ربیع الاول کا پیغام
(نکتہ: سید عبدالوہاب شیرازی)
ربیع الاول کے حوالے سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں، ایک یہ کہ ہم تذکرہ رسول کیوں کرتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ کہ اللہ کیا چاہتا ہے کہ ہم تذکرہ رسول کیوں کریں؟۔
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ:
۱۔ ہم تذکرہ رسول اس لئے کرتے ہیں تاکہ ہماری نسبت واضح ہوجائے، ہماری پوزیشن سامنے آجائے کہ ہم کس کیمپ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ دنیا میں طرح طرح کے کیمپ لگے ہوئے ہیں، طرح طرح کی دعوتیں، مذاہب اور ادیان ہیں۔ ہرمذہب وملت اور دین میں کچھ نہ کچھ لوگ ہیں، لہٰذا ہم تذکرہ رسول کرکے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہیں کہ ہم اس کیمپ میں بیٹھے ہوئے ہیں، ہماری نسبت اس رسول سے ہے۔ ہمارا تعلق اور بنیاد یہ رسول ہے۔
۲۔ہم تذکرہ رسول اس لئے بھی کرتے ہیں تاکہ محبت کا اظہار ہوسکے، دل میں جس کی محبت ہوتی ہے لامحالہ اس کا نام زبان پر بھی آتا ہے۔زبان پر نام کا آنا بھی محبت کی علامت ہے۔چنانچہ ہم محبت رسول میں اس کی نعتیں پڑھتے اور سنتے ہیں، درود شریف پڑھتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، اور تذکرہ رسول کی محفلیں اور سیرت کے جلسے منعقد کرکے محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بتاتے ہیں۔
۳۔ہم تذکرہ رسول اس لئے بھی کرتے ہیں تاکہ برکتوں کاحصول اور رحمتوں کانزول ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا جوایک بار درود شریف پڑھے دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں، چنانچہ بار بار تذکرہ کرکے ہم باربار رحمتیں اور برکتیں سمیٹتے ہیں۔ اگر تذکرہ رسول سے رحمتیں اور برکتیں نہیں حاصل ہوتیں تو پھر کب ہوتی ہیں؟۔
۴۔ہم تذکرہ رسول اس لئے بھی کرتے ہیں کہ ثواب کا حصول ہو، بلاشبہ تذکرہ رسول باعث حصول ثواب اور ذریعہ نجات بھی ہے۔ مغربی اقوام ہمیں رسول کے معاملے میں متشدد کہتی ہیں کہ ان کے اندر برداشت نہیں، بات دراصل یہ ہے کہ قرآن اور رسول کی توہین برداشت کرنا نہ کرنا ان کے ہاں قابل بحث ہوسکتا ہے ہم سے تو قرآن یا رسول کی توہین برداشت ہوتی ہی نہیں۔ ایک چیز جب برداشت ہوتی ہی نہیں توکیسے برداشت کریں؟ اس میں کرنا نہ کرنا والی بات کی گنجائش ہی نہیں۔
۵۔ہم تذکرہ رسول اس لئے بھی کرتے ہیں کہ اللہ راضی ہوجائے۔ رسول اللہ کا محبوب اور حبیب ہے، اگر کوئی میرے دوست یا بھائی کی تعریف کرے تو مجھے خوشی ہوگی، اسی طرح اللہ کے حبیب کی تعریف کرنے سے اللہ بہت خوش ہوتا ہے۔
