استعمال کرکے مستفید ہوسکتے ہیں۔جاننا چاہئے کہ دنیا بھر میں موالید ثلاثہ کی شکل میں جس قدر اشیاء پائی جاتی ہیں وہ اپنے اندرصرف تین اثرات رکھتی ہیں۔ خالقِ مطلق نے چوتھا اثرپیداہی نہیں کیا۔البتہ انہی تین اثرات کوخلط ملط کرنے سے سینکڑوں اورہزاروں رنگ بنائے جاسکتے ہیں۔وہ تین اثرات کھار،ترشی اورنمک ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ نمک بھی کھاراورترشی کامرکب ہے۔
دنیا بھر کی کسی شے کواستعمال کریں اس کے اثرات وافعال میں کھاری پن ہوگایاترشی کی کیفیت یانمکین حالت پائی جائے گی۔جب ہم ان تینوں چیزوں کوبارباراستعمال کرتے اور تجربہ ومشاہدہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں تو پتہ چلتاہےکہ کھارکے استعمال سے جسم میں رطوبت اورٹھنڈک بڑھ جاتی ہےاوران کااخراج بھی زیادہ ہوتاہے۔ترشی کے استعمال سے جسم میں خشکی اورجوش بڑھ جاتے ہیں اورریاح کے اثرات نمایاں ہوجاتے ہیں۔اسی طرح نمک کے استعمال سے جسم میں حرارت اور تیزی زیادہ ہوجاتی ہے اور جسم میں نرمی پیداہوجاتی ہے۔
کھاروترشی اور نمک کے اثرات بالمفرداعضاء
1۔کھاری اشیاء جوجسم میں رطوبات وتری اور بلغم پیداکرتی ہیں۔ان کا اثرنسیج اعصابی پر ہوتاہے۔جس کامرکزدماغ ہے اور اس میں قارورہ مقدار میں زیادہ اوراس کارنگ سفیدیامائل نیلاہٹ ہوتاہے۔
2۔ترش اشیاء جوجسم میں خشکی اورجوش اور ریاح پیداکرتی ہیں ان کااثرنسیج عضلاتی پر ہوتاہے جس کامرکزدل ہے اس میں قارورہ مقدارمیں کم اوراس کارنگ سرخ یامائل زردی ہوتاہے۔
3۔نمکین اشیاء جوجسم میں حرارت وتیزی اورصفراء پیداکرتی ہیں ان کااثرنسیج قشری پر ہوتاہےجس کامرکز جگرہے اس میں قارورہ کارنگ زردیا زردسفیدی مائل ہوتاہے۔تین ہی حیاتی اعضاء ہیں اور یہی اعضائے رئیسہ ہیں۔ چوتھا مفردعضونسیج المعانی بنیادی عضو میں شریک ہے اس کوغذاحیاتی اعضاء سے ملتی ہے۔
مفرداعضاء کے تحت ذائقے
ہرمفردعضو(Tissue)کےلئےدودوذائقے ہیں۔اعصاب کے تحت ایک شیریں دوسرا کسیلا۔عضلات کے تحت ایک ترش دوسراتلخ۔غدد کے تحت ایک چرپرااور دوسرا نمکین۔گویا کل چھ ذائقے اورمزے ہیں۔ان کوایورویدک میں رس اورانگلش میں(Taste) ہتے ہیں۔دنیابھر کی کوئی غذادوا اورزہرایسا نہیں ہے جوان چھ ذائقوں اور مزوں سے باہرہو۔بس یہی تین افعال واثرات اورچھ ذائقے اور مزے خواص وفوائد غذائی علاج کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔
ضرورت غذا
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ انسان کی زندگی وقوت اور صحت کادارو مدارصرف کھانےپینے اورہواپرہے اور ان میں غذاکوبھی زبردست اہمیت حاصل ہے۔کیونکہ انسان بغیرغذاکے ہوا اورپانی پرکچھ عرصہ زندہ رہ سکتاہے لیکن بغیزغذااس کی طاقت روزبروز گھٹتی جاتی ہے اور صحت بگڑنا شروع ہوجاتی ہے۔یہاں تک کہ وہ انتہائی کمزور ہوکر مرجاتاہے۔اس سے ثابت ہواہے کہ زندگی کے ساتھ ساتھ صحت اورطاقت کاراز غذامیں پوشیدہ ہے کیونکہ اس غذا سے جوطاقت پیداہوتی ہےوہ اس قوت کابدل بنتی ہےجوروزانہ انسانی جسم اپنے احساسات وحرکات اور ہضم غذا پر خرچ کرتاہے۔گویا غذاکاسب سے بڑا کام بدل مایتحلل کوپوراکرناہے۔بعض لوگوں میں کثرتِ محنت کی وجہ سے زیادہ قوت خرچ ہوتی ہے اوران میں زیادہ تحلیل واقع ہوتی ہے۔ان میں بھی بعض دماغی محنت کرتے ہیں جس سے ان کے اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں جن کاتعلق دماغ سے ہے۔اور بعض محنت توکسی قسم کی نہیں کرتےمگرکثرتِ خوراک کے عادی ہوتے ہیں ان کے گردے اورغددکمزور ہوجاتے ہیں جن کاتعلق جگرسے ہوتاہےکیونکہ کثرتِ خوراک سے ان کے جگراورغددکوبہت محنت کرناپڑتی ہےاس لئے جس قسم کی جسم انسان محنت کرناپڑتی ہےاسی قسم کی کمزوری پیداہوجاتی ہے۔آخرکار انسان مرجاتاہے۔
اسی طر ح ہرعمر میں مختلف قسم کی غذاکی ضرورت ہوتی ہے۔اگر اس عمرمیں ویسی غذامیسرنہ ہوتوکمزوری واقع ہوکر صحت بگڑناشروع ہوجاتی ہے۔ مثلاً بچپن میں جب اس کےلئے نشوو ارتقاء کی ضرورت ہوتی ہے یہ زمانہ پیدائش سے اکیس تاپچیس سالوں تک ہوتا ہے۔بچوں کامزاج اعصابی ہوتاہے اس میں تری زیادہ ہوتی ہےجو اس کی گرمی پر غالب رہتی ہے۔یعنی ترگرم(اعصابی غدی)ہوتاہے۔جوانوں کا مزاج غدی ہوتاہے۔اس میں گرمی اورتری برابر ہوتی ہےیعنی گرم تر(غدی اعصابی)ہوتاہے۔بوڑھوں کامزاج عضلاتی ہوتاہےان میں خشکی غالب رہتی ہےیعنی خشک گرم(غدی عضلاتی)ہوتاہے۔جب بھی ان کے مزاجوں کے مطابق غذانہیں ملتی تو ان میں کمزوری پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے جس سے اس کے اندر امراض پیداہوجاتے ہیں۔جب غذا کے مطابق میسرآجاتی ہے تومرض رفع ہوجاتاہے اسی طرح آب وہوا نفسیاتی وکیفیاتی اثرات کے تحت بھی غذامیں کمی بیشی ہوکرضعف اور مرض پیداہو جاتا ہے۔
جاننا چاہئے کہ جب بھی کسی قسم کی محنت کی جاتی ہے تو اس کا اثرخون کے ساتھ جسم انسان کے ان مفرداعضاء (انسجہ) پرپڑتاہے جن سے جسم انسانی مرکب ہےاسی محنت سے ایک طرف جسم میں خون اور اس کی طاقت خرچ ہوتی ہے اور دوسری جسم کے خلیات ، سیلزCells))میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے۔جن سے مفرداعضاء (انسجہ)بنتے ہیں۔یہ ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ خون حرارت ورطوبت اورریاح سے مرکب ہے۔ان کاپوراپوراامتزاج ہی اس کی صحیح معنوں میں طاقت ہے۔اسی طرح ہمارےمفردحیاتی اعضاء(انسجہ)بھی تین قسم کے ہیں۔اعصابی،عضلاتی اور غدی۔ان کے بھی صحیح معنوں میں افعال ہی ان کی قوت ہیں۔یہ بھی ہم واضح کرچکے ہیں کہ اعصاب کاتعلق رطوبت اوربلغم سے ہے۔غددکاتعلق حرارت اورصفراء سے ہے۔عضلات کاتعلق ریاح اورخون سے ہے۔اس لئے خون کی کمی اور کمزوری اور خلیات کی ٹوٹ پھوٹ کےلئے ہمیں متوازن خوراک کی ضرورت ہے۔اگرکوئی مرض پیداہوجائے تو اس کےلئے مناسب غذاکی ضرورت ہے ۔یہ بات ہم واضح کرچکے ہیں کہ خون صرف غذاسے بنتاہے دواسے نہیں بنتا۔ اسی طرح مفرداعضاء (انسجہ) خون سے بنتے ہیں۔البتہ دوااور زہران کے افعال میں کمی بیشی اورتحلیل ضرورکرسکتے ہیں۔اس لئے زندگی وقوت اورصحت کادارومدارصرف غذاپرہے۔
جسم انسان کوکیسی غذاکی ضرورت ہے
انسان اشرف المخلوقات ہےفلسفہ ارتقاء کے تحت انسان کا مقام حیوان سے اعلیٰ وافضل ہے۔اس لئے انسان کی غذا حیوانات پرہے۔اس پردلیل یہ ہے کہ بچے کی پہلی غذاماں کادودھ ہے جوحیوانی غذاہےجب انسان بڑاہوتاہےتواس کی غذاحیوانی گوشت ہوتا ہےجس میں انڈے اور مچھلی بھی شریک ہے۔اس حیوانی غذامیں انسانی زندگی وقوت اور صحت کوقائم رکھنے کےلئےسب اجزاء ہوتے ہیں لیکن جب انسان کوحیوانی غذامیسرنہ رہی یاوہ قلیل ہوگئی توپیٹ بھرنے کےلئے انسان نے پھلوں اور میوہ جات کا استعمال شروع کردیا۔ان میں ایک طرف پیٹ کےلئے تسکین تھی اور دوسری طرف ان میں غذاہضم کرنے کی بھی قوت تھی کیونکہ پھلوں اور میوہ جات میں غذاؤں کے کم وبیش اجزاء کے ساتھ نمکیات کی کثرت ہوتی ہے جوخون کےلئے ضروری ہیں۔
جب دنیا میں تہذیب پھیلی اور ہرطرف تمدن کا دور دورہ ہواتوحیوانی غذاؤں اورپھلوں ومیوہ جات پرقوت ودولت اورحسن کاقبضہ ہوگیاتوکمزوراورغریب عوام کےلئے غذا کاحصول مشکل ہوگیااورانہوں نے اصل غذاکی بجائےاناج اورسبزیوں سے زندگی اورقوت وصحت کےلئے پیٹ پُری شروع کردی۔مغلوب ہونے کی وجہ سے وہ اس کے سوا اورکربھی کیا سکتے تھےلیکن گوشت وچربی اوردودھ وگھی میں جوغذائیت وقوت ہے وہ اناجوں اورسبزیوں سے کیسے حاصل ہوسکتی ہے لیکن رفتہ رفتہ انہی اناجوں ،دالوں، چاولوںاورسبزیوں کو ضرورت کے مطابق گوشت،انڈوں، دودھ،چربی اورگھی سے ملاکرپکانے سے ان میں غذائیت وقوت اورلذت پیداکرلی گئی جس کا نتیجہ یہ ہواکہ کمزوراور غریب عوام کے ساتھ ساتھ صاحبِ ثروت وقوت ودولت اورمالکِ حسن نے بھی ان چیزوں کوکھانا شروع کردیا جس کانتیجہ یہ ہواکہ اصل غذائیت کی اہمیت انسان کے دل سے نکل گئی اوراصل قوت جس سے وہ درندوں اور شیروں سے لڑاکرتاتھا ختم ہوگئی اور وہ اپنی طاقت کو قائم رکھنے کےلئے دواؤں اور زہروں کااستعمال کرنے لگا۔
گوشت کے اثرات
جسم انسان کے تمام عضلات جن کامرکزدل ہے یہ سب گوشت ہے اس کامزاج ترگرم ہے اورجب پک جاتاہے تو گرمی تری میں معتدل ہوجاتاہے اور یہی انسان کابہترین مزاج ہے۔گوشت کی بناوٹ میں فولاد اورچونابہت کثرت سے پایاجاتاہے۔جگراورتلی میں فولاد کی کثرت ہےاورمعدہ وپھیپھڑوں میں چونے کا خزانہ ہے۔اسی طرح مختلف قسم کے اعضائے حیوانی مختلف اقسام کی رطوبات وحرارت اورنمکیات اور دیگراجزاءء خون بناتے ہیں۔ان میں سے اگرکسی کوبھی استعمال کیاجائے گا وہ جسم میں جاکروہی اثرات واجزاءء پیداکرے گا۔علاج بالغزاکےلئے یہ بہت بڑا خزانہ ہے۔
مختلف چرند،پرنداورحیوانات کے گوشت میں قدرت نے بڑافرق رکھاہے۔اگر ہم بکری کے گوشت کامزاج کے لحاظ سے معتدل خیال کریں تو زیادہ بہترہے۔کیونکہ اس حرارت اور رطوبت اور ریاحی مادے تقریباًمعتدل ہیں۔ اگراس کے مقابلےمیں بھیڑ،دنبہ،گائے اوربھینس کے گوشت کواستعمال کریں توان میں بکری کی نسبت حرارت کم ،رطوبت اور ریاحی مادے زیادہ ہیں۔اسی طرح اگربکری کی نسبت مرغی اوربطخ اور تیتروبٹیر وغیرہ پرندوں کے گوشت استعمال کئے جائیں توان میں حرارت ورطوبت زیادہ اور ریاحی وارضی مادے کم ہیں چونکہ انسانی زندگی کوقوت اورصحت کےلئے پرورش وربوبیت کی زیادہ ضرورت ہے اس لئے بکری کے گوشت سے لے کر پرندوں کے گوشت تک کااستعمال زیادہ مفیدہے۔جسم میں سوزش،ورم اوردردوبخار کےلئے یہی گوشت مفیدہے۔البتہ اگر جسم میں حرارت و صفراء کی زیادتی سے رطوبات اور ارضی مادوں کی کمی ہوجائے توپھرگائے بھینس کے گوشت اکسیرکاکام کرتے ہیں۔
انسان چونکہ گوشت پکاکرکھاتاہے اوراس میں مختلف قسم کے مصالحہ جات ڈالتاہےاس میں حرارت کی زیادتی کے ساتھ ساتھ ہضم کی بھی زیادتی ہوجاتی ہے۔گوشت اچھی طرح گلا کرکھانا چاہئےتاکہ اس کاایک ایک ریشہ ہضم ہو کر خون اورجزو بدن بن جائے۔کچاگوشت وحشت پیداکرتاہے اور بجائے قوت اور صحت کے تکلیف اورامراض پیدا کرتاہے۔
انڈے اورمچھلی
ہرقسم کے انڈے اورمچھلیاں بھی گوشت میں شریک ہیں جن پرندوں کے انڈے ہوتے ہیں وہی تاثیررکھتے ہیں۔ مچھلی کے گوشت میں حرارت سے زیادہ رطوبت غالب ہے۔اس لئے بہت جلد گندی اورمتعفن ہوجاتی ہے اس تعفن سے اعصاب میں انتہائی تیزی پیدا ہوجاتی ہے جس سے جسم میں چونے اورفولادکی نہ صرف کمی واقع ہوجاتی ہے بلکہ جلد کارنگ خراب ہوکرسفید داغ اور دھبے پڑجاتے ہیں۔مچھلی کے ساتھ رطوبت والی اغذیہ مثلاًدودھ اور دہی کھانے سے اس کو جلد متعفن کردیتاہے۔جب تک مچھلی جسم میں جاکر متعفن نہ ہواس کانقصان نہیں ہوتا چاہئے اس کے ساتھ کچھ کھالیاجائے۔مچھلی کھانے والوں کواس امرکی تاکیدہونی چاہئے کہ مچھلی ہمیشہ تازہ بلکہ زندہ لے کر پکائی جائے پھر اس سے کبھی نقصان نہیں ہوتااوربے حد مفید ثابت ہوتی ہے اس میں جوانی قائم رکھنے کی بہت بڑی طاقت ہے۔
دودھ اور گھی
دودھ کوآبِ حیات اورگھی کوتریاق کہنا زیادہ مناسب ہے۔انسان کی زندگی دودھ سے شروع ہوتی ہےاور باقی تمام زندگی اگر میسرآئےتودودھ مکھن ،دہی اور گھی پر گزار دیتاہے۔ان اشیاء کے استعمال سے انتہائی قوت اورصحت قائم رہتی ہے اور انسان لمبی عمرپاتاہے۔دودھ کامزاج ترگرم ہے اورجس جانورکادودھ ہوتاہے اپنی رطوبت کے ساتھ گرمی کے وہی اثرات اپنےاندررکھتاہے۔سفیداور سیاہ جانوروں کادودھ زیادہ زیادہ رطوبت اور سردی کی طرف مائل ہوتاہےجیسے گدھی کادودھ،گھی کامزاج گرم ترہے۔جسم انسان کے اندرکسی قسم کی سوزش،ورم اوردردوبخارہواس کا شرطیہ تریاق ہے۔جس ملک میں خالص گھی ملتاہووہاں تپ دق وسل نہیں ہوسکتا۔فالج وذیابیطس کےلئے بے حد مفیدہےاس کاجسم پرایساہی اثرہوتاہے جیسے پرزوں پرتیل اثرکرتاہے۔یہ حیوانی گندھک ہے دوسرے معنوں میں اس کو روغن گندھک کہہ دیں جس کے لئےکیمیادان ترستے ہیںکہ ہردھات کوسونابنادیتاہے۔اسی طرح یہ گھی بھی جسم میں سونےکے خواص پیدا کردیتاہے۔ہماری رائے میں انسانی غذاصرف گھی ہےجوکبھی گوشت کبھی دودھ اور کبھی اناج کےساتھ کھایاجاتاہےاورزندگی وقوت اورصحت بخشتا ہے۔ بناسپتی اس کے مقابلے میں زہرہے۔یہ تیل سے تیارہوتاہے۔تیل جسم میں تیزاب پیداکرتاہےگندھک پیدانہیں کرتااورجب تیل میں تیزادویات اور گیسیں شامل کرکےاس کوگھی بنایاجاتاہےتووہ زہربن جاتا ہے۔ دوسرے معنوں میں بناسپتی اورصابن کانسخہFormula))ایک ہے۔صابن گاڑھا ہوتا ہے اور بناسپتی گھی رقیق ہوتاہے اس میں جس قدر چائیں وٹامن ملالیں اس کے زہرہونے اورنقصان پہنچانےمیں کوئی کمی نہ ہوگی۔گویاقوت اورصحت کےلئے نقصانِ عظیم ہے۔
شہد
حیوانی اغذیہ میں شہدبھی شامل ہے۔جوشہدکی مکھیاں پھلوں اورپھولوں سے تیارکرتی ہیں۔اس میں قدرت کی جانب سےانتہائی مٹھاس کے ساتھ انتہائی حرارت کے اثرات پائے جاتے ہیں۔اس کے دوتین چمچےکھانے سےجسم فوراًگرم ہوجاتاہے۔باوجود انتہائی گرم ہونے کی وجہ سے جسم کے اندرکی ہرقسم کی سوزش اورورم کے لئےانتہائی مفیدہے۔ ان مقاصد کےلئے اس کاشربت یاچائےوقہوہ میں ڈال کراستعمال کرنامفیدہے۔شہدکامزاج گرم ترہے لیکن دیگر اغذیہ اور پانی کے ساتھ ہرمرض میں استعمال کیاجاسکتاہے۔کیونکہ یہ اپنی حرارت کی وجہ سے جگراوراعصاب کےلئے بے حد مقوی اورمحرک اثرکرتاہے۔شہد تیار کرنے کا موجودہ اورمروجہ طریقہ سے جوشہدحاصل ہورہاہے وہ ان خواص ،افعال واثرات کا حامل نہیں ہوتا جو قدرتی شہدکے اندرہوتی ہیں۔علاوہ ازیں شہد کی ایک قسم گلوکوزکی بھی ہے۔یہ نباتاتی مٹھاس ہےاوریہ شہدکانعم البدل ہرگزنہیں ہوسکتا۔ان کافرق ایساہی ہے جیسادیسی گھی اوربناسپتی کاہے۔گلوکوزکامزاج ترسرد ہے اس میں جتنے بھی وٹامن شامل کرلئے جائیں وہ شہد کی طرح نہیں ہوسکتااورشہد ہر مرض میں گلوکوزسے بدرجہابہترہے۔
نباتاتی اغذیہ میں مکمل غذائیت نہیں
نباتات میں ہر قسم کے میوہ جات،پھل،اناج،دالیں،سبزیاں اورجڑیں سب شامل ہیں۔ نباتاتی اغذیہ حیوانی اغذیہ کے مقابلے میں بالکل ایسی ہیں جیسے بھوسہ ، یعنی پیٹ بھرنا ورنہ جہاں تک غذائیت کاتعلق ہےان میں مکمل غذائیت نہیں ہےان میں افضلیت میوہ جات اورپھلوں کو حاصل ہےکیونکہ ان میں اجزائے لحمیہ،اجزائے روغنیہ،اجزائے شکریہ اور نمکیات کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔جس طرح پھل اورمیوہ جات حیوانی اغذیہ کامقابلہ نہیں کرسکتے اسی طرح ا ناج ودالیں اورسبزیاں وجڑیں،پھلوں اورمیوہ جات کامقابلہ نہیں کرسکتے۔
میوہ جات اور پھل
میوہ جات میں بادام،پستہ،ناریل،اخروٹ،مونگ پھلی،چلغوزہ اورکھاجایہ سب غذائے دوائی ہیں اپنے اندرکافی حرارت اورقوت رکھتے ہیں۔ان کا دوائی اثربھی غیرمعمولی شدت پیداکردیتاہے لیکن غذائی علاج میں ان سب کوبہت اہم مقام حاصل ہے۔سردیوں میں ان کا استعمال بے حدمفیدہے۔ پھلوں میں کھجور،انگور،آم،سیب،مالٹا، امرود، ناشپاتی، لیچی،کیلا،جامن،فالسہ،انجیر،انار،میٹھا،آلوچہ،آڑواورآلو بخارا وغیرہ۔ان میں بعض گرم ہیں جیسے کھجور،انگور،آم اور انجیر وغیرہ۔بعض اپنے اندرغذائیت رکھتے ہیں جیسے سیب، امرود، کیلا، جامن، خوبانی، شہتوت،لیچی،آلوبخارا،انار،میٹھا،انناس،تربوز،رس بھری،آلوچہ ،گنا اور سنگترہ وغیرہ۔
اناج ودالیں اور سبزیاں وجڑیں
اناجوں میں گہیوں کواولیت کادرجہ حاصل ہے۔اس کے بعد چاول پھرچنے اور دیگر دالیں ،م کئی ،باجرہ،جواراورجو وغیرہ۔ان میں درجہ بدرجہ نشاستہ اور غذائیت پائی جاتی ہے۔سبزیوں میں میتھی،پالک،کریلے،آلو،مٹر،گاجر، مولی، گوبھی،کھیرا ،ککڑی،شلغم،کدو،کچنار ،چقندر،سیم ،بینگن،بھنڈی،اروی ،ٹینڈے ،سرسوں کاساگ،ادرک،پیازان میں گرم و سرد دونوں اثررکھنے والی سبزیاں ہیں۔یہ دراصل دوائے غذاہیں۔ان میں غذائیت بہت کم پائی جاتی ہے۔ بہرحال پیٹ بھرنے کےلئےاستعمال کی جاتی ہیں اوربوقتِ ضرورت مختلف امراض کا علاج بھی ہیں۔
بھوک
بعض حکماءنے لکھاہےبھوک بھی ایک مرض ہے اس کاعلاج غذاہےاس کا مطلب یہ ہےکہ جب تک مرض کی طرح تکلیف نہ ہوتو غذانہیں لینی چاہئے ہم یہ کہتے ہیں کہ جب غذاکھانے سے امراض پیداہوں توغذاکھاناچھوڑدیناچاہئے۔ کیونکہ سوائے چوٹ و گر پڑنے اور بیرونی حادثات کے کوئی مرض بغیرضرورت غذا و اشیاء اور دوااورزہرکھانے پینے کے پیدانہیں ہوتا۔انتہائی بھوکا انسان کمزوری کااحساس تو ضرور کرئے گامگریہ نہیں کہے گاکہ وہ مریض ہے۔اس حقیقت سے یہ ظاہر ہےکہ صحت اورمرض کی حدفاصل بھوک ہے۔ بھوک کی شدت ہی غذاکی ضرورت کااظہارہے اور یہی ثقیل اورزیادہ سے زیادہ غذاکوہضم کرادیتی ہے۔بھوک دراصل ایک زبردست قوت اوراللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔بھوک کے یہ معنی نہیں ہیں کہ چندلقمےکھالئے جائیں بلکہ ایسی بھوک ہوجوانسانی معدے کے خلا (Capacity)کوپوری طرح بھر دے تاکہ طبیعت میں ہضم کادبائو(Pressure)پورے طورپرکام کرےمثلاً ایک انسان کے پیٹ میں اندازاًدرمیانہ درجہ کی تین روٹیاں پڑتی ہیں تویہی اس کی بھوک ہے۔اگرتین روٹیوں سے پیٹ بھرنے والاایک یا نصف روٹی کھائےگ اتویہ اس کی بھوک نہ ہو گی۔ یونہی بغیر ضرورت صرف خواہش یاشوق سے کھا لیاہےتوایسی غذامیں ہضم کاد بائوپورانہیں بنے گا اورغذاپڑی رہے گی اورمتعفن ہوجائے گی جس کانتیجہ امراض کاپیداہونا ہے ۔
کم کھانا
غذاکم کھانے کےمتعلق ایک بہت بڑی غلط فہمی پیداہوچکی ہے لیکن اس کی حقیقت سے کوئی واقف نہیں ہے۔بعض لوگ اپنی کم خواراکی پر فخرکرتے ہیں کہ وہ صرف چند لقمے کھاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے پیٹ میں بہت سی غذاغیرمنہضم پڑی رہتی ہےجس میں خمیر اورتعفن پیداہوتارہتاہےجوان کوکھانے نہیں دیتا۔جب تک پورے معدے کی بھوک نہ ہوکھانا نہیں چاہئے۔کم کھانااس کو کہتے ہیں کہ بھوک توتین چار روٹیوں کی ہومگر نصف یا ایک روٹی کھائی جائے ۔ اسی بھوک کی روشنی میں ہم نے چند اصول ترتیب دئیے ہیں تاکہ ہرشخص فائدہ اٹھاسکے۔کیونکہ تجربہ نے بتایاہے کہ ہرشخص بھوک کی ضرورت نہیں سمجھ سکتا اور کھا لیتا ہے ۔ پھرتکلیف اٹھاتاہے۔
1۔ہرایک غذاکے بعد دوسری غذاکم از کم چھ گھنٹے بعدلینی چاہئے کیونکہ پوری غذابارہ گھنٹوں میں ہضم ہوتی ہے۔چھ گھنٹوں میں وہ معدہ اور چھوٹی آنتوں میں سے گزرکربڑی آنتوں میں پہنچ جاتی ہےاس طرح دوہضم سے جوغذاخراب ہوجاتی ہے اس سے بچ جاتاہے۔
2۔ چھ گھنٹے کے بعد بھی یہ شرط ہے کہ بھوک شدید ہونی چاہئے ورنہ اور وقفہ بڑھادینا چاہئے البتہ اس وقفہ میں پانی پیا جاسکتاہے۔
