” حکومت مجھے نوکری دے یا گولی مار دے”

حامد حسن
چند دن قبل ایک تصویر دیکھی جس میں ایک پڑھے لکھے نوجوان نے بورڈ لکھا ہوا تھا ” حکومت مجھے نوکری دے یا گولی مار دے”
یہی نوجوان اگر اسی جگہ سبزی فروٹ کا ٹھیہ لگا لیتا، چپس، پکوڑے سموسے، دھی بھلے کی ریہڑی لگا لیتا تو اس کو یہ جملہ لکھنے یا حکومت سے اپیل کرنے کی ضرورت ہی نہ رہتی۔۔۔
حکومت مجھے نوکری دے یا گولی مار دے 1
لیکن نا جی ہر ڈگری ہولڈر، پڑھا لکھا نوجوان نوکری کو ہی اپنا حق سمجھتا ہے۔۔۔ ڈگری لے لی تو اب حکومت اور اداروں کا حق ہے کہ اس کو نوکری دے کر ہی رہے۔۔۔ نوکری نہیں ملی تو اس سے آگے کی سوچ ہی ختم۔۔۔
بس مر جائیں گے بھوک سے بلک بلک کر ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مٹی ہوجائیں گے۔۔۔ بیروزگاری سے مر کھپ جائیں گے مگر نوکری ہی کرنی ہے۔۔۔ بھوک افلاس اور فاقوں سے کلیجہ منہ کو آجائے گا مگر نوکری کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔۔۔ جاب ملنے کے انتظار میں گھسٹ گھسٹ کر ہی مریں گے۔۔۔
ان کو کوئی اپنے کام کا مشورہ دے دے تو ایک دم پارہ آسمان کو چھونے لگتا ہے جیسے کوئی بڑی گستاخی کر دی ہو۔۔۔
میں اور یہ چھوٹا سا بزنس کیا بکواس ہے یہ میری شان کے خلاف ہے۔۔۔ میں پڑھا لکھا ہوں میں کیا ریہڑی، ٹھیہ، یا دکان ڈال کر کام کرتے اچھا لگوں گا۔۔۔ میں نے ایم بی اے، ایم ایس سی، ایم فل، ایم اے کیا ہوا ہے میں اپنا کام کیوں کروں، کیا ڈگری میں نے اپنے کام کے لئے لی ہے۔۔۔ میرے سٹیٹس کے مطابق بات کیا کرو میں پڑھا لکھا ہوں، مجھے میری ڈگری اور ایجوکیشن کے حساب سے مشورہ دیا کرو۔۔۔
عجیب بھیڑچال ہے پڑھے لکھے باصلاحیت نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بیروزگار پھر رہی ہے سالوں سال سے نوکری کی تلاش میں در در کی خاک چھانی جا رہی ہے مگر نوکری ہے یا گیدڑسنگھی کہ ہاتھ ہی نہیں لگ رہی۔۔۔
ہزار میں سے کوئی ایک پڑھا لکھا ڈگری ہولڈر نوجوان بیروزگاری سے تنگ آکر اپنے کام کا ٹھیہ لگا لے، ریہڑی سجا لے تو ادھر ادھر سے بیسیوں ڈیڑھ شانے مینڈک نکل آئیں گے جو اس کے کام کو حقارت اور تزلیل کا ایسا رنگ دیں گے جیسے اس نے کوئی سنگین جرم کر دیا ہو۔۔۔ میڈیا ایسی سرخیاں لگا کر اپنا منجن بیچنا شروع کر دے گا۔۔۔ دو ٹکے کے صحافی اور دانشور اس عمل کو اس حد تک گرا دیں گے اور لفظوں کی ایسا کتھا لکھیں گے کہ ہر پڑھا لکھا بندہ اپنے کام کو توہین سمجھنے لگے گا۔۔۔
ایم بی اے نوجوان چپس کی ریہڑی لگانے پر مجبور۔۔۔ ایم فل نوجوان نے حالات سے تنگ آکر پکوڑے سموسے کی دکان کھول لی۔۔۔ ایم اے نوجوان نے نوکری نہ ملنے سے تنگ آکر چائے کا کیبن کھول لیا۔۔۔ ایم ایس سی نوجوان نے نوکری سے تنگ آکر دھی بھلے اور فروٹ چاٹ کی ریہڑی لگا لی۔۔۔ پی ایچ ڈی نوجوان ٹیکسی چلانے پر مجبور۔۔۔
