تحقیقات حمیات

تحقیقات حمیات


تحقیقات حمیات

پیش لفظ تحقیقات حمیات

الحمد للہ ربّ العالمین۔ الصلوۃ والسلام علٰی رحمۃِ العالمین۔ اما بعد۔ اعوذ باللّہ من الشیطان الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔یایھا الناس عبدو ربکم والذی خلقکم والذین من قبلکم لعلکم تتقون۔ الذی جعل لکم الارض فراشاً والسماء بناء من السما ماء فاخرج بہ من الثمراترزقا لکم ۔
ترجمہ: پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ کی شیطان کی طرف سے جو مردودہے۔ شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جس کی مہربانیاں عام ہیں۔ (جیسے ہوا عام ہے)اور اس کی رحمتیں بوقت ضرورت میسر آتی ہیں۔(جیسے پانی بوقت ضرورت میسر ہوجاتاہے) اے لوگو! اپنے رب (پروردگار) کی عبادت (اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارو)کرو۔ جس نے تم کواور جوتم سے پہلے گزر چکے ہیں پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ رب وہی ہے جس نے تمہارے واسطے زمین کو فراش (آرام گاہ) اور آسمان کوچھت بنایا۔ اور آسمان سے پانی نازل کیا۔ پھر اس سے تمہارے رزق کی خاطر پھل پکائے ہیں۔

رب العالمین اپنی کلام پاک میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے تم لوگوں کوپیداکیا اور تم سے پہلے اور لوگوں کوبھی پیداکیا یعنی جس طرح تم لوگوں کی پیدائش عورت مرد کی محبت سے ہوئی ہے اسی طرح تم سے پہلے لوگ بھی پیدا کئے۔ گویا لوگوں کا پیداکرنے والا خود رب العالمین ہے۔ اس لئے مقصد یہ ہوا کہ اپنی زندگی بھی اسی رب کی مرضی پر گزاریں تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ اول اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو اور شیطان سے دور رہو۔ کیونکہ وہ مردود اور نافرمان تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ کا نام لے کر وہ کام شروع کرو کیونکہ اس کی رحمانیت اور رحمیت ہی کے محتاج ہیں۔ ہماری زندگی ان کے بغیر نہیں گزر سکتی۔ گویا ہماری زندگی اسی کی مرضی اور فرمانبرداری ہونی چاہیئے۔ جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور پانی ورزق کی دی ہے۔کہ یہ چیزیں ہم نے لوگوں کے لئے بنائی ہیں۔ لیکن غورکرو کہ یہ چیزیں کس طرح اس کی مرضی کے مطابق باقاعدہ ایک قانون کے مطابق عمل کررہی ہیں۔ یعنی زمین خود بھی حرکت کررہی ہے اور اپنے محور پربھی گھوم رہی ہے۔ یہ لوگوں کے لئے آرام گاہ بھی ہے اور اس پر جب پانی نازل ہوتا ہے تو اس میں سے ثمر پیداہوتے ہیں۔ آسمان، سورج، چاند اور ستارے ایک انداز پر قائم ہیں۔ان کی حرکات باقاعدہ ہیں اس سے پانی نازل ہوتا ہے جو زمین اور دیگر مخلوق کو تازگی بخشتا ہے اور یہ پانی اور رزق جو لوگوں کے لئے غذاکاکام کرتا ہے جس سے زندگی اور طاقت قائم رہتی ہے اس لئے صحیح زندگی اس امرکانام ہے جس قانون پر یہ کائنات قائم ہے اوراس سے زندگی پیداہوئی ہے۔

اس مثال میں قابل غور بات یہ ہے کہ ہم یہ بھی فکر کریں کہ زمین و آسمان میں پانی کی پیدائش سے لے کرزندگی تک کے عمل میں یہ تبدیلی اور ارتقاء کس کس طرح عمل میں آیا ہے۔ خاص طورپر زمین کی مٹی کے خواص اس کی اقسام، اس کے مختلف اجزاء، اس کی جمادات، نباتات اور حیوانات کی پیدائش و ترتیب اور ارتقاء و زندگی کا قیام اوراختتام وغیرہ۔ اسی آسمان کی بناوٹ، اس کا اثر ستاروں اور سیاروں کی گردش، نظام شمسی وقمری، شب و روز، ماہ وسال اور موسموں کی تبدیلیاں وغیرہ ۔ اسی طرح پانی کی حقیقت، اس کا سورج کی تپش سے بخارات بننا، بادل کی صورت اختیار کرنا، پھر بجلی اورکڑک، اس کے بعد بارش اوراولے، کہر و شبنم وغیرہ، اسی طرح ثمرات اور ان کے افعال و اثرات و افعال اور خواص و فوائد، ان کی غذائی کیفیت اور اہمیت وغیرہ وغیرہ سب قابل غور ہیں۔ان سب سے اہم ارکان کی پیدائش اور ان کاایک دوسرے سے مل کر مادہ کی پیدائش اس میں ارتقاء اور زندگی کا قیام ہے۔ ارکان کے اثرات و افعال اور خواص و فوائد اور ان کی باہم تبدیلیاں قدرت کے عجیب وغریب کرشمے ہیں۔ اسی طرح نظامِ کائنات میں مٹی کے ساتھ پانی اور آگ کے تعامل اور ان کا نظام آفاقی، کبھی مٹی میں خمیر وفساد پیداہوجاتا ہے، کبھی پانی میں تخمیروتبخیر اور تعفن وحرارت پیداکرتا ہے کبھی پانی آسمان پر چڑھ جاتاہے اور کبھی زمین پرنازل ہوجاتاہے اسی طرح ہوا کبھی گرم ہوجاتی ہے اور کبھی سرد ہوجاتی ہے کبھی چلنا بند کردیتی ہے اور کبھی اس میں طوفان آجاتاہے۔ یہی صورت کائنات میں گرمی اور حرارت کی بھی ہے۔ کبھی وہ اچھی لگتی ہے، کبھی اس میں پسینہ آتا ہے اور اس سے جسم پرجلن ہوتی ہے اور کبھی دم گھٹتاہے، بلکہ اس قدر تحلیل ہوتی ہےکہ انسان و حیوان غش کھاکرگر پڑتا ہے اور درخت پودے مرجھا جاتےہیں۔بالکل یہی صورت آگ، ہوا، پانی اور مٹی کی جسم کے اندر بھی ہے۔ قرآن حکیم میں لکھا ہے کہ جوکچھ آفاق میں ہے وہی کچھ نفس میں بھی پایاجاتاہے۔ یعنی جسم میں بھی حرارت و ریاح اور رطوبات اورخمیرکی صورتیں پیداہوتی ہیں۔ جب تک انسان کے اعضاء درست رہتے ہیں یہ قویٰ اپنے افعال درست طریق پرانجام دیتے ہیں اور جہاں انسان کے افعال بگڑ جاتے ہیں وہاں ان عناصر و قویٰ میں مواد پیداہوتاہے ان میں بھی تبخیر اور فساد پیداہوجاتاہے جس کا نام مرض ہے اور جو غیر معمولی کیفیات و حالات اور صورتیں پیداہوتی ہیں۔ ان کا نام علامات ہے۔ جن کے مجموعے کسی عضو یا مرض کی طرف دلالت کرتے ہیں۔

بخار بھی ان علامات میں سے ایک علامت ہےجو یہ ظاہر کرتی ہے کہ جسم انسان کا درجہ حرارت جو صحت کی حالت میں مقرر ہے اپنے اندازے سے بڑھ گیاہے، اس کوعلامت اس لئے بھی کہا جاتاہے کہ اس کی پیدائش کسی ایک طریق پرپیدانہیں ہوتی، کبھی جسم میں یہ حرارت جگر کی خرابی سے بڑھ جاتی ہے، کبھی دل کے افعال میں تیزی آنے سے زیادہ ہوجاتی ہے اور اعصاب کے افعال میں بھی خرابی سے افراط میں آجاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں کبھی حرارت بذاتِ خود بڑھ جاتی ہے۔ کبھی جسم کی ہوا گرم ہوکر بخار پیداکردیتی ہے اور کبھی اندر کی رطوبت میں تعفن اور فساد پیداہوکر بخار کی صورت ظاہر ہوجاتی ہے۔بخار ایک ایسی حرارت ہے جس کا درجہ حرارت صحت مند جسم سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس کو طب یونانی نے حرارت غریبہ لکھا ہے۔ مگر فرنگی طب نے اس کی کچھ تصریح و تشریح نہیں کی ہے۔ اس لئے اس کی حقیقت اندھیرے میں ہے۔ جب تک یہ واضح نہ ہوکہ حرارت بخار دراصل کیا چیز ہے اس وقت تک بخاروں کو پورے طورپر سمجھا نہیں جاسکتا۔ طب یونانی اپنے زمانہ میں بخار کو حرارت غریبہ کہ کر اس کی حقیقت پر بہت کچھ روشنی ڈالتی ہے جب کہ ، اس کے مقابلے میں حرارت غریزیہ ایک صحت مند حرارت کاذکر بھی کیاہے اور ساتھ حرارت مفرد کو عنصری حرارت اور حرارت ناری لکھ دیاہے۔ اس کی روشنی میں اگر تحقیق کی جائے تومعلومات میں بہت کچھ اضافہ ہوتاہے۔

اگر فرنگی سائنس کی روشنی میں بخار کی پیدائش کو تعفن کی پیداوارتسلیم کرلیں جو جراثیم کے تخمیر اور فساد سے پیداہوتے ہیں تو پھر یقیناً یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہرتعفن اور تخمیر اپنے اندر تیزابیت اور کاربن ڈائی اکسائیڈ رکھتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں لازماً آکسیجن سے جدا ہیں پھر تسلیم کرناپڑے گا کہ بخار کی حرارت بہرحال صحت جسمانی کی حرارت سے ضرورکوئی جداشے ہے۔ تخمیر و تعفن کی ترشی اور تخمیرکو تسلیم کرنے کے بعد یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ حرارت بذات خود اپنے اندرقابلیتِ تخمیر و تعفن رکھتی ہے جس کاجسم کے اندر زیادہ ہونا باعثِ خود بخار ہے۔ یہاں جراثیم کے بخار پیداکرنے کی نفی ہوجاتی ہے۔ کاربالک ایسڈ گیس جوخود بھی تخمیر کی پیدائش ہے اپنے اندر ترشی رکھتی ہے اس سے زیادہ خود بخار تعفن کا باعث ہے۔ ہم نے اس کتاب میں اسی پر پورے طورپر روشنی ڈالی ہے اور اس مسئلہ کو ہمیشہ کےلئے حل کر دیاہے اس سے اچھی طرح اندازہ ہوسکے گا کہ فرنگی طب کس حد تک غلط ہے اور ماڈرن سائنس کس قدر غلط فہمی کا شکار ہے۔

بخار کے ساتھ بخار کی اہمیت بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس کا اندازہ ا س طرح لگایاجاسکتا ہے کہ بخار ایک علامت ہے وہ جسم کے اندر خرابی کی دلالت کرتی ہے۔ وہ خرابی کیا ہے؟ وہ اہم خرابی جسم کے کسی مفرد عضو کی خرابی سے وہاں پر حرارت غریبہ پیداہوگئی ہے۔ اس حرارت غریبہ کا کام یہ ہے کہ اس خرابی کو دور کرے۔ گویاوہ اس کا علاج ہے اورجب تک سبب قائم ہے حرارت غریبہ اور بخار کو رہنا چاہیئے۔ کیونکہ اسی واحد طریق سے جسم کے اندر کی خرابی نہیں جاسکتی۔ مثلاً جسم تھکن محسوس کررہاہے یا کسی عضو میں تحریک یا سوزش اور ورم پیداہورہاہے یا ہوگیاہے یا اس کی تسکین میں پیداہوگیاہے تو جب تک یہ کیفیت و صورتیں اور مواد وہاں ختم نہ ہوجائے بخاروں کاقائم رہنا ضروری ہے کیونکہ بخار ہی سے ثابت ہوتا ہے کہ طبیعت مدبرہ بدن تمام جسم کاخون اس کی خرابی کے مقام پر بھیج رہی ہے اور جوخون وہاں اکٹھا ہوتا ہے اس کو جسم میں پھیلا رہی ہے۔ اس لئے تھکن و تحریک اور سوزش و ورم کے اسباب کو ختم ہونا ضروری ہے اسی طرح اگر رطوبات میں تعفن پیداہوگیاہے تو بخاروں کا کام ہوگا کہ اس مادہ متعفنہ کو پورے طورپر جلا دے اور جسم کے جس حصہ کی تسکین ہے وہاں پر رطوبات اور مواد رکے ہوئے ہیں ان کی اصلاح کردے تاکہ پھر وہاں پر مواد نہ رک پائے۔

تحقیقات حمیات

کسی سوزش و اورام اور مواد و تعفن کوختم کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ اول۔ بخار جو قدرتی طریقہ علاج ہے جس کا کام ان کو ختم کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض کو دوا نہ بھی دیں اور صرف اس کی غذا اور اس کے ماحول کی نگرانی کریں کہ طبعیت مدبرہ بدن ا س کو اپنے وقت پر ختم کردے گی۔ اس کا بحران ہے کہ جس کے دن مقرر کئے گئے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جو کام طبیعت مدبرہ بدن بخاروں کے ذریعے کر رہی ہے اس کی مدد دوا سے کی جائے تاکہ وہ مرض پر جلد قابو پا لے اور مرض پر بہت جلد قابو پالیا جائے اس کا نام دوائی علاج ہے۔ دونوں صورتوں میں بخارکی اہمیت سامنے آجاتی ہے صرف بخاروں پر کنٹرول ہی سے امراض کے ساتھ بخاروں کا صحیح علاج ہوسکتا ہے۔ یعنی جب حرارت غریبہ کی پیدائش کے امکان ہی ختم ہوجاتے ہیں تو بخار خودبخود اتر جائے گا، ہم نے اس مسئلہ پر بھی پوری روشنی ڈالی ہے۔

