سید عبدالوہاب شیرازی
رمضان، قرآن اور ہم
شَھْرُ رَمَضَانَ الذِی اُنزِلَ فِیہِ القُرآنُ ھُدی اللناس وبَیِّنٰت من الھدیٰ والفُرقَان(بقرہ)
ہدایت کے دوپہلو
ہدایت کا ایک پہلوہے نظری،فکری اور علمی ہدایت۔ جبکہ ہدایت کا دوسرا پہلو ہے عملی، اخلاقی اور زندگی کے معمولات کے ضمن میں ہدایت۔یعنی انسان میں یہ تمیز پیدا ہو اجائے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟۔
پہلاپہلو
جو کچھ نظر آرہا ہے یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ جو کچھ اس کے پیچھے ہے وہ حقیقت ہے۔ کائنات میں جو کچھ نظر آرہا ہے یہ حقیقت نہیں بلکہ حقیقت اس کے پیچھے ہے، ایک ہمارا یہ ظاہری وجود ہے جس میں درد بھی محسوس ہوتا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ، حقیقی وجود روحانی وجود ہے جو نظر نہیں آتا۔ اسی طرح یہ کارخانہ دنیا ہے یہاں کی رنگینیاں ہیں سازوسامن ہے لیکن حقیقت اس کے پیچھے ہے یعنی آخرت۔یہ جو ظواہر ہیں ان کی بجائے حقائق پر توجہ ہو تو یہ نظری ہدایت ہے، یعنی ظاہر وباطن اور حق وباطل کا فرق معلوم ہو جانا یہ ہدایت ہے۔تین حقائق یعنی ذات باری تعالیٰ، روح انسانی اور حیات اخروی پر جب تین ظواہر یعنی کائنات، جسم انسانی اور حیات دنیوی کا پردہ پڑ جائے تو یہی دجل اور دجالیت ہے۔ حضور ﷺ کی ایک بہت ہی پیاری دعا اسی بارے میں ہے:
اللھم اَرِنِیْ حَقِیْقَۃَ الْاَشْیَاءِ کَمَاھِیَ۔
دوسراپہلو
دوسری ہدایت عملی ہے اور اس کے بھی دودرجے ہیں: ایک انفرادی سطح پر ہدایت۔ اور دوسرا اجتماعی سطح پر ہدایت۔
انفرادی ہدایت یہ ہے کہ: مَیں کیا کروں ، کیا نہ کروں۔ کیا خیر ہے اور کیا شر ہے۔ کیا اچھی بات ہے اور کیا بری بات ہے؟ یہ انفرادی ہدایت اللہ نے ہر انسان کے دل میں ودیعت کرکے بھیجا ہے:
ونفس وما سواھا، فالھمھا فجورھا وتقواھا(الشمس)
یہی وجہ ہے اس انفرادی معاملے پر قرآن مجید میں اتنا زیادہ زور نہیں دیا گیا، ان باتوں کو معروف اور منکر کہا گیا ہے، معروف یعنی جانی پہچانی جس سے خود ہی انسان واقف ہے، اور منکر یعنی جس سے خود ہی انسانی نفس نفرت کرتا ہے، دنیا کے کس انسان کو معلوم نہیں کہ سچ بولنا اچھی اور جھوٹ بولنا بری بات ہے۔
اجتماعی سطح پر ہدایت: انسان کی اصل احتیاج اجتماعی زندگی کی ہدایت ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں آکر انسان افراط وتفریط کا شکار ہو جاتا ہے، دنیا میں تین بڑے اجتماعی مسائل ہیں:
ایک مرد وعورت کے حقوق میں توازن۔ دوسرا ریاست اور شہری کے حقوق میں توازن ، یعنی شہری کو کتنی آزادی ہے اور کتنا پابند ہے اور ریاست کو کتنی آزادی ہے اور کتنی پابند ہے۔ تیسرا سرمایہ اور محنت، سرمایہ دار اور مزدور کے حقوق کا توازن۔یہاں آکر انسان ہدایت کا محتاج ہو جات ہے اور وہ ہدایت قرآن مجید سے ملتی ہے:
الرحمن، علم القرآن، خلق الانسان، علمہ البیان۔
رحمن اللہ کے ناموں میں سے چوٹی کا نام ہے اور قرآن تمام کتابوں میں سے چوٹی کی کتاب ہے اور انسان تمام مخلوقات میں سے چوٹی کی مخلوق ہے اوربیان انسان کی تمام صلاحیتوں میں سے چوٹی کی صلاحیت ہے۔
ان آیات میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی کہ رحمن کی چوٹی کی مخلوق انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی چوٹی کی صلاحیت یعنی بیان کو اللہ کی چوٹی کی کتاب قرآن کو بیان کرنے پر صرف کرے۔اس ساری گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ پوری قوت کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی سطح پر رجوع الی القرآن کی زبردست تحریک چلنی چاہیے تاکہ سب مسلمان قرآن کے ساتھ جڑجائیں قرآن کو سیکھیں اور سکھائیں سمجھیں اور سمجھائیں عمل کریں اور عمل کروائیں اسی سے ہمارے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔
آج قرآن ہماری زندگیوں سے نکل گیا ہے، ہم اگرچہ کئی کام انفرادی سطح کے کرتے ہیں لیکن اجتماعی سطح پر پہلا قدم رکھتے ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ہم رواجی پردہ تو کرتے ہیں لیکن شرعی پردہ نہیں کرتے، رواجی پردہ یہ ہے کہ اجنبی سے پردہ کرواور جاننے والے یا رشتہ دار سے نہیں، جبکہ شرعی پردہ یہ ہے کہ غیر محرم سے پردہ کرو چاہے وہ رشتہ دار یا جاننے والا ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح دیگر اجتماعی مسائل میں ہماری یہی حالت ہے کہ ہم دین پر عمل نہیں کرتے۔
قرآن مجید کے پانچ حقوق
آج دنیا میں حقوق کی جنگیں لڑی جارہی ہیں، کہیں خواتین کی حقوق کی بات ہورہی ہے اور کہیں جانوروں کے حقوق کی لیکن آج کے مسلمان کو یہ نہیں معلوم کہ اس پر قرآن مجید کے کتنے حقوق ہیں، تو جاننا چاہیے کہ ہر مسلمان پر قران مجید کے پانچ حقوق ہیں:
۱۔ایمان وتعظیم، ۲۔تلاوت وترتیل، ۳۔تذکروتدبر، ۴۔حکم واقامت، ۵۔تبلیغ وتبیین
1۔ایمان وتعظیم
ایمان کے دو حصے ہیں: ایک اقرار اور دوسرا تصدیق۔ ہم اقرار تو کرتے ہیں لیکن یقین اور تصدیق کی ہمارے اندر کمی ہے۔ لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں کہ آیا ہم قرآن کو متوارث مذہبی عقیدے کی بناء پر ایک آسمانی مقدس کتاب سمجھتے ہیں جس کا زندگی اور اس کے جملہ معاملات سے تعلق نہ ہو یا یہ یقین ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس لئے نازل ہوا کہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں اور اسے اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنائیں؟۔
ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کمی کیسے پوری ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان ویقین کے حصول کا سب سے آسان ذریعہ اصحاب ایمان ویقین کی صحبت ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا عظیم ایمان بھی حضورﷺ کی صحبت کا نتیجہ تھا، آپ ﷺ کے بعد ہمارے لئے بھی اصحاب یقین کی صحبت ضروری ہے اور خود ایسے خواص کے لئے نور ایمان کا منبع قرآن ہے۔ پھر اس کے بعد سیرت رسول واصحاب رسول کا مطالعہ کرنے سے معنوی صحبت میسر آجاتی ہے۔
ایمان کوئی ٹھوس چیز نہیں جسے باہر سے ٹھونس کر اندر داخل کیا جائے بلکہ ایمان کی چنگاری ہر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے لیکن اعمال بد نے اسے دھندلا کیا ہوتا ہے ، اس چنگاری کو شعلہ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔حضور ﷺ نے فرمایا:
اِنَّ ھٰذہ الْقُلوْبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصدَأُ الحَدِیْدُ اِذا اَصَابَہُ المَاءَ، قیل یارسول اللہ مَا جِلَاءُ ھَا؟ قال کَثْرَتُ ذِکرِ الموْتِ وَتِلَاوَۃُ القرآنِ(بیہقی)
2۔تلاوت وترتیل
قرآن مجید کا دوسرا حق قرآن کی قرات اور تلاوت ہے۔قرات کا لفظ ہر کتاب کے لئے بولا جاتا ہے جبکہ تلاوت کا لفظ صرف قرآن کے لئے خاص ہے۔ پہلے زمانے میں قاری قرآن کے عالم کو کہا جاتا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ لفظ ان لوگوں کے لئے استعمال ہونے لگا جو قرآن کو مخارج اور صفات کا لحاظ رکھتے ہوئے اہتمام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
قرآن کی تلاوت باربار کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح جسم انسانی بار بار کھانے کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح روح انسانی بھی غذا کی محتاج ہے اور روح کی سب سے عمدہ غذا تلاوت قران کریم ہے۔
