جمعیت علمائے اسلام تعارف
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) پاکستان کی ایک ممتاز مذہبی سیاسی جماعت ہے جس کی جڑیں ملک کی اسلامی اور سیاسی تاریخ میں بہت گہری ہیں۔ اس جماعت کی ابتداء 20ویں صدی کے اوائل میں ہوئی ہے، اور اس نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کی تشکیل میں خاص طور پر اسلامی طرز حکمرانی اور سماجی انصاف کی کوشش میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
جمعیت علماء کا آغاز
جمعیت علمائے اسلام (JUI) جمعیت علمائے ہند (JUH) سے نکلی ہے، جمعیت علمائے ہند کی بنیاد 1919 میں دیوبندی علماء نے برطانوی ہندوستان میں رکھی تھی۔ JUH کا قیام مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور برطانوی استعمار کے خلاف جدجہد کے لیے کیا گیا تھا۔ یہ ہندوستانی تحریک آزادی کی ایک بڑی جماعت تھی اور اس نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مل کر کام کیا۔ تاہم جیسے ہی پاکستان کے قیام کا مطالبہ زور پکڑتا گیا، تنظیم کے اندر اختلافات پیدا ہوگئے۔
جمعیت علمائے اسلام کی تشکیل
1945 میں، جیسے ہی پاکستان کے قیام کی تحریک نے زور پکڑا، JUH کا ایک دھڑا، جس کی قیادت مولانا شبیر احمد عثمانی کر رہے تھے، جنہوں نے علیحدہ مسلم ریاست کے نظریے کی حمایت کی تھی، الگ ہو کر جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد رکھی۔ اس نئی تنظیم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پاکستان کے مطالبے کی حمایت کی، اسے ایک اسلامی ریاست کے قیام کی طرف ایک قدم کے طور پر دیکھا۔
قیام پاکستان کے بعد
1947 میں تقسیم ہند کے بعد جے یو آئی پاکستان کی اہم مذہبی جماعتوں میں سے ایک بن گئی۔ پارٹی کا بنیادی مقصد نئے ملک میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنا تھا۔ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں، جے یو آئی مختلف سیاسی تحریکوں میں شامل رہی جو ملک کے آئین میں اسلامی اصولوں کو شامل کرنے کی کوششیں کرتی تھیں۔
1970 کی دہائی
1970 کی دہائی جے یو آئی کی تاریخ کا ایک اہم دور تھا۔ مولانا مفتی محمود کی قیادت میں، پارٹی نے 1970 کے عام انتخابات میں خاص طور پر خیبر پختونخواہ (جو اس وقت شمال مغربی سرحدی صوبہ کہلاتا تھا) اور بلوچستان کے صوبوں میں خاصی تعداد میں نشستیں حاصل کیں۔ جے یو آئی نے خیبرپختونخوا میں مخلوط حکومت بنائی اور ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف اپوزیشن میں کلیدی کردار ادا کیا۔
افغان جنگ اور 1980 کی دہائی
1980 کی دہائی کے دوران، جے یو آئی نے سوویت یونین کے حملے کے خلاف افغان جہاد میں اہم کردار ادا کیا۔ جماعت، خاص طور پر مولانا فضل الرحمان کی قیادت ، مجاہدین کی حمایت کرتی تھی اور افغان کاز کے لیے مذہبی طلباء اور وسائل کو متحرک کرنے میں شامل تھی۔ اس دور میں پاکستان کے مذہبی اور سیاسی میدانوں میں جے یو آئی کے اثر و رسوخ میں بھی کافی اضافہ ہوا۔
1990 کی دہائی
1990 کی دہائی میں جے یو آئی پاکستانی سیاست میں ایک بااثر قوت کے طور پر سامنے آئی۔ جمعیت علمائے اسلام شرعی قانون، دینی مدارس (مدارس) کے حقوق، اور مغربی اثر و رسوخ کی مخالفت سے متعلق مسائل پر اپنے سخت گیر موقف کے لیے مشہور ہوئی۔ مولانا فضل الرحمان ایک اہم رہنما کے طور پر ابھرے اور قومی سیاست میں ایک اہم شخصیت بن گئے، اکثر مخلوط حکومتوں میں کنگ میکر کا کردار ادا کرتے رہے۔ اور یہاں تک کہا جانے لگا کہ مولانا کے بغیر کوئی حکومت نہیں چل سکتی۔
جدید سیاست میں کردار
آج، JUI-F پاکستان میں ایک طاقتور سیاسی قوت بنی ہوئی ہے، جو اسلامی قانون کے نفاذ کی جدجہد کرتی ہے اور ہر اس عمل اور قانون کی مخالفت کرتی ہے جسے وہ سیکولر اور مغربی اثرات کے طور پر دیکھتی ہے۔ پارٹی مختلف سماجی اور سیاسی تحریکوں میں سرگرم ہے اور اکثر صوبائی اور قومی سطح پر انتخابات میں حصہ لیتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان مختلف سیاسی اتحادوں اور اپوزیشن کی تحریکوں میں ایک اہم شخصیت بن چکے ہیں، جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اپنا گہرا اثر رکھتی ہے، خاص طور پر مذہب اور ریاست سے متعلق معاملات میں۔
جے یو آئی کی تاریخ پاکستان میں مذہب اور سیاست کے درمیان پیچیدہ تعامل کی عکاس ہے، اور یہ عوامی زندگی میں اسلام کے کردار کے بارے میں ملک میں جاری مباحثوں میں ایک اہم کردار کی حیثیت رکھتی ہے۔
2018 کے انتخابات کے بعد
جب سن 2018 کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے سہولت کاری کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو زبردستی مسلط کیاتو مسلم لیگ، پی پی جیسی بڑی پارٹیاں بھی ہاتھ باندھ کر بیٹھ گئیں تھیں، ایسے میں جمعیت علمائے اسلام اور مولانا فضل الرحمن نے ایک زبردست تحریک شروع کی اور اپنی ذہانت، حکمت اور بصیرت کے ساتھ اس فتنے کے خلاف نہ صرف خود جدجہد کی بلکہ مسلم لیگ اور پی پی کے مردہ جسموں میں جان ڈال کر انہیں بھی اپنے ساتھ کھڑا کیا۔ چونکہ یہ جدجہد خالصتا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھی اور اس کے خلاف کوئی کام کرنا تو دور کی بات نام لینا بھی مشکل تھا لیکن مولانا نے نہایت پر امن طریقے سے اس فتنے کو اس طرح کچلا کہ سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔
2022 میں غزہ اسرائیل جنگ شروع ہوئی تو جمعیت علمائے اسلام نے کھلے عام اسرائیل کی مخالفت کی اور قطر میں حماس کے رہنماء اسماعیل ہانیہ سے ملاقات بھی کی، جبکہ دوسری طرف مولانا نے افغانستان کا دورہ کرکے ٹی ٹی پی کے مسئلے کو بھی حل کرنے کے قریب پہنچا دیا، جس کی پاداش میں عالمی اسٹیبلشمنٹ نے لوکل اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے ٢٠٢٢ کے انتخابات میں مولانا کی جماعت کو دھاندلی سے پارلیمنٹ سے باہر کردیا۔