جمعیتہ کی رکن سازی مہم مقاصد و اہداف

جمعیت علمائے اسلام رکنیت سازی

جمعیتہ کی رکن سازی مہم مقاصد و اہداف

مقاصد و اہداف

حضرت مولانا حامد میاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ جمعیتہ علماء اسلام کے مرکزی امیر تھے، خاندانی نسبت اور علمی و روحانی مقام میں بھی اپنی انفرادی شان رکھتے تھے۔ جمعیۃ علماء ہند کے سرکردہ رہنما، مؤرخ ملت حضرت مولانا محمد میاں کے صاحبزادے، احبزادے، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے خلیفہ مجاز اور پاکستان میں بے شمار علماء کے استاد ومربی تھے، کسی شخص نے مولانا حامد میاں سے سوال کیا کہ دنیا میں اللہ کی رضا اور تائید کس جماعت کے ساتھ ہے، یہ پہچاننے کے لیے ہمارے پاس کیا معیار ہوگا ؟

مولانا حامد میاں رحمہ اللہ نے فرمایا : وحی کا سلسلہ تو بند ہو چکا جو آ کر یہ بتائے کہ

تائید الہی کس کے ساتھ ہے البتہ بزرگان دین نے اس کا یہ معیار ذکر کیا ہے کہ وقت کے

اہل اللہ کی تائید جس کے ساتھ ہو جائے تو سمجھ واللہ کی تائید بھی اس جماعت کے ساتھ ہے۔

جمعیتہ علماء اسلام کی تشکیل ، تاریخ اور ملک گیر تنظیمی حالات پر غور کیا جائے تو مولانا سیدحامد میاں قدس سرہ کے اس قول سے ہمیں ایک خاص قسم کی روحانیت وطمانیت حاصل ہوتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے اہل علم واہل اللہ کی توجہات عالیہ کا نہ صرف مرکز ومحور ہے بلکہ لا تعداد مشائخ ،علماء اور علمی وروحانی سلسلوں کے مقتداء امام جمعیتہ علماء اسلام کے تنظیمی عمل سے وابستہ ہیں اور اس کے طریقہ کا رولائحہ عمل سے متفق اور اس کے پروگرام کے داعی ہیں۔ یہ بات جمعیتہ علماء کے لیے باعث افتخار اور اعزاز ہے بلکہ کارکنان جمعیتہ کے لیے سرمایہ نجات بھی۔

جمعیہ کی ان خصوصیات اور امتیازات کی وجہ سے ہر دور کے اکابر نے ہمیشہ جمعیتہ سے وابستگی اختیار کی اورجمعیہ کی تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ خوش قسمتی سے جماعتی تاریخ میں اب پھر ایک موقع آگیا ہے کہ جماعتی دستور کی روشنی میں جمعیتہ علماء اسلام کی بنیادی یونٹ سے لے کر مرکزی سطح تک تشکیل نو کی جائے اور نظم و ضبط میں معیار واقدار کو سامنے رکھتے ہوئے جماعت کی تعمیر و ترقی کے لیے بہترین لائحہ عمل اختیار کیا جائے ۔ اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے جماعتی روایات کے مطابق ملک بھر میں رکن سازی مہم کا اغاز کیا جارہا ہے اور اس مہم کو بار آورو کا میاب بنانے کے لیے نظماء انتخابات کے تقرر کا عمل بھی شروع ہے۔

یہاں پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ رکن سازی ہماری جماعتی تاریخ کی قدیم روایت ہے، لیکن دور حاضر کی جدت، ترقی اور دیگر جماعتوں کی تشکیل و ترتیب پر غور کیا جائے تو تنظیم آج کے دور میں ایک سائنس کی شکل اختیار کر گئی ہے یہ ایک پیچیدہ، ذمہ دارانہ اور حساس ترین عمل ہے جس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بہت سی احتیاطی تدبیروں، پرمغز فیصلوں اور اہم اقدامات کے اہتمام کی ضرورت ہے۔

