حضرت علی کو مولائے کائنات کہنا؟
سیدنا علیؓ کے لیے مشکل کشا کا لقب کم مشرکانہ تھا کہ مولا علی مولا علی کی دہائیاں دیتے اب اہلسنت کے تفضیلیوں نے آپؓ کے لیے مولائے کائنات کا لفظ بھی ایجاد کرلیا۔ گویا یہاں سب کی عزت سب کا وقار ہے سوائے اللہ کے۔ سو جس کا جب دل چاہے اللہ کے وقار، اختیارات اور صفات پر ڈاکہ ڈال لے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مولیٰ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آقا، کارساز، مددگار اور رب وغیرہ کے ہیں۔ آزاد کردہ غلام کے لیے بھی مولیٰ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جیسے سالم مولیٰ ابی حذیفہؓ اور اسی معنی میں نبیﷺ نے سیدنا زید بن حارثہؓ کے لیے صحیح بخاری کی روایت میں فرمایا انت اخونا و مولانا یعنی تم ہمارے بھائی ہو اور مولیٰ ہو۔
حضرت علی کو مولائے کائنات کہنا؟
مؤخر الذکر معنی کو چھوڑ کر مولیٰ لفظ کے باقی سارے معنی و مفہوم صرف اللہ ہی کے لائق ہیں اور اس کے بندوں کو ان ناموں سے پکارنا شرک ہے خاص کر کہ جب یہ لفظ کائنات کے مرکب کے ساتھ بولا جائے کیونکہ کائنات کا مولیٰ و مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور کوئی نہیں۔ قرآن میں جابجا یہ لفظ اللہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سورۃ البقرہ آیت ۲۸۶ میں فرمایا گیا انت مولٰنا یعنی (اے اللہ) تو ہی ہمارا مولیٰ (رب) ہے۔
لفظ مولی اور قرآن
سورۃ آل عمران آیت ۱۵۰ میں فرمایا گیا کہ بل اللہ مولکم و ھو خیر النٰصرین یعنی اللہ ہی تمہارا مولیٰ (مددگار) ہے اور وہ سب سے اچھا مدد کرنے والا ہے۔
سورۃ التوبۃ آیت ۵۱ میں فرمایا ھو مولٰنا یعنی وہ (اللہ) ہی ہمارا مولیٰ (کارساز) ہے۔
سورۃ الانفال آیت ۴۰ میں فرمایا گیا فاعلموا ان اللہ مولٰکم یعنی پس جان لو کہ اللہ ہی تمہارا مولیٰ ہے۔
سورۃ الحج آیت ۷۸ میں بیان کیا گیا نعم المولیٰ و نعم النصیر یعنی وہ (اللہ) بہترین مولیٰ (مالک) اور بہترین مددگار ہے۔
سورۃ یونس آیت ۳۰ میں کہا گیا ھنالک تبلوا کل نفس ما اسلفت و ردوا الی اللہ مولھم الحق یعنی وہاں (آخرت میں) ہر شخص اپنے اعمال کی آزمائش کرلے گا جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے، اور وہ اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے جو ان کا حقیقی مولیٰ ہے۔
سورۃ الانعام آیت ۲۶ میں فرمایا گیا ثم ردوا الی اللہ مولٰھم الحق یعنی پھر وہ سب اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے جو ان کا حقیقی مولیٰ ہے۔
سورۃ محمد آیت ۱۱ میں بیان ہوا ذلک بان اللہ مولی الذین اٰمنوا و ان الکٰفرین لا مولیٰ لھم یعنی یہ اس لیے کہ بے شک مومنین کا مولیٰ اللہ ہے اور کافروں کا کوئی مولیٰ (مددگار) نہیں۔
سورۃ التحریم آیت ۲ میں بتایا گیا واللہ مولٰکم یعنی اللہ ہی تمہارا مولیٰ (مالک) ہے۔ اسی سورۃ کی آیت ۴ میں بیان ہوا فان اللہ ھو مولٰہ یعنی تو بے شک اللہ ہی اُس کا مولیٰ (حامی و کارساز) ہے۔
گویا قرآن میں جابجا یہ لفظ اللہ کے لیے استعمال ہوا ہے اور اپنے تمام قرائن اور سیاق و سباق میں یہ صرف اللہ کو ہی زیبا ہے۔
حتیٰ کہ حدیث میں بھی مولیٰ کا لفظ مالک و کارساز کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ غزوۂ احد کے دن کفار فخر و نخوت سے کہہ رہے تھے کہ لنا عُزّیٰ ولا عُزّیٰ لکم یعنی ہمارے لیے عزی (بت) ہے اور تمہارے لیے عزی نہیں ہے۔ اس پر نبیﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ اس بات کے جواب میں کہیں کہ اللہ مولٰنا ولا مولیٰ لکم یعنی ہمارا مولیٰ اللہ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں۔ (صحیح بخاری۔ کتاب المغازی)
