﷽
تپ دق اور خوراک
پیش لفظ
فرنگی خصوصاً یورپ و امریکہ کو پراپیگنڈہ اور کولڈوار(ذہنی جنگ) میں جوکمال حاصل ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ اس کا پراپیگنڈہ اور کولڈ وار ہمیشہ تجارتی اغراض کومدِ نظر رکھ کر کیاجاتا ہے۔ جس سے وہ بیشتر ناجائزفوائد(Exploitation)حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے۔ لیکن پراپیگنڈہ اور استحصال دونوں ایسی صوررتیں ہیں کہ جن سے یہ ظاہرہوتا ہےکہ اس کے مفادات بیان کرنے والوں کو نہیں ہیں بلکہ جن کے لئے بیان کئے جا رہے ہیں ان کے لئے ہیں۔ گویا بیان کرنے والے کو اپنا کوئی مفادمقصود نہیں ہے وہ صرف جن کےلیے بیان کررہا ہے ان کا ہمدرد اور خیر خواہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اس کا پراپیگنڈہ اور کولڈ وار ہے جس سے وہ انفرادی اور اجتماعی طورپر استحصال کررہا ہے اور دوسروں کو فوائد ہوں یا نہ ہوں البتہ وہ خود ایک بہت بڑا فائدہ(Line Share)حاصل کرہا ہے۔ اس کو ہماری زبان میں کہتے ہیں۔ ایک بام دو ہوا۔
امریکہ اور آلو
جو لوگ فرنگی کی ان چالوں اور چالاکیوں سے خوب واقف ہیں وہ اس کے پراپیگنڈے ، کولڈوار اور استحصال پر ہمیشہ نگاہ رکھتے ہیں اور وہ خوب جانتے ہیں کہ فرنگی چھوٹی چھوٹی باتوں اور ادنیٰ ادنیٰ چیزوں سے کس قدر بڑے فائدے اور مقصد حاصل کرتا ہے۔ انہی ادنیٰ ادنیٰ چیزوں میں ایک آلو بھی شامل ہے جوہمارے ملک میں اس کثرت سے ہوتا ہے کہ ملک کی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد اکثر بچ جا تا ہے جو اکثر ضائع ہوجاتا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں غذائی قلت کو مدِنظررکھتے ہوئے اس کوموقعہ مل گیا ہے کہ وہ ہماری ضرورت اور کمزوری سے ناجائز فوائد حاصل کرکےبالکل اسی طرح جیسے ہمارے ملک میں بے شمار اکسیر ادویات پائی جاتی ہیں مگر فرنگی ان کی برائیاں بیان کرتا ہے اور اپنے ملک کی غیر مفید اور کم فوائد کی ادویات ہمارے ملک میں بھیج کرہماری دولت کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹتاہے۔ مثلاًقبض ایک بالکل معمولی مرض یا علامت ہے ۔ ہمارے ملک میں اس کے لئے کم از کم ایک سو(100)کے قریب مفرد ادویات ہیں اور ان کی مرکب صورتیں تو ہزاروں تک پہنچتی ہیں یا یوں سمجھ لیں کہ ہر مرض کی قبض کے لئے الگ الگ ادویات ہیں۔ مگر یہ معلوم کرکے تعجب ہوتا ہےکہ یورپ اور امریکہ سے لاکھوں روپوں کی ادویات صرف قبض کشائی کے لئے آتی ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہ غیر مفید ہونے کے علاوہ ہمارے مزاج اور ہمارے ملک کی آب وہوا کے بالکل مخالف ہیں۔ چونکہ فرنگی کا پراپیگنڈہ ، کولڈ وار اور استحصال کا سلسلہ اس قدر زبردست ہے کہ ہمارے عوام تو رہے ایک طرف، ہمارے ڈاکٹر و معالج اور حکومت کے اعلےٰ اراکین بلکہ خود حکومت تک ان ادویات کو استعمال کرتے ہیں۔ کیا کبھی ان میں سے کسی نے اس طرف توجہ دی کہ ہمارے ملک میں بھی ان خواص کی کوئی دوا پائی جاتی ہے۔ یہی صورت دیگر امراض میں بھی پائی جاتی ہے مثلاً پھوڑے پھنسیاں، پت دانے، زخم اور درد وغیر ہ خاص طورپردردِسر کے لئے اسپرو، ساریڈان اور اے۔سی۔پی وغیرہ منوں کے حساب سے یہاں بک رہی ہیں۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟ صرف فرنگی کا پراپیگنڈہ ہے۔
پاکستان کا غذائی بحران
اس میں کوئی شک نہیں کہ چند وجوہات سے پاکستان میں غذاکی کمی پائی جاتی ہے۔ عوام اور حکومت خوب جانتے ہیں کہ یہ غذائی بحران آبادی کی زیادتی کے علاوہ ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹ کی وجہ سے ہے۔ اگر موخرالذکر دونوں صورتیں نہ ہوں تو اول الذکر کا مقابلہ ان اجناس کے ساتھ بڑی آسانی کے ساتھ ہوسکتا ہےجو دیگر ممالک سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ مگر ظلم تو یہ ہے کہ جو اجناس بیرونی ممالک سے درآمدکی جاتی ہیں ان کا اکثر حصہ بھی ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹ کی نذرہوجاتا ہے۔ جس کاثبوت یہ ہے کہ جب پاکستان وجود میں آیاتھاتو اس وقت باوجودیکہ غذاکی ضرورت اب سے بہت زیادہ تھی لیکن یہ غذائی قلت نہیں پائی جاتی تھی صرف اس وجہ سے کہ اس وقت ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی لعنت سے سرمایہ دارواقف نہ تھا۔ جب امریکہ نے یہ سبق دیا کہ ملک کا معیارِ زندگی بلند کیا جائے تو اس وقت ذخیرہ اندوزی کی بیماری پیدا ہوئی۔ جس کا نتیجہ بلیک مارکیٹنگ کی صورت میں ظاہرہوا اور اس وقت سے ملک غذائی بحران میں گرفتار ہوچکا ہے۔
غذائی بحران اور امریکہ
معیارِ زندگی کو بلند کرنے کا نظریہ بھی امریکہ کا اور پراپیگنڈہ بھی امریکہ کی طرف سے، ایک قسم کی کولڈ وار اور استحصال ہے جس کے تین مقاصد ہیں۔1۔ تجارتی اغراض۔2۔ دوسرے سے اپنی دوستی اور ہمدردی حاصل کرنا۔3۔ ملک کوکیمونسٹ بلاک سے دور رکھنا۔جس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہاہے۔کیونکہ معیارِ زندگی کو بلند کرنے کے پراپیگنڈہ کےبعد جب ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ سے غذائی بحران پیداہوگیاتواس نے اپنی سرخ گندم ہمارے ملک بھیج دی جس کودوستی اور ہمدردی کا نشان بتایاگیا،اور اس کی تشہیر کراچی میں اونٹوں کاباقائدہ جلوس نکال کرکی گئی۔ جس میں امریکی دوستی اور ہمدردی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ اور جن اخبارات کو امریکہ نے خفیہ اندھی دولت دی یا ان کو امریکہ کی سیریں کرائیں انہوں نے امریکہ کے اس کارنامے کو اخبار کی شہ سرخیوں میں جگہ دی۔ سچ ہے جو جس کاکھاتا ہے اسی کے گن گاتاہے۔ لیکن جب امریکہ کی یہ دوستی اورہمدردی بھی ملک میں غذائی بحران پر قابو نہ پا سکی تو امریکہ کو اور بھی موقعے ہاتھ آگئے اور ہمارے ملک میں مختلف اقسام کی اغذیہ اور سامان آناشروع ہوگیا۔ جن میں خاص طورپرخشک دودھ، ہئیرآئل وغیرہ بڑی مقدار میں یہاں بھیجے گئے۔ لیکن اس کا بیشتر حصہ انہوں نے یہاں کے عیسائیوں اور گرجوں میں تقسیم کیا۔ لیکن یہ سب کچھ پاکستان کی امداد کے نام لکھاگیا۔ اور اس کانقصان بھی پاکستان کو برداشت کرنا پڑا۔
آلو اور امریکہ
جب امریکہ نے دیکھاکہ تاحال غذائی بحران چلا آرہاہے تو اس نےاپنے پراپیگنڈہ اور استحصال کی مشینری کو اور بھی تیز کردیا اور یہ کہنا شروع کردیاکہ ملک کا غذائی بحران اس طرح ختم ہوسکتا ہےکہ اگر ملک میں آلو کوغذائی طورپر زیادہ سے زیادہ استعما ل کیا جائےتا کہ دیگر اجناس پر غذائی دباؤ کم ہو جائے۔لیکن دراصل مقصد یہ تھا کہ امریکن آلو کے بیج کی ملک میں کھپت کی جائے جو وہاں بے کار پڑا ہوا ہے۔ ا س سلسلہ میں امریکہ کی حمایت کا بیان نہ صرف متعلقہ افسرانِ اعلیٰ اور وزراء کی طرف آئے بلکہ عزت مآب فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں صدرِ پاکستان کی خدمت میں ایک کتا ب پروفیسر عنایت اللہ کی پیش کی گئی جو انہوں نے اقتصادیات پر لکھی تھی اور اس میں بھی آلو کو بطورِ خوراک استعمال کرنے کی تاکید کی گئی تھی۔ بلکہ پروفیسر موصوف کی ملاقات صدرپاکستان سے ہوئی جو اخبارات میں بڑے اہتمام کے ساتھ شائع ہوئی۔ تاکہ عوام آلوؤں کی اہمیت کو ذہن نشین کرلیں اور اس کو بطورِ غذااستعمال کرناشروع کردیں۔
آلو اور غذائی بحران
اس سلسلہ میں امریکہ کے شعبہ اطلاعات نے ایک فیچربعنوان”آلو پاکستان کواناج کی قلت سے نجات دلاسکتا ہے” شائع کیا۔ جس میں آلو کی غذائی اہمیت اور اس کے استعمال پر زوردیا اور تعجب خیز مبالغہ سے کام لیا۔ جب یہ مضمون ہماری نظروں سے گزرا تو ہمیں بے حد حیرت ہوئی۔ کیونکہ آلوؤں کا اس کثرت سے روزانہ استعمال ساری قوم کو ٹی بی کی آگ میں دھکیلنا تھا۔ فوراً ہم نے ایک مضمون بعنوان “روزانہ آلو کھانے سے دق سل (ٹی بی) ہوجاتاہے ، لکھ کر اپنے رسالہ رجسٹریشن فرنٹ میں شائع کردیا۔ جس میں شعبہ اطلاعات امریکہ کے حوالے کے ساتھ اس کے بے معنی پراپیگنڈہ کا بھی ذکر کیا گیا۔ تاکہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ عوام بھی اس سے مستفید جائیں
ماہنامہ خوراک کی قابلِ قدر خدمات
ہمارے اس مضمون کی افادیت اور اہمیت کے پیشِ نظر پاکستان کے متعدد اخبارات اوررسائل نے اپنے قیمتی کالموں میں جگہ دی اور نمایاں سرخی سے شائع کیا۔ اس میں ایک قابلِ قدر “ماہنامہ خوراک لاہو” بھی تھا۔ جب ہمارا یہ مضمون ماہنامہ موصوف میں شعبہ اطلاعات امریکیوں کی نظر سے گزراتو اس کو بہت بے چینی ہوئی اور ہونی بھی چاہیے تھی۔ کیونکہ اکثر اخبارات اور رسائل ان کا گن گاتے ہیں مگر اس مضمون میں امریکن پراپیگنڈہ کوپوری طرح ظاہرکیاگیا۔اس کو چین کیسے آسکتا تھا۔ فوراً اس کاترجمہ کراکے امریکہ اور پاکستان کے امریکن متعلقہ افسران کو بھیجا گیا۔ ہماری اطلاع کے مطابق پھر ایک معقول رقم خرچ کرکے ایک مسٹر عبدالحمیدصاحب لونؔ سے اس کا جواب لکھوایا گیا۔ جب ہم کوان امورکا علم ہوا تو ہم نے اپنے ایک آدمی جناب پراچہ صاحب ایڈیٹر”ماہنامہ خوارک” کی خدمت میں بھیجااور ان سے وعدہ لیا کہ اگرجب کوئی مضمون ہمارے اس مضمون کے جواب میں شائع ہوتوہم کو بھی اس کاجواب لکھنے کا موقعہ دیا جائے۔ صاحب موصوف نے یقین دلایا کہ ہم جواب لکھنے کا پورا پوراحق رکھتے ہیں۔انہوں نے اپنا وعدہ پوراکیاخداوندِ کریم ان میں جرات سلامت رکھے۔جب امریکہ کی جانب سے جناب عبدالحمیدلوؔن کے نام ماہنامہ خوراک میں ہمارے خلاف جواب شائع ہوا تو اس میں علمی بحث کی بجائے آئیں بائیں شائیں کے ساتھ گالیاں زیادہ تھیں۔ مگر ہم نے صبروتحمل سے کام لے کراس کا جواب دیااور اس میں علمی اور تحقیقی شان کا رنگ بھر دیا۔ ہم نے اس کا جواب پانچ قسطوں میں جواب لکھا اور ساتھ ہی چیلنج کیا کہ امریکہ اور فرنگی طب کا علمِ غذا کے متعلق نہ صرف نامکمل ہے بلکہ غلط ہے اور ہم اس سلسلہ میں اس کے ساتھ ہروقت اور ہر مقام پر بحث و تمحیص کرنے کو تیار ہیں اور اس کے علاوہ ہم نے ٹی بی کے متعلق اپنی تحقیقات کتابی شکل میں تحقیقات دق سل نمبرکے نام سے شائع کردی جس میں ٹی بی کو ماڈرن سائنس کی روشنی میں نہ صرف پیش کی بلکہ فرنگی تحقیقات کو غلط ثابت کیا۔ جس کے ساتھ ٹی بی کے لئے غذاکی اہمیت کو پورے طورپرواضح کیا گیا ہے۔
پاکستان ٹی بی ایسوسی ایشن
اس سلسلہ میں ہم نے پاکستان ٹی بی ایسوسی ایشن کومخاطب کیا تاکہ اہلِ علم وفن کی جماعت ہماری تحقیقات اور کامیابیوں پر کچھ غوروخوض کرکے ملک کی خدمت کرسکے مگر ان کی آنکھوں پر فرنگی طب کی پٹی بندھی ہوئی ہے انہوں نے ہم سے کوئی بات نہیں کی۔ ہم نے 1959ء میں ان کی سالانہ کانفرنس لاہور سیشن میں ان کی خدمت میں ٹی بی کا نسخہ پیش کیاجوہرقسم کے ٹی بی اور ہرسٹیج پریقینی و بے خطا ہے۔ جس میں شرط یہ تھی کہ اگر اس سے فائدہ نہ ہوا تو ہم ہر مریض کو مبلغ سو100روپے دینے کو تیار ہیں۔ مگر آج تک محکمہ صحت والوں نے اربوں روپے برباد کر دئیے لیکن اس کم قیمت نسخہ کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ شاید ان کا فرنگی تعصب اس طرف توجہ نہ دینے دے۔
تحقیقاتِ دق سل
جب ہم نے دق سل پر تحقیقات مکمل کرلیں تو عوام حاملینِ فن اورارکانِ حکومت کو ٹی بی کے متعلق ایک یقینی اور بے خطا نسخہ پیش کیا۔ جس میں یہ خوبی ہے کہ تقریباً مفت تیار ہوتا ہے۔ تیار کرنے میں صرف 10منٹ صرف ہوتے ہیں۔ اس میں صرف دو اجزاء ہیں اور ہرجگہ دستیاب ہیں۔ اس میں خاص بات یہ ہے کہ ہر قسم کی ٹی بی اور ہر درجہ میں یقینی اور بے خطا ہے۔ اس میں طرہ یہ ہے کہ اس نسخہ کے ساتھ چیلنج تھا کہ اگراس نسخہ کے استعمال سے جس کو آرام نہ آئےہم اس کو ایک سو روپیہ انعام دیں گے۔اس نسخہ کے اعلان کو کئی سال گزر گئے اور ہزاروں لوگ س مرض سے نجات پا چکے۔اور پاکستان میں نہیں بلکہ ہندوستان میں اس نسخہ کے معجزہ نما اثرات سے لوگ مستفید ہورہے ہیں اور اس کو تقسیم کرنے کےلئے جگہ جگہ سنٹر کھل گئے۔
ہندوستان میں اس نسخہ کو اتنی مقبولیت ہوئی کہ روزانہ کے ہزاروں خطوط آنے لگے اور مزید تفصیلات دریافت کی گئیں۔مجبور ہوکر ہم نے اس کو کتابی شکل میں تبدیل کردیا اور ساتھ ہی یہ چیلنج دیا کہ اگر کوئی شخص یہ ثابت کردے کہ یہ تحقیقات دنیا میں خاص طورپر کسی بھی ملک میں پائی جائیں تو ہم اس شخص کو پانچ صد روپیہ انعام دیں گے۔لیکن آج تک کسی کو اس کام کی جرات نہیں ہوئی۔مگر افسوس پاکستانی ڈاکٹروں پر جو فرنگی طب کے اندھے پیروکار بن کر ، اور حکومت پاکستان بھی ملک کے اس انمول تحقیق کو پرکھنے میں اندھی ثابت ہوئی۔
نزلہ زکام اور ٹی بی نیز (فلو)
یہ حقیقت ہے کہ دق سل کی ابتدا نزلہ زکام کے بعد ہوتی ہے اس لئے ٹی بی کی روک تھام کے لئے ہم نے تحقیقات نزلہ زکام شائع کردی جس سے نزلہ زکام کا یقینی اور بے خطا علاج کیا جاسکتا ہےیہ بہت مقبول ہوئی اور اس کے ساتھ ایک ہزار روپےکاچیلنج بھی رکھا گیا۔چونکہ نزلہ زکام کا بیان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک نزلہ زکام وبائی(Influenza)کو بیان نہ کیاجائےاس لئے ہم نے تحقیقات نزلہ زکام کے بعد تحقیقاتِ نزلہ زکام وبائی لکھ کراسی طرح ایک ہزار روپے کے چیلنج کے ساتھ شائع کی۔ساتھ ہی یہ بھی ثابت کیا کہ فرنگی طب کا وبائی علم جس کو وہ اپنی (Demonology)کہتے ہیں اور جس پر ان کو ناز ہے سراسر غلط ہے ۔
