دینی مدارس اور ادارے اساتذہ کو تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ

جو دینی مدارس اور ادارے اساتذہ کو تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ فنڈنگ کی عدم دستیابی بتاتے ہیں۔۔۔
انہی مدارس اور ادراوں کی عالیشان تعمیرات بھی ہورہی ہوتی ہیں، پہلی ٹائلز موجود ہونے کے باوجود مزید بہتر اور امپورٹڈ ٹائلز لگائی جاتی ہیں، پرانے قالین اٹھا کر نئے قالین بچھائے جاتے ہیں، پرانے اے سی تبدیل کر کے نئے اے سی بھی لگائے جاتے ہیں، اساتذہ کو 5،5 6،6 ماہ کی تنخواہیں نہیں ملی مگر مسجد کا مینار مزید اونچا اور مرصع ہورہا ہوتا ہے، ادارے کا رنگ و روغن دروازے اور کھڑکیاں بھی پالش ہوتی ہیں، ادارے کے گارڈن کو مزید خوبصورت بنانے کے لئے مہنگے پھول پودے بھی لگائے جاتے ہیں۔۔۔
ان اساتذہ کی تنخواہیں ہوتی کتنی ہیں 8،10 ہزار جن سے بمشکل گھر کا چولہا ہی جلتا ہے اور وہ مختصر سا معاوضہ بھی مہینوں مہینوں سے لٹکا ہوا ہوتا ہے۔۔۔
مدرس کو اس کا حق 8،10 ہزار دینے کے لئے نہیں مگر مہتمم صاحب کے پوتے، نواسے کے عقیقہ پارٹی کے لئے لاکھوں بھی کم پڑ جاتے ہیں، مہتمم صاحب کے صاحبزادے کے لئے ہزاروں جیب میں موجود ہوتے ہیں۔۔۔
اساتذہ تنخواہ کا مطالبہ کریں یا تنخواہ میں اضافے کی درخواست دیں تو مہتمم سے لے کر ناظمین تک دھمکیاں دیتے ہیں کہ خاموش ہوجاؤ ورنہ نکال دئے جاؤ گے۔۔۔
بچارہ استاد جس کو تدریس کے علاوہ دنیا کا کوئی ہنر اور کام نہیں آتا وہ بچوں کی روزی روٹی کی وجہ سے خاموش ہوجاتا ہے کہ چلو تنخواہ کم ہے مگر ہے تو ہے اسی پر قناعت کر کے دو نفل شکرانہ پڑھ کر خاموش ہوجاتا ہے۔۔
انہی پریشانیوں اور استحصال کی وجہ سے دینی مدارس کے ہزاروں استاد شوگر، بلیڈ پریشر اور ڈپریشن کا شکار ہوچکے ہیں۔۔۔
خود تو قناعت اکابرین کے طرز پر زندگی گزار لی ہے مگر معاشرے کا کیا کریں بچیاں جوان ہورہی ہیں داماد والے جہیز مانگتے ہیں جہیز نہ ہوا تو ساری زندگی بیٹی اذیت اور تکلیف میں گزارے گی۔۔۔
یہی اساتذہ اپنے آس پاس نظریں دوڑاتے ہیں انہی کے ساتھی پیٹی بند کیسے تعاون کر لیں جن کی اپنی تنخواہ 8،10 ہزار ہے وہ تعاون کریں یا اپنے گھر کا چولہا جلائیں۔ پھر ایسے استاذہ اپنے شاگردوں کے والدین امیر شاگردوں کے آگے عاجزانہ درخواست کرتے ہیں کہ میری بیٹی تمہاری بھی تو بہن ہے مجھے قرض دے دو تاکہ میں داماد کو ایک سیون ٹی موٹر سائیکل دلا دوں ورنہ بچی برباد ہوجائے گی۔۔۔
قسمیہ کہوں تو ایسے ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں جو پاکستان کے مایہ ناز اور بڑے اداروں میں 20،20 30،30 سالوں سے مدرس ہیں مگر ان کی تنخواہیں آج بھی 10،12 ہزار سے زیادہ نہیں۔۔۔
رہائش کے نام پر دو کمروں کا بوسیدہ مکان دے کر زندہ رہنے کے قابل رزق دے کر یہ مہتممین اپنے آپ کو رزق رساں سمجھتے ہیں اور ان مہتممین اور اداروں کے اساتذہ پھر بھی احسان مند ہیں کہ چلو ہمیں رزق ملتا رہا ورنہ ہم فاقوں کی وجہ سے ملحد یا خدا نخواستہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوئے۔۔۔
وہ مہتمم حضرات اور شیوخ جو اساتذہ کو سادگی،قناعت، صبر و شکر کا درس دیتے ہیں، اکابرین کے واقعات اور کرامات سنا کر فقر و فاقہ کو خوش قسمتی سے تشبیہ دیتے ہیں کیا ایسے مہتممین اور شیوخ کی اپنی زندگی میں قناعت، سادگی اور گھر میں فاقہ ہوتا ہے۔۔۔؟
مہتممین حضرات کی لگزری مہنگی گاڑیاں، ضرورت سے زیادہ بڑا عالیشان مکان، صاحبزادوں کی شہزادوں جیسی عیاشیاں، اپنی بیٹی بیٹے کی شادی پر لاکھوں کے خرچے شہر کے مہنگے شادی ہالوں میں شادیاں۔۔۔
اس سسٹم میں پسنے والا مظلوم طبقہ مدرسین کا ہوتا ہے جن کے لئے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہوتا، استادوں کی اپنی کوئی یونین یا تنظیم نہیں ہوتی، ان کے لئے قانون کی کسی کتاب میں کوئی باب نہیں، یہ طبقہ صدیوں سے یونہی پستا آرہا ہے۔۔۔
