تشخیص بطریق قانون مفرد اعضاء

تشخیص بطریق قانون مفرد اعضاء

طبی لحاظ سے، تشخیص، کا طریقہ کار اور مزاج کی پہچان، بہت ہی اہم معلومات

تشخیص

طب میں سب سے زیادہ تشخیص کا انحصار مزاج پر ہے یہ اس لئے کہ تمام اعضائے بدن کی ساختوں کا اپنا اپنا ایک مزاج ہے اور وہ تمام ساختیں اپنا اپنا حصہ خون سے الگ الگ وصول کرتی ہیں اور خون تین اخلاط کا مرکب ہے اس میں جس خلط کی زیادتی ہو گی اسی کے اثرات اس کی ساخت حتیٰ کہ عضو رئیس تک نمایاں ہوں گے یہ اخلاط چونکہ تین ہیں اس لئے تین ہی طرح کے مزاج ہوں گے
1 بلغمی
2 سوداوی
3 صفراوی

بلغمی مزاج

تمام اشیاء جن کے اندر بالکیفیت بالہئیت اور بالتاثیر رطوبت ومائیت زیادہ ہو گی انہیں بلغمی اور قانون مفرد اعضاء کی اصطلاح میں اعصابی کہا جاتا ہے کیونکہ ایسی چیزوں میں زاتی طور پر رطوبت زیادہ ہوتی ہے اور یہی خون میں تاثیر زیادہ پیدا کرتی ہیں جہاں کہیں بلغمی یا اعصابی کا لفظ آئے تو وہاں بلغمی رطوبات مراد ہیں جسم میں ان کی پیدائش کا مرکز دماغ و اعصاب ہیں جب دماغ و اعصاب کا فعل تیز ہوتا ہے تو بلغم اور رطوبت زیادہ بنتی ہے اور جب بدن کو رطوبت زیادہ ملتی ہے تو دماغ و اعصاب کا فعل تیز ہو جاتا ہے

سوداوی مزاج

وہ تمام اشیاء جو بالکیفیت بالہئیت بالتاثیر خشک ہوں انہیں سوداوی یا عضلاتی کہتے ہیں کیونکہ ایسی تمام چیزیں زاتی طور پر خشک کیفیات رکھتی ہیں اور جسم میں یہی اثرات بڑھاتی ہیں جہاں کہیں سوداوی یا عضلاتی کا لفظ آئے تو وہاں پر سردی خشکی مراد ہے جسم میں ان کی پیدائش کا مرکز قلب و عضلات ہیں جب ان کا فعل تیز ہوتا ہے تو خشکی اور سردی کا غلبہ ہو جاتا ہے یا جب جسم کو زیادہ خشک سرد اشیاء دی جائیں تو قلب و عضلات کا فعل تیز ہوجاتا ہے