3۔غذاخوب پُختہ گلی ہوئی اور ذائقے کے مطابق ہونی چاہئے۔اگرطبیعت نے پسندنہ کی توہضم نہ ہوگی۔
غذابطوردوا
غذا کی اہمیت وضرورت اور حقیقت کو سمجھنے کے بعد یہاں پریہ مقام آتاہے کہ غذاکوبجائے خوارک کے دواکےطور پر استعمال کیاجائے یعنی جس غذاکی مرض میں ضرورت ہے اس کواستعمال کیاجائے اور جوغذا نقصان دہ ہے اس کو استعمال نہ کیاجائےاس طرح مفید اغذیہ کے استعمال اورغیرمفیداغذیہ کونکال دینے سے مرض رفع ہوجاتاہےاس طرح خون میں ایسی طاقت پیداہوجاتی ہےجس سے ہرقسم کے مشکل اورپیچیدہ امراض بھی چند دنوں میں رفع ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔کیونکہ مکمل ومقوی اور مصفی خون ہی جسم ونفس اور روح کےلئے زندگی وقوت اور صحت ہے اور یہی علاج بالغزاکا راز ہے ۔
ایلوپیتھی نظریہ غذا
ایلوپیتھی طب کادعویٰ
ماڈرن سائنس اور فرنگی طب کادعویٰ ہے کہ انہوں نے غذاپربے حد تحقیق کی ہے۔جن غذاؤں کی ضرورت ہے ان کے ایک ایک جز کا تجزیہ اور مشاہدہ کیا ہے۔اس کے علاوہ صحت کوقائم رکھنے کےلئے جن غذائوں کی ضرورت ہے ان کے ایک ایک جز کا تجزیہ اور مشاہدہ کیا ہے۔یہاں تک تحقیق کی گئی ہےکہ کن کن غذائوں کی کمی سے کون کون سے امراض پیدا ہوتے ہیں بلکہ یہاں تک مشاہدات اور تجربات کئے گئے ہیں کہ مختلف حیاتی ذرات(Salts)کن کن غذاؤں سے زندہ رہتے اور بڑھتے ہیں اورکن کن غذائی اجزاء سے بیماراورفناہوجاتے ہیں اس کے علاوہ یہ بھی مشاہدات اور تجربات کئے گئے ہیں کہ جن غذاؤں اور ان کے اجزاءکی کمی یاخرابی سے جوامراض پیداہوتے ہیں اوران کے استعمال سےوہ امراض رفع ہوجاتے ہیں ان تجربات اور مشاہدات کے بعدانہوں نے غذاکا ایک قانون بنایاہے جس کانام ہے متوازن غذا یعنی ایسی غذاکااستعمال جس سے صحت قائم رہے اور اگر بگڑگئی ہوتواس متواز ن غذاسے اس کوصحت کی طرف واپس لایاجائے۔
متوازن غذاکیاہے
متوازن غذاسے مرادوہ غذاہےجوتندرستی کی محافظ ہو۔یعنی اس کے استعمال سے خون کے اجزاء مکمل ہوں اور اس میں کیمیائی طور پر حرارت پیداہواورقائم رہےساتھ ہی اعضاء کے افعال اعتدال کے ساتھ کا م کریں اور ان میں طاقت قائم رہے۔اس طرح صحیح معنوں میں جسم کا بدلِ مایتحلل قائم رہے ایسی ہی غذامتوازن ہوسکتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے اس کی تعریف یہ کی ہے کہ مکمل جسمانی وذہنی اورمعاشرتی آسودگی کا دوسرانام تندرستی ہے اورآسودگی اس وقت حاصل ہوسکتی ہے جب ہماری غذامتوازن ہو اوراس میں وہ تمام اجزاءمتوازن مقدار میں موجود ہوں جن سےجسم کومناسب مقدارمیں حرارت اور طاقت ملتی ہے۔گویااچھی اورمتوازن غذاوہ ہےجوجسم کے ہر خلیے(Cell) کوطاقت بخشے اس مقصدکےلئے غذامیں مندرجہ ذیل بنیادی اجزاء یا بنیادی غذائی مادے ہونے چاہئیں۔ 1۔غذا۔جس کی تین اقسام ہیں۔2۔معدنی نمک ،اجزائے خون۔ 3۔پانی۔4۔وٹامن جن کی چھ اقسام ہیں۔
غذا کی اقسا م
غذا کی اقسام یہ ہیں۔1۔اجزائے لحمیہ2۔(Protein) ۔نشاستہ داراجزاء۔3 (Carbohydrates)۔4۔روغنی اجزاء(Fates) ۔
جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
اجزائے لحمیہ (Protein )
ایسی غذائیں جوگوشت پیداجن میں حیوانی اغذیہ کے ساتھ ساتھ نباتاتی غذائیں بھی شریک ہیں۔حیوانی اغذیہ میں گوشت،مچھلی،انڈے،دہی اورپنیر شامل ہیں اورنباتاتی اغذیہ میں گہیوں،مٹر،لوبیا،سیم،مونگ اورماش وغیرہ شامل ہیں۔چونکہ لحمی اغذیہ میں خالص لحمی اجزاء کے علاوہ دیگرایسے اجزاء بھی شریک ہوتے ہیں۔اس لئے ان کو خصوصی طورپر انیسیومنی اورنائٹراجنسی اغذیہ بھی کہتے ہیں۔اس کاکیمیائی تجزیہ درج ذیل ہے۔ 1۔نائٹروجن16فیصد.2۔آکسیجن32فیصد۔3۔ہائیڈروجن7فیصد۔4۔کاربن4فیصد۔5۔گندھک1فیصد شامل ہے۔سوائے گندھک اور نائٹروجن کےباقی اجزاء چونکہ دیگرقسم کی اغذیہ میں شامل ہیں اس لئے اس کاخصوصی نام نائٹروجنی غذاہے۔پروٹین کی بہترین مثال انڈے کی سفیدی ہے۔اس میں صرف پانی اورپروٹین شامل ہیں اس لئے اس کوایلیومنی غذاکہاجاتاہے۔
چونکہ پروٹین دوقسم کی ہے اس لئے حیوانی پروٹین کو مایوسین کہتے ہیں اور نباتاتی پروٹین لیگسٹن کہلاتے ہیں۔اسی طرح خصوصیت کومدنظررکھتے ہوئے گہیوں میں پائے جانے والےپروٹین کوگلوٹی نین اورہڈیوں اورجلدسے حاصل کئے ہوئے پروٹین کوجلاٹین کہتے ہیں۔لیکن یہ پروٹین کی بہترین قسم نہیں ہے البتہ حیوانی پروٹین نباتاتی پروٹین کے مقابلے میں بہترہوتے ہیں کیونکہ ان کے ایمنوایسڈہاضمہ کے دوران جزوبدن ہوکرجسم میں حرارت اورقوت توپہنچا سکتے ہیں مگر جزوبدن نہیں بن سکتے ۔معدہ میں غذاہضم ہونے کے بعدپہلے پروٹین پیٹومنز میں تبدیل ہوتے ہیں پھر خون میں جذب ہوکرجگرمیں پہنچ جاتے ہیں۔ جگر ان سے نائٹروجن علیحٰدہ کرتاہےاور یوریامیں شامل کرکے واپس خون میں بھیج دیتاہے۔ جس کوگردے پیشاب کی راہ خارج کردیتے ہیں۔پروٹین سے عضلات کی بافتیں بنتی ہیں جن سے گوشت اورپوست تکمیل پاتے ہیں اور ان کے عمل سے جسم میں آکسیجن کی رفتار باقاعدہ رہتی ہےاورہائیڈروجن اورکاربن کی وجہ سے جسم میں ایندھن کاکام بھی دیتی ہے۔ ان اعمال کے علاوہ کسی حدتک چربی اورحیوانی نشاستہ (Glakojen)بھی بناتے ہیں۔صورت یہ ہے کہ جب ایمنون ایسڈاورنائٹروجن نکل جاتے ہیں تووہ شحمی ترشہ یا شکرمیں تبدیل ہوجاتے ہیں شحمی ترشہ کا یہ عمل ہے کہ آکسیجن کے ساتھ مل کرپہلے چربی میں تبدیل ہوتاہے پھر جسم میں گردوں کے آس پاس آنتوں میں جمع ہوجاتے ہیں جو امینوایسڈان تبدیلیوں میں سے نہیں گزرتےوہ جسم کی بافتوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں وہاں پہنچ کردوبارہ پروٹین کی شکل اختیارکرلیتے ہیں۔متوازن غذا میں پرو ٹین سب سے مقدم ہے کیونکہ اگر پروٹین جسم میں کم ہوجائے توخون کے سرخ ذرات کی تعداد بہت تھوڑی ہوجاتی ہے۔گویا پروٹین جسم میں سب سے بڑی طاقت ہے ۔روزانہ غذامیں اس کی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔
اجزائے نشاستہ(Carbohydrates)
ایسی اغذیہ جن میں مٹھاس پائی جاتی ہے۔ان اغذیہ میں زیادہ ترپھل،نباتات اوربہت کم حیوانی اغذیہ ہوتی ہیں۔نباتاتی اغذیہ میں گہیوں،آلو شکرقندی اورمختلف اناج اورجڑیں وغیرہ اورحیوانی اغذیہ میں شہددوددھ اورشکر وغیرہ شامل ہیں۔اس کا کیمیائی تجزیہ یہ ہے۔کاربن،ہائیڈروجن اور آکسیجن۔چونکہ اغذیہ میں بھی یہی اجزاء پائے جاتے ہیں اس لئے اس میں تخصیص کےلئےدو حصے ہائیڈروجن اورایک حصہ آکسیجن ہوتی ہے۔اسی لئے ان کوکاربوہائیڈریٹس کہتے ہیں۔اس قسم کی غذاسے جسم میں حرارت ورطوبت پیداہوتی ہے۔ہرقسم کے نشاستہ داراور شکری اغذیہ ہضم ہونے سے پہلے گلوکوزانگوری شکرمیں تبدیل ہوجاتے ہیں اس کاعمل منہ لعابِ دہن کے ملنے سے شروع ہوجاتاہے۔معدہ میں ہضم ہونے کے بعدخوراک جب آنتوں میں پہنچتی ہے تواس میں لبلبہ کی رطوبت شامل ہو کراس کوہضم کرتی ہے پھرجگرمیں پہنچ کرحیوانی شکرکی صورت میں وہاں جمع رہتی ہے۔ جہاں ضرورت کے وقت خرچ ہوتی رہتی ہےاس کازیادہ تر اخراج گردوں سے ہوتاہے۔ اگر جسم میں یہ کم ہوجائے توکمزوری اورخشکی پیداہوجاتی ہے۔پیشاب میں رکاوٹ پیداہو جاتی ہے اور اگرزیادہ آنے لگے جائے توذیابیطس اور اس کے عوارضات پیداہوجاتے ہیں ۔ جوانوں اور بوڑھوںکی نسبت بچوں کواس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہےاس لئے وہ زیادہ پسندکرتے ہیں۔
اجزائے روغنیہ(Fates)
ایسی اغذیہ جن میں روغنی اجزاء پائے جاتے ہیں ان میں حیوانی اورنباتاتی دونوں قسم کی اغذیہ پائی جاتی ہیں۔حیوانی چکنائی میں گھی،مکھن،چربی اور لحمی اجزاء وغیرہ نباتاتی چکنائی میں روغن زیتون،روغن بادام،روغن ناریل،روغن کچلہ،روغن مونگ پھلی اورروغن بنولہ وغیرہ۔ اس کاکیمیائی تجزیہ مندرجہ ذیل ہے۔ کاربن ، ہائیڈروجن،آکسیجن۔ چونکہ نشاستہ داراورتناسب بمقابلہ آکسیجن کہیں زیادہ ہوتاہے ۔ہرقسم کی چربی اور روغن دواجزاء سے مرکب ہوتا ہے۔ایک مرکب گلیسرین کہتے ہیں اور دوسری شے ایک روغنی تیزاب ہوتاہے۔
روغنی اغذیہ جسم میں حرارت وتوانائی پیداکرتے ہیں۔یہ مذکورہوچکاہے کہ اجزائے لحمیہ اور اجزائے شکریہ بھی حرارت پیداکرتے ہیں لیکن ان میں حرکات اور توانائی کی قابلیت کااندازہ ان کی کیلوری سے لگایاجاسکتاہے۔یعنی اگرایک گرام روغن سے5 کیلوری بنتے ہیں تواجزائے لحمیہ اور اجزائے شکریہ اتنی مقدارمیں صرف 300 کیلوری (حرارے) پیداکرتے ہیں۔گویادونوں کے مقابلے میں دگنی حرارت وتوانائی پیداکرتاہے۔سب سے بڑی بات یہ کہ روغنی اغذیہ کافی دیرتک معدہ اورجگرمیں ٹھہرتے ہیں جن سے جلدبھوک محسوس نہیں ہوتی۔جسم نرم رہتاہےاس سے خشکی و جلن اور سوزش دورہوجاتی ہے۔
روغنی اجزاء کا ہضم آنتوں میں اس وقت ہوتا ہے جب اس میں صفراء اور لبلبہ کی رطوبت شامل ہوتی ہے۔ منہ اور معدہ میں اس پر نہ لعابِ دہن کا اثر ہوتا ہے اور نہ ہی رطوبتِ معدی اثر انداز ہوتی ہے۔ جب روغنی اجزاء میں یہ رطوبات ملتی ہیں تو دودھیا رنگ کا شیرہ بن جاتا ہے پھر ہضم ہو کر جگر میں پہنچ جاتا ہے۔اس طرح خون میں شامل ہو کر حرارت اور توانائی بڑھا دیتا ہے۔
معدنی نمکیات Salts
معدنی نمکیات تو بہت سے ہیں لیکن ہمارا مقصد ان نمکیات سے ہےجو جسم میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں 1۔کیلشیم۔2۔فیریم۔3۔سوڈیم۔4۔پوٹاشیم۔5۔ فاسفورس۔6۔ سلفر۔7 ۔ میگنیشیا۔8۔ آئیوڈین۔9۔کاپر۔ 10۔زنک۔ 11۔سیلیکا۔ 12۔کلورین۔13۔کاربن۔14 ۔فلورین شامل ہیں۔یہ نمکیات جسم انسان میں بسیط حالت میں نہیں پائے جاتے یعنی جدا جدا نہیں ہوتےبلکہ مختلف طریق پر باہم مرکب ہوتے ہیں اور نمکیات ہماری غذا میں پائے جاتے ہیں۔ جب ہمارے جسم میں کسی نمک کی کمی واقع ہوجاتی ہے تو کوئی نہ کوئی مرض پیداہو جاتا ہے اس لئے صحت کو قائم رکھنے یا مرض کو رفع کرنے کے لئے ان اغذیہ کو کھانا چاہیئے جن میں یہ اجزاء پائے جاتے ہیں۔ جن اغذیہ میں یہ اجزاء پائے جاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
نمک طعام
یہ نمک سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ روزانہ کی خوراک میں شریک ہے۔ یہ سوڈیم اور کلورین کا مرکب ہے اس لئے اس کو سوڈیم کلورائیڈ کہتے ہیں۔ اگر چند روز میسر نہ آئے تو انسان مریض ہو جائے اور اگر بالکل ہی نہ ملے تو یقیناً انسان کو اس کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہو جائے اس سے غدد کی بافتیں تکمیل پاتی ہیں اور حرارت پیدا ہو کر ہضم غذا میں مدد ملتی ہے۔ کرم کا ساگ ، پنیر ، پالک ، انڈے کی سفیدی ، بکری کا دودھ ، سلاد ، شلغم ، پیاز ، آلو بخارا ، مولی ، ٹماٹر اور مکھن وغیرہ میں شامل ہوتا ہے۔
کیلشیئم
دودھ ، پنیر ، سبز پتوں والی سبزی ، چولائی اور میتھی کے پتوں میں کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح گوبھی ، انجیر ، پیاز ، مونگ پھلی ، سویا بین اور انڈوں میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ گوشت میں انڈوں سے بھی زیادہ پایا جاتا ہے۔
میگنیشیا
دودھ ، بادام ، انگور ، خوبانی ، سلاد ، کھنب ، زیتون ، ٹماٹر ، آلوبخارا اور سیب وغیرہ میں یہ پایا جاتا ہے۔
پوٹاشیئم
دودھ ، گاجر، دہی ، کھیرے ، ککڑی ، انناس اور مولی میں پایا جاتا ہے۔
کاربن
کھجور، سیب ، انگور ،آلو ، مٹر ، انجیر ، گوبھی اور کھنب۔
فیرم
کلیجی ، گوشت ، انڈے ، مچھلی ، خوبانی ، پنیر ، کھجور ، انناس ، کرم کلہ ، زیتون ، انگور ، گندم ، چقندر اور پالک وغیرہ۔
گندھک
انڈے ، خوبانی ، انگور، کھجور ، گندم ، پالک ، میتھی ، ناریل ، مٹر ، ٹماٹر اور خشک انجیر۔
فاسفورس
دودھ ، پنیر ، انڈے ، گوشت ، مچھلی ، مٹر ، زیتون ، کھنب ، مونگ پھلی ، سلاد ، گوبھی اور آلو۔
آئیوڈین
مچھلی ، سلاد ، انڈے ، گوبھی ، چکوترا اور ٹماٹر۔
پانی
پانی کی اہمیت مسلمہ ہے اس کے بغیر غذا کا استعمال ناممکن ہے۔ یہ تقریباً ہر غذا میں پایا جاتا ہے اور غذا کو محلول بناتا ہے۔ غذا کو جسم میں دور دور تک لے جاتا ہے اور اسی سے خون محلول بنتا ہے۔ اسی کی مدد سے پیشاب اور پسینہ آتا ہے۔ جب جسم میں اس کی مقدار کم کم ہوجاتی ہے تو پیاس لگتی ہے۔ اگر پانی میسرنہ آئے تو گلا اور باقی جسم خشکی محسوس کرتا ہے۔ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے۔ ہمارے جسم کا سترفیصد حصہ پانی ہے اوار خون میں اسی(80) فیصد پانی ہوتاہے۔ خون کی گردش کے ساتھ پانی خلیوں میں پہنچتا ہے۔ یہاں تک ہڈیوں میں بھی پانی پایا جاتا ہے۔ پانی کے بغیر انسان کی موت ہے۔
وٹامن
وٹامن ایسے مادے ہیں جو کیمیائی طور پر غذا سے جدا کیے گئے ہیں۔ یہ کوئی غذا سے جدا شے نہیں ہیں۔ ان کا غذا میں پایا جانا لازمی ہے۔ اگر غذا میں یہ وٹامن شریک نہ ہوں تو انسان کی صحت میں نقص واقع ہو جاتا ہے۔ پھر جب ان کو جسم میں پورا کر دیا جائے تو صحت کا نقص رفع ہو جاتا ہے۔ اس لئے صحت کے لئے غذا میں ان کا شامل ہونا ضروری ہے۔ اگر چہ وٹامن صحت ، دافع مرض اور نشوونماکےلئے از حد ضروری ہیں۔لیکن غذا کےلئے اس کی کچھ حیثیت نہیں ہے کیونکہ ان سے حرارت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی یہ جزوِ بدن بنتے ہیں۔ انسانی متوازن غذا کا ضروری حصہ ہیں گویا غذا کے لئے محرکات ہیں جیسے نمک آٹے میں ہضم کے قابل بنا دیتا ہے۔ وٹامن کو غذا سے جدا کرکے تجارتی طور پر بازار میں فروخت کیا جا رہا ہے اور ضرورت مندوں کو استعمال کرائے جا رہے ہیں۔
وٹامن تعداد میں چھ ہیں جواے، بی، سی، ڈی وغیرہ ناموں سے موسوم ہیں۔ بعض نے ان کو ایک درجن تک بیان کر دیا ہے۔ اوربعض وٹامن کے کئی کئی اجزاء بنا لئے ہیں ۔ تمام وٹامن دو صورتوں میں پائے جاتے ہیں۔ اول جو پانی میں حل ہو جاتے ہیں جو دو ہیں “بی” اور “سی” دوسرے جو روغن یا چربی میں حل ہو جاتے ہیں ان میں “اے” ، “ڈی”، “ای” اور “کے” ہیں۔ ابتدائی تحقیق میں ان کی کیمیائی حقیقت کا علم نہیں تھا۔ اس لئے ان کے نام حروف ابجد پر عارضی طور پر رکھ دئیے گئے ۔ اب ان کے متعلق بہت کچھ معلومات حاصل ہو گئی ہیں اس لئے اب انہیں ان کے کیمیائی ناموں سے بھی پہچانا جاتاہے۔
وٹامن اے
غذاکاایسا کیمیائی جز جو چربی یا روغن میں حل ہوجاتاہے مگر پانی میں حل نہیں ہوسکتا۔ یہ وٹامن کیروٹین کی شکل میں پایاجاتا ہے۔ جس سے جسم میں وٹامن بس سکتا ہے۔ کیروٹین سبزیوں میں کافی مقدار میں پائی جاتی ہے۔ ہماری خوراک میں جتنا وٹامن “اے” ہوتاہے اس کی نصف مقدارکیروٹین کی شکل میں سبزیوں ، ترکاریوں ہی سے حاصل ہوتی ہےکیروٹین کاسب سے بہترین ذریعہ گہرے سبز رنگ کے پتوں والی سبزیاں ہیں۔ ان کا زیادہ گہراسبز اور تیز پیلا رنگ کیروٹین کی مقدارکی وجہ سے ہوتا ہے لیکن کیروٹین بذاتِ خود وٹامن نہیں ہے۔
وٹامن “اے” مکھن ، بالائی ، انڈے ، اور بعض حیوانی روغن بالخصوص مچھلی کے تیل میں ہوتاہے ۔ ان کے علاوہ کلیجی ، گردوں ، دودھ کریم ، پنیر اورگھی می بھی ہوتاہے۔ ان کے علاوہ بعض نباتات جیسے گاجر ، ٹماٹر ، ہری پیاز، سرسوں کا ساگ ، شلغم کے پتے ، پالک ، خوبانی اور آڑو میں چونکہ کیروٹین بکثرت ہوتا ہے۔اس کے استعمال سے جسم نرم و لچک دار ہوجاتا ہے اور مقابلہ مرض جسم میں صلاحیت پیداہو جاتی ہے۔ جلد ملائم رہتی ہے۔ آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے بینائی تیز ہوجاتی ہے۔ ہڈیوں کےلئے مفید ہے۔ پھیپھڑوں کے امراض کےلئے خاص طور پر مفید ہے اور دافع تعفن ہے۔ یہ وٹامن انسانی عمر ، جسمانی نشوونما اور قوت بالیدگی اور قیام حیات کےلئے ضروری ہے۔ اگر غذا میں اس کی کمی واقع ہو جائے تو آنکھوں کی سوزش ، رات کو نظر کاکام نہ کرنا ، معدہ اور پھیپھڑوں کے امراض ، مثانہ اور گردوں میں پتھری ، جلد کی خشکی ، دانتوں کا بھربھراہونا ، مسوڑھوں میں پائروریا کی بیماری ہوجاتی ہے۔
وٹامن بی
غذاکا ایسا کیمیائی جز جو پانی میں حل ہو جاتا ہے مگر چربی اور روغن میں حل نہیں ہوسکتااور زیادہ حرارت سے ضائع ہو جاتاہے۔ اکثر پکی ہوئی اغذیہ میں ختم ہوجاتاہے۔ سوڈا اور کھار کے اثر والی اشیاء میں ضائع ہوجاتے ہیں۔ وٹامن بی کی بارہ مختلف صورتیں ہیں لیکن دراصل ایسے وٹامنوں کا مجموعہ ہےجو ایک ہی قسم کی اغذیہ میں پائی جاتی ہیں ان کے اثرات تقریباً ملتے جلتے ہیں یہ ایک سے لے کر بارہ تک شمار ہوتے ہیں۔لیکن ان سب کے بھی کیمیائی نام ہیں۔ وٹامن بی کی بارہ صورتیں ہیں۔ ان کے کیمیائی نام ، ان کی اغذیہ اور ان کے اثرات وغیرہ یہ ہیں۔ وٹامن “بی 1 ” کمپلیکس کا کیمیائی تھامن اور اینورین ہے۔جسم میں کچھ زیادہ ذخیرہ نہیں ہوتا ، اس لئے ضرورت کے مطابق جسم کومہیا ہونا چاہیئے۔ اس کا بہترین ذخیرہ وہ خمیر ہے جسے خمیر اٹھانے کے لئے کیا جاتا ہے۔وٹامن “بی” عموماً سالم اناج ، مونگ پھلی اور اس کے تیل میں کافی مقدار میں پایاجاتاہے۔ ان کے علاوہ دودھ ، مٹر ، سنگترہ ، پالک ، چوزہ ، مچھلی ، آلو ، پنیر ، پھول گوبھی ، راب ، لوبیا ، سیب ، سرخ مرچ ، سٹاربری ، بند گوبھی ، گریپ فروٹ ، انناس ، شلغم ، چقندر ، ٹماٹر ، شکرقندی اور آڑو وغیرہ میں پایاجاتاہے ۔اس کے استعمال سے اعصاب کو طاقت آ جاتی ہے۔ جس سےدماغ و بینائی اور بالوں کو طاقت آ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دل و جگر اور معدہ پر بھی مقوی اثر پڑتا ہے۔ بھوک لگاتا ہے اور قبل از وقت بڑھاپے کو روکتا ہے۔
یہ وٹامن بیری بیری کے مرض کو روکنے کےلئے مشہور ہے۔اس کے علاوہ اعصابی کمزوری ، جلد کی بے حسی ، ٹانگوں کی کمزوری ، لرزش ، دل کا بیٹھ جانا ، نارو اور ٹانگوں میں پانی بھر جانا۔ معدہ اور آنتوں کی کمزوری ، بھوک کی کمی ، ضروری رطوبت کی جسم میں کمی ، وزن اور حرارت میں کمی وغیرہ میں مفید ہے۔ وٹامن “بی 2 ” اس کا کیمیائی نام ایبورین ہے۔ یہ زیادہ ترخشک خمیر اور دل و جگر کے ساتھ ساتھ گردوں میں پایا جاتاہے۔ اس کے علاوہ گوشت ، مچھلی اور مرغی اور ان کے انڈے ، سالم گہیوں اور پتوں والی سبزیاں ، ہری پیاز اور ساگ وغیرہ ترشی میں محفوظ رہتے ہیں۔ روشنی میں ضائع ہوجاتے ہیں۔اس کے استعمال سے چہرہ ، بالوں اور آنکھوں میں قوت پیداہوجاتی ہے ۔ چہرے پر رونق پیداہو جاتی ہے۔ یہ مرض پناگرہ کو دور کرنے کے لئے مشہورہے۔ جب باچھیں پک جائیں ہونٹؤں پر خراشیں آ جائیں اور زبان سوج جائے تو یہ وٹامن مفید ہے۔ ان کے علاوہ اس کی کمی سے ناک پر خشکی ، آنکھوں میں سرخی اور بال گرنا شروع ہوجاتے ہیں۔
وٹامن بی 3
