طالبان خدشات اور پروپیگنڈہ
سید عبدالوہاب شاہ شیرازی
پچھلے چند دنوں سے پوری دنیا کے میڈیا پر طالبان چھائے ہوئے ہیں، خبریں تجزیے، تبصرے طالبان کے تذکرے کے بغیر ادھورے سمجھے جاتے ہیں۔ اس ساری صورتحال کی وجہ طالبان اور امریکا کی طویل ٹیبل ٹاک کے بعد ایک معاہدے کے تحت افغانستان سے واپسی ہے۔چند دن پہلے رات کی تاریکی میں کسی اعلان اور اطلاع کے بغیر امریکیوں کا بگرام ایئربیس خالی کرکے چلے جانا اور طالبان کا مسلسل افغانستان کی سرحدی پٹیوں کو اپنے قبضے میں لے لینا دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رہا ہے۔
چونکہ اب صاف نظر آرہا ہے کہ طالبان گیارہ ستمبر کے بعد شہروں کو بھی اپنے قبضے میں لے لیں گےاور پھر اپنی حکومت بنا لیں گےاس لیے ساون کا موسم آتے ہی چھپڑ کے سارے مینڈک اچانک سے نمودار ہوکر ٹی وی چینلز پر طالبان مخالف پروپیگنڈا شروع کرچکے ہیں۔خاص طور پر ایسے صحافی جنہوں نے خود ہی اپنے آپ کو افغان امور کے ماہر کا درجہ دے رکھا ہے، اور یہ درجہ صرف پشتو زبان جاننے کی بنیاد پر دیا ہے میدان میں کود چکے ہیں۔ آپ جانتے ہیں مختلف امور کےماہرین ان امور پر پڑھتے لکھتے اور بولتے رہتے ہیں، اس لیے کبھی ان سے متعلقہ امور کے بارے خاموشی ہوتی ہے اور کبھی وہ امور خبروں کی زینت بنتے ہیں جس کی وجہ سے ان امور کے ماہرین کہلانے والوں کی دیہاڑیاں لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ آج کل افغان امور کے ماہرین ایک ایک بول اپنے تجزیے میں بولنے کی اچھی خاصی رقم کما رہے ہیں۔یہ لوگ پچھلے بیس سال تک خاموش رہے جب امریکا افغانستان پر بمباری کرتا رہا اور لاکھوں افغانوں کا قتل عام کیا۔
طالبان مخالف اس پروپیگنڈے میں جو دلائل دیے جاتے ہیں وہ یہ ہیں کہ :
1۔طالبان کے پاس عوامی طاقت نہیں۔
2۔ طالبان کے آتے ہی ٹی ٹی پی پھر وہی کچھ شروع کردے گی جو ماضی میں کرتی رہی ہے۔
3۔طالبان کے آنے سے اسلحہ اور منشیات کی سمگلنگ بڑھ جائے گی۔
4۔ طالبان جمہوریت نہیں لائیں گے۔
5۔ طالبان داڑھی، پردہ لازمی، اور عورتوں کی تعلیم پر پابندی لگا دیں گے۔
1۔ پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ طالبان کے پاس عوامی طاقت نہیں۔
سب سے پہلی بات یہ کہ طالبان کے پاس عوامی طاقت نہیں، یعنی ساری افغان عوام طالبان کے خلاف ہے، یہ محض پروپیگنڈا ہے، اگر طالبان کے ساتھ عوامی طاقت نہ ہوتی تو اتنی تیزی کے ساتھ افغان علاقوں کا فتح کرنا ممکن ہی نہ ہوتا۔ افغانستان کسی منظم ملک یا پاکستان کی طرح کا ملک نہیں ہے کہ جہاں کے لوگوں کو چاقو بھی جیب میں رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی، بلکہ افغانستان کی عوام کے پاس گھروں میں وہ ہتھیار رکھے ہوئے ہیں جو ہماری پولیس اور عام فوجی کے پاس بھی نہیں ہوتے۔ شاید آپ یقین نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے افغان عوام نے گھروں میں چھوٹی ٹوپیں، مارٹر، اور میزائل تک رکھے ہوئے ہیں۔ اگر افغان عوام طالبان کے ساتھ نہ ہوتی تو دنیا کے چالیس ممالک کی فوجیں اور کروڑوں افغان عوام بیس سالوں میں طالبان کی نسل ہی ختم چکے ہوتے۔اگر افغان عوام طالبان کے خلاف ہوتی تو پندرہ بیس دنوں میں طالبان پورے افغانستان کی سرحدی پٹی کو بغیر کسی لڑائی اور جنگ کے اپنے قبضے میں نہ لے سکتے۔صلیبی فوجوں کی ناکامی اور طالبان کی کامیاب یہ بتاتی ہے کہ افغان عوام طالبان کے ساتھ کھڑی ہے، اسی عوام نے بیس سال تک طالبان کو اپنے گھر وں میں خفیہ پناہ گاہیں دی اور کھانا پینا فراہم کیا۔