صفراوی مزاج

وہ تمام اشیاء جو بالکیفیت بالہئیت یا بالتاثیر گرم ہوں انہیں صفراوی قانون مفرد اعضاء کی اصطلاح میں غدی کہا جاتا ہے ایسی چیزیں گرم کیفیات کی حامل ہوتی ہیں اور یہی اثرات خون میں پیدا کرتی ہیں جہاں کہیں صفراوی یا غدی کا لفظ آئے تو وہاں جگر میں پیدا ہونے والی رطوبت صفراء مراد ہیں یہی جگر ہی اس کی پیدائش کا مرکز ہے جب جگر کا فعل تیز ہوتا ہے تو صفراء زیادہ بنتا ہے اور جب جسم کو صفراء زیادہ مقدار میں پیدا کرنے والی اشیاء دیتے ہیں تو جگر وغدد کا فعل لازمی تیز ہوتا ہے
اب ان تینوں کی الگ الگ پہچان یہ ہے
بلغمی مزاج کی پہچان
1 عموماً سفید رنگ والے بلفمی مزاج ہوتے ہیں
2 جسم کے تمام اعضاء ڈھیلے نرم اور سرد ہوتے ہیں
3 تھوک کثرت سے آتا ہے
4 پیاس کم لگتی ہے
5 نیند زیادہ آتی ہے اور پانی والے خواب آتے ہیں
6 جسم چربی والہ فربہ ہوتا ہے
7 جسم سست اور کاہلی والا ہوتا ہے
8 طبعی عمر سے پہلے بال سفید ہو جاتے ہیں
9 جسم ڈرپوک اور خوف زیادہ محسوس ہوتا ہے
10 مردوں کو جنسی ہیجان نہی رہتا
11 عورتوں کو حیض نہی آتا
12 عورتوں کو سیلان ہو جاتا ہے
13 مردوں کو جریان ہو جاتا ہے
14 ناک سے سفید مواد آتا ہے
15 پانی جیسے اسہال آتے ہیں
16 سردی زیادہ لگتی ہے اور اعضاء ٹھٹھر جاتے ہیں
17 فشار الدم ضعیف رہتا ہے
18 منہ کھلا رہتا ہے
19 گفتگو بڑے آرام سے ڈھیلی ڈھیلی کرتے ہیں
20 غصہ دلانے سے بھی جلدی غصہ نہی آتا
21 بھوک کم لگنا اور کھاری ڈکاریں آنا
22 بلغمی کھانسی یا دمہ کا ہو جانا
23 زیابیطیس حقیقی کا ہو جانا
24 سلسل البول کا عارضہ ہو جاتا ہے
25 البول فی الفراش بستر میں پیشاب ہونا
26 عورتوں کو دودھ زیادہ آنا
27 فضلات کا اخراج زیادہ ہونا اور ان کی رنگت سفید ہونا
28 جسم پر نیلے دھبے ہونا
29 منہ سے رال بہنا
30 صبح اٹھنے کو دل نا چاہنا

یہ بھی پڑھیں: ہوم پیج کی ایس ای او

تشخیص

سوداوی مزاج کی پہچان

1 عموماً گندمی اور سیاہی مائل رنگت والے سوداوی مزاج ہوتے ہیں
2 چہرے پر سیاہیاں کیل مہاسے اور سیاہ داغ نظر آتے ہیں
3 آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے ہوتے ہیں
4 جلد پر سرخ دھبے دکھائی دیتے ہیں
5 جلد پر خارش خشک اور جلدی نا پکنے والے دانے پھنسیاں پھوڑے ہوتے ہیں
6 سارا جسم دبلا اور پیٹ مشک کی طرح باہر بڑھا ہوا ہوتا ہے
7 سر پر بال کثرت سے ہونا لیکن آہستہ آہستہ درمیان سے گنج ہو جانا
8 اکثر سوچ وبچار کرتے رہنا نیند کی کمی اور ڈراؤنے خواب جن میں سیاہ چیزیں دکھائی دینا
9 قبض شدید رہنا قضائے حاجت کے وقت کافی دیر لگانا یہ بواسیر ہونے کی علامت ہے یا پھر صفائی نہ ہونے کی کا وہم لاحق ہو چکا ہوتا ہے10 انتشار کی زیادتی اور مادہ منویہ کم ہونا
11 ترش ڈکاریں آنا
12 معدے میں جلن ہونا
13 مقعد میں درد جلن اور خون آنا
14 ظاہر جلد پر موہکے مسے اور تل کے نشان ہونا
15 پیٹ سے ہوا باآواز خارج ہونا
16 ظاہر جلد پر چنبل دھدر فنگس خارش اور کنگرین کے نشان ہونا
17 احتلام کی کثرت ہونا
18 کولیسٹرول بڑھنے کا رجہان ہونا اور سانس پھولنا
19 یورک ایسڈ بڑھنے کا رجہان اور جوڑوں میں سوجن اور شدید درد ہونا
20 گنٹھیا
21 تپ دق
22 ضیق النفس یابس
23 مالیخولیا
24 جنون
25 نمونیہ
26 منہ سے خون آنا
27 لقوہ یا رعشہ ہونا
28 پڑبال
29 سبل
30 بواسیر الانف یا بواسیر الشفت
31 دبیلہ
32 جوع الکلب
33 ہیپاٹائٹس بی وسی
34 کینسر