بخاروں کی اہمیت کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہےکہ بعض امراض میں بخارپیدا کرکےان کے اندر کا زہریلہ مواد جلایا جاتا ہےیا خارج کیا جاتا ہے جس کواعضاء کی کمزوری خارج نہیں کر سکی، جیسے چیچک اور ہیضہ سے بچنے کے لئےان کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں اور مریض کے اندر بخار پیداکردیاجاتا ہے جو جسم کے اندر اس خاص قسم کے مواد کوجلا دیتا ہےیا عضوکو تیز کرکے خارج کردیتاہے جیسے چیچک کے دانے نکل آتے ہیں۔ اسی اصول پر آج کل ٹی بی کے ٹیکے بھی لگائے جاتے ہیں۔ اس اصول کوبھی سمجھنے میں فرنگی طب نے بہت غلطیاں کی ہیں وہ سمجھتا ہے کہ وہ مقابلے کےلئے جسم میں استعداد پیداکرتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں قوت مدافعت (Immunity) پیداکرتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ قوت اس عضو میں پیداہوتی ہے جو زہریلے مواد کو خارج کرتا ہے یا جراثیم کو ہلاک کرتا ہے۔ یہ بالکل غلط ہے کہ اندرکا تعفن ختم کیا جاتا ہے اور جراثیم ہلاک کئے جاتے ہیں۔ بہرحال چیچک، ہیضہ اور ٹی بی کے ٹیکوں سے صاف ظاہر ہے کہ بخار پیداکرکےہی اندر کا مواد جلایا جاتا ہےاور عضو کوتحریک دی جاتی ہے۔ جہاں تک تعفن کوختم کرنے کاتعلق ہےیاجراثیم کو فنا کرنے کی صورت ہے یہ بھی بخاروں اور دیگر امراض میں غلط طریقہ پراستعمال کی گئی ہے کیونکہ جراثیم سے جہاں مواد میں تخمیرو فساد اور تعفن پیداہوتا ہے وہاں پراس کا یہ فعل بھی ہوتاہے کہ تعفن کوختم کردیں اور ان کواس وقت تک ہلاک نہیں کیا جانا چاہیئے جب تک وہاں کا تمام مواد تعفن بن کر ختم نہ ہوجائے اور اس عضو میں تحریک نہ پیداہوجائے جہاں پر تسکین سے مواد رک گیاتھااور اس میں تخمیرو فساد اور تعفن پیداہوگیاتھا۔ لیکن فرنگی طب اپنی غلط فہمی سے وہاں پردافع تعفن(Anti Septic) جراثیم کش استعمال کردیتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہاں کے جراثیم فنا ہوجاتے ہیں اور سلسلہ تخمیرو فساد اور تعفن ختم ہوجاتا ہےمگر مواد وہاں باقی رہ کر وہاں کے عضو میں پوری طرح تحریک پیدانہیں ہوتی۔ اس لئے وہاں پرجو مواد رہ جاتا ہے اس میں اس قدر استعداد نہیں ہوتی کہ پھر بخار پیدا کرے اس لئے کچھ عرصہ کے بعد وہ مقامی طورپر بھی جوش میں آ جاتاہے اور شدت سے جوش میں آتا ہے اور وہاں کے اعضاء کو کھانا شروع کردیتاہے جس کا نتیجہ ٹی بی اور دل کا بیٹھنا(Heart Failure) کے امراض، جو کثرت سے پھیل رہے ہیں ان کا اصل باعث دافع تعفن اور جراثیم کش ادویات کا بکثرت استعمال ہے۔

بخاروں کے سلسلہ میں ایک اور مسئلہ تقسیم حمیات کے متعلق بھی ہے۔ آج تک صحیح وضاحت نہیں ہوئی ہے اور اس طرح موسمی اور وبائی بخاروں کو الگ الگ بیان کیا گیاہے البتہ بخاروں میں پیچیدگیاں پیداہوجاتی ہیں۔لیکن ان کو اگرگردش و اخلاط کیفیات کے متعلق سمجھ کر علاج کیا جائے تومرکب بخاروں میں کوئی پیچیدگی باقی نہیں رہتی ہے۔ مگر فرنگی طب میں بخاروں کی تقسیم کے لئے کوئی قاعدہ اور اصول نہیں ہے اور نہ ہی موسمی اور وبائی بخاروں کی جدا تقسیم ہے۔ ہر بخار کے لئے جداجدا جراثیم تسلیم کئے گئے ہیں جن کی تشخیص میں بے حد دقتیں پیداہوتی ہیں۔ اسی طرح بخاروں کے علاج میں اس قدر غلطیاں اور نقصان ہوتا ہے کہ ان کا اندازہ کسی بھی ہسپتال کی رپورٹ میں لگایا جاتا ہے۔ جہاں تک ملیریا بخاروں کا تعلق ہے اس میں اس قدر پیچیدگیاں ہیں کہ ایک فرنگی ڈاکٹربھی اس پر پورے طورپر قابونہیں پاسکتا۔ ملیریاکاتعلق اگر کسی عضو سے سمجھا جاسکتا ہے تو یہ صرف جگر ہے اس طرح صرف صفراوی بخار ملیریا میں شامل نظر آتے ہیں۔ لیکن جب فرنگی طب نے صفراوی بخاروں کے علاوہ بلغمی و سوداوی بلکہ دموی بخاروں کو بھی ملیریا میں شامل کرلیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہےکہ ملیریا میں موسمی اور وبائی بخاروں کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ بہرحال ان کے تقسیم امراض میں بے حد بے امتیازی پائی جاتی ہے۔ ملیریاتو گویا کسی جدا بخار کی حیثیت نہیں رکھتا۔ خیال یہ پیداہوتا ہے کہ ملیریا پر ایک جدا کتاب لکھی جائے تاکہ فرنگی طب کے جادو کا طلسم ٹوٹ کر پارہ پارہ ہوجائے۔ ہم نے اس کتاب میں بھی اس پرروشنی ڈالی ہے لیکن وہ زیادہ تفصیل کا محتاج ہے۔

اس تقسیم میں جہاں ملیریا کو کئی بخاروں کے ساتھ ملا دیاہے وہاں پر ایسے بخارجوایک ہی تقسیم میں آتے ہیں ان کو بے شمار اقسام میں بیان کر دیاہے۔ جیسے تسکین اعصاب امعائی کے بخار ہیں۔ جن میں چیچک اور خسرہ خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ ہم نے سہولت تفہیم کے لئے ان سب کو ایک اقسام کے تحت بیان کردیا ہے جس سے نہ صرف تشخیص میں آسانیاں پیداہوجاتی ہیں بلکہ علاج بھی آسان ہوجاتا ہے۔ فرنگی طب میں حمی یوم کاتقریباً ذکر نہیں ہے اور کیفیاتی بخاروں کو تو بالکل بیان نہیں کیا گیا۔ جہاں کہیں بھی تھوڑا ساپتا چلتا ہے وہ ملیریا کے تحت آجاتا ہے اس کے علاوہ جیسے شمسی بخار(Sun Stroke)، سوزشی اور ورمی بخاروں کو جراثیمی بخاروں میں شامل کردیاگیاہے۔ غرض بے حد بے ترتیبی ہے اس لئے ان کے علاج میں بھی بے ترتیبی اور پریشانی ہے اور ہر علاج کو علیحدہ علیحدہ ذہن میں رکھنا پڑتا ہے۔ جن سے سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہم نے بخاروں کی تقسیم بالمفرد اعضاء کی ہے اور اس قدر آسان اور باقاعدہ(Systematic) کی ہے کہ وہ ایک اصول(Principal)کے ماتحت قائم رہتی ہے، یعنی کل تین مفرداعضاء ہیں۔ اعصاب،عضلات اور غدد۔گویا کل بخار تینوں کے تحت تقسیم کر دئیے ہیں۔ چونکہ ہر عضو کی تین ہی غیر طبعی حالتیں ہیں۔ یعنی تحریک و تسکین اور تحلیل اس لئے کل بخار صرف 9 بن جاتے ہیں۔ موسمی اور وبائی بخاروں کو بھی ان ہی میں شامل کردیا ہے۔ اس تقسیم کو دیکھنے کے بعد کوئی معالج کسی اور تقسیم کو قبول نہیں کرے گا اور ایک ذرا سی توجہ سے ذہن نشین ہوجاتی ہیں۔ہم نے ان کو سمجھانے کے لئے طب یونانی کے بخاروں کو ساتھ ساتھ بیان کیا ہے۔ ایورویدک کے جوڑوں(بخاروں) کو ساتھ ساتھ اس لئے بیان نہیں کیاکہ ان کی مناسبت سے طوالت پیداہوجاتی ہے۔ البتہ ایورویدک کے بخاروں کا بیان جداایک ہی مقام پر بیان کردیاہے۔ جس سے پورے طورپر ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔ ہومیوپیتھی میں سرے سےبخاروں کا بیان ہی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہاں توعلامات کے تحت حرارت کی زیادتی کو سامنے رکھ کرعلاج کرنا پڑتا ہے جن ہومیوپیتھ نے یونانی یا فرنگی طب کے بخاروں کو عنوان قائم کرکے ان کا علاج بیان کیا ہے وہ صحیح معنوں میں ہومیوپیتھ نہیں ہے۔ہومیوپیتھی ریسرچ میں ہم ان باتوں کو تفصیل سے بیان کریں گے۔ فرنگی طب کے بخاروں کو بھی الگ ہی ایک جگہ پربیان کردیاہے۔ مناسبت کے لئے ساتھ ساتھ اس لئے نہیں کیا گیا کہ ان کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کوئی اصول ہے نیز ہم ان کو بالکل غلط سمجھتے ہیں۔ماہیت بخار و اسباب اور علامات کو ہم نے نہایت ہی تفصیل کے سے بیان کیا ہے تاکہ ہر قسم کے جداجدا بخاروں کو ذہن نشین کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے اور تشخیص آسان ہوجائے علاج میں دشواری اور غلطیاں پیدانہ ہوں۔ تاکہ ذرا سی توجہ سے ہی یہ سب کچھ ذہن نشین ہوجائے۔بخاروں پر پوری طرح قابو پانے کے لئے ہم نے ہر عضو کی تحریک کو دو صورتوں میں تقسیم کردیا ہے تاکہ ان کے معمولی معمولی اسباب اور چھوٹی چھوٹی علامات بھی نظر انداز نہ ہوسکیں اور کیفیات کے سلسلہ میں پتا چل سکے کہ گرمی وسردی اور تری و خشکی کا کس قدر اثرباقی ہے۔

علاج کے سلسلہ میں ان ہی مفرداعضاء میں جہان تسکین ہے اس کو تحریک دینا ہے اس میں سہولت و تفہیم کے لئے فعلی اور کیمیائی دونوں صورتوں کو بیان کردیا گیا ہےتاکہ جوصورت بڑھ رہی ہو تو اس کو مقام شفا خیال کرتے ہوئے اس میں تحریک دینا شروع کردی جائے اور یہ بھی تاکید کردی ہے کہ اگر موجودہ تحریک مکمل نہ ہوئی تو اس کو مکمل کرلیاجائے۔اسی تحریک کومکمل کرنایا فعلی و کیمیائی تحریک کو تکمیل تک پہنچانا ہے۔ مواد کو پکانا اور اس کو قابو میں رکھنا ہے اسی حالت کو طب یونانی میں نضج کہتے ہیں۔ اور یہی بدن کی حفاظت ، مرض کو قابورکھنا اور کامیاب علاج ہے۔ اس صورت میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مرض کا تعلق جسم کے مفرد اعضاء کے افعال اور کیمیائی تغیرات کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور مرض کہیں بھی بے قابو نہیں ہونے پاتا۔

بخاروں میں علاج کے تحت ادویات بھی ان ہی تین تحریکوں اور چھ صورتوں کے مطابق تجویز کی ہیں تاکہ استعمال ادویہ میں کوئی دقت محسوس نہ ہو، اس کے ساتھ ہی ایسا التزام بھی کیا ہے کہ ادویات کی ترتیب بھی قائم رہے تاکہ ادویات کی شدت و خفت کے ساتھ ساتھ نسخہ نویسی کا بھی عملی تجربہ پیداہو۔ نیز ادویات کو مختلف تحریکات کے تحت سمجھ کران کے خواص بالمفرداعضاء کا بھی علم ہوجائےگا اور کمی بیشی کے لحاظ سے ان کا تعلق بھی ذہن نشین ہوجائے گا اس طرح سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جہاں پرمختلف اقسام کے محرکات یعنی محرک اعصاب دماغ، محرک عضلات و قلب اور محرک جگر کا علم ہوجائے گا۔وہاں پر مختلف اعضاء کے تحت ملینات اور مسہلات کا بھی پتا چل جائے گا۔ کیونکہ فرنگی طب میں اگرچہ مختلف اعضاء کے تحت ملینات بالکل نہیں پائے جاتےہیں۔ اگرچہ ان کے نسخے غلط ہیں لیکن اس میں مختلف اعضاء کے تحت ملینات بالکل نہیں پائے جاتے۔ ان امور سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ہمارا طریقہ علاج فرنگی طب سے کس قدر اعلیٰ وارفع اور بااصول اور باقاعدہ ہے۔ ہم نے غذا کے مسئلے کوبھی نظرانداز نہیں کیا ہے۔ اول غذا کے متعلق چند ضروری اصول اور قاعدے لکھے ہیں پھر مفرداعضاء کے تحت اغذیہ کو بیان کردیا ہے۔ تاکہ تجویز غذا میں کوئی مشکل نہ پیش آئے۔ غذاکے متعلق ہمیشہ یہ ذہن نشین رکھیں کہ علاج میں 50 فیصد اثر غذا کاہوتا ہے اور 25 فیصد اثر ماحول کو درست اورمناسب کرنا۔ صرف 25 فیصد اثر ادویات کا ہوتاہے۔ اگر وہ بھی صحیح طورپر تجویز کی جائیں۔ اس لئے بغیر ضرورت مریض کی غذا روک دینی چاہیئے تاکہ ادویات کوپورے طورپراثر کرنے کا موقعہ مل جائے۔

ہم نے کتاب کا تعارف کرانے کی پوری کوشش کی ہے تاکہ کتاب کے سمجھنے میں سہولت ہو، خاص طورپر ان مدیران اخبارات اور رسائل کی مشکلات کو سامنے رکھا جائے جس پر انہوں نے ریویو کرنے ہیں اور عوام کو ہماری تحقیقات کی خوبیوں کو سمجھانا ہے جنہوں نے ہماری گزشتہ تحقیقات پزھی ہیں۔ جن میں مبادیات طب، تحقیقات دق سل(ٹی- بی)، تحقیقات نزلہ زکام، تحقیقات نزلہ زکام وبائی(انفلوئنزا)، تحقیقات اعادہ شباب، خوراک اور تپ دق شامل ہیں۔ وہ نہ صرف از حد لطف اندوز ہوں گے بلکہ بہت زیادہ مستفید ہوں گے اور جن لوگوں نے ہماری وہ تحقیقات نہیں پڑھیں وہ منگوا کران سے استفادہ حاصل کریں گے اور اندازہ لگا سکیں گے کہ آج کل کیا اس قسم کی تحقیقات ممکن ہیں جو ایک طرف دنیائے طب کو نیا ذہن عطا کریں اور دوسری طرف فرنگی طب کو غلط قرار دیں۔ اسی جرات پر ہم نے یورپ و امریکہ اور چین و روس کو چیلنج کیا ہے کہ اگر ان کے ہاں اس قسم کی حقیقت افزاتحقیقات ہوں تو پیش کریں یا ہماری تحقیقات کو غلط قرار دیں۔اب یہ اہل فن اور صاحبِ علم کاکام ہے کہ ان پر غورکریں کہ شیخ الرئیس بو علی سیناکے زمانے سے لے کرآج تک کہیں ایسی تحقیقات پیش کی گئیں ہیں اور جو کچھ ہم پیش کررہے ہیں واقعی تجدید طب ہے اور کیا کسی اور ملک میں ایسا مدلل تحقیقاتی کام ہورہاہے اگر ہورہا ہےتو ہم کو اطلاع کریں ہم ان کے ساتھ شریک ہونے کو تیار ہیں۔ اگر نہیں ہورہا توپھران کافرض ہے کہ ہمارے ساتھ شریک ہوکر ہمارے گرد اکٹھے ہوجائیں۔ پھر فرنگی طب کو فوراً نہ صرف مشرق سے بلکہ مغرب میں بھی ختم کرسکیں گے۔جہاں تک حکومت کا تعلق ہے ہمیں اس سے غرض نہیں ہے کیونکہ وہ ایک عوامی حکومت ہے اور عوام کی نمائندہ ہے جب عوام اور خواص اس کو دل سے قبول کرلیں گے وہ پھر اس کو تسلیم کریں گے اور فرنگی طب کو دفع کریں گے۔ آخر میں ہم پھر لکھتے ہیں کہ کسی چیز کی قبولیت کا راز اس کی خوبیوں میں پنہاں ہوتا ہے۔ اگر ہماری تجدید طب میں خوبیاں ، فوائد اور شفا ہےتو بہت جلد قبولیت کادرجہ حاصل کرلے گی۔ جس کے ساتھ ہی ساتھ فرنگی طب دفع ہوجائے گی۔ اس امر کوبھی نہ بھولیں کہ فرنگی طب میں کوئی ایک بھی خوبی نہیں ہے اگر کسی کی نطر میں کوئی ایک بھی خوبی ہو ہمیں لکھیں ہم فوراً شائع کردیں گے اور انشاء اللہ اس کا حقیقت افزا جواب بھی پیش کردیں گے۔

