تعلیم وتربیت اور مدارس کا نیا رجحان

تعلیم وتربیت اور مدارس کا نیا رجحان

سید عبدالوہاب شیرازی

تعلیم کی اہمیت

تعلیم کی اہمیت تو اسلام نے پندرہ سو سال پہلے ہی بتا دی تھی، لیکن اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے کرتے بہت عرصہ لگ گیا، چنانچہ آج کے دور میں غریب سے غریب تر، اور ان پڑھ و جاہل لوگ بھی تعلیم کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں اور قطعا انکار نہیں کرسکتے۔ سوال پیدا ہوتا ہے پھر کیوں ہمیں پاک وہند میں لاکھوں بچے تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں کام کرتے یا گھر بیٹھے نظر آتے ہیں؟ جبکہ دنیا کے ترقیافتہ ممالک یورپ امریکا وغیرہ میں یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر اس مسئلے کا بغور اور گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو پاک و ہند میں دو عوامل ایسے ہیں جن کی وجہ سے یہاں کے بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ایک غربت ، اور دوسرا  تعلیم دینے والوں کو تعلیم کی اہمیت ، ضرورت، اور تعلیم کی حقیقت کا علم نہ ہونا ہے۔ آج کے دور میں بچوں کی تعلیم سے دوری کی بڑی وجہ غربت نہیں بلکہ خود تعلیم دینے والو کی جہالت اور تعلیم کی حقیقت سے ناواقفیت ہے۔آپ حیران ہوں گے میں نے یہ کیا بات کہہ دی کہ تعلیم دینے والے ہی تعلیم کی حقیقت سے واقف نہیں؟ تو جناب یہی حقیقت ہے، چاہے مدارس ہوں یا اسکول ان کی انتظامیہ تعلیم کی حقیقت سے ناواقف ہو چکی ہے اور یہی وجہ آج کے دور میں بچوں کے تعلیم سے دوری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

پہلے ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں:

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا

’’علم سیکھو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے علم سیکھنا خشیت، اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنا عبادت،اس کا پڑھنا پڑھانا تسبیح،اس کی جستجو جہاد، ناواقف کو سکھانا صدقہ او راس کی اہلیت رکھنے والوں کو بتانا ثواب کا ذریعہ ہے۔ نیز علم تنہائی کا ساتھی، دین کا راہ نما،خوش حالی وتنگ دستی میں مدد گار، دوستوں کے نزدیک وزیر، قریبی لوگوں کے نزدیک قریب اورجنت کی راہ کا مینار ہدایت ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو اوپر اٹھاتا ہے۔ اور انہیں بھلائی میں راہ نمائی، قیادت وسرداری عطا کرتا ہے۔ جن کی پیروی کی جاتی ہے، وہ بھلائی کے راہ نما ہوتے ہیں، جن کے نقش قدم پر چلا جاتا ہے اورجن کے افعال کو نمونہ بنایا جاتا ہے۔ فرشتے ان کے دوستی کی خواہاں ہوتے ہیں اورپنے پروں سے ان کو چھوتے ہیں۔ ہر خشک اور تران کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے، یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں، جان دار، خشکیوں کے درندے اور جانور، آسمان اور اس کے ستارے تک۔ علم ہی کے ذریعے اللہ کی اطاعت وعبادت کی جاتی ہے، اس کی حمد وثنا ہوتی ہے، اسی سے پرہیزگاری ہوتی ہے، اسی سے صلہ رحمی کی جاتی ہے، اسی سے حلال اور حرام جانا جاتا ہے۔ وہی راہ نما اور عمل اس کا پیروکار ہے۔ بدبخت اس سے محروم رہتے ہیں۔‘‘(اوکماقال ﷺ۔ابن عبدالبر کی کتاب’’جامع بیان العلم وفضل سے ماخوذ)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’حضرت سلیمان علیہ السلام کو اختیار دیا گیا تھا کہ علم،مال اور سلطنت میں جو چاہو پسند کرو،انہوں نے علم کو پسند فرمایا تو مال اور حکومت علم کے ساتھ ان کو عطاہوئی۔

محترم غلام عباس بلوچ کہتے ہیں:

 تعلیم و تربیت بظاہر دو الگ چیزیں ہیں لیکن غور کیا جائے تو تعلیم کا بھی بنیادی مقصد تربیت ہی ہے کیونکہ علم خود کوئی مقصد نہیں بلکہ یہ انسان سازی اور تربیت کی ایک صورت ہے تعلیم و تربیت کی اصطلاح اُردو میں عام استعمال ہے۔ تعلیم کا تعلق علم اور جاننے سے ہے اور تربیت کا تعلق  علم مکمل کرنے سے ہے۔ جیسے انسان کے خیالات ہوں گے ویسی ہی شخصیت وجود میں آئے گی۔ تربیت سے مراد  خمیر سیرت و کردار ہے۔تعلیم کا معنی سکھلانا اور علم دینا ہے۔ تعلیم یہ ہے کہ ’’نہایت شفقت و توجہ کے ساتھ ہر استعداد کے لوگوں کے لیے اس کی مشکلات کی وضاحت کی جائے، اس کے اجمالات کی تشریح کی جائے، مزید برآں لوگوں کی ذہنی تربیت کے لیے خود ان کے سامنے سوالات رکھے جائیں اور ان کے جوابات معلوم کرنے کی کوشش کی جائے تا کہ لوگوں کے اندر فکر و تدبر کی صلاحیت اور کتاب اللہ پر غور کرنے کی استعداد پوری طرح بیدار ہو جائے۔ یہ ساری باتیں تعلیم کے ضروری اجزاء میں سے ہیں ۔ اس بناء پر انسانی زندگی کے شعور و سوچ بچار و اعلیٰ ترقّی کے لئے تعلیم کا ہونا انتہائی ضروری تقاضا ہے جب انسان کے پاس علم ہوگا تو وہ اپنی پوشیدہ خوبیوں کو اپنے اندر سے تلاش کر سکتا ہے اور اپنی زندگی کو بامقصد بنانے میں اپنی اور اپنے معاشرے کو بہتر سے بہتر شعور و ترقّی کی منازل طے کر اور کرا سکتا ہے اگر اس کے پاس علم ہی نہیں ہوگا تو وہ اپنی ترقّی و عروج اور قوم کی ترقّی و عروج میں ہرگز کردار ادا نہیں کر سکتا ہے۔( محترم غلام عباس بلوچ، جامعہ کراچی)

۔۔۔۔۔۔۔

تعلیم کس کا حق ہے

علم اور تعلیم کی اس اہمیت سے معلوم ہوتا ہے تعلیم ہر انسان کے بچے کا حق ہے، اس میں کوئی تفریق نہیں ہے نہ امیر غریب کی اور نہ ہی ذہین اور کند ذہن کی، یعنی ایسا نہیں کہ تعلیم حاصل کرنا صرف ذہین بچوں کا ہی حق ہے بلکہ کندذہن بچے بھی تعلیم کا اتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا ذہین بچہ رکھتا ہے۔ لیکن پہلے ہمارے سکولوں اور پھر مدارس میں کچھ ایسی درجہ بندیاں کردی گئیں کہ لاکھوں بچوں کے لیے تعلیم کا حصول نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوچکا ہے۔چونکہ میرا اس وقت موضوع سکول نہیں بلکہ مدارس ہیں اس لیے میں مدارس کی ہی بات کروں گا۔ سکولوں کالجوں کی دیکھا دیکھی ہمارے مدارس نے بھی انسان کے بچوں کو چھانٹی کرنا شروع کردیا ہے، اور صرف انہی بچوں کو ترجیح دی جاتی ہے، جو تھوڑے سے تیز، حاضردماغ اور ذہین ہوتے ہیں۔ یہ وہ مدارس تھے جن کا مقصد انسانیت کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر علم و شعور کی روشنی میں لانا تھا۔بچہ بہت حساس ہوتا ہے، بظاہر تو معلوم نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات معمولی سی بات اس کی ساری زندگی کا دھارا بدل دیتی ہے۔ پہلے سکولوں میں یہ ٹرینڈ چلا کہ انہوں نے صرف ان بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھا جو ذہین ، چالاک، تیزطراز ہیں۔ پھر ان کی دیکھا دیکھی یہی چیز مدارس میں بھی گھس آئی اور آج مدارس میں بھی ٹیسٹ کے نام پر چھانٹی کرکے صرف ان ہی بچوں کو تعلیم دینے کے قابل سمجھا جاتا ہے جو داخلے کے وقت ان کااپنا بنایا ہوا ٹیسٹ پاس کرلیں۔ جو بچہ کسی بھی وجہ سے اس وقت ٹیسٹ پاس کرنے سے رہ گیا گویا کہ تعلیم اس کا حق نہیں اور یہ زیور اس کا زیور نہیں۔