اعادہ شباب
چونکہ نزلہ زکام کا نتیجہ قبل از وقت بڑھاپاسفید بالوں اور جنسی کمزوری ہوتا ہے۔ اس لئے اکثر دوستوں کے اصرار پر اپنی تحقیقات اعادہ شباب میں شائع کرناپڑی۔ جس میں خاص بات یہ ہے کہ طب قدیم اور ایورویدک کے ساتھ فرنگی طب کے سارے نظریات پیش کرکے ان کو غلط قرار دیاگیا اور ثابت کیا گیا کہ فرنگی طب اور ماڈرن سائنس کا علم بسلسلہ اعادہ شباب نہ صرف نامکمل ہے بلکہ غلط اور بے معنی ہے اس کتاب میں چیلنج پانچ ہزارکے ساتھ کہا گیا کہ اگر کوئی اس کو غلط ثابت کرے تو اس کا یہ انعام ہے۔ اس قدر اہم تحقیقات کے بعد بھی اگر علمی و طبی اور سائنسی دنیا حقیقت کونہ دیکھے تو یہ تعصب کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔
پاکستانی فرنگی ڈاکٹر
پاکستانی فرنگی ڈاکٹروں کو چاہیے تو یہ تھا کہ خود فرنگی طبی اور سائنسی کتب کو اردو زبان میں منتقل کرکے اس پر تحقیق کرتےاور اگر وہ ایسا نہیں کرسکے تو ان کافرض تھا کہ اپنی قوم و ملک کی عزت کی خاطر ان تحقیقات پر غور کرتے جو اپنے ملک میں کی گئی ہیں اور ان میں اگر سچائی اور افادیت پاتے تو ملک اور قوم کی خاطر بلکہ دنیائے طب و سائنس میں عزت کی خاطر نہ صرف اس کو اپناتے بلکہ ترقی دینے اور اشاعت کرتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ صرف تعصب کی خاطرایسا نہیں کیا۔ لیکن ہم کو افسوس نہیں یہ خدمت بھی طبِ قدیم کے ذمہ ہے جو تجدیدِ فن کے ساتھ ساتھ فرنگی طب کی خرابیوں، غلطیوں اور اس کی غیر علمی حیثیت کو بھی واضح کرتی رہے گی۔
تحقیق اور اعلیٰ دماغ
محقق اور اعلیٰ دماغ صرف یورپ وامریکہ یا چین وروس ہی میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ قدرت یہ نعمت ہر ملک اور قوم کو عطا کرتی ہے۔ اس لئے ہر ملک اور قوم کا فرض ہے کہ وہ اپنی نعمت اور انعامِ خداوندی سے مستفید ہوں ۔ ان کے لئے صرف اس قدر کافی نہیں ہے کہ غیر ملک اور قوم کی تقلید اور نقل کہاں کی عقل مندہے کہ یورپ و امریکہ کی علمی وفنی معلومات کو بغیر سوچے سمجھے نہ صرف عمل میں لاتے ہیں بلکہ ان کی نگائیں ہمیشہ یورپ و امریکہ کی سائنس و طب کی طرف لگی رہتی ہیں۔ بلکہ یوں کہنا مناسب ہے کہ ہمارے ڈاکٹر ز یورپ والوں کی صرف اور صرف ایجنٹی کرتے ہیں۔ نہ ان کے پاس اپنی تحقیق اور نہ اپنی عقل۔ یورپی ادویات کا پراپیگنڈہ کرتے ہیں خود کبھی نہیں سوچتے کہ ہماری یہ تحقیقات ہیں۔ تمام یورپی ادویات چوہوں گھوڑوں پر اپنے تجربات کرکے بناتے ہیں اور پاکستانی عوام پر بے دریغ استعمال کی جاتی ہیں۔ہمارے پاس اعلیٰ صلاحیتیں ہیں لیکن وہ صرف نقل کرنے پر خرچ ہوتیں ہیں یا ان کو مار دیا جاتا ہے۔ ان سے صحیح اور درست سمت میں لگایاہی نہیں جاتا ۔ ہمار منشور اپنے لوگوں کومار کر صرف دولت سمیٹنا ہے اور اس میں ہماری گورنمنٹ بھی شامل ہے۔ بھتہ خوری ہر رگ میں بس چکاہے۔ادویات امریکہ و یورپی ماحول اور آب وہوا کے مطابق ہوتی ہیں اور استعمال پاکستانی عوام کرتےہیں۔ ہم پہلے جسمانی غلام رہے اور اب ذہنی غلام بن چکے ہیں۔
قانون و قاعدہ اور نظریہ واصل
ہم نے اپنی تحقیقات میں بلاوجہ یونہی مختلف قوانین و قوائد اور نظریات و اصول کواکٹھا نہیں کردیا جیسا کہ
خُذْ مَا صَفَاوَلَجْ مَا کَدَرْ
ترجمہ: اچھائی کو اپناؤ اور برائی کوچھوڑ دو۔
کتنی افسوسناک بات ہے کہ طبیہ کالج کا پروفیسر یہ پڑھاتا ہے کہ امراض کی پیدائش مزاج کی خرابی اور کمی بیشی سے ہوتی ہے اور دوسری طرف پرفیسریہ تعلیم دیتا ہے کہ اخلاط و مزاج کا نظریہ قدیم ہے جو غلط ہو چکا ہے اور ماڈرن سائنس نے یہ تحقیق کی ہے کہ امراض جراثیم کے اثرات سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کو خوردبین میں ہر مرض کے جراثیم جداجدادکھابھی دیتاہے۔ تو پھر اندازہ کرلیں کہ طب قدیم پرکیا یقین رہ سکتا ہے اور اس میں کیا ترقی ہوسکتی ہے۔ جن کے نمونے موجودہ طبیہ کالجوں میں کے فارغ التحصیل معالج ہیں ۔ جن میں طبیہ کالج دہلی اور علی گڑھ خاص طورپرقابلِ ذکر ہیں۔ ایسے آدھے تیترآدھے بٹیر معالجین کو طب قدیم سے نفرت ہوگئی ہے اور وہ دن رات انگریزی ادویہ اورانجکشن استعمال کرکے فنِ طب کی تذلیل کا باعث بنتے ہیں ایسی صورتوں میں فنِ طب کا احیاء وتجدید کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔
احیاء و تجدیدِ فن
احیاء طبِ قدیم اور تجدید کےلئے اول توتصور ہی ختم ہوگیا ہے اور جن اطباء و حکماء کو فنِ طب کی زندگی کا احساس اور جذبہ ہے بھی تواُن کے سامنے احیاء طب اور تجدیدِ فن کی صورت اس کے سوا اورکچھ نہیں کہ فنِ طب اور ماڈرن سائنس کو زیادہ سے زیادہ طبِ قدیم میں شامل کرکے ان کے نام اور دیسی علاج کی شکل کو قائم رکھاجائے۔ لیکن ان کے ذہن میں بھی یہ حقیقت پیدانہیں ہوتی کہ اس طرح طب قدیم کا احیاء اور تجدیدِ فن پیدانہیں ہوگی بلکہ فرنگی طب کی تعلیم کو تقویت ملے گی اور اس سے روفتہ رفتہ طبِ یونانی ختم ہوجائے گی اور ایسا ہورہا ہے۔
ازحکیمِ انقلاب:حکیم صابرملتاؔنی
تپ دق اور خوراک
روزانہ آلو کھانے سے دق سل (ٹی بی) ہوجاتا ہے
امریکہ کے شعبہ اطلاعات نے “آلو پاکستان کواناج کی قلت سے نجات دلا سکتے ہیں”کے زیرِ عنوان ایک فیچر شائع کیا۔ اس فیچرنما مضمون میں کہا گیا تھاکہ “اگرپاکستان کاہرفرد آلو کھانے کی موجودہ مقدار میں ڈیڑھ اونس کا اضافہ کرلے تو پاکستان غیر ملکوں سے ایک اونس اناج درآمد کرنے کی ضرورت سے بھی بے نیاز ہوسکتا ہے۔”۔ امریکی شعبہ اطلاعات کے فیچر میں کہا گیا تھاکہ
“دعوی تعجب خیز ضرورہے تاہم اس میں مبالغہ آمیزی کی چنداں دخل نہیں ہے ۔ کیونکہ ڈیڑھ اونس فی کس روزانہ آلو کی مقدار بڑھانے کے یہ معنی ہیں کہ آٹھارہ کڑور کی آبادی دس لاکھ ٹن روزانہ آلو کھائے گی۔ اس طرح ہر فرد دس لاکھ ٹن روزانہ کھائے گا۔ اس طرح دس لاکھ ٹن غلے کی سالانہ لاگت سے نجات مل جائے گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ موجودہ دور میں پاکستان گندم اور چاول کی کمی کے جس بحران سے دوچار ہے اس کا ازالہ ہوسکے گا”۔
امریکی فیچر کی اس عمارت کے زوداور دور رس نتائج کے پیشِ نظر سوال پیداہوتا ہے کہ کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں کیاپاکستان کے افراد کو اپنے نظامِ خوراک کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ کیا ہماری قوم آلو کی پیداوار میں اضافہ اور اس کی قیمتوں کو ایک آدمی کی قوتِ خرید کی سطح پر لاسکتی ہے، امریکی اور پاکستانی ماہرین ان سب کا جواب اثبات میں دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگرچہ راستے میں ثبوت کی رکاوٹیں ہیں تاہم وہ مطمئن ہیں۔نیشنل ٹی بی ایسوسی ایشن آف پاکستان کی مطابق ہر سال دو لاکھ پاکستانی صرف تپ دق سے مرجاتے ہیں۔ اور مزید دس لاکھ ساتھ ہی اس مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔جناب ذاکرحسین صاحب گورنرمشرقی پاکستان نے انسداد دق وسل ایسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا کہ حکومت سرکاری ہسپتالوں میں ایک مریض پر دق کے علاج کے لئے چار ہزار روپے خرچ کررہی ہے۔ دق سل کی وجہ سے ہر سال ایک ارب ساٹھ کروڑ کے قومی سرمایہ کا نقصان ہوتاہے۔ان مریضوں اور اخراجات کے اعدادوشمار کو سامنے رکھیں اور پھر امریکہ کے شعبہ اطلاعات کی معرفت ان کے ماہرین نے پاکستان کو اناج کی قلت سے جو نجات دلانے کی تجویز دی ہے کہ “ہر پاکستانی اپنی روزانہ کی خوراک میں آلوؤں کا اضافہ کرلے”۔ہمیں کچھ افسوس نہیں ہے کیونکہ غیر ملکی جس طرح بھی چاہئیں، الٹے سیدھے مشورے دیتے رہتے ہیں ۔ مگر ہم کو بے حدافسوس اورسخت حیرت ہوئی ہے ۔ جب یہ معلوم ہواکہ پاکستانی ماہرین نے بھی اس تجویز کو صحیح تسلیم کرلیا اور وہ اس تجویز اور اس کے زیرِ عمل لاسکنے پر مطمئن ہیں۔
انتہائی تعجب کا مقام ہے کہ تمام پاکستان میں کوئی شخص نہ حکومت کے افسران ومشیران میں اور نہ حکومت سے باہر غذایا ماہر نباتات یا ایسا ڈاکٹر جو ماہرِ جسم ہو یا دق سل کا ماہر ہو، نہیں پایا جاتا۔ جو حکومت کو بتائے کہ امریکہ کی یہ تجویز اقتصادی نظریہ سے صحیح ہے۔ (اگر چہ وہ بھی محلِ نظر ہے)لیکن طبی و اور قومی صحت کے نقطہ نظر سےانتہائی غلط اورلایعنی تجویز ہے۔ کیونکہ روزانہ آلو کھانے سے تھوڑے عرصہ میں ٹی بی ہوجاتی ہے۔ امریکہ والوں کا آخر اس سے کیا مقصد ہے؟اپنے ملک کی سرخ گندم جو انتہائی خشک ہےجس میں زمینی اور ریاحی مادہ ہمارے ملک کی گندم سے سو فیصد زیادہ ہیں کھلا کربے شمار پاکستانیوں کو ٹی بی کا شکار نہیں بنایا؟اور اب آلوکھلاکرتمام پاکستان کو ٹی بی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تاکہ امریکن دوائیں اور دیگر ضروریاتِ زندگی پہلے کی نسبت پچاس گنا زیادہ بڑھ جائیں۔
جاننا چاہیے کہ آلو ایک ایسی نباتات ہے جس میں ارضی اور چونے کے اجزاء سوائے بینگن کے تمام سبزیوں سے بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ان کے صرف دو تین روز صبح اور شام کھانے سے پیٹ میں ریاح (بادی) کی کثرت ، قبض کا مرض اور خشکی بڑھنی شروع ہوجاتی ہے۔ پھر صرف ایک ہی ہفتہ بعد جسم میں تھکن، بھوک کی کمی اور سستی لاحق ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد خشکی کی شدت سے کھانسی اور ہلکی حرارت شروع ہوجاتی ہے۔ جس سے ان کی وائٹل فورس، قوت مدبرہ بدن اور امیونٹی (قوتِ مقابلۂ مرض)دونوں کمزور ہوجاتی ہیں پھر اس کے بعد دق سل کا حملہ ہوجاتا ہے۔ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یعنی علاج پربے شمار خرچ اور پھر رفتہ رفتہ مریض موت کی آغوش میں ہمیشہ کے سوجاتا ہے۔ اگر ہمارے اس بیان میں مبالغہ ہوتوکوئی بھی شخص امریکن سرخ گندم کے ساتھ صرف ہفتہ عشرہ صبح شام آلو کھا کر دیکھ لے۔ اگر بغیر گندم کے صرف آلو کھائے تو نتیجہ اور بھی جلد سامنے آ جائے گا۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ امریکن اور پاکستانی ماہرین کو بلاکران کے سامنے تجربات کراکے اعدادو شمار حاصل کرسکتی ہے۔ بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ ان ماہرین ہی کو تجربات کے لئے تختۂ مشق بنایا جائے۔ ہم چیلنج دیتے ہیں کہ اگر ہمارے بیان میں مبالغہ ہوتو ہم ہرجانہ ادا کرنے کو تیار ہیں۔ بیشک ایسے تجربات ہمارے سامنے کرائے جائیں اور ان کا اخبارات میں اعلان بھی کرایاجائے۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ دق سل(ٹی بی)کے مریضوں کو آلو کھلانا سخت مضر ہے۔ ان کو کھلاکرتجربہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ تجویز تو بالکل ایسی ہے جیسے ایک بار جرمن سائنس دان نے اپنے دشمنوں کو تباہ کرنے کےلئےیہ نظریہ پیش کیا تھا کہ جس قوم کوتباہ کرناہوتو کشش سے چاند کو کھینچ کراس ملک پر پھینک دیا جائے۔ لیکن وہ اس کے زمین کے قریب تر آنے کے عواقب اور خوفناک نتائج سے واقف نہ تھا۔ اس کو جب عواقب اور نتائج سے آگاہ کیا گیا تو اس کا دماغ ٹھکانے آگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دنوں صدرِ پاکستان جنرل ایوب خاں نے اس ایک پریس کانفرنس میں پروفیسر عنایت اللہ خاں کو ایک کتاب کا تذکرہ کیاجو اقتصادیات پر لکھی تھی۔ جس میں یہی مشورہ دیاہواتھا کہ جن ممالک میں گندم کی کمی ہوتو آلو کھلاکر اقتصادی طورپرگندم کو بچایا جاسکتا ہے۔ سربراہ کا تذکرہ کرنا تھا کہ فوراً آگ کی طرح ملک اور بیرونِ ملک میں پھیل گیا۔ پھر اس کے بعد صدرِ پاکستان نے پروفیسر صاحب سے ملاقات بھی کی اس کااور بھی چرچا ہوااور اکثر اہل علم کو کتاب دیکھنے کابھی شوق ہوا، کتاب کیسی ہے؟ اس پر تو ماہر اقتصادیات ہی لکھیں گے۔ لیکن جہاں تک آلو کو بطورِ غذا کے روزانہ استعمال کرنا ہے اس کا مقصد یہ ہوگا کہ پاکستانی قوم کو تباہ کرنے کے مترادف ہوگااور ہم کبھی اس تجویز پر عمل کرنے کا مشورہ نہیں دیں گے،
جہاں تک اقتصادی زاویہ نگاہ سے ملک میں غذاکے مسئلے کا حل ہے۔ اس کے اور بھی کئی بہترین تجویزیں پیش کی جا سکتی ہیں اور اگر حکومت چاہے تو بے ضرر متبادل غذائیں بھی تجویز کی جا سکتی ہیں جو نہ صرف مفید ہوسکتی ہیں بلکہ سستی اور مقوی بھی ہوسکتی ہیں لیکن نفسیاتی طورپر انسانی فطرت ہے کہ افسر لوگ انہی کی باتیں سنتے ہیں جو ان کے اردگرد پھریں اور ان کی خوشامد کریں۔ صحیح علم اور حقیقت کی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں ہوتی لیکن یہ امربھی حقیقت سے خالی نہیں ہے کہ اہلِ علم اور ماہرینِ فن کبھی کسی کی نہ خوشامد کرتے ہیں اور نہ ہی ان کو کوئی لالچ ہوتا ہے۔ البتہ ایک دنیا ان کے علم و فن سے مستفید ضرور ہوتی رہتی ہے۔
از: حکیم وڈاکٹر جناب دوست محمد صابر ملتانی صاحب
تپ دق اور خوراک——اعتراض