یہ عنوانات اور اشتہارات چلانے والے ان پر تحریریں اور تھیسیس لکھنے والے غلام ذہنیت کے مالک صحافی اور دانشور جو خود دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں، چند روپوں کی نوکری کے عوض اپنے کام اور تجارت کی اتنی توہین اور تذلیل کرتے ہیں کہ الامان۔۔۔
جب ہمارے تعلیمی ادارے بزنس مین کے بجائے نوکر پیدا کریں گے۔۔۔ جب تعلیمی نصاب میں نوکری کو بزنس پر ترجیح دی جائے گی۔۔۔ جب ان اداروں کے سبجیکٹس میں سے بزنس کے بجائے جاب کو ہی داخل کیا جائے گا۔۔۔ جب بزنس ڈگری کو بھی جاب پرپز میں ہی سمجھا جائے گا تو پھر کیا خاک ترقی ہوگی۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ انڈیا پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تاجروں کے بجائے نوکروں کی فوج تیار کی جا رہی ہے۔۔۔
سکول سے کالج اور کالج سے یونورسٹی کا یہ دور انہی سنہرے خوابوں کے تانے بانے بننے میں لگ جاتا ہے کہ ڈگری کے بعد فلاں ملٹی نیشنل کمپنی، فلاں نوکری، فلاں سیٹ، فلاں عہدہ، فلاں ڈیزینیشن مل گئی تو زندگی سنور جائے گی۔۔۔
انہی کالجز یونیورسٹی کے ٹیچرز چونکہ خود بھی ملازم ہی ہوتے ہیں تو وہ بھی سٹوڈنٹس کو نوکریوں کی ثناء خوانی، جابز کے مزے، ڈیزینیشن کی اونچ نیچ، کرسی کی شان اور قصیدے ہی سناتے اور بتاتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سٹودنٹس جاب کا ایک گول سیٹ کر لیتے ہیں کہ ڈگری لینے کے بعد اسی جاب کو حاصل کرنا ہے۔۔۔
پھر ہوتا کیا ہے کہ ڈگری ہاتھ میں پکڑ کر جب دفتروں کے چکر لگا لگا کر جوتے گھس جاتے ہیں، رشوتیں دے کر جمع پونجی بھی ختم ہوجاتی ہے، ڈاکومینٹس کی کاپیز اور فائلز کی مد میں جو رقم پاس ہوتی ہے تو وہ بھی لگ جاتی ہے تو پھر ہاتھ ملتے رہتے ہیں۔۔۔
کتنے ہی باصلاحیت اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو دیکھا کہ سالہا سال نوکری کی تلاش میں لگا دیتے ہیں، اچھی خاصی رقم سفر، فائلزاور ڈاکومینٹس کی مدد میں لگ جاتی ہے مگر حاصل پھر بھی کچھ نہیں ہوتا۔۔۔
دکھ تکلیف اور صدمے کا ایک ایسا دور ہے کہ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔۔۔ حکمرانوں کو کوسنے والی عوام۔۔۔ حکومت کے اعلانوں پر یقین کرنے والے نوجوان۔۔۔ گورنمنٹ جابز کے حصول کے لئے رشوتیں دینے والی عوام۔۔۔ سرکاری نوکری کے حصول کے لئے گھنٹوں گھنٹوں لائنوں میں کھڑے ہوکر نامراد ہوکر واپس ہونے والے۔۔۔ جابز انٹرویوز اور ویکینس کی مد میں ہزاروں کے فارم بھرنے والے۔۔۔
جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو معاشرے کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔۔۔ حکومت کے خلاف اپنے اندر کا بغض نکالتے ہیں۔۔۔ کمپنیوں اور ادراوں میں جاب نہ ملی تو قصور سارا کمپنی کا ہے۔۔۔ بیروزگار ہیں تو حکومت کا قصور ہے۔۔۔ ڈگری اور تعلیم کے باوجود نوکری نہیں مل رہی تو حکومت ذمہ دار ہے۔۔۔
جب حکومت کا نوجوانوں کو پرموٹ کرنے، سکلز ڈویلپمنٹ اور ہنر مندی کے حوالے سے کوئی کردار نہیں۔۔۔ حکومت اگر جاب نہیں دیتی یا اس کو نوجوانوں کے مستبقل سے کوئی سروکار نہیں تو کیا حکومت کا منہ تکتے رہنا ہے۔۔۔ کیا انتظار کرتے رہنا ہے کہ حکومت کوئی نوکری دے گی تو کر لیں گے۔۔۔ کسی کمپنی نے آفر کی تو لگ جائیں گے۔۔۔
ایسے نوجوانوں کا کوئی علاج نہیں۔۔۔ ایسی کوئی ہسپتال یا معالج نہیں جو ایسے مریضوں کا علاج کر سکے۔۔۔ ایسی کوئی دوا نہیں جس میں ایسے لاعلاج نفسیاتی لوگوں کی مرض کا تریاق ہو۔۔۔
جب اپنی تجارت اور بزنس کو چھوٹا سمجھا جائے۔۔۔ جب تعلیم کے مطابق سٹیٹس بنایا جائے۔۔۔ جب تعلیم کو نوکری کے حصول کے لئے حاصل کیا جائے۔۔۔ جب اپنے کام کو اپنی شان کے خلاف سمجھا جائے۔۔۔
ایسے نوجوان بس اپنی اس غلامی کی زنجیر میں ہی بندھے رہیں گے۔۔۔ تنخواہ سیلری کا حصول ہی زندگی ہے۔۔۔ مہینہ پورا کرو اور تنخواہ جیب میں ڈالو۔۔۔ نوکر کیا اور نخرے کیا جیسے محاورات کو زندگی میں شامل کرنا۔۔۔ عزت آنی جانی چیز ہے بس تنخواہ ملتی رہنی چاہئے جیسے حقیر جملے۔۔۔
یہ سب چیزیں نوجوانوں کی صلاحیتیوں کو زنگ لگا رہی ہیں۔۔۔ ان کے اندر چھپے ہوئے بیش قیمت خزانے کو دفن کر رہی ہیں۔۔۔
ــــــــــــــــــــ
ہر انسان میں اللہ نے بے شمار صلاحیتیں اور قوتیں رکھی ہوئی ہیں۔۔۔ ہر انسان باصلاحیت اور قابل ہے۔۔۔
بس ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کو سامنے لاکر نکھارا جائے۔۔۔
انسان کیا کچھ نہیں کر سکتا، سب کچھ انسان ہی تو کر سکتا ہے، ٹیکنالوجی اور ایجادات انسانوں کی مرہون منت ہی تو ہے۔۔۔
جب نوجوانوں کو حوصلہ دیا جائے۔۔۔ جب ان کی تعرف اور حوصلہ افزائی کی جائے۔۔۔ جب ان کو جینے کا سلیقہ سکھایا جائے۔۔۔ جب زمانے کے نشیب و فراز سے آگاہ کیا جائے۔۔۔ جب ان کو ان کے منصب اور حقائق بتائے جائیں۔۔۔ جب نوجوانوں کو نئی راہیں دکھائی جائیں تو پھر ایسے ایسے معجزے اور کرامات ظاہر ہوتے ہیں کہ زمانہ حیران ہوجاتا ہے۔۔۔
اپنے اندر کی صلاحیتوں کا اجاگر کریں۔۔۔ کوئی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔۔۔ جس کام سے رزق مل رہا ہو وہی کام سب سے بڑا ہے۔۔۔ تعلیم کو کام سے منسوب نہ کریں۔۔۔ ڈگری کو تجارت سے نتھی نہ کریں۔۔۔ شرم عار کو چھوڑ دیں۔۔۔
یقین کریں ایک فروٹ، سبزی فروش مینجر سے زیادہ کماتا ہے۔۔۔ کئی ریہڑی لگانے والوں کی انکم آفسر سے زیادہ ہوتی ہے۔۔۔ یقین نہ آئے تو تحقیق کے لئے دنیا بھری پڑی ہے۔۔۔
اس لئے اپنے اندر سے کام کے بدلے شرم عار بے عزتی جیسے لفظوں کو نکال پھینکیں۔۔۔ “لوگ کیا کہیں گے” جیسی سوچ کو ختم کر دیں۔۔۔
کوئی بھی کام کرنے کا عزم اور نیت کر لیں تو پہلے اس کی عظمت اور اہمیت پیدا کریں۔۔۔ اس کام کو خوب سوچیں سمجھیں اور تحقیق کریں۔۔۔ دل تسلی ہوجائے تو اللہ کا نام لے کر لوگوں کی پروا کئے بغیر دل و جان سے محنت شوق کے ساتھ شروع کر دیں۔۔۔ ان شاء اللہ العزیزعروج کے دروازے کھلیں گے۔۔۔ کامیابی و کامرانی آپ کے قدموں کے نیچے پَر بچھا دے گی۔۔۔ خوشحالی کی دنیا وسیع ہوجائے گی۔۔۔ اور زندگی گزارنے کا مزا آئے گا۔۔۔

Related posts

Leave a Reply