اس کا کیمیائی نام کلوٹینک ایسڈ ہے۔ اس کا دوسرانام نیاسن ہے۔ یہ “بی کمپلیکس” میں شامل ہونے والا ایک جز ہے۔ یہ حرارت سے کم ضائع ہوتاہے یہ تقریباً انہی اغذیہ میں پایاجاتاہے جن میں “بی” پایاجاتاہے۔ اس کے استعمال سے جسم رطوبت اور حرارت پیداہوکر خشکی دور ہوجاتی ہے۔ وزن بڑھ جاتاہے حافظہ اور ذہن درست ہوجاتاہے۔ “بی 2” کی تمام علامات کے ساتھ معدہ و آنتوں میں درد اور اسہال ، پیشاب میں جلن اور جنسی کمزوری پیدا ہوجاتی ہے۔ رفتہ رفتہ اس کا نتیجہ مالیخولیا اور بے ہوشی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ عورتوں میں ماہواری کا نقص آ جاتاہے ایسی علامات میں وٹامن بی 3مفیدہوتا ہے۔
وٹامن بی 4
اس وٹامن کی اغذیہ و علامات اور افعال واثرات “ب2” اور “بی 3” کے مطابق ہیں۔
وٹامن بی 5
اس کا کیمیائی نام پینٹوتھینک ایسڈ ہے۔ وٹامن بی کے دیگر اجزاء کی طرح یہ جز بھی مقوی اعصاب ہے۔اس میں سردی کی برداشت بڑھ جاتی ہے اور یہ بھی زیادہ گرمی اور ہوا میں ضائع ہو جاتاہے۔یہ وٹامن دل ، جگر ، کلیجی ، مغز ، گردے ، انڈے ، بکری کی ران کا گوشت ، خمیر ، لیموں ، کھنب ، مونگ پھلی ، سویا بین ، جَو ، ہرے پتوں والی سبزیاں اور سالم اناج وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔ جب سردی کے امراض پیداہوں ۔ جگر میں بے قاعدگی سے آنتوں اور جلد کی بیماریاں پیدا ہو جائیں ۔ سردی کی زیادتی کی وجہ سے کھانسی اور پاؤں کا جلنا ظاہرہو تو اس وٹامن سے فائدہ ہو جاتا ہے۔
وٹامن بی 6
یہ وٹامن بھی اپنے دیگر گروپ کی طرح مقوی اعصاب اور دافع اماراض باردہ ہے۔ ان وٹامن کا حصول بھی گوشت ، کلیجی اور ہری سبزیوں سے ہوتا ہے۔ اناج خاص طور پر اناج کے چھلکوں میں اس کی کثرت ہوتی ہے۔ جب اعصاب و دماغ میں سوزش سے زبان و دہن اور ہونٹوں میں سوجن ہو یا جلدی امراض میں اس کی خشکی و رنگت کی خرابی اورداغ دھبے پیدا ہوجائیں یا خون خراب ہوکر دانت گر جائیں تو اس کا استعمال مفید ہے۔
وٹامن بی 7
اس کا کیمیائی نام ہائیوٹن ہے۔ یہ بھی کمپلیکس کے گروپ کا جزو ہے اور اپنے مکمل گروپ سے افعال و اثرات کا تعلق رکھتا ہے یعنی اعصاب و دماغ اور امراضِ باردہ سے متعلق ہے۔ یہ مرغی کے گوشت ،گائے کے گوشت ، دودھ ، مچھلی ، انڈے ، پنیر ، خمیر ، سٹاربری ، کشمش ، نارنگی ، گریپ فروٹ ، گاجر ، کیلا ، سیب ، گہیوں ، بند گوبھی ، پھول گوبھی ، گڑ مکئی ، پیاز ، مٹر ، مونگ ، آلو ، پالک ، ٹماٹر اور شلغم میں پایا جاتا ہے۔ جب دماغی اور اعصابی سوزش سے خرابی خون ہو ، جلد کی رنگت سفید ہوجائے اور خون کے ذرات کم ہو جائیں یا بھوک کی کمی اور متلی کا اثر ہو یا زبان میں لکنت ہو یادیگر امراض کے اثرا ت سے کمزوری ہوتو یہ وٹامن مفیدہے۔
وٹامن بی 8
اس کا کیمیائی نام” فولک ایسڈ” ہے۔ روزانہ تقریباً نصف گرام سے دو ملی گرام تک درکار ہوتا ہے۔ اتنی مقدار ہاضمہ اور تندرستی قائم رکھنے کےلئے ضروری ہے۔ اس سے خون کے ذرات اور ہڈیوں کے گودا کی پیدائش قائم رہتی ہے۔ اس وٹامن کا حصول گوشت ، کلیجی ، گردے ، دودھ ، خمیر ، پھل ، سبزیاں اور خاص طور پر ہرے پتوں والی سبزیاں وغیرہ ، جب اعصاب کی خرابی سے منہ آ جائے ، زبان سوج جائے ، اسہال ، بدن کی لاغری ، ہاتھ پاؤں میں سوئیاں سی چبھتی ہوں یہ وٹامن مفید ہے۔
وٹامن بی 9
اس کا کیمیائی نام “اینو سٹال” ہے۔ یہ بھی وٹامن بی کمپلیکس کے گروپ میں شامل ہے۔ اس کاحصول بھی گوشت و کلیجی اور خمیر وغیرہ ان ہی اغذیہ سے ہوتاہے۔ جن سے اس کے دیگر گروپ کا ہوتاہے۔ یہ ان کی طرح اعصابی و دماغ کی خرابی کے سبب جب ہاضمہ خراب ہو ، خصوصا گنجاپن پیداہو جائے تو یہ وٹامن مفید ہے۔
وٹامن بی10
اس کا کیمیائی نام “کولین” ہے۔ یہ بھی دماغ و اعصاب میں طاقت دے کر جسم میں چربی کی صحیح تقسیم کرتا ہے۔ اس وٹامن کا حصول انڈے ، مچھلی ، کلیجی ، گردے اور اناج و سبزیاں جن میں گہیوں، جو، بند گوبھی ، گاجر ، مٹر ، پیاز ، اجوائن اور پالک ہیں ۔ آج کل اس کا بہترین ذریعہ بکرے کا مغز ہے۔جب جگر وگردوں کی خرابی سے خون کا دباۂ بڑھ جائے۔ دل کمزور ہو جائے۔ معدہ میں سوزش و ورم پیدا ہوجائے یا قوتِ مدافعت جراثیم کم ہوجائے یعنی سفید ذرات خون جسم میں کم ہو جائیں یا بچوں میں نشووارتقاء میں خرابی واقع ہو جائے یا بیضہ تولید میں خرابی واقع ہوجائے یا زچہ کے دودھ میں کمی واقع ہوجائے تو یہ مفید ہے۔
وٹامن 11
اس کیمیائی نام “پیرامینوننبرونک ایسڈ” ہے ۔ اس کے متعلق مشہورہے کہ اس وٹامن میں دو وٹامن پائے جاتے ہیں۔ اس کو مقوی دماغ اور اعصاب خیال کیا جاتا ہے۔ جراثیم کو ہلاک کرنے کی غیر معمولی طاقت ہے۔ اس کا حصول بھی انڈہ ، کلیجی ، دودھ ، خمیر ، اناج اور سبزیاں ہیں۔جب دماغ و اعصاب کے کمزور ہونے سے سر کے بال سفید ہوجائیں ، جسم میں جراثیمی امراض ، یہاں تک کہ دق ہوجائے ، سورج کی تپش سے جلد میں خرابی واقع ہوجائے اور دھوپ کی برداشت نہ رہے تو یہ وٹامن مفید ہے۔
وٹامن بی 12
اس وٹامن کی کیمیائی ساخت میں ایک دھات ہوتی ہے جس کو بالٹ کہتے ہیں جو صرف حیوانی اغذیہ میں پائی جاتی ہے۔ اس میں عجیب بات یہ ہے کہ اس کی تخلیق کئی قسم کے جراثیم کرتے ہیں گویا اس کا اہم ذریعہ جراثیمی عمل ہی ہے۔ جگالی کرنے والے جانوروں کے معدے میں جہاں غذا محفوظ رہتی ہے وہیں یہ جراثیم بھی پائے جاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تجارتی سطح کے لئے وٹامن بی 12 جراثیم ہی سے حاصل کئے جاتے ہیں۔ ویسے ان کا حصول گوشت ، کلیجی ، گردہ ، دودھ اورسویا بین سے ہوتاہے۔جب دماغ و اعصاب میں خرابی ہو کر مولد خون اعضاء میں نقص واقع ہو جائے ، ہڈیوں کے گردوں میں خرابی پیداہو جائے جس سے معدہ اور آنتیں اپنے افعال پورے طور پر ادا نہ کریں تو یہ وٹامن مفید ہے۔
وٹامن سی
اس کا کیمیائی نام”اسلوربک ایسڈ ہے۔ پانی میں آسانی سے حل ہوجاتا ہے۔ گرمی اور پانی میں رہنے سے ضائع ہو جاتا ہے۔ اسے تانبے اور لوہے کے اثرات سے نقصان پہنچتا ہے۔ اس کے استعمال سے جسم میں قوت و توانائی اور صحت ہوتی ہے۔ دافع خارش کے نام سے مشہور ہے۔ وٹامن “سی” اکثر پھلوں اور سبزیوں میں پائے جاتے ہیں۔ ترش اشیاء میں آڑو ، مرود ، آلو بخارا ، آم ، انار ، انجیر ، چکوترا ، ٹماٹر ، سرخ مرچ ، بند گوبھی ، آلو ، شلغم ، سلاد ، پھول گوبھی ، پالک ، سویا بین ، اروی ، پیٹھا ، دال ماش ، بھنڈی توری ، مسور ، موٹھ ، مونگ ، باتھو کا ساگ ، لوبیا ، ٹینڈے ، چنے ، چاول ، چقندر ، حلوہ کدو ، دال ارہر ، چولائی اور کرم کلہ کا ساگ ، سویا ، کچالو ، کدو ، کریلا ، مٹر ، مولی ، میتھی ، پھلوں اور سبزیوں کے علاوہ کلیجی میں بھی پایا جاتا ہے۔ جب خون میں تیزی پیدا ہوکر جسم پر خارش ہو، مسوڑھوں سے خون بہنے لگے اور دانت اور ہڈیاں خراب ہونے لگیں ۔ جسم کمزور اور قوتِ مدافعت کم ہو جائے اور وہ وائرس(غیر مرئی جراثیم) کا مقابلہ نہ کر سکے اور اکثر نزلہ ، زکام اور انفلوئنزا کے حملے ہوتے رہیں اور عورتوں میں حیض کی بے قاعدگی خاص طور پر جب حیض میں کثرت ہو تو اس وقت وٹامن سی کا استعمال مفید ہے۔
وٹامن ڈی
یہ وٹامن حیوانی روغن اور چربی میں حل ہو جاتا ہے اور پانی میں حل نہیں ہو سکتا۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ جسم میں داخل ہو کر یہ کیلشیم اور فاسفورس کو جذب کرکے ہڈیوں اور دانتوں کی تقویت کا سبب بنتا ہے۔ اس وٹامن کا حصول دودھ ، بالائی ، مکھن ، انڈے کی زردی ، روغن مچھلی ، چربی ، بادام ، ناریل ، سورج کی روشنی وغیرہ ۔ سورج کی روشنی میں وٹامن ڈی کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔ جب جسم میں کیلشیم اور فاسفورس کی کمی ہو جاتی ہے تو ہڈیاں کمزور بھربھری اور دانتوں کی خرابیا ں پیداہو جاتی ہیں۔ بچوں میں سوکھا پن، جنین کی نشوونمامیں خرابی ، بچوں کی ہڈیاں ٹیڑھی ہو گئیں ہوں ایسی صورت میں وٹامن کا استعمال بہت فائدہ مند ہے۔
وٹامن ای
اس کا کیمیائی نام “ٹوکوفیرول” ہے ۔ یہ وٹامن چربی میں حل ہوجاتاہے۔ یہ قوتِ بالیدگی اور جنسی قوت میں تحریک کا باعث ہوتاہے اور بانجھ پن دور ہوتاہے اور اولاد پیدا کرنے کی قابلیت پیدا ہوجاتی ہے۔اس وٹامن کے حصول کا ذریعہ دودھ ، مکھن ، انڈے ، مچھلی ، ناریل ، خوبانی ، چلغوزہ ، تل ، پستہ ، اخروٹ ، بادام ، گندم ، سلاد ، بند گوبھی ، لوبیا ، ساگ ، چقندر ، سویا ، گاجر وغیرہ ہیں۔ چونکہ یہ وٹامن قلب و عضلات کے امراض میں مفید ہے اس لئے جب دل و عضلات کمزور ہوں اور جلد سکڑ جائے ، بانجھ پن اور مردوں میں قوتِ تولید کم ہو ، جنسی کمزوری ، اور پیشاب میں زیادتی ہو تو اس کا استعمال مفید ہے۔
وٹامن کے
یہ وٹامن بھی روغن اور چربی میں حل ہوجاتاہے اور خون کی قوتِ انجماد کو قائم رکھتا ہے۔ اس وٹامن کا حصول انڈے ، ٹماٹر ، گاجر ، سویا بین ، پالک ، سبز پتوں والی سبزیاں وغیرہ ہیں۔ جب انگلیوں میں سوجن ہو ، جریان ، خون ، مسوڑھوں سے خون آتا ہو ، حیض کی بے قاعدگی اور پھوڑے وغیرہ ہوں تو یہ وٹامن مفید ہے۔
نوٹ
وٹامن کی تحقیق کے ابتدائی دور میں صرف دو تین وٹامن کا پتہ چلا تھا۔ اس کے بعد کچھ اور وٹامن کا علم ہو گیا۔ پھر ان کی تعداد چھ تک پہنچ گئی جو اے، بی، سی ، ڈی ، ای اور کے وغیرہ ابجد کے ناموں سے مشہور ہیں مگر اب بعض کتب میں تین عدد اور وٹامن کا بھی ذکر ہے جو وٹامن جی ، پی اور ایچ کے ناموں سے مشہور ہیں لیکن ان کی خصوصیات و حصول اور افعال و اثرات میں چھ وٹامن سے کچھ جدا صورتیں معلوم نہیں ہوتیں اور زیادہ تر غذا میں انہی کے استعمال پر تاکید کی جاتی ہے۔
ابتدائی تحقیقات میں ماہرین کسی مرض میں کسی ایک وٹامن کے استعمال کی تاکید کرتے تھے مگر اب اس امر کی تحقیق ہو گئی ہے کہ کسی ایک وٹامن کی کمی سے کوئی مرض نہیں ہوتا بلکہ پورے ایک گروپ سے ہوتا ہے۔ اس لئے تمام وٹامن کا کھانا ضروری ہے۔
وٹامن کی ضرورت
اغذیہ میں ہر قسم کے وٹامن پائے جاتے ہیں پھر وٹامن کے استعمال کی جسم میں کیا ضرورت ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اگر متوازن غذا کھائی جائے تو جسم کو کسی بھی وٹامن کی ضرورت نہیں رہتی لیکن جب غذا متوازن نہیں ہو گی تو جسم میں وٹامن کی کمی پوری کرنے کےلئے وٹامن کا استعمال ان کی ضرورت اور علامات کے مطابق استعمال کرنا ضروری ہے ، جیسے غذا میں نمکیات اور پانی کے اجزاء شریک ہوتے ہیں مگر جب ان کی کمی محسوس اور معلوم ہوتی ہے تو ضرورت کے مطابق نمکیات اور پانی کا استعمال کرنا پڑتا ہے
اس ضرورت کے تحت اغذیہ سے وٹامن تیار کئے جاتے ہیں۔ جن کی گولیاں اور شربت بازار میں عام بکتے ہیں۔ جب غذائی وٹامن کے استعمال سے خاطرخواہ حاصل نہ ہوں تو ضرورت اور علامات کے مطابق وٹامن اور شربت استعمال کرنا پڑتا ہے لیکن ہر شخص ضرورت اور علامات کو نہیں سمجھ سکتا ۔اس لئے ڈاکٹر کا مشورہ ضروری ہے۔ ان وٹامن کو اضافی وٹامن کہتے ہیں۔
وٹامن کے استعمال میں غلط فہمی
وٹامن کے متعلق اکثر یہ غلط فہمی ہے کہ یہ جوہر اغذیہ اور روح حیات ہیں اور ان کے استعمال سے بے حد خون پیداہوجاتا ہے۔ ہر قسم کی جسمانی کمزوری فوراً رفع ہوجاتی ہے۔اس کی ایک گولی کھانے سے سیروں دودھ کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔ایک ٹکیہ کھانے سے سیروں گوشت طاقت آ جاتی ہے۔اس کے شربت کا ایک گھونٹ پینے سے پاؤ مکھن کی طاقت مل جاتی ہے۔ایک انجکشن پھلوں سے بے نیاز کردیتا ہے۔ بلکہ ان کے استعمال سےغذاکی ضرورت پیدا نہیں ہوتی وغیرہ۔اس قسم کے خیالات اکثر لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔اور اپنی کمزوری دور کرنے کے لئے اکثر وٹامن کی ٹکیاں کھاتے، شربت پیتےاور انجکشن لگواتے پھرتے ہیں۔ان میں کسی کا بھی خیال صحیح نہیں اور غلط فہمی کا شکار ہیں۔
افہام و تفہیم
ہم نے ماڈرن طب اور سائنس کے نظریہ غذا اور متوازن غذااور اجزاء غذا اور وٹامن پر پورے طور پرروشنی ڈالی ہے۔اور کوشش کی ہے کہ متوازن غذا اور اس کا کوئی پہلو تشنہ کام نہ رہ جائے تاکہ ہم پورے طور پر اس پر تنقید و تبصرہ کر سکیں اور ثابت کر سکیں کہ یہ کہاں تک مفید اور کس حد تک غیر سائنسی و نقصان دہ اور غلط ہے۔
ماڈرن سائنس اور طب کا عمل تقریباً تمام دنیا پر ہے۔ہم عرصہ چودہ سال سے ان کے نظریات ، اصول اور علم و فنون کو غلط ثابت کررہے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کے غذائی اصول و نطریات اور تحقیقات و تجربات کوغلط ثابت کریں۔ذیل میں ہمارے اعتراض و دلائل اوار مشاہدات و تجربات پر غور کریں۔ اس سے ہر صاحب ِ علم اور ماہرین کو علم ہو جائے گا کہ ان کی یا ہماری تحقیقات صحیح ہیں۔ کیونکہ حق و حقیقت اور تحقیقات کسی کی ذاتی ملیکت نہیں ہیں۔
اعتراض 1
ماڈرن طب وسائنس نے جوغذاکا نظریہ بیان کیا ہے وہ نہ ہی حفظِ صحت کے لئے کامیاب ہے ۔ کیونکہ اغذیہ کے جو اجزاء نمکیات پانی اور وٹامن بیان کئے گئے ہیں ان کا ذاتی کوئی توازن نہیں ہے یعنی غذا کے تین اجزاء پروٹین، کاربوہائیڈریٹ اور فیٹس ہیں۔ نمکیات کم از کم بارہ، پانی ایک اور وٹامنز کم از کم چھ ہیں۔ان کی باہمی نسبت کیاہونی چائیےاور ان میں اکائی کس کو مقررکرناچائیے۔اگر ہم غذا کے اجزاء کو کافی مقرر کریں اور ہونا بھی چائیے تو ان میں نمکیات وپانی اور وٹامن کا کیا تناسب ہونا چائیےاوریہ بھی ذہن نشین کرلیں کہ یہ سب کچھ غذا میں پہلے سے شریک بھی ہیں۔اس لئے یہ تناسب مقرر کرنا مشکل ہو جائے گا اورپھر اہم بات یہ ہے کہ ہر غذا کے اجزاء چاہے حیوانی ہو ں یا نباتی ان میں نمکیات و پانی اور وٹامن کا تناسب مختلف ہے۔اس صورت میں باہمی تناسب مقرر کرنا تو اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ جب غذا اوران کے متعلقات کا توازن ہی مقرر نہیں کرسکتے تو متوازن غذا کا اصول ہی بے معنی ہے۔
اعتراض 2
جب غذا کے تینوں اجزاء کا تجزیہ کیا جاتا ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ پروٹین میں پانچ اجزاء (کاربن، ہائیڈروجن ، آکسیجن ، نائٹروجن، سلفر) ہیں۔ کاربوہائیڈریٹ میں تین اجزاء (کاربن، آکسیجن، ہائیڈروجن)ہیں۔فیٹس کے تین اجزاء (کاربن، آکسیجن، ہائیڈروجن)ہیں۔ گویا پروٹین میں صرف دو جز(نائٹروجن ، سلفر) زیادہ ہیں۔اور باقی سب اجزاء مشترک ہیں۔پھر ان میں ہر قسم کے نمکیات اور وٹامن شریک ہیں۔جب ایک قسم کی غذامیں خاص طور پر پروٹین یااجزائے الحمیہ میں ہر قسم کے اجزاء غذاو نمکیات اور وٹامن شریک ہیں تو پھر کاربوہائیڈریٹس اور فیٹس کی جدا کیا اہمیت ہے یا مختلف اقسام کے پھل ومیوہ جات اور سبزیوں اور ان کے وٹامن کی خاص کیا ضرورت ہے۔ سائنس کے پاس اس کوئی جواب نہیں۔اسلامی نقطہ نگاہ سے حیوانی اغذیہ یا اجزاء لحمیہ کی یوں تعریف آئی ہے کہ جب موسیٰ ؐ کی قوم نے کہا کہ ہم من وسلویٰ وخوردومٹھاس یا اس قسم کے میوہ جات اور چرندپرند کا گوشت نہیں کھائیں گے اور ان کی جگہ
دفادع انا دیک یخرج لنا مما تنبت الارض من بقلہما و قثامہاو فومہا وعرسہاوبصلہا
ہمارے واسطے اپنے رب سے ان چیزوں کومانگ جو زمین اگاتی ہے ۔اس کے ساگ،اس کے گہیوں،اس کی ککڑی،اس کے مسور اوراس کے پیاز۔جواب میں کہا گیا۔
واتستبوکون الذی ھو ادنیٰ بالذی ھو خیر
کیا ادنی ٰچیزوں سے بہترین چیزوں کو بدلنا چاہتے ہو۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ تمام سالموں سے بہترلحم ہے۔اب سائنس بھی یہ تسلیم کرتی ہے کہ حیوانی پروٹین ، نباتی پروٹین کے مقابلے میں بہتر ہے۔کیونکہ ان کے ایمائنوایسڈ ہاضمے کے دوران ہی جزو بدن ہوکرجسم میں پروٹین کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس نباتاتی پروٹین جسم میں حرارت و قوت تو پہنچاتے ہیں مگر جزو بدن نہیں بنتے۔کیو نکہ ان میں ضروری ایمائنوایسڈ نہیں ہوتے۔اور پروٹین بنے بغیر جسم سے خارج ہوجاتے ہیں۔شیخ الرئیس بوعلی سینا نے غذاکی تعریف یہ کی ہے۔
کہ جو شے جزوِ بدن بنے وہ غذاہےاور جو جزوِ بدن نہ بنے وہ دوا ہے یا زہرہے۔ اور جو شے جزوِ بدن بنتی ہے وہ پروٹین(اجزائے لحمیہ)ہی ہوتے ہیں۔
ان حقائق سے ثابت ہوا کہ اول حیوانی پروٹین نباتاتی پروٹین سے بہتر ہیں اور دوسرے حیوانی پروٹین جسم میں جاکر خون اور جسم کا جزو بن جاتے ہیں لیکن نباتاتی پروٹین جسم میں کیفیت پیدا کرکے خارج ہو جاتے ہیں اس لئے یہ پیٹ پُری کے لئے تو کھا سکتے ہیں لیکن تعمیرِ جسم کے لئے مفید نہیں ہیں۔ پروٹین ہمارے جسم میں گوشت پوست بنانے کے علاوہ حیوانی چربی،حیوانی نشاستہ اور حیوانی شکر(گلائی کو جن اور گلوکوز) بھی بناتے ہیں۔ایمائنوایسڈ نائٹروجن نکل جانے کے بعد جسم میں فیٹی ایسڈ شحمی ترشہ یا شکر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ فیٹی ایسڈ آکسیجن کے ساتھ مل کر پہلے چربی میں تبدیل ہوتے ہیں اوار پھر جسم میں گردوں کے آس پاس آنتوں میں جمع ہو جاتے ہیں۔ کچھ ایمائنوایسڈجو ان تبدیلیوں یں سے نہیں گزرتے وہ جسم کی بافتوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں اور وہاں پہنچ کر دوبارہ پروٹین کی شکل اختیار کرلیتے ہیں.پروٹین سے زیادہ تر عضلات اور ان کی بافتیں بنتی ہیں۔اس لئے جسم میں آکسیجن کے آمد کی رفتار کو باقاعدہ رکھنا ان کا کام ہے اور چونکہ پروٹین میں کاربن اور ہائیڈروجن موجود ہوتے ہیں اس لئے یہ جسم میں ایندھن کا کام بھی دیتے ہیں۔جب معدہ میں غذا ہضم ہوتی ہےتو پہلے پروٹین پپٹونزمیں تبدیل ہوجاتے ہیں پھر خون میں جذب ہوکرجگر میں چلے جاتے ہیں۔جگر ان سے نائٹروجن الگ کر کے یوریا میں تبدیل کردیتا ہےجو وہاں سے پھرخون میں شامل ہوجاتاہے جس کو گردے پیشاب کے ذریعے خارج کردیتے ہیں۔
ان مسلمہ حقائق سے ثابت ہواکہ انسانی غذا صرف حیوانی پروٹین ہےاور اگرچہ نباتاتی پروٹین بھی کسی قدر مفید ہے۔ لیکن وہ اس وقت تک مفید نہیں ہوسکتی جب تک وہ حیواانی پروٹین میں تبدیل نہ ہو۔وہ اکثر نہیں ہوتی صرف کسی قدر حرارت اور عارضی قوت کے بعد ضائع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح نباتاتی روغن اورشکر بھی انسانی جسم کے لئے غذا لحمہ پیدا نہیں کرتے بلکہ اکثر نقصان کا باعث ہوتے ہیں۔ اس لئے زندگی و صحت کے لئے حیوانی روغن(گھی اور چربی) اور حیوانی شکر(شہد) ہی مفیدہیں ان ہی سے جسم کی تعمیروتکمیل اور مرمت ہوتی ہے۔یہ نباتاتی روغن یابناسپتی گھی اور نباتاتی شکر اور گڑ وغیرہ یا ان سے تبدیل کی ہوئی مٹھائیاں اور بسکٹ، کیک اور پیسٹریاںہمارے جسم کا حصہ نہیں بنتیں اور ضائع ہوجاتیں ہیں بلکہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ان کی جگہ معمولی سے معمولی گوشت جسم میں خون بن کر زندگی و صحت اور طاقت پیدا کرتاہے اور جوانی قائم رکھتا ہے۔
