ترپھلا کی چائے/ڈاکٹرز سے تاحیات نجات

triphala extract 500x500 1 1

ترپھلا کی چائے/ڈاکٹرز سے تاحیات نجات

 یہ ایک نایاب نسخہ ہے،
طب یونانی اور اریووید کی قدیم کتابوں میں ترپھلا کا ذکر کثرت سے پایا جاتا ہے، جو ایک ایسا نسخہ ہے، کہ جسم میں زیادہ تر بیماریوں کا علاج صرف واحد اس نسخے کے استعمال سے حل ہو جاتا ہے، سب سے پہلے اس کا بنانے کا طریقہ بتاتا ہوں، اسکے بعد اس کے فوائد بتاتا ہوں، اگر اس گروپ سے لوگوں کو فیض حاصل ہو تو میری مودبانہ گزارش ہے کہ اس کو دکھی انسانیت تک پہونچائے کیا پتا اس کی کسی کو ضرورت پیش آئے اور یہ ہماری نجات کا سبب بن جائے،
ھوالشافی
ترپھلہ کا سفوف ایک چمچ, پانی ڈیڑھ کپ, شہد ایک چمچ,

ترپھلہ سے مراد تین چیزیں ہیں: آملہ، بہیڑہ، اور ہریڑ

ترکیب اور استعمال
پانی میں ایک چمچ ترپھلہ کا سفوف ڈال کر ابال کر ایک کپ رہنے پر چھان کے شہد ملا کے صبح نہار منہ گھونٹ گھونٹ کر پئیں اسکے دو سو سے زائد فوائد ہیں چند درج زیل ہیں ـ
جسم میں زائد رطوبتیں جمع ہونا،بالوں کا قبل از وقت سفید ہونا، جسم میں صفراء کا جمع ہونا، جسم میں گلٹیاں بننا، جلد کا بگڑنا پھوڑے پھنسیاں زخم بننا، قبض کا مستقل رہنا، معدے کا کام نہ کرنا، آنتوں کی خشکی، بلغم کیرہ نزلہ، صفراوی موٹاپا،کولیسٹرول بڑھنا،یورک ایسڈ بڑھنا، داڑھی کے بال سفید ہونا، منہ پہ جھریاں سیاہیاں کیل مہاسے ہونا، عضو خاص کی کمزوریاں، جریان، لیکیوریا، رحم کے تمام مسائل، پیشاب کے تمام امراض، سوزاک، آتشک، گردے مثانے پتے کی پتھریاں، نظر کی کمزوری، مثانے کی کمزوری، پراسٹیٹ گلینڈ کا بڑھنا، ہائیپر ہونا، دماغی کمزوری، سٹریس، ٹینشن، جسمانی کمزوری، پیشاب کی جلن، عورتوں کے جملہ امراض مخصوصہ، نقاہت، چکر آنا، بیہوشی، غشی، جسمانی درد، بلڈ پریشر ہائی یا لو، گردوں کی صفائی، جگر کی مضبوطی، جسم  ے بلغم کا خاتمہ، کمردرد، پٹھوں کا درد، لنگڑی کا درد، قوت مدافعت میں کمی،
ایک بات زہن نشین کرے کسی دکھیارے کی مدد کرنا صواب جاریہ ہے، اور خوش قسمتی یہ ہےاپ گروپ کا حصہ ہے، اور بھی اپنے اطراف میں دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ہمارے ایمان کا ایک وطیرہ ہے، اس کے فوائد ملنے پر آپ سے مودبانہ التجا ہے کہ اس کے فائدے گروپ میں شامل کیا کرے،
اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں،
طالب دعاء
جابر پالن پوری
گجرات ،انڈیا

جوارشات

……………….

نوٹ جن کا یورک ایسڈ بڑا ہوا ہے ان کو ترپھلہ نہیں استعمال کرنا چاہیے

Related posts

Leave a Reply