Palliative Care” اور اسلام “کے موضوع پر کی گئی تقاریر
اورمتعلقہ شرعی مسائل کے جوابات
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی سیدنا ومولانامحمد خاتم النبیین وامام المتقین وعلی الہ واصحابہ وعلی کل من تبعھم باحسان الی یوم الدین۔
معزز ڈاکٹر صاحبان، معزز حاضرین اور میرے بھائیو و بہنو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ میرے لیے مسرت واعزاز کی بات ہے کہ میں اب تک تو آپ حضرات کی خدمت میں خود اپنی حاجت لے کر آتا رہا ہوں اور آپ سے اپنی یا اپنے کسی عزیز کی صحت کے لیے مدد طلب کرتا رہا ہوں۔آج آپ نے اپنی محبت کی بناء پر مجھے اس محفلِ مذاکرہ میں ایک مہمان کے طور پر آنے کی عزت بخشی ،اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے اس کی لاج رکھنے کی توفیق عطا فر مائے ۔
ڈاکٹرز کے لیے خوش خبری
پہلی بات تو میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جتنے حضرات طب کے پیشہ سے وابستہ ہیں ،لوگوں کی بیماریو ں کا علا ج کرنے میں مصروف رہتے ہیں ،ان کے لیے حضور نبی کریم سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عظیم بشارت ہے جوصحیح حدیث میں وارد ہوئی ہے :
مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ الدُّنْیَا نَفَّسَ اللَّہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ (۱)
ترجمہ: “جو شخص کسی بھی مسلمان کی کوئی بے چینی دور کرے ، اللہ تبارک و تعالی اس کی قیامت کی بے چینیوں میں سے کوئی نہ کوئی بے چینی دور کریں گے۔”
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر چہ اس حدیث میں لفظ مسلمان کااستعمال ہوا ہے ،لیکن یہ لفظ اس لیے حدیث میں استعمال ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب عام طور سے مسلمان ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانی ہمدردی اور انسانی راحت رسانی کا ثواب صرف اسی صورت میں نہیں ہے جب کوئی شخص کسی مسلمان کی خدمت کررہا ہو بلکہ کسی غیر مسلم کی راحت رسانی اور ا س کی کسی بے چینی کو دور کرنا بھی باعثِ اجرو ثواب ہے۔انسانی ہمددری کے جتنے راستے ہو تے ہیں ان سب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑا اجر وثواب ہے۔
ڈاکٹر کیا نیت کریں؟
یوں تو دنیا میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے پیشے پیداکیے ہیں اور انسان اپنی اپنی سوچ وپسند کے مطابق کوئی نہ کوئی پیشہ اختیار کرلیتا ہے لیکن یہ طب کا پیشہ ،یعنی لوگوں کے علاج کا پیشہ، اس لحاظ سے بہت عظیم و مبارک پیشہ ہے کہ یہ خدمتِ خلق کاایک بہت عظیم کام ہے۔ فرق صرف نیت کا ہے ،زاویہ نگاہ کی تبدیلی کا ہے۔اگر کوئی آدمی یہ پیشہ صرف اس لیے اختیار کرتا ہے کہ پیسے کماؤں گااور پیسے کمانے کے علاوہ اس کے ذہن میں کوئی اور تصور نہیں ہے ۔ اس کے تمام فیصلوں کی بنیاد صرف یہی بات ہے کہ جہاں مجھے زیادہ پیسے ملیں گے ،جس طریقے میں مجھے زیادہ دولت حاصل ہوگی،میں وہی طریقہ اختیار کروں گا۔ اس کے ذہن میں انسانی ہمدردی یا کسی انسان کو تکلیف سے بچانے کی کوشش ثانوی (دوسرے) درجہ میں ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں، اللہ تعالیٰ بچائے ، تو ٹھیک ہے، بس اس نے ایک پیشہ اختیار کر لیاہے۔ جائز حدود میں ہو تو یہ کوئی منع نہیں ہے لیکن اس پر کوئی ثواب بھی نہیں ہے۔ جیسے کوئی شخص بازار میں سبزی بیچکر پیسہ کما رہا ہے تو یہ شخص اپنی طبی خدمات کو بیچ کر پیسہ کمارہا ہے، اُس میں اور اِس میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
لیکن اگر آدمی کی اصل نیت یہ ہے کہ میں یہ پیشہ اس لیے اختیار کررہا ہوں کہ اس کے ذریعے میں لوگوں کی بے چینیوں کو دور کرسکوں ،لوگوں کو راحت پہنچا سکوں، لوگوں کے ساتھ ہمدردی کر سکوں اور چونکہ میرے ساتھ میری ذاتی ضروریات بھی لگی ہوئی ہیں اس لیے میں اس پر کوئی فیس بھی وصول کرتا ہوں یاکوئی ذاتی منفعت بھی حاصل کرتا ہوں لیکن میرا اصل مقصد انسانیت کی خدمت و ہمدردی ہے،تو یہ سارا پیشہ بہت بڑی عبادت بن جاتاہے۔ اس کا ایک ایک لمحہ عبادت بن جاتا ہے۔
مولاناجامی رحمۃاللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :
بہ تسبیح وسجادہ ودلق نیست
تصوف بجز خدمتِ خلق نیست
یعنی محض تسبیح اٹھاکر تسبیح پڑھتے رہنا ،مصلّٰی بچھاکر نماز پڑھتے رہنااور بوسیدہ قسم کا لباس پہنے رہنا،یہ کوئی تصوف کی بات نہیں ہے،یہ صوفی بننا نہیں ہے،بلکہ جتناآدمی مخلوق کی خدمت کررہا ہوگا،اتناہی بڑا صوفی ہوگا،اور وہ اللہ تعالیٰ سے اتنا ہی قریب ہوگا۔
نیز شفادینے والا تو اللہ تعالی ہے، معالج تو بس یہی کرتا ہے کہ اپنے علم کے مطابق مریض کا علاج کرے۔اگر اس مریض کو شفا مل جاتی ہے، بے چینی دور ہوجاتی ہے، اس کی زندگی بہتر ہوجاتی ہے تو اس بہتر زندگی کے نتیجے میں جتنے وہ نیک کام کرے گا ،وہ سارے اس معالج کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے جس کے ذریعے اللہ تعالی نے اسے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی زندگی میں اچھے کام کرسکے اور دوسروں کے کام آسکے۔
اس لیے یہ بہت عظیم عبادت ہے اور بات صرف نیتوں کے فرق کی ہے۔لیکن نیت کی درستگی انسان کے طرزِ عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔ آدمی یہ کہدے کہ میری نیت فلاں قسم کی ہے لیکن اس نیت کا صحیح ٹیسٹ اور صحیح مظاہرہ انسان کے عمل سے ہوتا ہے۔ اگر وہ خدمت کی نیت سے یہ کام کررہا ہے تو اس کا طرزِ عمل اس شخص سے بالکل مختلف ہوتا ہے جس کی نیت صرف پیسہ کمانا ہو۔ایسے شخص کے دل میں ہمدردی ہوتی ہے ، اس کے دل میں دوسروں کا درد ہوتا ہے۔ اس کا رویہ واخلاق اور مریضوں کے ساتھ اس کا طرز عمل( interaction) بتاتا ہے کہ اس کے دل میں کیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج کل صورتحال ایسی ہے کہ جہاں بھی چلے جائیں مریضوں کی قطار لگی ہوتی ہے ، لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے، سب کو نمٹانا ہوتا ہے۔ ایسے میں انسان میں جھنجھلاہٹ پیدا ہوجاتی ہے اور انسان کو غصہ بھی آجاتا ہے۔ لیکن اس جھنجھلاہٹ اور غصہ کوکوئی چیز روک سکتی ہے تو وہ صرف صحیح نیت ہے۔ اگر میں خدمت کی نیت سے یہ کام کر رہا ہوںتو میرا فرض ہے کہ میں مریضوں سے معاملہ اخلاق کے ساتھ کروں، دیانتداری سے کروں اور ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کروں۔ جب تک یہ بات پیدا نہیں ہوجاتی ، خدمت عبادت نہیں بن سکتی۔
مریض کی خدمت اور اس کو مطمئن کرنا معالج کا فریضہ ہے۔ اگر ہجوم کے باوجود بھی وہ اپنے آپ کو قابو میں رکھے تو اس کی بڑی فضیلت ہے۔ اصل میں ڈاکٹر تو سمجھتا ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے لیکن مریض شروع سے آخر تک پوری کہانی سناناشروع کرتا ہے۔ اب ڈاکٹر چاہتا ہے کہ مریض صرف اصل مسئلہ بتائے جبکہ مریض پوری داستان سناتا ہے، وقت ضائع کرتا ہے۔ اب اس میں ایک طریقہ تو یہ ہے کہ مریض کوڈانٹ دیا جائے کہ فضول باتیں مت کرو۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس سے نرمی سے کہدیا جائے کہ بھائی آپ کی سب باتیں درست ہیں لیکن میں صرف یہ بات جاننا چاہتا ہوں۔