جاننا چائیے کہ زمین سے تین قسم کی چیزیں پیداہوتی ہیں۔1۔میوہ جات اور پھل۔2۔اناج۔3۔سبزیاں۔ میوہ جات اور پھل تو بغیر آگ پر پکائے کھائے جاتے ہیں مگر اناج اور سبزیاں بغیر آگ پر پکائے نہیں کھائی جاتیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جس قدر حرارت اور قوت میوہ جات اور پھلوں میں پائی جاتی ہےوہ اناجوں اور سبزیوں میں نہیں پائی جاتی اور پھل ایسے ہیں جن کا معیار پروٹین کے قریب قریب ہے،جیسے کھجورو انگوراور آم وغیرہ۔قرآن حکیم نے پھلوں کو انسان کی غذا لکھا ہے۔بلکہ جنت میں بھی یہی رزق ملے گا۔ان میں انگور، کھجور، انار، زیتون،انجیر اور انہی سے ملتے جلتے دیگر پھلوں کا قرآن حکیم میں ذکر آیا ہے۔
کلما رزقوا منھا من ثماۃ رزقا قالو حذا الذی رزقنا من قبل و اتوبہ متشابھا
ان کو میوہ جات اور پھلوں سے رزق دیے جائیں گے۔ وہ لوگ کہیں گے یہ وہ رزق ہے کہ اس سے قبل بھی ان سے ملتے جلتے دیے گئے ہیں۔
جہاں تک کہ وہ گوشت اور ثمرات کے مقابلے میں ادنیٰ ہیں۔ان حقائق سے ثابت ہے کہ پروٹین و اجزائے لحمیہ انسان کے لئے مکمل اور متوازن غذا ہے۔اس لئے اناجوں اور سبزیوں کو غذامیں شامل کرنا بے معنی ہے ۔
اعتراض 3
متوازن غذا متعین کرنے کے لئے کوئی معیار اور توازن نہیں ہے۔ یعنی اگر متوازن کا معیار اجزائے غذا پروٹین اورکاربوہائیڈریٹ کو بنایا جائے تو ان کے ساتھ نمکیات اور وٹامن کس اندازے سے ہونے چاہئیں اور اگر نمکیات کو معیار بنایا جائے تو ان کے ساتھ جو اجزاء غذا اور وٹامن ہیں کس اندازے سے ہونے چاہئیں۔ یہی صورتِ حال وٹامن کے متعلق ہے کہ اگران کو معیار بنایا جائےتو اجزاء غذا اور نمکیات کس اندازے سے ہونے چاہئیں۔بہرحال ماڈر ن طب اور سائنس کے پاس کوئی معیار اور اندازہ نہیں ہے۔اس لئے حفظِ صحت کے لئے ان کو غذاسے کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔کیونکہ بڑے سے بڑا ماہر غذاصحیح متوازن غذا کھا کراپنی صحت قائم نہیں رکھ سکتا۔البتہ مرض کی حالت میں بعض علامات کو مدِنظر رکھ کراجزاء غذاونمکیات اور وٹامن دئیے جاتے ہیں لیکن ان کابھی یقینی اور تسلی بخش اثر نہیں ہوتا۔ ان میں ردوبدل کیا جاسکتا ہے مگر مرض اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔
متوازن غذا کا معیار قائم کرنے کے لئے غذا کے اجزاء و نمکیات اور وٹامن کے اثرات کو مشینی طورپر اعضاء کے افعال کے ساتھ متعین کیا جائے۔ کیمیائی طور پر خون کے اجزاء کے ساتھ توازن کیا جائے یا جسم کے ٹشوز(بافتوں) کے نشوونما اور اثرات کے تحت اندازے لگانے چاہئیں۔ تاکہ ہر شخص اپنی کمی کو سمجھے اور ضرورت کے متوازن غذا استعمال کرسکے۔ اس کویہ سبق کو یاد کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ کتنا روز گوشت ہوکس قدر چربی، مکھن ہویاکتنے اندازے کا اناج و شکر ہوں اوران کے ساتھ کس مقدار میں وٹامن اور نمکیات کا توازن کیاہو۔ بلکہ ہر انسان کو اس امر کا علم ہونا چاہئے کہ اس کے اندر غذاونمکیات اور وٹامن کے کس جزو کی کمی ہے جس کو اس سے اپنی روزانہ کی غذامیں پورا کرنا ہے کیونکہ ہر انسان میں نہ ایک ہی قسم کی کمی ہوتی ہے اور نہ ہی روزانہ ایک ہی قسم کے اجزاء کی ضرورت پیداہوتی ہے کیونکہ انسان مختلف جسم وذہن اور ماحول واعمال میں گھرا رہتا ہے۔ اس لئے ان کے لئے کوئی ایک متوازن غذا کا معیار مقرر کرنا نہ صرف غلط ہے بلکہ فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔
اعتراض 4
ہر قسم کی غذا چاہے وہ حیوانی یا نباتاتی ان میں نمکیات اور وٹامن شامل ہوتے ہیں۔ اس لئے کس قسم کی غذا کھائی جائے جس میں زیادہ سے زیادہ وٹامن اور نمکیات ہوںاور صحت و طاقت اور زندگی قائم رہے۔ مگرجدیدسائنس کی اس متوازن غذا میں کوئی ایسی صورت نہیں پائی جاتی بلکہ اکثر الٹا نقصان دہ اثر ہوتاہے۔مثلاً انڈے اور گاجر میں ہر قسم کے زیادہ سے زیادہ وٹامن ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انڈا حیوانی غذا ہے اور گاجر نباتاتی غذا۔ لیکن دونوں میں برابر کے وٹامن اور طاقت پائی جاتی ہے لیکن جب تجربات اور مشاہدات کے معیار پر پرکھا جائے تو نتیجہ خوفناک حد تک تکلیف دہ اور نقصان رساں ہوتا ہے۔مثلاً جب انڈے کو چند روز مسلسل استعمال کیاجائے تو چند روز میں بواسیر ، پتھری اور دل میں تیزی پیدا ہو کر خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح جب گاجر چندروز صبح شام کھائی جائے تو نزلہ، ریشہ ، کثرتِ پیشاب اور دل گھٹنا شروع ہوجاتاہے۔بالکل ایک دوسرے کی متضاد علامات پیدا ہوجاتی ہیں۔گو دونوں میں ایک ہی مقدارکے وٹامن پائے جاتے ہیں مگر افعال و اثرات مختلف ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں میں نمکیات مختلف قسم کے ہیں۔ انڈوں میں کیلشیئم ہےجبکہ گاجر میں پوٹاشئیم پائی جاتی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف وٹامن کی کثرت کوئی مفید شے نہیں اور نہ ہی اس سے صحت قائم رہ سکتی ہےاور نہ ہی امراض کا علاج کیا جاسکتا ہے۔
اعتراض 5
ماڈرن سائنس نے ہر غذاکا تجزیہ کرکے اس کو پروٹین ، فیٹس ، کاربوہائیڈریٹ، نمکیات ، پانی اور وٹامن میں تقسیم کردیا ہے ۔ پھر ان کے افعال و اثرات کو بیان کیا ہے مگر انہوں نے اس امر پر غور نہیں کیا کہ مجموعی طور پر غذا کے جو اثرات وافعال اور خواص ہیں وہ مکھن وپنیر اور دودھ کے نمکیات میں نہیں پائے جاتے یا اس طرح سمجھ لیں کہ ہرغذا میں کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن ، نائٹروجن اور گندھک ہیں ۔ لیکن ہر ایک کے افعال و اثرات اور خواص ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور مجموعی طورپر کسی غذا میں بالکل جدا ہیں۔ پھر غذاکے نظریات کو کیسے سمجھا جاسکتا ہےاور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک عام انسان کےلئے کسی ایک غذا کے افعال و اثرات اور خواص کا سمجھ لیناآسان ہے یا اس کے مختلف اجزاء کو الگ الگ سمجھ کر غلط قسم کے تاثرات اور علامات برداشت کرنا۔ ماڈرن سائنس اغذیہ اور اشیاء کے تجزیہ اور تحلیل میں گرفتار ہوکرحقیقت سے دور ہو گئی ہے اور طب اصل اغذیہ اور اشیاء کے عملی افعال واثرات بیان کرکے ان کی کیفیات اور ان کے بالخاصہ خواص بیان کر دیتی ہے۔ ماڈرن سائنس صدیوں میں بھی طب کے یہ کمالات اپنے اندر پیدا نہیں کرسکی۔ یہی طب کے علم و فن کاکمال ہے۔
اعتراض 6
فیٹس(چربی) کو غذا کااہم جزو تسلیم کیاگیا ہےکہ یہ جسمِ انسان کےلئے بہت ضروری شے ہے۔ یہ نہ صرف اپنی انفرادی حیثیت رکھتی ہے بلکہ ہمارے تمام اعضائے جسم اور خون کا حصہ ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہماری غذااور اس تمام وٹامن کا دو تہائی حصہ صرف چربی میں حل ہوتا ہے۔اس کی جسم میں انفرادی حیثیت یہ ہے کہ ضرورت کے وقت جسم و اعضاء اور خون کو غذا پہنچائےاور جسم میں جہاں بھی تری(Lubrication)کی ضرورت ہووہاں پر اپنا یہ کام سرانجام دےاور جسم میں تقویت کا باعث بنے۔یہ حقیقت ہے کہ جسم انسان اور حیوان میں چربی کی پیدائش کو اچھی صحت کا ہونا تسلیم کیا گیا ہے۔
ان حقائق کے باوجود چربی و گھی اور حیوانی روغن کے استعمال کو غذامیں منع کیا جاتا ہے اور اس کی بجائے بناسپتی گھی(Vegetable Oil)کے استعمال کی تاکید کی گئی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ نباتات جزوِ جسم ہرگز نہیں ہوتیں جیسا کہ ہم ثابت کرچکے ہیں۔ دوسرے نباتاتی غذائیں حیوانی غذاؤں سے بے حد کم درجہ رکھتی ہیں اور جسم میں جزوِبدن بنے بغیر باہر نکل جاتی ہیں۔تو پھر بناسپتی گھی کیسے انسانی جسم کا جزو بن سکتا ہے۔اس کی انفرادی حیثیت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ان حقائق سے ثابت ہوا کہ بناسپتی گھی جسم میں کسی طرح مفید نہیں بلکہ جسم انسانی میں بے حد مضر اثرات پیدا کرتا ہے۔
اعتراض 7
جس طرح وٹامن کی کمی کوجسم میں نقصان کا باعث تسلیم کیا گیا ہے اسی طرح ان کی زیادتی کوبھی خطرناک تسلیم کیاگیاہے۔ لیکن ان کی کمی بیشی کااندازہ کہیں بیان نہیں کیاگیا۔ بازاروں میں جو وٹامن فروخت ہو تے ہیں اور جو ان میں جو معلومات درج ہیں۔ ان کی قوت میں زیادتی یا زیادہ سے زیادہ کسی جراثیمی مرض کے لئے مفید لکھا ہے۔کسی عضو کے افعال کے ساتھ تعلق پید انہیں کیا گیا۔
اعتراض 8
اب تسلیم کیا گیا ہے کہ جسم میں کسی ایک وٹامن کی کمی سے کوئی مرض پیدا نہیں ہوتا بلکہ کسی گروپ کی کمی یا خرابی سے مرض پیدا ہوتا ہے۔ جیسے بیری بیری اور پائیوریا وغیرہ ۔لیکن ان گروپ کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا۔عوام تو کیا ماہر غذابھی ان کا اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ صرف وٹامن بی کمپلیکس کاذکر ہے اور صرف وٹامن بی کے مرکبات تک محدود ہے۔بعض تجارتی اداروں نے مختلف وٹامن کے مرکبات تیار کئے ہیں لیکن ان کا حفظِ صحت اور مفید خون و اعضاء کوئی تعلق ظاہر نہیں کیا گیا بلکہ چند مخصوص امراض کے علاج تک محدود کردیا گیا ہے۔ اس لئے وٹامن کے مرکبات ک مسئلہ بھی تشنہ کام ہے ۔
اعتراض 9
جسم انسان مختلف اعضاء اور کیفیات کا مجموعہ ہے۔ان کے لئے اغذیہ بھی مختلف قسم کی دینی پڑتی ہیں۔ اگر ان اغذیہ کا انتخاب صحیح نہ ہوتو بجائے مفید اثرات کے نقصان ہوجاتا ہے۔متوازن غذا میں اس قسم کا کوئی اصول بیان نہیں کیا گیا کہ فلاں عضو کے لئے فلاں فلاں اجزائے اغذیہ ، نمکیات اور وٹامن مفید ہیں ۔اس اصول کے بغیر یقین کے ساتھ کوئی غذااور شے تجویز نہیں ہو سکتی ۔غذامیں بہت بڑی ناکامی ہے۔
اعتراض 10
بعض اغذیہ اور اشیاء ایک دوسرے کی مخالف ہوتی ہیں اور ان کے افعال واثرات کوضائع کر دیتی ہیں۔ جیسے پروٹین اغذیہ کاربوہائیڈریٹ کے اثرات کو ضائع کردیتی ہیں۔ فیٹس اغذیہ پروٹینی اغذیہ کے اثرات کو روک دیتی ہیں اور کاربوہائیڈریٹ اغذیہ فیٹی اثرات کو ختم کردیتی ہیں۔ جیسے کیلشیئم کے نمکیات پوٹاشیئم کے نمکیات کو ضائع کردیتے ہیں۔سلفر کے نمکیات کیلشیئم کے نمکیات کے اثرات کوختم کر دیتے ہیں۔ یہی صورت وٹامن کے افعال واثرات میں بھی پائی جاتی ہےمگر متوازن غذا میں اجزاء غذاو نمکیات اور وٹامن کے سلسلوں میں کہیں ذکر نہیں ہے اور نہ ہی ایسے گروپوں کا کہیں اشارہ تک ہے۔ یہ تو مفرد صورتیں ہیں لیکن جہاں تک غذاکے کلی اجزاء (پروٹین ، فیٹس اور کاربوہائیڈریٹ) نمکیات اور وٹامن کا تعلق ہے۔ ان کے مختلف اور متضاد افعال و اثرات کا کہیں بیان نہیں کیا گیا۔اس لئے ایسی غذاکو متوازن کہنا غلط ہے۔یہ چند اعتراضات و حقائق مع دلائل پیش کر دئیے ہیں جن سے کوئی اہل علم اور صاحب فن انکار نہیں کر سکتا۔
ماڈرن سائنس کی مہر
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سچائی کبھی نہیں بدلتی۔سچائی ہر مقام پر سچائی ہے اور سچائی ہی حقیقت کی مظہر ہے۔سائنس اور تجربات کے بعد ان پر سچائی کی مہر ہی ثبت ہوتی ہے۔لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ ماڈرن سائنس جس سچائی اور حقیقت کو نہ پرکھے اور اس پر اپنی مہر تصدیق ثبت نہ کرے وہ سائنس نہیں یا وہ مشاہدات اور تجربات ابھی تکمیل کی راہ میں ہیں اور کمال و اختتام تک نہیں پہنچے ان کو سائنس کی سچائی کا نام دے دیا جائے۔سائنس کی گزشتہ صد سالہ تاریخ کو اٹھا کر دیکھا جاسکتا ہے کہ سائنس کے ہزاروں مسائل اب تک تشنئہ تکمیل ہیں۔ یاد رکھیں کہ سائنس کی ذاتی حیثیت جدا ہے جو کہ ایک علم ہے اور سائنسی مسائل اپنی ایک الگ حیثیت رکھتے ہیں جن میں آئے دن تبدیلی ہوتی رہتی ہے ان دونوں کو علیحٰدہ علیحٰدہ سمجھنا چائیے ۔ ہر سائنسی مسئلہ جو زیر تکمیل ہے سائنسی نہیں ہے ۔ اس وقت سائنس کے سامنے ہزاروں مسائل ہیں جو مشاہدات و تجربات کی راہ میں زیر تکمیل ہیں ۔ اہل سائنس اور صاحبِ فن خود ان کی حقیقت اور سچائی سے واقف نہیں ہیں بلکہ پریشان ہیں۔
جہاں تک انسانی محسوسات و مشاہدات کا تعلق ہےتین صورتیں ان کے سامنے ہو سکتی ہیں۔
1۔ حالاتِ کائنات جن میں آسمان و نجوم ، اثیر وبرق اوار زندگی اور توانائی ۔
2۔ امورِ طبیہ جن میں (ارکان ، مزاج ، اخلاط، ارواح ، قویٰ اور اعضاء )ہیں۔
3۔ ستہ ضروریہ (ہوا، ماکولات و مشروبات ، حرکت و سکونِ جسمانی، نیند و بیداری اور احتباس و استفراغ)۔
ان میں سے کون سے امور اور مسائل ہیں جن کے متعلق ماڈرن سائنس یہ دعوی کرسکتی ہے کہ وہ ان کو پایۂ تکمیل تک پہنچا چکی ہے۔ان میں ایک بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کےلئے وہ کہ سکے کہ وہ اس کی آخری منزل تک پہنچ گئی ہے۔پھر وہ اپنی سائنسی مہر ثبت کرنے کو کیوں اہمیت دیتی ہے۔اس کے برخلاف قدیم سائنسوں میں ایورویدک اور طبِ قدیم بھی اپنی سائنس ہونے کا دعوی کرتی ہیں اور انہوں نے بھی ان امور اور مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ کیا ماڈرن طب و سائنس نے ان کو پرکھا اور ان پر تجربات کئے ہیں؟ نہیں بالکل نہیں۔ اگران کو قدیم اور ماڈرن سائنس کو جدید کہا جائے تو یہ صرف زمان و مکان کی بحث ہو گی۔اس میں سچائی اور حقیقت کے اظہار میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جدید دسائنس جس قدر ترقی کرتی جاتی ہے، وہ انہی مسائل کی طرف لوٹ رہی ہے جن کو ہزاروں سال قبل ایورویدک اورطبِ قدیم نے بیان کر دیا ہے۔مثلاً ارکان و عناصر سے لے کربرق و ایٹم تک ۔مادہ زندگی سے لے کرروح تک۔ یہ سب حقائق قدیم سائنسوں میں نمایاں طورپر بیان ہوچکے ہیں۔ ماڈرن سائنس ان کے طرف آتے ہوئے گھبراتی ہے اور ان پر مہرِ تصدیق ثبت نہیں کرتی اور جو لوگ اصل سچائی اور حقیقت سے واقف ہیں وہ ماڈرن سائنس کی بے مائیگی اور کم ظرفی سے پوری طورپر آگاہ ہیں اور ان کو قدیم کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
اس سے بھی عجیب بلکہ زبرددست بات یہ ہے کہ مختلف مذاہب نے بھی فطرت اور حقیقت پر بحیثیں کی ہیں اور ان سب کو سچائی کہا ہے ان میں جن مسائل کو بیان کیاہے ان کی دو صورتیں ہیں۔
1۔ زندگی اور کائنات اور ان کے تغیرات وہ سب مشاہدات و محسوسات ہیں اور ان کے افعال مقررہ قوانین کے تحت پائے جاتے ہیں جن کو ہم طبیعات میں شمار کرتے ہیں۔
2۔ روح و نور اور ان کے اثرات ہیں۔ان کے اعمال بھی مقررہ قوانین پر ظاہر ہوتے ہیں۔ان کو ہم مابعدالطبیعات کانام دیتے ہیں۔
کیا ماڈرن سائنس و طب نے ان کی سچائی کو تسلیم کرکے ان پر مہر ثبت کی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔دنیا میں جس قدر مذاہب ہیں جن میں بدھ مت ، ویدک ، اسرائیلیت، اسلام ، عیسائیت اور کارل مارکس کی اشتراکیت شامل ہیں۔ اگر ان کو بھی ایک مذہب کا نام دیا جائے تو ماڈرن سائنس و طب نے کسی کو بھی سائنس تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان پر سائنس ہونے کی مہر ثبت کی ہے۔فرنگی مفکروں نے مذہب اور سائنس پر کتب لکھی ہیں جو ان کتب میں مذہب کی اہمیت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن اسلام اپنے آپ کو یہ نہیں کہتا بلکہ وہ اپنی تعلیم کو دین کا نام دیتا ہے جس کا مقصد انسانی کرداروفعل اور جہد و سعی کےلئے جزاء و سزا مقرر کرتا ہے۔گویا انسان کی ہر حرکت اپنا ایک نتیجہ رکھتی ہے اور اس کا ذہن پیدائش سے موت تک ہر فعل و کردار پر حاوی ہے۔ وہ صرف زندگی کو بیان نہیں کرتا بلکہ زندگی کی روح سے لے کر کائنات تک کو بیان کرتا ہے۔ گویا طبیعات سے لے کر مابعدالطبیعات تک کو بیان کرتا ہے۔
قرآنِ حکیم جو اسلامی تعلیم و حکمت پیش کرتاہے ۔ اس نے دو قسم کی آیات بیان کی ہیں۔
1۔ محکمات جو محسوسات ومشاہدات اور روزانہ زندگی کے تجربات ہیں۔ جن میں اخلاق و عادات، تدبیر منزل، مدن و سیاست اور معاشرت و معاشیات تک سب کچھ بیان کردیا ہے۔ ان میں زمین اور زمین کے اندر کے تمام خزانوں اور ان کی حکمت کا ذکر کیا ہے۔
2۔ متشابہات جو ہمارے ادراکات ہیں۔جن کو ذہن نشین کرنے کےلئے تشبیہات اور دلائل سے بیان کیا ہے۔ان میں قوت ، روح اور نفس و زندگی کے حقائق کے ساتھ آسمان اور نجوم کا تعلق بیان کیا ہے۔اور ان کو ذہن نشین کرانے میں ان کے ہر پہلو کو بیان کیا ہے۔مثلاً آسمان کیا ہے ؟کس شے کا بنا ہواہے؟اس میں کیا ہے؟اس کے افعال کیا ہیں؟اس کا زندگی اور کائنات کے ساتھ کیا تعلق ہے؟بلکہ یہاں تک تشبیہ دے دی ہے کہ جو کچھ نفس میں ہے وہی آفاق میں ہے اور اتنا کچھ بیانہ ہوا ہے کہ ماڈرن طب صدیوں تک ان کا کھوج لگاتی رہے تو ان پر عبور حاصل نہ کرسکے مگر فرنگی سائنس کی مہر اس بھی ثبت نہیں ہے۔اس لئے جن مسلمانوں کے ذہن پر فرنگی سائنس کا غلبہ ہے وہ اعلانیہ کہتے ہیں کہ چودہ سال پہلے کا اسلام موجودہ سائنس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔یا اسلام کو مذہب خیال کرتے ہوئے کہتےہیں کہ سائنس جدا سے اور مذہب الگ چیز ہے۔ ان کو آپس میں ملانا اسلام کے خلاف ہے۔اللہ تعالیٰ ان کو صراطِ مستقیم کی ہدایت بخشے۔یا درکھیں جو علم و سائنس قرآن حکیم کی تعلیم و حکمت کے مطابق نہیں وہ غلط اور نامکمل ہے۔
———————————PAGEBREAK———————————
علاج میں غذا کی اہمیت
