(سید عبدالوہاب شیرازی)
ایک بہترین قائد اور رہنما میں یہ وصف ہونا چاہیے کہ وہ اپنی محنت سے اکھٹی کی ہوئی جمع پونجی(کارکنان) کی حفاظت کا پورا خیال رکھے۔آپ کے لئے یہ بات حیرت سے کم نہ ہوگی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ستائیس جنگوں میں حصہ لیا اور پچپن سریے روانہ کیے، لیکن مدنی زندگی کے دس سالوں اور ان تمام جنگوں میں مجموعی لحاظ سے صرف اور صرف 969 لوگ قتل اور شہید ہوئے، وہ بھی کافروں اور مسلمانوں کو ملا کر۔حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلاب کو تاریخ انسانی کا سب سے بڑا انقلاب قرار دیا جاتا ہے لیکن اتنے بڑے انقلاب اوردس سالوں میںصرف1000سے بھی کم لاشیں گریں۔ جبکہ ہمارے ہاں اشتعال انگیز اور ہیجانی تقاریر کرکے ہزاروں نوجوانوں کو ساکت دیواروں کے ساتھ ٹکرا ٹکرا شہید کرایا گیا، ان بیچاروں کو ہم شہید ہی کہیں گے کیونکہ ان کی اکثریت دین کے جذبے سے تو سرشار تھی لیکن دین کی حکمت اور تعلیم سے بے بہرہ تھی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمت اور تدبیر سے مکمل جہالت ،کفراور اندھیر نگری میں اپنی ٹیم پیدا بھی کی اور مسلسل اوپر کی طرف سفر کیا جب کہ ہمارے ہاں ایسے لیڈروں نے ایک دم اوپر کو چھلانگ لگائی اور پھر واپس تندور میں گرپڑے۔چنانچہ وہی لیڈر آج کل سوشل میڈیا پر ویڈیو شیئر کرکے کوئی تو تندور پر روٹیاں بنانے کا طریقہ سکھاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کوئی حجامہ سینٹر کھول کر حجامہ کی ٹریننگ اور فضائل سنارہے ہیں۔
مولانا جلال الدین رومی مشہور صوفی بزرگ اور شاعر گزرے ہیں۔ انہوں نے 26ہزار اشعار پر مشتمل مثنوی معنوی لکھی جو آج تک دنیا میں مقبول ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے مثالوں کے ذریعے مسلمانوں کو دینی اور دنیوی ترقی کا سبق دیا ہے۔ جب1258میں تاتاریوں نے بغداد تباہ کرکے عباسی سلطنت کا خاتمہ کردیاتھا اس وقت مولانا روم بھی موجود تھے، تاتاریوں نے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیئے تھے لیکن مسلمان بے بس ولاچار بنے ہوئے تھے۔ ایسے سخت حالات میں مولانا روم نے اس وقت کے مسائل کے حل کے لئے مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں ایک مثال بیان کی ہے، وہ لکھتے ہیں:ایک جنگل میں شیر نے تباہی مچائی ہوئی تھی، سارے جنگل کے جانور شیر سے سخت تنگ آئے ہوئے تھے۔ آخر کار انہوں نے اس کا ایک حل نکالا، انہوں نے شیر سے بات کرکے اس کو اس پر راضی کیا کہ وہ ان پر حملہ نہ کرے وہ خود اپنی طرف سے ہر روز ایک جانور اس کے پاس بھیج دیا کریں گے۔اس تجویز پر عمل ہونے لگا، اس کی صورت یہ تھی کہ ہر روز قرعہ اندازی کے ذریعہ یہ طے کیا جاتا کہ آج کون سا جانور شیر کی خوراک بنے گا، جس جانور کے نام قرعہ نکلتا اس کو شیر کے پاس بھیج دیا جاتا۔ اس طرح تمام جانور امن کے ساتھ جنگل میں رہنے لگے۔ آخر کار قرعہ ایک خرگوش کے نام نکلا، یہ خرگوش پہلے سے سوچے ہوئے تھا کہ جب میرے نام قرعہ نکلے گا تو میں اپنے آپ کو شیر کی خوراک نہیں بننے دوں گا، بلکہ تدبیر کے ذریعہ خود شیر کو ہلاک کردوں گا۔ چنانچہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خرگوش ایک گھنٹہ تاخیر کے ساتھ شیر کے پاس پہنچا، شیر بہت بھوکا تھا وہ تاخیر کی بنا پر اس کو ڈانٹنے لگا، دوسرا غصہ اس بات پر بھی تھا کہ خرگوش چھوٹا سا جانور ہے۔ خرگوش نے نہایت ہی نرمی اور لجاجت سے کہا کہ حضور! بات یہ ہے کہ آپ کی سلطنت میں ایک اور شیر آگیا ہے، آپ کی خوراک کے لئے دو عدد خرگوش بھیجے گئے تھے مگر راستے میں اس دوسرے شیر نے ایک خرگوش کھا لیا میں بڑی مشکل سے آپ تک پہنچا ہوں۔ اس بات سے شیر کا غصہ دوسرے شیر کی طرف مُڑ گیا، اس نے چلّا کر کہا: وہ دوسرا شیر کہاں ہے؟ خرگوش نے نہایت ادب سے کہا چلئے حضور میں آپ کو بتاتا ہوں، خرگوش اس کو ایک کنویں پر لے گیا اور کہا نیچے دیکھئے وہ ہے۔ شیر نے نیچے دیکھا تو اپنا عکس پانی میں نظر آیا۔ شیر غرایا تو کنویں کے اندر سے دوسرے شیر کے غرانے کی آواز بھی آئی چنانچہ شیر نے اس پر حملہ کرنے کے لئے کنویں میں چھلانگ لگادی اور کچھ دنوں کے بعد بھوکا مرگیا۔مولانا روم فرماتے ہیں خرگوش کی تدبیر کا جال شیر کی موت کا پھندا تھا۔ یہ حکایت کی زبان میں ایک رہنمائی تھی جو مولانا نے اپنے وقت کے مسلمانوں کو تاتاریوں کے خلاف دی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تدبیر کے ساتھ کام کرنے سے بڑے سے بڑے اور مشکل سے مشکل کام نہایت آسانی سے حل ہو جاتے ہیں۔ہمیں کوئی بھی کام سرانجام دیتے ہوئے جذبات، اشتعال انگیزی اور غصے میں اپنے آپ کو بے قابو کرکے دشمن کے ہاتھ کا کھلونا نہیں بننا چاہیے، ہماری اس طرح کی روش سے آج دشمن ہمیں اپنے مقاصد میں استعمال کررہے ہیں ۔بدقسمتی سے آج مسلمانوں کا ایک طبقہ تو وہ ہے جو شیر کے منہ کا نوالا بننے کے لئے بالکل ہاتھ باندھ کر تیار بیٹھا ہے اور اپنی باری کا انتظار کررہا ہے، جبکہ دوسرا طبقہ بغیر کسی تدبیر،تنظیم،تربیت اور تعلیم کے محض اشتعال انگیزی کرکے اپنا اور اپنی قوم کا نقصان کررہا ہے۔ ہمیں اس قابل ہونا چاہیے کہ ہم موقع محل، اوروقت کے تقاضوں سے آگاہ ہوں، کس وقت کیا کرنا ہے اور کس وقت کیا کہنا ہے اس کی قابلیت ہم رکھتے ہوں۔میرے خیال میں ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہم دین اور دنیا دونوں سے آگاہ ہوں۔ ہماری یہ دونوں آنکھیں کھلی ہوئی ہوں۔ دشمن نے ہماری قوم کو ایسا تقسیم کردیا ہے کہ کچھ لوگوں نے دین کی آنکھ کھلی رکھی ہوئی ہے تو دنیا کی آنکھ بند کرلی ہے، جبکہ کچھ لوگوں نے دنیا کی آنکھ کھلی رکھی ہوئی ہے تو دین کی آنکھ مکمل بند کرلی ہے۔ہمیں اس قابل ہونا چاہیے کہ ہم مخالف کے اندر چھپی اس کی کمزوری کو تلاش کریں، اور پھر اس کا رُخ اس طرف موڑ لیں، یاد رکھیں جب دریا بپھرتا ہے تو اس کے سامنے نازک بندباندھنے یا اس کے سامنے کھڑا ہونے سے اسے نہیں روکا جاسکتا،بلکہ ایسے موقع پر اس کا رخ دوسری طرف موڑ کر یا اس کے پانی کو کئی راستوں پر ڈال کر تقسیم کرنے سے ہم اس کے نقصان سے بچ سکتے ہیں۔آج یہ صلاحیت ہمارے دشمنوں کے پاس ہے وہ میڈیا کے ذریعے ہر روز ہمارے ذہنوں کو کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف موڑ دیتے ہیں اور ہمیں پتا بھی نہیں چلتا۔ جس طرح کوئی شخص ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے اپنی مرضی سے گیم کے کردار کو آگے پیچھے کرتا یا فاتح اور شکست خوردہ بناتااور اپنا دل بہلاتا ہے بالکل آج ہمارے ساتھ ایسا ہی مغربی قومیں کررہی ہیں، وہ جب چاہتے ہیں اور جدھر چاہتے ہیں ہمیں موڑ لیتے ہیں۔