وما توفیقی الا باللہ العظیم۔

از حکیمِ انقلاب: حکیم دوست محمد صابر ملتاؔنی ۔ (19 اکتوبر۔ 1961)



بخار کی اہمیت

بخار کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایاجاسکتا ہےکہ دردوں کے بعد دوسری بڑی علامت ہےجو اکثر انسان کو موت کے منہ میں لے جاتی ہے۔دونوں میں فرق یہ ہے کہ دردوں میں موت شاذ واقع ہوتی ہےکیونکہ درد علامت زندگی اورمقابلہ ہے لیکن بخار وں میں اکثر موت واقع ہوجاتی ہےکیونکہ بخاروں میں حرارت اور تحلیل ہے جو قدرت پیدا بھی اس لئے کرتی ہےکہ انسانی امراض اور علامات کو تحلیل کرکے دور کردے۔ اس کی حرارت کو حضرت رحمۃ اللعالمین ؐ نے دوزخ کی آگ سے تشبہیہ دی ہے۔اور یہ بھی فرمایا ہےکہ”جس شخص کو زندگی میں کبھی بخار نہ آیا وہ یقیناً دوزخی ہے۔” گویا بخاروں کی حرارت اور تحلیل اس قدر شدید ہے کہ وہ لوگوں کے گناہوں تک کو دھو کر دور کر دیتی ہے۔ بخاروں کی شدت اور تسلسل اکثر خوفناک ہوتا ہے کیونکہ ان میں تحلیل اور ضعف بڑھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تپ دق سے خوف پیداہوتا ہےلیکن بخار کا نہ ہونا بھی غیر معمولی طورپر خطرناک ہوتا ہے۔گویا بخار ایک پیمانہ ہے۔ایک طرف اس کی زیادتی اور تسلسل اگر ضعف اور تحلیل پیداکرتی ہےتو دوسری طرف اس کانہ ہونا بھی جسم میں خوفناک اور عسر العلاج امراض پیداکردیتا ہے۔اگر بعض امراض میں بخار کی علامت پیدانہ ہوتو انسان مرجاتاہے۔ جیسے ہیضہ میں ہمیشہ دیکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض امراض کا علاج بھی یہی ہے کہ اس میں بخار پیداکیاجاتا ہے۔ ماہر معالج بخار کی اس اہمیت کے اصول کو سمجھتے ہوئے ایسے امراض میں جہاں بخارپیداکرنا ضروری ہے وہاں بخار کو پیداکیاجاتا ہےیا زیادہ کیا جاتا ہے۔

کسی قسم کے بخار سے ڈرنا نہیں چاہیئے بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھنا چاہیئے۔تاکہ اس کی اہمیت کے تحت اس کی ضروریات کو مدنظر رکھاجائے، گھبراکر کبھی بھی اس کو فوراً اتارنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئےیہ غلطی اکثر فرنگی طب میں کی جاتی ہےان کے ہاں بخار کی شکل دیکھتے ہی فوراً فیور مکسچر یا اسپرین یااے-پی-سی کا استعمال شروع ہوجاتا ہے جس کے نتائج اس قدر خوفناک ہوتے ہیں اگر حکومت ذرابھی فرنگی طب کی نگرانی کرے تو 99فیصدڈاکٹروں کو روزانہ سزا دینی پڑے۔ اگر ہمارے بیان میں مبالغہ ہوتو ہسپتال اور ڈسپنسریوں میں آج بھی جاکر دیکھا جاسکتا ہے۔ قبل از وقت بخار اتار دینے مریض اکثر مرجاتا ہے۔ اگر بچ جائے توکوئی خوفناک مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ اسی طرح عطائی بھی بخارکا نام سنتے ہی فوراًکہہ دیتے ہیں۔”بھئی! یہ جلاب آج پیو، دو تین پاخانے ہوجائیں گے اور بخار ٹوٹ جائے گا” لیکن ایسے مسئلوں سے اکثر نتیجہ خوفناک ہی نکلتا ہے اور مریض موت کے منہ میں چلاجاتا ہے۔ بخار کی اہمیت ا س کے اکثر الواقع ہونے کی وجہ سے بھی ہےکیونکہ ہر درد وسوزش میں کم و بیش ضرور ہوتا ہے اور اورام میں تو لازمی طورپر پایا جاتا ہے۔ زندگی میں ہر انسان کو کئی بارہوتا ہے اور موت بھی اس کے ہونے نہ ہونے سے واقعی ہوتی ہے گویا بخار کی حرارت صحت کے لئے بے حد اہمیت رکھتی ہے جو علامت اس قدر اہمیت رکھتی ہو کہ اس کا پایا جانا بھی خوفناک اور نہ پایا جانا بھی خطرناک ہے تو اس سے بھاگنا اور گھبرانا نہیں چاہیئے بلکہ اس کو پورے طوپر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ چونکہ اکثر معالج خصوصاً فرنگی ڈاکٹربخاروں کے فوائدسے واقف نہیں ہیں اس لئے اس کی اہمیت کو پورے طورپرنہیں سمجھتے اور بخاروں کے علاج میں نقصان کا باعث ہوتے ہیں۔

تحقیقات حمیات

تپ دق یا کوئی ہلکا بخار یا اندر رہنے والا بخار جس کو صرف مریض محسوس کرتا ہے، کیا ہے؟ یہ ایسے بخار ہیں جن میں قوت مدبرہ بدن حرارت کی کمی محسوس کرتی ہےاور بخاروں کو دور کرنے پر قادر نہیں ہوسکتی۔ چونکہ فرنگی طب بخار کے اس پہلو اور حقیقت سے واقف نہیں ہے اس لئے وہ تپ دق وغیرہ علاج میں ناکام ہے اور وہ ہمیشہ جراثیم کے چکر میں پھنسی رہتی ہے۔ صرف ان بخاروں پرہی منحصر نہیں ہے بلکہ جب دل کی گھبراہٹ یا سینے کی جلن یا سر میں تپش کی کوئی شکایت کرتا ہے جو دراصل وہاں کاایک ہلکا بخارہے جس کو طبیعت مدبرہ بدن حرارت کی کمی کی وجہ سے نہ تمام جسم میں پھیلا سکتی ہے اور نہ ہی مقام شکایت کی تپش رفع کرسکتی ہے۔ یہی ہلکی ہلکی تپش جو دراصل وہاں کی معمولی سوزش ہوتی ہے۔ اسی طرح تھکن بھی ایک ہلکا بخارہے یا بخار کا اظہار ہے جو دوران خون کی بے قاعدگی سے پیداہوتاہے۔کبھی حرکت کی زیادتی سے عضلات کی طرف دوران خون زیادہ ہوجاتا ہے، کبھی آرام کی کثرت سے اعصاب کی طرف خون کا دورہ تیز ہوجاتا ہے، کبھی بدہضمی سے غدد پر خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہےاور تھکن محسوس ہوتی ہےبلکہ ہلکا ہلکا بدن ٹوٹتا ہے جو بخارکی علامت ہے۔(تھکن کی مزید معلومات کے لئے میرا مضمون “تھکن “ٹی-بی نمبرمیں پڑھیں)جب جسم میں پوری حرارت پیداہوجاتی ہے تو دوران خون درست ہوکر تھکن دور ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ تھکن میں کبھی چائے پیتے ہیں اور کبھی گرم پانی سے نہاتے ہیں۔ گویا جسم میں نہ صرف گرمی کا اضافہ کرتے ہیں بلکہ بخار کی کمی کو پورا کرتے ہیں۔ بخار کی اہمیت کی یہ صورتیں آپ کو فرنگی طب میں نظر نہیں آئیں گی۔ بخار کی اہمیت کا اندازہ اس کی بے شمار اقسام سے بھی کیا جاسکتا ہے جن کے بے اسباب بیان کئے جاتے ہیں۔ اگرچہ وہ آج تک کسی ایک بخار پر بھی قابو نہیں پاسکے۔ بخاروں کی اہمیت کے تحت ہی کبھی خون اور بلغم کاکیمیائی تجزیہ کیا جاتا ہے اور کبھی پیشاب پاخانہ کا امتحان کیا جاتا ہے تاکہ علم ہوسکے کہ ان میں کسی قسم کے بخار یا زہر کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ یہ بے شمار لیبارٹریاں اور یہ بے شمار امتحان اور تجزیہ کرنے والےآلے اور مشینیں بخاروں کوسمجھنے کے لئے وجود میں آئے ہیں۔ لیکن نتیجہ اس کے سوااور کچھ نہیں ہے کہ تپ دق اور دیگر اقسام کے بخار پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

بخار کی اہمیت کا اندازہ ان بے شمار ادویات اور مجربات و مرکبات سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو ہزاروں سالوں سے لے کر آج تک تیا ر کئے گئے اور تیار کئے جارہے ہیں۔ ان تمام قسم کے بخاروں سے صرف چند اقسام سے بخاروں مثلا ٹی-بی، ٹائیفائیڈ، نمونیہ اور ملیریا وغیرہ کے مجربات و مرکبات کی تعداد خاص طورپر موجود دور کے نسخوں کا شمار بھی بہت مشکل ہے۔ لیکن ان میں سے سو فیصدی کیا پچاس فیصدی بھی کامیاب کوئی مجرب اور مرکب نسخہ نہیں پایا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ ملیریا کے لئے کونین مفید ہے لیکن ایک حقیقت پسند انسان جانتا ہے کہ کونین اگر مفید ہوتی تو ملیریا کے لئے دیگر ادویات کیوں تیار کی جاتیں پھرکونین کے متعلق ڈاکٹر ہائمن صاحب نے اپنے بے شمار تجربات کے بعد ثابت کیا ہے کہ کونین کے استعمال سے ملیریا پیداہوجاتا ہے۔ ویسے بھی کونین ایک ایسی دوا ہے جس کے استعمال سےحرارت غریزی کم ہوجاتی ہے اور ضعف قلب شدید پیداہوجاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ فرنگی ڈاکٹر اس کا صحیح استعمال نہیں جانتے۔ کوئی اس کو بخار چڑھنے پر استعمال کرتا ہے اور کوئی بخار اترنے پر دیتا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ اس کے استعمال سے صحیح وقت بخار کے دورے سے ایک گھنٹہ پہلے استعما ل کرنا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کونین کے استعما ل کے وقت کوئی فرنگی ڈاکٹریہ نہیں دیکھتا کہ ملیریا کا اثر معدہ و امعاء میں ہے یا جگر و طحال میں وہ بے دھڑک استعمال کرا دیتا ہے اور جب کونین کے استعمال سے قے اور اسہال یا دل ڈوبنا شروع ہوجاتاہے توپھر گھبراتا ہے اور کہتا ہے کہ کونین خشک ہے اس لئے بہت سا دودھ پیا کرو اور مٹھے زیادہ چوسا کرو، لیکن جو غلطی اس نے خود کی ہے اس کے علم سے بالکل بے خبر ہے۔کونین کی دوسری خرابیوں میں ایک خرابی یہ ہے کہ ملیریا کے دنوں میں حفظِ ماتقدم کے لئے روزانہ کونین کھانےکی عادت ڈالی جاتی ہے تاکہ انسان ملیریا سے محفوظ رہے۔ ملیریا سے کوئی محفوظ رہتا ہے یانہیں رہتا۔ البتہ اس کے استعما ل سے دماغ میں سائیں سائیں، سر میں خشکی اور ثقل سماعت ضرورہوجاتی ہے اور ہفتہ دو ہفتہ کے استعمال سے ملیریا بھی ضرورہوجاتا ہے اگر یقین نہ ہوتو تجربہ کرکے دیکھاجاسکتا ہے۔

بخار کی اہمیت کا ایک پہلو معالج کی کامیابی بھی ہے اور یہ کامیابی صرف بخاروں کے علاج میں کامل دسترس حاصل کرنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہسپتالوں ڈسپنسریوں اور مطبوں میں جس قدر بھی مریض آتے ہیں ان میں اوسط بخاروں میں مبتلامریضوں کی اکثریت ہوتی ہے۔ اگر ان کا علاج تسلی بخش ہوجائے تو یہ یقینی امر ہے کہ ایسےمعالج کو نہ صرف کامیاب معالج تسلیم کیا جاتا ہےبلکہ اس کی شہرت دور دور پھیل جاتی ہے۔ اس امر کو ذہن نشین رکھیں کہ نوے فیصدی مریض صرف بخاروں کے ہوتے ہیں۔ جن معالجین کی کامیابی کا زندہ ثبوت ہوتے ہیں اور چلتے پھرتے اشتہار ہیں اور یہ ایک ایسا کامیاب پراپیگنڈہ ہےجس کاجواب نہیں ہوسکتاہے۔ اس امرکا بھی خیال رکھیں کہ جو معالج بخاروں کا کامیاب علاج کرسکتے ہیں ان کو دیگر امراض کے علاج میں بھی بہت دسترس حاصل ہوجاتی ہےایسے معالج ہیں جن کے متعلق کہاجاتا ہے کہ اس کو دست شفا حاصل ہے۔

بخار کی اہمیت کی ایک صورت یہ ہے کہ بخار ایک ایسی تیز اور خوفناک گرمی ہے کہ اس سے چند دنوں میں انسانی جسم گھل جاتا ہے اور خون خشک ہوجاتا ہے، ساتھ ہی مریض کو اپنے سامنے موت نظر آتی ہے ا س وقت مریض معالج کو فرشتہ یا اس سے بھی کچھ زیادہ خیال کرتا ہے۔ اگر فوری طورپر بخار پرقابونہ پایا جائے تو مریض کی قوت مدافعت اور قوت مدبرہ بدن کا توازن ٹوٹ جاتا ہے اور اعضائے رئیسہ میں سے کسی ایک میں ضعف واقع ہوجاتا ہے اور باقی دو کے افعال بگڑجاتے ہیں۔ نتیجہ خوفناک یا خطرناک نکلتا ہے۔ جو معالج بخار کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس پر پوری دسترس رکھتا ہے وہ فوراً بخار کی ہر حالت پر قابو پا لیتا ہے۔ مریض کو خوفناک یا خطرناک حالات سے نکال لیتا ہے۔ گویا معالج کی کامیابی اور اقبال اس وقت شروع ہوتا ہےجب وہ بخار کو پورے طورپر سمجھتا ہے اور اس پر مکمل دسترس رکھتا ہے۔بخار کی اہمیت کا ایک مقام یہ ہے کہ وید و اطباء اور ہومیوپیتھ اس پر مکمل دسترس اور قابو پالیں تو اس کے ذریعے فرنگی ڈاکٹڑوں کو عبرت ناک شکست دی جا سکتی ہے۔کیونکہ بخار کاعلاج صرف وہی معالج کامیابی سے کر سکتا ہےجو اس کواچھی طرح سمجھتاہو۔اور اس کی ہرحالت پرصحیح طورپراپنا قبضہ رکھتاہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ فرنگی ڈاکٹر نہ بخار کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور نہ اس کے علاج میں اس کو دسترس حاصل ہے۔ وہ اس کا علاج صرف مجربات سے کرتا ہے اور ایسا علاج کرنا فن اور اس کے علاج سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ ایسے بھی ہمارے پاکستان میں علم العلاج اور ادویات یورپ و امریکہ سے آتی ہیں جن پرفرنگی ڈاکٹروں کی دسترس کماحقہ ممکن نہیں ہے ۔اس لئے اس کو آسانی سے بُری طرح شکست دی جاسکتی ہے۔