فرنگی طب نے اطباء اور عوام کے ذہنوں پر جہاں اثر ڈالا ہے کہ فرنگی ادویات ہر مرض کے لئے سالہا سال کی سائنسی تحقیق اور تدقیقات اور (Analysis)کے بعد بنائی گئی ہیں اس لئے ہر مرض کی ہر حالت میں مفید ہیں وہاں پر یہ غلط صورت بھی پیدا کردی ہےکہ مریض کے لئے کسی قسم کی غذائی تخصیص نہیں ہے۔ گویا دوا اپنے اندر پورے کے پورے شفائی اثرات رکھتی ہے۔ مگر جب ادویات استعمال کی جاتی ہیں تو نتیجہ صفر کے برابر نکلتا ہے۔ البتہ مخدر اور منشی ادویات اور ان کے ٹیکے مریضوں کو بے ہوش ضرور کردیتے ہیں یا میٹھی نیند سلا دیتے ہیں اور اکثر ہمیشہ کے لئے ہی سلا دیتے ہیں ورنہ جہاں تک مریض کے علاج کا تعلق ہے فرنگی طب بالکل ناکام ہے۔لیکن اس تقلید کا کیا کیاجائے جو ہمارے حکماء و اطباء نہیں بلکہ عطار اور عطائی قسم کے معالج کر رہے ہیں۔ جن کا مقصد سستی شہرت، ناجائز دولت کمانا اور ملک و فن کے ساتھ غداری ہے۔ ایسے لوگ طب یونانی کا صحیح اور مکمل علم نہیں رکھتے۔انہوں نے فرنگی طب کی نہ سند حاصل کی ہے اور نہ باقاعدہ تعلیم کا موقع ملا ہے۔ لیکن علاج کے لئے شب و روز فرنگی ادویات استعمال کرتے ہیں۔ انجکشن لگاتے ہیں اور عوام پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر اور حکیم دونوں سے اچھے ہیں۔دلیل یہ دیتے ہیں کہ وہ انگریزی ادویات کو دیسی ادویات سے ملا کر ان کا نقصان دور کردیتے ہیں اور یونانی ادویات کی طاقت تیز کر دیتے ہیں۔ حقیقت یہ کہ سب سے زیادہ یہ لوگ عوام اور مریضوں کے نقصان کے ساتھ ساتھ فن طب اور یونانی ادویات کے لئے بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔مجھے ایک دو نہیں سینکڑوں ایسے عطائیوں اور عطاروں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہےجو فنِ طب تو رہا تو ایک طرف کسی معمولی مرض کی ماہیت اور بادیان جیسی روزمرہ استعمال کی دوا کے خواص تک نہیں جانتے اور باتیں کرتے ہیں پنسلین ، اینٹی باٹک ادویات اور سلفاا ڈرگ کی۔ ان کو نہ نضج کا پتہ اور نہ ہی اسہال کی ضرورت کا اور نہ پسینہ اور اوزارکے اوقات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ان کی بلاجانے مسہل اور ملین میں کیا فرق ہے۔ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ فلاں دوا پاخانہ لاتی ہے۔فلاں شے سے پیشاب آ جاتا ہے اور فلاں شے دینے سے پسینہ آجاتا ہے۔یا زیادہ دل کو طاقت دینے کے لئے چند دوائیں ذہن میں حاضر ہیں۔ مگر (ویجی ٹیبلس)سپرٹ ایمونیارومیٹک اور ایڈرنالین کا فرق نہیں جانتے لیکن وہ کامیاب معالج کہلاتے ہیں اور امراض کے علاج میں بڑھ چڑھ کردعوے کرتے ہیں اورجب علمی بحث ومباحثہ کاوقت آتا ہے تو بغلیں جھانکتے ہیں۔
فرنگی طب کی اندھی تقلید نے ملک میں ایک ایسا گروہ پیدا کردیا ہےجو نہ حکیم ہے اور نہ ہی طبیب۔لیکن فنِ طب کے لئے بے حد رسوائی اور بدنامی کا سبب بنا ہوا ہے۔ایسا گروہ کبھی ہومیوپیتھک، کبھی ایلوپیتھی اور کبھی یونانی ادویات کا سہارا لیتا ہےاور اپنی دوا فروشی جاری رکھتا ہے۔ اول تو ایسی قسم کے معالج خواص الادویہ ضرورت اغذیہ اورطریقِ استعمال اغذیہ سے واقف نہیں ہوتے۔دوسرے فرنگی طب کی اندھی تقلید میں ہر غذاکھانے کی اجازت دیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ غذاثقیل نہیں ہونی چائیے۔شورا پھلکا اچھی غذا ہے ہاں کچھڑی بھی کھاسکتے ہیں۔اگر دل کرتا ہے تو دودھ بھی پی سکتے ہیں۔چائے بھی نقصان نہیں دے گی۔خیر پھل کا تو کوئی نقصان نہیں۔ البتہ مٹھائی بہت کم کھائیں۔ ہاں بادی چیز اور کھٹا و تیل کے نزدیک نہ جائیں۔اگر برف کا شوق ہے تو ذرا سی استعمال کرلیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان معالج حضرات سے کوئی پوچھے کہ لطیف اور کثیف غذا کا فرق کیا ہے؟ کون کون سی اغذیہ ثقیل ہیں اور کون کون سی زودہضم وغیرہ۔ایک ہی مریض کو گرم اغذیہ بھی اور سرد اغذیہ بھی۔ روٹی اور چاول بھی ، برف ،پھل اورچائے بھی۔ آخر غذا شے کیا ہے؟تندرست اور مریض کی غذامیں کچھ نہ کچھ تو فرق ہونا چائیے۔اگر معالج فرق نہیں جانتا تو وہ معالج نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اچھےاور بُرے معالج کااندازہ غذا، پرہیز بتانے پر چل جاتا ہے۔جو معالج روزانہ استعمال کی اشیاء مثلاً نمک، مرچ، ہلدی، گرم مصالحہ، گوشت ، سبزیاں، دالیں، غلے، دودھ، چائے اور ان سے بنی ہوئی اشیاء پھل، میوہ جات، پان اور تمباکو وغیرہ وغیرہ اثرات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہے وہ علاج میں ان کو کیسے استعمال کرسکتا ہے۔ اگر اتفاقاً ایک اچھی دوا بھی تجویز کردی تو غذا کی خرابی سے بجائے آرام ہونے کے مریض کو نقصان ہو جانے کا اندیشہ غالب ہے۔
غذا کے متعلق جاننا چائیے کہ مریض کے لئے نہ کوئی لطیف غذااوار نہ ہی کوئی زود ہضم غذاہے، نہ کوئی ثقیل اور دیر ہضم غذا اوار نہ کوئی غذا مقوی اور نہ غیرمقوی۔ اسی طرح کوئی غذا مولد خون اور نہ ہی پیدائش خون کو روکنے والی ہے۔بلکہ اصل غذا وہ ہے جس کو مریض جسم کو ضرورت ہے۔وہی غذا اس کے لئے زود ہضم و مقوی اور مولدِ خون ہوگی۔ضرورتِ غذا پر مریض کے اعضاء کے افعال کی خرابی اورخون کے کیمیائی نقص سے پتا چلتا ہے۔اگر مریض کے لئے صحیح غذاتجویز کر دی جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ مریض کو بغیر دوا آرام ہوجائے گا۔ جسم انسان پر پچاس فیصدی غذاکااثر ہے۔دوا کااثر صرف پچیس فیصدی اور پچیس فیصدی مریض کے ماحول کو درست اور مزاج کومطمئن رکھنا ہےتاکہ قوتِ مدبرہ بدن بیدار رہےاور مریض کی طبیعت صحت کی دوڑتی ہے۔مریض کو غذا تجویز کرنے کے لئے ہمیشہ تین باتوں کا خیال رکھنا ہے۔ 1۔ خمیر غذا 2۔ضرورت غذا 3۔ مناسب غذا خمیر غذا کی یہ صورت ہوتی ہےکہ مریض کے شکم میں جو غذا موجود ہے۔اس میں خمیر پیدا ہوچکا ہے۔اکثر یہی خمیر فسادِ خون تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔بلکہ بعض اوقات زہر کی شکل اختیا ر کر لیتا ہے۔مثلاً ہم روزانہ زندگی میں دیکھتے ہیں۔کہ آج کا تازہ دودھ کل کا باسی ہوجاتا ہے۔دوسرے روز اس میں کٹھاس پیدا ہوجاتی ہے۔تیسرے روز اس میں تعفن پیدا ہوجاتا ہے۔چوتھے روز اس میں کیڑے ظاہر ہوجاتے ہیں۔اور پانچویں روز وہ اس قدر خراب ہوجاتا ہےکہ گویا زہر کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔بس تقریباً یہی حالت پیٹ کے اندر غذا میں خمیر ہونے سے پیدا ہوجاتی ہے۔ایسی صورت میں جب تک پیٹ کا خمیر ختم نہ ہوعلاج میں صحت کی کیا امید ہو سکتی ہے۔اور اغذیہ اور ادویہ یہ کیسے مفید ہو سکتی ہیں۔اگر غذا دی گئی تو اس کا نتیجہ ایسا ہو گا جیسے متعفن دودھ میں عمدہ دودھ ملا کر اس کو ضائع کر دیا جائےاور پھر اس سے اچھے اثرات کی امید رکھی جائے۔اسی طرح خمیرآٹا کے ساتھ جب بھی دوسرا آٹا ملا کر گوندھا جائے گا یقیناً وہ بھی خمیر ہوجائے گا۔جب تک خمیر ختم نہیں کیا جائے گا۔بالکل یہی صورت پیٹ میں غذا کھانے کے بعدپیدا ہوجاتی ہے۔اسی طرح اس خمیر میں نہ صرف ہر قسم کی غذا ختم ہو جاتی ہےبلکہ ادویات بھی ضائع ہوجاتی ہیں۔ مریض گھبرا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ علاج اور ادویات سے اس کو خطرہ پیدا ہوا ہے۔اور معالج حیران ہوتا ہے کہ ایسی اکسیرتریاق اور بے خطاو یقینی مجرب نسخہ استعمال کرنے سے ایسے خطرناک حالات کیوں پیدا ہو گئےہیں۔یقیناً نسخہ مفید نہیں ہےبلکہ اس میں یہ خرابیاں ہیں۔لیکن اصل بات سے وہ واقف نہیں ہوتاکہ مریض کے پیٹ میں جو خمیر تھا اس میں تیزی پیدا ہو گئی ہےاس سے یہ خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔اسی خمیر سے پیٹ میں تیزابیت پیدا ہوتی ہےجس کو ایسڈیٹی کہتے ہیں۔ یہی جب خون میں شامل ہوتی ہے تو مختلف مقامات خصوصاً گردوں اور غشائے مخاطی پراثر انداز ہو کر بہت سے خوف ناک امراض پیدا کرتی ہے۔ بہر حال خمیر میں جوں جوں شدت پیدا ہوتی جاتی ہےتوں توں خون میں زہر پیدا ہوتا جاتا ہےیہاں تک کہ ہلاکت تک پہنچ جاتا ہے۔ اس لئے علاج ، غذا اور دوا استعمال کرنے سے پہلے خمیر غذا کو ختم کرلینا نہایت ضروری ہے۔
ضرورتِ غذا
ضرورتِ غذا میں مریض کو غذاکھانے کی صحیح خواہش ہےجس کی بہترین علامت بھوک ہے۔گویا بھوک کے بغیر غذا کھانے کی صحیح خواہش نہیں ہے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کھانے کا وقت ہے۔اور کھانے کی خواہش پیدا ہوگئی ہےیا کھانے کی شکل دیکھی ہے۔اس کی رنگ برنگی صورت و خوشبواور انواع واقسام دیکھ کر دل میں شوقِ لذت پیدا ہو گیایا ڈیوٹی پر جاتے ہوئے خیال آیا کہ کھاناکھا لیا جائےپھر گرم گرم کھانا نہیں ملے گایاکسی دوست اور عزیز نے مجبور کردیا اور بغیر ضرورت کے کھاناکھالیاوغیرہ وغیرہ۔ان تمام حالات میں ضرورتِ غذانہیں تھی۔ ضرورتِ غذا صحیح خواہشِ غذا ہے جس کو بھوک کہتے ہیں۔ بھوک بالکل وہی صورت ہے جو روزہ کھولنے سے تھوڑی دیر پہلے محسوس ہوتی ہے جس کی علامات یہ ہیں۔بدن گرم ہو جاتا ہےچہرہ کان کی لو تک گرم ہوجاتی ہے۔دل میں فرحت و مسرت اور لذت کا احساس ہوتاہے۔اس کے برعکس جب بھوک میں جسم ٹھنڈاہوجائے یا دل ڈوبنا شروع ہوجائے تو یہ بھوک نہیں بلکہ مرض ہے۔ اس کا علاج ہونا چائیے۔ اس کا فوری علاج شہدکھانا یا شہد کا شربت پینا، ہلکی چائے یا کوئی حسبِ خواہش پھل کھا لینا ہے۔غذا خصوصاً نشاستہ دار غذا کے قریب تک نہیں جانا چائیےایسا کرنا گویا خطرناک امراض کو دعوت دینا ہے۔
سال میں ایک مہینا بھر بھوک کے احساس کی تربیت دی جاتی ہےمگر عید کے دوسرے روز ہم بالکل بھوک کا خیال تک بھول جاتے ہیں۔ روزوں میں مہینا بھر کے ثواب کا تصور تو رکھتے ہیں لیکن ایک مہینا میں جو ہم کو تقریباً سولہ گھنٹے کی بھوک اور پیاس کا حقیقی تجربہ ہوتاہے اس کو یقیناً بھلا دیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وقت بے وقت اور جگہ بے جگہ کھا پی کرامراض مول لےلیتے ہیں۔افسوس تو یہ ہے کہ ہم خود ہی قوانینِ فطرت کی مخالفت کرتے ہیں اور بغیر ضرورت کھاتے ہیں اور جب قوانین ِ فطرت کی بغاوت کے بعد بیماری کی شکل میں ہم کو سزا ملتی ہےتوروتے ہیں اور واویلاکرتے اور پریشان ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کی توندیں بڑھ گئی ہیں کیا یہ یقین کیا جاسکتا ہےکہ ایسے لوگ غذا ضرورت کے مطابق کھاتے ہیں؟کیا یہ لوگ مریض نہیں ہیں؟خداوندِ کریم لالچ کی بھوک سے محفوظ رکھے۔(آمین)
استعمال غذا
غذاکے استعمال میں کسی خاص علم کی ضرورت نہیں ہے۔جیسا کہ فرنگی طب نے اپنے تجارتی مقاصد کے تحت چکر چلا دیا ہے کہ غذامیں اتنی پروٹین( اجزاءلحمیہ) اس قدر کاربوہائیڈریٹ(اجزاء نشاستہ)اس مقدار میں فیٹس (روغنی اجزاء)ہو اور اس میں حیاتین کا ہونا ضروری ہے، جس کے لئے خاص طور پر کچی سبزیاں کھائی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جب آدمی ان میں پھنس جاتا ہےکہ بازار میں وٹامن اور دیگر اغذیہ کی گولیاں تووہ کہیں کا نہیں رہتا۔مکسچر نے ایک الگ مضمون لکھا ہے۔امریکہ والوں سے آلو کے سلسلہ میں بحث چل نکلی تھی۔ خداوندکریم کی مہربانی سے ان کامنہ بند کردیا ہے۔ان کو چیلنج کیا ہے کہ ہم امریکہ میں کوئی بھی غذا کے سلسلہ میں انتہائی قابل ہومقابلہ پر لایا جائے۔ہم تسلی و تشفی کے لئے تیار ہیں۔غذا کے استعمال میں وہ صرف یہ باتیں یاد رکھیں۔
1۔شدید بھوک ہو ، جس کی علامات لکھ دی ہیں اور اور اس کاایک جذبہ یہ بھی ظاہر ہو کہ وہ کتنا ہی کھا جائے گا۔خواہ جس چیز کودل چاہے کھائے ، یعنی ذائقہ اور کیفیت (گرم سرد، تروخشک)اگر غذا حسبِ ذائقہ اور کیفیت بہتر ہو تو بہتر ہے ورنہ غذا میں مقوی اور قیمتی غذا کاتصور ضروری نہیں ہے۔
2۔ غذاہمیشہ اس وقت کھائی جائے جب بہت زیادہ کھانے کا تصور ہومگرخوب کھانے کے بعد کچھ حصہ بھوک باقی ہو توغذاکو چھوڑ دیں تاکہ غذا پیٹ میں پھول کرتمام معدہ کو قابو میں نہ کرلے اور معدہ اپنی حرکات کو چھوڑ بیٹھے اور غذا معدہ میں کچی رہ جائے یاقے و اسہال کی صورت پیدا ہو کر ہیضہ نہ ہوجائے۔گویا غذا زیادہ سے زیادہ کھانے کے بعد کچھ حصہ بھوک کا باقی ہو تو غذا سے ہاتھ کھینچ لینا چائیے۔ ہمیشہ یہ خیال رکھیں تھوڑا کھانا گناہ ہےاور پیٹ بھر کرکھانا بھی عذاب ہے۔غذا کھانے کی صورت ان کے درمیان ہونی چائیے۔ البتہ یہ معالج کاکام ہےکہ وہ بتائے کہ کس مرض میں کیاغذاہونی چائیے چونکہ جگر کے لئے غذاالگ ہونی چائیے اور دماغ کی ضروریات جدا ہیں۔اسی طرح دل کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہےوہ الگ ہیں۔غرض ہر معالج کا فرض ہے کہ اعضائے رئیسہ کی مناسبت سے مریض کے لئے غذاتجویز کرے تاکہ غذا بھی دوا کے لئے معاون بن جائے۔
غذائی علاج میں فاقہ کی اہمیت
غذائی علاج کی اہمیت کااندازہ اس امر سے لگایاجاسکتاہے۔کہ انسانی اور حیوانی جسم میں خون صرف غذاہی سے پیدا ہوتا ہےاور دنیا کی کوئی دوا اور زہر ہرگز ہرگز خون یا کوئی اور خلط نہیں بن سکتا۔دنیا کا ہر طریق علاج بلکہ ماڈرن سائنس بھی اس امر کو تسلیم کرتی ہے کہ خون صرف غذائی اجزاء سے پیدا ہوتاہے۔ دوا اور زہر صرف جسم کے اعضاء میں تحریک و تسکین اور تحلیل کا باعث ہوتے ہیں۔جاننا چائیے کہ غذائی علاج کی بنیاد فاقہ پر رکھی جاتی ہے کیونکہ جب تک بھوک بیدار نہ ہو اس وقت تک غذائی علاج اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ بھوک بیدار کرنے کے لئے ہی غذا کو اس وقت تک روک دیا جاتا ہے یا اس قدر لطیف اغذیہ کا استعمال کرایا جاتاہے جو انتہائی زود ہضم ہوں یا ایسی غذاکااستعمال کرایا جاتا ہے جس میں اغذیہ کے ساتھ ساتھ ادویہ بھی شریک ہوں جن کو دوائے غذائی یا غذائے دوائی کہتے ہیں۔ ان میں فرق یہ ہے کہ دوائے غذائی میں دوا زیادہ غذاکم ہوتی ہے اور غذائے دوائی میں غذا زیادہ ہوتی ہے۔ان صورتوں اور تدابیر سے مقصد شدید قسم کی بھوک کا پیدا کرناہے۔ شدید بھوک پیدا کرنے میں اعادۂ شباب کا بھی راز ہے۔
روزہ ایک مذہبی عبادت ہے جو تقریباً ہر مذہب میں کسی نہ کسی رنگ میں پایا جاتا ہے ۔اس کی خوبیوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو اس کی حقیقت سے واقف ہیں ۔اس کو فاقہ کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ ایک مقصد کا حصول ہے۔ یہ روزہ ہی کا کمال ہے کہ اس سے انسان کی خوابیدہ جسمانی روحانی قوتیں بیدار ہوجاتی ہیں۔ اسلامی روزہ بارہ، چودہ اور سولہ گھنٹے کا ہوت ہے۔اس میں خوبی یہ بھی ہے کہ جب تک کھائی ہوئی غذا پوری طرح ہضم ہوکرخون نہ بن جائے اس وقت تک روزہ نہیں کھولا جاتا اور اسی طرح ایک ماہ مسلسل عمل کیا جاتا ہے جس سے نہ صرف جسم کا تمام میل دھل جاتا ہے بلکہ طاقتور خون پیدا ہوجاتا ہے۔اس سے بے شمار امراض دور ہوکر جوانی و قوت اور حسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ سچ کہا گیا ہے کہ
الصوم قائم شباب۔
فاقہ سے جب بھوک لگتی ہے تو مندرجہ ذیل تین صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔
1۔ فاسد رطوبات و گندے مادے اور خمیر وتعفن ختم ہوجاتے ہیں۔
2۔ اعضائے رئیسہ و جسم اور روح و ذہن کی قوتیں بیدار ہوجاتی ہیں۔
3۔ صفرا کی پیدائش ہو کرحرارت غریزی کوتقویت حاصل ہوتی ہے۔
اگر انسان روزانہ بارہ ، چود اور سولہ گھنٹے تک غذا کو نہ روک سکے تو کم از کم شدید بھوک تک انتظار ضروری ہے۔یاد رکھیں کہ تندرست انسان میں صحیح بھوک چھ گھنٹوں سے پہلے نہیں لگ سکتی۔ اگر لگ جائے تو کم از کم چھ گھنٹوں تک نہیں کھانا چائیے۔ یہی صحت و قوت اور جوانی کا راز ہے اور یہی فاقہ کی برکتیں اور غذائی علاج میں اس کی حقیقت ہے۔
ناخالص اغذیہ اور بے انتہا گرانی
صحت اور غذاکا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن صحت کے لئے نہ صرف خالص غذاکی ضرورت ہے بلکہ عوام کی دسترس سے بعید بھی نہیں ہونی چائیے۔مگر آج کل غذا کا مسئلہ اس قدر اہم اور گھمبیر ہوچکا ہے کہ اکثر طبقہ بھکاری بن رہا ہے اور خرابی اور تنگی غذا کے باعث انتہائی خراب صحت کا شکار ہورہا ہے۔ اس شکل میں ایک طرف ملک میں بے اطمینانی، قوم میں کمزوری اور دوسری طرف عوام میں جرم کی زیادتی کے ساتھ ساتھ بغاوت کے عناصر کو تقویت ملی ہے۔ان حقائق کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چائیے کہ معیار زندگی بڑھانا اور بات ہے اور نکمے اور بے کار عوام کی دسترس سے دور کر دینے سے نہیں بڑھا کرتا بلکہ اپنے ملک اور قوم کے کلچر کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عوام تک پہنچانے سے ہوا کرتا ہے۔ ہمارے ملک اور قوم میں تعلیم اور کلچر کا یہ حال ہے کہ ہم میں دونوں چیزیں یورپ اور امریکہ کی پائی جاتی ہیں مگر ہم نتیجہ مشرقی ذہن کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں۔
غذا میں غلہ کے اجناس کے بعد دوسرے درجہ پر روغنیات ہیں۔ان کی جسم میں ایسی ہی ضرورت ہے جیسے مشینوں میں پٹرول کے بعد موبل آئل کی ضرورت ہے۔ موبل آئل پرزوں کو لبریکیٹ(Lubricate)رکھتا ہے اور رگڑ کھانے اور جلنے سے بچاتا ہے۔یہی صورت جسم انسان میں روغنیات کی بھی ہےمگرجسم انسان میں ان کا ایک کام یہ بھی ہےکہ وہ جسم میں حرارت بھی پیدا کرتے رہتے ہیں تاکہ جسم ایک طرف سردی سے محفوظ رہے اور دوسری طرف جسم میں سوزش اور امراض پیدانہ ہونے پائیں۔ روغن دو قسم کے ہوتے ہیں ۔
اول نباتاتی جنہیں ہم تیل کہتے ہیں جیسے سرسوں، زیتون اوربنولہ وغیرہ اور بعض روغن میوہ جات سے بھی نکالے جاتے ہیں جیسے روغن ناریل، روغن بادام اور روغن کنجد وغیرہ۔
دوم۔ حیوانی جوگھی اور چربی کہلاتے ہیں۔گھی عام طور پرمکھن اور کریم سے تیار ہوتا ہے اور چربی گوشت سے جدا کی جاتی ہے۔ مفید ہونے کی صورت میں میوہ جات کے روغن سبزیوں کے روغنیات سے زیادہ انسانی جسم کے قریب ہیں۔ ان کے زیادہ قریب ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ جلد اورزیادہ سے زیادہ جزو بدن بن جاتے ہیں۔ اس حیثیت سے اعضاء اور خون کےلئے بے حد مقوی اور مفید ہیں۔ ایک عام انسان بھی خوب جانتا ہے کہ تیل کے کھانے سے جہاں گلے میں خراش اور زکام ہوجاتاہے وہاں گھی کھانے سے انسان ان امراض سے محفوظ رہتا ہے۔ سوائے چند مخصوص علاقوں اور اغذیہ کے جہاں پر تیل فطرتاً مفید ہے یعنی ایسے علاقے جہاں پر رطوبت زیادہ ہوتی ہے یا سال بھر تک خوب سردی رہتی ہے وہاں پر گھی اور مکھن کی بجائے تیل زیادہ مفید ہیں۔رطوبتی علاقےاکثر سمندرکے کنارے ہوتے ہیں یا ایسے علاقے جہاں بارش بہت کثرت سے ہوتی ہے۔ایسے علاقے اکثر پہاڑوں کی وادیاں یاپہاڑ ہوتے ہیں۔جاننا چائیے کہ گرم علاقوں میں ہمیشہ مکھن اور گھی مفید ہوتے ہیں اور تیل اکثر تکلیف کا باعث ہوتے ہیں اور مختلف امراض پیدا کرتے ہیں۔
بناسپتی گھی
دراصل گھی نہیں ہے اور نہ ہی حیوانی روغن ہے بلکہ نباتاتی تیلوں کو مصنوعی اور بناوٹی طور پر گھی کی شکل دے دی گئی ہے۔یہ عام طور پر کسی تیل کے ساتھ سوڈاکاسٹک یا کوئی دیگر قوی الکلائین (کھار) کو ملا کر تیار کیاجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے صابن بنایا جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ صابن کا قوام سخت ہوتا ہےاور بناسپتی کا قوام نرم مثل گھی رکھا جاتا ہے۔ دراصل ہر بناسپتی گھی نرم قسم کا صابن ہے۔
افعال و اثرات بناسپتی گھی