جمعیتہ کی رکن سازی مہم مقاصد و اہداف

سب سے پہلے اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ آخر میں ضرورت کیوں پیش آئی ہے کہ ہم ہر پانچ سال بعد جماعتی نظم کی تشکیل نو کریں اور تمام سطح کی تنظیموں کو از سرنو تر تیب دیں؟ ظاہر بات ہے کہ جمعیتہ علماء اسلام شورائی جماعت ہے، ملک میں شورائی نظام کی حامی اور داعی ہے ( جسے عرف عام میں جمہوریت کہا جاتا ہے ) تو اس جمہوریت اور شورائیت کا تقاضا ہے کہ جماعت کا نظم اور اس کی قیادت کا رکنان جماعت کی خواہش اور رائے کے عین مطابق ہو۔ تبھی ان کا اعتماد قیادت پر پختہ ہو سکے گا اور قیادت کارکنان جماعت میں موثر ہو سکے گی۔

جب جمعیتہ علماء اسلام نے ملک کے اجتماعی نظام کے لیے جمہوری کلچر کو پسند کیا

ہے تو اس نے اپنے اندرونی نظم اور جماعت کی تشکیل میں بھی انہیں جمہوری یا شورائی روایات کو فروغ دیا ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام بلاشبہ ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتوں میں اپنے اس جمہوری کلچر اور شورائی روایات کی وجہ سے ممتاز بھی ہے اور منفرد بھی ۔ ملک کی واحد جماعت جو اپنے قیام کے دن سے اب تک اس روایت پر چلتی آرہی ہے اور ہمیشہ اس کی قیادت کے انتخاب اور نظم کی تشکیل میں یہی روایت زندہ رہی ہے اور کبھی اس میں نقطل نہیں آیا، یہاں تک کہ مارشل لاؤں کے ادوار میں بھی جمعیتہ کی تنظیمی رکن سازی اور انتخابات ہوتے رہے۔ ملک کی کوئی دوسری جماعت ایسی شاندار روایات کی نہ مثال پیش کر سکتی ہے اور شاید نہ ہی ایسی روایات کی متحمل ہوسکتی ہے ۔

لہذا ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ان شاندار روایات کو ہمیشہ کی طرح تابندہ رکھنے کے لیے ایسا طرز عمل اختیار کیا جائے کہ رکن سازی مہم کامیاب بھی ہو، جماعت کی تعمیر و ترقی کا سبب بھی بنے اور دوسری جماعتیں اس مہم کی خوبصورتی و خصوصیات سے متاثر ہو کر جمعیتہ علماء اسلام کی انفرادیت و عظمت کا اعتراف کر یہ تمام چیزیں تبھی ممکن ہوسکیں گی جب رکن سازی مہم کے ذمہ داران اس مہم کے مقاصد، طریقہ کار اور اہداف کو اپنے کارکنان کے سامنے موثر طریقے سے پہنچا سکیں اور ان کو اس مہم کی کامیابی پر آمادہ کرسکیں۔

راقم کے خیال میں رکن سازی کا مقصد محض زیادہ سے زیادہ فارم پر کرنا، فیس وصول کرنا نہیں اور نہ ہی فارموں کے اعداد وشمار کی جادوگری میں پڑ کر جماعتی عہدوں کی تگ و دو میں پڑنا اور حصول منصب کی دوڑ میں شامل ہونا ہے۔ بلکہ رکن سازی مہم سے ہم بنیادی طور پر کئی مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔

مقصد اول

قدیم ساتھیوں کے لیے رکن سازی ایک تجدید عہد ہے کہ وہ سابقہ دور میں کی گئی اپنی جد و جہد پر نظر ڈالیں اور اپنی کی کوتاہیوں پر غور کرتے ہوئے ان کو دور کر نے کی کوشش کریں۔ ماضی کے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرتے وقت اپنے اندر ایک نیا ولولہ، نیا جذ بہ اور نئی امنگ پیدا کریں۔

ہر شخص جماعت کا فارم پر کرتے وقت اپنے آپ کو پر کھے کہ کیا تنظیمی زندگی میں جس اخلاص اور محنت کی ضرورت تھی میں نے دور ماضی میں کما حقہ اس ضرورت کو پورا کیا ہے یا نہیں۔ جماعت سے وابستگی کے جو تقاضے مجھ پر لازم تھے میں ان تقاضوں کو پورا کرتا رہا ہوں یا نہیں ۔ جماعتی ساتھیوں نے مجھ پر جو ذمہ داری عائد کی تھی میں نے دیانتداری اور اخلاص سے اس ذمہ داری کو نبھایا ہے یا نہیں۔ میرے قول و عمل سے اب تک جماعت کو کس قدر فائدہ پہنچا ہے اور کتنا نقصان ہوا ہے؟