حسبِ وعدہ پچھلے شمارہ کے”خوراک اور صحت” کے زیرِ عنوان خوراک اور اس کے صحیح استعمال سے متعلق کچھ مزید عرض کرنا تھا۔ لیکن حکیم صابر صاحب نےاپنا ایک مضمون “روزانہ آلو کھانے سے دِق اور سل ہوجاتا ہے” شائع کرکے مجھے میرا وعدہ ایفا نہیں کرنے دیا۔ کیونکہ مجھے مقصودتو یہی ہے کہ قارئین حضرات کو خوراک کے متعلق صحیح اور مفید معلومات بہم پہنچائی جائیں اور غلط اور بے بنیاد اطلاعات اور ہدایات کی تردید کی جائے کیونکہ ایسی معلومات سے قومی صحت کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہےآلو اور تپِ دق سے متعلق مزید روشنی ڈال کر میں حکیم صاحب کے خیالات اور جذبات کو کچلنا یا ٹھیس پہنچانا نہیں چاہتااور نہ ہی حکیم صاحب سے مجھے کوئی ذاتی عنادہے۔ جس بنا پر میں ان کے مضمون کی تردید کررہا ہوں۔ لیکن حقیقت کوعیاں کرنا، مصداق سے کام لینا اور صاف گوئی ہر بنی نوع انسان کا فرض ہے۔ خصوصاً اس وقت جبکہ کوئی انفرادی اختلاف کی وجہ سے اندھا دھند جذباتی رومیں بہہ کراور دوسروں کو بھی غلط فہمی کا شکار بنا کرایک نفسیاتی اُلجھن سے دوچار کردیتا ہے۔
مزید برآں تپ دق کے متعلق صحیح اور عام فہم معلومات عوام الناس کے گوش گزار کرنا، اس مرض کے اسباب، خاطر خواہ علاج اور احتیاطی تدابیر عوام تک پہنچانا میرا پیشہ ہے۔میں اس موذی مرض سے اپنے عوام کو نجات دِلانے کے لئے ہیلتھ ایجوکیشن ڈویژن، نیشنل ٹی بی ایسوشی ایشن آف پاکستان کا انچارج ہوں۔ جس کامقصد لوگوں میں اس مرض کا پرچار کرنا ہے۔تا کہ لوگ اس بیماری کو سمجھ سکیں اور اس کی روک تھام میں اپنی مدد آپ کرسکیں۔ اس بیماری کے متعلق جو غلط نظریات دلوں میں سمائے ہوئے ہیں کہ یہ موروثی ہوتی ہے یعنی باپ سے بیٹے کولگ جاتی ہے، اس کا علاج نہیں ہوسکتاوغیرہ، ان کو دور کرنا ہے اور اس سلسلہ میں صحیح صورتِ حال سے آگاہ کرنا ہے۔ اس مقصد کے پیشِ نظر میرا میل جول تپ دق کے ماہرین سے عام ہے۔ ہسپتال کے ٹی بی وارڈ میں جانا، مریضوں سے گفتگو کے دوران ان کی انفرادی تکالیف اور ضروریات کو سمجھنااور بیماری کی روک تھام اورعلاج میں سہولت کے متعلق ہدایات میرا معمول ہے۔ علاوہ ازیں اس سلسلہ میں بیرونی ممالک سے ہماری خط وکتابت اور لین دین ہوتی رہتی ہے۔ اس موذی مرض سے نجات کےلئے جو نئی ادویات اور تجربات غیر ممالک میں ہورہے ہیں ان کی (Up-to-date) اطلاع ہم تک پہنچتی رہتی ہے۔ اس لئے ہم بہتر بتا سکتے ہیں کہ آلو کھانے سے تپ دق ہونے کا امکان کہاں تک ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی طرف سے کچھ عرض کروں میں حکیم صاحب کے فرمودہ غلط اوربے بنیاد خیالات کا اعادہ کرناچاہتا ہوں ۔ تاکہ جو اصحاب غلط فہمی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ وہ اس کاازالہ کرکے اپنے شک و شبہ کو دور کرلیں۔
اپنے عنوان کی سچائی میں وہ سب سے پہلے “بانگِ حرم” کاحوالہ دیتے ہیں۔ اگر اس تحریر پرنظر ثانی کریں تو معلوم ہوگاکہ بانگِ حرم میں کہیں بھی آلو کاصحتِ انسانی سے اور خصوصاً دِق کے متعلق نہیں لکھا۔ یہ لکھتا ہے کہ
“آلو کی پیداوار میں اضافہ اور اس کی پیداوار میں اضافہ اور اس کی قیمت کو عام آدمی کی قوتِ خرید کی سطح پر لایا جاسکتا ہے”۔ اس کا مطلب اقتصادیات یا معاشیات سے ہے نہ کہ جسمانی صحت یا طب سے۔پھر کہتے ہیں کہ”امریکہ کی تجویز طبی اور قومی صحت کے نقطۂ نظر سے انتہائی لغو ہے۔ کیونکہ روزانہ آلو کھانے سے تھوڑے عرصہ میں دِق اور سل ہوجاتاہے۔ امریکہ والوں کا اس تجویزمقصدکیا ہے۔ اپنے ملک کی سرخ گندم جو انتہائی خشک ہے۔ جس کے ارضی اور ریاحی مادے ہمارے ملک کی گندم سے سوفیصدی زیادہ ہیں ، کھلاکربے شمار پاکستانیوں کوٹی بی کا شکارنہیں بنایا اور اب روزانہ آلو کھلاکرتمام پاکستانیوں کوٹی بی میں مبتلاکرنا چاہتے ہیں تاکہ امریکن دوائیں اور دیگر ضروریاتِ زندگی پہلے کی نسبت پچاس گنازیادہ بڑھ جائیں”۔
مذکورہ بالا عبارت سے پتا چلتا ہے کہ حکیم صاحب کو امریکہ والوں سے کوئی ذاتی شکایت ہے۔ اسی لئے تو کبھی ان کی گندم اور کبھی ان کی دواؤں کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مطلع رہے کہ لاہور کے انسٹیچیوٹ آف ہائی جین اینڈپریونٹو میڈیسن (Institution of Hygiene and Preventive Medicine)میں پچھلے کئی سال سے امریکن گندم پر تجربات ہورہے ہیں۔ جن کانتیجہ وہ اس طرح لکھتے ہیں کہ “پروٹین امریکن گندم میں پاکستانی سے ٪2 سے ٪3 زیادہ ہوتے ہیں”۔امریکن گندم میں کوئی بھی ایسی چیز فالتو نہیں جو ہماری طبع کے خلاف ہو۔ اس عبار ت سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ والے ہمارے ہاں دوائیں فروخت کرکے پیسہ بٹورتے ہیں ۔ اور ہماری ضروریاتِ زندگی کو بڑھاتے ہیں یہ مہمل سی بات معلوم ہوتی ہے۔ بہرحال مجھے سیاست میں نہیں جانا۔ لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ امریکہ والے نہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا کے غیر ترقیاتی ممالک کی ہرسال کروڑوں روپیہ سے امداد کرتے ہیں۔ تاکہ یہ ممالک اپنے آپ کو اقتصادی لحاظ سے مضبوط بنا سکیں ۔ جس پر کہ قومی صحت کا انحصار ہے ۔ اگر دیکھاجائے تو “عنوان” آلو کھانے سے تپِ دق کا ہوجانانہ کہ سیاسیات، اقتصادیات یا معاشیات۔ اپنے عنوان کا سب سے بڑا طبی ثبوت دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “آلو میں چونایعنی کیلشیم سب نباتات سے زیادہ ہوتا ہے ۔ ان کے صرف دو تین روز صبح و شام کھانے سے قبض کا مرض اور خشکی بڑھنی شروع ہوجاتی ہے جس سے آہستہ آہستہ تپِ دِق ہوجاتا ہے”۔
میں یہ نہیں کہتا کہ آلو میں چونا یا کیلشیم نہیں ہوتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ کیلشیم کاکام جسم میں ہڈیوں کومضبوط کرنا ہے اور رکٹس کی بیماری کو روکنا ہے نہ کہ تپ دق پیداکرنا۔ اور پھر قبض کبھی نہیں کرتے کیونکہ یہ زودہضم غذاہے۔ اس کے متعلق مزید معلومات آپ کو کسی بھی حکیم سے یا ڈاکٹر سے حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ کوئی بھی نہیں کہے گا کہ آلو کا تپ دق کا کہیں دور کا بھی واسطہ ہو۔ یاد رہے کہ آلو کا کیلشیم ہے جسے حکیم صاحب تپ دق کی جڑ بتلاتے ہیں۔ آلو میں نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔پھر حکیم صاحب روزانہ آلو کھانے پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ یعنی صبح دوپہر اور شام متواتر آلو ہی کھانا۔ یہ بات مجھے بڑی لغو اور بیہودہ سے معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ دنیا میں کوئی بھی ذی روح ایسا نہیں جس کی غذامیں صرف ایک ہی چیز شامل ہو۔ امریکہ والوں نے یااپنے ماہرین متعلقہ نے یہ بالکل نہیں کہا کہ صرف آلو ہی کھایا جائے کیونکہ کوئی چیز بھی مکمل غذا نہیں جس سے کہ غذاکے ضروری اجزاء مثلاً پروٹین، چکنائی،کاربوہائیڈریٹ، سالٹ اور حیاتین سب بیک وقت حاصل ہو سکیں۔ صرف دودھ کو کہا جاسکتا ہے کہ چھوٹے بچوں کے لئے یہ ایک مکمل غذا ہے۔ آلو تو ہماری خوراک کا ایک معاون جزو ہے۔انسانی جسم کو پرورش پانے ، پھلنے، پھولنے اور قائم رہنے کے لئے خوراک کے سب ضروری اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے اگر ایک حصہ متواتر نہ ملے تو اس کی کمی کی وجہ سے جسمِ انسانی کو کوئی نہ کوئی بیماری لگ جاتی ہے۔ لہذایہ ضروری ہے کہ ہمیں خوراک متوازن اور موزوں ملنی چاہیے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ضروری اجزاء بیک وقت ایک چیز میں مکمل اوار مناسب نہیں مل سکتے ۔ اس لئے ہماری روزانہ خوراک میں مختلف چیزیں شامل ہونا ضروری ہیں۔ یعنی گوشت، سبزی، ترکاری، گھی، ودھ، انواع و اقسام کے پھل اور میوہ جات وغیرہ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر روز اورہر کھانے کے ساتھ یہ سب ہی کھائے جائیں۔ بلکہ کبھی کوئی اور کبھی کوئی۔ جیسے بھی موقع ملتا ہےلیکن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کبھی بھی نہ کھایا جائےاوراپنی روزانہ کی خوراک صرف ددال روٹی ہی رکھی جائے۔ سبزیاں اگر اچھی طرح صاف کرکے کچی کھائیں توبہت ہی مفید ہوتی ہیں۔ ان میں گاجر ، مولی، شلغم، ٹماٹر، بھنڈی توری اور اس قسم کی دوسری ہمیں آسانی سے دستیاب ہو سکتیں ہیں۔
آئیے ہم حقیقت کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے بنظرِ غائر موذی مرض تپ دو کے لگ جانے کی وجوہات کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ اس کا آلو کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ تپ دق ایک متعدی مرض ہےجو ایک جراثیم سے لگتی ہے۔ جسے(Tubercle Bacillus)کہتے ہیں۔ یہ جراثیم جہاں بھی انسانیت کا وجود موجودہے ، پائے جاتے ہیں۔ اور ہروقت حملہ کرتے رہتے ہیں۔ جوبھی موزوں جگہ ہے وہاں ڈیرہ ڈال لیتے ہیں۔ مضبوط جسم جن میں کہ جراثیم کے خلاف قوتِ مدافعت زیادہ ہوتی ہے وہ اس کا مقابلہ کرتا ہے اور بیماری پر قابو پالیتا ہے۔پس جتنی بھی قوتِ مدافعت زیادہ ہوگی اتنا ہی جسم بیماری لگنے سے محفوظ ہوگا۔ قوتِ مدافعت کا انحصار ہماری جسمانی حالت پرہے۔اور جسمانی طاقت کا مضبوط اور کمزور ہونا خوراک اور اس کی غذائیت پرہوتا ہے۔ اگر ہماری خوراک موزوں اوار متوازن ہوگی تولازمی طورپر قوتِ مدافعت تیزہوگی اور ہم بیماری سے محفوظ رہیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا آلو میں تپ دق کے جراثیم موجود ہیں جوبیماری پیدا کرتےہیں یا آلو میں ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو قوتِ مدافعت کو کم کرتی ہیں۔ اگر آلو میں جراثیم بھی موجود ہوں اوروہ قوتِ مدافعت کو کرنے والی چیزین بھی ہوں تو بیماری کا ہوجانا لازمی ہے۔ موجودہ قوانینِ طب اور میڈیکل سائنس کی روسے میں کہہ سکتا ہوں کہ آلو کیا کسی بھی سبزی وغیر ہ میں دق کے جراثیم نہیں ہوتے۔ اگر یہ آلو وغیر ہ میں ہیں تو انسانی جسم میں داخل ہوتے ہی مرجائیں۔ کیونکہ انسانی جسم کی ساخت یعنی اس کی حرارت خون اور دیگر موادِ جسمانی آلو کی ساخت سے بالکل مختلف ہیں اور کوئی بھی ذی حیات دو متضاد جگہ میں ایک سا نہیں رہ سکتا۔آلو ہمارے ملک کی موجودہ غذاؤں کا ایک ضروری معاون جزو ہے۔ سستا اور آسانی سے دستیاب ہونے کے علاوہ ہمارے جسم کی حرارتِ غریزی کے قائم رہنے میں بہت مدد دیتا ہے۔وٹامن سی جو کہ جسم میں قوتِ مدافعت پیدا کرتا ہے۔ماسخورہ لگنے نہیں دیتا۔اس کے علاوہ اس میں پروٹین ، وٹامن بی آئرن ا ور کیلشیم ہوتے ہیں۔ جوکہ خصوصاً اہلِ پاکستان کے لئے غذائیت کے لئے بہت مفید ہیں،اور جسمانی ضروریا ت کےلئے نہایت ہی ضروری ہیں ۔کیونکہ ان سےمعدہ بیماریوں سے بچارہتا ہے۔خون درست رہتا ہے اور ہڈیاں کمزور نہیں ہونے پاتیں اور خاص کر یہ چھوٹے بچوں اور دودھ پلانے والی ماؤں کے لئے نہایت ہی مفید المطلب ہے۔
پس ظاہر ہوا کہ آلو میں نہ تو تپ دق پھیلانے والے جراثیم موجود ہیں اور نہ ہی قوتِ مدافعت کو کم کرنے والی چیزیں ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ آلو کسی بھی حالت میں تپ دق نہیں پھیلا سکتے ۔ آخر میں ہیلتھ ایجوکیٹر ہونے کی حیثیت سے میں حکیم انقلاب جناب ڈاکٹر صاحب سے پرزور احتجاج کروں گا کہ وہ اپنی غلط بیانی سے باز رہیں اور آئندہ کبھی بھی ایسی نازیبا حرکت نہ کریں اوراپنے بھولے بھائیوں کو غلط راستے پر نہ ڈالیں۔ ان کی تحریر کا یہ اثر ہوا کہ ہمارے کئی بھائیوں نے آلو کھانے ہی چھوڑ دئیے۔ جو کہ ہماری روزانہ کی غذاکی ایک اہم جزو ہیں ۔ لوگوں کے دلوں میں ایسا غلط نظریہ قائم کرنا کسی بے گناہ کو بے دردی سے قتل کرنے کے مترداف ہے اور ایسے گناہِ کبیرہ کو خدا کبھی معاف نہیں کرے گا۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ وہ انفرادی اختلافات اور جذباتی ہونے کی وجہ سے ایسی فحش اور غلط بیانی سے کام لے کراپنے آبائی پیشۂ حکمت کے وارثوں کے نیک نام اور درخشاں چہرہ کو ایک نہ دُھلنے والا سیاہ دھبہ ہرگزنہ لگائیں۔ جن کا سکہ سب غیریت پر جما ہوا تھا اور آج بھی لقمان اور ارسطو کے نام ان کی زبان پر ہیں اور وہ ان نیک ناموں کی عزت کرتے ہیں ۔ میں خود بھی فرنگی طب کی نسبت اپنی طب کو زیادہ قابل سمجھتا ہوں ۔ لیکن بے بنیاد اور غیر تجربہ شدہ جذباتی اور خود ساختہ لغویات کو ضرور رد کرتا ہوں۔
از: عبدالحمید لونؔ۔ ہیلتھ ایجوکیشن آفیسر نیشنل ٹی بی ایسوسی ایشن آف پاکستان۔لاہور
جواب: قسط اول
