طورخم سرحد کے ننھے اسمگلر

طورخم سرحد کے ننھے اسمگلر – خطرناک مزدوری کی دلخراش کہانی

یہ کہانی ہے ایک سرحد کی… جہاں صرف سامان نہیں، خواب بھی سمگل ہوتے ہیں۔ یہ کہانی ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع ایک بارڈر کی… جہاں زندگی اور موت کے درمیان صرف ایک بوری کا فاصلہ ہوتا ہے… اور وہ بوری اٹھائے ہوتے ہیں آٹھ سے چودہ سال کے بچے!
طورخم سرحد کے زیرو پوائنٹ پر روزانہ سینکڑوں کم سن بچے… اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سامان کی بوریوں کے ساتھ سرحد پار کرتے ہیں۔ ان کی پہچان نہ پاسپورٹ ہوتا ہے، اور نہ شناختی کارڈ… بلکہ صرف غربت، مجبوری اور خالی پیٹ۔

ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ ایک سو سے دیڑھ سو بچے یہ کام کرتے ہیں۔ یہ بچے نان کسٹم اشیاء جیسے سگریٹ،صابن، شیمپو، ممنوعہ ادویات، اور ہاتھ سے بنائی گئی اشیا کی غیرقانونی ترسیل کرتے ہیں… اکثر انہیں خود نہیں پتہ ہوتا کہ ان تھیلوں میں کیا ہے!
پچھلے دنوں لنڈی کوتل تھانے کی پولیس نے باڑ توڑ کر پاکستان میں داخل ہونے والے پچاس بچوں کو حراست میں لیا… ان میں 17 بچیاں اور ٣٣ لڑکے تھے۔ لیکن مقامی جرگہ اور عمائدین کی کوششوں سے ان پر مقدمہ درج نہ ہوا اور رمضان کے مہینے میں خیر سگالی کے جذبے کے تحت رہا کر دیا گیا۔ بعض بچے شام کے وقت گیٹ بند ہونے کی وجہ سے واپس افغانستان نہیں جا پاتے… اور رات سڑکوں، ہوٹلوں یا بازاروں میں چھپ کر گزارتے ہیں۔
کئی بار یہ دیوہیکل گاڑیوں کے نیچے زخمی ہو جاتے ہیں، اور بعض جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں… اور بدلے میں ملتے ہیں صرف تین سو سے پانچ سو روپے۔
مقامی قبائلی عمائدین اسے ایک ’المیہ‘ قرار دیتے ہیں… اور حکومت و عالمی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان معصوم جانوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
سمگلنگ پر قابو پانے کے لیے سرحد پر باڑ تو لگا دی گئی… مگر بچوں کا استحصال آج بھی جاری ہے۔ یہ بچے بس ایک ہتھیار ہیں… جنہیں غربت، مجبوری اور مجرمانہ نیٹ ورکس استعمال کرتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ، حکومت پاکستان، افغان حکام، اور سول سوسائٹی کو چاہیے کہ ان بچوں کو اسکول، تحفظ اور بچپن واپس دلوایا جائے… ورنہ یہ معصوم عمر بھر کا جرم اپنے کندھوں پر اٹھا لیں گے۔ یہ بچے کوئی مجرم نہیں… بلکہ یہ فرسودہ نظام کا شکار ہیں۔ ان کے لیے آواز اٹھائیں۔ان کو تحفظ دیں، ان کا مستقبل بنائیں۔

Smuggling Little of Torkham Border ► A tragic story of Little labor

Smuggling Little of Torkham Border A tragic story of Little labor At the Torkham border, young children risk their lives smuggling goods illegally between Pakistan and Afghanistan. These kids, aged 8 to 14, hide under or on top of large vehicles to cross the border—just to earn a few hundred rupees. This video exposes a heartbreaking reality where innocent children are exploited and forced into dangerous labor. 🌍 Watch this video to learn: How are children being used for smuggling at the Torkham border? What kind of goods do they smuggle, and what risks do they face? What actions are authorities and local leaders taking against this issue? 🚨 This is a tragedy—raise your voice against it!

Related posts

Leave a ReplyCancel reply