لفظ مولی اور حدیث
یہاں تک کہ نبی ﷺ نے صحیح مسلم کتاب قتل الحیات، باب حکم اطلاق لفظۃ العبد و الامۃ و المولیٰ و السید میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کو مولیٰ کہنے سے سختی سے منع فرمادیا کہ لا یقل العبد لسیدہ مولای ۔۔۔ فان مولاکم اللہ یعنی غلام اپنے آقا کو مولیٰ نہ کہے ۔۔۔ کیونکہ تمہارا مولیٰ اللہ ہے۔ جب ایک کام سے خود نبیﷺ منع فرمارہے ہیں کہ یہ کتنی بڑی جسارت ہے کہ ہم سیدنا علیؓ کو مولائے کائنات پکاریں جبکہ مولائے کائنات صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
پھر یہ بھی یاد رہے کہ اہل تشیع کے ہاں مولائے کائنات کا لفظ حقیقی طور پر کائنات کے مالک کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک ان کے ائمہ اس کائنات کے مالک اور اس میں تصرف رکھنے والے ہیں۔ اسی سبب علماء نے لکھا ہےکہ سیدنا علیؓ، حسنؓ و حسینؓ کے لیے کسی ایسے لفظ کا استعمال جو شعوری یا غیر شعوری طور پر شیعی نقطہ نظر کے فروغ کا باعث بنے اس سے اجتناب ضروری ہے۔” (آثار حنیف بھوجیانی جلد اول صفحہ ۲۳۷)
ان واضح دلائل کے باوجود بھی بعض حضرات اس سلسلے میں سورۃ التحریم کی آیت :
وَإِن تَظَـٰهَرَا عَلَيۡهِ فَإِنَّ ٱللَّهَ هُوَ مَوۡلَٮٰهُ وَجِبۡرِيلُ وَصَـٰلِحُ ٱلۡمُؤۡمِنِينَۖ وَٱلۡمَلَـٰٓٮِٕڪَةُ بَعۡدَ ذَٲلِكَ ظَهِيرٌ
یعنی اور اگر پیغمبر (کی ایذا) پر باہم اعانت کروگی تو جان رکھو کہ اللہ اُس کا مولیٰ ہے اور اُس کے بعد جبریل اور تمام صالح اہلِ ایمان اور سب ملائکہ اس کے مدد گار ہیں (آیت ۴)
کو بنیاد بنا کر کہتے ہیں کہ مولیٰ کے معنی دوست کے بھی ہیں سو ہم سیدنا علیؓ کو بمعنی کائنات کے دوست کے مولائے کائنات کہتے ہیں جبکہ یہ عذر گناہ بدتر از گناہ ہے کیونکہ عربی قواعد کے تحت اس آیت میں مولیٰ یعنی مالک صرف اللہ تعالیٰ کو کہا گیا ہے اور باقی تین یعنی جبرئیل، فرشتے اور صالح مومنین کو ظھیر (مددگار) کہا گیا ہے مولیٰ نہیں۔
اس آیت کی نحوی ترکیب یہی ثابت کرتی ہے ورنہ اگر جبرئیل اور نیک مومنین بھی اس ولایت میں شامل ہوتے تو پھر نحوی اعتبار سے حرف مشبہ بفعل “اِنَّ” اپنے قاعدے کے مطابق اپنے اسم “اللہَ” کے ساتھ ساتھ ان اسماء کو بھی نصب دیتا اور جملۂ اسمیہ کے اصول کے تحت منصوب ہونے کے بعد تینوں کی ایک ہی اعرابی حالت واقع ہوتی اور مبتداء و خبر کے اصول کے تحت تینوں کی ایک ہی خبر ہوتی لیکن اصل آیت میں یہ اسم “اللہَ” کی طرح منصوب نہیں بلکہ مرفوع واقع ہوئے ہیں اور اگلے مرفوع اسم “والمَلئِکۃُ” کے ساتھ معطوف ہو کر یکساں اعرابی حالت کی مابعد خبر میں داخل ہیں اس طرح جو خبر ملائکہ سے متعلق ہے وہی ان کی بھی ہے یعنی یہ سب نبیﷺ کے مددگار ہیں، مولیٰ نہیں، مولیٰ تو صرف اللہ ہی ہے۔