بناسپتی گھی افعال و اثرات کے لحاظ سے نہ تو مکھن اور گھی کے اثرات رکھتا ہے کہ اس میں حیوانی اثرات خصوصاً حیوانی گندھک کا کوئی اثر نہیں ہوتا جو صحت کے قیام اور جسمانی سوزش کو دور کرنے کے لئے از حد ضروری ہےبالکل اس قسم کے اثرات جو شہد میں پائے جاتےہیں۔ جس کے لئے قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے۔
فیہ شفاء اللناس
اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے۔
اور نہ ہی اس میں تیلوں کے تیزابات کا اثر اور نہ گندھک کے افعال باقی رہتے ہیں۔ گویا جو طاقت خالص تیل میں ہوتی ہے۔ بناسپتی گھی میں بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں الکلی(کھار)کی زیادتی کی وجہ سے انتہائی عصبی سوزش پیدا ہوجاتی ہےجس سے جسم میں رطوبت کی زیادتی، نزلہ اور بلغم کی پیدائش، پیشاب کی کثرت کے ساتھ ساتھ پیشاب میں شکر کا بڑھ جانا۔ جب پیشاب کی رطوبات اور بلغم میں زیادتی پیدا ہوجائے تو حرارت کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔دوسری طرف اس میں گندھک کی مقدار بالکل نہیں پائی جاتی جو صحتِ انسانی کے لئے ضروری حرارت پیدا کرتی ہے۔ نتیجہ میں اس کے کھانے والے کی صحت خراب ہونی شروع ہو جاتی ہے۔
تجربہ اور نقصان
جن لوگوں نے بناسپتی گھی کبھی نہیں کھایا جب وہ کھانا شروع کرتے ہیں چاہے وہ سالن کی شکل ہویامٹھائی کی صورت تو اول اول منہ میں پانی آنا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر جب جلدگلے میں جلن اور منہ میں گرمی محسوس ہوتی ہے۔ تھوڑے دنوں کے بعد نزلہ اورگلے میں ریشہ گرنا شروع ہو جاتا ہےپھر سینہ اورمعدہ میں ہلکی ہلکی جلن شروع ہوجاتی ہے۔ مریض معالج کے چکر شروع کر دیتا ہے۔مگر مرض گھٹتا نہیں بلکہ روز بروز بڑھتا ہے۔ اس کے بعد پیشاب میں زیادتی، نفخِ شکم، البتہ پاخانے میں قبض بہت کم ہوتا ہے۔ نتیجہ ضعف جگر و گردے اور دل ڈوبنا شروع ہو جاتا ہے۔ آخر مریض کی موت (ہارٹ فیل) سے ہو جاتی ہے۔ سب سے بڑی خرابی بناسپتی گھی کے استعمال سے یہ شروع ہوتی ہے۔کہ مردوں میں منی کی پیدائش میں خرابی، جریان اور ضعفِ باہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اور اکثر پیدائش اولاد کی طاقت نطفہ میں نہیں رہتی اور عورتوں میں بہت جلد ماہواری میں خرابی اور خون میں کمی کے ساتھ ساتھ سیلان کی شدت پیدا ہوجاتی ہے۔اول تو ایسے میاں بیوی کی اولاد نہیں ہوتی یا بہت کم ہوتی ہے۔ اور جب ہوتی ہے تو اکثر لڑکیاں ہوتی ہیں۔ المختصر اس کے بہت زیادہ نقصانات ہیں۔
غذائی علاج کے اصول
1۔ علاج کے متعلق اہم بات یہ ہے کہ علاج غذا سے کیا گیا یا ادویہ یا کسی اور سے، تدبیر کو مدنظر رکھا جائے۔اس وقت تک علاج ممکن ہے جب تک خون کے اجزاء چاہے وہ اخلاط کو مدنظر رکھ کر مکمل کئے جائیں یا سائنس کے نظریہ کے مطابق جسم کے عناصر نہ صرف پورے ہوں گے بلکہ درست صورت میں ہوں ۔ کیونکہ یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ علاج صرف خون سے ہوتا ہے اور خون غذا سے بنتا ہےاور دوا و دیگر اشیاء تو صرف خون میں کیفیات پیدا کر کے نکل جاتی ہیں۔
2۔خون پیداکرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ خون میں جو خلط یا عنصر کم ہو اس کو پورا کرنے کے لئے انہی اغذیہ کا استعمال کیا جائے جن وہ عنصر یا خلط پائی جائےاور صحت کے لئے بھی یہی طریقہ علاج یقینی ہے۔بلکہ جوانی اور طاقت کے لئے بھی یہی طریق کامیاب ہے۔
3۔ خون پیدا کرنے کے لئے اغذیہ استعمال کرنے سے پہلے ضروری ہے۔ کہ پہلے پیٹ کا خمیرختم کرلیا جائے۔ کیونکہ خمیرکا خاصہ ہےکہ جب وہ کسی غذا سے ملتا ہے۔اس کو بھی خمیر کر دیتا ہے۔اس طرح غذا بجائے خون بننے کے ضائع ہو جاتی ہے۔
4۔ خمیر ختم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بھوک پیدا کی جائے بلکہ شدید بھوک پیدا کردی جائے۔کیونکہ شدید بھوک سے پتا چلتا ہے کہ جسم کو طلبِ غذا کااحساس ہورہاہےاور شدید بھوک کی حالت میں تین صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔1۔ معدہ غذاکو ہضم کرنے کے لئے نہ صرف خالی ہوتا ہےبلکہ آئندہ ہضم کے لئے تیار ہوتا ہے۔2۔ شدید بھوک میں غدد جاذبہ جسم کی فضول رطوبات کو جذب اور صاف کرکے پھر خون میں شامل کر دیتی ہیں۔3۔شدید بھوک میں جگر ، صفرا اور حرارت پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جس سے خون گرم ہو کرتما م جسم گرم ہو جاتا ہے کھانے کی لذت کا احساس ہوتا ہے۔ بس یہی خمیر کے ختم ہونے کی علامت ہے۔
5۔ شدید بھوک پیدا کرنے کے لئے مریض کو تاکید کریں کہ غذا وقت پراور شدید بھوک پر کھائے یعنی جب غذا کا مقررہ وقت ہو جائے تو اس وقت شدید بھوک کا ہونا ضروری ہے۔ اگر بھوک نہ ہوتو آئندہ وقت پر چھوڑ دیں اگر تھوڑی بھوک ہو تو اس کوپھل، چائے،شہد کا شربت شکنجبین دے سکتے ہیں۔یہ اس کی تسلی کے لئےبہت کافی ہے۔
6۔ تندرست انسان میں ایک غذا کے کھانے کے بعد دوسری غذا کھانے کاکم از کم چھ گھنٹے وقت ہونا چاہیے۔لیکن مریض کے لئے یہ وقت بڑھایا جاسکتا ہے اور شدید بھوک بہترین وقت ہے۔لیکن اگر چھ گھنٹے سے پہلے بھوک لگے تو سمجھ لیں کہ مریض میں کمزوری کا احساس ہو رہا ہے۔ایسے مریض کی غذا میں مکھن ااور گھی کا اضافہ کریں اور غذا کے وقت زیادہ سے زیادہ غذا دیں ۔یاد رکھیں کہ معدہ میں غذا تین گھنٹے میں مکمل طور پر ہضم ہوتی ہےپھر چھوٹی آنتوں میں غذا ہضم ہونے کے لئے پورے چار گھنٹے لیتی ہے۔ اس کے بعد بڑی آنتوں میں غذا ہضم ہونے کے لئے پورے پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔اس طرح تندرست انسان میں مکمل بارہ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔مگر مریضوں میں زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔بعض وقت مریضوں میں کئی کئی دنوں تک معدہ اور آنتوں میں متعفن اور خمیر بن کر پڑی رہتی ہے۔اس لئے خمیر اور تعفن کا ختم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ روزہ کم از کم بارہ گھنٹے کا ہوتا ہے۔ بعض وقت چودو اور سولہ گھنٹے کا بھی ہوتا ہے۔تا کہ جب تک خوراک ہضم ہو کرخون نہ بن جائے روزہ نہیں کھولنا چائیے یہی روزہ کی خوبی کا اسرارو راز ہے۔اس لئے جب روزہ نہ ہوتو روزہ کے نصف وقت غذا لینی چائیے جو کم از کم چھ ساڑھے چھ گھنٹے بنتے ہیں۔جو غذا کے لئے ضروری وقفہ ہے۔
7۔ شدید بھوک پرجسم ہلکا و گرم ہو کر اس میں لذت و مسرت کے جذبات ہو جاتے ہیں۔ نہ دل گھٹتا ہے اور نہ ہی بے چینی ہوتی ہے، جب پیٹ بوجھل ہوتو اس میں ریاح اور رطوبت اور بے چینی ہو غذا نہیں کھانی چائیے۔ ایسےلوگوں کو بھی دیکھا ہے کہ پیٹ میں درد اور پیٹ پھولا ہوا ہے مگر وہ غذا کھا رہے ہیں ایسا کرنا دانتوں سے قبر بنانا ہے۔ یاد رکھیں جب تک تکلیف رفع نہ ہو غذانہ دیں ، البتہ کمزوری کا شدید احساس ہو تو قہوہ ، پھلوں کا جوس اور رقیق شوربہ دے سکتے ہیں ان کے علادہ ضرورت کے مطابق سبزیوں کا شوربہ ، انڈوں کی سفیدی، میٹھایا نمکین پانی ، شہد کا شربت بھی دے سکتے ہیں۔قہوہ میں لیموں نچوڑ کر دینا بھی بے حد مقوی شے ہے۔
8۔غذا ہمیشہ تازہ ہونی چائیے بلکہ اس میں اس کی تازگی کی خوشبو ہونی چائیے اس کو قرآن حکیم طیب غذا کہتے ہیں ۔ جس غذا میں بو یا ہیک ہو ایسی غذائیں ہر گز نہیں کھانی چاہئیں۔کیونکہ پیٹ میں جا کر فوراً خمیر یا زہر میں تبدیل ہو کر باعثِ مرض اور نقصان دہ ہوتی ہیں۔
9۔ غذا طیب (خوشبودار) ہونے کے ساتھ ساتھ حلال بھی ہونی چائیے۔یعنی جن اغذیہ کواسلام نے حلال لکھا ہے جن میں مردہ جانوروں ، خون، سؤر کا گوشت، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے نام پر دی گئی غذا یا بغیر تکبیر کے مردہ جانور اور رشوت وغیرہ ۔ یہ اغذیہ جسم میں فساد و تعفن اور خمیر پیدا کردیتے ہیں جن کا نتیجہ خوفناک امراض میں ظاہر ہوتا ہے۔
10۔ غذا میں شراب یا دیگر منشیات کا اثرنہیں ہونا چائیے۔ شراب غذا میں بہت جلد خمیر پیدا کردیتی ہے۔ جس سے غذا میں تعفن پید ا ہو کرجسم میں فساد کا نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ دیگر منشیات قلب و عضلات کے افعال کو کمزور کر دیتے ہیں جس سے غذا کا ہضم خراب ہو جاتا ہے پھر رفتہ رفتہ جسم میں اس کا زہر پیدا ہوتا ہے۔جس سے ذہن بگڑ جاتا ہے۔
ترتیبِ غذا باقانونِ مفرد اعضاء
علاج بالغزا کی ماہیت و حقیقت پر ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ اس میں یقینی کامیابی کے لئے مفرداعضاء (انسجہ) کی تشریح و منافع۔ اغذیہ کے افعال و اثرات اور قانونِ مفرداعضاء کی تفصیل وغیرہ اس انداز سے لکھ دی ہیں کہ ایک پڑھا لکھا سمجھ دار انسان اس کو پورے طور پر سمجھ کر فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ اب ذیل میں ہم نے ہر مفردعضو کے تحت اغذیہ کو اس طرح ترتیب دے دیا ہے کہ ایک نگاہ سے فوراً مخصوص اغذیہ سامنے آجائیں اور علاج میں زیادہ آسانیاں پیداہوجائیں یہ مفرد اغذیہ اور مرکب اغذیہ ان کے تحت سمجھی جاسکتی ہیں۔اسی طرح اغذیہ کیفیاتی درجات اور ان کےمحرکات ، ملین اور مسہل کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
جاننا چائیے کہ ہر مفرد عضو(نسیج) دو کیفیات رکھتا ہے۔ اس لئے ہر کیفیت کو الگ الگ بیان کر دیا گیا ہے۔ تا کہ یہ مشکل بھی دور ہو جائے چونکہ دورانِ خون کا دور دل سے شروع ہوتا ہے۔اس لئے ہم بھی عضلات سے شروع کرتے ہیں۔ پھر غدی اور آخر میں اعصابی بیان کریں گے۔ آپ ان چھ صورتوں کو جسم کے چھ حصوں کی تقسیم و چھ ذائقوں اور چھ نفسیاتی اثرات سے تطبیق دے سکتے ہیں۔ چونکہ قارورہ کے رنگوں کی بھی چھ صورتیں پیدا ہوتی ہیں اس لئے تشخیص میں بھی آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔غور و تحقیق کرنا شرط ہے۔
غذائے دل
دل کی بناوٹ عضلاتی ہے اور اس کا صحیح مزاج اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خون کا مزاج گرم تر ہوتا ہے۔ لیکن مرض کی حالت میں کبھی اس کے مزاج میں تری و سردی اور کبھی خشکی و گرمی پیداہوجاتی ہے۔
1۔ عضلاتی اعصابی (سرد خشک)
جب انسانی مزاج میں سردی کے ساتھ خشکی پیدا ہو جائے تو اس وقت اس کا تعلق اعصاب کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ صور ت عضلاتی اعصابی(سردی خشکی ) ہوتی ہے۔ کیفیت خشک سرداور خلط سودا کی پیدائش بڑھ جاتی ہے اور جب جسم میں اعصابی عضلاتی حالت ہو اور مزاج میں سردی تری ہو تو یہ حالت پیدا کرنا پڑتی ہے۔ جس کے لئے ذیل کی اغذیہ دینی چاہئیں۔
حیوانی اغذیہ:
بھینس کا گوشت، مچھلی، سری پائے، دہی، زیادہ ترش لسی۔
میوہ جات:
ناریل، مونگ پھلی، کھاجا۔
پھل:
سیب، جامن، فالسہ، لیچی، مالٹا، رس بھری، آڑوترش، انناس، بیر، سنگترہ اور آلوچہ۔
اناج اور دالیں:
مکی، باجرہ، جوار اور لوبیا۔
سبزیاں:
آلو، مٹر، بینگن، گوبھی، املی اور ہر ترشی۔
2۔عضلاتی غدی(خشک گرم)
جب دل کے مزاج میں خشکی کے ساتھ گرمی ہو جائے تو اس وقت اس کا تعلق جگر کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ یہ صورت عضلاتی غدی( خشک گرم) ہوتی ہے ۔ کیفیت خشک گرم اور مزاج میں صفرا کی پیدائش شروع ہو جاتی ہے۔ اس حالت کے لئے ذیل کی اغذیہ دینی چاہئیں۔
حیوانی اغذیہ:
ہرن، کبوتر اور گائے کا گوشت۔
میوہ جات:
اخروٹ، پستہ۔
پھل:
خشک کھجور، کشمش، منقیٰ، انجیر، شیریں آڑو۔
اناج اور دالیں:
چنا، مسور۔
سبزیاں:
کریلے، پالک، ٹماٹر، کچنال، پیاز، سرسوں کا ساگ۔
غذائے جگر
جگر کی بناوٹ غدی ہے اور قشری نسیج کا بنا ہوا ہے۔ اس کا مزاج گرم خشک ہے اور اس کی تحریک سے غذاکی حالت بڑھ جاتی ہے ۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔
3۔غدی عضلاتی(گرم خشک)
جب جگر کے مزاج میں خشکی کے ساتھ گرمی کی تیزی ہو جاتی ہےتو اس وقت صفرا کی زیادتی ہو جاتی ہے۔ چونکہ عضلات(دل) کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اس لئے صفرا کی پیدائش کے ساتھ اس کا اخراج بند ہوتا ہے۔ یہ صورت غدی عضلاتی(گرم خشک) کہلاتی ہے۔ کیفیت گرم خشک، رنگت میں زردی سرخی پیدا ہوجاتی ہے۔ جب جسم میں عضلاتی غدی حالت ہوتو یہ حالت پیدا کی جاتی ہے۔جس کے لے ذیل کی اغذیہ دینی چاہئیں۔
حیوانی اغذیہ:
تیتر، مرغی اور بکری کا گوشت،انڈے۔
میوہ جات:
چلغوزہ۔
پھل:
آم شیریں، کھجور، شیریں خوبانی، آلوبالو، شہتوت۔
اناج اور دالیں:
چنے۔
سبزیاں:
میتھی کا ساگ، ادرک ،سرخ مرچ، لہسن، پیاز۔
4۔ غدی اعصابی(گرم تر)
جب جگر کے مزاج میں گرمی کے ساتھ تری ہوجاتی ہے۔ تو اس وقت صفرا کے ساتھ اس میں رقت پیدا ہوجاتی ہے۔ چونکہ اس کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے ۔ اس لئے صفرا کی پیدائش کے ساتھ اس کا اخراج بھی شروع ہوجاتا ہے ۔ اس صورت کا نام غدی اعصابی (گرم تر) ہے۔ کیفیت گرم تر رنگت میں خالص زردی آجاتی ہے۔ جب جسم میں غدی عضلاتی حالت ہوتو یہ صورت پیدا کی جاتی ہے۔ اس کے لئے ذیل کی اغذیہ دینی چاہئیں۔
حیوانی اغذیہ:
تیتر، بٹیر، مرغابی اوربطخ کا گوشت، بکری کادودھ اور انڈے۔
میوہ جات:
بادام۔
پھل:
خربوزہ، میٹھا، تازہ شیریں انگور۔
اناج اور دالیں:
گہیوں، مونگ۔
سبزیاں:
ٹینڈے، بھنڈی۔
غذائے دماغ
دماغ کی بناوٹ اعصابی ہے۔ یہ اعصابی نسیج کابنا ہوا ہے اور اس کامزاج تر ہے ۔ اس میں تحریک ہونے سے جسم میں رطوبت اور بلغم کی پیدائش بڑھ جاتی ہے۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔
5۔ اعصابی غدی(ترگرم)
جب دماغ و اعصاب میں تری کے ساتھ گرمی ہوتی ہے تو جسم میں رطوبات و بلغم کی پیدائش بڑھ جاتی ہے۔ چونکہ ان کا تعلق جگر کے ساتھ ہوتا ہے۔اس لئے اس میں حرارت شریک ہوتی ہےاور بلغم کااخراج بند ہوتا ہے۔اس صورت کا نام اعصابی غدی ہے۔کیفیت ترگرم، رنگت سفیدی زردی مائل ہو جاتی ہے۔جب جسم میں غدی اعصابی حالت ہوتو اس وقت یہ صورت اور مزاج پیدا کیا جاسکتا ہے۔اس کے لئے ذیل کی اغذیہ دینی چاہئیں۔
حیوانی اغذیہ:
گائے کا دودھ۔
میوہ جات:
کوئی نہیں۔
پھل:
ناشپاتی، شیریں کیلا،، آلوبخارا، امرود زرد رنگ۔
اناج اور دالیں:
ماش کی دال، ساگودانہ۔
سبزیاں:
مولی، گاجر، کدو، توری، اروی، حلوہ کدو۔
6۔اعصابی عضلاتی(سردتر)
جب دماغ و اعصاب میں تری کے ساتھ سردی ہوتی ہے تو جسم میں رطوبات و بلغم کی پیدائش کے بڑھ جانے کے بعد اس کا اخراج بھی شروع ہو جاتا ہے۔ چونکہ دماغ(اعصاب)کا تعلق دل(عضلات) کے ساتھ ہوجاتا ہے اس لئے اس صورت کانام اعصابی عضلاتی ہے۔ کیفیت سردتر، رنگت سفید سرخی مائل ہوتی ہے۔ جب جسم میں اعصابی غدی حالت ہو تو اس وقت اس صورت اور حالت کو پیدا کرنا پڑتا ہے۔
اس کے لئے ذیل کی اغذیہ دینی چاہئیں۔
حیوانی اغذیہ:
مچھلی سری پائے اور دماغ بغیر نمک مرچ ، بھینس اورگدھی کا دودھ، انڈے کی زردی۔
میوہ جات:
کوئی نہیں۔
پھل:
انار شیریں، تربوز، امرود سرخ رنگ۔
اناج اور دالیں:
چاول۔
سبزیاں:
کھیرا، ککڑی ، شلغم، چقندر۔
نوٹ:
جواغذیہ رہ گئیں ہیں ان کو قانونِ مفرد اعضاء کے تحت یاتعلق اور مشابہت سے درجہ بندی کر سکتے ہیں۔
مرکب غذائیں
مرکب غذائیں انہیں مفرداعضاء سےے تیار ہوتی ہیں۔ لیکن مرکب کرنے میں اس اصول کومدنظر رکھنا ضروری ہے کہ وہ حیوانی اغذیہ ہوں یا پھل و میوہ جات ہوں یا اناج و دالیں اور سبزیاں ہوں وہ کسی ایک ہی صورت سے لی جائیں یا زیادہ سے زیادہ ایک ہی مفرد عضو کی دونوں صورتوں کو اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ا یک عضوکی اغذیہ کو دوسرے عضو کی اغذیہ کے ساتھ اکٹھا کرنا درست نہیں ہے۔ اس طرح اغذیہ کی کیفیات اور مزہ بدل جاتے ہیں۔اس طرح ان کے یقینی فوائد اور خواص سے انسان محروم رہ جاتا ہے۔صحت اور مرض دونوں حالتوں میں یہی اصول مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ البتہ غذا کو صبح و دوپہر اور رات میں تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تینوں اوقات میں ایک ہی مفرد یا مرکب غذا دی جاسکتی ہے یا کسی وقت حیوانی غذا، کسی وقت پھل و میوہ جات اور کسی وقت اناج ودالیں اور سبزیاں دے سکتے ہیں اور یہی بہتر طریقہ ہے۔
غذا کیسے پکانی چائیے
جو غذا بھی پکائی جائے خوب گلا لی جائے یہاں تک کہ وہ ہاتھ لگانے سے ٹوٹ جائے، یعنی آٹے کی مانند ہوجائے۔ وٹامن کے جل جانے کا خیال رکھنا درست نہیں۔ کیونکہ جو غذا گل کر لطیف نہیں ہوتی وہ جسم میں جلد ہضم ہو کر جزو بدن نہیں بنتی۔ دوسرے معدہ وامعاء اغذیہ کو اسے ہضم کرنے کےلئے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے اور روز روز کی محنت ان کو بیمار اور کمزور کر دیتی ہے۔ یاد رکھیں جو غذا ہضم نہیں ہوتی وہ خون نہیں بنتی اور خمیر بن کر فساد اور تعفن کا باعث بنتی ہے۔ جہاں تک حیاتین کا تعلق ہےوہ پھلوں اور میوہ جات اور دودھ انڈوں سے بہت زیادہ حاصل ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی غذا کے حیاتین (وٹامن) ضرور حاصل بھی کرنے ہوں تو اس غذا کا جوشاندہ اور خیساندہ تیار کرکے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
لطیف اور کثیف اغذیہ
غذا میں لطافت اور کثافت کا انتخاب بھوک کی شدت کے تحت کرنا چائیے۔ اگر بھوک میں شدت ہو تو تحریک کے مطابق جیسی غذا مریض یا کسی تندرست شخص کو پسند ہولے سکتا ہے۔لیکن اگر بھوک بند ہویا مریض میں سوزش و ورم اوار درد بخار وغیرہ ہو تو غذا اتنی لطیف ہو کہ مریض یا تندرست کی بھوک بھڑک اٹھے۔ جیسے شہدکا نیم گرم شربت، قہوہ، لطیف و رقیق شوربہ، پھل یا پھلوں کے رس، چائے دودھ والی یا مکھن والی یا چائے میں گھی ڈال کر، چنے کا شوربہ، سبزیوں کا شوربہ، گوشت کا شوربہ، انڈوں کا شوربہ ، نیم گرم پانی، ہلکے نمک کا نیم گرم پانی، مچھلی کا شوربہ، سری پائے کا شوربہ، دال کا شوربہ، میوہ جات کے شیرا جات، حریرہ وغیرہ۔
کھانے میں لذت
جس کھانے میں لذت نہ ہو اس کو کھانا نہیں چائیے۔ کیونکہ جو کھانا پسند نہیں ہوتا، طبع اس کو ہضم نہیں کرتی۔
تھکن اور کھانا
تھکن کی حالت میں کھانا نہیں کھانا چائیے۔ کیونکہ تھکن کی حالت میں دورانِ خون باقاعدہ نہیں ہوتا۔ اس وقت یہی بہتر ہوتا ہے کہ آرام کیا جائے جب تھکن اتر جائے اور دل ہشاش بشاش ہوتو اس وقت کھانا کھانا بہتر ہوتا ہے۔
علاج بالغزا
اس ضمن میں مندرجہ ذیل امور کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔
1۔جو غذا ہضم نہیں ہوتی وہ جسم پر بوجھ ہے۔ مزید غذا کھا کراس بوجھ میں اضافہ نہیں کرناچاہیے۔ اس وقت تک ہر قسم کی غذا خصوصاً نباتاتی اغذیہ روک دینی چاہئیں جب تک جسم میں ہلکا پن نہ ہو۔ یاد رکھیں جوغذا کھائی جاتی ہے اگر وہ ہضم ہو جائے تو خون بن جاتی ہے اوراگر وہ ہضم نہ ہوتو خمیر بن جاتی ہے۔ اس کا تعفن و تیزابیت اور زہر بوجھ کا باعث ہوکر مرض بن جاتے ہیں۔
2۔ علاج کے دوران علامات کو رفع کرنے کی کوشش نہ کریں۔کیونکہ اکثر انہی علامات کے تحت قوتِ مدبرہ بدن خود صحت کی طرف جا رہی ہوتی ہے۔اس کی مدد کرنا چاہیے، جلد شفا حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اگر علامات شدید ہوں تو ان کو رفع کرنا افضل ہے مگر مسکن عضو کو تحریک دینا ضروری ہے۔
3۔ علاج کے دوران سوزش و ورم، درد و بخارکی صورت میں ان کو رفع کرنے کی صورت میں مریض کمزور ہوجاتا ہے۔اس طرح مرض کا مقابلہ ختم ہوجاتا ہے۔کیونکہ درد اس امر کی علامت ہے کہ جائے درد میں خون کی کمی ہےاور طبیعت اس کو اس طرف کھینچنے کی کوشش کررہی ہے۔ سوزش و ورم میں خون اس طرف زیادہ جا رہاہے۔ بخار حرارتِ غریبہ کا نام ہے جس جسم کی حفاظت کے لئے تعفن اور دورانِ خون کی بے قاعدگی سے پیدا ہوگئی ہے۔یہ سب خود بخودامراض کی فطری طور پر رفع کرنا، قوت کا بحال رکھنا اور مقابلہ کرنے کی صورتیں ہیں۔ جب مرض رفع ہو جائے گا تو یہ سب علامات خود بخود رفع ہوجائیں گی ان کو فوراً ختم کرکے موت کو دعوت نہ دیں۔ ماڈرن طب میں یہی سب سے بڑی غلطی ہے۔
4۔ علاج کے دوران بغیر شدیدبھوک اور صحیح وقت کے غذا نہ دینی چاہیے۔ لیکن اگر ضعف پیدا ہوگیا ہے تو بغر بھوک اور بغیر وقت غذادینا ضروری ہے۔ جب ضعف دور ہو جائے تو پھر غذا کو قابو کر لینا چاہیے لیکن ضعف کی حالت میں بھی مرض سے مناسب اور صحیح غذا دینی چاہیے۔
5۔ تشخیصِ مرض کے لئے علامات کو اکٹھا کرکے سب کا ایک ہی سبب تلاش کریں پھر مرض کی ماہیت اور حقیقت ذہن نشین کرلیں۔
علاج بالغزا کی صورت میں ستہ ضروریہ کے ساتھ مریض کے مزاج و عادات اور ماحول کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہےاگر ایسا نہ کیا جائے تو مریض کی طبیعت مفید سے مفید غذا کو قبول کرنے کے لئے تیارنہیں ہوتی ، بلکہ نفرت کرتی ہے۔
7۔ اگر معدہ اور طبیعت غذاکا بوجھ قبول نہ کریں۔ محلول غذا تھوڑی تھوڑی مقدار میں دیں۔ جیسے شہد کا شربت، پھلوں کا رس، انڈوں کی سفیدی ، گوشت یا سبزیوں کا ہلکا شوربہ یا صرف نمک کا پانی استعمال کرنا مفید ہوتا ہے۔
8۔ غذائی علاج سے فوراً شفا حاصل ہوتی ہے۔ اگر تسلی بخش آرام حاصل نہ ہوتو پھر اپنی تشخیص مرض اور تجویزِ غذا پر غور کریں، ممکن ہے کہیں غلطی ہو گئی ہو۔ یاد رکھیں کہ بغیر تسلی بخش تشخیص ، مرض اور تجویزِ غذا کے ہرگز علاج شروع نہ کریں۔
9۔ علاج کے لئے اغذیہ پاک و صاف اور خالص و تازہ ہونی چاہئیں۔ غذا کاباسی پن اس کو خراب کردیتا ہے۔
10۔ جب تک کوئی مریض علاج کے لئے شدت سے خواہش مندنہ ہواس وقت تک اس کے لئے تشخیصِ مرض اور دوا تجویز نہ کریں۔ بعض معالج خواہ مخواہ امراء اور رؤسا پر اثر ڈالنے یا تعلقات پیدا کرنے کے لئے ایساکرتے ہیں۔ اس سے علم و فن ِ طب کو نقصان پہنچتا ہے۔ بلکہ غرباء اور عوام کا علاج بھی ان کے شدید اصرار کے بغیر نہ کریں کیونکہ بغیر ضرورت، علاج کا کوئی پابند نہیں ہوتا۔جو غیر مفید ہے۔
11۔ حکمت و دانائی ، اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ کوئی تجارت اور دکانداری نہیں ہے۔ حکیم کو کبھی لالچ کے تحت علاج نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو کسی مریض خصوصاً امیرورؤسا اور دولت مندو حاکم کے گھر جا کراس کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ صرف مطب علاج کے لئے بہتر جگہ ہے۔
12۔ معالج کے اخلاق اور عادات میں عظمت ہونی چاہیے۔ تقویٰ و توکل ، صبروقناعت اور خدمت وعزت کرنا اس کا زیور ہے۔اگر معالج ان زیورات سے آراستہ ہے تو نہ ہو تو وہ کندہ ناتراش ہے۔ بعض مریض مرنا قبول کر لیتے ہیں مگر ایسے معالج کے پاس تک جانا پسند نہیں کرتےر۔
13۔ معالج کے اخلاق اور عادات کے ساتھ اس کی صحت بھی اچھی ہونی چاہیے۔ اس کی خراب صحت کا مریض پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔
14۔ جب غذا سے مریض صحت کی طرف لوٹ آئے تو ضرورت کے مطابق مفید و مقوی اغذیہ و ادویہ کا استعما ل کیا جا سکتا ہے۔ جن سے اعضاء کے افعال میں زیادہ سے زیادہ تقویت پیداکرکے ان کے خون میں طاقت پیدا کی جاسکتی ہے۔
15۔ یاد رکھیں ادویات خون کے اجزاء نہیں ہیں۔ ان سے صرف اعضاء کے افعال میں تیزی و تسکین اور تقویت پیدا کی جاسکتی ہے۔ مکمل علاج صرف غذا سے ہی ہو سکتا ہے۔
خواص الاشیاء
حقیقتِ افعال و اثرات اشیاء
ادویہ جو جسم پر اثرانداز ہوتی ہیں اور یہ ادویہ بیرونی طور پراستعمال کی جائیں یا اندرونی طورپر استعمال کی جائیں یا اندرونی طور پر کھلائی جائیں یا کسی اور طریق پر داخل کی جائیں اس کا مقصد اس حقیقت کو جاننا ہوتا ہے کہ یہ ادویہ جسم میں اپنا کیا فعل و تغیر اور استحار ظاہر کرتی ہیں یا ان کے استعمال سے جسم کے اعضاء کے افعال میں کیا کمی یا بیشی یا ضعف و طاقت ظاہر ہوتی ہے۔ اس علم و حقیقت کا ایک یہ مقصد بھی ہے کہ ان ادویہ کے افعال و اثرات کسی ایک عضو میں کیا ہیں اور تمام جسم میں کیا تغیر اور استحالہ ظاہر ہوتا ہے۔ بس یہی ادویات کے افعال و اثرات کا حقیقی مقصد ہے۔
غلط فہمی
اکثرعوام میں افعال و اثراتِ ادویہ کا یہ مقصد لیا جاتا ہے کہ ان کے خواص و فوائد کیا ہیں یعنی وہ کن امراض و علامات کے لئے مفید ہیں۔ اس لئے اکثر کتب میں خواص الادویہ اسی طرح لکھے ہیں کہ وہ کن کن امراض اور علامات میں مفید ہیں بلکہ بعض عظیم حکماء اور اطباء نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ فلاں دوا فلاں مرض کے لئے بالخاصہ مفید ہے۔ اسی طرح بعض ادویہ کو بعض امراض اور علامات کے لئے اکسیر و تریاق لکھ دیا ہے لیکن یاد رکھیں کہ اثرات و افعال ادویہ کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے اور یہ طریق غلط ہے بلکہ ان کا مقصد اول یہ ہے کہ ان کے استعمال سے جسم اور اعضاء میں کیا کیا افعال و اثرات ِ اور تغیرات ظاہر ہوتے ہیں جن کے تحت ایک قابل معالج ان امراض و علامات کو اعتدال پر لانے کےلئے استعمال کرتا ہے۔ البتہ مخصوص علامات اعضاء اور حالات جسم کے لئے بعض ادویات کو ان کا علاج کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ہر مفردیا مرکب دوا کو کسی مرض و علامات کے لئے مفید لکھنا غلط فہمی ہے۔ کیونکہ ہر مرض و علامت ہمیشہ ایک ہی خلط اور کیفیت کے تحت نہیں ہوتی بلکہ ہر دوا اپنے کیمیائی اور مشینی اثرات کے زیرِ اثر ہوتی ہے اس لئے خواص اور علم الادویہ میں ان کے اثرات و افعال اور تغیرات کیمیائی اور مشینی طورپر حاصل کئے جاتے ہیں۔ یہی صحیح علم و فن ادویہ ہے۔
طریقِ اثرات وافعال ادویہ
جاننا چاہیے کہ افعال واثرات ادویہ حاصل کرنے کے لئے تین صورتیں ہیں۔اول۔ ادویہ کے وہ اثرات وافعال اور تغیرات جو اعضائے جسم خصوصاً مفرد اعضاء پر ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ دوا کے مشینی (Mechanical)اثرات وافعال اور تغیرات ہیں۔دوم۔ادویہ کے اثرات و افعال اور تغیرات جو اخلاط و کیفیات میں پیدا ہوجائیں۔ یہ دوا کے کیمیائی (Chemical)افعال واثرات اور تغیرات ہیں ۔سوم۔ ادویہ کے وہ اثرات وافعال اور تغیرات جو پورے جسم پر بیک وقت ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ دوا کے طبعی (Physical)افعال و اثرات اور تغیرات ہیں ۔ان تینوں صورتوں سے ہم امراض و علامات کو دور کرنے کے لئے مفید حالات پیداکرسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا طریقِ کار ہے جس سے معالج ہر مفرد عضواور مرکب دوا پر پورے طورپر دسترس حاصل کر سکتا ہے۔ ہم بھی خواص الادویہ کو بالکل انہی صورتوں میں پیش کریں گے۔ اس طرح حاصل کردہ ادویہ کے خواص میں تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس طرح ہر معالج صحیح طریق پر نسخہ نویسی اور ترتیب ادویہ کے بعد مرکبات اور مجربات تیار کرسکتا ہے۔
اثرات و افعال بالاعضاء
جاننا چاہیے کہ جب کوئی غذا یا دوا یا شے استعمال کی جاتی ہے تو اس کا اثر کسی نہ کسی عضو پرہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ جذب ہوکر خون میں شامل ہوجاتی ہے۔ ظاہر میں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ غذا و دوا اور شے منہ میں اثر کرنے کے بعد معدہ میں اثرانداز ہوتی ہے لیکن یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کیونکہ معدہ کو ایک مفرد عضو خیال کیا جاتا ہے۔ حقیقت میں معدہ مفرد عضو نہیں ہے بلکہ ایک مرکب عضو ہے اور وہ کئی مفرد اعضاء سے مرکب ہے۔یعنی اس میں اعصاب ، عضلات اور غشائے مخاطی اور غدد بھی شامل ہیں۔ جب کوئی غذاودوایا اور شے کھائی جاتی ہے تو وہ انہی مفرداعضاء میں سے کسی ایک پر اثرانداز ہوتی ہے۔ تمام مفرداعضاء پر بیک وقت اثرانداز نہیں ہوتی۔ اس امر کی دلیل یہ ہے کہ جس مفردعضو پر دوااثر انداز ہوتی ہے اسی مفردعضو کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ مثلاً جب کوئی غذا و دوا اور شے اعصاب پر اثرانداز ہوتی ہے تو معدہ اور باقی جسم میں اعصاب کی علامات نمودار ہوجاتی ہیں یعنی فوراً ہی منہ ومعدہ اور دیگر اعضاء بلکہ تمام جسم میں رطوبات اور بلغم کی پیدائش شروع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جب وہ عضلات پر اثرانداز ہوتی ہے تو منہ و معدہ اور باقی جسم میں عضلات کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں یعنی فوراً ہی منہ و معدہ اور دیگر اعضاء بلکہ تمام جسم میں خشکی اور ریاح کی پیدائش شروع ہوجاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جب وہ غشائے مخاطی اور غدد پر اثرانداز ہوتی ہے تو منہ و معدہ اور باقی جسم میں ان کی علامات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ یعنی فوراً ہی منہ و معدہ اور دیگر اعضاء بلکہ تمام جسم میں حرارت اور سوزش کے اثرات شروع ہوجاتے ہیں۔ اس طرح افعال و اثرات کی ابتدا ہوتی ہے۔
جب دوا معدہ سے جذب ہو کر خون میں پہنچتی ہے تو وہ خون کے دوران کے ساتھ ساتھ انہی مفرداعضاء پر عمل کرتی جاتی ہے۔ پھر آخر میں اس کا اثر تمام جسم پر ایک خاص حالت اور علامات کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے اور آخر میں انہی مفرداعضاء کے خاص مخرج سے باہر خارج ہوجاتی ہے۔ اس طرح ان کے پورے اثرات و افعال اور تغیرات نمودار ہوجاتے ہیں ۔
مفرداعضاء
جاننا چاہیے کہ جسم انسانی اعضاء سے مرکب ہے اور تمام اعضاء مفرداعضاء سے مرکب ہیں۔ مفرداعضاء میں اعصاب، عضلات اور غدد و غشاء، ہڈی و کری اور وتر و رباط شامل ہیں۔ آج ماڈرن میڈیکل سائنس نے بھی ثابت کردیا ہےکہ واقعی یہ سب مفرداعضاء ہیں۔ وہ ان مفرداعضاء کو انسجہ(Tissues)کا نام دیتی ہے۔اور یہ انسجہ خلیات(Cell)سے مرکب ہیں۔ ہر خلیہ ایک حیوانی ذرہ ہے اور اس میں زندگی کے تمام لوازمات پائے جاتے ہیں۔ ان کی مرکب ساخت وبافت سے انسجہ تیار ہوتے ہیں۔ماڈرن میڈیکل سائنس نے ثابت کیا ہے کہ یہ ٹشوز چار اقسام کے ہوتے ہیں ان میں تین حیاتی ہیں اور وہ اعضائے رئیسہ تیار کرتے ہیں۔1۔ اعصابی انسجہ(Nerves Tissues)جن کا مرکز دماغ ہے۔2۔ عضلاتی انسجہ(Muscular Tissues )جن کامرکز دل ہے۔3۔ غدی وقشری انسجہ(Epithelial Tissues)جن کا مرکز جگر ہے۔4۔الحاقی انسجہ(Connective Tissues)ان سے انسان کا بنیادی ڈھانچہ تیار ہوتا ہے۔جس میں ہڈی، کری اور رباط و وتر اور تمام جسم کی بھرتی تیار ہوتی ہے۔ ہم نے یہ حقیقت ثابت کردی ہے کہ یہ انسجہ اخلاط کے ابتدائی اعضاء کی صورت ہے۔ ان میں اور اخلاط میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہرغذا و شےاور دواکااثر پہلے انہی پر ہوتا ہے۔پھر اخلاط میں شامل ہو جاتا ہے اور پھر تمام جسم پر ظاہر ہوتا ہے۔
مفرداعضاء دراصل مجسم اخلاط ہیں
یہ حقیقت مسلمہ ہےکہ مفرداعضاء کی پیدائش اخلاط کے معاً بعد ترکیب پانے سے ہوتی ہے۔ان میں اور اخلاط میں صرف اس قدر فرق ہےکہ مفرداعضاء مجسم ہیں اور اخلاط محلول ہیں۔ گویا مفرداعضاء دراصل مجسم اخلاط ہیں ۔ طب یونانی اخلاط کو چار تسلیم کرتی ہے اور ہر ایک کی دو کیفیات ہیں۔ دو کیفیات کے ماتحت ہے ۔ گویا اخلاط و مفرداعضاء ایک ہی کیفیات اور ایک ہی مزاج کے تحت غذا سے پیدا ہوتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔
مفرداعضاء چار ہیں
فرنگی طب اور ماڈرن سائنس تسلیم کرتی ہےکہ مفرداعضاء (Tissues)چار اقسام کے ہیں اور طب یونانی بھی چاار اخلاط تسلیم کرتی ہے اور کیفیات و مزاج بھی چار چار اقسام کے مفرداعضاء کی پیدائش ہوتی ہے۔ اگر چاروں اخلاط فرنگی طب کے صرف ایک خون ہی ہوتے تو اس سے چار اقسام کے مفرداعضاء نہ بنتے صرف ایک ہی قسم کے مفرداعضاء پیدا ہوتے ہیں۔ فرنگی طب ہمیشہ اپنی تحقیقات سے اپنی غلطیوں کا شکار ہوتی ہے۔ حقیقت کی تلاش کا اس کے پاس کوئی معیار نہیں ہے۔
دوا کا اثر اور مفرداعضاء
جب بھی کوئی غذاو دوا یا شے کھائی جاتی ہے یا کسی طریق پر جسم انسان میں داخل کی جاتی ہے تو وہ کسی نہ کسی مفردعضو کو ہی متاثر کرتی ہے۔ اس کے بعد اخلاط میں شریک ہوتی ہے۔ پھر اس کے اثرات وافعال تمام جسم پر نمایاں ہوتے ہیں۔ چونکہ مفرداعضاء چار اقسام کے ہیں جو چار مختلف اخلاط سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے چار مختلف مزاج اور چار کیفیات ہیں۔ اس لئے جس مزاج وکیفیت کی دوا ہوتی ہے اسی مفردعضو کو متاثر کرکے وہی کیمیائی اثرات اخلاط میں پیدا کر دیتی ہے۔ پھر وہی افعال تمام جسم پر نمایاں ہوتے ہیں اور یہی سلسلہ ایک خاص وقت تک قائم رہتا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہرغذاودوا اور شے کے بعد جسم پر کسی خاص خلط کا غلبہ اور مزاج و کیفیت کا اثر نمایاں رہتا ہے اگر غور سے دیکھا جائے تو یہی اثر کیمیائی طورپر اخلاط میں پایا جائے گا۔ اوریہی افعال کسی ایک مفرد عضومیں سر سے پاؤں تک پائے جائیں گے۔ ثابت ہوا کہ چونکہ مفرداعضاء چار ہیں۔اس لئے ہر دوا و غذا اور شے کے اثرات بھی چار ہی اقسام کے ہیں۔ البتہ جیسی قوت و شدت کی وہ ہوگی اسی قوت و شدت کااظہار ہوگالیکن یہ یاد رکھیں کہ ایک وقت میں صرف ایک خلط کا غلبہ ہوگااور ایک ہی مفردعضو میں تحریک ہوگی۔البتہ جب تحریک کسی دوسرے عضو میں بدل جائے یا پیدا کردی جائےتو اخلاط میں بھی کیمیائی طورپر اسی قسم کی تبدیلی پیدا ہو جائے گی اور جسم پر بھی وہی افعال ظاہر ہوتے جائیں گے۔اسی طرح مفرداعضاء کی تحریک اور اخلاط میں تبدیلی کے اثرات و افعال نمایاں طورپرنظرآتے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں ہوگا کہ دونوں مفرداعضاء یا دواخلاط کا بیک وقت اثرہویا جسم میں بیک وقت دو مزاج و اخلاط اور مفرداعضاء میں تبدیلی ہمیشہ کیفیات کے ذریعے ہی پیدا ہو کرتی ہے کیونکہ انہی کیفیات کااثر مزاج و اخلاط اور اعضاء پر یکساں کا م کرتا ہے۔
مفرداعضاء کا پھیلاؤ
مفرداعضاء چاروں ہی سر سے پاؤں تک اس طرح پھیلے ہوئے ہیں کہ ان کی بافتیں و ساختیں اور ریشے ایک دوسرے میں مل کر مرکب اعضاء بن گئے ہیں۔ جیسے مختلف اقسام اور رنگوں کے دھاگے مل کر ایک خاص قسم کا کپڑا بنا دیتے ہیں۔انہی مرکب اعضاء سے جسم انسان سے بنا ہوا ہے۔جس کے ہر مقام پر کوئی نہ کوئی مفردعضو ضرور ہے۔البتہ کسی حصہ میں کسی ایک مفردعضوکا غلبہ پایا جاتا ہے اور کسی دوسرے حصہ میں کسی دوسرے مفردعضو کا غلبہ ہوتا ہے۔یہی صورتحال چاروں مفرداعضاء کی ہے جہاں پر ان چاروں مفراعضاء کے مرکب ہیں۔ وہاں پر خالص انہی انسجہ سے اعضاء بن گئے ہیں جیسے دل و دماغ اور جگر وطحال وغیرہ۔ البتہ ان کے اندر اور گردا گرد دیگر مفرداعضاء کے ریشوں کی بافتیں اور ساختیں ضرور پائی جاتی ہیں تاکہ ان کا آپس میں تعلق قائم رہےجن سے ایک دوسرے کے اندر تحریکات و دورانِ خون اور رطوبات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جیسے کسی مشین کے پرزے ایک دوسرے میں فٹ ہو کر ایک دوسرے پرزے کو چلاتے رہتے ہیں اور ان میں تیل و پٹرول اور بجلی کا اثر قائم رہتا ہے۔
ان حقائق سے ثابت ہواکہ تمام جسم کے مرکب اعضاء سر سے لے کرپاؤں تک ان ہی چاروں مفرداعضاء سے بنے ہوئے ہیں۔ البتہ کسی مقام پرایک مفردعضو کا غلبہ ہے تودوسرے مقام پردوسرے عضو کا غلبہ ہے۔ جس مقام پر جس مفرد عضو کا غلبہ زیادہ ہے وہاں پر اس کا اثر زیادہ نمایاں ہے مثلاً سر اور اس کے گردونواح میں اعصاب ودماغ کا غلبہ ہے۔اس لئے وہاں انسجہ اعصابی کا غلبہ ہے۔ اسی طرح سینہ میں عضلات و دل کا غلبہ ہے۔اس لئے وہاں پر انسجہ عضلاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جوف شکم میں غددوجگر کاغلبہ ہے اس لئےوہاں پر انسجہ غشائے مخاطی کا غلبہ ہے۔اس لئے اثرات و افعال ، ادویہ واغذیہ اور اشیاء میں مرکب اعضاء کی بجائے مفرداعضاء کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ البتہ ان کے بعد مرکب اعضاء اور تمام جسم پر ان کے اثرات و افعال دیکھے جا سکتے ہیں۔
دماغ ونخاع اور اعصاب پر ادویہ کے اثرات
جب ہم کسی دوا وغذا اور زہر و شے کے اثرات و افعال دماغ و نخاع اور اعصاب پر معلوم و محسوس کرنا چاہتے ہیں تو اس وقت ہمارے سامنے مکمل دماغ و نخاع نہیں ہونا چاہیے بلکہ صرف وہی حصہ ہونا چاہیے جو عصبی ہے یعنی عصبی مادہ سے بنا ہوا ہےاور اسی مادہ کی ڈوریاں دماغ سے نکل کر نخاع کے ذریعے تمام جسم میں پھیل گئی ہیں۔جن کو ہم اعصاب(Nerves)کا نام دیتے ہیں۔ اور مفرد عضو کی صورت میں ان کو انسجہ اعصابی کہتے ہیں۔یاد رکھیں کہ دماغ و نخاع کے افعال و تحریکات میں ان کے دونوں پردے شریک نہیں ہیں۔ پہلا پردہ غدی ومخاطی کا جس کا تعلق جگرکے ساتھ ہے جوانسجہ غشامخاطی(Epithelial Tissues)کابناہوا ہے۔دوسرا پردہ عضلاتی ہےجس کا تعلق دل کے ساتھ ہے جوانسجہ عضلاتی(Muscular Tissues)کا بنا ہوا ہے۔ کوئی عصبی غذاو دوا اوار زہر و شے جب بھی اثرانداز ہوگی تو صرف دماغ ونخاع کے عصبی حصے پر ہوگی۔ اس کے اثر دونوں پردوں پر نہیں ہوں گے۔ یاد رکھیں کہ اعصاب اپنے مرکز دماغ سے لے کر نخاع کے ذریعے تمام جسم میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ سب متاثر ہوتے ہیں۔
