سیکولرزم كا تعارف اور تباہ کاریاں
سید عبدالوہاب شاہ شیرازی
یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً
اسلام اور سیکولرازم
سیکولرازم كا معنی
آکسفورڈ میں سیکولر ازم کا معنی
Worldly, not connected with religious or spiritual matters
دنیاوی۔ یعنی مذہبی یا روحانی معاملات سے منسلک نہیں۔
ورڈلی کا مطلب ہے اس دنیا سے متعلق
سیکولرزم (Secularism) کا اُردو معنیٰ دنیویت ہے۔ سیکولر زم ’ایسی دُنیویت کو کہتے ہیں جس کا آخرت یا دین سے کوئی تعلق نہ ہو۔ سیکولر انسان ’وہ ہوتا ہے جو اپنی زندگی میں کسی آسمانی دین کو دخیل نہ سمجھے‘۔ سیکولر نظریہ ’وہ ہے جوکسی آسمانی دین یا مذہبی پیشوائیت کا پیش کردہ نہ ہو۔‘
آکسفورڈ کے 95 کے ایڈیشن میں سیکولرازم کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
The belief that laws and education should be based on facts and science.
ان قوانین اور اس تعلیم پر یقین رکھنا جوفیکٹ اور سائنس پر مبنی ہونی چاہیے۔( یعنی جو حواس خمسہ ، یا تجربات میں آئے)
انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق :
Secularism, any movement in society directed away from otherworldliness to life on earth.
’’سیکولرزم ایک اجتماعی تحریک ہے جس کا مقصد لوگوں کو آخرت کی توجہ سے یکسر ہٹا کر فقط دنیا کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ ‘‘
امریکی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق :
Secularism is most commonly thought of as the separation of religion from civil affairs and the state and may be broadened to a similar position seeking to remove or to minimize the role of religion in any public sphere.
سیکولرازم کو عام طور پر شہری معاملات اور ریاست سے مذہب کی علیحدگی کے طور پر سمجھا جاتا ہے اور اسے کسی بھی عوامی شعبے میں مذہب کے کردار کو ہٹانے یا کم کرنے کی کوشش کرنے کے لیے اسی طرح کی پوزیشن تک وسیع کیا جا سکتا ہے۔
یعنی ’’سیکولرزم ایک ایسا اخلاقی نظام ہے جو آسمانی ادیان سے ہٹ کر اپنے اُصول وقواعد رکھتا ہے۔ ‘‘
سیکولرزم کا معنی عربی میں یوں کیا جاتاہے:
فصل الدين عن شؤون الدولة او فَصْلُ الدِّیْنِ عَنِ الدَّوْلَةِ اَوِ الْمُجْتَمِعِ
یعنی دین کو معاشرہ یا ریاست سے جدا کرنا۔ یا معاشرہ اور ریاست کو دین کے علاوہ کسی چیز پر اُستوار کرنا۔ یا دین کو عملی زندگی سے الگ کرنا اورعملی زندگی کو غیر دینی بنیادوں پر قائم کرنا۔
سیکولرازم میں دو طرح کی فکریں
اس وقت دنیا میں سیکولرازم میں دو طرح کی سوچیں یا فکریں پائی جاتی ہیں۔ ایک ہے کیپٹل سیکولرازم، اور دوسری ہے سوشلسٹ سیکولرازم۔
جہاں تک تعلق ہے سوشلسٹ سیکولرازم کا تو وہ پوری انسانی زندگی سے دین اور مذہب کو نکال رہے ہیں۔ یعنی ان کا کہنا ہے کسی بھی آسمانی دین ومذہب کا انسانی زندگی کے کسی بھی گوشے سے تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کے مقابلے میں چین میں دین اسلام پر چلنا زیادہ دشور ہے۔وہاں مسجد بنانا اور دینی تعلیم کے اجتماعات کرنا بہت مشکل کام ہے۔