ترقیافتہ ممالک میں تعلیم دینے کا انداز

آج کی دنیا میں یورپ، امریکا ، چین جاپان وغیرہ کی اقوام کو تعلیم کے میدان میں رول ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جہاں شرح تعلیم  بہت زیادہ ہے، جس کی وجہ سے وہاں ترقی کی رفتار بھی زیادہ ہے۔دنیا بھر میں فن لینڈ کا شمار تعلیمی معیار میں پہلے نمبر پر ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ فن لینڈ کے کسی بھی سکول میں پندرہ سال سے کم عمر یعنی کسی بھی نابالغ بچے سے نہ امتحان لیا جاتا ہے اور نہ یہ کہنے کی ضرورت پڑتی ہے کہ تم فیل ہو گئے تمہارے نمبر کم آئے ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا “جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں۔ اس قول پر عمل صرف جاپان والے کرتے ہیں اور نرسری سے تیسری کلاس تک صرف ایک ہی مضمون بغیر امتحان لیے پڑھایا جاتا ہے اور وہ ہے ادب و اخلاقیات۔

امتحان لینے کا مقصد

اگر امتحان لینے کا مقصد محض بچے کی صلاحیت جانچنا اور قابلیت کا اندازہ لگا نا ہواور پھر اس کے مطابق جو کمی ہے اس کمی کو دور کرنا ہو تو اس مقصد کے حصول کے لیے ضرور امتحان لینا چاہیےلیکن امتحان کے نام پر یہ فیصلے کرنا کہ فلاں بچہ تعلیم کا حقدار ہے اور فلاں بچہ حقدار نہیں تو یہ سوچ شاید اس دور کی بہت بڑی جہالت ہے۔ میں سجھتا ہوں پاک و ہند میں ایک سازش کے تحت اس طرح کا ماحول دشمنوں نے خود بنایا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے احساس کمتری، ذہنی پستی، ندامت، شرمندگی کا شکار ہو کر خود ہی تعلیم سے دور ہو جائیں۔  ترقیافتہ ممالک میں سے بعض میں پانچویں کلاس تک اور بعض ممالک میں آٹھویں کلاس تک سالانہ امتحان تک بھی بچوں سے نہیں لیا جاتا۔ بلکہ پہلے پانچ یا آٹھ سال بچوں کو مسلسل تعلیم دی جاتی ہے، اور سال پورا ہونے پر اگلی کلاس میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ پھر آٹھویں کے بعد امتحان لینے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

جبکہ ہمارے ہاں اگر کوئی پانچ سال کا بچہ بھی پہلی بار تعلیمی ادارے میں داخلے کے لیے جائے تو ادارے والے اس کا بھی ٹیسٹ لے کر والدین کی اچھی خاصی طبیعت صاف کرتے ہیں کہ اس بچے کو تو کچھ آتا ہی نہیں، یہ کیا پڑھے گا ہم اسے نہیں رکھ سکتے۔ پھر اس کے بعد ہر کلاس میں اور ہر تین مہینے بعد کیا ہوتا ہے وہ آپ خود جانتے ہیں۔ بچوں کو باربار یہ طعنے سننے کو ملتے ہیں تم فیل ہوگئے، تمہارے نمبر کم آئے ہیں، تم نہیں پڑھ سکتے، فلاں تم سے آگے نکل گیاوغیرہ وغیرہ۔