خود ہمارے ساتھ فتوی دینے میں یہی صورتِ حال پیش آتی ہے۔لوگ طلاق کا مسئلہ پوچھنے آتے ہیں ۔ وہ نکاح کے وقت سے کہانی سنانا شروع کرتے ہیں کہ شروع میں تعلقات اچھے رہے، ایک دن میں باہر نکلا ، بیوی بہت غصہ میں تھی، میں واپس آیا تو اس نے مجھے بہت برا بھلا کہا، میں نے شروع میں نرمی کا معاملہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔ اب وہ یہ ساری داستان سنا رہا ہے جبکہ پوچھنا صرف یہ ہے کہ طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی ؟ اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ طلاق کے سلسلے میں الفاظ کیا کہے تھے۔باقی باتیں غیر متعلقہ ہیں۔ ایسی صورتِحال میں غیر متعلقہ باتوں پر صبر کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص تنہائی میں بیٹھا ہے، ذکر کر رہا ہے، نوافل پڑھ رہا ہے، تلاوت کر رہا ہے، اِس سے ہزار درجہ بہتر وہ شخص ہے جو لوگوں کے ساتھ معاملات کر رہا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر کر رہا ہے۔ (۱)
میں آپ حضرات کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ آپ حضرات نے الحمدللہ یہ پیشہ اختیار کیااور اسی نیت سے اختیار کیا ۔یہی وجہ ہے کہ آج کا یہ اجتماع اسی طب کے ایک اہم موضوع پر ہورہا ہے کہ جن مریضوں کا علاج ناممکن ہوجائے ،جن پر علاج کے تمام طریقے آزمائے جاچکے ہوں تو ان کے ساتھ کس طرح معاملہ کیاجائے اور کس طرح ان کو راحت پہنچائی جائے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند بنیادی ہدایات فراہم کی ہیں،جن کو اگر ہم مد نظر رکھیں تو ہمارے بہت سے مسائل کا حل مل جاتاہے۔
پرہیز و تدبیر کی اہمیت
پہلی بات یہ ہے کہ آدمی کو بیماری مانگنی نہیں چاہیے،اللہ تعالی سے ہمیشہ عافیت ہی مانگنی چاہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو(۱)۔لہٰذا آدمی کو بیماری مانگنی نہیں چاہئے اور نہ ہی اپنے اختیار سے ایساکام کرنا چاہئے جس کا نتیجہ بیماری کی شکل میں آئے،بلکہ اسے حتی الامکان پرہیز کرناچاہیے کہ یہ بیماری نہ آئے۔ معا لجین کے فرائض میں بھی یہ بات داخل ہے کہ جس طرح وہ بیمار ہوجانے کے بعد لوگوں کا علاج کرتے ہیں ، اسی طرح بیمار ہونے سے پہلے بھی لوگوں کو ایسی تدابیر بتائی جائیں جن سے وہ بیماری سے بچ سکیں۔ان کو Preventive Measures کہہ سکتے ہیں۔یہ بھی دین کا حصہ ہے ۔
ایک حدیث میں ہے :
“إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوہَا، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِہَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْہَا” (۲)
ترجمہ:جب تم سنو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو اس جگہ سے نکلو بھی مت۔
یہ حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے۔حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے شام کا دورہ کرنے کے لئے نکلے ۔پتہ چلا کہ شام کے علاقے میں طاعون پھیلاہواہے۔ اب یہ مسئلہ پیداہوا کہ اس طاعون زدہ علاقے میں جانا مناسب و مفید ہے یانہیں ؟کیا واپس لوٹ جائیں یاسفر جاری رکھیں ؟ شروع میں تردد اس لئے ہوا کہ ہم شام کا ارادہ کرچکے ہیں اور یہ سفر ایک دینی مقصد کے تحت کرنے جارہے ہیں اور محض اس وجہ سے کہ وہاں طاعون پھیلاہواہے تو کیا ہم اس سے رک جائیں؟ ہم تو اللہ کے دین کے لیے نکلے ہیں، محض بیماری کے خوف سے رک جانا شاید ٹھیک نہیں؟ دوسری طرف یہ خیال آتا تھا کہ طاعون کی بیمار ی اس شدت کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے کہ اس میں ہزارہاافراد شہید ہوچکے ہیں۔ ایک پورا قبرستان آج اردن میں موجود ہے جس میں اس طاعون سے شہید ہونے والے افراد کی قبریں ہیں ۔لہذا وہاں جانا تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات نظر آتی ہے ۔حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں مشورہ طلب کیا اور مشورہ سے یہ فیصلہ فرمایا کہ ایسی حالت میں ہمیں وہاں نہیں جانا چاہے توحضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ جو شام کے فوج کے سپہ سالارتھے، عرض کیا:
أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللَّہِ
کیا آپ اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے بھاگناچاہتے ہیں؟
یعنی طاعون جو پھیل رہا ہے وہ اللہ کی تقدیر سے پھیل رہاہے تو جوکچھ ہوگادیکھا جائے گا۔آپ اللہ کی تقدیرسے بھاگناچاہتے ہیں؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّہِ إِلَی قَدَرِ اللَّہِ
جی ہاں !ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر ہی کی طرف بھاگ رہے ہیں۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ اللہ کی تقدیر کے بھروسہ پر بیٹھ جایا کرو بلکہ یہ کہا ہے کہ تمہارے اختیار میں جو اسباب ہیں ان کو اختیار کرو،پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو کہ وہ ان اسباب میں تاثیر پیدا کرے۔ کچھ دیر بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے آئے جنہوں نے یہ حدیث سنائی جو پہلے عرض کی:
إِذَا سَمِعْتُمْ بِہِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَقْدَمُوا عَلَیْہِ ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِہَا فَلاَ تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْہُ (۱)
ترجمہ:جب تم کسی سر زمین میں(وبا کے متعلق) سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب ایسی جگہ وبا آ جائے جہاں تم خود موجود ہو تو وہاں سے فرار اختیارکرتے ہوئے مت نکلو۔
اس ارشادِ نبوی کی بہت سی تفسیریں کی گئی ہیں لیکن میں یہ سمجھتاہوں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ Preventive قسم کی تدبیر بیان فرمائی کہ اندر کے لوگ باہر نہ جائیں تاکہ بیماری کے اثرات باہر نہ پہنچیں اورباہر کے لوگ اندر نہ جائیں تاکہ وہ بیماری کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں(۲)۔ لہذا اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں احتیاطی تدابیراختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کی قرآن و سنت میں دیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔
علاج معالجہ کے بارے میں ایک غلط تصور
دوسرا مسئلہ جو بنیادی طور پر سمجھنے کا ہے وہ یہ ہے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ علاج کرناشرعاًفرض یا واجب ہے۔یہ بات شرعاًدرست نہیں ہے۔بیماری کا علاج کرنامباح ہے،جائزہے(۱) اور ایک لحاظ سے دیکھاجائے توسنت ہے(۲)۔ اگر کوئی شخص علاج نہیں کرواتااور اسی پر مطمئن ہے تو اس کو مجبور کرنا کہ تم علاج کرواو کیونکہ اگر نہیں کرواؤ گے توگناہ گارہوگے ،یہ شرعی اعتبارسے درست بات نہیں ہے(۳)۔ اس کوترغیب تودی جاسکتی ہے ،اسے کہا جاسکتاہے کہ علاج کرواؤ اور یہ علاج کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج کروایا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوعلاج کے طریقے بتائے ہیں(۴)۔