ماہنامہ “خوراک”لاہور کے شمارہ نمبر1989ء میں ایک مضمون بعنوان”خوراک اور تپ دق”جناب عبدالحمید لونؔ ہیلتھ ایجوکیشن آفیسر نیشنل ٹی بی ایسوسی ایشن آف پاکستان لاہورنظر سے گزرا جو میرے مضمون “روزانہ آلو کھانے سے دق سل ہوجاتا ہے” کے خلاف لکھا تھا۔ کسی مضمون پر تنقید کرنا کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ مختلف معلومات اور مختلف تعلیم یا ذہن کے زیرِ اثر ایسا ہوتا رہتاہے۔ لیکن تنقید یا تردید کرنے کے بھی کچھ اصول وقوانین ہیں، جناب لونؔ صاحب نے ان تمام اصولوں کا ذرا خیال نہیں رکھا اور نہایت بھونڈے اور تحقیرآمیز لہجے میں اس کی تردید کی ہے جو ایک صاحبِ علم اور ذمہ دار آدمی کےلئے زیبا نہیں ۔جناب عبدالحمیدلونؔ صاحب نے اپناتعارف یوں کرایا ہے کہ میں اس موذی مرض (ٹی بی)سے اپنے عوام کو نجات دلانے کےلئے ہیلتھ ایجوکیشن ڈویژن نیشنل ٹی بی ایسوسی ایشن آف پاکستان کا انچارج ہوں اور پیشے کے متعلق کہتے ہیں کہ”تپ دق کے متعلق صحیح اور عام فہم معلومات عوام الناس کے گوش گزارکرنا، موذی مرض کا تعارف، پھیلنے کے اسباب، خاطرخواہ علاج اور احتیاطی تدابیر عوام تک پہنچانا میرا فرض ہے” ساتھ ہی لمبے چوڑے مقاصد بھی بیان کئے ہیں جووہ ٹی بی کے متعلق انجام دیتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک ایسا ذمہ دار شخص جو ایک بلند تعلیمی محکمہ سے منسلک ہے اورایک اعلیٰ فن سے تعلق رکھتا اور ساتھ ہی ایک پورے ڈویژن کا انچارج ہے، تنقید کرتے وقت اپنی پوزیشن کوبالکل ہی بھول جاتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ایسے آدمی کو ایسے منصب پر فائز کیسے کیا گیا جسے بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں ۔ نہ معلوم جناب اُن مریضوں سے کیسے بات کرتے ہوں گے جو بہت کم کسی کی بات برداشت کرسکتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو مضمون منگواکرپڑھ لیاجائے۔ عوام کی معلومات کے لئے چند جملے ہیں ملاحضہ فرمائیں۔”اندھا دھند جذباتی رو میں بہہ کر——میں حکیم صاحب کے فرمودہ وہ غلیظ اور بے بنیاد خیالات کااعادہ کرنا چاہتا ہوں۔ وہ اپنی غلط بیانی سے باز رہیں۔ اور آئندہ کبھی بھی ایسی نازیباحرکت نہ کریں۔ وہ انفرادی اختلافات اور جذباتی ہونے کی وجہ سے ایسی فحش اور غلط بیانی سے کام لے کراپنے آبائی پیشہ حکمت کے ناموراور درخشاں چہرے کو نہ دُھلنے والا سیاہ دھبہ نہ لگائیں——–بے بنیاد اور غیر تجربہ شدہ جذباتی اور خود ساختہ لغویات وغیر وغیرہ” اس کے ساتھ ساتھ جناب لونؔ صاحب کا یہ بھی قول ہے کہ” میں حکیم صاحب کے خیالات اور جذبات کوکچلنا اورٹھیس پہنچانا نہیں چاہتا اور نہ ہی حکیم صاحب سے مجھے کوئی ذاتی عناد ہے”اگر خدانخواستہ یہ صورتِ حال ہوتی تو نہ معلوم جناب لونؔ صاحب کیا زبان استعمال کرتے اور کیا سلوک فرماتے۔ خیر اس بیان سے میرامقصد ان کا صحیح تعارف کراناہے کہ جناب لونؔ صاحب کتنی اخلاقی سطح پر ہیں۔ اب اس کے دوسرے پہلوکی طرف آتا ہوں جو علمی ہے اور جس سے قارئین کو ان کی فنی اور علمی قابلیت کا اندازہ ہوگا۔ کہ وہ تپ دق وسل کیا ، ان کے مبادیات تاسیہ سے بے خبر ہیں۔
سب سے پہلی بات کہ لونؔ صاحب نہ حکیم ہیں ، نہ ڈاکٹر اور نہ ہی سائنس کے کسی شعبہ سے مستند ہیں۔ کیونکہ ان کے نام سے پہلے یا آخرمیں کوئی ایسی علامت نہیں اورنہ ڈگری تحریرہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کسی شعبۂ ،خاص کر علم ِ نباتا ت، علمِ کیمیا، علم زندگی ، علمِ مائیتِ امراض، علمِ منافع الامراض ، علم خواص الاشیاء میں فاضل ہیں۔ پھر ان کو کیا حق حاصل ہے کہ ان علوم پر بحث کریں۔ وہ محض ایک عددی شخص ہیں۔ علم وفن میں ان کا کوئی مقام نہیں ، اور اگر وہ ان علوم پر کچھ دسترس رکھتے بھی ہیں تو اب ہمارا فرض ہے کہ ان کو جواب الجواب دیں۔ تاکہ قارئین اندازہ لگا سکیں کہ وہ ان علوم میں کہاں تک عوام کی راہنمائی کر سکتے اور ان کی زندگی کے لئے مفید ہوسکتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ہر علم و فن کا معیار ہونا چاہیے۔ ذاتی خیالات یا دعویٰ کوئی چیز نہیں ۔کسی بات کو صرف اسی وقت تسلیم کیاجاسکتا ہے جب اس کے ساتھ کوئی دلیل یاسائنسی تجربہ ثبوت میں پیش کیا جاسکے۔ ہم اس مقصد کےلئے عقل اور فطرت کو بطورِ دلیل اور سائنسی تجربہ پیش کرتے ہیں اور جناب لونؔ صاحب اور ان کے دوسرے لوگوں کوبھی دعوت دیتےہیں کہ وہ بھی کسی قانون کے تحت جواب دیں۔
یہ بھی پڑھیں: قسط ۔6 تحقیقات نزلہ زکام
اقتصادی اور معاشی پہلو
ہم نے اپنے مضمون میں روزنامہ بانگِ حرم کے مضمون کا اس پہلو سے کہیں ذکر نہیں کیا کہ اس نے بھی آلو کا صحتِ انسانی خصوصاً دق سے کوئی تعلق ہے، کے متعلق لکھاہے۔مگر ان صاحب نے محض غلط فہمی پیداکرنے کےلئے اس کا ذکر کردیاہے۔ مگر روزنامہ”بانگِ حرم”کا فقط ادبی اورمعاشی تبصرہ اپنے اندر حقیقت رکھتا ہے۔ کہ آلو کی قیمت موسم میں آٹھ بارہ آنے سیراور بعد میں روپیہ ڈیڑھ روپیہ فی سیر ہوتی ہے۔ اس کی یہ حالت اس وقت ہےجبکہ پاسکتانی عوام محض اس کو بطورِ سالن استعمال کرتی ہے۔ بطورِ غذا ستعمال کرنے کی صورت میں ایک گھر جس کے آٹھ دس افراد ہوں، کو دو تین سیر آلو خریدنا پڑیں گے اور اس طرح تقریباً 100روپے ماہانہ خرچ بڑھ جائے گا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ آلو کی پیداوار میں اضافہ کرکے اس کی قیمت کو عام آدمی کی قوتِ خرید کی سطح پر لایا جائے۔ امریکن آلو کے بیج خریدنے پر امریکہ میں کروڑوں روپیہ پہنچ جائے گا اور پھر امریکن آلو اور بھی گراں ہوگا۔ ملکی فصل کونقصان پہنچے گا۔`آلو ہمیشہ گندم سے گراں اورطاقت میں کم ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ممکن ہے کہ امریکن گندم کی طرح امریکن آلوؤں میں بھی کوئی بیماری ہویعنی اس میں گندھک اور روغنی اجزاء بہت کم اور کیلشیم اور زیادہ پائی جاتی ہوجو ہمارے گرم خشک ملک کےلئے نقصان دہ ہو۔ جب سے امریکن گندم ہمارے ملک آئی ہے ٹی بی بڑھ گیا ہے۔ میں لوؔن صاحب کوچیلنج کرتا ہوں کہ وہ ثابت کریں کہ امریکن سرخ گندم اور پاکستانی گندم میں کوئی فرق نہیں اور دونوں اپنے افعال واثرات میں یکساں ہیں۔ یاد رکھو کہ پیداوار میں اضافہ پاکستان کےلئے ضرر رساں ہے۔ اس سے ایک طرف زمین ضائع ہوگی تو دوسری طرف ٹی بی بڑھے گا اور پھر اس کی قوتِ خرید پر قابو نہیں پایا جاسکے گا۔
امریکہ والوں سے شکایت
لونؔ صاحب لکھتے ہیں “حکیم صاحب کو امریکہ والوں سے کوئی ذاتی شکایت ہے جو کبھی ان کی گندم اور کبھی دواؤں کا ذکر کیا ہے” جناب لوؔن صاحب مجھے امریکہ والوں سے کیا شکایت ہوسکتی ہے۔ میں نے ان سے کبھی امداد نہیں مانگی، سیر کی خواہش نہیں کی، کوئی وظیفہ طلب نہیں کیا، ان کے سفارت خانے پر جا کر بھیک نہیں مانگی جو انکارپران کے خلاف لکھ دیا ہو۔ میں ایک سچا پاکستانی ہوں اور میری حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ ہر اس چیز کا مقابلہ کروں جو میرے پیارے ملک کونقصان پہنچانے والی ہو، زبان سے، قلم سے اور انشاءاللہ تمام زندگی یہ خدمت کرتا رہوں گا۔
پاکستان اور امریکن گندم
جناب لون ؔ صاحب لکھتے ہیں “کہ لاہور کے انسٹی چیوٹ آف ہائجن میں کئی سال سے امریکن گندم پر تجربات ہورہے ہیں۔ جن کا نتیجہ وہ اس طرح لکھتے ہیں کہ پروٹین امریکن گندم میں پاکستانی گندم سے ٪2سے ٪3 زیادہ ہوتی ہے ۔ امریکن گندم میں ایسی کوئی چیز فالتو نہیں یا زیادہ نہیں جو ہماری طبع کے خلاف ہو” میں اس پر یہ تو نہیں کہتا”کم کم عقل را عقل نہ باشد”مگر جناب لونؔ صاحب سے گزارش کروں گا کہ وہ اس تحقیق کا(امریکن گندم میں پاکستانی گندم)سے٪2سے ٪3 تک پروٹین زیادہ ہے۔ ہمارے بیان سے کہ اپنے ملک امریکہ کی سرخ گندم جو انتہائی خشک ہے۔ جس کے ارضی اور ریاحی مادے ہمارے ملک کی گندم سے ٪100زیادہ ہیں ، کھلا کرپاکستا نیوں کو ٹی بی کا شکار نہیں بنایا۔ مقابلہ کریں اور بتائیں کہ ان میں کیا فرق ہے۔مزید وضاحت کےلئے ذرا پروٹین پر غورکریں۔آپ کی معلومات کےلئے لکھے دیتے ہیں کہ پروٹین کے معنی ہیں اجزائے لحمیہ، یعنی ایسے اجزاء جن میں گوشت کے اجزاء پائے جاتے ہیں جن کا صاف مطلب ہے کہ ان میں تیزابیت اور ریاحی مادوں کی کثرت ہےجوجوشِ خون کو زیادہ کرتے ہیں۔ ایک ہائی بلڈپریشر کا مریض اچھی طرح جانتا ہےکہ پروٹین اس کے لئے زہرِقاتل سے کم نہیں ہے۔ ٹی بی کے مریضوں میں بھی ہائی بلڈ پریشر زیادہ ہوتا ہے۔ اور پروٹین کی تیزابیت پھیپھڑوں میں زخم ڈال دیتی ہے اور یہ سب چیزیں اسی سرخ گندم میں پائی جاتی ہیں۔ جادووہ جو سرچڑھ کر بولے۔
حکومت کوامریکن گندم پر اس قدر تجربات کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ صرف دونوں کے رنگوں پر ہی غورکرلیا ہوتااور کسی رنگ کے خواص جاننے والے ہی سے پوچھ لیا ہوتا۔ہم جناب لونؔ صاحب کی معلومات کےلئے عرض کئے دیتے ہیں ۔ کہ پاکستانی گند م کا رنگ زرد ہے جس میں گندھک(Sulphur)کی زیادتی ہےاور امریکن گندم کا رنگ سرخ ہےجس میں فیرم کی زیادتی ہے۔ اول الذکر خود ہاضم اور دافع ریاح ہے اور ثانی الذکر مولدِ ریاح اور خرابئ ہضم ہے۔ اگر میری اس تحقیق میں غلطی ہوتو میں آپ کا اور امریکہ کے تمام سائنسدانوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ میری اس تحقیق کوغلط ثابت کرنے والے کو پانچ صد روپیہ انعام دوں گا ورنہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ امریکن گندم ہمارے ملک میں ٹی بی کا باعث ہوئی ہے۔ میں جناب لونؔ صاحب کو اطلاع کے لئے عرض کئے دیتا ہوں اور تحدیثِ نعمت کے طورپر کہ غذایا خواص الاشیاء کے متعلق پاکستان و ہندوستان میں میرے جیسا علم رکھنے والا شاید کوئی نہ ہو۔ آپ کواس بارے میں میرے علم کا صحیح اندازہ نہ ہو۔ ایک طرف تو آپ مان رہے ہیں کہ امریکن گندم میں پروٹین (اجزائے لحمیہ)یعنی تیزابی اور ریاحی مادے زیادہ ہیں اور دوسری طرف یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس میں کوئی چیز فالتو یا زیادہ نہیں ہے۔ اس سے آگے پھر اس امر پرروشنی ڈالیں کہ ان پاکستانی اور امریکن گندم کے رنگوں میں فرق کیوں ہے؟ اور پھر افعال واثرات میں کیا تفاوت ہے؟
امریکہ اور ضروریاتِ زندگی
جناب لونؔ صاحب نے اس بات کوکہ “امریکہ والے ہمارے ملک میں دوائیں فروخت کرکے پیسے بٹورتے اور ہماری ضرورت کوبڑھاتے ہیں ” کومہمل قراردیا ہے۔ جناب لونؔ صاحب اگر علمِ اقتصادیات سے ذرا بھی واقف ہوتے تو ایسی بات نہ کہتے۔ جس کا پہلا قانون یہ ہے کہ ضرورت(Demand)تقسیم(Supply)اوار پیدائش(Production)یعنی جب تک ضرورت پیدا نہ کی جائے مال کی کھپت کیسے ہوسکتی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ یہاں پہلے امریکی ماہرین آکر ضروریات پیدا کرتے ہیں اور پھر مہیا کرتے ہیں ۔ دواؤں کا معاملہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے۔ ہرسال اسی سلسلہ میں کروڑوں روپیہ امریکہ جارہا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سب دوائیں غیر یقینی ہیں ۔ جب ان کے اپنے ملک میں فائدہ نہیں کرتیں تو یہاں کیا فائدہ دیں گی۔ اس سلسلہ میں ایک مثال پیش کرتا ہوں ۔ آج کل ہمارے ملک میں یہ ضرورت پیدا کردی گئی ہے کہ یہاں کی آبادی کثرت سے بڑھ رہی ہے اوراس کے لئے غذا اور کنٹرول کی ضرورت ہے۔ غذاکےلئے امریکہ نے آلواستعمال کرنے پر زور دیا ہےتاکہ امریکن آلویہاں استعمال کرایاجائے اور کثرتِ پیدائش کے لئے برتھ کنٹرول پر زور دیاجارہاہے۔ جس کےلئے امریکن دوائیں اورجنسی آلات آئیں گے اورملک کا کروڑوں روپیہ خرچ ہوگا۔ امریکہ ایک تجارتی ذہن کا ملک ہے وہ اگر ایک طرف ایک ارب روپیہ امداد کے طوپر دیتا ہے تو دوسری طرف مختلف طریقوں سے ڈیرھ ارب روپیہ کی دولت کما لیتا ہے۔ لونؔ صاحب لکھتے ہیں “بہرحال مجھے سیاسیاست میں نہیں جانا”جناب لونؔ صاحب آپ یہاں پر بھی غلطی کررہے ہیں۔ کوئی محبِ وطن اپنے ملک کی دولت برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ کیمونسٹ قسم کے افراد دوسرے محبِ وطن افراد سے زیادہ ملک و قوم کے لئے محبت نہیں رکھتے۔مارشل لاء حکومت کےوزراء اور امراء کا کریکٹر آپ کے سامنے ہے۔
امریکہ اور غیر ترقیاتی ممالک کی امداد
جناب لونؔ صاحب امریکہ کی تعریف میں لکھتے ہیں ” لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ امریکہ والے نہ صرف پاکستان ہی بلکہ دنیا کے سب غیر ترقیاتی ممالک کی ہرسال کروڑوں روپیہ سے امداد کرتے ہیں ۔ تاکہ یہ ممالک اپنے آپ کو اقتصادی لحاظ سےمضبوط بنا سکیں جس پر کہ قومی صحت کا انحصار ہے” اس کے متعلق کیا عرض کیاجائے۔جناب لونؔ صاحب کو معلوم ہونا چاہیےکہ امریکہ ایک سامراجی ملک ہےوہ کسی غیرترقیاتی ملک کی امداد کیا کرے گا۔وہ مال اور دولت بعد میں لگاتا ہےاور ان ممالک کے ذرائع آمدنی کو پہلے قابو میں کر لیتا ہے۔ آخر میں یہ عرض کئے بغیر نہیں رہا جاتا کہ جب ہم غیرترقیاتی ملک تھےہمارے ملک میں ٹریکٹر نہیں بلکہ دیسی ہل چلتے تھےاس وقت گند م ڈیڑھ دو روپے من بکتی تھی، گھی روپیہ سیر بکتا تھا اور آج جبکہ بناسپتی گھی کی فیکٹریاں لگ گئی ہیں۔دیسی چھ سات روپے سیربکتا ہے اور وہ بھی خالص نہیں ہوتا۔ آخر مل بھی کیسے سکتا ہےجبکہ ملک کا بنولہ گائے بھینس کے پیٹ میں جانے کی بجائے مشین کے پیٹ میں چلاجاتا ہے اور بناسپتی گھی بن جاتا ہے۔ خالص چیزانسان اور حیوان کومیسر نہیں آتی، ٹی بی کی بیماری اسی وجہ سے پھیل رہی ہے کہ خالص خوراک چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔
از: حکیمِ انقلاب دوست محمد صابر ؔملتانی
اعتراض کا جواب نمبر02
جناب لونؔ صاحب اپنے عنوان کا سب سے بڑا ثبوت دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آلو میں چونایعنی کیلشیم سب نباتات سے زیادہ ہوتا ہے۔ان کے صرف دوتین روز صبح شام کھانے سے قبض کامرض اور خشکی بڑھناشروع ہوجاتی ہے جس سے آہستہ آہستہ تپ دق لگ جاتا ہے۔اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے جناب لونؔ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ “میں یہ نہیں کہتا کہ آلو میں چونایا کیلشیم نہیں ہوتا لیکن یہ کہوں گا کہ کیلشیم کا کام جسم میں ہڈیوں کو مضبوط کرنا ہے اور رکٹس کی بیماری کو روکنا ہےنہ کہ تپ دق پیدا کرنا اور پھر آلو قبض کبھی نہیں کرتے، کیونکہ یہ زود ہضم غذاہےاس کے متعلق مزیدمعلومات آپ کسی حکیم یا ڈاکٹر سے کرسکتے ہیں ۔ یہ کوئی بھی نہیں ہے کہ آلو کاتپ دق سے کہیں دورکا بھی واسطہ ہو۔ یاد رہے کہ آلوکا کیلشیم جسے حکیم صاحب تپ دق جڑبتلاتے ہیں ۔ آلو میں نہ ہونے کے برابر ہے۔”