2۔ دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ طالبان کے آتے ہی ٹی ٹی پی پھر وہی کچھ شروع کردے گی جو ماضی میں کرتی رہی ہے۔
یہ بھی محض جاہلانہ پروپیگنڈہ ہی ہے۔ افغان امور کے ماہرین یہ نہیں جانتے کہ ٹی ٹی پی کب بنی کیسے بنی اور کیسے ختم ہوئی۔ اس لیے پہلے اس سارے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ افغان طالبان نے 1996 میں اپنی حکومت بنائی۔ اور پانچ سال تک ان کی حکومت قائم رہی۔ سب سے پہلے پاکستان نے ہی افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفیر بھیجا اور ان کا سفیر اسلام آباد میں رکھا۔ اس وقت کسی ٹی ٹی پی کا وجود نہیں تھا، پھر 2001 میں امریکا آگیا، اور طالبان کی حکومت ختم ہو گئی، امریکا اکیلا نہیں آیا بلکہ اس کے ساتھ دنیا کے چالیس ممالک کی فوجیں اور دیگر کئی ممالک کے دیگر لوگ بھی افغانستان آئے جن میں سرفہرست انڈیا تھا۔ پھر امریکا نے صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے کئی ہوائی اڈے اور دیگر مقامات پر اپنی فوجیں اور عملہ بٹھا دیا، یہ وہ دور تھا کہ کسی امریکی گاڑی کو پاکستان کی کسی سڑک پر روکنے یا پوچھنے کی جرات کوئی نہیں کرسکتا تھا، ان کی گاڑیاں کالے شیشوں کے ساتھ ہمارے شہروں میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک چلتی تھیں لیکن کوئی نہیں جانتا تھا ان کے اندر کون ہے یا کیا ہے۔الغرض سات آٹھ سال تک یہی صورتحال رہی اور پھر 2007 میں ٹی ٹی پی وجود میں آئی۔ یعنی طالبان حکومت ختم ہونے کے چھ سال بعد ٹی ٹی پی بنی، یہ وہ وقت تھا جب افغانستان میں امریکا اور انڈیا کا مکمل ہولڈ اور ان کی اپنی بنائی ہوئی حکومت تھی، جبکہ پاکستان میں مکمل طور پر امریکی مرضی چلتی تھی۔ ایک منہ بولا افغان امور کا ماہر ٹی ٹی پی کا تعلق طالبان سے جوڑنے کے لیے کہتا ہے ٹی ٹی پی کے اکثر بڑے لوگ افغانستان میں مارے گئے ہیں لہذا ان کا تعلق طالبان سے ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وہاں تو انڈیا اور امریکا کی حکومت تھی تو ان کا تعلق طالبان سے کیسے جڑ گیا۔ الغرض ٹی ٹی پی طالبان دور حکومت میں نہیں تھی، اور اب دوبارہ طالبان دور حکومت آنے سے پہلے مردہ ٹی ٹی پی کو قبر سے نکال کر زندہ کرنے والے افغان امور کے ماہرین کو کچھ تو خیال کرنا چاہیے۔
3۔تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ طالبان کے آنے سے اسلحہ اور منشیات کی سمگلنگ بڑھ جائے گی۔