جیسے ہر انسان کا فنگرپرنٹ ، آنکھ کی پتلی ، چہرے کے خدوخال دوسرے انسان سے مختلف ہیں ایسے ہی ہر انسان کا ذہن، اس کی سوچ، اس کے سوچنے کا انداز، احساس، نظروفکر، شعوری سطح، وغیرہ ہر چیز دوسرے سے مختلف ہے۔ کوئی بچہ بے شرم، نڈر، بے باک ہوتا ہے اور اسی تیزی کی وجہ سے ٹیسٹ انٹرویو میں ہمیشہ آگے نکل جاتا ہے، جبکہ کچھ بچے شرمیلی، کسی انجانے خوف کا شکار، یا گھریلو ڈپریشن پریشانی کا شکار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اچانک کے امتحان، ٹیسٹ یا انٹرویو میں کسی کا سامنا نہیں کرسکتے۔ یہ معیار بچوں کی قابلیت کو ظاہر کرنے کا پیمانہ نہیں ہوسکتا۔ جب ہم نے امتحان کو ہی اصل پیمانہ بنا دیا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مدارس ہوں یا سکول ان کا  ہر بچہ بھی صرف اسی مقصد اور اسی نظریے سے پڑھتا ہے کہ میں نے ممتحن یعنی امتحان لینے والے کو کیسے مطمئن کرنا ہے اور کیسے پیپر پاس کرنا ہے۔ جس کی ساری سوچ ہی ممتحن کو مطمئن کرنا بن جاتی ہے تو پھر عملی زندگی میں بھی یہی سوچ رہتی ہے کہ میں نے کیسے اپنے سے بڑے افسر کو مطمئن کرنا ہے۔ یہی دراصل جدید غلامی کی وہ زنجیر ہے جس میں باندھ کر آج کروڑوں انسانوں کو چند خاندان کنٹرول کررہے ہیں۔علم کو علم سمجھ کر، نہ سکھانے والے سکھا رہے ہیں اور نہ سیکھنے والوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ علم کو نور سمجھ کر حاصل کرو اور اس کی روشنی میں کوئی مثبت کام کرو۔ یہ وبا سکولوں سے نکل کر مدارس میں داخل ہوچکی ہے اور آج کا مدرسہ بھی صرف ٹیسٹ پاس کرنے کا زہر بچوں کے ذہن میں انڈھیل رہا ہے۔

ایک مثال 

 میں اپنا ذاتی تجزیہ اگر آپ کے سامنے پیش کروں تو میں بچپن میں انتہائی شرمیلاہوتا تھا، جہاں دو چار افراد بیٹھے ہوتے میں سر اٹھا کر گفتگو نہیں کرسکتا تھا۔ پہلی بار کسی نئے شخص سے بات کرنا بہت مشکل ہوتا تھا البتہ جب کچھ واقفیت اور چار پانچ ملاقاتیں ہو جائیں تو پھر میں نارمل ہو جاتا تھا۔ میں نے کئی مدارس اور اداروں میں تعلیم حاصل کی اور ہر جگہ داخلے کے وقت فیل ہوا، پھر سفارش، یا داخل کرنے والوں کی چار گھسے پٹے طعنے سننے کے بعد داخلہ ملا، چند دن اس ماحول میں رہ کر جھجک ختم ہوجاتی تھی اور پھر اس کلاس میں مجھے سے آگے کوئی نہیں ہوتا تھا۔الحمدللہ سکول  اور  مدرسے میں ہمیشہ نمایاں پوزیشن ہی لیتا رہا۔ لیکن داخلہ ہمیشہ مجھے بڑی مشکل سے ہی ملتا تھا۔ یہاں تک کہ فراغت کے بعد جب عملی دنیا میں مختلف اداروں میں کام کے سلسلے میں انٹرویو دیے تو وہاں بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ ایک اخبار نے مجھے بیکار کا مال سمجھ کر اس شرط پر رکھ لیا کہ ہم کوئی تنخواہ نہیں دیں گےویسے آتے رہیں اور کام کو سیکھیں چھ آٹھ مہینے بعد اگر کام سیکھ لیا تو تنخواہ لگا لیں گے۔ لیکن مجھے صرف تین چار دن چاہیے تھے تاکہ میری جھجک اور شرمیلہ احساس ختم ہو جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا تین چار دن کے بعد میں اپنی پٹری پر چڑ گیا، ہفتے بعد مجھے کہا گیا آپ کو تو سارا کام آتا ہے، اور پندرہ دن بعد مجھے اس اخبار کی سب اہم ذمہ داری سونپنے کی آفر ہوئی ۔

