سماوی آفات اسلامی تصور اور جدید ذہن
۔۔۔ ابو حماس محمد اسحاق الہندی ۔۔۔۔
سماوی آفات میں ابتلاء و عذاب کا اسلامی تصور اور جدید ذہن کے اشکالات
عصر حاضر میں عالم اسلام پر نازل شدہ المیہ ہائے بے شمار میں سے ایک بڑا المیہ خود مسلمانانِ عالم کا اپنے دین اور مذہب کے درست تصورات سے ناواقف ہونا اور اس پر مستزاد اصل اسلامی تصورات اور تعلیمات کو استعجاب و اجنبیت،بلکہ درست تر الفاظ میں خاصی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنا بھی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے قبلہ محمد دین جوہر صاحب سے ایک روز فون پر گفتگو ہورہی تھی۔اثنائے گفتگو ہم نے عرض کیا کہ فاضل اہل علم حضرات تو جدیدیت اور اس کے تعاملات و حاصلات پر نگاہ رکھتے ہوں گے،ہم مگر اپنے واسطے کل متاع جان و ایمان یہی سمجھتے ہیں کہ ہمیں مغرب یا جدیدیت کی تفہیم بھلے حاصل ہو یا نا ہو،کم از کم اپنے دین اور مذہب کے درست اسلامی تصورات اور ان کا اتنا شعور و ادراک ضرور حاصل ہوجائے کہ دنیا بھر میں جب جہاں کوئی ہماری ردائے ایمان کو چرانے کیلئے میلہ سجائے تو ہم سب کچھ بھول بھال کر اپنی اس ردا کو سنبھال سکیں۔
![سماوی آفات اسلامی تصور اور جدید ذہن 2 ابو حماس محمد اسحاق الہندی](http://www.nuktaguidance.com/wp-content/uploads/2025/01/ابو-حماس-اسحق-الہندی.jpg)
آہ افسوس اور صد افسوس کہ ترقی اور جدیدیت کی چکا چوند میں اہل ایمان کی یہ کمزور سی ردائے ایمان و انقیاد بھی تار تار ہوچکی ہے اور ہم میں سے بیشتر اہل کارواں وہی ہیں جنہیں اس قیمتی ترین متاع کے لٹ جانے کا احساس زیاں تک نہیں۔
“اسلامی تصورات کی عصر حاضر میں درست تفہیم” وہ نہایت اہم پراجیکٹ ہے جس پر اہل علم کے دماغوں کو تفکر اور دلوں کو کڑھن میں مبتلا ہوجانا چاہیے کیونکہ ہمارے مسلم سماج میں بھی اب عن قریب وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے جب درست اسلامی تصورات کو بیان کرنے کے وقت ہمارے ہی دوست /بھائی اور بیٹے کھڑے ہو کر ان پر انگشت نمائی اور حرف گیری کرنے لگیں گے۔
صاحبو!
سوال علم کا دروازہ ہوا کرتا ہے اور کوئی علم پسند شخص اس کی حوصلہ شکنی نہیں کرسکتا مگر۔۔۔۔
اپنی تاریخ و مذہب کی تعلیمات سے ناواقف لوگ جب اپنی جہالت کو بنیاد بنا کر مذہبی تصورات پر نکتہ چینی کرنے لگیں تو یہ سوال درحقیقت علم کا دروازہ نہیں،بلکہ بذاتِ خود جہالت کا قفل ہے اور دل و دماغ پر لگے اس تالے کو کھولنے کیلئے ہمیں سب سے اول اس زنگ کو اتارنا ہوگا جس کے سبب کوئی کنجی اس تالے کے ساتھ درست تعامل ہی نہیں کرپاتی۔
دل و دماغ پر پڑے جہالت کے ان تالوں کا علاج اسلامی تصورات کو ایک مرتبہ پھر پورے شرح و بسط سے دوبارہ بیان کرنا اور پھر ان تصورات کی معقولیت کو جدید ذہن کے سامنے آشکار کرنا ہے۔