جناب لونؔ صاحب اس کانام ہے ایک بام اور دوہوا۔ ایک طرف تو لونؔ صاحب اس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ آلو میں کیلشیم ہوتا ہے اور دوسری طرف فرماتے ہیں کہ آلو کا کیلشیم نقصان نہیں دیتا یہ کیسے ممکن ہے کہ حق کو جھٹلایا جا سکے اس طرح لکھ کر وہ اہلِ علم وفن کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔ کیلشیم ایک عنصر ہے وہ جہاں بھی پایاجائے گا اور جس قسم کا بھی ہوگا خواہ جماداتی ہو یانباتاتی یا حیوانی بہرحال کیلشیم ہی کہلائے گا اوراس میں کیلشیم کے اثرات و افعال پائے جائیں گے۔جناب لونؔ صاحب کوئی بھی کتاب الا دویہ(میٹریا میڈیکا) اُٹھا کر دیکھ لیں۔ اس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ کیلشیم قابض ہےنہ صرف قابض بلکہ حابس ہے۔ یعنی قبض کرنے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی رطوبات کو روکتا ہے بلکہ پیدائش کوبھی روکتا ہے۔اس کے استعمال سے نہ صرف پاخانہ قبض ہوجاتا ہے بلکہ پیشاب بھی رک جاتا ہے۔ اور ہر ہر قسم کی رطوبات (سیکریشن)کی پیدائش بھی بندکردیتا ہے۔ ہم کسی کتاب کا حوالہ پیش نہیں کرتے تاکہ لونؔ صاحب اسے غیر مستند نہ قرار دیدیں۔ وہ کسی کتاب کے حوالے سے خواہ وہ کسی امریکن ہی کی لکھی ہوئی ہویہ ثابت کردیں کہ اس میں کیلشیم کو قبض کشااور مخرجِ رطوبات لکھا ہے۔ وہ اگر ثابت کردیں تو ہم جناب لونؔ صاحب کو مبلغ ایک ہزار روپیہ انعام دیں گے۔ حق کو جھٹلانا آسان کام نہیں۔
جناب لونؔ صاحب خود تو تسلیم کرتے ہیں کہ چونا ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے اور رکٹس کی بیماری کوروکتا ہے۔ ہڈیاں ایک خشک عضو ہیں اور جب ان میں چونا کم ہوجاتا ہے تو ان کی سختی کم ہوجاتی ہےتو وہ کمزورہونے کے ساتھ ساتھ ٹیڑھی ہوجاتی ہیں۔اس حالت کانام رکٹس ہے۔ گویا انہوں نے یہ خودثابت کردیاہے کہ چونا ہڈیوں جیسے خشک اعضاء کو سخت کردیتا ہے اور جب یہی چونا خون میں اثرکرتا ہےتو اس کوگاڑھا کردیتا ہے اور جب گوشت(مسلز)میں اثر کرتا ہے توان کو بھی ہڈیوں کی طرح سخت کردیتا ہےاوراس کی لچک کوختم کردیتا ہے جس کے نتیجہ میں خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہےاوردل سکڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ اور آخرکار انسان دق ودمہ اور دائمی قبض کا شکار ہوجاتاہے۔آیورویدک میں چونا وات اور وایوپیداکرتا ہےاور کف کوختم کرنے والا ہےیعنی ریاح پیدا کرتا ہےاور بلغم کوفنا کردیتا ہے۔ طبِ یونانی میں اس کوقابض، حابس اور مولدِ ریاح لکھتے ہیں۔اور نتیجہ میں سودا پیدا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ انسان پاگل ہوجاتا ہے۔ آلو اور امریکن سرخ گندم میں جو کیلشیم پایاجاتا ہے۔ اس میں کیلشیم کی یہ تمام برائیاں پائی جاتی ہیں۔ کیا مسٹر لونؔ صاحب کو جرات ہےکہ وہ ثابت کردیں کہ آلواور سرخ گندم میں یہ تمام نہیں پائی جاتیں۔ جناب لونؔ صاحب لکھتے ہیں کہ آلو زود ہضم ہوتے ہیں، واہ کیا مزے کی بات کہی ہے ۔ گویا لونؔ صاحب کو یہ بھی نہیں پتاکہ زود ہضم کس بلا کوکہتے ہیں۔ جناب زود ہضم اس غذاکو کہتے ہیں کہ جو کھانے کے بعداعضاء غذائیہ کونقصان پہنچائے بغیر ہضم ہوجائے اور وہ صالح خون پیدا کرے۔اس تعریف کے برعکس آلوسخت مولد ریاح، قابض، حابس اورجگر کے فعل کوکمزور کر دیتے ہیں۔ صرف ایک بارکھانے سے تبخیرپیداکردیتے ہیں۔پھر زودہضم کیسے قرار دئیے جاسکتے ہیں۔ اگر تھوڑی دیر کے لئےان کو زودہضم بھی فرض کرلیں۔ توپھر بھی دودھ سے زیادہ زودہضم نہیں ہیں۔ جن میں کیلشیم کے ساتھ روغنی اجزاء بھی ہوتے ہیں پھر بھی جن لوگوں کو تبخیر کا مرض ہوتا ہےان کو دودھ جیسی زود ہضم غذاروک دی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں آلو جیسی ثقیل غذا جس میں نام کو روغن نہیں پایا جاتا ۔ اس کا نقصان کس قدرہوگا اس کا اندازہ اہلَ علم خود کرسکتا ہے۔ان حقائق سے پتا چلتا ہےکہ جناب لونؔ صاحب صحیح علم سے کس قدر دور ہیں۔
جادووہ جوسرچڑھ کربولے۔ جناب لونؔ صاحب آخر میں یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آلوکاکیلشیم جسے حکیم صاحب دق کی جڑ بتلاتے ہیں ۔ آلو میں نہ ہونے کے برابرہے۔ گویاپایا ضرور جاتا ہے گویاکم بہت کم۔جناب لونؔ صاحب آپ صرف تپ دق کےلئے گھبرا ُٹھے۔ ہم تو یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ آلواور امریکن سرخ گندم کے کھانے سے تپِ دق کے علاوہ دائمی قبض، تبخیر ، دورانِ سر، بواسیراور ہائی بلڈپریشرکے ساتھ ساتھ سوداویت کی زیادتی سے خون گاڑھااور خراب ہوجاتا ہے۔ آپ کے امریکن سائنسدان اور ڈاکٹر بھی اس کا جواب نہیں دے سکتے۔ آگے چل کر لکھتے ہیں “کہ حکیم صاحب روزانہ آلو کھانے پر زوردیتے ہیں یعنی صبح ،دوپہراور شام ہی کھانا۔ یہ بات مجھے بڑی لغواور بیہودہ سی معلوم ہوتی ہےکیونکہ دنیامیں کوئی بھی ذی روح ایسا نہیں ہے جس کی غذامیں صرف ایک ہی چیز شامل ہو۔ امریکہ والوں نے یا اپنے ماہرین متعلقہ نے بالکل نہیں کہاکہ صرف آلوہی کھایاجائے۔کیونکہ کوئی چیز بھی مکمل غذانہیں جس سے غذاکے ضروری اجزاء مثلاپروٹین، کاربوہائیڈریٹ، سالٹ اور حیاتین سب بیک وقت حاصل ہوسکیں صرف دودھ کوکہاجاسکتا ہےکہ چھوٹے بچوں کے لئے یہ ایک مکمل غذاہے۔آلو توصرف ہماری خوراک کا معاون جزوہے۔”جناب لونؔ صاحب آپ مجھ پر الزام کیوں لگاتے ہیں۔ میں آلو کھانے پر زور دیتا ہوں کہ وہ صبح،دوپہر اور شام آلو ہی کھانے جائیں۔ میں تو اس امر کی مخالفت کرہاہوں واقعی میں ایسا کہوں تو یہ بڑی لغو بات ہوگی۔جناب یہ تو آپ ولئ نعمت امریکہ کی طرف سے کہی گئی، جن کی میں مخالفت کررہاہوں۔ آپ صاف غلط بیانی فرمارہے ہیں اور امریکہ والوں کی حمایت کررہے ہیں اور لکھ رہے ہیں کہ امریکہ والوں نے یا اپنے ماہرین متعلقہ نے یہ بالکل نہیں کہاکہ صرف آلو ہی کھایاجائے۔اگر آپ کویہ سب کچھ بھول گیاہے تو کہنا پڑے گا کہ “دروغ گوراحافظہ نباشد”———جناب لونؔ صاحب! آپ ذرا امریکہ شعبہ اطلاعات کے فیچر کا مطالعہ فرمائیں۔جس میں صاف لکھا گیا ہے کہ “دعویٰ تعجب خیز ضرورہےتاہم اس میں مبالغہ آمیزی کو چنداں دخل نہیں ہے کیونکہ ڈیڑھ اونس فی کس روزانہ آلوکی خوراک بڑھانے کے یہ معنی ہیں کہ آٹھ کروڑکی آبادی دس لاکھ ٹن سالانہ آلو کھائے۔ اس طرح دس لاکھ ٹن غلے کی سالانہ لاگت سے نجات مل جائے گی”فرمائیے لونؔ صاحب معلوم ہوا کہ روزانہ آلو کھانے کےلئے ہم نہیں کہہ رہے بلکہ امریکہ زوردے رہا ہے۔ کیونکہ اس سے اس کو کئی فوائد حاصل ہوں گےبیج کی فروخت، دواؤں کی برآمد۔
جہاں تک مکمل غذاکا تعلق ہے۔اس کی حقیقت سے نہ آپ واقف ہیں اورنہ امریکہ والےمسئلۂ غذامیں یہ اہمیت نہیں ہے کہ اس میں پروٹین فیٹس(چکنائی)، کاربوہائیڈریٹس(نشاستہ)، سالٹ(نمکیات)کس مقدار میں ہوں۔ بلکہ غذامیں اہمیت اس امرکی ہےکہ اس سے بدن میں حرارت کس قدر پیدا ہوتی ہے۔ اس مقصد کےلئے ان امور کی طرف بھی دھیان دینا پڑتا ہےکہ حرارت پیدا کرنے والے اجزاء کون سے زیادہ ہیں اور کون سے اجزاء حرارت(Heat)کوکم کرنے والے ہیں اور بدن کی حرارت کو قائم کون سے اجزاء کہتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ غذامیں جو اجزاء حرارت کو زیادہ پیداکرتے ہیں جیسے فیٹس روغنی اجزاء یہ اغذیہ کوہضم کرنے کےلئے جسم میں حرارت پیدا کرنے کے ذمہ دارہیں۔ ایسی اغذیہ میں آکسیجن زیادہ ہوتی ہے۔ ایسی غذاکو ہم قوتِ طبعی(Power)کہتےہیں اور جو اغذیہ جسم میں رطوبت پیدا کرتے ہیں جیسے کاربوہائیڈریٹس(اجزائے نشاستہ) یہ اجزاء اپنے ہضم ہونے میں حرارت کے محتاج ہیں۔ گویا حرارت کو خرچ کرکے اس کو کم کرتے رہتے ہیں۔ ایسے اجزاء میں ہائیڈروجن زیادہ پائی جاتی ہےان کو (Energy)طاقت کا نام دیتے ہیں ۔ تیسرے ایسے اجزائے اغذیہ جسم میں پیدا شدہ حرارت کو قائم رکھتے ہیں جیسے اجزائے لحمیہ ایسے اجزاء اپنے ہضم میں اگرچہ زیادہ حرارت کے محتاج نہیں ہوتے لیکن حرارت کو یہ بس ایک حد تک خرچ کرتے ہیں اور جسم میں جوش و خروش پیدا کرکے حرارت اورخون کو جسم میں دُوردُور تک پھیلاتے ہیں۔ ان میں کاربن زیادہ پائی جاتی ہے ان کو ہم جرات(Force) کہتے ہیں۔
جب جسم میں حرارت کی کمی واقع ہوتی ہے تو لازمی امر ہے کہ یا تو انرجی بڑھ جائے گی یا فورس زیادہ ہوجائے گی۔ اول صورت میں جسم نرم اور پلپلاہوجائے گا اور بلغمی امراض پیداہوجائیں گے اور دوسری صورت میں فورس بڑھ جائے گی۔ جس سے جسم میں کاربن، ریاح، تبخیر، ایسڈیٹی (ترشی) میں تبدیل ہوجائےگا۔ جس سے جسم میں سوزش اور خشکی نمودار ہوجائے گی۔ نتیجہ میں جسم دبلااور خون گاڑھا ہوجائے گا۔ یہی وہ صورت ہے جب ٹی بی کی ابتدا ہوتی ہے۔چونا کیمیائی طورپرایسا سمجھا جاسکتا ہےکہ وہ ایک ایسی کھار(الکلی) ہے جس میں کاربانک ایسڈگیس میں تبدیل ہوجاتے کی زبردست صلاحیت ہے۔ اس میں نہ ہائیڈروجنی اجزاء ہیں اور نہ آکسیجن ہائی جاتی ہے۔ گویا یہ ایک قسم کی اہم تیزابیت کا مظہر ہے۔ جن لوگوں کے جسم میں اس کی زیادتی پائی جاتی ہے۔اُن کے جسم انتہائی خشک، دبلے، پتلے، قبض اور بواسیرکے دائمی مریض ، ریاح، تبخیرمیں مبتلااورآخرکار تپ دق میں گرفتار ہوکراس دنیا کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیتے ہیں۔پان کھانے والوں کو دیکھا گیا ہے کہ جو چونا زیادہ کھاتے ہیں۔ ان کے مسوڑھے گل جاتے ہیں اور دانتوں کا انیمل(چمک) اُترجاتا ہےاور ان کے جسم میں چونا کی زیادتی کی تقریباً تمام علامات نمایاں طورپر پائی جاتی ہیں۔
فاعتبرو یا اولی الابصار
از: حکیمِ انقلاب دوست محمد صابر ؔملتانی
جواب نمبر3
محترم جناب عبدالحید فرماتے ہیں کہ “انسانی جسم کو پرورش پانے ، پھلنے پھولنے اور قائم رہنے کےلئے خوراک کے سب اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے اگر ایک حصہ متواترنہ ملے۔ تو اس کی کمی کی وجہ سے جسمِ انسانی کوکوئی نہ کوئی بیماری لگ جاتی ہے۔ لہذایہ ضروری ہے کہ ہمیں خوراک متوازن اورموزوں ملنی چاہیے۔ یہ بھی ظاہرہے کہ خوراک کے ضروری اجزاء ایک چیزمیں مکمل اور مناسب نہیں مل سکتے ۔ ہماری روزانہ خوراک میں مختلف چیزیں شامل ہونا ضروری ہیں یعنی گوشت، سبزی، ترکاری، گھی، دودھ ، انواع و اقسام کے پھل اور میوہ جات وغیرہ۔یہ ضروری نہیں کہ ہرروز اور ہر کھانےکے ساتھ یہ سب ہی کھائے جائیں۔ بلکہ کبھی کوئی کبھی کوئی جیسے موقع ملتا جائے۔ لیکن یہ نہیں ہوتاکہ کبھی بھی نہ کھایاجائے اور اپنی روزانہ خوراک صرف دال روٹی ہی رکھی جائے۔ سبزیاں اگراچھی طرح صاف کرکےکچی کھائی جائیں تو بہت ہی مفید ہیں۔ ان میں گاجر ، مولی، شلغم ، ٹماٹر، بھنڈی توری اور اس قسم کی دوسری چیزیں آسانی سے دستیاب ہوسکتیں ہیں۔ “گزشتہ پرچے میں جناب لونؔ صاحب نے خوراک کے سب ضروری اجزاء کا ذکرکیا ہے کہ کوئی بھی ضروری اور مکمل غذانہیں جس سے غذا کے ضروری اجزاء مثلاً پروٹین، کاربوہائیڈریٹس، سالٹ(Mineral) اور حیاتین سب بیک وقت حاصل ہوسکیں۔اس کے مقابلہ میں ہم نے کہا تھا۔ ماڈرن سائنس اورفرنگی طب کا یہ مسئلۂ غذافِٹ نہیں بیٹھتا۔ بلکہ یہ خیالی اور وہمی ہےاس پر کوئی عمل کرکے دیکھ لےکبھی کامیابی نہیں ہوگی۔جس کے متعلق ہم دلائل پیش کرچکے ہیں اور اس کے مقابلےمیں ہم نے غذاکے متعلق اہم اور سادہ نظریہ پیش کیا ہے کہ غذامیں صرف ان سائنسی اجزاء کو مدِنظررکھنے کی بجائے صرف ان تین کیفیات کو مدِنظررکھنا چاہیے۔1 ۔حرارت ۔ 2۔ رطوبت۔3۔طاقت۔ ان کی ایک طرف سمجھنےمیں آسانی ہوتی ہے، دوسرے ہر عامی سے عامی شخص بھی اس سے مستفیدہوسکتا ہے۔ بلکہ ہرشخص کم وبیش جانتا ہے کہ فلاں شے گرم ہے اور فلاں تر ہے اور فلاں غذامیں قوت ہے۔ ان کے مقابلہ میں ایک انگریزی پڑھالکھا انسان چاہے ایم ۔اےہویا بی۔اے بلکہ خود ڈاکٹر بھی اپنی غذامیں پروٹین ،کاربوہائیڈریٹس، سالٹ،فیٹس اور وٹامن کااندازہ نہیں لگا سکتا۔ آپ فرمائیں۔آپ اپنی غذاکاا س طرح اندازہ کرسکتے ہیں۔ اگر کرسکتے ہیں تو میری طرف سےکسی وقت بھی میرے غریب خانہ پریاکسی بھی ہوٹل میں دعوت قبول کر لیں۔ اور اپنی غذاکا اندازہ کرکے بتائیں۔ اگرآپ نہ کرسکیں تو کسی اور ایسے امریکن ڈاکٹر کو ہمراہ لے آئیں وہ کرکے بتا دے۔ میرا چیلنج ہےکہ وہ کبھی بھی نہ کرسکے گا۔کیونکہ یہ صرف یورپ اور امریکہ کے پراپیگنڈے ہیں جن کی کوئی اصلیت نہیں ۔ یہ صرف دوسروں کو بتانے کےلئے وہمی اورخیالی تصورات ہیں۔ جب ان کو کھول کردیکھیں گے تو اندر سے کھوکھلاپائیں گے۔ یاد رکھیں جب ان سائنسی غذائی اجزاء کے مرکب کی اوسط لگاکر حرارت ، رطوبت اور قوت کا اندازہ نہ لگا سکیں گے۔اس وقت تک کوئی مستفیدنہیں ہوسکےگا۔ اور ایسا اوسطاً اندازہ صرف غذاکے ہضم اور جزوِ بدن ہونے سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ہر شخص کے جسم میں حرارت ، رطوبت اورطاقت کی نسبت جداہوتی ہے۔کوئی نمکین پسند کرتا ہے کوئی میٹھا، کوئی روغنی پسند کرتاہےاور کوئی خشک اشیاء واغذیہ کا دلدادہ ہے ۔ ایسی صورت میں سائنسی غذاکاتوازن اور تناسب کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ جب تک غذامیں صحیح توازن اور تناسب نہ ہوتو جسم کوپرورش پانے اور پھلنے پھولنے کا سوال ہی پیدانہیں ہوسکتا۔