طبِ نبوی پر تحقیق کی ضرورت
ہماری حدیث کی کتابوں میںکتاب الطب کے عنوان سے پورا ایک باب ( chapter) ہوتا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے علاج اور ان سے متعلقہ احادیث جمع کی جاتی ہیں۔ لوگوں نے طب نبوی کے نام سے اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ اردو، عربی اور انگریزی میں اس موضوع پر اچھا خاصا لٹریچر موجود ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے امراض کا علاج خود بتایا ہے اور ان کو اختیار کرنے کی لوگوں کو ترغیب بھی دی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پر باقاعدہ ریسرچ کی جائے۔ وہ علاج زیادہ تر جڑی بوٹیوں کا علاج ہے جن سے آپ نے بعض امراض کی دوائیں بتائی ہیں ۔ ان پر ریسرچ کی ضرورت ہے۔ افسوس ہے کہ ہم ان پر ابھی تک پوری ریسرچ نہیں کرسکے۔
مثلاً رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلونجی کے بارے میں فرمایا:
إِنَّ ہَذِہِ الْحَبَّۃَ السَّوْدَاء َ شِفَاء ٌ مِنْ کُلِّ دَاء ٍ إِلاَّ مِنَ السَّامِ (۱)
ترجمہ: بے شک یہ کلونجی تمام بیماریوں کا علاج ہے، سوائے موت کے۔
لیکن کس مرض میں کلونجی کو کس طریقے سے استعمال کیا جائے، یہ تفصیل احادیث میں نہیں ملتی۔صرف ایک عام دعوت دی گئی ہے کہ کلونجی کو ہرقسم کے مرض میں علاج کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اب کس جگہ کلونجی کا فائدہ اسے کھانے سے ہوگا، کس جگہ اس کو کسی اور چیز کے ساتھ ملا کر کھانے سے فائدہ ہوگا، کس جگہ اس کو پیس کراستعمال کرنے سے فائدہ ہوگا، کس جگہ اس کے تیل سے فائدہ ہوگا ، کس جگہ اس کے بیرونی استعمال سے فائدہ ہوگا۔ یہ سب ممکنات ہیں۔اس پر ریسرچ کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بات کسی عام انسان کی نہیں ہے ، بلکہ اس ذات کی ارشاد فرمائی ہوئی ہے جس کے بارے میں قرآنِ کریم نے فرمادیا:
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَی إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوْحٰی
ترجمہ: اور یہ (نبی کریم)اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے۔یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔ (۲)
لہذا جب آپ نے اتنا بڑا ارشاد فرمادیا تو ضرورت ہے کہ اس پر ریسرچ کرکے دیکھیں کہ کس مرض میں کلونجی کو کس طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آج ہماری افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ہم ہر چیز میں مغربی تحقیق پرانحصار(Depend )کرتے ہیں اور جو ہمارے پاس اثاثہ موجود ہے اس پر ریسرچ کرنے کا کوئی قابلِ ذکر اہتمام نہیں کرتے ۔ بعض حضرات نے اس پر کام کیا ہے لیکن وہ کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہے۔ ہمارا ملک ہربل میڈیسن سے معمور ہے۔ ہمارے جنگلات میں ایسی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جو مختلف امراض میں کارآمد ہوسکتی ہیں۔ ان پر ریسرچ کی ضرورت ہے۔
حکیم محمد سعید صاحب مرحوم نے اس پر کام شروع کیا تھا لیکن افسوس ہے کہ وہ شاید پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔میرے کئی عرب دوستوں نے اس پر کام شروع کیا ہے، وہ متعدد کتابیں لکھ چکے ہیں۔ کلونجی کے فوائد پر ایک شامی ڈاکٹر نے کتاب لکھی ہے اور اپنی تحقیق کے مطابق مختلف بیماریوں میں کلونجی کے استعمال کے طریقے بھی لکھے ہیں۔ لیکن باقاعدہ و منظم شکل میں اس پر کام نہیں ہوا ہے۔ میری گزارش ہے کہ ڈاکٹرز کی یہ تنظیم اس کام کی طرف متوجہ ہو ۔اس سلسلے میں ہم سے جو خدمت ہوسکی ، ہم اس کے لیے حاضر ہیں۔
علاج معالجہ مسنون ہے
بہرحال علاج کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، آپ نے اس کی ترغیب بھی دی اور اس کے بہت سے طریقے بھی بتائے لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص علاج نہیں کرواتا تو ہم اسے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ایک شرعی فریضہ کو چھوڑے ہوئے ہے اور اس کے لئے علاج چھوڑناناجائز ہے ۔
فیصلہ کرنے والا مریض ہے،یعنی اگر میں بیمار ہوں تو میں فیصلہ کروں گا کہ میں علاج کروانا چاہتا ہوں یا نہیں ۔اُس کے لیے سنت ہے کہ علاج کروائے،لیکن فرض یاواجب نہیں۔لہٰذااگر میں فیصلہ کرتاہوں کہ میں علاج نہیں کرواتاتومجھے کوئی مجبورنہیں کرسکتا(۱)۔ لیکن یہ مریض اگر کسی طبیب کے پاس جاتا ہے علاج کروانے کے لیے کہ میرا علاج کرو تو طبیب کی ذمہ داری ہے کہ اس کا علاج کرے، انکار نہ کرے۔ تو دوسرا ا ہم اصول یہ ہے کہ علاج واجب نہیں ہے، فرض نہیں ہے۔صرف سنت ہے۔
موہوم علاج ناپسندیدہ ہے
تیسری بات یہ ہے کہ یہ ہدایت ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ملی ہے کہ ممکنہ حد تک مریض کے جسمانی عوارض،عمر، خاندانی ، مالی و دیگر حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اعتدال کے ساتھ علاج کرنا سنت ہے۔ یہ میں بہت احتیاط کے ساتھ الفاظ استعمال کررہاہوں ۔اعتدال کا مطلب ہے کہ نارمل طریقے سے جوعلاج ہے وہ تو سنت ہے۔لیکن نارمل سے آگے بڑھ کرایسے طریقے اختیار کرناجوExtreme قسم کے ہیں،وہ نہ واجب ہیں نہ سنت ہیں،صرف مباح (permissible)ہیں لیکن کراہت (ناپسندیدگی)کے ساتھ۔یعنی ایسےAbnormal طریقے جن میں مریض کی تکلیف کا پہلو زیادہ ہے یا یقینی ہے ،یا وہ انتہائی علاج ہے کہ اس سے شفایاب ہوناموہوم ہے، مثلاً 10%امید ہے کہ فائدہ پہنچ جائے90%خیال یہ ہے کہ فائدہ نہیں ہوگا اور تکلیف بھی ہوگی۔اس علاج کے بارے میں شریعت میں صرف اتنی بات نہیں ہے کہ اس کو ضروری نہیں سمجھاگیابلکہ اس سے بچنے کی طرف شریعت کا رجحان ہے۔ (۱)
یقینی علاج فرض و واجب ہے
بعض صورتیں علاج کی ایسی ہوتی ہیں جو فرض و واجب بھی ہوتی ہیں۔مگروہ صورتیں درحقیقت علاج میں داخل نہیں ہیں۔ جیسے ایک شخص پیاس سے مررہا ہو، اس وقت اس کے لیے پانی پینا فرض ہے۔ اگر نہیں پئے گا اور مر جائے گا تو خودکشی کا گناہ گار ہوگا۔یہاں تک اگر پیاس بجھانے کے لیے کوئی حلال چیزموجود نہیں ہے اور معاذاللہ شراب رکھی ہے جسے پی کر وہ جان بچا سکتاہے،اس وقت اس شخص کے ذمے شراب پینافرض ہے،اگر کوئی دوسری چیز موجود نہیں ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے پی کر جان بچائے کیونکہ پانی یا کسی سیال ( liquid) کا پیاس بجھادینا یہ ایک یقینی چیز ہے، لہٰذا شریعت نے جان بچانے کے لیے اسے اختیار کرنا واجب قرار دیا، نہ کرے گا تو گناہگار ہوگا۔ بخلاف علاج و دواوں کے، کہ دوا ئیں اتنی یقینی نہیں ہوتیں ۔ (۱)
دواؤں کے اندر یہ احتمال بھی ہے کہ فائدہ پہنچ جائے اور یہ احتمال بھی ہے کہ فائدہ نہ پہنچے بلکہ ہمارے ایک بزرگ ڈاکٹر تھے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ڈاکٹر صغیر احمد ہاشمی صاحب مرحوم، میرے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کا بہت علاج کیا کرتے تھے اورہم سب ان سے رجوع کیا کرتے تھے۔ اور ایک زمانے میں وہ لاہور کے گنگارام ہسپتال کے شاید سربراہ بھی تھے۔ میں نے کئی مرتبہ ان سے سنا کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ میری ساری زندگی کا تجربہ یہ ہے کہ دوا مریض کے بدن میں جانے کے بعد کسی اور سے پوچھتی ہے کہ کیا کروں؟ آیا اس کو فائدہ پہنچاؤں یا الٹا نقصان پہنچا دوں؟ وہی دوا جو ایک مریض کو ایک بیماری میں کارآمد تھی ،وہی دوا دوسرے مریض کو اسی بیماری میں نقصان پہنچا دیتی ہے۔
