ربیع الاول اور پیشہ ورخطیب و نعت خوان

ربیع الاول اور پیشہ ورخطیب و نعت خوان

(عبدالوہاب شیرازی)
ربیع الاول کا مہینہ آنے والا ہے ، جیسے ہر پیشے سے تعلق رکھنے والوں کا کوئی نہ کوئی سیزن ہوتا ہے۔ مثلا سخت گرمی میں الیکٹرک کے آلات اے سی، کولر وغیرہ کے کام والوں کا سیزن ہے ، رمضان کپڑے کا کام کرنے والوں کا سیزن ہے، ذوالحجہ قصائیوں کا سیزن ہے باالکل اسی طرح ربیع الاول پیشہ ور خطیبوں اور نعت خوانوں کے سیزن کا مہینہ ہے۔
یہ قوال، نعت خوان اور خطیب وہ لوگ ہیں جنہوں نے امت کو دین کی اصل اساس اور حقیقت کو چھپا کر من پسند، بلکہ سب پسند تعبیر کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے خطیبوں اور نعت خوانوں کو برطانیہ، یورپ اور امریکا سے بھی آفرز آتی رہتی ہیں اور یہ وہاں جاکر بھی اپنی پرفامنس دکھاتے ، اور سوٹ کیس ڈالروں سے بھر بھر کر واپس آتے ہیں۔
لیکن سارے خطیب ایسے نہیں ہوتے۔ اللہ والے بھی ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں، مگر افسوس کہ سر پیٹیں یا سینہ کوبیں مخلص لوگ بھی اخبارات کا جمعہ میگزین، یا اخبار جہاں کا اسلامی صفحہ پڑھ ہی تقریر تیار کرتے ہیں۔اکثر خطباء درس نظامی کی سند رکھنے کے باوجود براہ راست قرآن سے استفادہ کرنے کی یا کوشش ہی نہیں کرتے یا صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔

ربیع الاول کا مہینہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کی بارہ تاریخ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بھی ہوئی اور اسی بارہ تاریخ کو وفات بھی ہوئی(یہ ایک الگ موضوع ہے کہ اگر کسی کے والد محترم جس دن پیدا ہوئے اور پھر اتفاقا اسی تاریخ کو ان کا انتقال بھی ہو گیا تو اس کی اولاد اس دن خوشی میں ڈانس کرتی ہے یا غم کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے)۔
چنانچہ اسی مناسبت سے اس مہینہ میں سب سے زیادہ قرآن کی جو آیت پڑھی جاتی ہے وہ ہے : لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔
چنانچہ اس آیت کریمہ کی تلاوت کے بعد دو دو گھنٹے کی تقریریں ہوتی ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی خطیب اس آیت کا سیاق وسباق بتائے، کہ یہ آیت سورہ احزاب میں کس سیاق وسباق میں آئی ہے، اس سے پہلے کیا بات چل رہی ہے اور اس کے بعد کیا بیان ہورہا ہے۔حتی کہ یہ آیت بھی پوری نہیں بیان کی جاتی بس وہی ایک حصہ تلاوت کرکے اپنے ذوق اور مزاج کے مطابق تقریر جھاڑ دی جاتی ہے۔ اگر کسی کو حلوہ پسند ہو تو وہ حلوے کو سنت شمار کرنے پر سارا زور لگا دیتا ہے اور کسی کو بکرے کا گوشت پسند ہوتو وہ بکرے کے اگلے دو بازو کھانے کے فضائل بیان کرتا ہے۔جو اپنے آپ کو زیادہ فقیہ سمجھتا ہے وہ چھاننی میں مچھر چھاننا شروع کردیتا ہےاور اتنی باریکیاں بیان کرتا ہے کہ تل کے پیچھے پہاڑ کو چھپا دیتا ہے۔
تل کے پیچھے پہاڑ کو چھپانا اگرچہ ایک محاورہ ہے مگر ہمارے خطیب حقیقت کی دنیا میں یہ کارنامہ سرانجام دیتے ہیں۔ ایک عام آدمی جو قرآن کی تعلیمات سے ناواقف ہے اسے اس آیت کا یہ چھوٹا سا حصہ سنا کر باقی سارا سیاق وسباق جو کئی رکوعوں پر مبنی ہے چھپا دیا جاتا ہے۔
حلوہ اور بکرے کی اگلے دو بازوں کو کھانا سنت بیان کرنے والے اس آیت کا پس منظر نہیں بتاتے کہ یہ آیت غزوہ احزاب پر نازل ہوئی ہے، چنانچہ نبی کی ساری ہی زندگی اسوہ ہے لیکن یہاں بالخصوص وہ اسوہ بیان ہورہا ہے جو غزوہ احزاب کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا۔ یعنی دین کی سربلندی اور غلبہ دین کے لئے بھوک برداشت کرنا۔ گھر والوں کو سپرد خدا کرکے میدان عمل میں نکل کھڑے ہونا۔ اپنے ماتحتوں اور کارکنوں کے ساتھ پورا پورا کھدائی کا کام کرنا۔ تھک ہار کر سرکے نیچے پتھر رکھ کر آرام کرنا۔
لیکن حیرت کی کوئی بات نہیں جو خطیب اور نعت خوان کئی کئی دن پہلے بکنگ کروائے، پھر کئی کئی ہزار طے کرے، پھر آنے جانے کا لگژری کلاس کرایہ وصول کرے، پہلے سے مطالبہ کرے کہ کھانے میں کم از کم پانچ دشیں ہونی چاہیے، اشتہار اور بینر پر نام لکھنے کا سائز طے کرے کہ میرا نام اتنا بڑا ہونا چاہیے، پھر اس کے لئے سرخ قالین بچھیں، تقریر کے دوران بچارے ڈی جے(ساونڈ سسٹم والے) کی پورے مجمے کے سامنے بے عزتی کرے،آخر میں لوگوں کے لئے الگ اور اس کے لئے الگ کھانا تیار ہو حتی کے دسترخوان الگ بچھایا جائے وہ کیسے بتائے گا کہ یہ آیت اس غزوے کے تناظر میں نازل ہوئی ہے جس میں حضور کی بھوک کی شدت کو دیکھتے ہوئے ایک صحابی نے آپ کی دعوت کی اور ساتھ کہا کہ بس آپ اور صدیق اکبر دو حضرات تشریف لائیں لیکن آپ اپنے سارے کارکنوں کو لے ان کے گھر پہنچ گئے کہ یہ کیسے ممکن ہے میں اکیلا کھانا کھاوں اور میرے کارکن بھوک سے نڈھال ہوں۔
یہ آیت توغلبہ و اقامت دین کے لئے، صبر وثبات، سرفروشی وجاں فشانی، ایثار وقربانی، یقین کامل اور توکل کی وہ داستان بیان کرتی ہے جو ایک رسول نے اپنے متبعین کے ساتھ رقم کی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے مسلمانوں تمہارے لیے تمہارے رسول کی زندگی میں اسوہ ہے۔

Related posts

Leave a ReplyCancel reply