ذکر و فکر اور تفکر

ذکرکے ساتھ فکربھی بہت ضروری ہے ۔فکر کا مرتبہ بڑا بلند ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے:
الذین یذکرون اللہ قیاما وقعود وعلی جنوبہم
کہ عقل مند لوگ اٹھتے، بیٹھتے اور پہلووں کے بل لیٹے ہوئے
صرف ذکر ہی نہیں کرتے بلکہ ذکر کے ساتھ ساتھ فکربھی کرتے ہیں !
وَیتَفَکَّرُوْنَ فِی خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ
یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں ۔۔۔ ارض وسماوات میں ۔۔۔ زمینوں اور آسمانوں میں تفکر کرتے رہتے ہیں ۔۔۔ اپنی ذات میں ۔۔۔ کائنات میں ۔۔۔ اللہ کی نشانیوں میں غوروخوض کرتے رہتے ہیں اور جب انہیں ہر چیز میں اللہ کی قدرتوں کے نشانات اور عجائب نظر آتے ہیں تو وہ پکاراٹھتے ہیں
رَبَّنَا مَاخَلَقْتُ ہٰذَا بَاطِلًا
اے ہمارے رب تو نے یہ (کارخانہ حیات) باطل پیدا نہیں کیا۔

فکر اوراحادیث نبویہ
حضور ﷺنے ارشاد فرمایا :
تَفَکُّرُ سَاعَۃٍ خَیرٌ مِنْ قِیامِ لَیلَۃٍ (کنزالعمال الرقم:۵۷۱۱)
ایک ساعت کاتفکر ساری رات کی نفلی عبادت سے بہترہے ۔
ایک اورروایت میں ہے
فِکْرَۃُ سَاعَۃٍ خَیرٌمِنْ عِبَادَۃِ سِتِّینَ سَنَۃً (اکنزالعمال الرقم:۵۷۱۰)
ایک ساعت کی فکر ساٹھ سال کی عبادت سے بہترہے۔
کس چیز میں فکر کرو ۔۔۔ اللہ کا ذکر کرو اور اس کی مخلوق میں فکر کرو ۔۔۔ تفکر کا معنی غور وخوض کرنا۔ اللہ کی ذات میں فکر کرنا منع ہے ۔ارشاد نبوی ہے :
لَاتَفَکَّرُوْا فِی اللّٰہ وَتَفَکَّرُوْا فِی خَلْقِ اللّٰہِ(کنزالعمال الرقم: ۵۷۱۴)
اللہ کی ذات میں غوروخوض نہ کرو بلکہ اس کی مخلوق میں غوروخوض کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات غوروخوض سے پاک ہے۔
حضور ﷺ نزول وحی سے قبل چھ ماہ سے زیادہ عرصہ محو ذکر و عبادت رہے ۔ صوفیاء فرماتے ہیں کہ آپ تفکر کرتے تھے اور تین چیزوں کے بار ے میں سوچا کرتے تھے۔ مَنْ اَنَا
میں کون ہوں ؟۔۔۔ میں کیا ہوں؟۔۔۔ میں کس لیے ہوں ؟ مجھے کس نے بنایا؟ مجھے کیوں بنایا ہے؟۔۔۔ اس کا مجھے بنانے کا مقصد کیا ہے؟۔۔۔ یہ فکر ہے ۔ یہ اک ساعت کرلوتو ساٹھ سال کی نفلی عبادت سے بہتر ہے ۔
حضرات محترم !
ذکر کے ساتھ فکر یہ ہمارے نبی پاک صاحب لولاک ﷺکی سنت ہے اسی مفہوم کو علامہ اقبال نے انتہائی خوبصورت انداز میں یوں بیان فرمایا
فقر قرآں اختلاط ذکر و فکر
فکر را کامل نہ دیدم جز بہ ذکر
یعنی قرآن نے جس فقر کی تعلیم دی ہے وہ ذکر اور فکر کو ملانے کا نام ہے اور میں نے کسی فکر کو ذکر کے بغیر کامل نہیں پایا
ذکر کے بغیر فکر کچھ نہیں اورفکر کے بغیر ذکر کچھ نہیں ،یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔
دونوں ایک بحر کی نہر یں ہیں ۔۔۔ دونوں ایک نہر کی لہریں ہیں