لہذا چونکہ (دوا سے فائدہ پہنچنا) یقینی نہیں ہے، اس لیے یہ فرض یا واجب نہیں ہے، البتہ بے شک سنت ہے۔ لیکن اگر اس سے شفا موہوم ہے، موہوم کا معنی ہے کہ مریض کی شفایابی کے امکانات بہت بعید ( Remote Chances) ہیں تو ایسا علاج نہ صرف یہ کہ فرض نہیں، واجب نہیں، سنت نہیں، بلکہ صرف جائز ہے، وہ بھی پسندیدہ نہیں۔
موہوم و تکلیف دہ علاج کی سنت سے مثال
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عرب معاشرے میں ایک علاج کا طریقہ تھا جسے الْکَیّ کہتے تھے ۔ جب کوئی شخص بیمار ہوتا تھا اور کسی بھی دوا سے اسے فائدہ نہیں ہوتا تھا تو پھر جسم کے اس حصے کو داغا جاتا تھا ۔لوہے کو گرم کر کے داغتے تھے اور اللہ جانے مزید کتنے طریقے ہوتے ہوںگے ۔اس پر ایک عرب ڈاکٹر کی ایک تفصیلی کتاب ہے جس میں انہوں نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس کس طریقے سے اس کو استعمال کیا جاتا تھا اور اس کے کیا کیا نتائج فائدے یا نقصان کے ہوتے تھے۔ عربی زبان میں یہ مقولہ مشہور تھاکہ “آخر الدواء الکی”( تمام علاج کے بعد آخری علاج کَیِّّ ّکے ذریعے ہوتا ہے)(۲)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ” کَی ّ” کے طریقے کو پسند نہیں کیا بلکہ اس سے روکااور فرمایا:
وَأَنْہٰی أُمَّتِی عَنِ الْکَیِّ
ترجمہ: میں اپنی امت کو کیّ سے روکتا ہوں۔ (۱)
ان لوگوں کی فضیلت بیان کی جو کَیِّّ کا علاج نہیں کرتے۔ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ستر ہزارافراد ایسے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ بلا حساب کتاب جنت میں داخل کریں گے(اور ان ستر ہزار میں سے ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے(۲) ۔ تو عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے کہ اے اللہ کے رسول میرے لیے دعا کریں کہ میں بھی ان میں ہوجاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے دعا کردی تم انہی میں سے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ مرتبہ عطا فرمادیا۔ اس کے بعد ایک اور صاحب کھڑے ہوگئے کہ میرے لیے بھی دعا فرمادیں، آپ نے فرمایا کہ عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تشریح فرمائی کہ یہ کون لوگ ہوں گے جو بلاحساب کتاب داخل ہوںگے تو فرمایا کہ ان میں وہ لوگ ہیں جو لَا یَکْتَوُونَ یعنی وہ جو کیّ کا علاج نہیں کرتے اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں(۳)۔ چونکہ جب کوئی طریقہ علاج معاشرے میں بہت رائج ہوجائے تو اس کے خلاف بولنا یا اس سے بچنا مشکل ہوتا ہے ، اس لئے کَیِّ نہ کرنے والوں کی اتنی بڑی فضیلت بیان فرمائی۔
لہذا ایسا extremeعلاج جو تکلیف دہ بھی ہو(۴) اور موہوم بھی ہو، اس کو کرنے کے بجائے بندہ اللہ پر بھروسہ کرے کہ اے اللہ!آپ ٹھیک کرنے والے ہیں! میں اس علاج کے پیچھے نہیں پڑتا۔ تو یہ پسندیدہ ہے۔
علاج معالجہ کے درجات
آپ نے دیکھا کہ انسان کو موت سے بچانے کے لیے بعض چیزیں فرض ہیں جیسے پیاسے کے لیے پانی پینا فرض ہے،بعض چیزیں فرض نہیں،واجب نہیں،مسنون ہیں جیسے نارمل طریقہ علاج،تیسراوہ جس سے شفایابی موہوم ہواور اس سے تکلیف بھی پہنچ رہی ہو،تکلیف چاہے جانی ہو یامالی ہو یاکسی بھی قسم کی ہو،تواس کو کرنانہ صرف یہ کہ فرض ،واجب یا سنت نہیں ہے بلکہ اس کو چھوڑدینا بہتر ہے(۱)۔ اگر کرے گا تو بھی گناہ گار تو نہیں ہوگا لیکن اگر چھوڑ دے گا تو بھی گناہ گار نہیں ہوگا ۔
علاج میں تکلیف سے بچنا چاہیے
آخری بات یہ ہے کہ مریض کا جس طریقہ سے علاج کرناپسندید ہ ہے، اس میں اس بات کی بھی ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں اہمیت نظر آتی ہے کہ اگر کوئی ایسا طریقہ موجود ہو جس میں تکلیف نہ ہو تو حتی الامکان تکلیف دہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی بچوں کے گلے میںTonsilsنکل آتے تھے ،تواہلِ عرب کے یہاں رواج تھاکہ خاص ماہر عورتیں ہوتی تھیں،جو Tonsilsکو دبایا کرتی تھیں،دباکر یاتو اللہ جانے پھوڑدیتی تھیں یاکسی اور طرز کا علاج کرتی تھیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو فرمایا:
عَلَی مَا تَدْغَرْنَ أَوْلَادَکُنَّ بِہَذَا الْعِلَاقِ، عَلَیْکُنَّ بِہَذَا الْعُودِ الْہِنْدِیِّ(۱)
ترجمہ:کیوں بچوں کو گلا دباکر تکلیف دیتی ہو؟ قسط ہندی استعمال کرو
قسط ہندی ایک دوا ہوتی ہے ،اب بھی ملتی ہے،اس لئے ہندی کہلاتی ہے کہ ہندوستان میں اس کا زیادہ رواج تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچوں کو قسط ہندی کاسفوف پلایاکرو۔لہٰذاجوعملی علاج تھا،اس سے روکا اور ایسی دوائی بتائی جو اس کام میں مفیدہے۔
اب تو ہم رفتہ رفتہ پرانی چیزوں کی طرف لوٹ کر آرہے ہیں۔ ایک زمانے میں کسی کو پتہ بھی نہیں ہوتا تھاکہ اسپغول کیا چیزہوتی ہے اوراب ہر ڈاکٹر اسپغول کی تاکید کرتاہے۔ پہلے کیمیائی دواوں کی طرف زیادہ رحجان ہوتاتھا،اب organicچیزیں زیادہ پسند کی جانے لگی ہیں ۔اب رفتہ رفتہ قسط بھی واپس آرہی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے گلے کے لئے تجویز فرمائی تھی ۔ نزلہ زکام کے اندرخود ہمارا اپنا تجربہ ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے قسط سے فائدہ ہوتا ہے۔
عیادت کا اصل مقصد
تو ایک بات تو یہ ہے کہ علاج کا کوئی سیدھا سادا طریقہ ہو جس میں تکلیف کم ہو، ایسا طریقہ اختیار کرنا جس میں تکلیف ہو ،یہ بھی پسند نہیں کیا گیا۔اور ساتھ ہی مریض کی راحت رسانی،اس کو آرام دینا،ذہنی آرا م،نفسیاتی آرام اس کے لئے احادیث میں بڑی زبردست ہدایات موجود ہیں۔یہ عیادت کاجو حکم ہے ، یہ دراصل مریض کوتسلی دینے کا ایک راستہ ہے اوراس کی بڑی فضیلت بیا ن کی گئی ہے کہ کوئی شخص کسی مسلمان کی عیادت کے لیے جائے تو اللہ تعالیٰ کے ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں(۲) ۔ یہ فضیلت کیوں ہے؟ اس لئے کہ عیادت سے مریض کو تسلی ہوتی ہے۔
البتہ باریک بینی سے یہ بھی فرمایا گیاکہ عیادت ہلکی پھلکی کرنی چاہیے۔ یہ نہیں کہ عیادت کرنے والا مریض کے پاس جم کر بیٹھ جائے ، جس کے نتیجہ میں مریض کو تکلیف ہورہی ہو۔بس دعاکرے، خیریت پوچھے اور واپس آجائے۔یہ کرنا غلط ہے کہ آدمی بس وہاں جاکر بیٹھ گیا،زیادہ دیر وہاں گزار رہاہے،مریض کے سر پر بوجھ ہورہا ہے۔حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا جب آخری وقت تھا تو لوگ عیادت کے لیے آرہے تھے۔ اب لوگ باربا رآرہے ہیں اور دیر تک بیٹھے ہوئے ہیں۔جب بہت سے لوگ چلے گئے تو ایک صاحب پھر بھی بیٹھے رہے ،تو عبداللہ بن مبارک کے منہ سے نکلاکہ یہ آنے جانے والوں نے الگ مشکل میں ڈالا ہواہے تووہ صاحب کہنے لگے کہ حضرت !یہ دروازہ بند کردوں؟ توانہوں نے فرمایا کہ ہاں!مگر باہر سے بند کرنا(۱)۔ تو یہ ایک ہدایت دی گئی ہے کہ عیادت کے بھی آداب ہیں۔یہ نہ ہو کہ بجائے اس عیادت سے فائدہ پہنچنے کے نقصان پہنچ جائے۔راحت مقصودہے۔اگر راحت اس میں ہے کہ ملاقات ہی نہ کرے توبس وہیں سے دعا کرکے آجائے ،جیسے بعض اوقات ملنابذاتِ خود مریض کے لیے نقصان دہ ہوجاتا ہے تواس وقت اصرار کرناکہ میں جاوں گااور مریض کی شکل دیکھوں گا ۔یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔
Palliative Care اور اسلام
بہر حال یہ چند بنیادی اصول تھے جن کاحاصل یہ ہے کہ مریض کو سکون پہنچاناچاھئے۔یہ Palliative Care کی جو بات ہورہی ہے اُس کا حاصل بھی یہ ہے کہ جب کسی شخص کی مکمل شفا ممکن نظر نہیں آرہی تو کم ازکم اسے ایسی ادویہ فراہم کی جائیں یا ایسے طریقے اختیار کئے جائیں جن کے نتیجہ میں اسے سکون حاصل ہو۔یہ اسلام کے عین مطابق ہے اور اس کے اندرمزیدکسی پریشانی کی بات نہیں ہے ۔البتہ اس سلسلے میں جو کچھ سوالات ہیں ، ان کے بارے میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ اصول ذہن میں رہیں تو بہت سے سوالات کا جواب خود بخود مل جائے گا،باقی سوالات کے جوابات Panel discussionمیں دینگے۔
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین
سوال و جواب
خاتمہ بالخیر کا مطلب
سوال:خاتمہ بالخیر ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ اور اس کی فکر کرنا اور مریض کو ترغیب دینا کیسا ہے؟
جواب: خاتمہ بالخیر کے معنٰی یہ ہوتے ہیں کہ آدمی کا انتقال ایمان کی حالت میں ہو اور اگر ممکن ہوتو کلمہ طیبہ اس کا آخری کلمہ ہو۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مریض سے یہ کہا جائے کہ تمہارا خاتمہ بالخیر ہونے والا ہے تم کلمہ پڑھ لو۔ اس کا شریعت نے یہ طریقہ رکھا ہے کہ جب کسی شخص کا یہ حال نظر آرہا ہو کہ اس کا دنیا سے جانے کا وقت آگیا ہو تو آس پاس کے لوگ کلمہ پڑھتے رہیں، اس سے نہ کہیں کہ تم پڑھو۔ اس کو شریعت کی اصطلاح میںتلقین کہتے ہیں اور یہ مستحب ہے(۱)۔
حرام دوا کی گنجائش
سوال: ایک 85 سالہ خاتون ہیں جن کو End Stage Heart Disease ہے۔ ان کی فیملی ان کی بیماری اور ان کی Palliative Case سے واقف اور آگاہ ہے۔ وہ اس وقت شدید سانس کی تکلیف Severe Respiratory Distressed میں ہیں۔ تمام ممکنہ میڈیکل علاج کے باوجود ان کی حالت مزید خراب ہورہی ہے۔ ڈاکٹر نے ان کوسانس کی تکلیف کم کر نے کے لیے Morphine دینا شروع کیا اور فیملی سے ذکر کیا۔ فیملی کا خیال ہے کہ Morphine حرام ہے۔ لہذا اس مسئلہ میں شریعت کی کیا راہنمائی ہے؟
جواب Morphine: میں نشہ آور اجزاء موجود ہیں۔ لیکن شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب کسی شخص پر کوئی اور دوا اثر نہ کرے تو اس صورت میں کسی حرام چیز کا بقدر ضرورت استعمال جائز ہوجاتا ہے(۱)۔ یہاں پر بھی اگرچہ Morphine میں شاید افیون ہوتی ہے، عام حالت میں اس کی اجازت نہیں ہے، لیکن اگر درد کی شدت ہے، پریشانی ہے اور کسی جائز ذریعہ سے درد کم نہیں ہورہا ہے تو اس صورت میں اس کا استعمال شرعاً جائز ہے۔ یہ بات خود ڈاکٹر کے فیصلہ کرنے کی ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور دوا سے کام چل سکتا ہے یا نہیں۔ اگر کوئی اور طریقہ نہیں ہے اور مریض تڑپ رہا ہے تو وہ مریض کو مارفین دے سکتا ہے۔ اور ظاہر یہ ہے کہ یہ بھی ڈاکٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا خیال رکھے کہ اتنی مقدار میں مارفین دی جائے کہ کوئی Side Effect نہ پیدا ہو، اور یہ تو ہرصورت میں دیکھنا چاہیے۔
سوال: حفظِ نفس کے حوالے سے تو یہ رخصت دی جاتی ہے لیکن کیا درد کو کم کرنے کے لیے بھی حرام دوا کو استعمال کرنے کی رخصت مل جاتی ہے؟
جواب: جی بالکل۔ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ یا تو ایسی بیماری ہو جس کی کوئی جائز دوائی میسر نہ ہو یا درد اتنا شدید ہو کہ موت کا تو امکان نہ ہو لیکن درد ناقابلِ برداشت ہو توشریعت نے اس صورت میں حرام دوا کو استعمال کرنے کی رخصت دی ہے۔
Ventilator کے شرعی مسائل
سوال: ایک36سالہ شخص کو دل بند ہوجانے (Cardiac Arrest) کے باعث چاردن رکھا جاتا ہے۔ وہ مستقل بے ہوش ہے اور اپنے دل اور بلڈپریشر کے لیے مکمل طور پر دوائیوں اور Ventilator پر انحصار کر رہا ہے۔ مریض کے متعلقین کو شروع ہی سے اس کی بگڑی ہوئی صورت حال کے بارے میں آگاہ رکھا گیا ہے۔ اور اب جب ڈاکٹروں کو بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی تو مزید کسی اضافی علاج کو روک دینے یعنی ( Do Not Resuscitate) اور دوائی نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں اور متعلقین کو آگاہ کرتے ہیں لیکن متعلقین کا کہنا ہے کہ اسلام کوشش چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔
سوال کی مزید وضاحت: یہ نوجوان مریض تھا، اسے ICUمیں بہترین ٹریٹمنٹ دی گئی، کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی لیکن اس کے باوجود اب مریض میں کوئی بہتری نہیں آرہی ہے اور ماہرین طب دیکھ رہے ہیں کہ میڈیکل سائنس کے تناظر میں اس میں بہتری( Reversibility) نظر نہیں آرہی ہے ۔ یہاں DNR کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ تمام تدابیر چھوڑدیں اور مریض کو مرنے دیں، اس کا مطلب ہے کہ خدانخواستہ مریض کا دل اگر خود سے کام کرنا چھوڑ دے تو آپ اسے Revive کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
اس سوال میں جو پوچھا جارہا ہے وہ ہےWithdrawal of Care ، یعنی مریض پہلے سے Ventilator پرہے، Artificial Support پر ہے، اور اسے Extraordinary Artificial Measure پر خلاف ِفطرت زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں تو ہمیں اپنے وسائل (Resources) کا بھی سوچنا چاہیے۔ پاکستان میں وسائل کم یاب ہیں، ایک Ventilator ہوتا ہے اور 50مریض ہوتے ہیں۔
جواب: میں اپنی ابتدائی گزارشات میں عرض کر چکا ہوں کہ پہلے تو علاج کو بذاتِ خود فرض سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر کسی خاص موقع پر علاج کو روک دیا جائے تو یہMurder by Omission ہے، آپ پر ضروری تھا کہ علاج جاری رکھتے، آپ نے علاج جاری نہ رکھا اور اس چیز کو ہٹالیا جس پر اس کی زندگی کا دارومدار تھا تو آپ بھی قاتل ہیں ۔یہ ایک تصور ہے لیکن شریعت میں ایسا کوئی تصور نہیں ہے ۔جیسا میں نے عرض کیا کہ علاج بذات خود کوئی فرض و واجب نہیں اور Extraordinary طریقے اختیار کرناپسندیدہ نہیں۔ لہذا پہلے تو اس Ventilator کو لگانا بذاتِ خود Extraordinary علاج ہے جو فرض، واجب، سنت ، مستحب، پسندیدہ بھی نہیں، البتہ جائز ہے اگر مریض مالی و جسمانی اعتبار سے اس کا تحمل کرسکتا ہو اور اس میں مریض کے cure کی امید بھی ہو۔