یہ اعتراض وہ افغان امور کا ماہر تو کرسکتا ہے جس کی پیدائش 2001 کے بعد ہوئی ہولیکن جس نے نوےکی دہائی میں طالبان کا پانچ سالہ دور حکومت دیکھا ہے وہ ہرگز یہ اعتراض نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ جب طالبان حکومت میں آئے تو امیرالمومنین ملا عمر نے ایک اعلان کیا تھا سب لوگ اسلحہ حکومت کے پاس جمع کروا دیں تو پوری افغان قوم نے ہتھیار طالبان کو جمع کروا دیے تھے۔چنانچہ اس حیرت انگیز کارنامے کو دیکھ کر اس وقت کے پاکستان وزیر داخلہ غالبا معین حیدر نے پاکستانی عوام سے اپیل کی تھی کہ آپ بھی ہتھیار جمع کروا دیں میں داڑھی رکھ لوں گا۔ گویا اس کےخیال میں افغان عوام نے طالبان کی داڑھیوں کو دیکھ کر ہتھیار جمع کروائے تھے۔
جہاں تک منشیات کا تعلق ہے تو یہ بھی طالبان کا ایسا کارنامہ ہے جس کا اعتراف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بارہا کیا تھا کہ طالبان سے اختلاف اپنی جگہ لیکن انہوں نے افغانستان میں منشیات کو صفر کردیا ہے۔ اور یہ سب کچھ بھی ملاعمر کے ایک حکم پر ہوا تھا، پورے افغانستان میں پوست کی کاشت پر مکمل پابندی لگا دی گئی اور اس پر سو فیصد عمل بھی ہوا۔
4۔چوتھا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ طالبان جمہوریت نہیں لائیں گے۔
یہ اعتراض تو درست ہے لیکن اسے پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ کیا ہمارے میڈیا نے یہ پروپیگنڈا کبھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے خلاف بھی کیا، حالانکہ وہاں بھی جمہوریت نہیں ہے۔ اصل مسئلہ جمہوریت نہیں بلکہ اصل مسئلہ اسلامی حکومت ہے، چونکہ یہ تجزیہ کار کہلاتے تو مسلمان ہی ہیں اس لیے ان کے لیے یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ طالبان اسلامی حکومت قائم کریں گے اسے نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ وہ یوں کہنے کے بجائے یہ کہتے ہیں کہ طالبان جمہوریت نہیں قائم کریں گے۔
5۔ پانچواں اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ طالبان داڑھی، پردہ لازمی، اور عورتوں کی تعلیم پر پابندی لگا دیں گے۔
پہلی دو باتیں تو درست ہیں البتہ تیسری بات غلط ہے، طالبان نے پہلے دور حکومت میں بھی عورتوں کی تعلیم اور جہاں عورتوں کے کام کرنے کی ضرورت ہے جیسے ہسپتال وغیرہ وہاں ان کے کام کرنے پر پابندی نہیں لگائی۔ بس صرف مخلوط ماحول کی اجازت نہیں دی۔
جہاں تک داڑھی اور پردے کی بات ہے تو ہر ملک کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے تحت جو قانون بنائے اس کی مرضی ہے۔ کیا ہمارے ملک میں ایسے بہت سارے قوانین نہیں ہیں جو لوگ تو نہیں چاہتے لیکن حکومت نے وہ بنائے ہوئے ہیں اور لوگ مجبورا عمل کررہے ہیں۔مثلا پائلٹ داڑھی نہیں رکھ سکتا، اسی طرح سرکاری اور نجی ملازمتوں میں عورتوں کے پردے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ کسی بھی ٹی وی چینل پر کوئی بھی اینکر خاتون پردہ کرتے ہوئے پروگرام نہیں کرسکتی اس پر مکمل پابندی ہے۔البتہ پابندی کی نوعیت ایسی رکھی ہوئی ہے کہ ایسی عورت اگر سارے ٹیسٹ پاس کرکے آبھی جائے تو اسے نوکری پر نہیں رکھا جاتا ۔ فرانس کا یہ قانون ہے کوئی عورت چہرہ نہیں چھپا سکتی۔ اسی طرح اگر افغان عوام جس نظریے اور عقیدے کو ماننے والے ہیں اس کے مطابق اگر وہ یہ پابندی لگا لیتے ہیں کہ کوئی عورت غیر محرم سے بے حجاب نہ ملے تو یہ ان کا اور ان کے ملک کا حق ہے۔