دونوں ایک شمع کی کرنیں ہیں ۔۔۔ دونوں ایک پھول کی خوشبوئیں ہیں
دونوں ایک نور کی شعاعیں ہیں ۔۔۔ دونوں ایک جلوے کی ضیائیں ہیں
یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دونوں کا ذکر اکٹھا فرمایاہے ۔
اَلَّذِینَ یذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیامًا وَقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیتَفَکَّرُوْنَ فِی خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ (آل عمران : ۱۹۱)
عقل مند لوگ وہ ہیں جو ذکر بھی کریں اور فکر بھی کریں لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ اللہ کی ذات میں فکر کرنامنع ہے ۔ یہ کبھی نہ سوچو کہ اللہ کی ذات کیسی ہے؟ اللہ کیا ہے؟۔۔۔ اللہ کیوں ہے؟ اللہ ایسا ہے ۔۔۔ویسا ہے ۔۔۔ کہیں کفر نہ ہو جائے۔۔۔ شرک نہ ہوجائے ۔ کیونکہ اللہ کیسا ۔۔۔ ایسا ۔۔۔ ویساہونے سے پاک ہے ۔ اللہ اس کو کہتے ہیں جو سمجھ میں ہی نہ آئے۔ جو سمجھ میں آگیا وہ اللہ نہیں ۔۔۔ اس کو نہ کوئی سمجھا ہے ۔۔۔نہ سمجھا سکتا ہے۔۔۔ اس کی ذات فہم وادراک سے وراء ہے ۔
صوفیاء جب ذکر کی بدولت مرتبہ کمال کو پہنچ جاتے ہیں تو وہ فرماتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے مگر اس کی معیت کی کیا کیفیت ہے؟ یہ سمجھ سے وراء ہے ۔اس مفہوم کو وہ حدیث قدسی واضح کرتی ہے جس میں ارشادہے :
اَنَا مَعَہ اِذَا ذَکَرَنِیْ ( صحیح بخاری رقم الحدیث :۶۹۷۰)
جب میرا بندہ میرا ذکر کرتا ہے تومیں اس کے ساتھ ہی ہوتاہوں ۔
ض۔۔۔مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی شریف میں اک واقعہ لکھا ہے آپ فرماتے ہیں :
اک بت پر ست تھا چالیس برس تک وہ بت پوجتا رہا اور بت کے سامنے جب جاتا تو کہتا یاصَنَمْ ۔۔۔یاصَنَمْعربی زبان میں صنم بت کو کہتے ہیں وہ کہتا یاصَنَمْ یاصَنَمْ۔چالیس برس بت کے سامنے بیٹھ کر یاصَنَمْ ۔۔۔یاصَنَمْ کا وظیفہ کرتا رہا۔ ایک دن اس کا خیال ذرہ آگے پیچھے ہوا ۔ پتہ نہ چلا تو یا صنم یاصنم کہتے کہتے اس کے منہ سے نکل گیا یا صَمَدْ یاصَمَدْ۔صمداللہ کا نام ہے ۔ پردہ غیب سے آواز آئی ۔ لَبَّیکَ یا عَبْدِیْ لَبَّیکَ لَبَّیکَای میرے بندے میں حاضر ہوں بول کیا چاہتا ہے ۔
حضرات!
عالم بالا میں کھلبلی مچ گئی ۔۔۔ عرش اعظم لرزنے لگا ۔۔۔ فرشتے حیرت زدہ ہو گئے اور عرض کی یا اللہ وہ کون تیرا اتنا مقبول بندہ ہے جس کو تونے اتنی بار لبیک پکاردیا۔ اللہ نے فرمایا چالیس سال ایک آدمی کفر کرتا رہا اور یاصنم یا صنم کہہ کے بت کو پکارتا رہا بھولے سے بے ارادہ اس کے منہ سے میرا نام ےَاصَمَدْ نکلا ہے۔اب اگر میں بھی نہ بولتا تو بت اور خدا میں فرق کیا رہتا؟