اسی طرح اگر کوئی شخص Ventilator پر ہے اور مصنوعی طریقے سے اس کا دل اور سانس چلایا جارہا ہے تو یہ ضروری نہیں کہ اس کو ہمیشہ اس پر رکھا جائے بلکہ اس کو Withdraw کرنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی قباحت نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پسندیدہ ہے۔ لہٰذا ان طریقوں کا Withdraw کرلینا جو مصنوعی طریقے سے دل و سانس کو جاری رکھے ہوئے ہیں تو بالکل واضح جواب ہے ، بغیر کسی شک و شبہ کے، یہ شرعاً جائز ہے۔ یہ بالکل واضح جواب ہے۔لہذا نہ توVentilator لگانا فرض و واجب ہے اور نہ ہی اس کا ہٹالینا ناجائز ہے۔ یہ طبیب کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ مریض کے حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے۔ اگر وہ ہٹالینے کا فیصلہ کرے تو یہ خلافِ شریعت نہیں اور کوئی غیر اخلاقی بات بھی نہیں ہے۔ اگر تیماردار Ventilator لگے رہنے پر اصرار کریں تو انہیں سمجھایا جائے کہ یہ آپ کی کوئی شرعی ذمے داری نہیں ہے، پھر بھی آپ ایسا کرنا چاہتے ہیں تو گھر پر کرسکتے ہیں لیکن ہسپتال میں ڈاکٹرز سے Ventilator لگے رہنے کا مطالبہ کرنا قابلِ قبول نہیں ہے۔
باقی یہ دوسرا مسئلہ ہے کہ موت کی تعریف کیا ہے۔ آیا وہ دماغ کی موت کوموت کہیں گے یا دل کی موت ہی اصل موت ہے۔ اگر فرض کریں کہ یہ بھی سمجھا جائے کہ دماغ کی موت موت نہیں ہوتی ہے، بلکہ جب تک دل حرکت کرتا رہے، چاہے مصنوعی طریقوں سے ہی ہو، اس شخص کو زندہ تصور کیا جائے گا جب بھی ان مصنوعی طریقوں کا شرعاً ہٹا لینا جائز ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ پسندیدہ ہے۔
سوال: ایک ۲۰؍ سال کی لڑکی کو Transverse Myelitis ہے، اس کے ہاتھ پاؤں اور سانس کے پٹھے مفلوج ہوگئے ہیں، یعنی فالج کا شکار ہوچکے ہیں۔وہ لڑکی ہوش میں تو ہے لیکن اس کے نیچے کے حصے کا سارا جسم مفلوج ہے۔ اس کو مخصوص طریقے سے علاج کا کوئی فائدہ نہیں ہوا جس کی وجہ سے اس کی زندگی کا دارومدار صرف اور صرف Ventilator پر ہے۔ ہسپتال میں طویل عرصے تک Ventilator پر رکھنے کی سہولت نہیں ہے اور متعلقین اس کا انتظام گھر میں کرنے سے قاصر ہیں۔ ہسپتال میں اسے یکے بعد دیگرے ایک انفیکشن ہوا پھر ایک Complication ہوئی ، پھر دوسری Complication ہوئی ۔ اب الجھن یہ ہے کہ مریض چونکہ ہوش میں ہے ،دماغ اپنی جگہ ٹھیک ہے، گردن سے نیچے کا حصہ مفلوج ہے، تو اس میں Ventilator ہٹانے کے بارے میں شریعت کی کیا راہنمائی ہے؟
ایک پہلو اس میں یہ بھی ہے کہ اس طرح کے مریضوں کا بل لاکھوں روپے سے تجاوز کرجاتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس مریض کو جو انفیکشن ہورہے ہیں وہ مسلسل اپنی Resistance بڑھاتے چلے جارہے ہیں۔ ہم جب Infectious Diseases کے ڈاکٹر سے مشورہ کرتے ہیں تو ایک وقت پر آکر وہ کہتے ہیں کہ اب ہم کسی انفیکشن کے لیے اس کا مزید علاج نہیں کریں گے۔ پس ہمارے پاس یہ Choice رہ جاتی ہے کہ ہم مریض کو ایک قیمتی بستر پر چھوڑ دیں جو دیگر بہت سے مریضوں کی زندگی بچاسکتا ہے۔وہ انفیکشن مسلسل اپنی Resistance بڑھاتے چلے جارہے ہیں ، اور اب تو اینٹی بائیوٹکس بھی اپنا اثر کم کرتی جارہی ہیں۔اب ہم یا تو کسی انفیکشن کا انتظار کریں جو آکر اسے اللہ تعالی کے پاس لے جائے یا ہم اس کے متعلقین کو شرعی رہنمائی سمجھائیں اور ایک جیتے جاگتے انسان کو جو ہم سے باتیں کررہاہے اس کا Ventilator بند کردیں۔
جواب: یہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ جہاں Ventilatorکو ہٹانے کی ضرورت ہے اور اسے جاری رکھنا مصلحت کے خلاف ہے تو شریعت نے بھی اس پرپابندی نہیں لگائی ہے کہ اسے ہمیشہ Ventilator پر رکھا جائے، البتہ کسی شخص کے Ventilatorپر رکھنے کی وجہ سے اس کے Cure کی امید ہے اور اسی ہسپتال میں دوسرا شخص بھی اسی نوعیت کے مرض کا آجاتا ہے جسے بھی Ventilatorکی ضرورت ہے، اور ہسپتال میں مزید بستر خالی نہیں ہے، تو اس صورت میں کس کو ترجیح دیں؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ انسان اپنی کوشش کی حد تک محنت کا مکلف ہے تو ایک شخص پہلے آچکا ہے اور اس کا علاج ہورہا ہے ،ایسی صورت میں اس کو نکالنا اور دوسرے کو داخل کرلینے کی گنجائش مجھے نظر نہیں آتی۔ دوسرے شخص کے لیے Ventilator یہاں نہیں ہے تو وہ کسی دوسری جگہ علاج کراسکتا ہے۔
سوال: ایک نوجوان مریضہ ہے جو گھر میں بے ہوش پائی گئی اسے CPR کے بعد Ventilator پر ڈال دیا گیا۔24 گھنٹے گزرجانے کے باوجود وہ ہوش میں نہیں آرہی۔ طبی بنیادوں پر اس کے دماغ کو مردہ قرار دیا جاچکا ہے۔ اور اس کی زندگی کا دارومدار صرف اور صرف Ventilator اور دوائیوں پر ہے۔ لہٰذا Ventilator ہٹانے کا شریعت میں کیا حکم ہے؟
جواب: اس کا جواب پچھلے جوابات میں دیا جاچکا ہے۔
صبر و علاج
سوال: ایک 70 سال کا مریض جسے پھیپھڑوں کا Stage 4 کا کینسر ہے اور وہ جگر اور ہڈیوں تک پہنچ چکا ہے اور Chemoبھی فیل ہوچکی ہے۔ اب صرف معاون طریقہ علاج یعنی Supportive and Comfort Care پر موجود ہے۔ اب درد کی شدت کم کرنے کے لیے جب ڈاکٹر دوا دینے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ یہ کہہ کر درد کی دوا لینے سے انکار کر دیتا ہے کہ جب میں اس دنیا میں تکلیف برداشت کروں گا تو آخرت میں تکلیف کم ہوگی اور یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے۔ اس سلسلے میں شریعت کی کیا راہنمائی ہے؟
جواب: کسی صاحب کا اپنے طور پر یہ فیصلہ کرنا کہ میں دافعِ درد( Painkiller) دوائیں نہیں لوں گا، یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے، اس کے بعد اس کو مجبور کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی مجبور کرنا مناسب ہے، نہ ہی مجبور کرنے کی شرعاً اجازت ہے۔ اگر کوئی شخص اس بات کو برداشت کر رہا ہے کہ میں اپنے درد کو برداشت کروں گا اور اس کے ذہن میں آخرت کا تصور بھی ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کو اس سے روکا جائے۔ البتہ اس کو ترغیب دی جاسکتی ہے کہ بھائی!ایسا نہ ہوکہ یہ درد اتنی شدت اختیار کر جائے کہ کسی وقت تم ناشکری کی طرف جانے لگو۔ لہٰذا( Painkiller) استعمال کرلو تو بہتر ہے۔لیکن مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ ترغیب دی جاسکتی ہے۔
اصل میں مریض کو سمجھانے کی ضرورت اس لئے بھی ہوتی ہے کہ انسان شروع میں بعض اوقات جذبات میں فیصلہ کرلیتا ہے پھر بعد میں معاملہ الٹا ہوجاتا ہے، توکل کے جذبات پیچھے چلے جاتے ہیں اور ناشکری کے احساسات آجاتے ہیں کہ یااللہ! میں نے آپ پر بھروسہ کرکے یہ کیا تھا آپ نے میرے ساتھ کیا کردیا۔
آدمی کا اللہ تعالی کے سامنے بہادر بننا بھی اچھی بات نہیں ہے۔ یہ کوئی بندگی کی بات بھی نہیں ہے۔ میرے بھائی مرحوم زکی کیفی صاحب کا ایک پیارا شعر ہے:
اس قدر بھی ضبطِ غم اچھا نہیں توڑنا ہے عشق کا پندار کیا
لہٰذا ترغیب دی جاسکتی ہے لیکن مجبور نہیں کیا جاسکتا (۱)۔