تصورات کی اس فہرست میں فرد کے بنیادی اسلامی حقوق و فرائض،اسلامی تصور تعلیم،مرد و عورت کے باہمی حقوق و فرائض کی مکمل تفہیم(بشمول باہمی مساوات،پردہ،نکاح اور دیگر احکام معاشرت کا درست ادراک)
حدود و قصاص،جہا د و قتال کی درست پوزیشن،اسلامی نظام کے بنیادی خدوخال اور اسلامی حکومت میں جمہوریت کی گنجائش جیسے مسائل سے لے کر دولت اور کرنسی کے درست اسلامی تصور تک اور پھر قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ اس پوری کائنات میں تفکر و تدبر کی درست راہ تک کے بیسیوں موضوعات شامل ہیں۔
یہاں ہم سردست صرف عنوان بالا میں بیان کردہ اسلامی تصور اور اس سے جڑے چند اشکالات پر بات کریں گے۔
گذشتہ چند برسوں سے اس امر کا مسلسل مشاہدہ کیا جارہا ہے کہ جب بھی کسی ملک یا علاقے پر کوئی آفت/مصیبت یا ابتلاء وغیرہ آتی ہے تو مسلم سماج کے “پڑھے لکھے” طبقہ میں اس آفت کو محض ایک “فطرتی مظہر” یا “حادثہ” کے طور پر دیکھنے کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔مغرب اور جدید دنیا تو خدا کو اپنی زندگیوں سے دیس نکالا دے چکنے کے بعد اب اس امر پر “اجماع” کر چکی ہے کہ ہمیں اب اپنی ذندگی اور دنیا کے کسی پہلو کو اس نظر نہیں دیکھنا کہ اس میں خدا کی “کار فرمائی” کس قدر ہے؟،اور خدا کو اس میں ہم سے “مطلوب” کیا ہے؟،بلکہ ان سب کا مطمح نظر صرف اور صرف اپنے طور پر یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ(خدا کے پیدا کردہ) اس “چیلنج” سے ہم کس طرح سے نمٹ سکتے ہیں۔؟
جدید دنیا ایسی تمام آفات کو فطرت کی پیدا کردہ ایک “تحدی” سمجھتی ہے اور پھر نہایت تندہی اور جانفشانی سے اس کا “مقابلہ” کرنے یا اس پر غلبہ پانے میں جت جاتی ہے۔جاپان میں زلزلوں کی تباہی سے لے کر سونامی تک اور سونامی سے لے کر لاس اینجلس کی حالیہ تباہی تک۔۔۔۔ان تمام قدرتی آفات کو یہ لوگ محض “فطرت کا ایک چیلنج” سمجھ کر لیتے ہیں اور اسی کے مطابق ڈیل کرتے ہیں۔(آپ کو یاد ہوگا کہ پاکستان میں جب “ڈینگی” نیا نیا آیا تھا تو حکومت نے اسے بھی ایک “چیلنج” قرار دیا تھا اور شائد کرونا کو بھی)
یہ امر ملحوظ رہے کہ ہمارا نام نہاد پڑھا لکھا طبقہ(خاص کر دانشوروں اور ادیبوں کا طبقہ)صرف اپنی معاشرت میں جدید دنیا کا اندھا دھند نقال نہیں ہے،بلکہ اس کی بنیادی خرابی یہ ہے کہ اس کا طرز فکر اور سوچ بچار کرنے کا طریقہ کار بھی اب تقریبا انہی کفار و ملحدین جیسا سیکولر ہو چکا ہے۔۔۔بلکہ اب تو معاملات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ آپ ایک سود خور،ظالم،راشی،یا کسی بھی کھلے حرام پیشے میں مبتلا شخص پر کوئی مصیبت دیکھ کر اسے رجوع الی اللہ کا مشورہ دیں تو وہ ناراض ہو جائے گا۔
کوتاہ فہموں کو خبر ہو کہ کسی مریض یا مصیبت میں مبتلا شخص کو خدائی عذاب کے طعنے دینا ہرگز کوئی مسلمانی نہیں ہے لیکن ہمیں بطور مسلمان اپنی زندگی کا رخ صاف طور پر واضح کرنا ہے کہ ہم کفار اور ملاحدہ کی مانند بغیر خدا کے جینا چاہتے ہیں یا خدا کے ساتھ؟
