ر سالت سے تکلیف کن لوگوں کوہے۔ فرقہ واریت کیا چیز ہے

فرقہ واریت کیا چیز ہے

سید عبدالوہاب شیرازی
اس امت میں جتنے فتنے اٹھے ہیں وہ سارے انکار سنت ہی کی بدولت اٹھے ہیں، چنانچہ پہلافتنہ مسیلمہ کذاب کا اٹھا، جن کا نعرہ تھا: کفاناہدایۃ القرآن۔ یعنی ہمارے لیے قرآن کی ہدایت کافی ہے۔اس خوبصورت نعرے میں ساری انکار سنت موجود ہے۔ اس کے بعد خوارج کا فتنہ کھڑا ہوا، ان کا نعرہ تھا: حسبنا کتاب اللہ، ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ اسی طرح منافقین کا بھی یہی مسئلہ تھا، وہ کہتے تھے ہم اللہ کو مانتے ہیں، آخرت پر یقین ہے، ہم محمد کی شخصی اطاعت کیوں کریں، لیکن سورہ نساء میں سارا زور ہی اسی بات پر دیا گیا ہے کہ جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی اطاعت نہ کروتمہارا ایمان معتبر ہے ہی نہیں۔یہ انکار رسالت کا فتنہ ہر دور میں رہا، یہاں تک کہ ابھی قریب کے زمانے میں غلام احمد پرویز آیاجس نے قرآن سے رسالت کا تعلق توڑنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ناکام رہا، البتہ اس کا اثر کافی لوگوں پر ہوا ہے۔چنانچہ اب موجودہ زمانے میں اس شیطانی کام کا جھنڈا جاوید احمد غامدی نے تھاما ہوا ہے، اور دجالی میڈیا اور ہمارے بعض چینلز جیونیوز،دنیا نیوز وغیرہ اس نئے فرقے کو خوب پروموٹ کررہے ہیں۔