صفراوی مزاج کی پہچان

1 عموماً پھیکے زرد چہرے صفراوی مزاج ہوتے ہیں
2 منہ کا زائقہ چرپرایا نمکین رہنا
3 پیاس زیادہ لگنا
4 جسم میں چبھن گھبراہٹ اور چنگاریاں محسوس ہونا
5 رقت وسرعت کی شکایت ہونا
6 بات چیت صاف اور تیز تیز کرنا
7 غصہ جلدی آنا
8 عورتوں کو حیض تکلیف سے آنا
9 عورتوں کو سیلان پیلے رنگ کا آنا اور جلن ہونا
10 خفقان قلب کا عارضہ ہونا
11 طبعیت کا بوجھل رہنا
12 جلد پر چھپاکی ظاہر ہونا
13 نزلہ حار کی شکائت ہونا
14 دائمی پیچش ہونا
15 صداع حار یا درد شقیقہ ہونا
16 تپ محرکہ معویہ ہونا
17 زکاوت حس ہو جانا
18 ضیق النفس کلوی ہونا
19 آماس
20 ہاتھ پاؤں اور پیشاب میں جلن
21 آشوب چشم
22 نیند کی بے چینی غنودگی اور خواب میں آگ دیکھنا
23 اجابت بے قائدہ رہنا
24 فشارالدم قوی رہنا
25 پٹھوں کی کمزوری ہونا

اہم علامات سے تشخیص

طبی اصطلاح میں علامات تکالیف کی ان کیفیات کو کہتے ہیں جو مرض کے ساتھ جسم کے مختلف مقامات پر ظاہر ہوا کرتی ہیں یہ علامات اکثر امراض کو سمجھنے ان کے فروق اور تشخیص کے لئے دلائل بنائے جاتے ہیں اور انہی کی رہنمائی میں امراض کی ماہیت ونام اور امراض اور تقسیم امراض کیے جاتے ہیں چونکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مرض اس حالت کا نام ہے جب اعضاء کے افعال میں اعتدال نہ ہو یعنی ان میں افراط وتفریط اور ضعف پایا جاتا ہے اس لئے اعضاء کے افعال کی خرابیوں کو جاننے کے لئے ان علامات کو دیکھیں گے جو ان پر دلالت کرتی ہیں
اگر ان علامات کا تعلق مفرد اعضاء سے سمجھ لیا جائے تو وہ ایک ہی مرض کی بیشتر علامات ایک نام کے تحت آجائیں گی ورنہ صرف علامات کو امراض کا نام نہی دیا جا سکتا اور یہ علامات بنیادی ہیں جو کسی عضو میں بار بار پیدا ہوتی ہیں اور کم پڑھے لوگ انہیں الگ الگ امرض سمجھ بیٹھتے ہیں وہ اہم علامات یہ ہیں

تین مزاج تین ھاضم

تحریک

جب کسی عضو میں غذا دوا یا زہر کے استعمال سے تحریک پیدا ہوتی ہے تو وہاں پر سکیڑ پیدا ہو جاتا ہے وہاں کی رطوبات کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور وہاں پر آہستہ آہستہ گرمی بڑھنا شروع ہوجاتی ہے یہی تحریک جب شدت اختیار کرلیتی ہے تو اس عضو میں سوزش ہو جاتی ہے لیکن تحریک سے سوزش تک اس عضو کو ان علامات سے گزرنا پڑتا ہے:

1 لذت

جب متحرک عضو کے مقام پر دوران خون بڑھتا ہے تو ابتدائی صورت میں لذت پیدا ہوتی ہے جیسے گدگدی کرنے سے لذت پیدا ہوتی ہے یہ لذت اور لطف کی اصل حقیقت ہے۔