جبکہ کیپٹل ازم کے ماننے والے انسانی زندگی کے انفرادی گوشوں میں کچھ حد تک دین و مذہب کی آزادی دیتے ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک انفرادی زندگی میں لوگوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ جو چاہیں عقیدہ رکھیں، جس کی اور جیسے چاہیں عبادت کریں، اور جیسے مرضی رسومات ادا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ و امریکا میں مساجد بھی بن سکتی ہیں اور عبادت کرنے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔
اسی طرح بعض یورپی ممالک عورت کے پردہ کومعاشرت کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسے مذہبی علامت سمجھتے ہیں اور اس پر پابندی لگاتے ہیں، جبکہ کچھ یورپی ممالک اسے معاشرت کا حصہ نہیں سمجھتے بلکہ انفرادی زندگی کا معاملہ سمجھتے ہوئے پابندی کے قائل نہیں ہیں۔
کیا سیکولر ازم کا نظریہ نیا نظریہ ہے؟
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سیکولرازم نظریہ شاید نیا نظریہ ہے، حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے یہ جان چکے ہیں کہ سیکولرازم کی بنیاد آخرت کی نفی، اور کسی بھی آسمانی دین و مذہب کی عدم مداخلت پر رکھی گئی ہے، تو یہ دنوں نظریات ہمیں نزول قرآن کے زمانے میں مشرکین مکہ میں بھی نظر آتے ہیں۔بلکہ اس سے پہلے نمرود و فرعون کے زمانے میں بھی ہمیں یہ نظریہ قرآنی واقعات میں نظر آتا ہے۔بس فرق اتنا ہے کہ اس وقت سیکولرازم لفظ موجود نہیں تھا، چند صدیاں قبل یورپ میں یہ لفظ اس نظریے پر بولا جانے لگا۔
قرآن کی وہ تمام آیات جو تصور آخرت، قیامت، حساب،جنت و جہنم ، وجود رب، حاکمیت رب، اور رسالت کے بارے ہیں ، یہی دراصل سیکولرازم کا رد کرتی ہیں۔
سیکولر دنیا کا انسانوں کے لیے اصول
سیکولر ریاستوں نے آج کی دنیا میں یہ اصول بنا لیا ہے کہ آپ چاہے ایک خدا مانیں یا دو مانیں یا کئی خدا مانیں انہیں کوئی اعتراض نہیں، بس آپ خدا کو کری ایٹر Creator یعنی خالق مانیں ، یا معبود یعنی عبادت کے لائق مانیں اس سے آگے نہیں۔اگر آپ اس سے آگے بڑھے یعنی خدا کو خالق ہونے کے ساتھ ساتھ Lord یعنی رب بھی ماننا شروع کردیا تو آپ ایکسٹریمسٹ یعنی انتہاء پسند اور بنیاد پرست کہلائیں گے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ سیکولر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں آپ کے مسلمان ہونے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ آپ کے انتہاء پسند اور ایکسٹریمسٹ ہونے پر اعتراض ہے۔
رب ماننے کا مطلب ہے وہ آقا اور حاکم ہے، لہذا غلام کی اپنی مرضی نہیں ہوتی، غلام اپنے آقا کی مرضی سے ہی سوتا بھی ہےاورجاگتا بھی ہے، اسی کی مرضی سے اٹھتا بھی ہے اور بیٹھتا بھی ہے،وہ کماتا بھی اس کی مرضی سے ہے اور خرچ بھی اس کی مرضی سے کرتا ہے، جو کماتا ہے اس کا مالک بھی وہی آقا ہوتا ہے۔اس کے فیصلے بھی آقا ہی کرتا ہے۔ آقا اگر غلام پر سختی یا تنگی کرے تو کوئی پوچھنے والا نہیں اور نہ غلام کو اعتراض کرنے کا حق ہے۔