جاننا چاہیئے کہ علم العلاج میں چند علامات ایسی ہیں کہ ان کے رفع کرنے میں ملکہ حاصل ہوجائے تو وہ نہ صرف کامیاب معالج خیال کیا جاتا ہےبلکہ اس کودرست شفاکامالک سمجھا جاتا ہے۔ وہ علامات نزلہ زکام، سوزش ، ورم اور بخاروضعف ہیں۔ان میں سے نزلہ زکام اور سوزش وورم کوعارضی اور وقتی طورپرمسکنات و مخدرات سے روکاجاسکتا ہے جو دن رات فرنگی ڈاکٹر افیون ومارفیا اور دیگر منشیات سے کرتے رہے ہیں۔لیکن بخاروں میں یہ عارضی اور وقتی علاج کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ جب بھی بخاروں کا علاج عارضی ادویات سے کیا جاتا ہے جو علامات کوروک کررفع کرنے کی کوشش کی جائے اور اصل مرض کو رفع نہ کیاجائے یا اس عضو کے افعال کو رفع نہ کیاجائے جس کے افعال کے تغیر سے بخار پیداہوا ہے تو بخار کا علاج کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ چونکہ فرنگی ڈاکٹروں کو بخار کی حقیقت کا علم نہیں ہے اور نہ ہی اس کے علاج پر ان کو دسترس حاصل ہےاس لئے وہ اس کے علاج میں بالکل ناکام ہیں جس کا ان کو پورے طورپر علم نہیں ہے۔ اس لئے مارکیٹ میں روز نئی نئی ادویات لاتے رہتے ہیں۔ آج کل اس کا فیور مکسچر اور کونین مکسچر وغیرہ تقریباً ختم ہوگئے ہیں۔ اس کی جگہ سلفا گروپ و پنسلین اور دیگر انٹی بائیٹک(Anti Biotic)نے لے لی ہے۔چونکہ یہ بھی تجرباتی علاج ہے اس لئے یہ بھی کامیاب نہیں ہے۔ ورنہ سلفا گروپ اور انٹی بائیٹک کے لئےمجربات ومرکبات بازار میں آرہے ہیں۔ کبھی پنسلین اور سٹیپٹومائی سین(Streptomycin)نہایت استعمال ہوتے تھے اور ان کی بڑی زبردست ادویات خیال کیا جاتا تھا۔ مگر اب دونوں کو ملاکرایک مرکب بنادیاہے اسی طرح روزانہ ان کے مرکبات بدلتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی نئی سے نئی ادویات مارکیٹ میں آتی رہتی ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کی تحقیق کئے ہوئے بخاروں کے جراثیم نہیں مرتے اور مریضوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتاجارہا ہے۔

ان حقائق کے پیش ِنظر ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ فرنگی ڈاکٹر بہت جلد مات کھاجائے گا۔ اس لئےہم اس کوشش میں مصروف ہیں کہ بہت جلد اہل فن و صاحب نظر اور ذہین معالجین ایک گروپ تیارکریں اور ان کو بخاروں کے علاج میں پوری دسترس پیداکریں تا کہ ان کی کامیابی فرنگی ڈاکٹروں کو علاج معالجہ میں ناکام اور فیل کردے۔اس سے قبل ہم تپ دق و سل (ٹی- بی)اپنی تحقیقات اور نسخے پیش کرچکے ہیں جس میں ہمیں پاک و ہند میں بہت کامیابی ہوئی ہے۔ بے شمار مریضوں کو آرام ہوا۔ پاکستان اور ہند کے تمام سرکاری سینی ٹوریم میں بھی ہماری آواز پہنچ گئی ہے اور وہاں بھی مریض مستفید ہورہے ہیں۔ اس لئے ہم نے ہرقسم کے بخاروں پر اپنی تحقیقات پیش کررہے ہیں تاکہ پوری طرح فرنگی کو مات دے سکیں۔

بخار کی تاریخ و وسعت

بخار کی تاریخ کا جہاں تک تعلق کہا جاسکتاہے انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ اس کا ظہور بھی عمل میں آگیا۔ گویاانسان اور بخار لازم و ملزوم ہیں۔ اگر بخار کی پیدائش کو مدنظر رکھ کر غورکیاجائے کہ اس کی پیدائش تعفن اور خمیر کی حرارت اور گرم انجرات ہیں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ بخار انسانی تخلیق سےبھی پہلے اس کرہ ارض پر موجود تھا اور ہوا، پانی اور مٹی کے تعفن اور خمیر میں پایا جاتا تھا۔ ان کے علاوہ نباتات اور حیوانات اس کے بہترین مسکن تھے اور جب حضرت انسان کی تخلیق ہوئی اس کے جسم و روح اور خون میں اس نے اپنی آماجگاہ بنا لی ہے۔ اس وقت سے انسان کا دشمن بنا ہواہے اور کبھی کبھی بھلائی بھی کردیتاہے، گویا دانا دشمن ہے۔ذی حیات اور غیر ذی حیات کے علاوہ اس کااثر فضا میں بھی نظر آتا ہے جس کا تعلق آفاق سے ہے۔ گویاجو کچھ ہمیں نفس میں دکھائی دیتاہے وہی کچھ آفاق میں بھی نظر آتا ہے۔ ان حقائق پر اگر غورکیاجائے تو بخار کی تخلیق کائنات کی پیدائش کے ساتھ ساتھ ظہور میں آئی ہے۔

قبل از تاریخ طب، بخار کی حقیقت

قبل از تاریخ طب میں امراض کوجن اور بھوتوں کا عمل دخل خیال کیا جاتا تھا یا جادو اورٹونا کا اثر سمجھا جاتا تھا اس لئے ان کے علاج کے لئے بھی پجاریوں اور کاہنوں کی طرف رجوع کیاجاتا تھا۔ وہ معالجہ کے طورپر مندروں اور بتوں کے سامنے پوجاپاٹ اور ہون اور قربانی وغیرہ کرتے تھے اور کبھی دم، جھاڑ اور تعویذ اور گنڈہ کرتے تھے۔ ان اعمال سے مریضوں پرکیا اثر ہوتاتھا اس کا اندازہ ان جاہل مریضوں سے لگایاجاسکتا ہے جو آج بھی امراض کوجن بھوتوں کا دخل اور جادو ٹونے کا اثر سمجھتے ہیں۔اس دور میں بخاربھی دیگر امراض کی طرح جن بھوتوں کا دخل خیال کیا جاتا تھا اورجادو ٹونے کااثر سمجھا جاتاتھا۔ اگر اس حقیقت کو صحیح مان لیں۔ ارتقاء کی کڑیاں دنیا کے دورآور زمانے میں پائی جاتی ہیں تو تسلیم کرنا پڑے گاکہ آج بھی ایسےذہن کے لوگ پائے جاتے ہیں جو بخاروں کو وہی کچھ خیال کرتے ہیں جو قبل از تاریخ سمجھا جاتا تھااور وہ بخاروں کے علاجات کو ادویات اور پرہیز کی بجائے پوجاپاٹ اور دم جھاڑو، تعویذ گنڈہ اور خیرات و دعا سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ہندوستان کی طرح اگر پاکستان میں مندراور پجاری دیوی دیوتا کے بت، ہون اور ارتی نہیں پائے جاتے تو ان کی جگہ مزار اور پیروں اور بھوپے اندر سیدوں کے مرکز پائے جاتے ہیں۔ گویا انسان اپنے ذہن اور فطرت کے لحاظ سےاور عقائد اور تصورات کی تسکین ضرور چاہتا ہے۔

لیکن اگر سائنسی اور علمی نگاہ سے دیکھاجائےاور بخاروں کو ان کے اپنے رنگ میں دیکھا جائےکہ بخار دراصل تعفن اور خمیر کی حرارت کے لطیف اور غیر مرئی بخارات کو عربی زبان میں اگرجن کہتے ہیں تو تسلیم کرنا پڑےگاکہ بخار کو اگر جن کا نام دے دیاجائےتو کچھ غلط فہمی نہیں ہے۔ رہا ان کے نکالنے اور دور کرنے کا علاج وہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ہرزمانے میں طریق علاج بدلتا رہتا ہے جوں جوں حقیقت سامنے آتی گئی ہے، عمل بھی علم کے تحت بدلتے رہتے ہیں۔ اسی طرح اگر بھوتوں کے خوف اور جادو ٹونے کے وسواس اور خدشات کو بھی اگر موثر اور مہیج خیال کرلیاجائے تو امراض خصوصاً بخاروں کا پیداہوجانا کوئی بعید از قیاس نہیں بلکہ روزانہ کے تجربات سے یہ امر ثابت ہوتے رہتے ہیں۔ان حقائق کی طرف اس لئے اشارہ کیاگیا ہے کہ تاکہ بخار کی تاریخ کے ساتھ اس کی وسعت کا اندازہ بھی ہوسکے۔ دوسرے نفسیاتی قسم توہم پرست مریضوں کے احساسات اور ادراکات کوبھی ضرور مدنظر رکھنا چاہیئےجب کہ توہم اور جذبات کے ڈانڈے وجدان اور عقل سے جاملتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بخار دراصل جن ہی ہیں۔لیکن اس امر سے انکار نہیں ہے۔ جن ضرور ایسی لطیف غیر مرئی طاقت اور مخلوق ہے جس کی مشابہت سادہ قسم کےبخاراور دھواں سے بیان کی جاتی ہے۔ قبل ازتاریخ جس قسم کے مریضوں کی زیادتی معلوم ہوتی ہے کہ بخاروں میں مبتلا ہیں۔ممکن ہے بخارکانام جن ہی باقی امراض کو دے دیا گیا ہو۔ آج بھی اچھے اچھے سمجھ دار لوگ تپ دق اور دردوں سے آنے والے مسلسل بخاروں کو جن بھوت کا اثر خیال کرتے ہیں۔ ہم اس امر سے انکار نہیں کرتے کہ وہ لوگ حقیقت کے کس قدر قریب ہیں۔ لیکن اس امر کاہمیں پختہ یقین ہے کہ وہ لوگ حقیقت سے بے خبرہیں۔ ان کو نہ ہی بخار کی ماہیت کا علم ہے اور نہ ہی جن کی حقیقت کا علم ہے۔ لیکن اس امر کوتسلیم کرنا پڑے گا ہزاروں سالوں کے بعد بھی انسان تحت الشعور کا اثر اس کی نسل میں برابر منتقل ہورہاہے یا یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی ہر مرض کو غیب کی طاقت کی طرف لے جاتاہے جس کی ابتدا جن ہیں اور جس کی انتہا وحدہ لاشریک ہے۔ جنات کی طرح انسانی جذبات خصوصاً خوف اور غم بھی اپنے اندر اس قدر طاقت رکھتے ہیں جن سے جسم و روح پر غیر معمولی اثر پڑتا ہے۔ ان سے امراض خصوصاً بخار ہوجانا تو معمولی بات ہے۔ شدت خوف اورغم سے اکثر موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جادوٹونااور بھوت پریت کا خوف و اثر اور وسواس و حدثہ انسان میں شدیدخوف اور غم کا باعث بن کر اس کو امراض خصوصاً بخار میں مبتلا کردیتا ہے۔

روزانہ زندگی میں دیکھاجاتاہےکہ ڈر اور غم کی وجہ سے بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں ایسے بچوں کا علاج اکثر دم، جھاڑ اور تعویذگنڈوں سے کیا جاتا ہے۔ خصوصاً ایسے بچوں کے علاج توضرور اسی قسم کے کرائے جاتے ہیں جوخواب میں یا کسی تنہائی اور سنسان جگہ میں ڈر کربخار میں مبتلا ہوگئے ہوں۔ اکثر کمزور دل عورتوں اور کم عقل مردو ں میں بھی ایسا دیکھاگیا ہے جب بھی کبھی ایسے مردوں اور عورتوں کا گزر قبرستان ، ومسان اور غیر معمولی تنہائی اور سنسان جنگل سے ہوتا ہے تو وہ ڈر جاتے ہیں یاان کے مسرت و لذت کے جذبات کی تسکین نہ ہویاان کے خواہشات نفسانی کی تکمیل نہ ہوتویقیناً غم وغصہ میں مبتلاہوکر مسلسل امراض خصوصاً بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ ان کاعلاج جس قدر جلد دم جھاڑ اور تعویذ گنڈوں اور دعا و صدقات سے ہوتا ہے علاج معالجہ سے نہیں ہوسکتا بلکہ بعض دفعہ علاج و معالجہ سے امراض اور بخاروں میں شدت پیداہوجاتی ہے اس کی وجہ صرف یہی معلوم ہوتی ہے کہ ان لوگوں میں اعتقاد اور یقین اسی قسم کے علاج پرہواکرتا ہے، اور یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ روحانی علاج کو مادی علاج کے مقابلے میں ایک بہت بڑی طاقت سمجھاگیاہے۔ جب تک روحانی علاج کو ایک بہت بڑی طاقت سمجھا جائے گا عوام کیاخواص بھی مادی علاج کی نسبت روحانی علاج کو افضلیت اور فوقیت دیتے رہیں گے۔

آج کل کے سائنسی اور علمی دور میں بھی تعویذ گنڈے دینے والوں اور دم جھاڑا کرنے والوں اور نجوم اور رمل کوجاننے والوں کے مطب بھرے ہوئے ہیں ان میں اگرچہ عورتوں کی کثرت ہوتی ہے یا عورتوں کے امراض اور بخاروں کے لئے مرد آئے ہوتے ہیں۔ جن میں اکثر معقول قسم کے لوگ نظر آتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کل کوٹھی کاروں کے مالک اور بہت بڑے بڑے بزنس کرنے والے توہماتی، نفسیاتی، خواہشاتی اور جذباتی امراض اور بخاروں میں زیادہ مبتلا ہیں، اکثر آرام بھی ان ہی طریق علاج سے پاتے دیکھا ہے۔بخار خصوصاً تپ دق اور باری کے بخاروں میں مبتلا لوگوں کو جنہیں عورتوں اور بچوں کی اکثریت ہے۔ تعویذ گنڈے کااستعمال ہورہا ہے۔ پیسے جارہے ہیں جسم کے کسی حصہ پر باندھے ہوئے ہیں، دھونی لی جارہی ہے، درختوں پر تعویذ لٹکائے جارہے ہیں۔ جھاڑیوں اور چوراہوں میں چولہوں میں پھینکے جارہے ہیں۔ چولہے کے نیچے دبائے جارہے ہیں۔ سیاہ مرغ یا سیاہ بکرے کی قربانی دی جارہی ہےیا سرخ کپڑااور ساتھ سات قسم کے اناج دئیے جارہے ہیں۔سات کنوؤں یا نہروں کے پانی یاکسی خاص کنویں یا چشمے سے نہا لیا۔ ایسا بھی سناگیا ہے کہ سورج نکلنے سے پہلے بالکل الف ننگا ہوکر اگر پیپل، بوہر یا کسی خاص درخت کو گلے ملا جائےاور اس کو کہاجائے کہ میرابخار تو لے لو تو بخار اتر جاتا ہے۔ اسی طرح تعویذلکھوا کر چاٹنا صبح روزانہ تلسی کے درخت کو پانی دینا یا بوہر کے درخت کی جڑوں پر آٹا ڈالنا وغیرہ غرض بے شمار ایسے ایسے طریقے آج بھی پائے جاتے ہیں۔جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ قبل از تاریخ طب بھی اس قدر توہم پرستی اور نفسیاتی امراض میں لوگ مبتلا نہ ہوں گے۔ اور نہ ہی تو ان کے جذبات خواہشات اس قدر شدید ہوں گے۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ امراض کی حقیقت سے واقف نہ تھے اور ان کا علاج کراتے تھے مگر آج کل کے ایسے لوگ امراض کی حقیقت کو جانتے ہوئے بھی نفسیاتی و جذباتی اور خواہشاتی امراض میں اس قدر کثرت سے مبتلاہیں کہ ان کے لئے علم و حکمت اور سائنس اور طب کی ترقیاں بالکل بے معنی بن کررہ گئی ہیں۔