اس ضمن میں ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید کے ساتھ سنت کا تعلق کیا ہے؟ قرآن نے جس چیز کو بینہ قرار دیا ہے یعنی وہ روشن چیز جو حق وباطل میں تمیز کرے وہ اللہ کے رسول ہیں جو صحیفے پڑھتے ہوئے آئے۔ رسول کو پہلے ذکر کیا جبکہ کتابوں کو بعد میں ذکرکیا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جب کوہِ صفا پر کھڑے ہوکر اعلان کیا تھا، اس وقت تو یہ پورا قرآن نہ تو موجود تھا اور نہ ہی آپ نے قرآن کی طرف دعوت دی بلکہ وہاں دلیل کے طور پر اپنی ذات کو پیش کیا اور کہا میں نے تمہارے درمیان چالیس سال گزارے ہیں، میں تمہیں کہوں پہاڑی کے پیچھے لشکر ہے تو مانو گے یا نہیں۔ پھر ہماری زیادہ تر فقہ قرآن میں بعد میں آئی ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر پہلے سے عمل کروانا شروع کردیا تھا کیونکہ وماینطق عن الہوا ان ہوا الا وحی یوحی، آپ جو بھی بولتے تھے وہ سارا وحی ہی ہوتا تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں: کان خلقہ القرآن۔ یعنی حضور کی سیرت واخلاق قرآن ہی تھی۔ اوراللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے، جس کا مطلب ہے آپ کی پوری سیرت اور سنت کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ ہی نے اٹھایا ہوا ہے اور آپ کی ساری سیرت اور سنت بالکل محفوظ ہے۔
اب اس بات کو دیکھتے ہیں کہ فرقہ واریت کیا چیزہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں تہتر فرقے بنیں گے، بہتر جہنمی ہوں گے صرف ایک جنتی ہوگا، پوچھا گیا وہ کون سا ہوگا؟ تو فرمایا: ماانا علیہ واصحابی۔ یعنی وہ فرقہ جو اس راستے پر ہوگا جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ بہتر فرقے کون سے ہیں؟ کیا ہمارے ہاں مختلف مسالک جو بنے ہوئے ہیں وہ فرقے ہیں؟ یا ہمارے ہاں مختلف مذہبی تنظیمیں جیسے تنظیم اسلامی، جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت،جمعیت علمائے اسلام وغیرہ یہ فرقے ہیں؟ اس حوالے سے اچھی طرح جان لیجئے ان میں سے کوئی بھی فرقہ نہیں ہے۔ یہ سب ماانا علیہ واصحابی پر ہی ہیں۔ فرقہ واریت کی جامع مانع تعریف یہ ہے کہ جس چیز کی دین میں گنجائش ہی نہ رکھی گئی ہو، یا جہاں دین میں اختلاف کرنے کی گنجائش نہ رکھی گئی ہو وہاں اختلاف کرنا یہ فرقہ واریت ہے۔ مثلا دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں اور نہ ہی اختلاف کرنے کی گنجائش ہے، اب یہاں جو کہے نماز فرض نہیں یا نمازیں پانچ نہیں تین ہیں تو یہ فرقہ واریت ہے کیونکہ اس بات میں اختلاف کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی۔ جبکہ نماز پڑھنی کیسے ہے اس میں اختلاف کی گنجائش ہے لہٰذا اس اختلاف کو فرقہ واریت نہیں کہہ سکتے۔ پھر اسی طرح جہاں اللہ نے اختلاف کی گنجائش چھوڑی ہو وہاں اختلاف کی گنجائش نہ چھوڑنا یہ بھی فرقہ واریت ہے۔مثلا اللہ کے نبی نے ایک مرتبہ حکم دیا کہ جلدی سے فلاں جگہ پہنچو اور عصر کی نماز وہاں پڑھنا، اب راستے میں عصر کا ٹائم نکل رہا تھا تو کچھ صحابہ نے راستے میں ہی نماز پڑھ لی اور کچھ نے کہا نہیں ہم تو وہاں پہنچ کر نماز پڑھیں گے، بعد میں اللہ کے نبی سے پوچھا گیا تو آپ نے کہا دونوں نے ٹھیک کیا۔ اسی طرح ایک حدیث میں آیا داڑھی لمبی رکھو جبکہ ایک حدیث میں داڑھی کے کچھ حساب کتاب کا ذکر بھی ہے ، اب کوئی شخص کہے کہ کسی نے داڑھی کو قینچی لگائی تو وہ بدعتی ہے تو گویا اس نے اختلاف کی گنجائش ہونے کے باوجود نہ چھوڑی تو یہ بھی ایک نوعیت کی فرقہ واریت ہے۔
ایک مرتبہ آپ نے فرمایا میرے بعد تم بہت اختلاف دیکھو گے، اس وقت تم پر لازم ہے کہ تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔ پھر ان خلفاء کی تشریح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے کی ہے کہ حضور کی تین خلافتیں ہیں۔ایک آپ کی سیاسی خلافت ہے، ایک آپ کی علمی خلافت ہے اور ایک آپ کی باطنی خلافت ہے۔ یہاں سیاسی خلافت کے لئے تو ہم جدجہد کررہے ہیں کیونکہ وہ ابھی موجود نہیں ہے البتہ خاص طور پر آپ کی علمی خلافت جس کے لئے ہمارے لئے رہنماء کے طورپر چاروں ائمہ(امام ابوحنیفہ،امام شافعی،امام مالک،امام احمدبن حنبل)ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علمی خلافت کا حق ادا کیا ہے اس کے ساتھ وابستگی اور اس خلافت کے ساتھ چمٹنے کا حکم ہے۔اس وقت جو طرح طرح کے فتنے کھڑے ہورہے ہیں ان حالات میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس دائرے میں اپنے آپ کو پابند کریں۔جیسا کہ کہا گیا کہ درخت کی جڑوں کے ساتھ چمٹ جاو، تو وہ یہ شجرہ طیبہ ہے جس کے ساتھ چمٹنے کا حکم دیا جارہا ہے۔اگر روشن خیالی کے طوفان سے ہم بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے آپ کو اس دائرے میں بند کرنا ہوگا۔اس سے معلوم ہوا اصل فرقہ واریت فتنہ انکار حدیث ہے، اصل فرقہ واریت سیکولرازم ( ہمہ مذہبیت ، لادینیت ) ہے۔چنانچہ ہمارا میڈیا اس فرقہ واریت کو خوب پھیلا رہا ہے اور الزام دینی طبقات پر لگایا جارہا ہے کہ وہ فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں

Leave a ReplyCancel reply

Discover more from Nukta Guidance Articles

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Exit mobile version