2 بے چینی

جب لذت میں شہوت پیدا ہوجائے تو وہاں پر لطف کی بجائے بے چینی بڑھ جاتی ہے

3 حبس

اس حالت کو کہتے ہیں جہاں رطوبات کی پیدائش بند ہو حائے اور خشکی بڑھنا شروع ہو جائے

4 قبض

قبض اس حالت کو کہتے ہیں جہاں پر رطوبات کا اخراج رک جائے

5 خارش

جب بے چینی کے بعد حبس وقبض پیدا ہوجائے تو وہاں خارش شروع ہو جاتی ہے

6 جوش خون

خارش میں جب شدت پیدا ہوجائے تو وہاں پر جوش خون پیدا ہوتا ہے تو اس کے دباؤ سے عضو کی وسعت میں درد پیدا ہوجاتا ہے

7 سوزش

جب یہ تمام علامات وارد ہو جائیں تب سوزش ہوتی ہے سوزش کے معنی جلن کے ہیں کیونکہ سوزش کی حالت میں اس مقام پر خون شدت سے آنا شروع ہو جاتا ہے اور جلن ہونے لگتی ہے اور کیفیاتی نفسیاتی اور مادی تحریکات سے جسم کے کسی بھی مفرد عضو میں پیدا ہو جاتی ہے ہر قسم کی سوزش میں جلن حرارت سرخی رطوبات کا ترشح اور تغیر افعال لازمی پائے جاتے ہیں جب کس زندہ ساخت پر کوئی مہیج(خراش کنندہ) اثر انداز ہو تو اس کے خلاف جسم کی ایک منظم مدافعانہ تدبیر کے نتیجے میں جو علامت ظاہر ہوتی ہے اس کو سوزش کہا جاتا ہے قوت مدبرہ کی یہ تدبیر اس لئے ہوتی ہے کہ اس مہیج کے مضر اثرات کو مقامی طور پر ہی ختم کیا جائے اور اسے پورے بدن میں پھیلنے سے روکا جائے سوزش کی شدت اس مہیج کی قوت مضرت کے مطابق ہوتی ہے کوئی زہریلا سوزشی مادہ جتنا زیادہ تیز اثر ہو گا اتنی ہی شدید سوزش ظاہر ہوتی ہے سوزش کے نتیجے میں درجہ بدرجہ پانچ علامات پائی جاتی ہیں

سوزش کا نتیجہ

1 جلن

جلن تکلیف کے اس احساس کا نام ہے جو سوزش مادہ کے اثر سے کسی عضو میں پیدا ہوتا ہے

2 حرارت

جب کسی مقامات پر سوزشی مادہ اثر انداز ہوتا ہے تو اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے خون تیزی سے وہاں جمع ہوتا جاتا ہے خون کی تیزی اور اجتماع سے عضو میں گرمی پیدا ہوتی ہے اور وہ چھونے سے گرم محسوس ہوتا ہے

3 سرخی 

مقام سوزش پر چونکہ خون جمع ہوتا ہے جو سرخ رنگ کا ہے اس لئے اس مقام کا سرخ ہو جانا لازمی امر ہے

4 رطوبات کا ترشح

جب کس جسم یا مجرٰی میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے تو اس کو رفع کرنے کے لئے ردعمل کے طور پر وہاں پر ترشح رطوبات ہوتا ہے سوزش سے حفاظت کے لئے یہ بھی قوت مدبرہ البدن کی ایک تدبیر ہے ہر عضو کی سوزش میں جو رطوبات اخراج پاتی ہیں ان کی کیمیاوی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں اعصاب کی سوزش میں جو رطوبات اخراج پاتی ہے اس میں ہر غدد کا اپنا کیمیاوی تغیر شامل ہوتا ہے اسی طرح جو سوزش کسی عضو میں ہوتی ہے اس کی رطوبات میں لحمی اجزاء اور تیزابی مادے زیادہ ہوتے ہیں