قرآن مجید کا دوسرا حق تلاوت قرآن ہے پھر اس تلاوت کے بھی کچھ حقوق ہیں:
*تلاوت کا پہلا حق یہ ہے کہ قرآن کو تجوید کے قواعد کا لحاظ کرکے تلاوت کیا جائے، یعنی مخارج، صفات اور رموز اوقاف کا علم ہونا چاہیے تاکہ قرآن کی تلاوت کا حق ادا ہوسکے۔
*تلاوت کا دوسرا حق یہ ہے کہ روزانہ کا معمول ہونا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ تلاوت کا نصاب دس پارے روزانہ ہے اور کم سے کم نصاب ایک پارہ روزانہ ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک نصاب ہے جس پر اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کا معمول تھا وہ ایک ہفتے میں ختم قرآن کا ہے، قرآن مجید میں سات منزلوں کی تقسیم اسی وجہ سے ہے کہ ایک منزل روزانہ تلاوت کرلی جائے اور ایک منزل کو تلاوت کرنے میں تقریبا دوگھنٹے صرف ہوتے ہیں۔
*تلاوت کا تیسرا حق خوش الحانی ہے، فرمایا:
زَیِّنُوالْقُرآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ
قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرکے پڑھو۔ اور ایک روایت میں آپ ﷺ نے تنبیہ فرمائی کہ:
مَن لم یَتَغَنَّ باالقُرآنِ فَلَیسَ منَّا
جوقرآن کو خوبصورت نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
*تلاوت کا چوتھا حق یہ ہے کہ آداب ظاہری وباطنی کا خیال رکھا جائے، یعنی باوضو ہو کر قبلہ رخ بیٹھ کر تعوذوتسمیہ پڑھ کرحضوری قلب، اور مسلسل تذکروتدبر اور تفہم وتفکر کرکے تلاوت کا اہتمام کیا جائے۔ اپنے خود ساختہ خیالات ونظریات کی سند قرآن میں نہ ڈھونڈی جائے بلکہ قرآن سے ہدایت لینے کے لئے پڑھا جائے۔
*تلاوت کا پانچواں حق ترتیل ہے، یعنی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کی جائے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَرَتِّلِ الْقُرآنَ تَرْتِیْلَا
اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ ٹھہر ٹھہر کرپڑھنا تثبیت قلبی کا ذریعہ بھی ہے، فرمایا:
کَذالِک لِنُثَبِّتَ بِہ فَؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلَا(فرقان)
اسی طرح(اتارا)تاکہ ہم اس کے ذریعے تمہارے دل کو ثبات عطا کریں، چنانچہ پڑھ سنایا ہم نے اس کو ٹھہر ٹھہر کر۔ چنانچہ ترتیل کے ساتھ پڑھنے سے زیادہ فیض حاصل ہوتا ہے۔ایک روایت میں فرمایا قرآن کی تلاوت کرو اور روؤ۔
*تلاوت قرآن کا چھٹا حق یہ ہے کہ اس کو حفظ بھی کیا جائے، حفظ میں یہ ضروری نہیں کہ پورا ہی حفظ کیا جائے بلکہ حسب توفیق زیادہ سے زیادہ حفظ کیا جائے۔
3۔تذکروتدبر
یعنی قرآن کو سمجھنا۔ بغیر سمجھے قرآن کی تلاوت کا جواز ان لوگوں کے لئے جو پڑھنے لکھنے سے محروم رہ گئے ہیں اور اب ان کی عمر اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ ان کے لئے سیکھنا ناممکن ہو چکا ہے۔ایسے لوگ اگر ٹوٹی پھوٹی تلاوت کریں یا تلاوت نہ کرسکیں محض عقیدت کی بناء پر سطروں پر اپنی انگلیاں ہی پھیریں تو بھی ان کو ثواب ملے گا۔ لیکن پڑھے لکھے لوگ جنہوں نے دنیا کے مختلف علوم وفنون حاصل کرنے میں زندگیاں صرف کیں، اپنی تو کیا غیرملکی زبانیں بھی سیکھیں وہ اگر قرآن کو بغیر سمجھے پڑھیں تو عین ممکن ہے وہ قرآن کی تحقیر وتوہین اور تمسخر استہزا کے مجرم گردانے جائیں۔ ایسے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کا فہم حاصل کریں۔
فہم کے مدارج
پھر اس فہم کے بھی مدارج ہیں۔ فہم قران کے دو درجے ہیں: ایک تذکر باالقرآن، اور دوسرا تدبر فی القرآن
۱۔ تذکرباالقرآن یہ ہے کہ قران سے نصیحت حاصل کرنا، اس اعتبار سے قرآن مجید بہت ہی آسان کتاب ہے، ارشاد ربانی ہے:
وَلَقد یَسَّرْناالقرآن للذکر فھل من مدَّکِر
ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان بنایا ہے ، ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟۔
قرآن کو نازل کرکے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان پر حجت قائم کردی ہے خواہ وہ کتنی ہی کم استعداد کا مالک ہو، اگر یہ بات درست ہے تو پھر یہ بھی درست ہے کہ قرآن سے نصیحت حاصل کرنا ہر انسان کے لئے آسان ہے، ہر انسان قرآن سے تذکر حاصل کرسکتا ہے۔
۲۔ تدبر فی القرآن یہ ہے کہ قرآن میں غوروحوض کیا جائے، قرآن مجید وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کا کسی کو اندازہ نہیں ہو سکا، صحابہ کرام تدبر وتفکر میں کئی کئی سال لگاتے تھے۔ وہی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جن کو حضور ﷺ نے سات دن میں قرآن ختم کرنے کا حکم فرمایا تھا وہ صرف سورۃ بقرہ میں تدبر پر آٹھ سال لگا دیتے ہیں، حالانکہ آیات کا شان نزول،عربی زبان اور دیگر قواعد سب جانتے تھے ان کو سیکھنے کی ان کو حاجت ہی نہیں تھی۔
امام غزالی رحمہ اللہ نے ایک عارف کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ : میں قرآن مجید کاایک ختم ہر جمعہ کوکرتا ہوں اور ایک ختم ہر مہینے کرتا ہوں اور ایک ختم ہر سال کرتا ہوں اور ایک ختم ایسا بھی ہے جس میں تیس سال ہوگئے ہیں ابھی جاری ہے۔
قرآن مجید کو بطریق تدبر پڑھنے کی شرائط بہت کڑی ہیں اور ان کا پورا کرنا ہرگز ممکن ہی نہیں سوائے اس کے کہ انسان اپنے آپ کو اسی کام کے لئے وقف کردے اور دن رات قرآن میں مستغرق رہے۔ اس کام کے لئے اولا عربی زبان کے قواعد کا گہرا اور پختہ علم ضروری ہے ، پھر اس کے ادب کا ایک ستھراذوق اور فصاحت وبلاغت کا عمیق فہم لازمی ہے ، اس پر مستزاد یہ کہ جس زبان میں قران نازل ہوا اس کا صحیح فہم اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ادب جاہلی کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے اور دور جاہلی کے شعرا اور خطباء کا کلام بھی پڑھا جائے، پھر اسی پر بس نہیں قرآن کی اپنی بھی وضع کردہ اصطلاحات ہیں جن سے واقفیت ایک طویل مدت تک قرآن کو پڑھتے رہنے سے حاصل ہوتی ہے۔پھر قرآن کے نظم کو سمجھنا، اس کی ترتیب نزولی اور آیتوں وسورتوں کا باہمی ربط جاننا یہ سب چیزیں بہت ضروری ہیں۔یہ ساری وہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں مفسرین نے چودہ علوم کا جاننا کہا ہے، اور یہ چودہ علوم والی بات تو پرانی ہے اب تو اور کئی علوم بھی متعارف ہو گئے ہیں اب تو سولہ یا اٹھارہ علوم کی قید لگائی جاسکتی ہے۔
4۔حکم واقامت
قرآن مجید کا چوتھاحق یہ ہے کہ قرآن پر عمل کیا جائے، قرآن مجید نہ تو جادومنتر کی کتاب ہے کہ محض اس کا پڑھنا دفع بلیات کے لئے کافی ہے اور نہ ہی یہ محض حصول برکت اور ثواب کی کتاب ہے کہ دکان ومکان میں برکت یا مردے بخشوانے کے لئے اس کی تلاوت کی جائے بلکہ یہ ھدی للناس ہے اس کا مقصد نزول اس ہدایت کو حاصل کرنا ہے اور اسے اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنانا ہے۔
ایک شخص تو وہ ہے جو تلاش حق میں لگا ہوا ہے اس کو قرآن کے حق ہونے یا نہ ہونے کا یقین نہیں ہے لیکن وہ لوگ جو اسے حق سمجھتے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں ان کے لئے تو ضروری ہے کہ وہ قرآن کو اپنی زندگی پر عملا نافذ کریں، وہ قرآن کی انگلی پکڑ کر چلنے کی کوشش کریں۔
عمل کے دو پہلو