مراقبہ معیت
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی قد س سرہ نے اللہ تک پہنچنے کے لئے جو مراقبات اپنے مریدوں کوسکھائے ہیں۔ان میں اک مراقبے کا نام ہے ۔مراقبہ معیت
مراقبہ معیت یہ ہے کہ اللہ میرے ساتھ ہے
وَہُوَمَعَکُمْ۔۔۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِین ۔۔۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِین ۔۔۔اللہ متقین کے ساتھ ہے
اس مراقبے کاطریقہ یہ ہے کہ بندہ صرف یہ تصور کرکے بیٹھتا ہے کہ اللہ میرے ساتھ ہے ۔ (اَللّٰہُ مَعِیْ) خاموش بیٹھتا ہے اور کچھ نہیں کہتا ۔صرف یہ تصور ،یہ خیال پختہ کرتا ہے کہ اللہ میرے ساتھ ہے ۔اس مراقبہ معیت کی تاثیر یہ ہے کہ وہ بندہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں اتنا پختہ ہوجاتاہے اور یقین کے اس مرتبے پر فائز ہوجاتاہے جب کبھی وہ پریشان ہوتا ہے تو اسے اندر سے تسلی ملتی ہے کہ بندے فکر نہ کرمیں تیرے ساتھ ہوں ۔تجھے میری معیت نصیب ہے ۔

فکرآخرت
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے ۔۔۔وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر:۱۸)۔۔۔ہرشخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کیلئے کیاآگے بھیجا ہے ۔
ہر شخص کویہ سوچناچاہیے کہ اس نے کل قیامت کے دن اللہ حضورکیاپیش کرناہے ۔ اپنے لئے آگے کیاتوشہ تیار کرکے بھیجا ہے۔اس سوچ میں رہوکہ میں جس مقصد کیلئے پیدا ہوا،جس مقصدبنانے والے نے کیلئے مجھے بنایاتھا،میں اس مقصد کو پوراکررہاہوں یانہیں۔۔۔ اورموت جوآج تک سب پہ آئی ہے جس سے مفرنہیں تو جب میں مروں گا۔توقبرمیں ۔۔۔حشرمیں ۔۔۔قیامت میں ۔۔۔میں اپناکون ساعمل اپنے خدا کے سامنے رکھوں گا۔اگرکوئی عمل پلے نہ ہوادفترعمل خالی ہوا، توپھر مجھے سزاملے گی،میں عذاب میں مبتلاکیاجاؤں گا۔ اس فکر میں رہناکہ کل کیلئے میں نے کیاکیاہے؟ اپنا احتساب کرتے رہنا اس کو فکرآخرت کہتے ہیں ۔فکر کرنا ہے توفکرآخرت کرو۔۔۔نزع کے وقت ایمان سلامت رہنے کی فکرکرو۔۔۔عمل نیک کرواورہروقت سوچتے رہو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضرہوناہے۔ قیامت کے دن اگرمیرے پاس اعمال نہ ہوئے توحضور ﷺکو کیامنہ دکھاؤں گا۔ دامان عمل خالی ہوا تومیں ذلیل ورسواء ہو جاؤں گا۔ تواپنے متعلق سوچنا،اپنی ذات میں فکرکرنا،اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا یہی کامیابی ہے۔ہرروز سونے سے پہلے سوچاکروکہ آج سارا دن ہم نے کیاکیا۔ کتنے گناہ کیے۔۔۔کتنی نیکیاں کیں ۔یہ بھی فکرہے اورپھرسارے دن کے گناہوں پرتوبہ کرکے سویا کرو۔اللہ نے اس لیے سونے سے پہلے نماز عشاء رکھی ہے کہ سارے دن میں بندے نے جوغلطیاں کی ہوں، بندہ نماز پڑھ کے ،میری بارگاہ میں سجدہ کرکے ،توبہ کرکے پھرسوئے ۔کیاپتہ یہ نیند زندگی کی آخری نیند ہو۔
سونے والے رب کو سجدہ کرکے سو
کیا خبر صبح کو تو ہو نہ ہو
آپ روزانہ سنتے ہیں،اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ لوگ رات کو سوئے اورصبح دیکھاگیا تو وہ ہمیشہ کیلئے سوچکے تھے ،کیامعلوم یہ زندگی کی آخری رات ہو۔ میرے آقا سرور کائنات ﷺنے فرمایامیرے امتی !اَلنَّوْمُ اُخْتُ الْمُوْت نیند موت کی بہن ہے ۔
اس لئے نیند کو موت خیال کر ،کیامعلوم کہ روح لٹانے والا واپس نہ لوٹائے ؟اورتو قیامت تک سویاہی رہے۔ اس لیے حضور ﷺ نے فرمایاسونے والے رات کو کچھ پڑھ کے سو۔۔۔توبہ کرکے سو۔۔۔آخری چہار قل پڑھ کرسویاکرو۔۔۔تیسراکلمہ کی تسبیحات پڑھ کر سویاکرو۔۔۔استغفار پڑھ کرسویاکروکیونکہ نینداورموت آپس میں ایک جیسی ہیں۔نیندمیں بھی روح حیوانی نکل جاتی ہے۔موت کے وقت بھی روح نکلتی ہے ، نیندکے وقت بھی روح نکلتی ہے ۔وہ روح نکالنے والاواپس کرے تواس کی مرضی نہ کرے تواس کی مرضی ۔ اس لئے حضور ﷺ نے اپنی امت کوکیاکیا تدبیریں سکھائیں فرمایا
استغفار پڑھ کر سوجا ۔۔۔اگراس رات کو موت آگئی توبخشا جائے گا۔
پھرفرمایا
میراامتی رات کو اگروضوکرکے سوجائے اورانک کے اس رات اسے موت آگئی تو قیامت کے دن شہیدوں سے اٹھایا جائے ۔
حضرات محترم!
کتنے چھوٹے چھوٹے کام ہیں اورفائدے کتنے زیادہ ہیں۔فرمایا
میراامتی ہرنماز کے ساتھ مسواک کیاکرے ۔۔۔جان آسانی سے نکل جائے گی ۔ نزع کی آسانی مل جائے گی اورسختی دورہوجائے گی ۔
حضرات محترم!
اپنی ذات میں فکرکیاکرومیں کیوں ہوں؟۔۔۔میں کس لئے ہوں؟۔۔۔بنانے والے نے مجھے کس مقصد کیلئے بنایا؟۔۔۔میں نے وہ مقصد کہاں تک پوراکیا ۔۔۔ذکرکرنا ہے توساتھ یہ فکر بھی کرو۔ذکر اورفکر دونوں ملاؤ ۔ فکر کیلئے ہی تومراقبات ہیں ۔مراقبے فکر کا فائدہ دیتے ہیں ۔ذکرکی جہاں فضیلت ہے وہاں فکر بھی بڑی فضیلت ہے ۔میں صرف ایک بات کہتاہوں کہ انسان اپنے متعلق غورکرے کہ میں کیاہوں۔ انسان کو اپنی سمجھ نہیں ،اللہ کو کون سمجھے؟ ۔۔۔ہم تواپنا آپ ہی نہیں سمجھے ۔۔۔کوئی چوہدری بن گیا ہے۔۔۔کوئی مولوی بن گیا ہے۔۔۔ کوئی عالم بن گیاہے ۔۔۔کوئی ماسٹر بن گیاہے ۔۔۔ کوئی پروفیسر بن گیاہے ۔۔۔ کوئی وزیر امیرمشیر بن گیاہے !
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