اگر یورپ و امریکہ اور انگریزی تعلیم یافتہ لوگ غذامیں ایسا ہی توازن اور تناسب لگا سکتے ہیں۔ پھر وہ بیمار کیوں ہوتے ہیں۔ بلکہ ہم لوگوں سے زیادہ بیمار ہوتے ہیں اور معمولی امراض نہیں بلکہ بڑے بڑے امراض مثلاً دق سل، فالج و لقوہ، ضعفِ اعصاب، خرابئ خون، نروس بریک ڈاؤن ، ہارٹ فیل اور اب ایک نیا مرض پھیلایاجارہاہے جس کا نام الرجی رکھا گیاہے جس کوآپ حساسیت کہہ سکتے ہیں یعنی مریض میں اس قدر احساس بڑھ جاتاہےکہ اس مرض کو چھوڑہی نہیں سکتا۔دیکھ لیں ایک سال کے اندرایک چوتھائی ملک الرجی میں گرفتار ہوجائے گا۔ لاحول ولا قوۃالابااللہ۔ جب یورپ اورامریکہ اورآپ جیسے انگریزی دان طبقے کی یہ حالت ہے کہ وہ امراض سے محفوظ نہیں تو پھرہم لوگوں پرآپ کے وعظ کیااثر کرسکتے ہیں۔”دیگراں را نصیحت اور خودمیاں فضیحت”۔ یہی صورت آلو کی صورت میں پیداہوتی ہے۔جب عام غذا کوسائنسی اصولوں پرموزوں اور متوازن نہیں کیا جاسکتا۔توپھرآلوجیسی خشک ،قابض اور دق سل پیداکرنے والی غذاکومتوازن اور موزوں کیسے کہا جاسکتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ اس سے دورہی رہاجائے۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہےکہ جب سے امریکہ اور یورپ کی تہذیب و تمدن، تعلیم و زبان، اغذیہ وادویہ ہمارے ملک سے آئی ہیں۔ٹی بی اور دق سل اور دیگر امراض بہت بڑھ گئے ہیں۔آج تیس چالیس سال قبل کہیں دس پندرہ میل پر کوئی ایک آدھ دق سل کا مریض نظر آتا ہے۔ابھی تک بھی فرنگی کی تسلی نہیں ہوئی جو ہم کوآلواور اپنی گندم کھلاکرہی سہی بھی ہمارے ملکی کی “مین پاور”کوخراب کرنا چاہتا ہے۔تاکہ ہم ان کے محتاج بن کررہ جائیں۔
یہاں تک تو سائنسی اغذیہ کے متوازن اور موزوں تناسب کاذکرتھا۔اب ذراوٹامن(حیاتین) کی خوبیاں سن لیں۔ شاید آپ کوتعریف سننےکی عادت ہواور گلہ شکوہ اور ان کی بُرائی سے کان ناآشنا ہوں۔ بہرحال مجھے اپنے ملک وقوم اور علم و فن کی بھلائی کے لئےیہ تلخ حقیقت بھی بیان کرنا پڑے گی تاکہ یورپ و امریکہ کی تہذیب و تمدن اور سائنس وزبان سے فریب خوردہ لوگ صحت مند علم اور صحیح فن سے واقف ہو جائیں۔ جاننا چاہیے کہ اول تو ہماری تہذیب و تمدن میں یہ بات بُری ہے کہ حیوانوں کی طرح کچی سبزیاں مثلا گاجر، مولی، ٹماٹراور بھنڈی توری وغیرہ کھالیا کریں اس میں سلاد جوخاص فرنگی تحفہ تھا۔ وہ تو چھوڑہی گئے ہیں۔ کچی سبزیاں کھانا حیوانوں کا کام ہے۔ البتہ گاجر، مولی وغیرہ بعض مضبوط معدہ والے دیہاتی کھا لیتے ہیں۔ ورنہ ایک عام شخص بھی جانتا ہے کہ اگر گاجر، مولی وغیر کو ہانڈی میں پکایا جائے تو بڑی مشکل سے ہانڈی میں گلتی ہے اول تو گلتی ہی نہیں ۔ اگر کھانے کے قابل ہوبھی جائے تو بھی ہضم نہیں ہوتیں۔ بے انتہا ریاح پیدا ہوتے ہیں۔ پھر مولی کے ریاح میں تعفن اور بدبواتنی ہوتی ہے کہ کوئی پاس نہیں بیٹھ سکتا اور کچی مولیاں اور پیاز کھائے ہوئے شخص سے کوئی بات نہیں کرسکتا۔ کیونکہ ایسے شخص کے منہ سے خوفناک قسم کی بدبُو آتی ہے۔ حضرت رسول اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ بدبودار شے کھا کر مسجد میں نہ کیا کرو کہ وہ نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے لیکن ہم ایسےیورپ و امریکہ کے مقلد ہیں کہ ہم کو دوسروں کے دکھ پہنچ جانے کی کیا پروا ہے۔ ہم نے وٹامن حاصل کرکے اپنی صحت بنانی ہے ۔(حقیقت میں تباہ کرنی ہے۔)
سائنس کہتی ہے کہ گاجرمیں ہرقسم کے وٹامن ہوتے ہیں اور کثرت سے ہوتے ہیں۔ لیکن فرنگی سائنس دانوں کو کون سمجھائے کہ گاجرکا مزاج سرد ہےہم صرف گرم مزاجوں کو کھلاتے ہیں اور وہ بھی اس کا مربہ جو دل کے لئے مفرح ہے۔ البتہ جب ویسے ہی کھانا ہوتا ہے تو اس کاحلوہ بناتے ہیں جس کا مزاج گرم تر ہوجاتا ہے۔اگر کوئی شخص چند دن کچی گاجریں کھائےتواول ہاضمہ خراب ہوجائے گا دوسرے کثرتِ بول کامرض شروع ہوجائے گا۔ آخرکار ضعف جگرو کلیہ اور دل ڈبنا شروع ہوجائے گااور اگر پھر بھی استعمال جاری رہاتو ذیابیطس کامرض پیداہو جائے گااورپھر اس طرح موت واقع ہوجائے گی۔ ہم لوگ غذاسائنسی طریق پر نہیں کھلاتے بلکہ گرمی وسردی اور تری و خشکی کومدنظر رکھ کرکھلاتے ہیں جولوگ وٹامن کے چکرمیں پڑے صحت کا ستیاناس ہوگیا۔ پھر فرنگی سائنسی غذاکووہ بے بھاؤکی سناتے ہیں کہ کان برداشت نہیں کرسکتے۔ اللہ رحم کرے۔ اسی طرح انڈے میں بھی ہرقسم کے وٹامن کثرت سے پائے جاتے ہیں لیکن جوبے چارہ کیفیات اور مزاج کو مدِ نظررکھے بغیر صرف وٹامن کی خاطرروزانہ زیادہ سے زیادہ کھاتا ہے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں قبض اوربواسیرکا شکارہو کر کمزور ہوناشروع ہوجاتا ہے۔ آخرکاراس کو کثرت سے خون آنا شروع ہوجاتا ہے۔ انڈا شروع کیاتھا طاقت کے لئے مگر ایسی کمزوری ہوجاتی ہے کہ ساری عمر وٹامن کانام لینا گناہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ تو چند مثالیں ہیں۔ ورنہ اگر ٹماٹر، بھنڈی اور سلاد وغیرہ کاذکرکیاجائے تو بے حد طوالت ہو گی۔ یہ تجربہ یقین کی حدتک پہنچ گیاہے کہ جس کسی نے بھی کچی سبزیاں کھاناشروع کیں بس تھوڑے ہی عرصہ میں ہی توبہ کرلیتا ہے اور پھر کبھی کسی سے نہیں کہتا کہ کچی سبزیاں کھایا کرو۔ لونؔ صاحب معلوم ہوتاہے کہ آپ خودکچی سبزیاں نہیں کھاتے ورنہ ان کاذکر نہ کرتے۔ آپ ذراایک ماہ استعمال کرکے دیکھیں، تجربہ ہوجائے گا۔ اگر بیمارنہ ہوے تو ہم ذمہ دار ہیں۔
تہذیب اور اغذیہ تہذیب، انفرادہ ہویا تہذیب اجتماعی، تہذیب اخلاق ہویاتہذیبِ فنون، ہرصورت میں یہی ملکہ پیداکیا جاتا ہے کہ فردِ واحدیا شہریت میں انس وآدمیت اور خدمت کا جذبہ پیداہوجائے اوردشمنی، بدکرداری ونفس پرستی کوختم کردیا جائے۔کیونکہ اول الذکر تہذیب اور ثانی الذکر کو خلافِ تہذیب کہتے ہیں۔ اس معیار کوسامنے رکھ کرماہرینِ اخلاق، مدیرانِ تہذیب اور اہلِ مذہب نے اغذیہ کی افادیت اور استعمال کوسامنے رکھا ہے اور انسان کو ہر اس غذاسے بچایا جائے جو اس کووحشت وبربریت اور فساداخلاق وتہذیب کی طرف لے جاتی ہے۔ اور اس معیارکا تسلسل انسان کے خون میں تہذیبِ اخلاق کا نورپیداکردیتا ہے۔ اسلام نے حلال اغذیہ حلال جانور ہوں یا حلال کی کمائی ہوں کی تاکید کی ہے۔حرام اغذیہ سے روکا ہے اور ایسے جانورجن کی غذاسے روکاگیاہے اس میں وحشی جانورجیسے شیر، چیتا، ریچھ، بھیڑیا وغیر ، بدکردار جیسے سور، لومڑ، کتا، بندر وغیرہ ، بدفطرت جیسے بلی ، چوہا، چھپکلی وغیرہ ، کیونکہ حرام اغذیہ سے بالکل ویسا ہی خون پیداہوتاہے جو شے استعمال کی جائے۔ ان سے انسانی اعضاء اور خون بالکل ویسا ہی ترتیب و ترکیب اور تربیت پاجاتا ہے اور ان سے امراض اور فسادِ خون کی جوصورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ وہ ایک طویل مسئلہ ہے جس کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ان حقائق سے مسئلۂ حقیقت سامنے آجاتا ہے کہ مزاجِ انسانی جو حقیقی مزاج کے تقریباًبالکل قریب ہے ہر اس شے سے بگڑجاتاہے اور فساد قبول کرلیتا ہے جو اس میں افراط وتفریط پیدا کریں یا جن کے ہضم کرنے میں جسم انسان کو بہت محنت کرناپڑے ۔ اس طرح رفتہ رفتہ اس کی استعداد اور قدت کمزورہوجاتی ہے اور نتیجۃ ً اعضاء اور خون دونوں میں خرابی اور فساد ہوتا ہے۔
جاننا چاہیے کہ سبزیاں اور ترکاریاں کچی کھائی جائیں یا پکی۔ خالص اغذیہ میں شمارنہیں ہوتیں۔ ان کودوائے غذائی کہا جاتا ہے۔گویا ان میں غذائی اثر بہت کم اور دوائی اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے مقابلہ میں پھل اور میوہ جات غذائی دوا ہیں یعنی جس میں غذائیت زیادہ اور دوائیت کم ہوتی ہے۔ خالص غذا صرف دودھ، گوشت اور گندم ہیں۔ انڈے، مچھلی اس میں شریک ہیں۔ خالص غذاکی تعریف یہ ہے کہ جسم سے متاثر ہوکر جزوِ بدن نہ ہو بلکہ جسم پراثراندازہو۔اس حقیقت سے ثابت ہوا کہ سبزیوں کاایک کثیر حصۃ جزوِ بدن نہیں ہوتابلکہ دواکی صورت میں جسم ِ انسان کو متاثرکرتا ہے۔ جب پختہ سبزیوں کا یہ حال ہے کہ وہ پورے طورپرہضم نہیں ہوتیں اور جزوِ بدن نہیں ہوتیں توبھلا کچی سبزیاں کہاں تک ہضم ہوکر جزوِ بدن بن سکتی ہیں ان کے استعمال سے اول معدہ خراب ہوتا ہے۔ پھر کیفیاتِ جسم(مزاجِ انسانی)بگڑنا شروع ہوتا ہے اس کے بعد اخلاط اور خون میں خرابی اور فساد اور نتیجۃً افعال جسم میں افراط وتفریط پیدا ہوجاتا ہے جس کااثر اخلاق اور انسانی صحت پرپڑتا ہے۔ اگر تاریخ کامطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہےکہ سوائے فرنگی دورکے کسی اوردَوریا تہذیب میں کچی سبزیاں کھانے کا ذکر نہیں ہے۔ ابتدائی وحشت و بربریت کے دَور میں بھی ہمیں گوشت اورپھل بطورغذامعلوم ہوتے ہیں مگرکچی سبزیاں کیا ہمیں پکی سبزیاں اور ترکاریاں کا پتا نہیں چلتا۔
قرآنِ حکیم میں فرمایاگیاکہ حضرت موسی کی قوم پراللہ تعالیٰ کی طرف سے من و سلویٰ اُترتاتھاجن کے متعلق مفسرین کا بیان ہے کہ وہ گوشت اور مٹھاس تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ناشکرگزارقوم نے حضرت موسیسے اصرار کیاکہ ان کومن و سلویٰ کی بجائےبصل، تھوم ، عدس وغیرہ سبزیاں دی جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش منظورکرلی۔۔ مگر ان پرہمیشہ کےلئے ذلت اور مسکینی لازم کردیں۔حضرت رسولِ کریمﷺ کی ساری زندگی میں کہیں کچی سبزی کا ذکر نہیں ہے۔ آپﷺ کو کئی کئی فاقے آئے۔پیٹ پر دودو پتھرباندھے مگر کچی سبزی کا ذکر نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ عرب ریگستانوں میں سبزیاں کہاں پیداہوتی ہیں۔ لیکن آپﷺکے بعد خلفائے راشدین کے دورمیں جبکہ دنیابھر کی دولتیں مدینہ طیبہ میں اکٹھی ہوتی تھیں۔ کچی سبزیوں کے استعمال کا ذکر نہیں ملتا۔ اسلام میں سب سے زیادہ نفس کشی کرنے والا طبقہ صوفیائے کرام کاہے۔ اگر دیکھاجائے توایک معنوں میں خدااور لذائذکوترک کردیتے ہیں۔ ان کے ہاں بھی کچی سبزیوں کے استعمال کا ذکرنہیں آتا۔ مذہب اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب اور تہذییب میں کچی سبزیوں کی تاکید نہیں کی گئی۔ وئیدانیت، ہندومت، چین مت اور بدھ مت تمام کے تمام اس کھانے کو پاپ خیال کرتے ہیں۔ مگران میں بھی کچی سبزیوں اور ترکاریوں کا رواج نہیں ہے۔ غرض دنیا کی پوری کی پوری تاریخ اس تصورسے خالی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر فرنگی طب اوار ماڈرن سائنس کیوں کچی سبزیوں اور ترکاریوں پرزور دیتے ہیں۔ وہ صرف اس لئے زور دیتے ہیں کہ عوام وٹامن کی اہمیت ، شوق اور عادت پیداکریں۔ تاکہ جب وہ وٹامن کے چکرمیں پھنس جائیں تو پھر وٹامن ادویات خریدنا شروع کردیں۔ دوسری طرف فرنگی ڈاکٹروں کو اس چکرمیں پھنسادیا ہے کہ وٹامن کی کمی سے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ جب مریض ان کے پاس آئیں اور کمزوری کی شکایت کریں اور ان کو فوراً کہوکہ وٹامن غذامیں کم ہوگئے ہیں۔ فلاں فلاں وٹامن دوائیں کھائیں تاکہ یورپ اور امریکہ کی ادویات بکتی رہیں اور دولت ہماری بربادہوتی رہے۔جناب لونؔ صاحب کچھ سمجھ آیا کہ کتنا بڑا دھوکا قوم کو دیا جارہا ہے اورپاکستانی ڈاکٹروں اورانگریزی تعلیم یافتہ آپ جیسے لوگوں سے مل کر ملک اورقوم اور اس کی دولت کوبرباد کیا جارہا ہے۔ آپ خود اندازہ لگالیں کہ آلو کھانے کا کیا مقصد ہے جو برائے نام غذاہے اور اس کا روزانہ استعمال انسانی صحت کو تباہ کردیتا ہے اور امریکن آلوتو بہت ہی نقصان رساں ہیں۔ گویا پاکستانیوں کے لئے زہرِ قاتل ہے۔بالکل اسی طرح جیسے امریکن سرخ گندم ہمارے لئے نقصان رساں ہے۔ جب سے یہ گندم ہمارے ملک آئی ہے90 فیصد ٹی بی بڑھ گیا ہے۔اگر کسی کو شک ہوتو اعدادو شمار لے لئے جائیں کہ جب امریکن گندم ہمارے ملک نہیں آئی تھی اس وقت کتنے فیصد تھا۔ اور سرخ گندم آنے کے بعد کتنے فیصد ٹی بی بڑھ گیا ہے۔ اور جب امریکن آلو یہاں پہنچ گیا تو رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے گی۔ پھر ملک کی صحت صرف اللہ تعالیٰ ہی حافظ ہوں گے۔
از: حکیمِ انقلاب دوست محمد صابر ؔملتانی
جواب نمبر4
گزشتہ تین اقساط میں ہم نے مسٹر عبدالحمید لونؔ صاحب ہیلتھ ایجوکیشن آفیسر نیشنل ٹی بی ایسوسی ایشن آف پاکستان (لاہور) کے ان غلط عقائد کے جوانہوں نے امریکہ اورفرنگی طب (ڈاکٹری)سے حاصل کئے۔تسلی بخش اور فیصلہ کن عقلی اور نقلی جواب دئیے۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہ ان کے جواب نہ دیں سکیں گے۔اور ہم نے ان کو چیلنج کیا ہے کہ امریکہ کے تمام سائنس دانوں کو ہمارے سامنے اکٹھا کردیں۔ انشاء اللہ خواص الاغذیہ میں ہمارا مقابلہ نہیں کریں گے۔ بلکہ ہم ان کو خواص الاغذیہ میں ان کو چیلنج کرتے ہیں۔ لونؔ صاحب نے یہ کیوں فرض کرلیا ہے کہ انسانی دماغ صرف امریکہ اور برطانیہ میں تیارہوتے ہیں اور ہمارا ملک ان خوبیوں کا اہل نہیں ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے مرض ٹی بی پر بھی کچھ روشنی ڈالی ہے۔ میراخیال تھا کہ اس کا جواب نہ دیا جائے کیونکہ ٹی بی کے متعلق میری تحقیق اور شرطیہ نسخہ رسالہ رجسٹریشن فرنٹ کے تپ دق اور سل (ٹی بی)نمبرجومیری نگرانی سے فیض باغ لاہور سے شائع ہوتا ہے اس میں شائع ہوچکی ہے۔ اس میں رفعت مآب صدرِ پاکستان فیلڈمارشل ایوب خاں کے نام ایک چھٹی ہےجس میں چیلنج کیاگیا ہے کہ فرنگی طب کی ٹی بی کی تحقیقات اوار علاج غلط ہیں اور اگر ان کویقین نہ ہوتو رفعت مآب ہائی کورٹ کے دو جج بٹھا دیں اور ایک پوری ٹیم امریکہ سے اور ایک پوری ٹیم روس سے اور ایک پوری ٹیم یورپ سے منگوالیں اورمجھے کٹہرے میں کھڑا کرلیں۔ اگر میں ان کی تحقیقات اور علاج بلکہ ان کی تمام طب کو غلط ثابت نہ کردوں توجوچاہیں مجھے سزا دیں۔ مگر دوستوں کا یہ اصرار تھا کہ پورے مضمون کا جواب لکھاجائےتاکہ اس کو شائع کراکےدنیا بھر کے سفارت خانوں اور حکومتوں کو روانہ کیاجائے سو ان کے احترام میں باقی مضمون کا جواب درج ذیل ہے۔