کیا ہم سب اس سسٹم کے مجرم نہیں۔۔؟ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود بھی خاموشی اور استحصال میں پر برابر کے مجرم نہیں۔۔۔؟ کیا پاکستان کے ہزاروں مدرسین پریشانیوں اور ڈپریشن کی وجہ سے شوگر اور بلیڈ پریشر کے مریض نہیں۔۔۔؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے زیادہ مسائل کا حل کیا ہے۔۔۔؟
دیکھا جائے تو ان مسائل اور معاملات پر لکھنے بولنے بیٹھا جائے تو شائد سینکڑوں صفحات کی کتب اور گھنٹوں بحث و مباحثہ ہو جائے مگر یہ ان معاملات کا حل نہیں ہے۔۔۔
اس کے لئے ہمارے اکابرین اور بڑے حضرات کو سوچنا ہوگا ان مسائل پر سنجیدگی سے کوئی راستہ نکالنا ہوگا، اس طبقہ کو معاشرے کے کارآمد افراد بنانے کے لئے جدو جہد کرنی ہوگی موجودہ زمانہ کے مطابق لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔۔۔
اپنے فضلاء کو دینی علوم کے ساتھ ساتھ ہنر مند بھی بنانا ہوگا، موجودہ حالات کے پیش نظر ڈیجیٹل دنیا سے متعارف کروا کر اپنے ادارے کا ایک کمرہ مخصوص کرنا ہوگا جہاں یہ فضلاء کوئی ہنر سیکھ کر، کوئی ڈیجیٹل سکل سیکھ کر معاشی حالات کا مقابلہ کر سکیں۔۔۔
ورنہ پھر یہی سمجھا جائے گا کہ خود یہ ادارے مہتممین حضرات ہی سنجیدہ نہیں اور یہ ادارے یہی چاہتے ہیں کہ مولوی پستا ہے تو پستا رہے ان کو مزید دبا کر رکھنا چاہئے کیوں کہ دنیا کا کوئی کام اور ہنر تو آنا نہیں لامحالہ ہمارے ادارے اور مدرسے میں ہی تدریس کرے گا تو جتنا ستحصال کر سکیں کرلیں روزی روٹی کی خاطر، اکابرین کے طرز، صبر و شکر قناعت کی ترغیب دے کر مدرسے کے بورچی اور مالی سے کم مشاہرے پر گزارہ کروا لیں گے۔۔۔
اسی سسٹم کے عدم اعتماد اور استحصال کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں علماء وفاق المدارس کے پوزیشن ہولڈر مفتیان کرام اپنے راستے سے بھٹک جاتے ہیں۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ جی فلاں ملحد، غامدی، اور دین بیزار بندہ تو عالم ہے فلاں بڑے مدرسے کا فاضل ہے۔۔۔
اگر دیکھا جائے تو یہ سب کچھ اسی سسٹم کی ناکامی اور قصور وار ہے کہ ہمارا ایک ساتھی ہم سے کیوں بچھڑ گیا آخر ایسی بھی کیا قیامت آگئی تھی کہ ہمارا ایک جید عالم ملحد، دین بیزار اور خدانخواستہ ملحد بن گیا۔۔۔
کیا ہم نے کبھی ایسے علماء اور فضلاء سے پوچھا کہ بھائی دس سال دینی ماحول میں گزارے آخر ایسا کیا ہوا کہ آپ نے اپنی پہچان ہی بدل لی۔۔۔
میں ایسے ایک دو نہیں سینکڑوں علمائے کرام کو جانتا ہوں سب کا یہی جواب ہے کہ جب ہم نے اپنی اسناد تعریفوں اور القابات سے مزین سرٹیفیکٹس لے کر ان اداروں کی خاک چھانی تو کہیں یہ سننے کو ملا کہ جگہ نہیں کہیں آفر دی گئی کہ استاد کی جگہ تو نہیں البتہ بورچی کی جگہ موجود ہے، سینکڑوں مدارس میں گئے مگر تدرسی کی جگہ نہ ملی اگر ملی بھی تو ذلت اور تکلیف کے ساتھ تھوڑی سے معاوضے پر ٹرخایا گیا۔۔۔
اگر ہمارے فضلاء کے لئے ادروں میں تدریس کے لئے جگہ نہیں، اتنی مساجد نہیں جتنے آئمہ پیدا ہورہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعدار کی ریس کیوں لگی ہوئی ہے؟ تعداد میں اضافہ ادارے کے لئے لازم ملزوم کیوں، زیادہ سے زیادہ فضلاء کو فارغ التحصیل بنا کر تعداد کے اضافے کے لئے بھاگ دوڑ کیوں ہے۔۔۔
ان سب باتوں کے جواب کے لئے سوچا جائے مل بیٹھ کر باہمی راستہ نکالا جائے اور اپنے سرپرست علمائے کرام کے ساتھ مل کر کوئی متفقہ حل نکالا جائے۔۔۔
اگر ہم نے آج ان تمام معاملات اور مسائل کا سدباب نہ کیا تو یقین جانیں آئندہ آنے والا وقت اس سے بھی زیادہ نازک اور سنگین ہے اور ہمارا یہ طبقہ حالات کی آندھی اور مشکلات کے طوفان میں گھر گیا تو پھر ہماری آنے والی نسلیں اور تاریخ ان سب معاملات کے ذمہ دار ہمیں ٹھہرائیں گے۔۔۔
وقت سے پہلے منہ زور دریا کا بند نہ باندھا گیا تو سیلاب اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جائے گا۔۔۔
حامد حسن

Leave a ReplyCancel reply

Exit mobile version