تن اورمن
ایک ہے اپنامن ،ایک ہے اپنا تن ،یہ تن توفانی شئے ہے اس کی فکر نہ کرو،من کی فکر کرو۔ایک ہے تن کی دنیا۔۔۔ایک ہے من کی دنیا۔حضرت خطیب الاسلام رحمۃ اللہ علیہ فرمایاکرتے تو

تن کی دنیا ۔۔۔۔۔۔ شنید کی دنیا
من کی دنیا ۔۔۔۔۔۔ دید کی دنیا
ذکرکے ساتھ فکر بھی کرناہے ۔کچھ وقت ذکر کیلئے نکالو،کچھ وقت فکر کیلئے نکالو ۔ اپنے متعلق فکرکروکہ میں کیاہوں تویہ ہماراجسم جومادی ہے یہ توکچھ بھی نہیں یہ ظاہری بشریٰ ،یہ کھال ،یہ بال ، یہ ہڈیاں ، یہ خون، یہ توفانی ہے ۔۔۔ فانی چیز ختم ہوجانے والی اور عارضی ہے ۔۔۔یہ نہ پہلے تھا نہ آئندہ ہوگا۔۔۔یہ ہماراجسم یہ تعین،یہ تشخص ،نہ پہلے تھانہ آئندہ ہوگا۔
ہمارادوسراتعین یہ ہے کہ ہم پہلے بھی کچھ تھے۔۔۔اب بھی ہیں ۔۔۔ آئندہ بھی رہیں گے انشاء اللہ ۔
یہ بات کیاہے ؟پہلے نہیں تھایہ جسم ۔۔۔آئندہ نہیں رہے گا یہ جسم ۔۔۔پہلے بھی ہماری روح تھی آئندہ بھی ہماری روح رہے گی ۔ روح کیاہے ؟ اللہ فرماتاہے قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِرَبِّیْ۔۔۔الخ(بنی اسرائیل :۸۵)روح اللہ کا امر ہے روح کو توموت نہیں آتی توپھر موت سے پھر کیوں ڈرتے ہواصل شئے توہم روح ہیں۔