طبی تاریخ کادور

طب و حکمت اور فلسفہ کا دور تو بابل، نینوا اور ہندو چین کی تہذیبوں میں شروع ہوگیاتھا مگر ان علوم کی باقاعدہ مرتب کیاہواس دور میں اس سے پہلے تمام زمانوں میں بخار کا باقاعدہ ذکر ملتاہے اور بخاروں کو مذہب اور جادو سے الگ کردیاگیاہے۔ اس دور سے قبل بابل، نینوا، ہندو و چین اور مصر وغیرہ تہذیبوں میں اگر چہ امراض و بخار کا علاج ادویات سے کیا جاتا تھا۔ لیکن یہ معالج صرف مذہبی راہ نما ہواکرتے ہیں اور علاج معالجہ بھی مذہب کا ایک حصہ سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہےکہ ایورویدک مذہب کا ایک حصہ ہے۔ اگرچہ آج کل کسی ایک وید کا مذہبی آدمی ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ غیر مذاہب کے لوگ بھی ایورویدک طریق علاج بڑی کامیابی سے ادا کررہے ہیں۔ میری رائے ہے کہ علاج معالجہ مذہب کا ہی ایک حصہ ہونا چاہیے اور قوانین مذہب کو عوام کے ذہن نشین کرنا چاہیے کیونکہ مذہب کے تقدس و پرہیزگاری اور خوف و ہیبت کا اثر جو جسم و روح پر پڑتا ہے وہ صرف علم و سائنس سے نہیں پڑتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسلام میں مذہب وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں پرہیزگاری اور پاکی ختم ہوتے ہیں۔اگر پرہیزگاری اور پاکی کا نفسیاتی تجزیہ کیاجائےتو اس پر پوراعلم الابدان مرتب ہوسکتا ہے۔ ان امور سے ثابت ہوتا ہے کہ پرہیزگاری اور پاکی کے بعد امراض اور بخار وغیرہ کی کوئی صورت جسم میں باقی نہیں رہ جاتی۔ میری خداوند کریم سے دعا ہے کہ مجھ کو عزت بخشیں کہ میں اسلام کی پرہیزگاری اور پاکی کے قوانین اور اصولوں پر علم الابدان اور علم طب مرتب کر سکوں۔ پھر اہل علم اور صاحب فن اندازہ لگا سکیں گے کہ فرنگی طب نہ صرف غلط طریقہ علاج ہے بلکہ صحیح قسم کی تہذیب و تمدن اورصالح معاشرہ جیسی زندگی کے لئے کس قدر خطرناک اور نقصان رساں بھی ہے۔

ایورویدک دور اور بخار

حیرت کا مقام ہے کہ ایورویدک جسم کی اصلاح اور اور امراض سے شفا کے لئے ایک مذہبی طریق علاج ہے۔ مگر اس میں سے مذہبی تقدس اور پاکی اور پرہیزگاری ختم کردی گئی ہے۔ جس سے ایک الہامی طریق علاج کو مادی طریق علاج میں تبدیل کردیا گیاہے۔ اس میں چھوت چھات کا جواصول تھا جس کےمعنی پاکی اور پرہیزگاری کے ہیں اس کو غلط شکل دے کر انسانوں چھوت چھات شروع کردی اور انسانوں میں طبقہ بندی کا آغاز کردیا گیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکی اور پرہیزگاری کی اصل روح فنا ہوگئی۔جس سے پنڈت اور اونچے درجے کے لوگ ہر قسم کی پاکی اور پرہیزگاری سے آزاد ہوکردنیا بھرکی برائیوں میں مبتلاہوگئے۔اپنی برائیوں کو چھپانے کے لئےان پنڈتوں اور اونچے طبقہ کے لوگوں نےچھوت چھات کا رخ ادنیٰ طبقہ کے لوگوں ہندوؤں اور غیر مہذب ہندوؤں سے شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ہزاروں سالوں سے ہندوستان میں طبقاتی جنگ او رہندومسلم فساد کا سلسلہ چلا آتا ہے۔یہ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ پاکی اور و پرہیزگاری اور تقدس ایسے امور ہیں جن کاتعلق علم الابدان اور طب سے ہے۔ جب تک یہ صورتیں کامیاب نہ ہوں تو صحت اور معاشرتی نظام کامیابی سے نہیں چل سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں افضل واعلیٰ اور محترم انسان کی تعریف اس طرح کی گئی ہے

ان اکرامکم عندا للہ اتقکم
ترجمہ: تم میں سے سب سے زیادہ مکرم وہ ہے جو انتہائی پرہیزگار ہے۔

ذرا “اکرم” کے لفظ پر بھی غور کریں۔ دوسروں پر بہت زیادہ بخشش کرنے والا۔ یعنی معاشرے کا خدمت گزار۔ایک طرف انتہائی پرہیزگار اور دوسری طرف اور دوسری طرف انتہائی خدمت گزار۔ گویا ہر حیثیت سےپرہیزگار اور خدمت گزار، جس میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور مفاد بھی شریک ہو۔گویا صحت اور معاشرہ میں اعلی ٰ قدریں رکھنے والا۔ اگر ایسے انسانوں کی زیادتی ہوجائے تو دنیاجنت بن سکتی ہے۔ مگر فرنگی طب نے ایسی تہذیب و تمدن اور ثقافت و اخلاق پیداکیاہےجس میں پاکی اور پرہیزگاری تو رہی ایک طرف مذہب اور نیکی کو معاشرے سے نکال کرباہر پھینک دیاہے۔ اب ننگی انسانیت شرم سے سر جھکائےکھڑی ہے۔ ایسی طب انسانی جسم اور روح کاکیا مداوا پیش کرسکتی ہے۔ یونانی دور کے بعد اسلامی دور میں بخار پر بہت زیادہ تحقیقات کی گئیں۔ اس کو نہ صرف جن، بھوت اور جادو ٹونا کے احساسات سے سے پاک کیا گیا بلکہ اس کےصحیح اسباب تلاش کئے گے۔ اس کی صحیح صحیح علامات پیش کی گئیں اور اس کو کئی اقسام پر تقسیم کرکے ان کےکامیاب علاج پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔وہ فرنگی طب طب یونانی کا فرنگی ترجمہ ہے۔ بلکہ تاحال اسلامی طب کو پورے طور پرسمجھ سکی ہے اور نہ ہی مکمل طور پر پیش کر سکی ہے۔

فرنگی طب اور بخار

فرنگی طب میں بخاروں کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔بخاروں کے متعلق فرنگی میڈیکل سائنس کی تحقیقات کی گئی ہیں، بخاروں میں خاص طورپر ملیریا اور ٹی بی پر بہت زورمارا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان ہی دونوں بخاروں کے متعلق بال کی کھال کھینچی گئی ہے۔لیکن جہاں تک ماہیت مرض(Pathology) اور علاج(Treatment) کا تعلق ہے، وہ ناکام ہیں۔ آج تک نہ ملیریاکا کامیاب علاج ان کو مل سکا ہےاور نہ ہی ٹی بی کی حقیقت کا علم ہو سکا ہے(جس کے متعلق ہم فرنگی کوعرصہ تین سال چیلنج کر رہے ہیں)۔ کیونکہ وہ ملیریا اور مچھر میں پھنس کر رہ گیا ہے۔البتہ ان کو یہ فائدہ ضرور ہوا ہےکہ انہوں نے تجارتی پراپیگنڈہ سےاس قدر دولت کمائی ہےکہ اس سےکئی ملک خریدے جاسکتے ہیں۔ صرف کونین اور اس کے مرکبات کی آمدنی روزانہ لاکھوں پونڈز تک پہنچتی ہے۔سب سے بڑا فائدہ فرنگی کو بخاروں کی تحقیقات سے یہ پہنچا ہے کہ وہ جب پس ماندہ ممالک کو قبضہ پر کرلیتا ہے یاکم ازکم وہاں کے خام مال پر ہاتھ صاف کرلیتا ہے تو اس کے بعد اس کی تہذیب ننگی ناچنے لگتی ہے۔اور روز بروز وہاں کاتمدن فرنگی ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قسط ۔7 تپ دق اور خوراک

ایک چھوت چھات ہندو قوم کا ہے ، جس کا ہم ذکر کرچکے ہیں۔دوسری چھوت چھات فرنگی نے پیداکی ہے۔ ظاہرہ تو اس کی چھوت چھات متعدی امراض اور خوفناک جراثیم سے ہے لیکن باطن میں اس کی چھوت چھات کالے آدمی (Colored Man)سے ہے۔ وہ اپنے آپ کوان پرفوقیت دیتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ عیسائیت کی تبلیغ کرتا ہےاور مہذب بناتا ہے اور دوسری طرف ملک پر قبضہ کرکے غلام بناتا ہے اور وہاں کی دولت پر قبضہ کرتا ہے۔ لیکن طبقاتی پوزیشن بھی برقراررکھتا ہے۔ مشرقی ممالک خصوصاً افریقہ میں ا س قسم کے نظارے روزانہ دیکھنے میں آتے ہیں۔مشرقی ممالک اور افریقہ تک کیا منحصر ہے ۔ ان کے اپنے یورپ میں اکثر ہوٹلوں اور مقامات پر اس امرکا سختی سے خیال رکھا جاتاہے کہ کوئی رنگ دار انسان وہاں نہ آنے پائے۔ ان کے چھوت چھات کا یہ عالم ہے کہ عمر بھر یورپ میں رہنے اور ان کی لڑکی سے شادی کرلینے کے بعد بھی وہ کسی کو سفید فام قوم میں تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لئے ان سے طبقاتی علیحدگی رکھی جاتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلمانوں میں امیر غریب کا فرق اور طبقاتی صورتیں نہیں پائی جاتی ہیں ، ضرور پائی جاتی ہیں لیکن ان باتوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس چھوت چھات سے جہاں معاشرہ میں غصہ کا بخارپیداہوتا ہےتو دوسری طرف چھوت چھات پیداکرنے والے کے اندرنفرت کا بخار پیداہوتاہے۔ ان بخاروں کا زہر اس وقت تک نہیں اترتا جب تک طبقاتی جنگ نہ ہواور خون کی ندیاں بہہ کر نفس اور آفاق کے لئے تسکین کاباعث ہوجاتی ہیں۔‏

چھوت اور متعدی بخار سے کسی کوانکار نہیں ہے لیکن اس میں شدت اور جنون کی حد تک احساس وادراک انسان سے ہمدردی کودور کردیتا ہے۔ اور انسان انسان کا مداوا نہیں رہتا۔ معاشرہ میں خود غرضی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ بھائی سے بھائی بھاگتا ہےاور ماں اپنے بچے چھوڑ جاتی ہے۔ویسے بھی شاید کوئی انسان ایسا ہوجس کوکوئی نہ کوئی مرض کم و بیش نہ ہوپھر ایک کو دوسرے سےبیماری اور مشکل کے وقت دور رہنا، اس دنیا کی تلخی کو دور کرنا ہے۔ اگر چھوت اور متعدی بخار اس قدر ہی خوفناک ہوتو جاننا چاہیےکہ ان میں زیادہ تر معالج ہی گرفتار ہوتےجو شب و روز ایسے مریضوں کا علاج کرتے رہتے ہیں ، یاد رکھنا چاہیےکہ کوئی بخار یامرض کسی بھی چھوت اور متعدی مادہ سے پیدا نہیں ہوتا ، جب تک کسی عضومیں خرابی پیداہوکراس کی قوت مدافعت ، ایمونٹی کمزور نہ ہوجائے۔ پاکی و پرہیزگاری اور خدمت گزاری کرنے والوں کی اکثر صحت درست رہتی ہےاور ان کی قوت مدافعت مرض ہمیشہ مقابلہ کے لئے تیار رہتی ہے۔

تحقیقات حمیات

روزانہ زندگی اور بخار

بخار دنیا کےہر ملک اور ہر علاقہ میں پایاجاتا ہےلیکن بعض بخار خاص خاص علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ جیسے موسمی بخارجو نمی والے علاقوں میں پایاجاتا ہے۔ محرقہ انتہائی گرم علاقوںمیں ہوتا ہے۔ نمونیا سرد اور پہاڑی علاقوں میں تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ اس طرح بعض علاقوں میں خاص قسم کے کیڑے مکوڑے اور مکھی مچھر کے کاٹ لینے سے ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ گھروں میں چوہوں کے کاٹ لینے سے ان کے زہر سے بخار چڑھ جاتا ہے۔بخار عمر کے لحاظ سے بھی ہر عمر میں پایا جاتا ہے۔پھر ان میں کوئی تخصیص نہیں ہےکہ فلاں بخار صرف بچوں میں پایا جاتا ہےاور فلاں صرف جوانوں اور بوڑھوں کے لئے مخصوص ہیں۔ البتہ بعض بخار بعض اعضاء کے ساتھ مخصوص کئے جاتے ہیں اور عمر کے جن حصوں میں ان اعضاء میں کمی بیشی ہےاس عمر میں وہ خاص بخار زیادہ پیداہوتے رہتے ہیں، جیسے ٹی بی اکثر نوجوانوں میں پیداہوتاہے کیونکہ اس عمر میں نوجوانوں کو ایک خاص مقدار رطوبت کی درکار ہوتی ہے جوضعف اعصاب کی وجہ سے اکثر کم ہوجاتی ہے نتیجہ اس کاٹی بی کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔جب یہ رطوبت پیداکردی جائے تو یہ بخار چھوڑ جاتا ہے۔جس کے لئے ہم نے اپنی تحقیقات ٹی بی شائع کرکے اس کے لئے شرطیہ نسخہ لکھ دیا ہے۔ اس سے عرصہ تین سال میں ہزاروں لوگ ٹی بی کی اہمیت اور خوف سے چھٹکارا حاصل کر چکے ہیں۔

