شوگر لیول کتنا رہنا چاہیئے

 شوگر لیول کتنا رہنا چاہیئے?

شوگر کا ٹیسٹ کیا ہے۔

ایک تندرست شخص کا شوگر لیول زیادہ سے زیادہ کتنا اور کم سے کم کتنا ہونا چاہیئے۔ ( فاسٹنگ اور رینڈم)۔
تندرست انسان؛

فاسٹنگ: 70 سے 100 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر (mg/dL) کے درمیان
رینڈم (یعنی کھانے سے کم از کم دو گھنٹے بعد): 140 mg/dL سے کم

شوگر کے مریض کا شوگر لیول زیادہ سے زیادہ کتنا رہنا چاہیئے، کیونکہ میں نے مختلف ڈاکٹرز سے مختلف لیول سنے ہیں۔ کوئی 120 تا 145 بتاتا ہے کوئی 135 تا 185 بتاتا ہے۔
شوگر کا مریض:
مختلف ڈاکٹرز اس لیے مختلف بتاتے ہیں کہ مریض کا لیول اب نارمل نہیں ہوگا سو ڈاکٹرز مریض کی حالت سے اندازہ لگا کر بیان کر دیتے ہیں۔ مریض کے لیے اصول یہ ہے کہ اس کی فاسٹنگ اور رینڈم شوگر ایک صحت مند انسان کے شوگر لیول کے جتنے قریب ہو اتنا ہی بہتر ہے، یعنی فاسٹنگ شوگر جتنی کم ہو اور 100 کے جتنی قریب قریب ہو اتنا ہی بہتر ہے۔ اور یہ کہ ہر کھانے سے پہلے اس کا لیول اگر 120 سے کم ہو تو بہت بہتر ہے۔
اگر شوگر صرف ڈائیٹ اور ایکسرسائیز سے 120 تا 160 ہو یا اس سے کچهہ کم ہو تو بهی شوگر کی کوئی نہ کوئی ہلکی پهلکی دوا لینا ضروری ہے ؟
دوا کے لیے صرف کسی ایک لمحے کی شوگر چیک کرنا ہی مناسب نہیں ہے۔ گلوکو میٹر یا لیبارٹری سے شوگر کا ٹیسٹ کروانے کا مطلب ہے کہ وہ صرف اُسی لمحے کی شوگر بتا رہا ہے یعنی جس لمحے آپ نے شوگر کا ٹیسٹ کیا وہ رزلٹ یہ بتائے گا کہ اُس لمحے آپ کے خون میں کتنی شوگر تھی، یہ کافی نہیں ہے۔

 شوگر کا ٹیسٹ HbA1C کیا  ہے۔

شوگر کے مریضوں کو ایک ٹیسٹ HbA1C ہر تین سے چھ ماہ میں کروانا چاہیے۔ یہ ٹیسٹ بتاتا ہے کہ ایک انسان کے جسم میں پچھلے تین ماہ شوگر کا لیول کتنا رہا ہے۔ اس کا رزلٹ فیصد میں ہوتا ہے، نارمل انسان کا رزلٹ 6 فیصد سے کم ہوتا ہے۔ شوگر کے مریض کا ٹارگٹ 7 فیصد سے کم ہوتا ہے۔ اگر 8 فیصد سے رزلٹ زیادہ ہے تو فوری طور پر “کچھ نہ کچھ” کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی ڈاکٹر دوا تجویز کرنے سے پہلے کم از کم تین دن کا فاسٹنگ رزلٹ اور HbA1C کا رزلٹ دیکھے گا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی مریض کی فاسٹنگ شوگر 130 یا 150 وغیرہ ہو لیکن اس کا HbA1C کا رزلٹ 7٪ یا اس سے بھی زیادہ ہو سو ایسی صورت میں دوا یا انسولین لینا ضروری ہے۔

فاسٹنگ شوگر چیک کرنے کے لیئے کتنا فاقہ ضروری ہے 
آٹھ سے بارہ گھنٹے۔
کون سے ٹیسٹ سے پتہ لگایا جاسکتا ہیکہ لبلبہ کتنا کام کر رہا ہے ؟
اگر صرف شوگر کے حوالے سے دیکھنا ہے تو C-peptide ٹیسٹ۔ یہ ٹیسٹ بتاتا ہے کہ لبلہ کتنی انسولین بنا رہا ہے، وغیرہ۔
ٹائپ اے اور ٹائپ بی شوگر کا پتہ کیسے چلتا ہے ؟
ٹائپ اے عموما بچوں کو ہوتی ہے۔ ان دو میں بنیادی یہ فرق ہے کہ اے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس میں لبلبہ انسولین بنانا بالکل ہی بند کر دیتا ہے۔ سو اس کے مریض کا صرف ایک حل ہے، مصنوعی انسولین جسم میں داخل کرنا۔ مصنوعی انسولین ایجاد ہونے سے پہلے اس کا مریض پانچ سے دس سال میں فوت ہو جاتا تھا۔ ٹائپ بی، ایک بتدریج بڑھتی ہوئی بیماری ہے۔ کافی عرصہ گزرنے کے بعد بی بھی اے سے جا ملتی ہے یعنی اس کے مریض کو بھی انسولین لینی پڑتی ہے۔
کیا گلوکو میٹر کا رزلٹ قابل اعتبار ہوتا ہے ؟اچھی کوالٹی کے گلوکو میٹر جیسے جرمنی کے ایکو چیک کا رزلٹ 95 فیصد تک صحیح ہوتا ہے۔ چائنا مال بھی کافی حد تک درست ہے ۔ لیکن پھر یہی کہ HbA1C ٹیسٹ کروانا بھی ضروری ہے، ان دو کے تال میل سے ہی دوائیوں اور مریض کی حالت کا اندازہ کرنا چاہیے

Related posts

Leave a ReplyCancel reply