پھر اس عمل کے بھی دو پہلو ہیں: ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی، ایسے احکام جن کا تعلق انفرادی زندگی سے ہے ان کا تو انسان فی الفور مکلف ہے البتہ ایسے احکام جن کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے ان کا فی الفور مکلف تو نہیں لیکن ان کو درست کرنے کی کوشش کرنا یہ ضروری ہے۔
5۔تبلیغ وتبیین
قرآن مجید کا پانچواں حق دوسروں تک پہنچاناہے۔
بَلِّغُوْا عَنِّی وَلَوْاٰیَۃ
آپ ﷺ کے اس ارشاد سے معلوم ہو ا کہ تبلیغ کی ذمہ داری سے کوئی بھی بری نہیں اگرچہ ایک ہی آیت آتی ہو۔ اصلا تو یہ فریضہ ہے کہ قرآن کے الفاظ اور مفہوم کو اقوام عالم تک پہنچایاجائے، لیکن بدقسمتی سے جس جس کی یہ ذمہ داری تھی وہ خود محتاج ہے کہ اس تک پہنچایا جائے، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم وتعلم قرآن کی ایک ایسی رَو چل پڑے کے تمام مسلمان قرآن کو سیکھنے سکھانے میں لگ جائیں۔
قرآن مجید کے یہ پانچ حقوق ہیں لیکن عام طور پر جو حقوق سمجھے جاتے ہیں وہ یہ ہیں:
۱۔ ریشمی جز دان میں رکھا جائے۔ ۲۔جہیز میں دیا جائے۔ ۳۔نزع کے وقت سرہانے کے قریب یا نئی دکان ومکان میں اس کی تلاوت کی جائے۔ ۴۔عدالتوں میں قسم اٹھاتے وقت سر پررکھا جائے۔ ۵۔ پریشانی کے وقت فال نکالا جائے۔
قرآن اور ہم، ہمارا قرآن کے ساتھ طرز عمل
حضرت عبیدہ ملیکی سے مروی ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
یااھل القرآن لا تتوسدواالقرآن واتلوہ حق تلاوتہ من اناء اللیل والنھاروافشوہ وتغنوہ وتدبروافیہ لعلکم تفلحون*(رواہ البھقی)
اے اہل قرآن اس قرآن کو پس پشت نہ ڈالو، اور اس کی تلاوت کرو جیسا اس کا حق ہے صبح اور شام، اور اس کو پھیلاو، اور اسے خوبصورت آوازوں سے پرھو، اور اس میں تدبر کرو تاکہ تم فلاح پاو۔
لاتتوسدوا یعنی پس پشت نہ ڈالو،سہارا نہ بناؤ۔ ہم نے برکت کی کتاب سمجھ کر طاق میں رکھ دیا، اپنی قسموں کے لئے تختہ مشق بنادیا، مرتے ہوئے شخص کے پاس سورۃ یسین پڑھ لیتے ہیں، بیٹی کو ٹی وی کے ساتھ جہیز میں قرآن بھی دے دیتے ہیں۔ ہمارے حال پر حضور ﷺ کا یہ فرمان صادق آتا ہے۔
ان اللہ یرفع بہذاالکتاب اقواما ویضع بہ آخرین(مسلم)
یعنی دنیا میں بحیثیت قوم ہماری تقدین اس کتاب سے جڑی ہوئی ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا:
وقدترکت فیکم مالن تضلوا بعدہٗ ان اعتصمتم بہ کتاب اللہ (مسلم)
میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑ کر جارہا ہوں کہ جب تک اس کے ساتھ چمٹے رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ اللہ کی کتاب قرآن ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے:
عن علی رضی اللہ عنہ قال: انی سمعت رسول ﷺ یقول: اِنَّھا سَتَکُونُ فِتْنَۃٌ، قُلتُ: مَاالمخرجُ یارسول اللہ ﷺ ؟ قال: کتاب اللہ، فیہ نَبَأُ مَاقَبلَکم وخَبَرُ مَابَعدَکم وحُکمُ مَابَینکُم، ھَوالفَصلُ لیسَ باالھَزْلِ، مَن تَرَکَہٗ مِن جَبَّارٍ قَصَمَہُ اللہُ ومَنِ ابْتَغٰی الھُدٰی فِی غَیرِہ اضَلَّہُ اللہُ وھو حَبلُ اللہِ المَتِینُ، وھو الزکرُ الحکیم، وھوالصراط المستقیمُ
حضرت علی فرماتے ہیں میں حضور ﷺ سے سنا آپ نے فرمایا: عنقریب فتنہ ظاہر ہوگا، میں نے پوچھا اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟(اگر آج کا مسلمان ہوتا تو فورا پوچھتا کب ہوگا کہاں ہوگا کیا ہوگا لیکن صحابہ کرام کو اپنی ایسی فکر لگی ہوتی تھی کہ فورا اس سے خلاصی کا پوچھا)
آپ ﷺ نے فرمایا اس سے خلاصی اللہ کی کتاب قرآن ہے، اس میں تم سے پہلے اور بعد کی خبریں ہیں اور اس میں تمہارے درمیان فیصلے ہیں، وہ قول فیصل ہے فضول بات نہیں ہے، جوجابر سرکش اس کو چھوڑے گا اللہ اس کو توڑکر رکھ دے گا، اور جو اس کے علاوہ ہدایت تلاش کرے گا اللہ اس کو گمراہ کردے گا،قرآن ہی حبل اللہ ہے،اور محکم نصیحت نامہ ہے،اور صراط مستقیم ہے۔