لونؔ صاحب لکھتے ہیں۔”آئیے ہم حقیقت کی کسوٹی پرپرکھتے ہوئے بنظرِ غائر موذی تپ دق کے لگ جانے کی وجوہات کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ اس کا “آلو”کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ تپ ِ دق ایک متعدی بیماری ہے جو ایک جراثیم سے لگتی ہے جسے انگریزی میں (Tubercle Bacillus) کہتے ہیں۔ یہ جراثیم جہاں بھی انسانیت کا وجود موجود ہے، پائے جاتے ہیں اور ہروقت حملہ کرتے رہتے ہیں،اور جو بھی موزوں جگہ ملےوہاں ڈیرہ ڈال لیتے ہیں، یعنی مضبوط جسم میں جراثیم کے خلاف “قوتِ مدافعت ” زیادہ ہوتی ہے وہ اس کا مقابلہ کرتا ہےاور بیماری پر قابوپالیتا ہے۔ پس جتنی قوتِ مدافعت زیادہ ہوگی اتنا ہی جسم بیماری لگنے سے محفوظ رہے گا۔ قوتِ مدافعت کا انحصار ہماری جسمانی حالت پرہے اور جسمانی حالت کا مضبوط اور کمزورہوناخوراک اور اس کی غذائیت پرہوتا ہے، اگر ہماری خوراک موزوں اور متوازی ہوگی تو لازمی طورپر قوتِ مدافعت تیز ہوگی اورہم بیماری سے محفوظ رہیں گے۔”
مندرجہ بالااقتباس میں جناب لونؔ صاحب حقیقت کی کسوٹی پیش کررہے ہیں جس سے مرض تپِ دق کے لگ جانے کی وجوہات اور اس کا “آلو”کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ انہوں نے حقیقت کی کسوٹی وغیرہ توکوئی بیان نہیں کی البتہ تپِ دق کے متعلق فرنگی طب کی وہی پرانی رٹ لگائی ہے کہ “تپِ دق متعدی بیماری ہے”یہاں پر تین سوال پیداہوتے ہیں۔1۔ کیا بغیرچھوت کے یہ مرض ہوسکتاہے؟۔2۔ جراثیم کا حملہ باعثِ مرض ہے یا قوتِ مدافعت کی کمی۔3۔ موزوں اور متوازن خوراک باعثِ مرض ہےیا باعثِ تندرستی۔ اور آخر میں جراثیم اندر پیدا ہوتے ہیں یا باہرسے حملہ کرکے اندر اڈا بنا لیتے ہیں۔ خود فیصلہ کریں پہلے انڈہ یا مرغی کی خرابی۔یہ تینوں سوال جناب لونؔ صاحب کی تحریرسے لئے گئے ہیں۔ افسوس کہ لونؔ صاحب فرنگی طب (ڈاکٹری)کے گورکھ دھندوں کو نہیں سمجھ سکے۔ ورنہ یہ متضاد باتیں کبھی نہ لکھتے۔ وہ کیا بڑے بڑے ڈاکٹر بھی لکیر کے فقیر ہیں اور اندھا دھند چلے آرہے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ سینکڑوں سالوں سے جس منزل کی طرف چلے جارہے ہیں وہ منزل کیوں نہیں نظرآتی۔حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ تین سوسال سے فرنگی طب اور ماڈرن سائنس کی تحقیق میں دعوے پر دعویٰ کررہی ہے مگر آج تک ان کو نہ صحیح طورپر ٹی بی کا علم ہوا ہے نہ ہی اس کے علاج میں کامیابی ہوئی ہے۔ اور اس طرح کےگورکھ دھندے اور بھول بھلیوں میں عوام کوگرفتارکردیاہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ٹی بی متعدی مرض ہے جب قوتِ مدافعت کمزور ہوجاتی ہے تو جسمانی حالت خراب ہوجاتی ہے، گویا مرض پیداہوجاتا ہے۔ اگر ان سے کہاجائے کیوں بھائی! الٹی طرف سے کان کیوں پکڑتے ہوسیدھی طرح ہی کہہ دوکہ جب جسمانی خراب ہوجاتی ہے یقیناً اعضائے جسم میں نقص پیداہوجاتا ہےتوخوراک جزوِ بدن نہیں بن سکتی۔ جب جسم میں خوراک کا توازن اور موزونیت قائم نہیں رہتی تو قوتِ مدافعت کمزورہوجاتی ہےتوجراثیم حملہ کردیتے ہیں اور مرض ٹی بی پیداہوجاتا ہے۔ بات تویہ سمجھنے والی ہے کہ قوتِ مدافعت کی کمزوری مقدم ہے یا اعضاء کی کمزوری مقدم ہے۔(جراثیم کا فی الحال ذکر بے سود ہے)قوتِ مدافعت کاانحصار اعضاء کی مضبوطی پرہے۔یا اعضاء کی مضبوطی کا دارومدار قوتِ مدافعت پر ہےتویقیناً جراثیم کے حملے اور مرض کے پیداہونے کامسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ اس لئے ہم نے اوپرتین سوال کئے ہیں جن کے جواب درج ذیل ہیں ۔ ہم تمام فرنگی طب خصوصاً امریکہ کوچیلنج کرتے ہیں کہ وہ ہمارے جوابات عقلاًیاسائنس کے تجربات سے غلط ثابت کریں۔
1۔ٹی بی کے متعلق جویہ کہا جاتا ہےکہ وہ ایک متعدی مرض ہے یعنی بغیر جراثیم کےپیدا نہیں ہوتا۔ حالانکہ یہ ایک ایسا جھوٹ ہے جو اس چور کی طرح بولاجاتاہے جو چوری کرنے جاتا ہے اور اس کے ہاتھ میں چراغ ہو۔ حیرت ہے کہ ایک طرف فرنگی طب (ڈاکٹری)خود تسلیم کرتی ہے کہ (ا)۔ جب تک قوتِ مدافعت میں کمی پیدانہ ہو(ب)۔ خوراک میں غیرمتوازن اورغیرموزوں صورت پیدانہ ہو۔اور خاص طورپر اعضاء میں خرابی واقع نہ ہو۔اس وقت تک جراثیم اپنااڈا جسم میں نہیں جماسکتے۔ پھرٹی بی سارا دارومدارجراثیم پرڈال دینا کہاں کی عقل مندی اور علمی تحقیق ہے۔ ہم تو یہاں تک بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ ایک بالکل تندرست انسان پر ٹی بی کے جراثیم مسلسل حملہ کرکے اس کو کمزور کردیتے ہیں اور اس ٹی بی میں مبتلا کردیتے ہیں۔ لیکن وہ انسان اس وقت تک ٹی بی میں مبتلا نہیں ہوتا جب تک اُس کی قوتِ مدافعت کمزور اوراعضاء کے افعال خراب نہ ہوجائیں اس سے ثابت ہوا کہ جراثیم کے حملے کچھ حقیقت نہیں رکھتے جب تک قوتِ مدافعت کمزوراور اعضاء کے افعال کمزور نہ ہوجائیں۔ اب ثابت یہ کرنا ہےکہ قوتِ مدافعت کی کمزوری مقدم ہے یا کہ اعضاء کے افعال کی خرابی مقدم ہےیاکہ اعضاء کے افعال کی خرابی مقدم ہے۔ اس کا جواب بہت آسان ہےاور عام ذہن بھی سمجھ سکتا ہےکہ جسم ہمیشہ قویٰ کا حامل ہوتاہے۔ یعنی اعضاء کے صحیح افعال ہی قوتِ مدافعت کے حامل ہیں۔ جب اعضاء کے افعال میں خرابی واقع ہوگی۔اس وقت قوتِ مدافعت بھی یقیناً مضبوط نہیں رہ سکتی۔ کیونکہ قوتِ مدافعت کاداررومدار اعضاء کی درستی پرہے۔ جب قوتِ مدافعت درست ہوگی توجراثیم کاحملہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ پھر جراثیم کو سبب فاعلہ کیوں کہا جائے۔ گویا اصل سبب اعضائے جسم کےافعال کی خرابی ہے نہ کہ جراثیم کاحملہ۔ جراثیم ایک سبب ضرورہوسکتا ہےجیسے۔1۔ غذاکی خرابی۔2۔آب وہواکی خرابی۔3۔حرکت وسکون۔4۔قوایٰ جسمانی کی بے اعتدالی۔5۔ حرکت وسکونِ نفسانی کی خرابی یعنی غم وغصہ وغیرہ اسی طرح استفراغ اور انقباض موادکاپیداہوجانا وغیرہ وغیرہ۔ اسبابِ مراض میں شریک ہوسکتے ہیں۔ مگرسبب فاعلہ صرف اعضاء کی خرابی ہی تسلیم کی جاسکتی ہے۔کیونکہ جب تک اعضاء درست افعال انجام دیتے رہیں گے۔تمام جراثیم اندرجسم میں فنا ہوتے رہیں گے اور قوتِ مدافعت مقابلہ کرتی رہے گی۔صرف جراثیم باعث ٹی بی نہیں ہیں۔
کیاکوئی انکار کرسکتا ہے کہ غم اور غصے کی زیادتی یا زہریلی ادویات مرض دق پیدا نہیں ہوسکتا۔ جس طرح دیگر اسباب مثلاً مادی اور کیفیات جسمِ انسانی کے اعضاء میں تغیروتبدل اور ان کو اعتدالِ عمل سے دور ہٹا سکتے ہیں۔ کیا غم وغصے کے وقت اعضاء کے افعال میں اعتدال رہتا ہے؟ کیا ان میں افراط وتفریط واقع نہیں ہوجاتا؟ ضرور ہوجاتا ہے کوئی بھی صاحبِ فہم و فراست ان حقائق سے انکار نہیں کرسکتا ہے اور اگر ان جذبات میں تسلسل قائم ہوجائے اعضاء کے افعال ایک غلط ڈگر پرقائم ہوجائیں گے۔ بس انہی کا نام مرض ہے۔ جاننا چاہیے کہ کوئی حالت کسی فعل و کیفیت اور غذا، دوا سے اگر وقتی طورپر پیداہوجائے جیسے تھکن، جسم کا گرم و سرد ہونا اور بے چین ، توطبیعت مدبرہ بدن اس کو واپس اعتدال پر لے آتی ہے اور اگر ان کا تسلسل کچھ قائم رہے تو پھر وہ مستقل ہوجاتا ہےپس یہی مرض کہلاتا ہے۔ جس طرح غم و غصے کا تسلسل امراض پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر جذبات مثلاً خوف وندامت اور مسرت و لذت کا تسلسل بھی امراض پیدا کردیتا ہے۔ ان مسلمہ حقائق سے ثابت ہوا کہ ٹی بی کےلئے دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اثرات بھی باعثِ مرض بن سکتے ہیں۔ مزید ثبوت کے لئے نفسیاتی علم الالعلاج (سائیکوپیتھی) کے ماہرین سے دریافت کیاجاسکتا ہے کہ کیا مرض ٹی بی جذبات کی شدت سے ہوسکتا ہے کہ نہیں۔ ہم انشاء اللہ تعالیٰ ایک ماہرِ نفسیات اِس امر سے انکار نہیں کرے گا۔ بلکہ حقائق پر روشنی ڈالے گا۔
یہی صورتِ زہریلی ادویات کے متعلق بھی ہے۔ مثلاً جن مریضوں کو ٹی بی نہیں ہے اور غلطی سے اس مرض کو ٹی بی سمجھ لیاگیا ہے اور ٹی بی کا علاج شروع کردیا گیا ہے اس مریض کو کیا آرام آئے گا بلکہ اس کا مرض ٹی بی میں منتقل ہوجائے گا۔ خصوصاً فرنگی ادویات جو ٹی بی میں استعمال کی جاتی ہیں۔ تمام کی تمام خوفناک زہریں جیسے سٹپٹومائی سین، دیگر سلفا گروپ اور انٹی بائٹک وغیرہ ۔ اسی طرح پارہ ، سنکھیا اور گریوزوٹوغیر ہ کے مرکبات۔ اگر مزیدیقین کی ضرورت ہو تو ایک تندرست مریض کوسٹپٹومائی سین یا کوئی اور فرنگی طب کاٹی بی کے لئے مفیدنسخہ استعمال کراکے دیکھ لیں۔انشاء اللہ دوتین ہفتے کے اندراندر ٹی بی ہوجاتا ہے۔ پُرلطف بات یہ ہے کہ یورپ اورامریکہ میں جی، بی ،سی کے ٹیکے بالکل بند کردئیے گئے ہیں جو مرض ٹی بی کی روک تھام کےلئے حفظِ ماتقدم کےلئے لگائے جاتے تھے۔ بلکہ تجربہ نے ثابت کردیا کہ جن کوبھی ٹیکے لگائے گئے تھے ان میں یاتو ٹی بی کے مرض کی استعداد پیدا ہوگئی یاوہ لوگ مرض میں گرفتار ہوگئے۔ بتاؤ جناب لونؔ صاحب آپ نے بھی ٹیکہ لگوایا ہے۔ ورنہ تجربہ کرکے دیکھ لیں۔ غذاکے متعلق ہم بہت کچھ لکھ چکے ہیں کہ اس کے غلط استعمال سے بھی ٹی بی پیداہوجاتا ہے مثلاً ۔1۔ غذا میں گھی کااستعمال نہ کرنا۔2۔ خالص گھی خاص طورپر بناسپتی یقیناً ٹی بی پیداکردیتا ہے کیونکہ اس سے ضعفِ معدہ اور تبخیر شروع ہوجاتی ہے اور رفتہ رفتہ جو تیزاب جسم میں پیداہوجاتا ہے وہ انسان کو ٹی بی کردیتا ہے، بغیر گھی کے خوراک اس قدر نقصان نہیں پہنچاتی، جس قدر بناسپتی سے بنی ہوئی نقصان پہنچاتی ہے۔3۔ بغیربھوک کےغذاکھانا۔4۔فرنگی طریقِ زندگی، جس میں بیئرو شراب، کافی، کوکاکولا اور چائے کی کثرت ، سوڈا واٹر، کوکو، رات بھر کلبوں اور سینمامیں جاگنا، جنسی تعلقات کی بے راہ روی وغیرہ خاص طورپر قابلِ ذکر ہیں۔ آج کل جس کثرت سے ٹی بی بڑھ رہاہےاس کے متعلق جناب لونؔ صاحب سرکاری رپورٹس اٹھا کردیکھ لیں اور جن باتوں سےہم نے روکاہے حکومت عوام کاخیال رکھے چھ ماہ میں ٹی بی کااثر نصف سے بھی کم ہوجائے گا۔ٹی بی کے جس قدر بھی اسباب ہیں ان کو سامنے رکھا جائے تو یقین کرنا پڑتا ہے۔ صرف جراثیم کوباعث قرار دینا سچائی نہیں۔ اس امر سے انکار نہیں ہے کہ جراثیم بھی دیگر اسباب میں سے ایک سبب بن سکتے ہیں ۔ مگر سبب فاعلہ اور واصلہ صرف اعضاء ہی ہیں۔
جادو وہ جو سر چڑھ کربولے۔ جناب لونؔ صاحب خود تسلیم کرچکے ہیں کہ مرض ٹی بی ایک متعدی مرض ہےجو جراثیم پیداکرتا ہے اورجراثیم کا حملہ اسی وقت کامیاب ہوتا ہے جب قوتِ مدافعت کمزوراور اعضاء کے افعال کمزور ہوجائیں۔قوتِ مدافعت کا انحصار جسمانی حالت کی مضبوطی پرہےاور جسمانی حالت کی مضبوطی خوراک اور غذائیت پر قائم ہے۔ اس عبار ت سے اچھی طرح اندازہ ہوسکتا ہے۔ ٹی بی کے جراثیم اس وقت تک جسمِ انسانی میں اڈا نہیں بنا سکتے جب تک اس کے جسم کی حالت مضبوط ہے کیونکہ مضبوط جسم سے انسانی قوتِ مدافعت طاقتور رہتی ہے۔ اس پر ٹی بی کے جراثیم بلکہ کسی قسم کے جراثیم اثرانداز نہیں ہوسکتے۔جناب لونؔ صاحب جراثیموں سے عوام میں خوف وہراس پیداکرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ جب یہ جراثیم آپ پربھی حملہ کررہے اور عوام پربھی اورجب آپ کو یقین ہے کہ جب تک اعضاء مضبوط ہیں تو لازماً قوتِ مدافعت قوی ہے پھر ٹی بی کے جراثیم کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تو یہی بات عوام کے ذہن نشین کرائیں اور انہیں جراثیم سے خوف زدہ نہ کریں پھر یہ بھی ذہن نشین کرلیں کہ اگر قوتِ مدافعت کمزورہوجائے گی تو ضروری نہیں کہ ٹی بی کے جراثیم حملہ کرکے اڈا بنا لیں ، دیگر امراض کے جراثیم بھی حملہ کرسکتے ہیں۔ جن میں نزلہ، زکام، نمونیاپلورسی، ٹائیفائیڈ، ٹائیفس، آتشک اور سوزاک وغیرہ بھی اپنے ان جراثیموں کے حملوں کے متعلق بھی سوچاہے۔ آخر آپ کے پاس کیا پیمانہ ہے جس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ قوتِ مدافعت کے کمزور ہوجانے پر کس وقت کس مرض کے جراثیم اثر اور حملہ کرکے اپنا اڈاجسم میں بنا لیں گے۔ یہ بات آپ کے والئ نعمت امریکہ اور یورپ والے بھی نہیں جانتے ہیں۔ یہاں پر بھی ہم آپ کو اور امریکہ اور یورپ کو چیلنج کرتے ہیں ، آپ کی معلومات کے لئے اشارہ دیتے ہیں۔ تفصیل کے لئے ہماری کتب منگوا کرخود مطالعہ کریں اور امریکہ والوں کو بھی دکھائیں۔ امراض ہمیشہ اعضاء کے افراط وتفریط سے پیداہوتے ہیں۔ جس مقام کے اعضاء میں خرابی واقع ہوتی ہے اسی مقام کے اعضاء میں مواد رک جاتا ہے جسم میں جراثیم پیداہوجاتے ہیں یاخاص قسم کے اعضاء میں مواد رک جاتا ہے جسم میں جراثیم پیداہوجاتے ہیں یا خاص قسم کے اعضاء کی خرابی کی سے اسی قسم کی قوتِ مدافعت کمزورہوجاتی ہے اور اس کے مطابق ہی جراثیم حملہ کرکے اپنااڈا بنا لیتے ہیں ۔ مگر یاد رہے کہ اول اعضاء بگڑتے ہیں ۔ پھر قوتِ مدافعت کمزور ہوتی ہے اور بعد میں جراثیم کے اثر کرنے یا نہ کرنے کاسوال پیداہوتا ہے۔