حضرت ابراہیم بن عیلہ کو خلیفہ ہشام بن عبدالملک اموی نے بلایا، اور اُن کو مصر کے محکمہ خراج کے افسر کا عہدہ پیش کیا۔ حضرت ابراہیم بن عیلہ نے عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں اس کا ہل نہیں ہوں۔ خلیفہ ہشام کو غصہ آگیا، اس نے کہا کہ آپ کو یہ عہدہ قبول کرنا ہوگا ورنہ آپ کو سخت سزا دی جائے گی۔ حضرت ابراہیم بن عیلہ نے نہایت ہی نرمی کے ساتھ کہا: ”اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں، ہم نے زمین وآسمان کو یہ امانت پیش کی مگر انہوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کردیا۔ تو جب خدائے بزرگ وبرتر ذمہ داری قبول نہ کرنے پر خفا نہیں ہوئے تو آپ کیوں مجھ پر خفا ہورہے ہیں؟“۔خلیفہ یہ بات سن کر خاموش ہوگیا اور ابراہیم بن عیلہ کو چھوڑ دیا۔
خلیفہ کو پہلے غلطی ابراہیم بن عیلہ میں نظر آرہی تھی لیکن ان کے حکمت بھرے اور موقع محل کی مناسبت سے قرآنی جواب کو سُن کر خلیفہ کو غلطی اپنے میں نظر آنا شروع ہوگئی، اور اس احساس نے اس کی سوچ کو بدل دیا،ظاہر ہے خلیفہ بھی مسلمان تھا،قرآن کے سامنے جرات نہیں کرسکتا تھا، ابراہیم بن عیلہ نے اسی نکتے کو پکڑا۔اس طرح کے واقعات اور مواقع کا ہر آدمی کو سامنا کرنا پڑتا ہے، جب بھی ایسی صورت حال پیش آئے آدمی اچھے رد عمل کے ذریعے ساری مخالف صورت حال کو اپنے حق میں بدل سکتا ہے۔ یہ ایک فطری ہتھیار ہے جسے استعمال کرنے کا طریقہ ہم سیکھ سکتے ہیں، بس اس کے لئے ایسے مواقع پر دل ودماغ کو ٹھنڈا رکھنا ضروری ہے۔ اگر ہم تُندوتیز جوابی تیر برسائیں گے یا مخالفانہ کاروائی کریں گے تو ظاہر ہے معاملہ سنورنے کے بجائے بگڑتا ہی جائے گا۔امام زین العابدین کی لونڈی آپ کو وضوءکرانے کے لئے پانی سے بھرا لوٹا لائی، اچانک اس کے ہاتھ سے وہ لوٹا آپ پر گر گیا۔اور آپ کے کپڑے بھیگ گئے، آپ نے غصے سے نگاہ اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو اس نے فوراً قرآن کی آیت پڑھی”والکاظمین الغیظ،اور غصہ پینے والے“۔یہ سن کر آپ نے فرمایا میں نے غصہ پی لیا۔ وہ پھر بولی”والعافین عن الناس، اور لوگوں کو معاف کرنے والے“۔آپ نے فرمایا میں نے معاف کیا، رب تجھے معافی دے۔وہ پھر بولی ”واللہ یحب المحسنین،بے شک اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے احسان کرنے والوں کو“۔ آپ نے فرمایا جا تو فی سبیل اللہ آزاد ہے۔پہلے زمانے کی لونڈیاں بھی قرآن کے ساتھ اتنا شغف رکھتی تھیں کہ موقع محل پر مناسب آیت پڑھ لیں، لیکن آج کل بڑی بڑی ڈگریاں اٹھائے لوگ پھرتے ہیں مگر اپنے والد کے جنازے کے موقع پر ڈر لگا رہتا ہے کہ مولوی صاحب مجھے ہی نہ کہہ دیں اپنے والد کا جنازہ پڑھاو۔ہمیں ہر معاملے میں آسمانی ہدایات سے استفادہ کرتے رہنا چاہیے، اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:برائی کو بھلائی اور احسان کے ساتھ دفع کرو اس طرح تمہارا دشمن بھی تمہارا گہرا دوست بن جائے گا(حم سجدہ)