قرآن حبل اللہ ہے۔
سورۃ حج میں فرمایا: واعتصموابااللہ*۔ لیکن بات واضح نہیں تھی پھر اس کی شرح آل عمران میں بیان فرمائی: واعتصموا بحبل اللہ*۔ اب بھی بات واضح نہیں تھی تو احادیث میں اس کی تشریح فرمائی:
۱۔ترمذی شریف کی حدیث میں ہے آپ ﷺ نے قرآن پاک کے فضائل بیان فرماتے ہوئے فرمایا: ھو حبل اللہ المتین*۔یہی قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے۔ ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ اپنے حجری سے باہر تشریف لائے دیکھا صحابہ کرام قرآن کا مذاکرہ کررہے تھے تو آپ نے فرمایا:
۲۔الیس تشھدون ان لا الہ الااللہ وحدہ لا شریک لہ وانی رسول اللہ وان القرآن جاء من عنداللہ؟ قلنا بلیٰ۔ قال فأبشروا فان ہذالقرآن طرفہ بیداللہ وطرفہ بایدیکم فتمسکوا بہ فانکم لن تھلکوا ولن تضلوا بعدہ ابدا۔(طبرانی کبیر)۔
کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اور قرآن اللہ کی کتاب ہے؟ صحابہ نے فرمایا کیوں نہیں،تو آپ نے فرمایا خوشخبری حاصل کرو یہ قرآن اس کی ایک طرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسری طرف تمہارے ہاتھ میں ہے لہذا اس کو مضبوطی سے تھام لو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے:
قال رسول اللہ کتاب اللہ ھو حبل اللہ الممدود من السماء الی الارض(مصنف ابن ابی شیبہ)۔
اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک پہنچی ہوئی ہے۔
مسائل کا حل اکابرین امت کی نظر میں
مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ
اگر ایک شخص مسلمانوں کی تمام موجودہ تباہ حالیوں اور بدبختیوں کی علت حقیقی دریافت کرنا چاہے اور ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دے کہ صرف ایک ہی علت اصلی ایسی بیان کی جائے جو تمام علل واسباب پر حاوی اور جامع ہو تو اس کو بتایا جاسکتا ہے کہ علماء حق ومرشدین صادقین کا فقدان اور علماء سوء ومفسدین دجالین کی کثرت۔
رَبَّنا انَّا اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَاءَ نَا فَاَضَلُّوْنَاالسَّبِیلَا
اور پھر اگر وہ پوچھیکہ ایک ہی جملہ میں اس کا علاج کیا ہے، تو اس کو امام مالک رحمہ اللہ کے الفاظ میں جواب ملنا چاہیے کہ:
لَایَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہ اَوَّلُھَا
یعنی امت مرحومہ کے آخری عہد کی اصلاح کبھی نہ ہوسکے گی تاوقتیکہ وہی طریق اختیار نہ کیا جائے جس سے اس کے ابتدائی عہد نے اصلاح پائی تھی، اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ قرآن حکیم کے اصلی وحقیقی معارف کی تبلیغ کرنے والے مرشدین صادقین پیدا کیے جائیں۔(البلاغ،جلداول،شمارہ اول، مورخہ بارہ نومبر1915 ء)
مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ
’’مفتی محمد شفیع مرحوم ومغفور فرماتے ہیں کہ میں حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ کی خدمت میں ایک دن نماز فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت غمزدہ بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا’’مزاج کیسا ہے‘‘ انہوں نے کہا کہ ہاں ٹھیک ہے میاں مزاج کیا پوچھتے ہو، عمر ضائع کردی۔۔۔ میں نے عرض کیا حضرت! آپ کی ساری عمرعلم کی خدمت میں اور دین کی اشاعت میں گزری ہے، ہزاروں آپ کے شاگرد علماء ہیں جو آپ سے مستفید ہوئے اور خدمت دین میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی۔ تو حضرت نے فرمایا کہ’’ میں تمہیں صحیح کہتا ہوں کہ اپنی عمر ضائع کردی‘‘ میں نے عرض کیا کہ حضرت اصل بات کیا ہے؟ فرمایا ’’ہماری عمروں کا ہماری تقریروں کا ہماری ساری کوششوں کا خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے مسلکوں پر حنفی مسلک کی ترجیح قائم کردیں، امام ابو حنیفہ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں، یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا، تقریروں کا اور علمی زندگی کا۔