آخری قسط
محترم عبدالمجید صاحب لونؔ فرماتے ہیں کہ اب دیکھنا ہے کیاآلومیں تپ دق کے جراثیم موجود ہیں، جو بیماری پیداکرتے ہیں یا آلومیں ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو قوتِ مدافعت کوکم کردیتی ہیں۔ اگر آلو میں جراثیم بھی موجود ہوں اور قوتِ مدافعت کو کم کرنے والی چیزیں بھی ہوں تو بیماری کا ہوجانا لازمی ہے۔موجودہ قوانین ِ طب اور میڈیکل سائنس کی روسے میں کہہ سکتا ہوں کہ آلو کیا، کسی بھی سبزی وغیرہ میں دق کے جراثیم نہیں ہوتے۔ اگر یہ آلو وغیرہ میں ہیں تو انسانی جسم میں داخل ہوتے ہی مَر جائیں کیونکہ انسانی جسم کی ساخت یعنی اس کی حرارت خون اور دیگر موادِ جسمانی آلو کی ساخت سے بالکل مختلف ہیں اور کوئی بھی ذی حیات اور متضاد جگہ میں ایک سا نہیں رہ سکتا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جناب عبدالمجیدصاحب لونؔ نہ قوانینِ طب سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کو میڈیکل سائنس کا کچھ علم ہے۔ اور فرنگی طب پہلے ہی غلط ہے اور یہ اس کو اور بھی بدنام کررہے ہیں۔ طب اور سائنس سے بے علمی کے باوجود ہیلتھ ایجوکیشن آفیسر کیسے بن گئے ہیں۔ اب ذرا اُن کی بے علمی کے نمونے ملاحظہ فرمائیں۔ لکھتے ہیں کہ
” کیا آلو میں تپ دق کے جراثیم موجود ہیں جو بیماری پیداکرتے ہیں”۔ جناب لونؔ صاحب ذراکسی سائنسی لیبارٹری میں جھانک کرہی دیکھ لیا ہوتا۔جہاں پر جراثیم پرورش کئے جاتے ہیں۔ نہیں تو کسی علم الحیات کے ماہر(Biologist) سے ہی پوچھ لیا ہوتا کہ جراثیم کی من بھاتا غذا کیا ہے۔ اسی لئے آپ کی لاعلمی نے آپ کو آلو کی حمایت پر لکھنے کےلئے مجبور کیا ہے۔ انکل ٹام کے ملک والےآپ کے کام اور نام سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ مگر ان کو پتاہے اورنہ آپ کو، کہ کہاں پھنس جائیں گے۔ اور رعب دینے کی بجائے خفت اٹھانے پڑے گی۔ جاننا چاہئے کہ آلو جراثیم کا من بھاتا کھاجا ہے اور ان کی پرورش ہی ان کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پہلے دریافت نہیں کیا تو اب جاکرکسی ماہر علم حیات سے پوچھ لیں کہ وہ جراثیم کی پرورش کے لئے آلوکی کھیر جس کو (Potato Jelly)کہتے ہیں ، گلیسرین میں تیار کی جاتی ہے جس کا نام پٹیٹو گلیسرین ہے۔اس سے ثابت ہوا کہ آلوؤں میں پرورش جراثیم کی زبرست استعداد ہے۔ گویا روزانہ آلو کھانے والے کے اندر ٹی بی کے جراثیم کا پرورش لازمی امرہے۔ دوسرے آپ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ جراثیم اندر جاکر بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں بلکہ ان کا زہر اندرجاکر جراثیم کی پیدائش کا سبب بنتا ہے جو آلوؤں کی غذاپالینے پر فوراً اپناکام شروع کردیتا ہے۔ یہ ہے جادووہ جو سرچڑھ کربولے۔ بولئے آپ میں یا کسی امریکی میں طاقت ہے جو ان حقائق کو باطل کرسکیں۔ دوسرا نمونہ لکھتے ہیں کہ “یا آلو میں ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو قوتِ مدافعت کو کرتی ہیں؟ ” جناب لون صاحب آپ کو اس بات کا بھی علم نہیں کہ قوتِ مدافعت کیا چیز ہے اور کہاں ہوتی ہے اور قوتِ مدافعت اور قوتِ مدبرہ بدن میں کیا فرق ہے ؟ صرف طبی اصطلاحات پڑھ لینے سے علم نہیں آجاتا بلکہ ان کا صحیح مفہوم بھی جانناضروری ہے۔ دنیا میں علوم کا انحطاط اس وقت آتا ہے جب اس کا سمجھنا ختم ہوجاتا ہے۔
جاننا چاہیئے کہ قوتِ مدافعت وہی چیز ہے جس کو (Immunity) کہتے ہیں جس کا تعلق اعضاء کے ساتھ ہے اور ہر عضو کی قوتِ مدافعت اس کے اپنے جوہراور افعال کے ذریعے ہوتی ہے اور حرارت ان کی غذا ہے ۔ جہاں حرارت اور اس کے اعتدال میں کمی بیشی واقع ہوجاتی ہے وہاں اعضاء کے افعال میں افراط و تفریط شروع ہوجاتا ہے اور قوتِ مدافعت کمزور ہوجاتی ہےبس اس کا نام مرض ہے۔ جس طرح قوت سخت اعضاء میں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح جو قوت تمام جسم کی نگرانی کرتی ہے اور ضرورت کے وقت خون کو جسم میں ادھر ادھر بھیجتی رہتی ہے اس کو قوت مدبرہ بدن کہتے ہیں ۔ یہ قوت اعصاب کے تحت کام کرتی ہے۔ اس قوت کو بھی عمل میں رکھنے کے لئے حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی قوت ضرورت کے وقت گرم گرم خون بھیج کرجراثیم کو فنا کرتی رہتی ہے۔ جو جسم میں کسی طرح داخل ہوجاتے ہیں۔ گویا ہر جراثیم یا زہریلا مادہ جو جسم ِ انسانی میں داخل ہوتا ہے وہ اس قوتِ مدبرہ بدن سے ضائع ہوتا رہتا ہے۔ جیسا کہ آپ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ وہ (جراثیم ) جسم میں داخل ہوتے ہی مرجائیں ۔ کیونکہ انسانی جسم کی ساخت یعنی اس کی ضرورت خون دیگرموادِ جسمانی ، آلو کی ساخت سے بالکل مختلف ہوتے ہیں اور کوئی بھی ذی حیات دو متضاد جگہ میں ایک سا نہیں رہ سکتا۔یہی ہےہمارا جادو کہ ہم آپ کی زبان سے تسلیم کرا لیتے ہیں کہ حقیقت کیا شے ہے۔ اب یہ تسلیم کر لینے کے بعد قوتِ مدافعت اور حرارت ِ خون جراثیم کو فناکردیتے ہیں۔ ہمارے گزشتہ مضمون پر غورکریں کہ جو ہم ثابت کر آئے ہیں کہ آلو میں نہ صرف حرارت کی کمی ہوتی ہے بلکہ یہ قاطع حرارت ہیں۔ کیونکہ آلو کے اجزاء میں نشاستہ اور چونا غالب ہیں۔ اور اس میں حرارت کی کمی اور نشاستہ کی زیادتی کی وجہ ہی سے ان میں بہت جلد خمیر (Fermentation) پیدا ہوجاتا ہے، جو جراثیم ٹی بی کو غذائیت مہیاکرتا ہے۔ اس حقیقت کا آپ کے پاس کوئی جواب ہے؟۔ اگر نہیں ہے تو اپنے استادوں کو پکاریں ۔ ہم انشاء اللہ تعالیٰ ان کی بھی تسلی کر دیں گے۔تیسرا نمونہ ملاحظہ فرمائیں ، لکھتے ہیں کہ” آلو کیا ، کسی بھی سبزی وغیر ہ میں دق کے جراثیم نہیں ہوتے ۔ ”
سبحان اللہ! کیا علم پایا جاتا ہے۔ علمی دنیا کا بچہ بچہ بھی جانتا ہے کہ سبزیوں کوہمیشہ دھوکرکھاناچاہیے کہ ان میں امراض کے کیڑے ہوتے ہیں صرف جراثیم ہی نہیں بلکہ کیڑے ہوتے ہیں ۔ یہ تو ایک عمومی بات ہے، اب ذراعلمی اور سائنسی بات سنیئے۔1۔ پانی کے ایک قطرے میں ہزاروں جراثیم ہوتے ہیں اور سبزی بغیر پانی کے نہیں پیداہوسکتی ۔2۔ ایک ڈرام مٹی میں بھی بے شمار جراثیم ہوتے ہیں بلکہ جب تک مٹی خمیری نہ ہو، سبزی نہیں اگ سکتی اور مٹی میں خمیر یہی جراثیم بناتے ہیں ۔3۔ ہر قسم کی سبزیاں صرف ٹماٹر، لیموں اور دیگر ترش سبزیوں کے باقی تمام میں کھاری (الکلی) کی زیادتی ہوتی ہے۔یہ کھاری پن قاطع حرارت ہے۔ سبزیوں میں اگر کوئی سبزیاں حرارت پیدا کرسکتی ہیں تو وہ میتھی، پودینہ ، ادرک، پیاز اور لہسن وغیرہ ہیں ۔ یہ سب غذا کے طورپر نہیں بلکہ مصالحہ کے طورپر استعمال کی جاتی ہیں۔ اس امر سے ثابت ہوا کہ نشاستہ دار سبزیاں جیسے آلو نہ صرف جراثیم کی پیدائش میں مدد دیتے ہیں بلکہ ٹی بی پیداکرتے ہیں۔4۔ جراثیم کی پیدائش نباتات کے اصولوں پر نہیں ہے کیونکہ ان میں وہ سبز مادہ نہیں پایا جاتا جو نباتا ت میں نہیں پایا جاتا ہے۔ جس سے وہ ہوا میں سے غذاجذب کرتی ہیں۔ اس لئے جراثیم اپنی غذاہوا میں سے حاصل نہیں کرسکتے۔ ان کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنی غذا حیوانات کوبنائیں یا نباتا ت سے غذا حاصل کریں۔ اس لئے جراثیم اپنی غذا زیادہ تر نباتا ت سے حاصل کرتے ہیں اور نباتات بھی ایسی جن میں نشاستہ زیادہ ہو جیسے آلو وغیرہ ۔ ان امور سے ثابت ہوا کہ سبزیاں خصوصاً کچی سبزیوں کا استعمال کرنا ٹی بی کو دعوت دینا ہے۔ یاد رکھیں جو قوم سبزیوں پر زندگی گزارے وہ کبھی بہادرنہیں ہوسکتی ۔ دنیا میں وہی قومیں زندہ قومیں بن سکتی ہیں جو گوشت کھاتی ہیں کیونکہ گوشت مولدِ حرارت اور قوت ہے ۔ اس کے برعکس سبزیاں دافع حرارت اور ضعف پیدا کرتی ہیں۔ اسی لئے قرآن حکیم میں فرمایاگیا ہے کہ حضرت موسیؑ کی قوم پر ذلت اور مسکینی لازم کردی گئی کہ انہوں نے من وسلوی ٰ کے مقابلے میں سبزیاں طلب کی تھیں اور یہی ان پراللہ تعالیٰ کا عذاب تھا۔
جناب لونؔ صاحب لکھتے ہیں کہ آلو ہمارے ملک کی موجودہ غذاؤں کاایک ضروری معاون جزہے۔ سستا اور آسانی سے دستیاب ہونے کے علاوہ ہمارے جسم کی حرارتِ غریزی کے قائم رکھنے میں بہت مدد دیتا ہے۔ وٹامن سی، جوکہ جسم میں قوتِ مدافعت پیداکرتا ہے، ماسخورہ لگنے نہیں دیتا، کے علاوہ اس میں پروٹین ، وٹامن (بی)، آئرن اور کیلشیم ہوتے ہیں جو کہ خصوصاً اہل پاکستان کےلئے غذائیت کے لحاظ سے بہت ہی موزوں اور بہت ہی مفید ہیں اور جسمانی لحاظ سے بہت ہی مفید ہیں اور جسمانی ضروریات کے لئے نہایت ضروری ہیں کیونکہ ان سے معدہ بیماریوں سے بچارہتا ہے۔ خون درست رہتا ہے اور ہڈیاں کمزور نہیں ہونے پاتیں اور خاص کر یہ چھوٹے بچوں اور دودھ پلانے والی ماؤں کے لئے نہایت مفید ہے۔ محترم لونؔ صاحب ہم اپنے مضمون میں عقل و نقل اور قانونِ فطرت سے ثابت کرچکے ہیں کہ آلو کاروزانہ استعمال نہ صرف ٹی بی پیدا کرتا ہے بلکہ پاکستانی قوم کوقربان کرے گا جس سے اس کی نہ صرف بہادرانہ روایات ختم ہوجائیں گی بلکہ ذہنی اور روحانی طور پر بھی ناکارہ ہوجائے گا۔ آپ کہتے ہیں کہ “ہماری موجودہ غذاؤں میں معاون جزہے”۔ سستا ہے اور آسانی سے دستیاب ہوتاہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حرارتِ غریزی کو تباہ کرتا ہے۔ افسوس آپ حرارت کے متعلق کچھ نہیں جانتے ہیں ۔ اگر آپ یہ سب کچھ جانتے ہوتے تو کبھی یہ نہ لکھتے کہ آلو حرارتِ غریزی پیداکرتے ہیں ۔ جب آپ خود لکھتے ہیں کہ اس میں وٹامن (بی) اور(سی) ہیں۔ کیا آپ کو علم ہے کہ آلومیں اس کے نشاستہ کے مقابلے میں کس نسبت سے وٹامن بی اور سی ہیں؟۔ یعنی آٹے میں نمک کے برابر اور وٹامن (بی)نباتاتی وٹامن ہے حیوانی نہیں ہے۔ وٹامن (سی)کاربن ہے ترشی نہیں ہے۔ یہ کسی طرح بھی ماسخورے کےلئے مفیدنہیں ہے۔ کیونکہ میڈیکل سائنس نے ترشی کو ماسخورے کےلئے مفیدلکھا ہے اور یہ نظریہ غلط ہے۔ خیر! بہرحال آپ اس علم سے بے علم ہیں۔ کسی طرح بھی آلو ہڈیوں کو طاقت نہیں دیتا بلکہ ہڈیوں کا ٹی بی پیداکرتا ہے، خون کوکمزورکرتا ہے اور اس میں سردی پیداکردیتا ہے، معدہ گندہ کرتا ہے اور بے حد تبخیر اور تعفن کے ساتھ بے شمارقسم کے امراض پیداکرتا ہے، اس کے استعما ل سے فورا ً نزلہ زکام پیداہوجاتا ہے۔ جو ابولعلامات ہے اور ٹی بی کا پیش خیمہ ہے۔ نہ یہ بچوں کے لئے مفید ہے اور نہ دودھ پلانے والی عورتوں کےلئے سودمند ہے۔ البتہ امریکہ کے لئے ضرور مفیدہے جس کا بیج پاکستان میں بکتا ہے یا ان مجبور لوگوں کا پیٹ بھر سکتا ہے جن کو کوئی اناج میسرنہ آئے اور بھوک نے ان کا بُراحال کردیاہو۔
جہاں تک وٹامن کا تعلق ہے ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں بلکہ چیلنج کرچکے ہیں کہ آپ ان کے خواص کے متعلق کچھ نہیں جانتے اور جہاں تک ان کی ترتیب کا تعلق ہے۔ یعنی غذا میں کس تناسب سے شامل ہوتے ہیں اور ہم کو کس تناسب سے ان کو استعمال کرناچاہیے اور خاص طورپر کن کن وٹامن کوآپس میں ملانا چاہیئے اس کاعلم کسی فرنگی ڈاکٹر کوبھی علم نہیں ۔ اسی طرح وہ ان کے اثرات بالمفرداعضاء سے واقف نہیں ہیں۔ اگر وٹامن کے متعلق ان باتوں کا علم رکھتے ہیں تو ہم مقابلہ کےلئےچیلنج کرتے ہیں یونہی وٹامن وٹامن کہہ کرعوام میں خوف وہراس پیداکردینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ افسوس! جس علم سے آپ واقف نہیں ہیں اس کے متعلق لوگوں کو تعلیم دینا بیماری پیداکرنے کاباعث ہی ہوگا۔ یہ بھی جاننا چاہیے کہ وٹامن کے غلط استعمال یا کثرتِ استعمال سے خطرناک امراض بھی پیداہوجاتے ہیں۔جیسے دیگر غذااورادویہ کے غلط استعمال سے انسان مصیبت اور دکھ میں گرفتارہوجاتاہے۔ صرف یہ لکھ دیناکہ فلاں وٹامن یہ طاقت دیتا ہے، کافی نہیں ہے، بلکہ یہ بھی لکھنا چاہیے کہ وہ نقصان کیا دیتا ہے۔ اس کی مشینی اور کیمیائی اثرات کیاکیا ہیں۔ ہمارے پاکستان میں بھی اکثر فرنگی ڈاکٹر ہیں ۔ جب ہم یورپ و امریکہ کے فرنگی ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ خواص اغذیہ اور تاثیر الادویہ سے پورے طورپر واقف نہیں ہیں تو بھلاان کو پاکستانی فرنگی ڈاکٹر کیا جانتے ہوں گے اور جناب لونؔ صاحب آپ کے علم کا توذکرہی بے سود ہے کہ آپ ڈاکٹر بھی نہیں ہیں۔ چند اِدھر اُدھر کی باتیں پڑھ لی ہیں اورآپ جیسے لوگوں ہی کی وجہ سے ٹی بی بے حد شدت اور کثرت سے پھیل رہا ہے۔آخر میں ہم پورے زوردار الفاظ میں احتجاج کریں گے کہ گالیاں دینے سے کسی کے علم و فن کی فوقیت نہیں ہوا کرتی بلکہ صحیح علم و فن کو پیش کرنے سے ہوا کرتی ہے۔
ہم نے بھی آپ کے سامنے علم و فن پیش کیا ہے بلکہ موجودہ سائنس کی روشنی میں پیش کیا ہے اگر جرات ہے تو اس کو غلط قرار دیں۔ ٹی بی کے لئے مزید علم درکار ہوتومیری کتاب رسالہ رجسٹریشن فرنٹ کا خاص تپ دق ٹی بی نمبرمنگوا کرپڑھیں۔ وما علینا الاابلاغ
Qanoon Mufrad Aza, Tibb e Sabir, Hakeem Sabir Multani, Health, قانون مفرد اعضاء, حکیم صابر ملتانی, طب و صحت, طب صابر,