فرنگی ڈاکٹر کا غلط علاج

جس قدر مریض پرانے بخاروں اور تپ دق کے نظر آتے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کا علاج کیا گیا ہے۔اور ان میں اکثر فرنگی ڈاکٹروں کے غلط علاج اور زہریلی ادویات کا نتیجہ ہیں۔ بنظر غور دیکھا جائے تو پتا چلے گا کہ پرانے بخاروں اور تپ دق کے بار بہت کم پتا چلتا ہے کہ فرنگی ڈاکٹروں کے ہمارے ملک میں آنے سے پہلے کہیں کہیں لمبا اور پرانا بخار یعنی ٹی بی پایاجاتا تھا۔ اول یہ پیدا ہی نہیں ہوتا تھا ،اگر پیداہوتا تو ہمارے معالج اور ہماری ادویات اس کے لئے کارگر ثابت ہوتی تھیں۔ لیکن جب سے فرنگی علاج اور اس کی زہریلی ادویات کا زمانہ آیا تو تقریباً ہر گھر میں پرانا بخار اور ٹی بی نظر آنے لگ گیا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ملک بلکہ دنیاکوٹی بی سے نجات اس وقت تک کسی اکسیر اور تریاق دوا سے نہیں مل سکتی جب تک کہ فرنگی ڈاکٹروں کے علاج اور ان کی زہریلی ادویات کو نہ چھوڑ دیا جائے۔اس کی مثال بالکل شراب و چائے اور سگریٹ کے کثرت استعمال اور رات رات بھر ہوٹلوں سینماؤں اور کلبوں میں جاگنے سے دی جا سکتی ہےکہ اس زندگی میں جولذت اور مسرت ہے اس سے انکار نہیں لیکن اس زندگی سے جو صحت خراب ہوتی ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اس زندگی میں گرفتار ہے۔ ایسے انسان کی خراب صحت کا علاج اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اس زندگی کو بالکل نہ چھوڑدے۔ظاہرہ وہ اس کو عادی ہوجائے گالیکن بہت جلد وہ خوفناک امراض میں گرفتار ہو کر ہارٹ فیلورسے مر جائے گا اگر اس بات میں ذرا بھر مبالغہ ہوتو اایسے لوگوں کی زندگیوں کو خود قریب سے دیکھا جاسکتا ہے ۔یورپ اور امریکہ میں یہی نتائج نکل رہے ہیں اور وہ مجبور ہوگے کہ ایسی زندگی کے ساتھ ساتھ تیز زہریلی اور منشی ادویات کو فوراً روک دیاجائے جس قدر ٹی بی یورپ اور امریکہ اور دیگر سائنسی ملکوں میں ہے دوسرے ممالک میں یہ شرح بہت کم ہے۔ ایسے ممالک جن کو یورپ و امریکہ میں بھی یہی نتائج نکل رہے ہیں اور وہ مجبور ہوگئے کہ ایسی زندگی کے ساتھ ساتھ ہارٹ فیلور کے واقعات ہوتے ہیں ۔کیونکہ ہارٹ فیلور تو نتیجہ ہے امراض کوتیز و زہریلی اور منشی ادویات اور فوری طورپر روکنے کا۔ مرض رک جاتا ہے۔ مرض دورون عروق رہ جاتا ہے۔ جس کا سیدھا اثر قلب پر پڑتا ہےاور اس کے افعال بگڑ جاتے ہیں اور مریض ہارٹ فیلور(Heart Failure) سے اپنی قیمتی جان کو ضائع کردیتا ہے۔ اس لئے ٹی بی کے اثر سے بچاؤ کی یہی صورت ہے کہ فرنگی علاج اور فرنگی ادویات کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھا جائے، پھر معمولی معمولی ادویات کے استعمال سے بھی ٹی بی سے رہائی مل سکتی ہے۔

بخار کی وسعت کا اندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتا ہےکہ یہ انسانوں کے علاوہ چرند پرند اور وحشی جانوروں تک میں پایا جاتا ہے لیکن پالتو جانوروں اور پرندوں میں جنگلوں کی نسبت بخار کی زیادتی پائی جاتی ہےلیکن بعض بخار بعض جانوروں میں کثرت سے پایا جاتا ہے اور بعض جانوروں میں بعض بخار قطعاً نہیں پائے جاتےمثلا پالتو جانوروں میں گائے کو کثرت سے ٹی بی ہوتی ہےمگر بکری اور بھینس پر اس کا بالکل اثر نہیں ہوتا اور بکری میں یہ خوبی ہے کہ اس کا گوشت اور دودھ ٹی بی کو دورکرنے کے لئے اکسیر کا اثر رکھتا ہے۔گھریلو پرندوں میں مرغ، تیتر، بطخ، کبوتر اور طوطے وغیرہ بھی بخاروں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔اور چونکہ ان کے علاج کی طرف خاص توجہ نہیں دی جاتی اس لئے وہ چند دنوں میں انتہائی کمزور ہوکر مر جاتے ہیں۔ بوجھ لادنے والوں اور محنت کرنے والے جانوروں میں بخار بہت کم پایاجاتا ہے۔ لیکن جب وہ گرفتار ہوجاتے ہیں تو بہت مشکل سے جانبر ہوسکتے ہیں۔ ان جانوروں میں گدھے ، گھوڑے اوراونٹ خاص طورپر شریک ہیں۔ کتوں اور بلیوں کو جب یہ مرض لاحق ہوتا ہے تو اکثر پاگل ہوجاتے ہیں یا خشک کھانسی میں مبتلاہوکر مدت تک کھانس کھانس کرمر جاتے ہیں۔ خنزیروں اور بندروں میں بخار بہت زیادہ پایاجاتا ہےاس کی وجہ یہ ہےکہ اس کے جسم میں متعفن رطوبات اور مادے بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں جو لوگ ان کاگوشت کثرت سے کھاتے ہیں وہ بھی اکثر نزلہ زکام میں گرفتار رہتے ہیں اور ان ہی امراض میں مر جاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سؤراور بندر کے گوشت سے انسان دائم المریض رہتا ہے اور عمر کم ہوجاتی ہے۔

بخار ان لوگوں میں زیادہ پایاجاتا ہے جو زیادہ کھاتے ہیں اور آرام زیادہ کرتے ہیں جو خوش خوراک اچھے اچھے کھانوں کا شوق رکھتے ہیں وہ اکثربخاروں میں مبتلا رہتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ تبخیر معدہ بھی ایک قسم کا ہلکا بخار ہے جس کو طبیعت مدبرہ اخراج بدن کرنے کےلئے جسم میں پھیلا نہیں سکتی۔ اگر تبخیرمعدہ کا علاج مقوی معدہ اور دافع ریاح کی بجائے بخاروں کے اصول پر کیا جائے تو چند دنوں میں حیرت انگیز فائدہ ہوتاہے۔ خوش خوراکی ایک اچھا شوق ہے کیونکہ اچھی تہذیب اور اعلیٰ تمدن کی علامت ہے اس سےانسان کے معیار زندگی کااندازہ ہوتا ہے۔ لیکن روزانہ اچھے اچھے کھانوں کوپکوا پکوا کرکھاتے رہنا کوئی اچھا جذبہ نہیں ہے۔ اس کی حیثیت نفسانی خواہش سے زیادہ نہیں ہے، خوش خوراکی کا مقصد صرف یہ ہے کہ لذیذولطیف ، خوش ذائقہ اور قسم قسم کے کھانوں کی تمیز ہونی چاہیے۔ جیسا کہ ایک ماہر باورچی جانتا ہے اور دوسروں کے لئے پکاتا ہے لیکن خود روزانہ زندگی میں پکاپکا کرنہیں کھاتا۔ حکیم رازیؔ نے لذیذ و خوش ذائقہ کھانوں اور حسین و دوشیزاؤں کے کثرت استعمال سے روکا ہے۔ ان سے تبخیر پیداہوتی ہے اور عمر گھٹتی ہے۔

بخار کے متعلق اگر تحقیقی حقائق اور تاریخی وسعت اور اہمیت کو سامنے رکھا جائے تو اس تکلیف کا ایک اچھا خاصا تصور حقیقت بن کرسامنے آجاتاہےکہ اگر جسم میں حرارت اوررطوبت کاتوازن صحیح ہے توکوئی شخص اس مرض میں گرفتار نہیں ہو سکتااور جب یہ توازن ختم ہوجاتا ہے تو جسم کے کسی حصے یا عضو میں دوران خون کی بے قاعدگی یا اجتماع خون یا سوزش پیداہوکرایک عارضی حرارت پیداہوجاتی ہےجس کو ہم بخار کا نام دیتے ہیں اور جو شخص بھی اپنے جسم کی حرارت اور رطوبت کے توازن کو درست رکھ سکے گا وہ نہ صرف خود اس مرض سے محفوظ رہے گابلکہ دوسروں کو بھی اس مرض سے حفاظت کرے گا۔ یہ ایک ایسا قانون ہے کہ اس کےہوتے ہوئے نہ تو اس کو چھوت چھات کا ڈر رہے گااور نہ وہ ہزاروں اقسام کے جراثیم اور خوردبینی اجسام سے خوف زدہ رہ سکتا ہے۔ یہ بھی زندگی کاایک بڑا سکون ہے۔

حیرت کا مقام ہے کہ یہی بخار جو قبل از طبی تاریخ بھوت پریت اور جناتی اثر سمجھا جاتا تھا اب ایورویدک کے زمانے میں ایک مرض قرار پایا گیاجس کا سب سے بڑا سبب نیکی اور اخلاق قرار دیا گیا۔ طب یونانی کے دور میں مذہب و اخلاق اور نفسیاتی اثر سے نکال کر اس کو خالص جسمانی و مادی قرار دےدیا۔اسلامی دور کی تحقیقات سے اس کی حقیقت کو کمال پرپہنچا دیا کہ بخار مرض نہیں بلکہ ایک علامت ہےجو جسم کے کسی عضو کی خرابی ہے جب خون کے مزاج میں توازن نہ رہے تو بخار پیداہوجاتا ہے۔لیکن فرنگی طب کی ترقی معکوس نے اس کوپھر جراثیم اور ان دیکھی مخلوق کے گورکھ دھندے میں الجھا دیا۔ جراثیم بغیرخوردبین کے نظر نہیں آسکتےہر وقت کوئی خوردبین لگائے نہیں پھرتا کہ وہ اپنے بچاؤ کے لئےبخار اور دیگر امراض کے جراثیم سے بچتا پھرے۔ اس لئے ان دیکھی مخلوق کا تصور بھوت پریت اور جناتی اثر سے زیادہ بعید نہیں۔ فرق صرف نام کا ہے، بھوت پریت اور جناتی اثر نہ کہاجراثیمی اثر کہہ دیا۔علاج میں وہی بھی وہی مشابہت ہے وہ لوگ دم جھاڑ اور تعویذ گنڈے استعمال کراتے ہیں اور یہ قتل جراثیم ادویہ اورتدابیر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جہاں تک بخاروں کا تعلق ہے وہ دونوں صورتوں میں اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔مگر پیر فقیر اور فرنگی ڈاکٹر کی جھولی حلوہ مانڈہ سے بھری رہتی ہے۔

تحقیقات حمیات

حمیات کی حقیقت، پیدائش اور اقسام

تعریف:”حمیات” جمع “حمیٰ” کی جس کوفارسی میں تپ ، ہندی میں بخاراور انگریزی میں (Fever) کہتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی عارضی اور غیر معمولی حرارت ہے لیکن جو خون کے ذریعے قلب سے شرائین و عروق اور خون و روح کے توسط سے تمام بدن میں پھیل جاتی ہے۔ جس کے مشتعل ہونے سے افعال بدن میں تحلیل اور ضعف پیداہوتا ہےاور ان کے طبعی افعال میں خلل واقع ہوجاتا ہے، غصہ و لذت، گرم اغذیہ و اشیاء اور ورزش اور تکان سے بھی حرارت جسم بڑھ جاتی ہے۔ لیکن اس قسم کی پیدائش حرارت کو بخار میں شریک نہیں کرتے۔ اگرچہ ظاہر میں اس قسم کی پیداشدہ حرارت بھی عارضی اور غیرمعمولی ہوتی ہے۔ لیکن یہ حرارت غیر از جسم نہیں ہوتی بلکہ حرارت اصلیہ ہوتی ہے جو خاص وجوہات سے جسم میں کسی حصہ میں اکٹھی ہوتی ہوجاتی ہے جس کو اخراج کی خاطرطبیعت مدبرہ بدن قلب کے ذریعے جسم میں بخار کی صورت میں پھیلا دیتی ہے اور وہ سبب رفع ہوجانے کے بعد فوراً رفع ہوجاتی ہے۔

شیخ الرئیس بو علی سینا اپنی کتاب “القانون” میں لکھتے ہیں کہ “بخار ایک عارضی حرارت کا نام ہے۔ جو پہلے قلب میں بھڑکتی ہےاور قلب سے روح و خون اور شرائین کے ذریعہ تمام بدن میں پھیل جاتی ہے جس سے یہ حرارت تمام بدن میں اس طرح بھڑک اٹھتی ہے کہ بدن میں ضرر پیداہوجاتا ہے اور تکان کی حرارت اس درجہ تک نہ پہنچی ہوکہ طبعی افعال میں آفت پیداکردے۔”شیخ الرئیس کے اس قول پر کہ “بخار ایک عارضی حرارت ہے۔” صاحب شرح اسباب علامہ نیشی تشریح کرتے ہیں کہ “یہ حرارت عارضی اس لحاظ سے ہے کہ نہ یہ بدن کے بنانے میں داخل اور نہ یہ بدنی ماہیت کا کوئی جزو ہے بلکہ یہ بدن میں فضلات و مواد کے اکٹھا ہونے کے وقت پیداہوتی ہے۔ کیونکہ فضلات جب اکٹھے ہوجاتے ہیں توان میں فطرتی طورپرحرارت پیداہوجاتی ہے جس کے اشتعال سے فضلات متعفن اور گندے ہوجاتے ہیں۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ہم بیرونی فضلات میں اس طرح دیکھتے ہیں ۔ بخار کو عارضی حرارت کہنے سے بدن کی اصلی حرارت اس سے الگ ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اصل حرارت بدن کے بنانے میں داخل ہے جو بدن انسان کا ایک حصہ اور اس کا جزو ہے کیونکہ جب تک بدن قائم ہے یہ حرارت بھی بدن کے اندر رہتی ہے الگ نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ برف کے اندر دبانے کے بعد بھی بدن انسان سیاہ اور متعفن ہوجاتا ہے۔ “مقصد یہ ہوا کہ “بخار ایک حرارت غریبہ ہے جو بدن میں فضلات اور مواد کے اجتماع اور تعفن کے بعد پیداہوتی ہے۔”علامہ قطب الدین شیرازی بھی شیخ الرئیس کے اسی قول کی تائید کرتے ہیں کہ حرارت بخار کسی صورت میں حرارت اسطقیہ(حرارت عنصری یاحرارت منویہ) نہیں ہے بلکہ اجتماع فضلات میں تعفن کی وجہ سے ایک جدا قسم کی حرارت پیداہوجاتی ہے۔

ماہیت بخار

بخار کی ماہیت کو صحیح طورپرذہن نشین کرنے کے لئے اول ضروری ہے کہ اصلی حرارت اور عارضی حرارت کی حقیقت کو ضرور معلوم کر لیاجائے اور دونوں کے فرق کو سمجھ لیاجائے۔ کیونکہ یہ ایک مسئلہ ہے جو طب قدیم کے زمانے سے لے کراس وقت تک سمجھا نہیں گیا۔ اسلامی طب کے زمانے میں اس مسئلہ کوبہت حد تک سلجھانے کی کوشش کی گئی مگرحقیقت پر سے پورےطورپر پردہ نہ اٹھ سکا۔ لیکن فرنگی طب نے باوجود اس کے کہ حرارت کی اصلیت اور اس کے افعال پر بہت بحث کی ہےبلکہ بال کی کھال اتاری ہےاوراس پر بے شمار طویل کتابیں لکھی ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ فرنگی طب جو اپنی ماڈرن سائنس پر ناز کرتی ہے۔ایک طرف تو حرارت جسم کا حد اعتدال زائد ہونا تسلیم کرتی ہے اورا س کے پیمانے کے مطابق اس کا حد اعتدال (98.4F)ہے۔جس کی وجہ نظام جسم کابگڑ جانا بتاتی ہےاور دوسری جراثیم زہروں کو بخاروں کی پیداوار بتاتی ہے گویا مشینی و کیمیائی طورپر دونوں صورتوں میں تسلیم کرتی ہے مگر جہاں تک علاج کا تعلق ہے وہ نہ صرف ناکام ہے بلکہ بخاروں کی حقیقت سےبالکل لاعلم ہے۔