5 تغیر افعال

اس کی بھی تین صورتیں ہیں

1۔ تحریک

جب جسم کے کسی عضو میں سوزش پیدا ہوتی ہے تو اس کے عضوی وکیمیائی افعال میں تغیر پیدا ہوجاتا ہے وہ تغیر اس طرح ہوتا ہے کہ مقام سوزش پر پہلے انقباض اور خشکی پیدا ہوتی ہے حرارت کی کمی اور برودت کی زیادتی ہو جاتی ہے اس طرح آکسیجن کی کمی اور کاربن کی زیادتی ہو جاتی ہے رطوبات کی کمی بلکہ بندش ہو جاتی ہے جس سے تناؤ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اس کو تحریک کہا جاتا ہے2۔ تسکین

جب کسی عضو میں سوزش پیدا ہوتی ہے تو اس میں بندش رطوبت جاتی ہے لیکن اس سوزش کو رفع کرنے کے لئے ردعمل کے طور پر خون سے رطوبات کا ترشح زیادہ ہو جاتا ہے جس کو تحریک والا عضو اپنی انقباض کی وجہ سے قبول نہی کرتا تو وہ دوران خون کے مطابق اس سے بعد والے عضو میں جمع ہو جاتی ہیں وہاں پر حالت تسکین پیدا ہوجاتی ہے عضو میں اس رطوبت کے اجتماع سے کیمیاوی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے اور وہ عضو فعلاً سست ہوجاتا ہے یہی تسکین بڑھ کر تخدیر بن جاتی ہے کثرت رطوبات سے وہ عضو پھول جاتا ہے

3۔ تحلیل

جب کسی عضو میں تحریک پیدا ہو جاتی ہے تو وہاں پر سردی کی کثرت ہو جاتی ہے اور عضو سکڑ جاتا ہے اور اس میں خون کا اجتماع ہوجاتا ہے اس کے نتیجے میں وہ عضو جہاں سے خون تیزی سے گذر کر متاثرہ عضو میں جمع ہو رہا ہوتا ہے گرم ہو جاتا ہے اور خون کے طبعی بہاؤ کے مطابق اپنی گرم رطوبت اسی خون کے زریعے اس عضو میں بھیجتا رہتا ہے تاکہ متاثرہ مقام کی سردی کو گرمی پہنچا کر ختم کیا جا سکے اور وہاں پر موجود انقباض اور سکیڑ کو حرارت سے پھیلایا جاسکے اور دوران خون چلایا جاسکے لہٰذا اس سے پہلے والے عضو میں تحلیل ہو جاتی ہے

نوٹ

پہلے بلغمی سوداوی اور صفراوی یہ تینوں حالتیں مفرد زکر کی گئی ہیں اب انہیں مرکب کر کے بیان کیا جا رہا ہے کیونکہ مفرد حالتیں صرف سمجھنے کے لئے تحریر کی گئی ہیں اس لئے مزاج کی بھی چھ اقسام بنتی ہیں وہ یہ ہیں
1 اعصابی عضلاتی تر سرد
2 عضلاتی اعصابی خشک سرد
3 عضلاتی غدی خشک گرم
4 غدی عضلاتی گرم خشک
5 غدی اعصابی گرم تر

یہ بھی پڑھیں: ثعلب مصری

6 اعصابی غدی تر گرم ان اصطلاحات میں ہر پہلا لفط فاعل کیفیت ظاہر کرتا ہے اور دوسرا مفعول جبسے اعصابی عضلاتی میں تری زیادہ ہے اور سردی کم انسانی افعال واعمال کا دارومدار اسی کیفیت فاعلہ پر ہے جو اس کے جسم میں غالب ہو گی اسی کی صفات ظاہر ہوں گی۔
اللہ عزوجل ہم سب کو آباد رکھے دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
پروفیسر حکیم عادل شاہ

Related posts

Leave a ReplyCancel reply