سوال: اس صورت میں بعض اوقات ڈاکٹر سمجھتے ہیں کہ مریض اس Mental Capacity میں نہیں ہے کہ وہ فیصلہ کرسکے کیونکہ وہ Confuse ہے یا دیگر وجوہ ہیں۔ تو اگر ڈاکٹر سمجھے کہ وہ ذہنی طور پر فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہے تو کیا بحیثیت ڈاکٹر ہم اس کے اس فیصلہ کو Override کرسکتے ہیں کہ وہ درد کی دوائی نہیں لینا چاہتا؟
جواب: جب اس کی ذہنی حالت ایسی ہے اور ظاہری طور پر لگ رہا ہے کہ وہ خودفیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو یا تو اس وقت کا انتظار کیا جائے جب اس کی ذہنی حالت ایسی ہوجائے کہ وہ صحیح فیصلہ کرسکے اور اگر نہیں ہے، تو اس نے بہر حال اپنے آپ کو آپ کے حوالے کیا ہوا ہے لہٰذا ڈاکٹر ہی اس کی طرف سے فیصلہ کر کے Painkiller دے دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
ناقابلِ برداشت مہنگاعلاج تجویز کرنا
سوال: دس سال کا غریب گھرانے کا بچہ ہے جسے خون کا کینسر ہوگیا ہے۔ اس کا ایک سال پہلے علاج ہوچکا تھا لیکن بد قسمتی سے دوبارہ ہوگیا ہے۔ اب سوائے Bone Marrow Transplant کے کوئی اور طریقہ نہیں بچا ہے۔ اب نہ ہسپتال، نہ ہی بچہ کی فیملی اس علاج کے اخراجات برداشت کرسکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں مریض کے گھر والوں کو مہنگے علاج کی خبر دیں یا یہ کہہ دیں کہ یہ لاعلاج مرض ہے؟ یہ آج کل کینسر کے علاج کا Dilemma ہے کہ بعض ڈاکٹر ایک موہوم Survival پر بہت مہنگا علاج تجویز کر دیتے ہیں جس کے لئے بسا اوقات مریض اپنا گھر یا جائیداد تک بیچ دیتاہے۔ بعض اوقات اس کے لئے اخبارات میں Ad آجاتا ہے کہ ایک غریب بچہ کے Transplant کی ضرورت ہے آپ 40لاکھ عطیہ دیں۔
جواب: (یہ جواب مفتی نجیب احمد خان صاحب نے دیا ۔حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے تائید فرمائی۔) حضرت نے جو اصول بیان فرمایا تھا کہ (ایسا موہوم علاج جو مالی تکلیف میں مریض کو ڈالے، وہ پسندیدہ نہیں) اس کے ذیل میں یہ مسئلہ آتا ہے۔ اب جب ڈاکٹر کو پتہ ہے کہ یہ Transplant ایک طریقہ علاج ہے اور بسا اوقات یہ علاج ہو بھی جاتا ہے اور اکثر نہیں ہوتا تو صحیح شرعی طریقہ تو یہ ہوگا کہ ہم اس کو پوری بات واضح طور پر بتادیں کہ دیکھو یہ مہنگا علاج ہے اور اپنے آپ کو مشقت میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ اس میں فائدہ کے Chances کم ہیں۔ بات پوری کرنی چاہیے نہ کہ کوئی اور بات جو جھوٹ کے زمرے میں آجائے۔بہرحال اپنی طرف سے تجویز دے دیں کہ میری رائے ہے کہ آپ یہ علاج نہ کریں۔
زیادہ مریض اورکم وسائل
سوال: ایسے ادارے جو زکوۃ و خیرات سے مریضوں کا علاج کرتے ہیں اور ان کے پاس محدود فنڈ ہوتا ہے۔ اس صورت میں یہ اصول بنانا کہ ہسپتال ایسا مہنگا علاج صرف ان مریضوں کا کرے گا جن کی شفایابی کا امکان مثلاً 25فیصد سے زیادہ ہوگا ۔ تو یہ پالیسی بنانا شرعی لحاظ سے کیسا ہے؟
جواب: اگر دومریض ایک ساتھ ہسپتال میں آتے ہیں اور بستر صرف ایک ہے تو آپ صرف اُس مریض کو داخل کریں جس کے شفایابی کے امکانات زیادہ ہیں،یہ ٹھیک ہے۔لیکن اگر ایک مریض پہلے سے موجود ہے اور اب اس حالت پر پہنچ گیا ہے کہ اس کی صحتیابی کے امکانات دس فیصد سے کم ہیں، آپ اس کا بستر اس لیے خالی کروانا چاہتے ہیں کہ دوسرا بہتر حالت والا مریض آگیا ہے، یہ ٹھیک نہیں کیونکہ وہ آپ کے پاس پہلے سے داخل ہے۔اس کی ذمے داری تو آپ لے چکے ہیں ۔ البتہ اگر صحتیابی کا کوئی امکان بالکل ہی باقی نہ رہے تو بے شک آپ دوسرے مریض کو داخل کرسکتے ہیں۔
سوال: ایک بچی ہے جو کہ متعدد مسائل کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہے لیکن اب تک حتمی بیماری کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ڈاکٹر علاج کی کوشش توکر رہے ہیں لیکن صحتیابی کے بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتے۔ اس دوران ایمرجنسی میں ایک اور بچی سخت بیماری میں آتی ہے جسے فوری داخلے کی ضرورت ہے اور اس کی بیماری قابلِ علاج بھی ہے۔ لیکن ہسپتال میں کوئی بستر موجود نہیں ہے۔ ایسی صورت میں ڈاکٹر کو کیا کرنا چاہیے؟ یعنی پہلے سے آئے ہوئے undiagnosed مریض کو ڈسچارج کرکے بعد میں آنے والے قابلِ علاج مریض کو داخل کرلینا اخلاقی و مذہبی لحاظ سے کیسا ہے؟
جواب: یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے اور اس میں کوئی Hard and Fastبات کہنا مشکل ہے کیونکہ صورتحال مختلف ہوسکتی ہے۔ موجودہ مریض اور آنے والے مریض کے احوال کو دیکھ کر وقت پر موجود ڈاکٹر کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ میں کیا کروں؟ اتنی بات ضرور ہے کہ ایک اصول ہے lesser evil کا، جسے عربی میں اہون البلیتین کہا جاتا ہے(۱)۔ یعنی دو پہلوؤں میں سے کم نقصان دہ پہلو کو اختیار کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی Hard and Fast بات کہدینا کہ ہمیشہ ایسا ہی کرنا چاہیے، میں سمجھتا ہوں کہ غیر محتاط ہوگا۔
Advance Directivesکی شرعی حیثیت
سوال: کیا اسلام اجازت دیتا ہے کہ کوئی انسان اپنی صحت و علاج کے بارے میں پیشگی ہدایات ( Advance Directives) دے سکے؟
Advance Directives DNR کے ساتھ ساتھ ہی آتا ہے۔ دراصل ڈاکٹر صاحبان کسی مریض کو تین طریقوں سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں:
۱۔Electrical: اس میں shocks دیے جاتے ہیں۔
۲۔Mechanical: اس میں Mechanical ventilation بھی شامل ہے۔
۳۔Chemical: وہ Chemical جن سے بالکل آخری وقت میں rhythm تبدیل ہوتے وقت ہم اس کو support کرتے ہیں۔
اس قسم کی چیزوں سے متعلق مغرب میں یہ کلچر ہے کہ اٹھارہ سال سے زائد عمر کا شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے کبھی بھیintubate مشین پر نہ ڈالیے گا یا مجھے اس قسم کی دواؤں پر مت رکھیے گا، چاہے کبھی بھی ضرورت پڑے۔ اس کی اس بات کوhonorکیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر کو اگر یہDocument Advance Directive مل جائے تو وہ اسکو follow کرتے ہیں۔
اب یہاں یہ صورتحال آتی ہے کہ ایک آدمی اس طرح کی وصیت کرچکا ہے، لیکن جس وقت وہ ہسپتال میں لایا گیا اس وقت اس کی حالت ایسی نہیں کہ اس سے بات چیت کی جائے۔ دوسری طرف اس کے متعلقین کا اصرار ہے کہ اسے vent پر ڈالیں۔ اب ڈاکٹر اس وصیت پر عمل کرے یا متعلقین کی رائے پر عمل کرے؟
جواب: وصیت کو مقدم رکھا جائے گا اس صورت میں جبکہ vent پر ڈالنا محض Artificial Support ہو۔ لیکن اگر vent سے صحتیابی کے بہت زیادہ امکانات ہوں تو متعلقین کی بات کو وزن دینا چاہیے کیونکہ بظاہر آدمی جب اس طرح کی وصیت کرتا ہے تو اس سے اس کا مقصد بلاوجہ تکلیف سے بچنا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ محض مصنوعی کارروائی کو پسند نہیں کرتا۔ لہذا اگر ڈاکٹر سمجھے کہ یہ کارروائی صحتیابی کا سبب بن سکتی ہے اور فیملی کی بھی یہی رائے ہو تو ایسی صورت میں vent پر ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