مقام روح
میں روح ہوں۔۔۔آپ روح ہیں ۔۔۔روح پر توموت ہی نہیں آتی ۔۔۔توجس پر موت آتی ہے وہ توکوئی اورہے آپ خوامخواہ ڈرتے ہیں ۔اگرمیں کہوں میں کچھ بھی نہیں تھا،توپھر اللہ تعالیٰ باتیں کس سے کرتارہاہے ۔جب اللہ نے مجھ سے پوچھاتھا۔ تم سے پوچھا تھا تمہیں یادہوکہ نہ یا دہو
اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ
جب اس نے کہاتھااَلَسْتُہم تواس دن سے ہوگئے مست ۔ وہ مستی چڑھی ہوئی ہے۔۔۔چڑھی رہے گی۔۔۔ قبرمیں بھی چڑھی رہے گی ۔ کیونکہ ہم نے یار کی آواز سنی ہے وہ ہمارے ساتھ مخاطب ہواتھا۔ ہم تھے ۔۔۔تووہ ہم سے بولاتھا۔۔۔ہم نے سنا تھا۔۔۔ اس کان سے نہیں سنا ،وہ کان بھی کوئی اورتھے۔ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْکے جواب میں ہم پکارے تھے بَلٰی۔۔۔یہ کس نے کہاتھا ،ہماری روح نے جواب دیاتھا۔ جسم کو کیاپتہ بَلٰی کیاہے ؟یہ جسم جو ہماری بلاہے اس بلاکو کیاپتہ کس نے کہاتھا بَلٰی۔اس (جسم)بلاکو توپتہ ہی نہیں ۔۔۔پتہ نہیں یہ بلا کدھر سے ہمارے ساتھ آ کر لپٹ گئی، اس نے ہمیں مار دیا۔۔۔ یہ پھاہی ہے ۔۔۔یہ قید ہے۔۔۔یہ پھندا ہے ۔۔۔یہ جال ہے۔۔۔ اس بشریت نے آکرہمیں قیدی بنادیاہے ۔ارے جب یہ جسم نہیں تھا، ہم پھربھی تھے ۔ کوئی فکرنہ کرواگریہ جسم نہ بھی رہاتوصرف جسم مرے گا، ہم نہیں مریں گے ۔ہم پھربھی زندہ ہیں کیونکہ ہم روح ہیں۔
کون کہتا ہے کہ ہم مر جائیں گے
ہم تو قطرے ہیں سمندر میں اتر جائیں گے
قطرہ علیحدہ رہے تومر جاتاہے ۔سمندر کے ساتھ مل جائے توسمندر بن جاتاہے ۔ بندہ خداسے علیحدہ رہے تومرجاتاہے اورجب خداکے ساتھ مل جائے توباقی رہتاہے ۔ اسی فلسفے کو مولانا رومی نے یوں بیان کیا
اتصالے بے تکیف بے قیاس
ہست رب الناس را بہ جانِ ناس
مرے گاکون؟۔۔۔جو پہلے ہی جیتاتھا وہ مرے گاکب؟موت تواس کو چھوبھی نہیں سکتی ۔ علامہ اقبال نے کہا
فرشتہ موت کا گرچہ چھوتا ہے بدن تیرا
لیکن تیری حیات کے مرکز سے دور رہتا ہے
کیونکہ ہم روح ہیں ۔۔۔میں روح ہوں۔۔۔اوریہ روح مدینے والے کے ساتھ رہتی ہے ۔۔۔وہ روح الارواح ہے ۔۔۔وہ روحوں کا مرکز ہے ۔۔۔روحوں کا جنکشن مدینے میں ہے ۔۔۔ ہماری موت یہ ہے ہم مرکے مدینے جاتے ہیں۔ یہ ہماری موت ہے
دل اپنی طلب میں صادق تھا گھبرا کے سوئے مطلوب گیا
دریا ہی سے یہ موتی نکلا تھا دریا ہی میں جا کے ڈوب گیا

وَمَا عَلَیْنَا اِلَّاالْبَلاَغُ الْمُبِیْن

Leave a ReplyCancel reply

Exit mobile version