فرنگی طب کی غلط فہمی

فرنگی طب میں حرارت عنصریہ، اصلیہ، حرارت غریزیہ اور حرارت غریبہ وغیرہ کو عناصر کی صورت حاصل ہے جو مفرد اور مرکب دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں۔طب قدیم کے قانون کے مطابق ان کی مفرد صورتیں بھی مرکب ہیں کیونکہ ان کی تقسیم ہوسکتی ہے۔ ان کا کوئی تصور نہیں ہے ان کے ہاں آکسیجن، کاربن، ہائیڈروجن اور نائٹروجن وغیرہ تمام عناصروں کو اب ماڈرن سائنس نے ایٹم کی تقسیم کے بعد الیکٹرون اور پروٹان سے مرکب تسلیم کرلیاہے۔جس سےکم ازکم یہ ثابت ہوگیا ہےکہ جلانے کاکام صرف آکسیجن کانہیں ہے۔ ماڈرن سائنس میں یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ آکسیجن خود نہیں جلتی بلکہ دیگر عناصر کو جلاتی ہے۔ ہائیڈروجن خود جلتی ہے مگر کسی کوجلا نہیں سکتی، کاربن نہ خود جلتی ہے اور نہ جلاتی ہے بلکہ خود دیگر عناصر سے مل کرجلتی ہے اور نائٹروجن نہ جلتی ہے نہ جلاتی ہے بلکہ آگ کو بجھا دیتی ہے۔

اگر ہم آکسیجن کو عنصری و اصلی حرارت کا طیف، کاربن کا طیف، ہائیڈروجن کو پانی کا طیف اور نائٹروجن کو ارضی طیف سمجھ لیں اور ان کے مرکبات پر غورکریں تو اس قسم کے نتائج سامنے آسکتے ہیں کہ جب آکسیجن و ہائیڈروجن دیگر ہوائی عناصر(جس کو سات شمارکیاجاتاہے)میں غالب ہوں تو اس میں حرارت غریزیہ کے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ جب کاربن اور آکسیجن کا غلبہ ہوگا تو اس میں حرارت غریبہ کے اثرات و افعا ل پائے جائیں گے۔ان حقائق سے ثابت ہوا کہ فرنگی طب نہ صرف حرارت غریزیہ اور حرارت غریبہ سے بے خبر ہے بلکہ مزاج کی حقیقت سے بھی ناواقف ہے جو ہزاروں سال پہلے طب یونانی میں بیان کردئیے گئے جن کی معرفت سے نہ صرف امراض کا صحیح تصور ذہن میں پیداہوتا ہےبلکہ علاج علمی و سائنسی صورت کے ساتھ ساتھ یقینی اور بے خطا ہوجاتا ہے ۔ حیرت ہے کہ سینکڑوں سالوں کی تحقیقات کے بعد بھی اب تک فرنگی طب اندھیرے میں بھٹک رہی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس نے صرف طب یونانی اور خصوصاً طب اسلامی کو سمجھے بغیر تعصب سے نظر انداز کر دیا اور خود غلط راستے پر پڑ گئی ہے اس کی غلط فہمی نے اور غلط راہ روی نے ہزاروں ممالک اور لاکھوں انسانوں کو گمراہ کیا ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ نہ صرف فرنگی طب کی غلطیاں دور کریں بلکہ جو لوگ اور ممالک ان سے گمراہ ہوگئے ہیں ان کوراہ راست پر لائیں۔ ہم فرنگی طب کے بخاروں کے تحت ان کی پیدائش بخار، تقسیم اور علاج کی غلطیاں بیان کریں گے۔تاکہ معالج ان سے پورے طورپر آگاہ ہوجائیں۔

حرارت کیا ہے؟

حکماء متقدمین نے حرارت یا آگ کو ایک عنصر یا ارکان اربعہ کا جزو ماناہےاور ارکان کی تعریف یوں کی جاتی ہےکہ”وہ اجسام بسیط اور بدن انسان وغیرہ کے لئےاجزاء اولیہ ہیں جن کا دیگر اجسام مختلف الصورت اور طبائع میں تقسیم ہونا ناممکن ہے”۔اس کی کیفیت حرارت کوچھو کرمعلوم کیاجاسکتا ہے اور حرارت کے کچھ افعال یہ ہیں کہ وہ رطوبات کو بخار بناکراڑا دیتی ہے اور اجزاء ارضیہ کو خشک کرکے چھوڑ دیتی ہے لیکن جو اشیاء اور مادے قابل جلنے کے ہیں ان کو جلادیتی ہے جومادے نہ پورے طورپر بخارات بنتے ہیں اور نہ جلد خشک ہوتے ہیں اور نہ جل اٹھتے ہیں وہ متعفن ہوتے اور سڑنے لگ جاتے ہیں۔ بہرحال حرارت سرگرم عمل رہتی ہے۔متقدمین میں حکماء نے حرارت کو مادی جسم قرار دیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جب کوئی چیز گرم ہوجاتی ہےتو مادی حرارت اس کے اندر گھس جاتی ہے۔ اٹھارویں صدی تک یہی خیالات حکماء فرنگ میں رائج رہے لیکن اس کے بعد ان خیالات نے ایک اور صورت اختیار کرلی یعنی نئے تجربات کئے گے۔ جن میں ثابت کیاگیاکہ جب کوئی چیز گرم کی جاتی ہے یا جلائی جاتی ہے تو اس میں جلانے والی چیز خارج سے داخل ہوتی ہےاس چیزکانام فلوجسٹین رکھا گیا۔

تحقیقات حمیات

اس کے ثبوت میں جلی ہوئی شے کی راکھ، بخاراتوغیرہ کامجموعہ وزن پیش کیا گیا جو اصل شے سے زیادہ پایاگیا۔ زیادتی کو حرارت کا وزن خیال کیاگیاہے اس کے بعد اس خیال کی یوں تشریح کی گئی کہ اشیاء کا وزن جو جلنے کے بعد بڑھ جاتا ہےوہ آکسیجن کا وزن ہوتا ہےنہ کہ حرارت کا اور یہ بھی تسلیم کیاگیاکہ اگرچہ کسی چیز کے ساتھ آکسیجن کے ملے بغیر حرارت پیدا نہیں ہوسکتی مگر آکسیجن اورحرارت کو جدا جدا شے سمجھا گیا ہے۔عنصری حرارت کے علاوہ حرکت اورٹکراؤ سے بھی حرارت پیداہوتی ہے اسی لئے حکماء متاخرین نے حرارت کودیگر قویٰ کی طرح از قسم حرکت تسلیم کیا ہے یہ حقیقت ہے کہ حرارت سے تحریک پیداہوکر حرکت پیداہوتی ہے۔ بجلی اس کا زندہ ثبوت ہے۔ اس طرح جب دو جسم آپس میں رگڑ کھاتے ہیں تووہ گرم ہوجاتے ہیں اور ان میں حرارت پیداہوجاتی ہے ابتدا میں انسان نے آگ اسی طرح پیداکی تھی۔ حرارت کے ان حقائق کو سمجھنے کے بعد اب جاننا چاہیے کہ جسم انسان میں اصلی حرارت کیا ہے اورعارضی حرارت کس کو کہتے ہیں جس سے جسم میں بخار پیداہوتے ہیں۔ اس میں قابل غور بات یہ ہےکہ جہاں تک حرارت میں تبدیلیوں کا تعلق ہےان سے بہت سے حقائق سامنے آجاتے ہیں۔جس سے انسان حقیقت کے قریب پہنچ جاتا ہے۔

اصل حرارت اور عارضی حرارت

اصل حرارت کو حرارت غریزیہ بھی کہتے ہیں۔ جس کے متعلق حکماء کا خیال ہے کہ وہ ایک گرم تر لطیف جوہر ہے جس کا کام جلانا، سڑانا اور خراب کرنا نہیں ہےبلکہ تمام طبعی کاموں میں مدد کرنا ہے۔ جب نطفہ میں جان ڈالی جاتی ہےاسی وقت یہ جوہر قدرت کی طرف سے نطفہ میں عطاہوتاہےاور تا زیست قائم رہتا ہے یعنی جب جان نکلتی ہے تویہ جوہر الگ ہوجاتا ہے۔ یہی جوہر بدن میں ہروقت حرارت پھیلاتا رہتا ہے اور قلب و شرائین کے ذریعے تمام بدن میں پھیلاتا ہے مگر متاخرین کاخیال ہے کہ بدنی حرارت کا دارومدار غذا اور تنفس پر ہے۔ غذا کا کچھ حصہ ایندھن کے طورپر جل کر حرارت پیداکرتا ہےجو خون کے ذریعے تمام بدن میں پھیل جاتی ہے۔(مزید معلومات کے لئے تحقیقات اعادہ شباب کامطالعہ کریں)۔ حرارت عارضی کو حرارت غریبہ بھی کہتے ہیں۔”بدن کی عارضی گرمی سے مراد وہ گرمی ہے جو عارضی طورپر فضلات او ر مواد کے تعفن سے پیداہوتی ہے یاحرکت و دھوپ اور غذاؤں اور دواؤں سے پیداہوتی ہے جس سے بدن میں خرابی اور ضرر پیداہوتا ہے”۔

حرارت ِ غریزیہ اورغریبہ کا فرق

حرارتِ غریزیہ کوبخارات اور حرارتِ غریبہ کودخان سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ حرارت غریزیہ کامزاج گرم تر اور اس کے مقابلےحرارتِ غریبہ کا مزاج گرم خشک ہے۔ اگر اول الذکر کی کیمیائی ترکیب میں کھاری پن(Alkali) زیادہ ہے تو حرارتِ غریبہ کی ترکیب میں تیزابیت زیادہ پائی جاتی ہے۔ اگر موخرالذکر باعث سوزش جسم حیوانی میں اگر قلب کے دائیں اذن اور بطن میں حرارت غریبہ قائم ہے جہاں سے شش کے ذریعے تبرید اور تسکین ہوتی رہتی ہے۔جہاں سے پھر صفائی یا حرارت غریزیہ میں تبدیلی کے لئے پھیپھڑوں میں چلی جاتی ہےاور تبدیلی کے بعد اپنے مقام بائیں قلب میں پہنچ جاتی ہے۔ انتہائی آسانی سے سمجھانے کے لئے اس طرح بھی کہاجاسکتا ہےکہ حرارت غریزیہ وہ حرارت ہے جو انجرات کے ہمراہ پائی جاتی ہے اور حرارت غریبہ وہ حرارت ہے جو دخان کے ساتھ قائم رہتی ہے۔ اسی کے ثبوت میں ابن ابی صادق کی تحقیق پیش کی جاسکتی ہے جو اس نے تشریح مسائل میں بخار(حرارتِ غریبہ) کے متعلق مختصر الفاظ میں نہایت جامعیت کے ساتھ کردی ہے۔

اَلْحُمیٰ حِرَارِتِ نَارِیَہْ
گویا حرارت اور نار میں جوفرق ہےوہی حرارت غریزیہ اور حرارت غریبہ میں پایاجاتا ہے۔ یعنی انجرات میں ماہیت کے ساتھ ارضی مادے نہیں ہونے یا نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں بس یہی حرارت اصلیہ کا نمونہ ہے اور دخان کے ساتھ ارضی مادے پائے جاتے ہیں جن کو نار جلاتی ہےگویا دخان نار کی دلیل ہے۔ انجرات میں نور اور انبساط ہے اور یہی صفت حرارت غریزیہ میں پائی جاتی ہے ۔ دخان میں ظلمت اور انقباض ہے ۔ یہی اثر حرارت غریبہ میں پایاجاتا ہے۔

تحقیقات حمیات
تحقیقات حمیات

حرارتِ غریبہ کے متعلق حکماء میں اکثر اختلاف رہا ہے ایک اس کو خارجی حرارت سمجھتا ہے دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ جب بدن انسان میں غیر طبعی حرارت پیداہوجاتی ہے تو اس کو حرارت غریبہ کہتےہیں۔جمہور اطباء اس کو اسطعتی حرارت کی ایک قسم خیال کرتے ہیں جس کے متعلق ان کا قول ہے کہ

وَ ھِیَ اَلْحِرَارَۃ اِلَّا سَطْقَیہ اِذَا ستعت سورتھا و او جنبت ضرباً فی الافعال
یعنی جب تک حرارت اسطعتی حد اعتدال تک رہتی ہے اور اس کی وجہ سے افعال میں ضرر واقع نہیں ہوتا اس وقت تک اس کو حرارت غریزیہ کہتے ہیں لیکن جب عنصری حرارت درجہ اعتدال سے تجاوز کرجاتی ہے جس سے افعال اعضاء میں خلل واقعہ ہوتا ہے تو اس کا نام حرارت غریبہ ہوجاتا ہے۔ حرارت غریبہ کی پیدائش اس وقت بڑھ جاتی ہے جب حرارت غریزیہ کی پیدائش کم ہویا اس میں تبرید اور تسکین کی صورت میں کم ہوجائے اگر متقدمین اور متاخرین حکماء کے خیالات پر غور کیاجائے تو ان خیالات میں کچھ زیادہ فرق نہیں پایاجاتا۔

حرارت غریبہ کی پیدائش
حرارت کے ان حقائق اور اثرات کو جان لینے سے پتا چلتا ہے کہ حرارت مستقل ایک رکن ہے مگر وہ تنہا نہیں پایاجاتا، کبھی ہوا کے ساتھ ملاہوتا ہے کبھی پانی کے ساتھ ترکیب پالیتا ہے اور کبھی ارضی مادو ں کے ساتھ پایاجاتا ہے اوراس کی ادنیٰ صورت یہی ہے ۔حقیقت بھی یہ ہے کہ جب حرار ت ہوا سے ملتی ہے تو اس میں روح کے خواص پیداہوجاتے ہیں اور جب وہ پانی سے ملتی ہے تو اس میں حرارت غریزیہ کے اوصاف پیداہوجاتے ہیں اور جب وہ ارضی مادوں سےملتی ہے تو حرارت غریبہ کی شکل اختیار کرلیتی ہےاور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب حرارت کی زیادتی سے ہوا میں اشتعال یا پانی میں احتراق پیداہوجاتا ہے تو وہ بھی حرارت غریبہ کی صورت اختیار کرتے رہتے ہیں اس طرح حرارت غریبہ کی پیدائش جاری رہتی ہے۔