اس حوالے سے ہمارے پیغمبر علیہ السلام کا مبارک طرز عمل تو یہ تھا کہ ہر معمولی سے معمولی تکلیف پر بھی ان کی توجہ فوراً اللہ رب العزت کی جانب جایا کرتی تھی۔چنانچہ احادیث مبارکہ میں آیا ہے کہ ہوا کچھ زور سے چلتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رب ذوالجلال کی جانب متوجہ ہو جایا کرتے تھے۔سورج گرہن اور چاند گرہن پر نمازیں پڑھنے کی تلقین فرمائی،ان کے سجدے طویل کیے،آندھی،طوفان اور بارش کے وقت کی دعائیں سکھلائی گئیں۔طلوع اور غروب آفتاب کے اوقات پر نمازوں کو فرض کیا گیا،صبح و شام کی دعائیں بتائیں گئیں۔۔۔۔یہ سب سلسلہ کیا ہے؟،
یہ سارا سلسلہ ہمیں بتلاتا ہے کہ ہر بدلتے منظر کے ساتھ ہم اپنے رب کو لازمی طور پر یاد رکھیں۔
قرآن پاک کو کھول کر پڑھیے تو پورا قرآن ہمیں سیکنڑوں بلکہ ہزاروں مرتبہ اللہ کے عذاب سے ڈرا رہا ہے۔ہر صفحہ،ہر رکوع اللہ سے ڈرنے اور اس کے عذاب سے ڈرنے کو بیان کر رہا ہے۔ہمارے ہاں تو بڑے لیول کی حکومتی اجتماعات میں مبلغ بھی وہی بلائے جاتے ہیں جو صرف خوش خبریاں سنانے والے اور میٹھی میٹھی لوریاں دینے والے ہوں۔قران پاک کے عذاب سے ڈرانے والے اس انذاری پہلو سے ہماری یہ فکر انگیز بے اعتنائی صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم خود کو اللہ کے سامنے جواب دہ نہیں دیکھنا چاہتے۔
مسلم سوسائٹی کی بنیاد تقوی پر ہوا کرتی ہے اور تقوی نیکیوں سے نہیں،بلکہ خدا سے ڈرنے سے حاصل ہوتا ہے۔شدا سے ڈرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کی کتاب کا انذاری پہلو بھی پوری طرح ہمارے سامنے رہے۔اس کے عذاب،اس کی پکڑ،اس کی ناراضگی سے ہم ہر لمحہ ہر گھڑی یوں ڈریں جیسے پیغمبر علیہ السلام کے تربیت یافتہ جناب صحابہ کرام علیھم الرضوان اجمعین ڈرا کرتے تھے۔
ہمارا حال تو یہ ہے ہم اپنے تصور خدا کو بھی ادھورا کر چکے ہیں۔چنانچہ اب ہمیں صرف اور صرف بے انتہا مہربان،رحیم اور کریم کا تعارف رکھنے والا رب چاہیے،جس کے پیچھے اصل خواہش ہماری یہ ہے کہ اگر ہم رب کو جبار و قہار مانیں گے تو ہمیں ظلم و ستم سے باز رہنا ہوگا،اپنی بے لگام خواہشات کو قابو کرنا ہوگا۔۔۔،ہم اپنی حرام کاریوں کو چھوڑ کر تقوی والی مشکل زندگی اپنانے کی بجائے من مانی زندگی گزار کر ایک رحیم و کریم ذات کے حضور پیش ہوجانے کے تصور پر جینا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت بیشتر مسلم معاشرے جھوٹ،فراڈ دھوکہ،بے ایمانی اور ظلم و ستم سے اٹے پڑے ہیں۔
ہمیں پیغمبر علیہ السلام کی اطاعت مشکل لگتی ہے اس لیے ان کی نعت پڑھ کر دل بہلانا چاہتے ہیں اسی طرح اللہ رب العزت کی بیان کردہ تقوی والی زندگی مشکل لگتی ہے تو اس ذات عالی کا بھی ادھورا تعارف کرواتے ہیں۔
خوب سمجھ لیجیے کہ