اسی طرح ایک کمپنی میں مجھے ٹیسٹ میں فیل کردیا گیا کیونکہ میں اپنے فطری احساس کی وجہ سے ٹیسٹ دیتے ہوئے کانپ رہا تھا اور اس ٹیسٹ میں ٹائم کی اہمیت بہت زیادہ تھی اس کام کو ایک مخصوص ٹائم میں کرنا تھا چونکہ میرا پورا جسم کانپ رہا تھا ہاتھوں پر رعشہ طاری تھا اس لیے میں ٹیسٹ میں فیل ہوگیااور گھر آگیا۔ کچھ دنوں کے بعد ایک دوست کی کال آئی اور مجھے کہا میں نے آپ کے لیے ایک کام دیکھا ہے، فلاں کمپنی کا مالک اور میں تین دن ایک سفر میں اکھٹے تھے اچھی دوستی ہو گئی تو میں نے اسے کہا کہ اپنی کمپنی میں میرے ایک بیروزگار دوست کو رکھ لو لہذا آپ وہاں جاو اور میرا بتانا، چنانچہ جب میں وہاں گیا تو یہ وہی کمپنی تھی جس نے ایک دو مہینے پہلے مجھے ٹیسٹ میں فیل کرکے نکال دیا تھا لیکن اب سفارش پر معمولی سی تنخواہ پر اس لیے رکھ لیا کہ یہ جو پیسے دیں گے ہمیں ثواب ملے گا کہ ایک غریب کو ہم پال رہے ہیں۔لیکن جب ایک ہفتہ میں نے کام کیا میری جھجک ختم ہو گئی میں نارمل ہوگیا تو اس کے بعداس کمپنی کے  تمام دفاترجو اسلام آبادسمیت چار شہروں میں قائم تھے ان کی ڈاکو منٹیشن اور کمپیوٹرسے متعلقہ امور میری نگرانی میں آگئے اور تمام سینئر مجھ سے ہی مشورہ کرنے لگے۔آٹھ ماہ کے بعد اپنی کسی مجبوری سے مجھے وہاں سے کام چھوڑنا پڑا تو مجھے میری تنخواہ ڈبل کرنے کی بھی پیشکش ہوئی کہ آپ کام جاری رکھیں۔

تعلیم وتربیت اور مدارس

خلاصہ تعلیم وتربیت اور مدارس

یہ ساری بات عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج جب کسی انسان کے بچے کو ہم یہ کہہ کر گھر روانہ کردیتے ہیں کہ یہ فیل ہوگیا ہے گویا اسے ہم جیتے جی مار دیتے ہیں۔ میٹرک سے آگے کالج یونیورسٹی  کی حد تک تو یہ بات شاید کسی پیمانے پر صحیح اتر سکتی ہو لیکن ابتدائی تعلیم اور خاص طور پر مدارس والے جو انبیاء کے وارثین اور اس نبی مکرم کی تعلیمات کے علمبردار کہلاتے ہیں جس نے ابوہریرہ جیسے فقیر کو بھی اپنے مدرسے  سے نہیں نکالا جو بیہوش ہو کر گر پڑتا تھا اور لوگ کہتے تھے مرگی کا دورہ پڑ گیا حالانکہ وہ بھوک ہوتی تھی۔مدارس کو تو ویسے بھی لوگ زکوۃ اور صدقات اسی لیے دیتے ہیں کہ آپ نے ہمارے مال کو کمزوروں پر خرچ کرنا ہے تاکہ ہمیں ثواب مل سکے۔ لیکن آج مدارس بھی سکولوں کے لٹیروں کی طرح صرف تیزطراز، چالاک  بچوں کی تخصیص کے فتنے میں مبتلا ہو کر ہزاروں انسان کے کمزور بچوں کو تعلیم کے زیور سے محروم کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

مدارس چونکہ دینی مراکز ہیں اور دینی تعلیم و تربیت میں ہر اس بچے اور اس کے والد کی قدر کرنی چاہیے جو آج کے اس پرفتن دور میں مدرسے اور مولوی کا رخ کرتا ہے۔کسی نے کیا بننا ہے اس کا فیصلہ آپ کا ٹیسٹ نہیں کرسکتا بلکہ آپ کا احساس، ہمدردی، غمخواری، معافی،اور پیار کرے گا۔ وہ عمر جسے ایک آنے پر بھی  اونٹ چروانے کے لیے کوئی رکھنے کو تیار نہیں تھا تاریخ انسان کا ایک عظیم انسان ٹیسٹ سے نہیں ہمدردی اور پیار سے بنا تھا۔آپ صرف ذہین لوگوں کا چناو کرکے یونیورسٹیز کی طرح حکومتی مشینری کے ماہرین تو پیدا کرسکتے ہیں لیکن انسانوں کے غمخوار، ہمدرد، کمزوروں کا خیال رکھنے والے آپ کو انہیں کمزوروں میں سے ملیں گے، جو خود اس ماحول یا حالات کا شکار رہ چکے ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: وزن کے قدیم اور جدید پیمانے

Related posts

Leave a ReplyCancel reply