فرنگی طب کی غلطی
فرنگی طب اور ماڈرن سائنس نے جہاں دماغ و نخاع پردوا و غذا اور زہرو شے کے اثرات و افعال بیان کئے گئے ہیں۔ اس نے تمام دماغ ونخاع کو شامل کرلیا ہے جو بالکل غلط ہے۔ دماغ و نخاع کے اوپر دونوں پردوں کے اعصاب سے کوئی مشابہت نہیں ہے۔ البتہ تعلق ضرور ہے کہ وہ اعصابی تحریکات سے متاثر ضرور ہوتے ہیں۔
طب قدیم کا کمال
طب قدیم جب دماغ و اعصاب کو ذکر کرتی ہے تو وہ ان کا مزاج سردتر بیان کرتی ہے اور ان کی غذابلغم بیان کرتی ہے اور یہ بھی بیان کرتی ہے کہ جب ان میں تحریک ہوتی ہے تو جسم میں سردی تری اور بلغم بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح وہ دماغ ونخاع کے صرف اس حصے کا ذکر کرتی ہےجو اعصابی مادہ سے بنا ہوا ہےجس کو انسجہ اعصابی(Nerves Tissues)کہتے ہیں۔ یہ طب قدیم کاکمال ہے۔
دماغ واعصاب کے افعال
دماغ مرکز اعصاب ہے جو تین اعضائے رئیسہ میں سے ایک ہےاور اعصاب تمام جسم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لئے جب ہم اعصاب کا ذکر کرتے ہیں تو اس میں دماغ بھی شریک ہوتا ہے۔ پس جاننا چاہیے کہ اعصاب پر جو ادویہ واغذیہ اور اشیاء اثرانداز ہوتی ہیں اس کی تین صورتیں ہیں1۔ اعصاب میں تحریک پیدا کرکے ان کے افعال میں تیزی پیداکردیں۔2۔ اعصاب میں تسکین پیدا کرکے ان کے افعال میں سستی پیدا کر دیں۔3 ۔اعصاب پر گرمی کی زیادتی سے ان کے افعال میں ضعف پیدا کردیں۔تحریک کی 9(نو) صورتیں ہیں۔ 1۔ محرک۔ 2۔ لذت ۔ 3۔ بے چینی ۔ 4۔ حبس ۔ 5۔ قبض ۔ 6۔ خارش ۔ 7۔ جوشِ خون ۔ 8۔ درد ۔ 9۔ سوزش۔
فرنگی طب کی غلطی
فرنگی طب اور ماڈرن سائنس نے اعصاب کی دو اقسام بیان کی ہیں۔ 1۔ حسی اعصاب۔2۔ حرکتی اعصاب۔ یاد رکھیں کہ اعصاب صرف حس کے لئے اعضاء ہیں ان میں حرکت نہیں ہوتی البتہ ان کا عضلات کے ساتھ تعلق ضرور ہوتاہے جو حرکت کے اعضاء ہیں۔ جب اعصاب میں کوئی حس اثرانداز ہوتی ہے تو ضرورت کے مطابق عضلات میں حرکت پیدا کردیتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ حرکت کے اعضاء صرف عضلات ہیں جن سے جسم کی حرکات صادر ہوتی ہیں۔ ان میں کھانا، پینا، دیکھنا، سننا، لکھنا، پڑھنااور بیٹھنا چلنا وغیرہ شامل ہیں۔لیکن احساس کرنا، چکھنا اور سونگھنا وغیرہ اعصاب کی تحریکات ہیں۔ اس لئے دماغ ساکن ہے اور اعصاب کا مرکزہےاور دل میں حرکت ہےاور عضلات کا مرکز ہے۔ یاد رکھیں کہ حرکت صرف عضلات میں ہوتی ہے۔ اس لئے اعصاب کو حرکتی سمجھنا غلطی ہے۔
ایک اور غلطی
فرنگی طب اور ماڈرن سائنس اعصاب کے امراض میں دو ہی صورتیں تسلیم کرتی ہے۔ ایک اعصاب میں تیزی اور دوسرے اعصاب میں سستی۔ اس لئے جب اعصاب میں تیزی ہوتی ہے تواس کو سست کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے لئے وہ مخدر، مسکن ادویات مثلاً کافور، بھنگ، افیون، لفاح، بیلاڈونا، اجوائن خراسانی، بیش، کوکنار، مارفیا وغیرہ وغیرہ استعمال کرتے ہیں اور جب اعصاب میں سستی ہوتی ہے تو ان میں تیزی پیدا کردیتے ہیں اور اس مقصد کے لئے کچلہ، دارچینی، لونگ وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔جہاں تک اعصاب کی سستی میں تیزی پیدا کرنے کا تعلق ہے یہ تو قابلِ قبول ہوسکتاہے۔ اگر چہ اس مقصد کےلئے ان کے ہاں کوئی فطری قانون نہیں ہے لیکن جہاں تک اعصاب کی تیزی میں سستی پیدا کرنے کا تعلق ہے یہ اصول بالکل غلط ہے اور کسی قانون میں نہیں آتا ۔ ہم چیلنج کے ساتھ کہتے ہیں کہ فرنگی طب و ماڈرن میڈیکل سائنس اس علاج میں بالکل اندھی ہے اور بالکل عطائیانہ علاج کرتی ہے یہ ان کی بے علمی و جہالت اور غلطی کااظہار ہے۔
جاننا چاہیے کہ جب اعصاب میں تیزی ہوتی ہے تو ان میں سوزش کی صورت ہوتی ہے چاہے وہ کسی قدر کم ہو یعنی درد کی بجائے صرف لذت کی زیادتی یا بے چینی یا خارش ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا علاج تسکین وتخذیر نہیں ہے بلکہ اس میں تحلیل پیداکرنی چاہیے جو ظاہر ہے کہ گرم تر یا گرم خشک ادویات سے ہوسکتی ہے اور ہرقسم کے مسکنات اور اکثر مخدرات سردتر اور سرد خشک ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ سرد ادویہ و اغذیہ سے جسم میں بلغم اور رطوبت پیدا ہوتی ہےان سے عارضی سکون تو ہوسکتاہے مگر سوزش میں تحلیل پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ فرنگی طب اور ماڈرن سائنس میں سوزش اور درد کا عارضی علاج ہوتاہے اور دائمی نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ اس علاج میں ناکام رہتے ہیں۔
طب قدیم کا کمال یہ ہے کہ وہ گرم مزاج کاعلاج سردی سے اور سرد مزاج کا علاج سوداوی ادویہ سے کرتی ہے۔ یاد رکھیں کہ تسکین اور تحلیل دو مختلف صورتیں ہیں۔ تسکین ہمیشہ سرد بلغمی اور رطوبت پیداکرنے والی ادویات سے مختلف ہوتی ہے اور ہمیشہ گرم امراض میں پیدا ہوتی ہے اور تحلیل ہمیشہ گرم ادویہ سے ہوتی ہے اور تحلیل ہمیشہ گرم ادویہ سے ہوتی ہے اور تحلیل ہی سے ہمیشہ تحریک و درد اور سوزش و ورم بلکہ ہر قسم کے بخار کا علاج کرنا چاہیے۔ ہرگز نہ بھولیں کہ سائنس ہی کا مسئلہ ہے کہ سردی ہر جسم میں سکیڑ پیدا کرتی ہے اور گرمی ہر جسم میں پھیلاؤ پیدا کر دیتی ہے۔ اس لئے معالج کے سامنے تین صورتیں ہونی چاہئیں۔ تسکین و تحریک اور تحلیل جن کا عمل اس طرح ہوتا ہے۔کہ جب اعصاب میں تسکین ہو تو ان میں تحریک پیدا کریں اور جب ان میں تحریک ہو تو ان میں تحلیل پیدا کریں اور جب ان میں تحلیل ہو تو ان میں تسکین پیدا کریں اور یہی طریق علاج ہے قدرت نے فطری طور پر ایسی ہی اغذیہ و ادویہ اشیاء پیدا کی ہیں اس طرح منٹوں میں علاج ہوتا ہے۔
قلب پر ادویہ کے اثرات
جب ہم کسی دواواغذیہ اور زہر وشے کے اثرات و افعال دل پر محسوس و معلوم اور مشاہدہ و تجربہ کرنا چاہتے ہیں تو اس وقت ہمارے سامنے صرف دل کا وہ لوتھڑا ہونا چاہیے جو گوشت کابنا ہوا ہے۔ وہ عضلاتی انسجہ سے اس کی بافت و ساخت اور بناوٹ ہوتی ہے۔یہی عضلات (گوشت) جو تمام جسم کی ہڈیوں پر چڑھے ہوئے ہیں اور انہی سے جسم کی خوبصورتی قائم ہوتی ہے یہ عضلات تمام جسم کے اعضاء کی ساخت میں شریک ہیں۔ جن میں پھیپھڑے اور معدہ خاص طورپر شامل ہیں۔ بعض اعضاء پر اس کے پردے چڑھے ہوئے ہیں جن کو حجاب کہتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ دل کے افعال وتحریکات میں اس کے دونوں پردے شریک نہیں ہیں۔ پہلا پردہ غدی مخاطی ہے جس کا تعلق جگر(غدد) کے ساتھ ہےجو انسجہ مخاطی (Epithelial Tissues)کابنا ہوا ہے۔جس کا ذکر دماغ واعصاب کے تحت ہوچکا ہے۔کوئی دوا وغذا اور زہر شے جب دل پر اثرانداز ہوگی تو اس کا اثر صرف عضلات ہوگا۔ مخاطی و عصبی دونوں پردوں میں نہیں ہو گی۔ البتہ دل کی حرکات میں کمی بیشی سے دورانِ خون کا اثر ان پر ضرور ہوتا ہے۔ لیکن وہ اثر دل کے افعال و اثرات سے مختلف ہوتا ہے جو اثر دل پر ہوتا ہے وہ صرف دل تک محدود نہیں رہتا بلکہ تمام جسم کے عضلات پر کم و بیش ہوتا ہے۔
فرنگی طب کی غلطی
فرنگی طب نے جہاں دل پر کسی دوا وغذا اور زہر و شے کے اثرات بیان کئے ہیں اس نے دونوں دل کے پردوں کو بھی شامل کیا ہے بلکہ ان کی کواڑیوں کو بھی شامل کیا ہے جن کی بناوٹ خالص عضلاتی نہیں ہے۔ ان پردوں اور کواڑیوں کو دل کے اپنے فعل میں شریک کرنا غلط ہے کیونک دونوں پردے جدا قسم کے انسجہ بنے ہوئے ہیں۔
طب قدیم کا کمال
طب وقدیم جب دل کا ذکر بیان کرتی ہے تو اس کو مفرد عضلات ہی میں شریک کرتی ہے اور اس کا مزاج گرم تر بیان کرتی ہے۔اور یہی عضلات کی صحیح غذابیان کرتی ہے۔ جب عضلات(دل) میں تحریک ہوتی ہے تو اس کے فعل میں تیزی کے ساتھ ساتھ تمام جسم میں دوران خون کی تیزی ہو جاتی ہے۔ اس طرح دل کے صرف اسی حصہ کا ذکر ہوتا ہے جو انسجہ عضلاتی کا بنا ہوا ہوتاہے۔
دل کے افعال و اثرات
دل مرکزِ عضلات ہے جو تین اعضائے رئیسہ میں سے ایک ہے۔عضلات تمام جسم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لئے جب عضلات کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں دل ضرور شریک ہوتا ہے۔ اور جب دل کا ذکر کرتے ہیں تو اس میں عضلات ضرور شامل ہوتے ہیں۔ جب کوئی دوا و غذا اور زہر و شے دل اور عضلات پر اثرانداز ہوگی تو اس کی تین صورتیں ہوں گی۔1۔ تحریک جس سے ان میں تیزی ہوگی۔ 2۔ تسکین جس سے ان میں سکون ہو گا۔ 3۔ تحلیل جس سے ان میں ضعف پیدا ہوگا۔
جاننا چاہیے کہ جسم میں ہر قسم کی حرکات صرف عضلات سے عمل میں آتیں ہیں۔ اگر چہ اس کی ذاتی تحریکات کے علاوہ دماغ و اعصاب کی طرف سے ان کو تحریکات ملتی رہتیں ہیں۔ بہرحال ہر قسم کی حرکت جسم میں عضلات ہی سرانجام دیتے ہیں۔ جیسے دوڑنا، دیکھنا و ادراک، چلنا پھرنا وغیرہ لیکن ہر قسم کا احساس و ادراک چکھنا اور سونگھناوغیرہ اعصاب کی تحریکات ہیں۔ اس لئے دماغ ساکن ہے۔ اور اعصاب کے افعال ، احساس اور ادراک کا مرکز ہیں۔ اور دل متحرک ہے اور عضلات کی حرکت کا ذمہ دار ہےیاد رکھیں کی کہ جس طرح دل کی حرکات کا اثر عضلات پر پڑتا ہے اسی طرح عضلات کی حرکات کا اثر دل پر بھی پڑتا ہے۔
فرنگی طب کی ایک اور غلطی
فرنگی طب اور مادرن سائنس میں سرےسے عضلاتی امراض کاذکرہی نہیں ہے ۔عضلاتی امراض کو ہم پہلی بار ہم پیش کر رہے ہیں اور ایک قانون و قاعدہ اور نظام کے تحت پیش کررہے ہیں۔ طب قدیم نے ان اخلاط کے تحت بیان کیا ہے۔ جہاں تک امراضِ قلب کا تعلق ہےفرنگی طب نے اس کی دو صورتیں بیان کی ہیں۔ اول قلب کے فعل میں تیزی جس سے قلب میں انقباض بڑھ جاتا ہے۔ دوسرے قلب کے فعل میں سستی پیدا ہو جاتی ہےجس سے قلب پھیل جاتا ہے۔ جب قلب کے فعل میں تیزی ہوتی ہے تو اس کو سست کرنے کے لئے مسکن اورمخدر ادویات مثلاًڈیجی ٹیبلس لفاح، بیش اور کافور وغیرہ دیتے ہیں۔ جب قلب کے فعل میں سستی پیدا ہوتی ہے تو اس میں تیزی پیدا کرنے کے لئے مقوی اورمحرک ادویات مثلاًسپرٹ ،ایمونیا، کچلہ اور دیگر مرکبات وغیرہ دیتے ہیں۔جہاں تک قلب کے فعل میں سستی کا تعلق ہے اس میں تیزی تو مقویات و محرکات کے ساتھ پیدا کی جا سکتی ہےلیکن اس کے لئے بھی اس کے پاس کوئی نظام اور قانون نہیں ہے۔ پھر بھی قابلِ قبول ہے لیکن جہاں تک قلب کے فعل میں تیزی کو سست کرنے کا تعلق ہےاس میں مسکنات و مخدرات کااستعمال کرنا بالکل غلط ہے۔ یہ کسی قانون اور نظم کے تحت نہیں ہے۔ یہ عطائیانہ طریق علاج ہے۔ اس سے ان کی بے علمی و جہالت اور غلطی کا پتا چلتا ہے۔
جاننا چاہیے کہ قلب کے فعل میں تیزی ہوتی ہے تو اس میں انقباض ہوتا ہے ۔انقباض سردی سے ہوتا ہے۔ سائنس کا مسئلہ ہے کہ ہر چیز سردی سے سکڑتی اور گرمی سے پھیلتی ہے۔ پھر ہر انقباض میں سوزش پیدا ہوتی ہےچاہے وہ جس قدر کم کیوں نہ ہویعنی درد کی بجائے اس میں صرف بے چینی ہو۔ اس کا علاج تسکین و تخدیر سے کرنا غلطی ہےکیونکہ وہ اکثر بارد ہوتی ہیں۔ جس کا نتیجہ ہارٹ فیل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ فرنگی طب میں ہارٹ فیل(Heart Fail)کے بہت کیس ہوتے ہیں بلکہ ہارٹ فیل ہونا بھی فرنگی طب کی پیدائش ہے۔ اس انقباض اور سوزش کا علاج تحلیل سے ہو سکتا ہے جو کہ ظاہر ہے کہ محلل ادویہ گرم تر یا گرم خشک ہوتی ہیں لیکن مسکنات اور مخدرات کا استعمال کرنا بالکل غلط ہے۔جن سے نہ انقباض کم ہو سکتا ہے اور نہ ہی سوزش ختم ہو سکتی ہے۔قلب کی تیزی اور انقباض کا صحیح علاج ہم سوزشِ اعصاب میں بیان کرچکے ہیں۔لہذا علاج بالکل اسی اصول پر کیا جائے۔ جہاں تک مقویات و مفرحات کا تعلق ہے یہ صورتیں بھی فرنگی طب میں نہیں پائی جاتیں بلکہ ان کے ہاں ان کا تصور بھی نہیں ہے۔ طب قدیم میں ان مقاصد کے لئے ذیل کی ادویہ استعمال ہوتی ہیں۔ مروارید، مشک، عنبر، زعفران، جدوار اور بیدمشک وغیرہ اور مرکبات میں خمیرہ جات اوریاقوتیاں قابلِ ذکر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: قسط ۔4 تحقیقاتِ الامراض و العلامات
جگرپر ادویات کے اثرات
اعضائے رئیسہ میں جگر بھی برابر کا شریک ہے لیکن اس کے افعال دل و دماغ سے زیادہ پیچیدہ ہیں۔ دماغ صرف احساسات و ادراکات اور اعصاب کا مرکز ہے۔دل صرف حرکات و دوران خون اور عضلات کا مرکز ہے۔ جگر نہ صرف غذا کو ہضم کرکے اخلاط میں تبدیل کرکے خون بناتا ہے ۔ بلکہ صفرا کو خون سے جدا کرکے آنتوں میں گراتا ہے اور مٹھاس کو جسم میں ہضم کراتا ہے۔ جگر ایک غدود ہے اور جسم کے تمام چھوٹے بڑےغدد کا مرکز ہے۔ جس طرح دماغ اعصاب کا مرکز ہے اور دل عضلات کا مرکز ہے ۔ یعنی اس کے افعال اسی کے تحت جسم کے تمام نالی دار غدود کام کرتے ہیں ۔ اگر چہ غیرنالی دار غدود بھی اسی کے ماتحت ہیں لیکن غیر نالی دارغدود کے افعال نالی دار غدود کے بالکل برعکس ہیں یا ان کے افعال کے بعد مشینی طورپر عمل کرتے ہیں یعنی نالی دار غدد اپنی رطوبات کا اخراج کرتے ہیں تو غیر نالی دار غدد ان کو جذب کرتے ہیں۔ سب بڑا نالی دار غدد غددوطحال ہے ۔ اس لئے طب قدیم نے اس کو اعضائے رئیسہ کے بعد اعضائے شریفہ میں شمار کیا ہے اور چوتھی خلط سودا کی اصلاح و تعمیر کا تعلق اس کے ساتھ قائم کردیا ہے۔جب ہم کسی دوا وغذایا زہر کے اثرات و افعال جگر و غدد پر معلوم و محسوس کرنا چاہتے ہیں تو اس وقت ہمارے سامنے مکمل جگر نہیں ہونا چاہیے بلکہ صرف وہی حصہ ہونا چاہیے جو اس کا غدی حصہ کہلاتا ہے یعنی جوقشری مادہ سے بنا ہوا ہے اور اسی مادہ سے بنے ہوئے غدد تمام جسم میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ جن کو ہم غشا کا نام بھی دیتے ہیں اور مفرد اعضاء صورت میں ان کوانسجہ قشری کہتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ جگر کے افعال اور اعمال میں اس کے دونوں حصے شریک نہیں ہیں جو اس کے مادے سے نہیں بنے ہوئے۔ پہلا پردہ اعصابی یا اعصابی حصہ جس کا تعلق دماغ کے ساتھ ہے۔دوسرا پردہ عضلاتی ہے جس کاتعلق دل کے ساتھ ہے۔ جو انسجہ عضلاتی کابنا ہوا ہے۔ البتہ خاص جگر و غدد میں دوسرے دو حصے اپنے احساسات و تحریکات ضرور کرتے رہتے ہیں۔ جب کوئی دوایاغذایا زہر و شے خاص جگری و غدی حصہ پر اثرانداز ہوتی ہےتو اس کااثر اعصابی و عضلاتی حصہ پر نہیں ہوتا لیکن جس طرح عصبی و عضلاتی احساسات و تحریکات کا جگر و غدد پر اثر ہوتا ہے اسی طرح جگری و غڈی افعال واعمال کا اثر بھی اعصاب و عضلات (دل، دماغ) پر پڑتا ہے۔ان حقائق سے ثابت ہوا کہ جو ادویات سیدھی جگر پر اثر کرتی ہیں وہ اعصاب و عضلات پر سیدھی اثرانداز نہیں ہوتیں ۔ اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ جگر کے ذاتی افعال و اعمال میں نقص ہے یا اس کے اعصاب اور عضلات میں خرابی ہے۔ یہی صحیح طریقِ علاج ہے۔
فرنگی طب کی غلطی
فرنگی طب نے جہاں جگر پر دوا و غذا اور زہر و شے کے افعال و اثرات بیان کئے ہیں وہاں اس نے ایک طرف تمام جگر کو ایک کیا ہے جس میں اس کے ساتھ اس سے متعلق اعصاب وعضلات شامل ہیں۔ جن کی حقیقت میں جگر کے ذاتی افعال سے کوئی مشابہت نہیں ہے۔دوسرا اس نے جسم کے تمام غدد کے افعال کو جگر سے جدا کردیا ہے۔ یہ دونوں صورتیں بالکل غلط ہیں۔ یاد رکھیں کہ جگر سے متعلق اعصاب اور عضلات دونوں اپنے اپنے مرکز دماغ اور دل کے تحت کام کرتے ہیں اور تمام جسم کے غدد جگر کے ماتحت اپنے افعال و اعمال انجام دیتے ہیں، جیسے اعصاب دماغ کے تحت اور عضلات دل کے تحت اپنے افعال واعمال انجام دیتے ہیں۔
طب قدیم کا کمال
طب قدیم جب جگر کا ذکر کرتی ہے تو وہ اس کا مزاج گرم خشک بیان کرتی ہے اور اس کی غذا صفرا بیان کرتی ہے اور یہ بھی بیان کرتی ہے کہ اس میں جب تحریک ہوتی ہے تو جسم میں گرمی خشکی اور صفرا بڑھ جاتے ہیں ۔ اسی طرح وہ جگر کے صرف اس حصے کا ذکر کرتی ہے جو غدی غشائی مادہ سے بنا ہوا ہے۔ یہی طب قدیم کا کمال ہے۔
جگر کے افعال
جگر کے اعمال کتنے ہی پیچیدہ کیوں نہ ہوں تاہم اس کے افعال کی تین صورتیں ہیں تمام اغذیہ و ادویہ اور زہر و اشیاء یہی تینوں صورتیں پیدا کرتی ہیں۔ 1۔ جگرمیں تیزی پیدا کرکے اس کے فعل میں تیزی پیدا کردے۔2۔ جگر میں تسکین پیدا کرکے اس کے فعل میں سستی پیدا کردے۔ 3۔ جگر میں تحلیل پیدا کرکے اس کے فعل میں ضعف پیدا کردے۔تحریک کی جتنی صورتیں ہیں ہم ان پر دوا کے اثرات میں بیان کرچکے ہیں
فرنگی طب کی غلطی
فرنگی طب ااور ماڈرن سائنس جگر کے امراض میں دو ہی صورتیں تسلیم کرتی ہیں۔ ایک جگر کے فعل میں تیزی جس سے جسم میں صفرا بڑھ جاتا ہے ۔ دوسرے جگر کے فعل میں سستی اس سے جسم میں ریاح اور جگر میں بلغم بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے جب جگر کے فعل میں تیزی ہو جاتی ہے تو اس کوسست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ وہ مسکن اور مخدر ادویات مثلاً لفاح، اجوائن خراسانی، بیش، کوکین، افیون، بھنگ وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ صورتیں پتہ کی تکلیف میں کرتے ہیں۔ جب غدد میں سستی ہوتی ہے تو ان میں تیزی پیدا کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے گندھک، نمک نوشادر، بادیان، اجوائن اور پوددینہ وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ جہاں تک جگر کی سستی میں تیزی پیدا کرنے کا تعلق ہے یہ تو قابلِ قبول ہوسکتاہے۔ اگر چہ اس مقصد کےلئے ان کے ہاں کوئی فطری قانون نہیں ہے لیکن جہاں تک جگر کی تیزی میں سستی پیدا کرنے کا تعلق ہے یہ اصول بالکل غلط ہے اور کسی قانون میں نہیں آتا ۔ ہم چیلنج کے ساتھ کہتے ہیں کہ فرنگی طب و ماڈرن میڈیکل سائنس اس علاج میں بالکل اندھی ہے اور بالکل عطائیانہ علاج کرتی ہے یہ ان کی بے علمی و جہالت اور غلطی کااظہار ہے۔
جاننا چاہیے کہ جب جگر و غدد میں تیزی ہوتی ہے تو ان میں سوزش کی صورت پیدا ہوجاتی ہے چاہے وہ کسی قدر کم کیوں نہ ہو۔ اس کا علاج تسکین و تخدیر نہیں ہے بلکہ اس میں تحلیل پیدا کرنی چاہیے جو ظاہر ہے کہ گرم تر ادویات سے ہو سکتی ہے اور ہر قسم کے مسکنات اور اکثر مخدرات سردتر اور سرد خشک ہوتے ہیں ۔ جن سے جسم میں بلغم اور رطوبت پیدا ہوتی ہےاور عارضی سکون پیدا ہوتا ہے۔
Qanoon Mufrad Aza, Tibb e Sabir, Hakeem Sabir Multani, Health, قانون مفرد اعضاء, حکیم صابر ملتانی, طب و صحت, طب صابر,