طالبان کا اصل امتحان

“رعایت اللہ فاروقی ”
::::::::::::::::::::::::::::
افغانستان میں امریکی شکست اور عالمی و علاقائی سیاست پر مرتب ہونے والے اس کے اثرات کا تمامتر دارومدار طالبان کے رویے پر آٹھرا ہے۔ امن کی طرف ہونے والی پیش رفت ان کی فہم و فراست کا کڑا امتحان ہے۔ میں اسے ان کی فہم و فراست کا کڑا امتحان دو وجوہات کے تحت سمجھتا ہوں۔ پہلی یہ کہ روسی انخلاء کے بعد افغان مجاہدین نے جب کابل فتح کیا تو وہ اسے پر امن نہ رکھ سکے۔ یہ تاثر پہلے قائم اور پھر مستحکم ہوا کہ افغان مجاہدین گفتگو سے زیادہ بندوق پر یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ گفتگو کرتے نہیں، اور اگر کرلیں تو مسجد حرام میں بیٹھ کر کئے گئے وعدے بھی فراموش کردیتے ہیں۔ ایسے میں جب ایک بار پھر ایک سپر طاقت افغانستان سے انخلاء کرنے جا رہی ہو تو 90 کی دہائی کے وہ ابتدائی سال برے خواب کی طرح یاد آنے لگتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ سابقہ افغان جہاد کے تمام کردار پچھلے 18 سالوں کے دوران امریکہ کے سہولت کار رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اقبال کے بے تیغ سپاہی

اگر نہیں رہا تو حقانی گروپ نہیں رہا یا طالبان نہیں رہے۔ چنانچہ یہ اب ایک بڑی صداقت ہے کہ روس کے خلاف لڑنے والے “مجاہدین” کی اکثریت افغانستان پر امریکی قبضے کے دوران اس کے سہولت کار رہے۔ لے دے کر ایک حکمت یار ہی اس سہولت کاری سے محفوظ تھے مگر کچھ ہی عرصہ قبل وہ بھی ناک کٹوانے والوں میں شامل ہوگئے۔ یوں امریکہ کے خلاف طالبان واحد مزاحمتی قوت ثابت ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکرات کی میز پر امریکی ڈیلی گیشن کے روبرو طالبان کے سوا کوئی بھی نہیں۔ چنانچہ آج وہ اٹھارہ سالہ جنگ کے واحد مزاحمتی فریق ہیں۔ ان کے سوا جو بھی افغان سیاسی اکائیاں ہیں وہ امریکہ کی سہولت کار اکائیاں ہیں۔ اور دیکھنے والی بات یہی ہے کہ افغان طالبان اس سہولت کاری کو نظر انداز کرکے انہیں گلے لگاتے ہیں یا گلے ملو اور گلا دبا دو پر عمل کرتے ہیں ؟

اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو افغان خانہ جنگی کے ردعمل میں جب طالبان وجود میں آئے تو انہوں نے دو تین ایسی بڑی غلطیاں کی تھیں جن کا نقصان انہی کو اٹھانا پڑا تھا۔ مثلا ان کی پہلی غلطی یہ تھی کہ طالبان چونکہ قندھار سے وجود میں آئے تھے تو ان کے نظام میں “قندھاری” ہونا بنیادی اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ اہم ترین پوسٹوں پر یا تو کسی ایسے طالبان ذمہ دار کو تعینات کیا جاتا جو قندھاری ہو۔ اور اگر کسی مجبوری کے تحت غیر قندھاری کو تعینات کرتے تو اس پر کسی “قندھاری لونڈے” کو مسلط کر دیتے۔ یہاں تک کہ ملا ضعیف سے قبل جو طالبان سفیر پاکستان میں تعینات تھے ان کے سر پر بھی ایک قندھاری لونڈا مسلط رہا جو سائے کی طرح ان کے ساتھ ہرجگہ موجود ہوتا۔ اگرچہ غلط تو یہ بھی تھا کہ “اقتدار صرف طالبان کا حق ہے” لیکن طالبان میں بھی پھر صرف ایک صوبے یا شہر کو بنیادی اہمیت دئے رکھنا ایک مزید مہلک غلطی تھی۔ اگر آپ کسی شمالی صوبے میں قندھاری گورنر یا آئی جی پولیس تعینات کریں تو یہ صوبہ کسی “اجنبی” کے سپرد کر دینے والی حرکت ہوتی ہے اور یہ قرون اولی نہیں کہ کوفے اور مصر کے گورنر مدینہ کے شہری بھی قبول ہوجائیں۔ اس زمانے میں دوسری غلطی طالبان کا بے لچک رویہ تھا۔ وہ کسی بات چیت یا شراکت اقتدار کی گنجائش ہی نہیں دیتے تھے۔ اگر کوئی بات کرنے کی کوشش کرتا بھی تو ان کی بات چیت کا ون پوائنٹ ایجنڈا ملا عمر کی بیعت ہوا کرتا تھا۔ وہ بیعت یا دشمنی کے سوا کوئی آپشن نہ دیتے۔ یہ طرز عمل پختون بیلٹ میں تو کام کر گیا مگر جوں ہی وہ غیر پختون قبائل سے روبرو ہوئے یہ طرزعمل مکمل طور پر فیل ہوگیا۔ غیر پختون قبائل نے مذکورہ دو آپشنز میں سے “دشمنی” والا آپشن چنا۔ چنانچہ پھر ہم نے دیکھا کہ پورا طالبان دور شمالی افغانستان میں لڑائی کی نذر ہوا، جس کا فائدہ آگے چل کر امریکہ نے اٹھایا۔ یہی بے لچک اور غیر مفاہمتی رویہ گیس پائپ لائن معاہدے کے معاملے میں بھی نظر آیا۔ اسلام آباد میں ہمارے افسران انہیں سمجھا سمجھا کر تھک جاتے تھے کہ گیس پائپ لائن کی تعمیر جلد از جلد شروع ہونے دیں۔ ایک بار یہ شروع ہوگیا تو امریکہ کے لئے ارجنٹائن سے کئے گئے اس عالمی معاہدے کو روندنا ناممکن ہوجائے گا۔ لیکن طالبان ہر ماہ گیس پائپ لائن کا نقشہ اٹھا کر اسلام آباد آجاتے اور ارجنٹائنی کمپنی کے ذمہ داران سے کہتے “یہ پائپ لائن فلاں مقام پر ہمارے فلاں کمانڈر کے گاؤں کے قریب سے گزرے گی، وہ ناراض ہیں، اس کا روٹ بدلیے” کمپنی کہتی “اس طرح کرنے سے پائپ لائن کی کاسٹ اتنے ملین ڈالرز بڑھ جائے گی، ایسا نہیں ہوتا” اس پر طالبان کہتے “تو کیا ہوا ؟ کمانا بھی تو آپ نے ہی ہے، کاسٹ بڑھتی ہے تو بڑھے” پاکستان منتیں ترلے کر کے کمپنی کو اس پر آمادہ کر لیتا، وہ جا کر نیا نقشہ نئے روٹ کے مطابق بنا لاتے تو طالبان ایک ماہ بعد اس نئے روٹ میں بھی ترمیم کا مطالبہ لے آتے۔ کیونکہ اب ایک اور کمانڈر کو اس کے روٹ پر اعتراض پیدا ہوچکا ہوتا۔ یہ گیس پائپ لائن معاہدے پر “تبدیلی، تبدیلی” کھیل کر وقت ضائع کرتے رہے، ادھر امریکہ ان کے سر پر آ پہنچا۔ نتیجہ کیا نکلا وہ ہم سب نے تو صرف دیکھا ہی نہیں بھگتا بھی۔