غرضیکہ قدیم رکن جماعت کی نئی تنظیم سازی میں حصہ لیتے ہوئے یہ سوچ کر اپنا احتساب کریں کہ نئے آنے والے ساتھیوں کے لیے میری ذات آئیڈیل ہو اور کہیں ایسانہ ہو کہ میری ماضی کی کوتاہیوں کا تسلسل جماعت کے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بن جائے اور میری ذاتی کمزوریوں کی وجہ سے جماعت اپنے نصب العین کو نئی نسلوں میں منتقل کرنے میں ناکام رہے لہذا قدیم ارکان کے لیے یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ وہ رکنیت فارم پر کرتے وقت اپنی نیت درست کریں، اپنے دل و دماغ کو اپنے نفس اور خواہشات کے تابع کرنے کی بجائے اخلاص کے دامن کو تھا میں اور رب ذوالجلال کو حاضر ناظر جان کر تجدید عہد کریں کہ وہ ماضی میں ہونے والی خطاؤں سے بچتے ہوئے پورے اخلاص اور للہیت سے جماعت کے پروگرام کی ترویج واشاعت میں کردار ادا کرنے کے لیے اس کے تمام تر قواعد وضوابط اور مقاصد کو قبول کرتے ہوئے رکنیت قبول کر رہے ہیں۔

مقصد ثانی

رکن سازی کا دوسرا مقصد ناراض لیکن مخلص ساتھیوں کو بیدار کرنا ہے جو پر خلوص جذبات سے مغلوب ہوکر یا حالات کے جبر کا شکار ہو کر کسی نہ کسی طرح جماعت سے عملاً الگ ہو کر انفرادی طور پر بے لطف و بے کیف زندگی گزار رہے ہیں ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ میری مراد قطعا وہ ساتھی نہیں جو خود غرضی ، تعصب و حسد اور بغض و کینہ کی بنیاد پر جماعت سے علیحدگی اختیار کیے ہوئے ہیں اور اپنی فطرت سے مجبور ہو کر جماعت کے ذمہ داروں کے راستوں میں کانٹے بچھانے اور سنگ راہ بننے میں مشغول رہتے ہیں ، ایسے لوگ جماعت کے لیے زہر قاتل اور تنظیم کی تباہی کا سامان کرتے ہیں ۔ جماعتی لوگوں کا ان سے دور رہنا اور ان کے مکر وفریب سے جماعت کو بچانا بہت ضروری ہے۔ ہاں ایسے ساتھی جن کا دل جماعت کے لیے دھڑکتا ہے اور جن کے خیالات وتصورات میں جماعت کی خیر خواہی اور ترقی کے منصوبے پیش نظر رہتے ہیں لیکن وہ حالات کے جبر سے مجبور ہوکر یا اپنے نجی اور ذاتی مسائل کا شکار ہو کر جماعت کے نظم سے دور ہیں ان ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انہیں نئی امید اور نئی آس دلا کر جماعت کے ماحول میں لا کر ان کو عملی جدو جہد سے وابستہ کرنا اور ان کے تجربات و مشاہدات سے استفادہ کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ جماعت کے متعلقہ ذمہ داران کے فرائض منصبی میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ان ساتھیوں سے ملاقات کریں، ان کے شکوہ شکایات اور شکوک وشبہات اور اشکالات کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں، ان ساتھیوں کا جماعتی نظم سے وابستہ ہو جانا انشاء اللہ جماعتی قوت و ترقی میں اضافے کا سبب ہوگا۔

یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ جمعیتہ کی دعوت کا میدان محض دینی وعلمی حلقے نہیں ہیں بلکہ ہر وہ شخص جو ملک پاکستان کا خیر خواہ ، دین حنیف سے رغبت رکھتا اور پاکستان کا پر امن شہری ہے، جمعیتہ کی دعوت کا مستحق ہے۔ ہماری مہم کی اصل کامیابی یہی ہے کہ ہم عامتہ الناس میں مختلف مکاتب فکر اور حلقوں تک اپنے پیغام کو پہنچا ئیں تا کہ ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد جمعیتہ علماء اسلام کے کارواں میں شامل ہو کر ہمارے شانہ بشانہ چلیں۔ رکن سازی مہم اصل میں تنظیم سازی کا مشکل ترین اور صبر آزما مرحلہ ہے جس میں نئے لوگوں کی آمد بھی ہے اور پرانے ساتھیوں کی تجدید بھی۔ اس مرحلے میں آنے والے مسائل اور پیش آمدہ مشکلات کا حل تبھی ممکن ہو سکے گا جب متعلقہ نظماء دیانتداری، امانت و خلوص اور احتیاط و تدبر کے راستے پر گامزن ہوں گے ان کے حسن تدبر اور دیانت وامانت کے نورانی اثرات آنے والی جماعت اور تشکیل پانے والی تنظیم خود بخود محسوس کر سکے گی اور اگر خدانخواستہ رکن سازی مہم میں تعصب ونفرت اور اختلاف یا جانبداری کی آلائشیں شامل ہوگئی تو پھر تشکیل پانے والی جماعت ان امراض کے گندے جراثیم سے ایسی متاثر ہوگی کہ الامان والحفیظ۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نظماء انتخابات کا تقرر معیار، دیانت،شرافت اور حسنِ اخلاق کو مدنظر رکھ کر کیا جائے۔ اس عمل میں مقرر ہونے والے اشخاص کی عملی کار کر دگی ہی اصل میں آئندہ جماعت کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی ۔ دور جدید میں تنظیم سازی کے مراحل خالصتا تکنیکی اور حساس معاملات ہیں، وہ ذمہ دار ہی اس میں کامیابی حاصل کر پائے گا جو اعصاب کی مضبوطی اور تنظیمی معاملات کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہو۔ نظم، انتظام اور مینجمنٹ آج کے دور کا ایک علم اور ہنر ہے، دنیا کی ترقی اور تیز رفتاری کو سامنے رکھتے ہوئے رکن سازی مہم کو ایسی ٹیم اور افراد کار کی ضرورت ہے جو ان راہوں کی مشکلات سے بخوبی واقف اور عملاً آزمودہ کار بھی ہو، ورنہ نا پختگی ، حکمت و تدبر کی کمی اور تنظیم سازی کے مراحل کے نا آشنائی کے نقصانات کا ازالہ شاید آئندہ پانچ سالوں میں بھی نہ ہو سکے گا۔ کون نہیں جانتا کہ ناظم انتخاب کا طرز عمل جماعت کو مضبوط اور پائیدار بنیاد فراہم کر سکتا ہے اور ناظم انتخاب کا ہی طرز عمل جماعت کی نو تعمیر شدہ عمارت کو ایسا ویران کھنڈر بنا سکتا ہے کہ پھر اس پر کوئی حسرت کارآمد نہیں ہوتی۔ رکن سازی مہم کی کامیابی کا معیار اس کے طریقہ کار اور نظماء کی ترجیحات پر ہے۔ کیا زیادہ سے زیادہ تعداد میں فارم بھر کے کاپیوں کے انبار لگا دینا اور بڑی بڑی مجالس عمومی قائم کر دینا ہی اصل کا ر کر دگی ہے؟ یقینا نہیں ۔

کامیابی کا اصل معیار تعداد نہیں معیار ہے۔ بہت بڑی جماعت تشکیل نہ پائی جائے ، محدود ارکان ہوں لیکن اتفاق اور اخلاص کی برکت سے مالا مال ہوں اور نظریاتی و جان شمار ہوں ۔ یہ چند افراد ہی ان شاء اللہ ہزاروں پر بھاری ہوں گے۔ امید ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام کے کارکن اور ذمہ دار یقیناً اس حساس اور نازک مرحلے پر کسی ایسی حرکت یا عمل کے مرتکب نہ ہوں گے جو جماعت کی تاریخ ، روشن روایات اور نورانی ماحول کو داغدار کرنے کا سبب بنے۔

آئیے ! عہد کریں، جماعت کی رکن سازی مہم کو ہر ممکن طور پر کامیاب بنائیں گے اور تعصب و تنگ نظری سے دامن بچا کر محض رضائے الہی کے حصول اور جماعتی ترقی کے لیے جماعت کی دعوت کا پرچم لے کر نگر گر گھومیں گے اور ایک ہی بات کہیں گے:

جمعیہ کی دعوت جمعیہ کا پیغام

خدا کی زمین پر خدا کا نظام

(ماہنامہ الجمعية ، نومبر 2013ء)

Leave a Reply