سانڈے کا تیل
پروفیسر ڈاکٹر مزمل طاہر لاہور کے ایور کیئر ہسپتال میں یورالوجسٹ ہیں اور لاہور ہی کے شیخ زید ہسپتال کے شعبہ یورالوجی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سانڈھے کے تیل کے مبینہ فوائد کے حوالے سے کی جانے والی تمام باتیں محض داستانیں اور وہمی باتیں ہیں۔
’اگر آپ سانڈھے میں نکلنے والی چربی کا کیمیائی جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا یہ کسی بھی جاندار میں پائی جانے والی دوسری چربی کی طرح ہے اور اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تلہ میں بھی کوئی ایسی خصوصیت نہیں ہے جو کسی بھی قسم کی جنسی کمزوری کا علاج کر سکے۔ ’
بلکہ ہم نے بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو جلنے کے بعد ہمارے پاس آئے ہیں۔ جس جگہ وہ تلہ لگاتے ہیں وہ جگہ جل جاتی ہے۔ پھر پلاسٹک سرجری کرنا پڑتی ہے۔
ڈاکٹر مزمل کے مطابق ’سانڈھے کو بلا وجہ مار دیا جاتا ہے اور لے دے کر یہ سب پیسے کا کھیل ہے۔‘
بڑے پیمانے پر اس کا شکار کیا جاتا ہے۔ لیکن زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ شکار کے بعد اس جانور کو نہایت اذیت ناک طریقے سے رکھا جاتا ہے۔
پکڑتے ہی، اس کی کمر توڑ دی جاتی ہے جس سے یہ ہمیشہ کے لیےمعذور اور بے حرکت ہو جاتا ہے۔ اس کا اگلا دھڑ بس اتنا کام کرتا ہے کہ یہ اگلی دو ٹانگوں پر سر اٹھائے رکھتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندہ ہے، جب کہ باقی دھڑ بے جان پڑا رہتا ہے۔
سانڈے کے تیل سے مثانے اور پشاب کی نالی میں چربی آ جاتی ہے اور تھوڈے وقت بعد طاقت کم ہو جاتی ہے اور اوریجنل طاقت بھی جاتی رہتی ہے لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ کمر اور ٹانگوں کی کئی اعصابی تکالیف ہیں جو اس کے تیل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.