خوشگوار بات یہ ہے کہ آثار سے لگتا ہے طالبان کی نئی نسل بات چیت اور طالبان وحدت کے بجائے افغان وحدت کو اہمیت دینے لگی ہے۔ اشرف غنی ایک ایسا امریکی پپٹ ہے جس کا افغانستان میں کوئی سیاسی سٹیک نہیں ہے۔ لیکن شمالی افغانستان میں ہزارہ جات، ازبک اور تاجک تین بڑی سیاسی حقیقتیں ہیں۔ پھر استاذ سیاف اور تورن اسماعیل جیسی کچھ شخصیات بھی ہیں جو اپنا گہرا شخصی اثر رسوخ رکھتی ہیں۔ ان میں سے تورن اسماعیل تو ہیں بھی ہرات جیسے حساس جنوب مغربی صوبے سے۔ یہ ہیں افغانستان کے سٹیک ہولڈر۔ اگرچہ یہ تمام سٹیک ہولڈر امریکہ کے سہولت کار رہے لیکن یہ سہولت کاری اس لئے ہوئی کہ طالبان نوے کی دہائی میں ان سے برسرپیکار تھے۔ اور کون نہیں جانتا کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے ؟ اگر طالبان نوے کی دہائی میں لڑنے کے بجائے انہیں گلے لگا لیتے تو یہ امریکہ کے سہولت کار کیوں بنتے ؟ طالبان کو ان تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ہوگا اور حصہ بقدر جثہ والے فارمولے پر عمل کرکے ایک قومی حکومت کا امکان پیدا کرنا ہوگا۔ یہ خبر بیحد اطمینان بخش ہے کہ اس امکان کی طرف پیش رفت کی غرض سے روس کے دارالحکومت ماسکو میں کل ایک ایسا اجلاس بھی ہونے جا رہا ہے جس میں طالبان ان سٹیک ہولڈرز سے بات چیت کریں گے۔ اس بات چیت میں اب تک کی اطلاع کے مطابق سابق صدر حامد کرزئی، سابق تاجک گورنر عطاء محمد نور، حزب وحدت کے استاذ محقق، ہرات کے تورن اسماعیل، سابق نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی جبکہ شیر محمد ستنکزئی کی قیادت میں طالبان وفد کی شرکت متوقع ہے۔ امریکہ سے طالبان کے ہونے والے مذاکرات کے ساتھ ساتھ افغان سٹیک ہولڈرز کی یہ باہمی بات چیت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس بات چیت کی کامیابی پر افغان امن کا انحصار ہے۔ اسے کامیاب بنانا ہی طالبان کا اصل امتحان ہوگا۔ ایک بار پھر یہ نہیں ہونا چاہئے کہ آپ سپر طاقت کو تو ہرا دیں مگر خود اپنے آپ سے شکست کھا جائیں !

Related posts

Leave a Reply