سوال: جناب مفتی صاحب! آپ نے فرمایا تھا کہ موہوم و مشکل علاج کوavoid کرنا چاہیے۔لیکن عرض یہ ہے کہ Medical Trials ایسے ہی ہوتے ہیں۔ شروع میں 5% فائدہ ہوتا ہے، پھر10% ، gradually فائدہ بڑھتا ہے۔ لہذا اگر کسی علاج سے شروع میں 5% فائدہ ہو تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: میں نے یہ عرض کیا تھا کہ ایسا موہوم علاج ناجائز نہیں ہے لیکن اگر تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو، side effects ہوں تو avoid کرنا بہتر ہے، ناجائز پھر بھی نہیں ہے۔ لہذا جہاں فائدہ بڑھنے کے امکانات ہوں تو وہاں ایسے علاج میں کوئی حرج نہیں ہے۔
Brain Death کی شرعی حیثیت
سوال: اگر کوئی شخص Ventilatorکو ذاتی طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میرے پاس وسائل ہیں ، میں گھر میں Ventilator استعمال کروں گا۔ مجھے میرا فیملی ممبر سانس لیتا نظر آتا رہے ، اس لیے میں Ventilator کو جاری رکھوں گا ، چاہے اس میں بہتری کے امکانات ہوں یا نہ ہوں۔ کیا یہ عمل گناہ کے زمرے میں آتا ہے؟
جواب: نہیں ، یہ گنا ہ نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ ایسے موہوم طریقے واجب نہیں، سنت نہیں ، لیکن ناجائز بھی نہیں، محض ناپسندیدہ ہیں، لیکن ایک آدمی اپنے رشتے دار کو سانس لیتا دیکھنا چاہتا ہے اور Ventilator پر رکھنا چاہتا ہے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔
سوال: اگر Brain Death ہوچکی ہو اور وہ Irreversible ہو، تب بھی؟
جواب: یہ مسئلہ بہت تفصیلی اور پیچیدہ ہے۔ یہ کہنا کہ Brain Death موت ہوتی ہے یا دل کی ڈھڑکن کا بند ہوجانا بھی ضروری ہے، یہ ایک پیچیدہ سوال ہے ، جس میں ڈاکٹر صاحبان کی رائے بھی مختلف ہے۔ہم نے اس پر OICکی فقہ اکیڈمی میں دواجلاس رکھے جس میں ڈاکٹر صاحبان بھی تھے اور فقہائے امت بھی تھے۔ ان سب کی موجودگی میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا ۔ خود ڈاکٹر صاحبان کی رائے مختلف تھی۔ کوئی کہتا کہ Brain Death موت ہوتی ہے اور کوئی اس سے اختلاف کرتا ۔
اصل میں اس مسئلہ کا تعلق Ventilatorسے نہیں ہے کیونکہ موت ہوئی ہے یا نہیں ، Ventilator ہٹانا بہر صورت جائز ہے۔ یہ بات تو واضح ہے۔مسئلہ جو پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ موت کی تعریف سے بہت سے شرعی مسائل پیدا ہوتے ہیں، مثلاً عدت و وراثت۔کیونکہ جس point پر موت شمار ہوتی ہے اسی وقت سے عدت شروع ہوتی ہے۔ فرض کریں کہ شوہر کا انتقال ہوا ہے تو موت کے وقت سے ہی بیوہ کی عدت شروع ہوتی ہے۔ اس صورت میں آیا عدت اس وقت سے شروع ہوگی جو Brain Death کا point ہے یا اس وقت سے جب دل بند ہوا تھا؟ اسی طرح وراثت کے مسائل میں فرق پڑجاتا ہے۔ فرض کریں کہ جس وقت Brain Death ہوئی اس وقت مریض کا ایک وارث زندہ تھا لیکن جب دل کی ڈھڑکن بند ہوئی تو وہ وارث بھی فوت ہوچکا تھا۔ اب سوال یہ ہوگا کہ وہ شخص اس مریض کا وارث شمار ہوگا یا نہیں؟
لہذا اس بحث کا تعلق علاج سے نہیں ہے ۔ Brain Death کو چاہے اصلی موت قرار دیں یا دل کی موت کو ، دونوں صورتوں کا Ventilator کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سوال: میرا تعلق Chest Compressionسے ہے۔ میں کئی سالوں سے یہ تعلیم دے رہا ہوں کہ جب دل بند ہوجائے تو کیسے سینہ دبانا ہے۔ اس پر سب سے مستند ادارہ American Heart Association ہے۔ انہوں نے اس پر guidelines بنائی ہوئی ہیں جس کے مطابق جب کسی کا دل بند ہوجائے اور آپ نے 20 منٹ تک مکمل کوشش کرلی ،Chest Compression بھی کرلیا ، سانس بحال کرنے کی کوشش بھی کی ہے پھر بھی سانس بحال نہ ہو تو آپ اپنی کوششیں ختم کرسکتے ہیں۔ تاہم مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ جب ہم 20 منٹ کا CPR کرنے کے بعد Attendant کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب آپ مزید کوشش کریں۔ اس صورت میں ہمیں دین کی طرف سے کیا راہنمائی ملتی ہے؟
جواب: اس میں تو ڈاکٹر ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ مزید کوشش فائدہ مند ہے یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ تیمار دار کی تو خواہش ہوتی ہے کہ کوئی کوشش رہ نہ جائے۔ لیکن یہ تو ڈاکٹر ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اس میں امید ہے یا نہیں۔ اگر فائدہ مند نہیں ہے تو بلاوجہ مکے مارنے کا کیا فائدہ؟ لہذا محض رشتے داروں کے دباؤ میں یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔
قریب المرگ شخص سے ڈاکٹر کا برتاؤ
سوال: ایک قریب المرگ شخص سے ڈاکٹر کا برتاؤ کیسا ہونا چاہیے؟
جواب: یہ بہت اہم سوال ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں اور قرآن و سنت سے بھی ہم نے یہی سیکھا ہے کہ تسلی کے دو بول بعض اوقات بہت بڑی دوا سے زیادہ کارآمد ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ صبح و شام ڈاکٹر کے سامنے مریض انتقال کرتے ہیں اور وہ دن رات اس سے گزرتے ہیں۔ میں بعض اوقات سوچتا ہوں کہ ڈاکٹر کی شاید ذاتی زندگی نہیں ہوتی، رات کو بے وقت بھی ان کو اٹھایا جاتا ہے۔ لیکن بہرحال ان کے فریضۂ منصبی کا تقاضا ہے کہ وہ ہر حال میں ، خاص طور پر اس مریض سے جو رخصت ہونے والا ہے، محبت ، ہمدردی اور تسلی کا معاملہ کریں۔ اس سے بھی بڑھ کر میں سمجھتا ہوں ، اور عام طور پر اس میں بڑی بے احتیاطی ہوجاتی ہے، کہ جس طرح مریض سے نرمی کا معاملہ کرنا ضروری ہے، اسی طرح اس کے تیماردار بھی بڑے دکھی ہوتے ہیں۔ ان سے بھی حتی الامکان پیار، ہمدردی، نرمی سے بات کی جائے، چاہے مختصر بات ہی ہو۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے سے ٹوٹے ہوتے ہیں اور آپ نے ان کو ڈانٹ پلادی تو ان کے دکھوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ڈاکٹر کے منصب کے خلاف ہے۔
میڈیکل کمیشن کی بُرائی
آخر میں ایک بات عرض کرتا ہوں، یہاں ما شاء اللہ دیندار ڈاکٹر حضرات کا اجتماع ہے، شاید یہاں یہ بات کرنا مناسب بھی نہ ہو۔ لیکن چونکہ آپ حضرات قائد ہیں ، دوسرے ڈاکٹر حضرات کے لیے تربیت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس لئے میں عرض کروں کہ ہمارے معاشرے میں ایک بُرائی پھیل گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحبان کا لیبارٹری اور دوافروش کمپنیوں سے کمیشن کا معاہدہ ہوتا ہے اور وہ مریضوں کو مخصوص دوائی خریدنے اور مخصوص لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانے پر اصرار کرتے ہیں جن سے انہیں کمیشن ملتا ہے
ابھی میرے پاس غریب ترین ۲۰ سال کا لڑکا آیا ، اس کے ہاتھ میں معمولی تکلیف تھی۔ ڈاکٹر نے ایک خاص لیبارٹری سے اسے MRI کروانے کا کہدیا ۔ میں نے ایک اپنے دوست ڈاکٹر کو دکھایا تو انہوں نے کہا کہ MRI کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کچھ ورزش اور دوائیں بتادیں۔
نیز یہ Health Insuranceکی وجہ سے بھی بسا اوقات غیر ضروری ٹیسٹ اور ادویہ لکھ دی جاتی
ہیں کیونکہ کمپنی اس کے اخراجات ادا کرتی ہے تو جو چاہے لکھدیا جاتا ہے۔
لہذا میری درخواست ہے کہ آپ سب اس برائی کے خلاف مہم چلائیں تاکہ یہ پیشہ جو انتہائی معزز و مکرم ہے، باعثِ اجر وثواب ہے، وہ مصنوعی تجارت نہ بن جائے۔
٭٭٭٭٭٭