گویا آسان الفاظ میں کہیے تو ھو مولہ (وہ مولیٰ ہے) خبر ہے اور اس کا اسم فَاِنَّ اللہَ (بیشک اللہ) ہے اور بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِيْرٌ (اس کے بعد مددگار ہیں) ایک دوسری خبر ہے اور اس کا مبتداء وَجِبۡرِيلُ وَصَـٰلِحُ ٱلۡمُؤۡمِنِينَۖ وَٱلۡمَلَـٰٓٮِٕڪَةُ (جبرئیل، صالح مومنین اور فرشتے ) ہے۔ اگر یہ دو کے بجائے ایک ہی خبر ہوتی تو پھر قواعد کی رو سے اس خبر کے تمام اسم ایک ہی اعرابی حالت میں ہوتے اور ایسا نہ ہوتا کہ کوئی مفتوح یعنی زبر کے ساتھ اور کوئی مضموم یعنی پیش کے ساتھ ہو۔ اِنَّ کا اثر جیسے اسم اَللہُ پر پڑا ہے کہ اُس کو نصب دے کر اَللہَ کردیا ہے، باقی تینوں اسماء کو بھی اسی طرح نصب دیتا اور انہیں وَجِبۡرِيلُ وَصَـٰلِحُ ٱلۡمُؤۡمِنِينَۖ وَٱلۡمَلَـٰٓٮِٕڪَةُ کے بجائے وَجِبۡرِيلَ وَصَـٰلِحَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَۖ وَٱلۡمَلَـٰٓٮِٕڪَةَ کردیتا لیکن چونکہ ایسانہیں ہے، پس اس لیےثابت ہوا کہ مولیٰ ہونے کی خبر صرف اسم اللہ کے ساتھ ہے باقی تین اسماء یعنی جبرئیل، صالح مومنین اور فرشتوں کے ساتھ نہیں اور ان کی خبر دوسری ہے یعنی وہ مددگار ہیں، مولیٰ نہیں۔
الغرض ازروئے قرآن و حدیث مولیٰ کا لفظ اپنے عموم میں اللہ کے لیے خاص ہے اور بالخصوص مولائے کائنات تو صرف اور صرف اللہ کی ذات واحد ہے۔عجب طرقہ تماشہ ہے کہ آج اہل تشیع کو تو چھوڑیں اہلسنت سیدنا علیؓ کو مولائے کائنات جیسے مشرکانہ لقب سے یاد کرتے ہیں۔
ذرا کوئی بتائے کہ کبھی ہم عصر امت نے سیدنا علی ؓ کے لیے یہ لقب استعمال کیا۔ ہم عصر چھوڑئیے بلکہ صحابہ، تابعین ، تبع تابعین ، ائمہ اربعہ یہاں تک کہ محدثین نے کبھی سیدنا علیؓ کو مولائے کائنات فرمایا؟
اور وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے دل ایمان سے لبریز اور توحید پر کاربند تھے۔ وہ اللہ کی مخلوق کو اللہ کے ساتھ کسی قسم کی شراکت داری میں شریک نہ کرتے تھے۔ یاد رکھئے اللہ کے سوا کوئی داتا، حاجت روا، مشکل کشا نہیں۔ صرف ایک اللہ ہی ہر چیز پر قادر ہے۔
کائنات کے تمام کام اللہ کی مرضی اور منشاء سے ہوتے ہیں۔ سارے نبی صرف اللہ کے در کے سوالی ہیں۔ وہی مولائے کل بھی ہے اور سرورکائنات بھی۔ آقائے دو جہاں بھی وہی ہے اور سرور کونین بھی۔ سارے انسان اور انبیاء اس کے بندے اور وہ سب کا آقا ہے۔ تمام خرق عادت امور اس کی منشاء کے تابع ہیں۔ انبیاء کے معجزے اس کی مرضی سے ہوتے ہیں۔
اس نے یہ کائنات جن و انسان کے لئے بنائی اور جن و انسان کو صرف اپنی بندگی کے لئے۔ اسی نے موت اور زندگی بنائی تاکہ پتہ چل سکے کہ کون اچھے عمل کرتا ہے اور کون سیئات میں مبتلا ہوتا ہے۔ وہ بے نیاز ہے، کسی شخصیت کا واسطہ و وسیلہ اس کو مجبور نہیں کرسکتا۔ کسی انسان، کسی نبی، کسی فرشتے کی محبت اس کے فیصلوں کے آڑے نہیں آسکتی۔
اس نے انسانوں کے اعمال کے بدلے جنت کا کاروبار رکھا ہے۔ وہ ہی ایک ہے جو خلوت میں سنتا ہے اور جلوت میں بھی۔ زبان سے پکارا بھی سنتا ہے اور دل میں کی گئی سرگوشی بھی۔ اس کے علاوہ کوئی ایسا سمیع و بصیر نہیں کہ موت کے بعد منوں مٹی کے پیچھے سے پکارنے والے کو سن لے اور زیارت کرنے والے کو دیکھ لے۔
اس نے نہ ہی اپنے گھر میں نصب حجر اسود میں کوئی نفع و نقصان رکھا جس کو کہ انبیاء و صحابہ چھوتے اور چومتے آئے ہیں اور نہ ہی کسی عالم اور صالح بندے کی قبر میں کوئی فیض رکھا۔ اسی نے خانہ کعبہ کو عبادت کی جگہ بنایا تو ہر قبر کو صرف عبرت کی جاء قرار دیا۔
ہر طرح کا نفع و نقصان اس نے اپنے پاس رکھا۔ وہی اول ہے اور وہی آخر۔ بعد از خدا بزرگ کوئی نہیں کہ نہ اس سے پہلے کوئی ہے اور نہ اس کے بعد کوئی ہے اور نہ کوئی اس کے مثل کے اس سے پہلے یا بعد میں کسی کو رکھا جاسکے۔ مخلوقات میں سب سے افضل انبیاء ہیں اور انبیاء میں سب سے افضل نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اتباع کے بغیر جنت کا حصول ناممکن ہے۔