اگر کوئی اپنے عقیدے کے مطابق کسی شخص کو اپنا بڑا مانتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، مثلا مسلمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر بڑا مانتے ہیں تو سیکولرز کو اس پر کوئی اعتراض نہیں، سیکولرازم کا اصول یہ بتاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ گریٹ مین مان سکتے ہیں لیکن اس سے آگے یعنی رسول ماننا یہ ایکسٹریمسٹ ہونے کی نشانی ہے۔ کیونکہ رسول ماننے کی صورت میں ان ہدایات پر عمل کرنا ضروری ٹھہرتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔ لہذا بڑا اور عظیم ضرور مانو، انہیں صادق و امین بھی مانو، انہیں اخلاق حسنہ کے اعلی منصب پر بھی مانو، انہیں مہربان، رحم دل بھی مانو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ بس یہاں تک ہی رہو، انہیں رسول مطیع ماننے کی اجازت نہیں۔
سیکولرازم کی عملی صورتیں:
سیکولر سیاست:
سیکولرازم میں سیاست کی مثال جیسے مغربی نام نہاد جمہوری نظام ، جو خالصتا سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کھڑا ہے، جو جتنا زیادہ سرمایہ دار ہے اتنا ہی اس کے پاس سیاسی نظام میں آگے نکلنے کے مواقع ہوتے ہیں۔ ایک کونسلر سے لے کر سنیٹر تک صرف وہی لوگ آگے آسکتے ہیں جو زیادہ سرمایہ لگا سکتے ہیں۔ جمہوری نظام کی دوسری خرابی یہ ہے کہ قانون بنانے یعنی حلال و حرام ، جائز و ناجائز ٹھہرانے کا اختیار پارلیمان کے پاس ہوتا ہے، اور پارلیمان میں سرمایہ دار، جاگیردار، اور دین بیزار لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے، جو پیسے کے زور پر یہاں آکر بیٹھ جاتے ہیں۔
سیکولر معاشرت :
جیسے مرد وزَن کی مغربی مساوات ،حقوقِ نسواں کے مغربی تصورات، میرا جسم میری مرضی کے نعرے اور عورتوں کی آزادی کی تحریکیں، اور مردوں کی مردوں سے شادی، عورتوں کی عورتوں سے شادی کے قوانین وغیرہ۔
سیکولر معیشت:
جیسے مغربی سرمایہ دارانہ نظام ۔ جس میں یہ تصور دیا جاتا ہے کہ انسان جو کماتا ہے وہ اس کا مالک ہے وہ اسے جیسے چاہے کمائے اور جیسے چاہے خرچ کرے، انسان پر نہ کمانے میں کوئی قدغن ہونی چاہیے اور نہ خرچ کرنے میں کوئی قدغن ہونی چاہیے۔
سیکولر تعلیم :
جو دینی اہداف وطریق کار سے آزادہو، جو وحی کو حجت تسلیم نہ کرے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے متحدہ ہندوستان میں لارڈ میکالے نے یہاں ایک نیا تعلیم نظام متعارف کروایا اور پھر آہستہ آہستہ اسے یہاں نافذ کردیا، اس نظام تعلیم سے مرحلہ وار دین و مذہب کو خارج کردیا گیا۔اگر اسلامی ممالک میں چند ایک چیزیں باقی بھی رکھیں تو وہ اس حیثیت سے جیسے تاریخ واقعات ہوتے ہیں۔
سیکولرازم کے معاشرے پر اثرات کے چار مراحل:
1۔ فرد کی سطح پر:
جب کوئی فرد مکمل طور پر اپنی توجہ دنیا تک محدود کر لیتا ہے، اور دین سے بیگانہ ہو جاتا ہے، تو تصور آخرت اس کے ذہن سے غائب ہو جاتا ہے، اور اگر باالفرض تصور آخرت موجود بھی ہو تو اس پر ایسا یقین نہیں ہوتا جیسا اس بات پر کہ میں اپنا ہاتھ آگ میں دوں گا تو وہ ضرور جلے گا، یا میں زہر کا پیالہ پیوں گا تو ضرور مروں گا۔
چنانچہ ایسا شخص نام کا مسلمان ہوتا ہے، کبھی نماز بھی پڑھ لیتا ہے، روزہ بھی رکھ لیتا ہے، لیکن دین کے حقیقی تصور سے دور ہوتا ہے۔ اسے دین کی باتیں سننے اور دین کا کام کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
2۔ معاشرے کی سطح پر :
مندرجہ بالا سوچ والے بہت سے افراد پیدا ہوجائیں تو ان ہی سے معاشرہ وجود میں آتا ہے اور پھر انفرادی کے ساتھ ساتھ معاشرے کے اجتماعی معاملات میں بھی سیکولرازم آجاتا ہے۔ چنانچہ لوگ دین اسلام کی ان تعلیمات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے جو معاشرے کی بہتری کے لیے اسلام نے دی ہوتی ہیں، مثلا مرد وزن کے اختلاط پر پابندی، پردہ، میاں بیوی کے احکام، بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق اسلام کی ہدایات، قومیت، وطنیت کی نفی وغیرہ۔
3۔ معیشت کی سطح پر:
جب سیکولرازم کا وائرس افراد میں پیدا ہوتا ہے تو اس کے اثرات پھر ان کی معاشی زندگی میں بھی نظر آتے ہیں، چنانچہ لوگ دولت کو اپنا مال سمجھتے ہوئے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ میں جیسے چاہوں کماوں اور کمانے کے بعد جیسے چاہوں خرچ کروں۔ وہ قرآن میں آنے والے ان خدائی الفاظ ” مما رزقناکم” کو بھول جاتے ہیں، جن کا مفہوم ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کی دین ہے، وہی مالک ہے، ہمارے پاس یہ امانت ہے، لہذا امانت میں ہماری مرضی نہیں چلے گی بلکہ مالک کی مرضی چلے گی۔ چنانچہ سود جیسے لعنت بھی کاروبار بن جاتی ہے، رشوت، کرپشن، دھوکہ دہی، زخیرہ اندوزی، اور زکوۃ کی عدم ادائیگی گناہ نہیں لگتی۔
4۔ ریاست کی سطح پر:
جب سیکولرازم افراد میں سرایت کرتا ہے تو اس کے اثرات جیسے معاشرت اور معیشت پر پڑتے ہیں ایسے ہی اس کے اثرات لوگوں کی سیاسی زندگی میں بھی نظر آتے ہیں۔جیسے کوئی بیمار شخص بیماری سے صحت مند تو ہونا چاہتا ہے لیکن نہ پرہیز کرتا ہے اور نہ دوائی کھاتا ہے ایسے ہی سیکولر وائرس کا شکار مسلمان نہ اسلامی ریاست کے لیے کوشش کرتا ہے اور نہ سیکولرازم کی علمبردار پارٹیوں سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔
یہ بات با لکل واضح ہے کہ اسلام میں سیکو لرزم کی دونوں اقسام کی کوئی گنجائش نہیں۔ہر وہ فکر جو اپنی مبادیات اور تطبیقا ت میں دینی نہ ہو، وہ دین مخا لف ہے۔ چنا نچہ اسلام اور سیکولرزم دو ایسے نقیض ہیں جو کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے اور اُن کے درمیان کوئی واسطہ نہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے !
یاد رکھیں اسلام دین ہے، اور دین نظام حیات کو کہا جاتا ہے۔ یعنی اسلام محض کلمہ پڑھنے، قرآن ناظرہ سیکھنے،اور برکت کے لیے گھر میں رکھنے کا نام نہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس میں انسانی زندگی کے تمام گوشوں چاہے وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی سب کے لیے مکمل رہنمائی اور اصول موجود ہیں۔ اسلام میں دین اور دنیا الگ الگ نہیں ہیں، اسلام دنیا کے تمام شعبوں میں بھی داخل ہے۔
اسلام اور سیکولرزم
سیکولرزم کئی اعتبار سے اسلام کے منافی ہے:
1۔سیکولرازم تصور عبادت کے منافی ہے۔
اسلام نے ہمیں جو تصور عبادت دیا ہے، سیکولرازم اس کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کا تصورت عبادت محض چند عبادات تک محدود نہیں بلکہ زندگی کا ہر لمحہ عبادت ہے۔ کیونکہ عبادت کا لفظ عبد سے بنا ہے اور عبد کا معنی غلام ہے، عبادت کا مطلب ہوا اللہ کی غلامی میں آنا، جسے اردو میں بندگی رب کہا جاتا ہے۔ یعنی آدمی کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی مرضی کے ساتھ گزرے، اس کا عبادت کرنا، سونا، جاگنا، کاروبار کرنا، رسومات ادا کرنا وغیرہ کوئی کام اللہ کی منشاء کے خلاف نہ ہو۔ یعنی دنیا کا ہر وہ کام جو اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے وہ عبادت ہی ہے چاہے وہ کاروبار ہو یا سیاست، معاشرت ہو یا معیشت، رسومات ہوں یا وطن و قوم کی خدمت۔
اس کے برعکس سیکولرازم اجتماعی معاملات یعنی معاشرت، معیشت اور سیاست میں دین اور دینی تعلیمات کا یکسر انکار کرتا ہے۔
2۔ سیکولرزم حاکمیت رب کے تصور کے خلاف ہے:
اسلام ہمیں حاکمیت رب کا تصور دیتا ہے، یعنی ہمارا کوئی بھی معاملہ ہو چاہے وہ انفرادی زندگی سے متعلق ہو یا اجتماعی زندگی سے متعلق اس میں حاکمیت اور آخری فیصلہ رب کا ہی ہوگا۔ خاص طور پر ریاستی امور اور نظام قانون و انصاف میں فیصلے رب کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق ہوں گے۔ کوئی قانون قرآن و سنت کے اصولوں کے خلاف نہ بن سکتا ہے اور نا نافذ ہو سکتا ہے، کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ حلال و حرام کے اختیار کا مالک بن جائے اگرچہ وہ کروڑوں لوگوں کی منتخب کردہ پارلیمنٹ ہی کیوں نہ ہو۔
اس کے برعکس سیکولرازم میں جمہوری نظام ہے جس میں عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جو چاہیں قانون بنائیں اور جو چاہیں قانون ختم کردیں، کیونکہ وہ جمہور کے نمائندے ہیں۔یہ تصور حاکمیت عوام کا تصور ہے جو قرآن کے حاکمیت رب کے تصور کے بالکل منافی ہے۔
٣۔سیکولرزم آسمانی ادیان کو برحق نہیں سمجھتا:
سیکولرازم کی بنیاد ہی دین و مذہب کی نفی اور سائنس و فیکٹ سے ثابت شدہ چیزوں پر ہے۔ چنانچہ ہر وہ چیز جو سائنس اور فیکٹ یا حواس خمسہ اور تجربات کی گرفت میں نہیں آتی سیکولرازم اس کا انکار کرتا ہے۔
جبکہ اس کے برعکس دین اسلام کی بنیاد ہی غیب پر ایمان لانا ہے۔ چنانچہ ہمارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں جب تک ہم اس بات کا اقرار نہیں کرلیتے:
آمَنْتُ بِاللهِ وملائكته وَكُتُبِه وَرُسُلِه وَالْيَوْمِ الْاخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَشَرِّه مِنَ اللهِ تَعَالى وَالْبَعْثِ بَعْدَالْمَوْتِ
اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، کتابوں پر ایمان، آخرت پر ایمان، اچھی بری تقدیر پر ایمان اور مرنے کے بعد دبارہ زندہ ہونے پر ایمان۔
www.NuktaGuidance.com www.EislamicBook.com