اب غور کرتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی! پھر فرمایا’’ ارے میاں اس بات کا کہ کون سا مسلک صحیح تھا اور کون سا خطاء پر ؟ اس کا راز تو کہیں حشر میں بھی نہیں کھلے گا اور نہ دنیا میں اس کا فیصلہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی قبر میں منکر نکیر پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترکِ رفع یدین حق تھا؟(نماز میں) آمین زور سے کہنا حق تھا یا آہستہ کہنا حق تھا، برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا، روز محشر اللہ تعالیٰ نہ امام شافعی ؒ کو رسوا کرے گا نہ امام ابوحنیفہ ؒ کو ، نہ امام مالک کو،اور نہ امام احمد بن حنبل کو۔۔۔ اور نہ میدان حشر میں کھڑا کرکے یہ معلوم کرے گا کہ امام ابوحنیفہ نے صحیح کہا تھا یا امام شافعی ؒ نے غلط کہا تھا، ایسا نہیں ہوگا۔
تو جس چیز کا نہ دنیا میں کہیں نکھرنا ہے نہ برزخ میں ، نہ محشر میں اس کے پیچھے پڑکر ہم نے اپنی عمر ضائع کردی اور جو صحیح اسلام کی دعوت تھی جو سب کے زندیک مجمع علیہ اور وہ مسائل جو سبھی کے نزدیک متفقہ تھے اور دین کی جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں، جن کی دعوت انبیاء کرام لے کر آئے تھے جن کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا وہ منکرات جن کو مٹانے کی کوشش ہم پر فرض کی گئی تھی آج اس کی دعوت ہی نہیں دی جارہی ، یہ ضروریات دین تو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو رہی ہیں اور اپنے اور اغیار سبھی دین کے چہرے کو مسخ کررہے ہیں اور وہ منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگے ہونا چاہئے تھا وہ پھیل رہے ہیں، گمراہی پھیل رہی ہے ، الحاد آرہاہے، شرک وبت پرستی چلی آرہی ہے، حرام وحلال کا امتیاز اٹھ رہا ہے لیکن ہم لگے ہوئے ہیں ان فرعی وفروعی بحثوں میں، اس لئے غمگین بیٹھا ہوں اور محسوس کررہا ہوں کہ عمر ضائع کردی۔(وحدت امت،ص13 مفتی محمد شفیعؒ )۔
مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری ؒ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اجتہادی مسائل اور ان کے اختلاف جن میں ہم اور عام اہل علم الجھتے رہتے ہیں اور علم کا پورا زور اس پر خرچ کرتے ہیں، ان میں صحیح وغلط کا فیصلہ دنیا میں تو کیا ہوتا میرا گمان تو یہ ہے کہ محشر میں بھی اس کا اعلان نہیں ہوگا کیونکہ رب کریم نے جب دنیا میں کسی امام مجتہد کو باوجود خطا ہونے کے ایک اجر وثواب سے نوازا ہے اور ان کی خطا پر پردہ ڈالا ہے تو اس کریم الکرما کی رحمت سے بہت بعید ہے کہ وہ محشر میں اپنے ان مقبولان بارگاہ میں سے کسی کی خطاء کا اعلان کرکے اس کو رسوا کریں۔
دو عظیم شخصیات
کالجوں یونیورسٹیوں سے نکلنے والے لوگوں میں چوٹی کی شخصیت علامہ اقبال ہیں، اور مدارس ودارالعلوموں سے نکلنے والے لوگوں میں سے چوٹی کی شخصیت شیخ الہند رحمہ اللہ ہیں۔
شیخ الہند رحمہ اللہ:
مولانا مرحوم جمعیت علماء ہند کے صدر تھے اس میں بریلوی ،دیوبندی اہل حدیث تمام علماء شامل تھے۔ آپ نے تحریک ریشمی رومال چلائی تھی، آپ کو حجاز سے انگریزوں نے گرفتار کرکے جزیرہ مالٹا میں قید کیا تھا، چار سال قید کے بعد جب ٹی بی کا مرض تیسری سٹیج پر پہنچا تو انگریزوں نے رہا کردیا، آپ جب رہا ہو کر بمبئی کے ساحل پر پہنچے تو آپ کا استقبال کرنے مہاتما گاندھی بھی آیا تھا۔رہائی کے بعد ایک مرتبہ دارلعلوم دیوبند میں علماء کے ایک مجمع میں آپ نے فرمایا:
ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں، یہ الفاظ سُن کر سار مجمع ہمہ تن گوش ہو گیا کہ اس استاذ العلماء درویش نے اسّی سال علما کو درس دینے کے بعد آخر عمر میں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں؟، فرمایاکہ میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیامیں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا، دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی، اس لئے مَیں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لئے لفطی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کئے جائیں ، بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لئے آمادہ کیا جائے، اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔
مفتی صاحب فرماتے ہیں’’ نبَّاضِ امّت نے مِلّتِ مرحومہ کے مرض کی جو تشخیص اور تجویز فرمائی تھی باقی ایّام زندگی میں ضعف وعلالت اور ہجوم مشاغل کے باوجود اس کے لئے سعی پیہم فرمائی۔(وحدت امت)
علامہ اقبال:
علامہ اقبال نے جو حل تجویز فرمایا وہ ہے:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
علامہ اپنی فارسی کی شاعری میں اسی بات کو ایک اور انداز سے بیان فرماتے ہیں:
خوار از مہجوری قرآن شدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوران شدی
اے چوں شبنم برزمین افتندہ
دربغل داری کتابِ زندہ
ہم قرآن کو چھوڑ کر خوار ہورہے ہیں اور شکوہ زمانے کا کررہے ہیں، اے وہ شخص جو شبنم کی طرح زمین پر گرا پڑا ہے تیری بغل میں ایک زندہ کتاب ہے(اس سے استفادہ کر)
در اصل یہ سورہ فرقان کی اس آیت کا مفہوم ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے رسول کی فریاد کو ذکر فرمایا:
وقال الرسول یٰرب اِنَّ قومی اتخذوا ھذاالقرآن مہجورا
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
گر تومی خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جزبہ قرآن زیستن
اگر تو مسلمان زندہ رہنا چاہتا ہے تویہ قرآن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
اپنی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں آپ کو واضح طور پر نظر آئے گا کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن کو مضبوطی سے تھامے رکھا، اسی کو حقیقی معنوں میں اپنا ہادی وراہنما سمجھا، اپنے عمل اخلاق اور معاملات کو اسی کے مطابق استوار رکھا تو انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر ان کا رعب اور دبدبہ قائم رہا، دنیا میں وہ سربلند اورغالب رہے اور اسلام کا جھنڈا چہار دانگ عالم میں لہراتا رہا، لیکن جیسے جیسے وہ کتاب اللہ سے بے پروا اور نور وحکمت کے اس خزینہ سے بے تعلق ہوتے چلے گئے ویسے ویسے ان پر زوال کے سائے گہرے ہوتے گئے اور وہ بتدیج فساد اور انحطاط میں مبتلا ہوتے چلے گئے اور نیتجتاًمغلوب ہوگئے۔چنانچہ سے سے پہلے ان کے عقائد خراب ہوئے، پھر اعمال بگڑے پھر سنت کی جگہ بدعت نے لے لی، پھر ان کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیاوہ بیشمار فرقوں اور قومی ونسلی وجغرافیائی تصبات میں تقسیم ہوگئے۔
سورۃ فرقان میں نبی ﷺ کا استغاثہ بیان ہوا:
وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ہذاالقرآن مہجورا(فرقان30)
اے رب میری قوم نے قرآن کو نظرانداز کر دیا۔لہٰذا واتبعواالنورالذی انزل معہ، میں قرآن کی اتباع کا حکم دیا گیا