یہ پہلے سوال کے جوابات تھے اب آتے ہیں دوسرے سوال کی طرف کہ اللہ کیا چاہتا ہے کہ میرے حبیب کا تذکرہ کیوں کیا جائے؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة (احزاب21) تمہارے لئے رسول کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ اس نمونے کو اپنی زندگیوں میں لاو، رسول کی زندگی آئینہ ہے، جیسے کوئی شخص آئینے کو اس لئے نہیں دیکھتا کہ وہ آئینے کو دیکھنا چاہتا ہے بلکہ اس میں اپنا چہرہ دیکھتا ہے۔ اسی طرح رسول کی زندگی ہمارے لئے آئینہ ہے اس میں ہم اپنا چہرہ دیکھ کر اسے ٹھیک کریں، جہاں کمی ہے اسے پوری کریں۔رسول کس لئے بھیجا گیا؟ وماارسلنا من الرسول الا لیطاع باذن اللہ (نسائ64) ہم نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر اسی لئے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔ اس لئے اللہ کہتا ہے کہ صبح سے شام تک شام سے صبح تک، بلوغت سے وفات تک رسول کا تذکرہ کرتے جاو اور اس نمونے میں ڈھلتے جاو، اس آئینے میں ہرروز اپنا چہرہ دیکھو اور اپنی زندگی ٹھیک کرو۔کیونکہ کل قیامت والے دن اللہ کے ساتھ ساتھ اس رسول کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ چنانچہ اسی بات کو علامہ اقبال نے کیا خوب کہا:
تو غنی از ہر دوعالم من فقیر
روزِ محشر عذرہائے من پذیر
یا اگر بینی حسابم ناگزیر
ازنگاہِ مصطفیٰ پنہا بگیر۔
ترجمہ: اے اللہ تو دوجہانوں کا بادشاہ ہے اور میں فقیر ہوں، قیامت کے دن میرے گناہوں کو معاف ہی کردینا، اگر حساب ہی لینا ضروری ہو تو، مصطفی کی نظروں سے چھپا کر لینا(تاکہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے)۔ قرآن کہتا ہے پوزیشن بھی واضح کرو، محبت کا اظہار بھی کرو، ثواب بھی کماو لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا نمونہ بھی بنو۔ رسول کی زندگی کا رُخ اور ساری محنت جس دین کے غلبے کے لئے ہوتی رہی اس محنت کو کرکے دین کو تمام ادیان پر غالب کرنے کی کوشش بھی کرو۔
آج ہمارے اقتصادی ماہرین ہمیں بتا رہے ہیں کہ بیرون ممالک سے لئے گئے قرضوں نے ہمارا بیڑا غرق کردیا ہے اور ادھار کھا کھا کر اور اپنے حکمرانوں کے اللے تللے کے سبب ”خود کفالت“ اور” خود کفایت“ سے ہم بے حددور ہیں۔ اقتصادی ماہرین اتنا ہی بتا سکتے ہیںاگرچہ سچ بتاتے ہیں۔ مگر ہمارے سماجیات کے وہ ماہرین کہاں ہیں جو ہمیں بتائیں کہ اس قوم نے صرف قرضوں کا ادھار نہیں کھایا اس کا سب معاملہ ادھار پر ہے۔ افکار،نظریات،طرزہائے معاشرت، تہذیبی اقدار،برتری اور کمتری کے معیار، نظام ہائے حکومت، بنیاد ہائے ریاست غرض کون سی چیز اس کی اپنی ہے؟ کونسی چیز اس نے اللہ اور رسول سے لی ہے؟ کون ہے جو اسے بتائے کہ یہ سب کچھ خدا سے لینا ہے اور یہ کہ اللہ نے جو ایک رسول بھیجا ہے وہ خاص اسی مقصد کے لئے ہی بھیجا ہے نہ کہ محض اس کی نعتیں پڑھی جانے کے لئے، اور یہ کہ ان سب معاملات میں ہدایت رسول کے سوا کہیں اور سے لینا اسلام سے براہ راست تصادم ہے اور اللہ کے ساتھ کھلا کھلا شرک؟ سورہ نساءمیں فرمایا: نہیں(اے نبی) تیرے رب کی قسم یہ ہر گز مومن نہیں جب تک کہ یہ تجھے اپنے سب اختلافات میں فیصل نہ مان لیں پھر اس پر اپنے نفس میں حرج تک محسوس نہ کریں بلکہ سربسر تسلیم نہ ہو جائیں۔