اللہ رب العالمین کی ذات بلا شبہہ اس کائنات کی سب رحیم و کریم ذات ہے مگر سوال پھر یہی ہے کہ اس رحیم و کریم ذات کے سب سے محبوب اور برگزیدہ پیغمبر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا اللہ رب العالمین کو صرف اسی ایک پہلو سے دیکھتے تھے؟،یا ہر لحظہ،ہر آن ہر گھڑی اس ذات کے سامنے ترسیدہ و لرزیدہ بھی رہتے تھے؟؟۔
ایک روایت میں تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا کہ میں تم سب میں سے سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔
واللہ انی لاتقٰکم للہ واخشٰکم له
اب کسی کو آگ لگتی ہے تو لگے،کوئی ایکسڑا روشن خیال جل بھن کر مرتا ہے تو مرے،کسی کو یہ سب دقیانوسی باتیں لگتی ہیں تو لگیں۔۔،لیکن اگر کوئی خود کو مسلمان کہتا ہےاور پیغمبر علیہ السلام کی شفاعت کا حقدار بننا چاہتا ہے،تو اس سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خود کو اللہ کا سب سے زیادہ ڈرنے والا بندہ کہیں،اور احادیث مبارکہ بتلائیں کہ وہ ہر معمولی سی بات حتی کہ تیز ہوا چلنے پر بھی اللہ رب العزت کی جانب متوجہ ہو جایا کرتے تھے۔،تو پھر اب ان کے نام لیواؤں کی یہ پوری نام نہاد مسلم سوسائٹی خدا خوفی سے اس قدر کیوں بھاگتی ہے؟
انہیں جمعہ کے بیان میں مولوی صرف اتنا کہہ دے کہ بھائیو! ہمیں اپنے اعمال درست کرنے کی ضرورت ہے تو یہ بدبخت صبح یہاں کتاب چہرہ پر آکر اس مولوی کو گالی اور دشنام کیوں شروع کردیتے ہیں کہ جی یہ مولوی تو بلاوجہ ہمارا پیشاب خطا کرنے کے چکر میں رہتے ہیں؟؟
جب دنیا کے سب سے نیک اور متقی لوگوں کو کائنات کے سب سے شفیق اور کریم پیغمبر اللہ سے اتنا ڈرایا کرتے تھے کہ ان کے آنسووں سے زمین گیلی ہو جایا کرتی تھی۔تو ہم اپنے مولوی کو اس بات پر کیوں ناراض ہوتے ہیں کہ وہ بات بات پر ہمیں اللہ کی جانب کیوں متوجہ کرتا ہے؟؟؟
کیا بطور مسلمان ہم پر لازم نہیں کہ اپنی زندگی کے ہر چھوٹے سے چھوٹے معاملے سے لے کر بڑے سے بڑے مسئلے تک۔۔،ہر ہر بات کو اللہ رب العزت کی ناراضگی اور رضا کے پہلو سے دیکھیں۔؟
صاحبو!
خلاصہ بحث یہ ہے کہ
جب اس کائنات کے ہر پتے،ذرے کی حرکت اس ذات کے تابع فرماں ہے تو پھر ہم اسے چھوڑ کر اس کائنات اور اس میں ہونے والے امور کو کسی اور رخ سے اخر کیسے دیکھ سکتے ہیں؟
ہم دنیا کی ہر تھیوری،ہر فلسفے اور ہر اس نظریے کو پرکاہ برابر حیثیت بھی نہیں دیں گے جو قرآن و سنت کے فریم ورک سے باہر ہو۔جب ہمارے رحیم و کریم رب نے اپنی تعلیمات اور ہدایات کو نہایت وضاحت اور صراحت کے ساتھ ہم تلک بصورت قرآن پاک پہنچا دیا اور ہمارے پیارے آقا کریم،شفیع المذنبین،سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل مبارک سے ہمارے لیے ایسے مواقع کی سنت جاری کردی تو اس سے آگے ہر دانشوری نری ضلالت ہے،ہر فلسفہ نری بکواس ہے،اور۔۔۔ہر تھیوری نرا ڈرامہ ہے۔
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقاں وہی يٰس وہی طٰہٰ