حرارت ِ غریبہ کی حقیقت
حرارت غریبہ یا حرارت عارضی جو جسم انسان میں پائی جاتی ہے اس کے مندرجہ بالااوصاف و حقائق اور اثرات پر غور کیاجائےتو پتا چلتا ہے کہ ماڈرن سائنس جس عنصر کو کاربن کہتی ہے اس کے خواص سے ملتی جلتی ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربالک ایسڈ کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ اول صورت میں یہ ہوا کا جزو ہوتاہے اور دوسری شکل میں پانی کاجزو بن جاتا ہے ۔ یہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ حرارت تنہا کبھی نہیں اور کہیں نہیں پائی جاتی ہے وہ ہمیشہ دیگر عناصر سے مل کراپنے مظاہر کا اظہار کرتی ہے گویا کاربن بھی اس کا ایک مظاہر ہے۔

حرارت غریزیہ اور حرارت غریبہ کا تعلق
بعض حکماء متاخرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ حرارت غریزیہ یعنی اصلی اور عناصری حرارت میں جب شدت پیداہوجاتی ہےتو وہ حرارت غریبہ اور عارضی حرارت بن جاتی ہے۔ فرنگی طب اور کاربن کے مظاہرے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے لیکن در حقیقت حرارت غریزیہ کے متعلق یہ بہت بڑا دھوکا ہے ۔ یہ حرارت غریبہ بلکہ حرارت اصلیہ سے بھی ایک جدا شے ہے جس کوسمجھنا نہایت اہم ہے۔

حرارت کی حقیقت

حرارت ایک عنصری جسم (قوت)ہے جو دیگر عناصرکے ساتھ پایاجاتا ہے۔ حرارت اصلیہ یا حرارت عنصری مفرد شے ہے اور حرارت ِ غریزیہ ایک خاص حرارت کامرکب ہے۔ جاننا چاہیے تمام اجسام کی پیدائش قوی ٰ سے ہے اور قویٰ کے تمام اقسام ارواح سے پیداہوتے ہیں ۔ جہاں تک حرارت کا تعلق ہے یہ موالیدِ ثلاثہ کے ہرذی حیات اور غیر ذی حیات میں ارکان کی صورت میں اس کے تناسب کے مطابق پائی جاتی ہے۔ جہاں تک اس کی عنصری حالت کا تعلق ہے اس میں نہ تبدیلی اور نہ تقسیم ہو سکی ہے۔ البتہ وہ کم و بیش ضرور ہوتی رہی ہے یہ کمی بیشی بھی اصلی عنصری حرارت سے ہوتی ہے اصلی حرارت سے مراد صرف یہ ہے کہ حرارت عنصری صرف ایک ہی قسم ہے جو جلاتی ہے اس لئے اس حرارت کو حرارت اسطعتیہ بھی کہتےہیں۔حرارت اصلی یا حرارت عنصری ہر ذی حیات اورغیر ذی حیات اور فضا میں دیگر عناصر کے ساتھ مل کرایک مزاج رکھتی ہے جب ان کے امزجہ میں کمی بیشی واقع ہوتی ہےتو عناصر کی کمی بیشی کا ارکان کے خواص سے پتا چلتا ہے۔ حرارت کی زیادتی سے تحلیل پیداہوتی ہے اس شے میں تحلیل واقع ہوتی ہے یا جل اٹھتی ہے۔

جب یہ حرارت نطفہ کی صورت میں منتقل ہوتی ہے تو اس کو حرارت غریزی کہتے ہیں۔جس کے اثر سے انسان اپنی طبعی کو پہنچتا ہے۔ اکثر حکماء کا اتفاق ہے کہ اس کا بدل مایتحلل نہیں ہوتا اور اس میں اس قدر (ایٹمی) قوت ہوتی ہےکہ سالہا سال تک اس سے زندگی قائم رہ سکے۔ لیکن بعض حکماء کا خیال ہے کہ اعضاء چونکہ عناصر سے ترکیب پاتے ہیں اس لئے غذاکی عنصری قوت خون کے توسط سے حرارت غریزیہ کا بدل مایتحلل پیداہوتا رہتا ہے۔ دونوں صورتوں میں ظاہر میں بڑ ا فرق معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ اگر حرارت غریزی بدل مایتحلل پر قائم ہے تو پھر بھی یہ اس وقت تک اصلی عنصری حرارت میں جذب نہیں ہوسکتی جب تک حرارت غریزیہ قائم نہ ہو جب وہ ختم ہوجاتی ہےیا اس کاشعلہ بجھ جاتا ہے تو موت واقع ہوجاتی ہے۔

ان امور سے ثابت ہوا کہ حرارت غریزی بھی اصلی عنصری حرارت کی طرح ایک مزاج رکھتی ہےاور وہ اس پر قائم رہتی ہے۔ اس میں کمی بیشی تو ہوسکتی ہے لیکن وہ بدل نہیں سکتی ۔ اس لئے حرارت غریزیہ کا حرارت غریبہ کے متعلق سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ حرارت غریبہ ایک جدا شے ہے اور وہ جدا طریقہ سے پیداہوتی ہے۔ دونوں کے اوصاف و خواص اور اثرات و افعال میں بہت زیادہ فرق ہے۔

کاربن کیا ہے؟

کاربن ایک ایساعنصر ہے جو دنیا میں آزاد اور دیگر اشیاء سے ملاجلا دونوں صورتوں میں بہت عام پایاجاتا ہے۔ کاربن آزاد حالت میں ہیرے سیاہ ،شیشہ اور کوئلہ کی صورت میں پایاجاتا ہے۔ ہیرا اور سیاہ شیشہ تو اس کی قلمی شکلیں اور کوئلہ اس کی نقلی شکل ہے۔مرکب صورتوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ قدرتی پانیوں میں آکسیجن کامرکب ہے۔ چونے کے پتھر، سنگ مرمر اور کھریا(ان تینوں کا کیمیائی نام کیلشیم کاربونیٹ ہے) کی ترکیب میں بھی یہ عنصر داخل ہے۔ پیرافینسی موم، مٹی کاتیل اور دیگر معدنی تیل سب کے سب کاربن اور ہائیڈروجن پانی کے مرکب ہیں۔ کاربن نباتی و حیوانی اشیاء کا ایک جزوی جز ترکیبی ہے۔ قدرتی طورپر کاربن کے مرکبات دیگر عناصر کے مرکبات سے بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح کاجل دئیے اور لیمپ کی سیاہی، لکڑی کاکوئلہ، معدنی کوئلہ اور حیوانی کوئلہ کاربن کی کم و بیش خالص شکلیں ہیں۔ لیکن ان کی بناوٹ قلم دار نہیں ہوتی۔ ان سب میں صرف طبعی خواص مثلاً رنگ، کثافت انسانی، قلمی شکل اور قابلیت کل کا اختلاف ہے لیکن کیمیائی ترکیب کے اعتبار سے یہ سب چیزیں یکساں ہیں یہ سب چیزیں جلتی ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتی ہیں۔کاربن ملی جلی صورت میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شکل میں کرہ ہوائی میں پایا جاتا ہے۔ہوا اور پانی میں اس گیس کی موجودگی کی طرف اشارہ کر چکے ہیں۔ یہ گیس ہوا میں کہاں سے آتی ہے؟ایندھن کے جلانے، فعل تنفس اور نامیاتی اشیاء(حیوانی نباتی)کی تخمیر اور تعفن سے یہ گیس پیداہوکرہوا میں مل جاتی ہے اور ملی جلی حالت میں یہ گیس کھریا، سنگ مرمر، چونے کے پتھر، انڈہ کے خول، سیپ، سنکھ اور دیگر کاربونیٹس میں موجود ہوتی ہے۔ جب موم بتی جلتی ہے تو پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ پیداہوتے ہیں۔ موم بتی دو عناصر کاربن اور ہائیڈروجن کامرکب ہے۔ جب موم بتی جلتی ہےتو اس کا کاربن ہواکی آکسیجن سے مل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ بناتا ہے اور اس کی ہائیڈروجن ہوا کی آکسیجن کے ساتھ ترکیب پاکر پانی بناتی ہے۔ موم بتی پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ دیگر جلنے والی اشیاء بھی عموماً مذکورہ بالا عناصر کاربن اور ہائیڈروجن موجود ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب کاغذ، لکڑی یا تیل وغیرہ جلتے ہیں تو یہ دونوں چیزیں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی ضرور پیداہوتے ہیں۔

کاربن کے طبعی خواص

یہ گیس بے رنگ ہے لیکن اس کا مزہ ہلکاسا ترش ہے اور خفیف سی بوپائی جاتی ہے، یہ پانی میں حل ہوجاتی ہے اور زیادہ دباؤ کے تحت اس کے حل ہونے کی قابلیت بڑھ جاتی ہے۔ سوڈا واٹر لیمونیڈ وغیرہ اس گیس کے آبی محلول ہیں۔ جن میں یہ گیس زیادہ دباؤ کے تحت بہت زیادہ مقدار میں حل کردی گئی ہو۔ جونہی بوتل کھولنے پر دباؤ ہٹا لیا جاتا ہے تو یہ گیس خارج ہونے لگتی ہے۔سوڈا واٹر تو دراصل معمولی پانی ہوتا ہے جس میں پانی کی نسبت تقریباً چارگناحجم کی کاربن ڈائی آکسائیڈ پائی جاتی ہے اس لئے ہم اس کےپانی کو ایک برتن سے دوسرے برتن میں ڈال سکتے ہیں۔

کاربن کے کیمیائی خواص

کاربن ڈائی آکسائیڈ نہ خود جلتی ہے اور نہ معمولی جلنے والی اشیاء جلاسکتی ہے۔ یہ گیس حیوانات کےلئے ممدِ حیات بھی نہیں ہے۔ جب جلتی ہوئی موم بتی اس کی ٹیوب میں داخل کی جاتی ہے تو وہ بجھ جاتی ہے، یہ گیس زہریلی تو نہیں ہےالبتہ اس سے دم گھٹ کر موت واقع ہوجاتی ہے۔ روٹی کاخمیرہونا بھی اسی گیس سے عمل میں آتا ہے۔

کاربن کا جسم انسان پر اثر

جب ہم سانس لیتے ہیں تو ہوا کی آکسیجن پھیپھڑوں سے خون میں جذب ہوکرہمارے قلب میں پہنچتی ہےجہاں سے وہ شرائین کے ذریعہ تمام جسم میں پھیل جاتی ہے۔ اس آکسیجن کا کچھ حصہ ہمارےجسم کے کاربن سے مل کرکاربن ڈائی آکسائیڈ بنادیتا ہے جو خون میں جذب ہو کربذریعہ اوردہ قلب میں آکرپھیپھڑوں میں پہنچتا ہے جہاں سے سانس چھوڑنے پر باہر خارج ہوجاتا ہے اس لئے جوہوا ہم پھیپھڑوں سے خارج کرتے ہیں اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جس مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ فعل تنفس سے پیداہو کر کرہ ہوائی میں پہنچتی ہے اگر اس قدر یہ گیس ہوا میں برقرار رہےتو بہت جلد ہوا میں اس کا تناسب اس قدر زیادہ ہوجائے گا کہ کسی شخص کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔کاربن میں خون میں سیاہی اور ترشی بڑھ جاتی ہے اور اعضاء میں سوزش اور انقباض پیداکردیتی ہے جس کے نتیجہ میں آکسیجن کم جذب ہوتی ہےساتھ ہی ساتھ حرارت اور خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔اور خاص بات یہ ہے کہ جسم میں کہیں بھی فضلہ اور مواد رکا ہوا ہو تو اس میں خمیر پیداکرکے اس کو متعفن کر دیتا ہےجس کے نتیجہ میں عارضی حرارت یا حرارت غریبہ بڑھ جاتی ہے جس کو ہم بخار کہتے ہیں۔

عمل تبخیر(Fermentation)
بخار کو سمجھنے کے لئے عمل تبخیر کاجاننا نہایت اہم ہے۔کیونکہ اس کے بغیر تعفن اور فساد پیدا نہیں ہوسکتااور یہی عارضی حرارت اور بخار کا راز ہے جس کی طرف غور نہیں کیا گیااور دیگر صورتوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ تبخیر یعنی خمیراٹھنا ایک کیمیائی عمل ہے جو اکثر عضوی اشیاء میں عام طورپر جراثیم کے ذریعے ظہور میں آتا ہے کسی چیز میں خمیر اٹھانے کے لئے جو چیز ملائی جاتی ہے اس کوخمیر کہتے ہیں۔ خمیرحقیقت میں وہ جراثیم ہوتے ہیں جن میں خمیر اٹھانے کی قوت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خمیر ملائے بغیر عمل تبخیر ہونے لگتا ہے اس کی یاتو یہ صورت ہوتی ہے کہ جراثیم ہوا میں اس چیز کے اندر گر پڑتے ہیں یا اس چیز میں پہلے سے خمیر ہوتا ہےجیسے انگور کے رس میں ایک خمیر ہوتا ہے اس لئے انگوری شراب بنانے کے لئے اس میں مزید خمیر ملانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب کسی چیز میں عمل تبخیر شروع ہوتا ہے تو وہ چیز گرم ہوجاتی ہے اور اس میں سے گرم انجرے اٹھنے لگتے ہیں۔ عمل تبخیر کی مختلف اقسام ہیں سب سے زیادہ عام قسم وہ ہے جس میں الکوحل اور کاربن ڈائی آکسائیڈ پیداہوتی ہے، دوسری قسم وہ ہے جس سے بعض خمیرات کے عمل سے بعض تیزابات بنتے ہیں۔یاد رہے کہ تمام تیزابات ترشے ہوتے ہیں اور ان میں جراثیم زندہ نہیں رہ سکتے مگر وہ خمیر ضرورپیداکرتے ہیں۔

کاربن اور حرارت غریبہ

کاربن کے خواص اور مظاہر لینے کے بعد جب حرارت غریبہ کے اوصاف پر نگاہ کی جاتی ہے تو ظاہرہ صرف یہ پتا چلتا ہے کہ ایک ایسی حرارت ہے جو تعفن سے پیداہوتی ہے جس سے بدن انسان کو ضرر پہنچتا ہےلیکن اگرغوروفکر کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تعفن کبھی بھی بغیر خمیر کے پیدا نہیں ہوتا اور ہر خمیر اپنے اندر ترقی و قباض اور دیگر وہ تمام خواص رکھتا ہےجو کاربن اور اس کے مختلف مظاہرین میں شامل ہیں۔

جہاں تک حرارت غریبہ کے افعال واثرات کا تعلق ہے اس کے مضر اثرات جسم انسان پر عمومی بخار کی صورت میں اور خصوصی بخاروں کی صورت میں واضح ہیں ۔ عمومی بخارکی صورت میں مثلاً خون میں جوش اور دباؤ بڑھ جاتا ہے جسم میں کسی مقام پر سوزش اور تعفن بڑھ جاتا ہےجس میں ترشی زیادہ بڑھ جاتی ہے جس کا ثبوت پیشاب میں نمایاں ہوتا ہے۔ جہاں تک دیگر بخاروں کا تعلق ہےجسم میں تعفن بڑھ جاتا ہےجس کا اخراج پیشاب وپاخانہ اور تنفس اور پسینہ سے ہوتا ہے۔ مختلف بخاروں میں مختلف مقامات پر درد، سوزش اور اورام کی صورتیں نظر آتی ہیں، سانس کی تنگی خاص طورپر قابل غور ہے۔ ان حقائق سے پتا چلتا ہے کہ کاربن اور حرارت غریبہ میں بہت مشابہت ہے۔

حرارتِ غریزیہ اور حرارتِ غریبہ کا تعلق

بعض حکماء متاخرین نے یہ خیال ظاہرکیا ہےکہ حرارتِ غریزیہ یعنی اصلی اور عناصر ی حرارت میں جب شدت پیدا ہو جاتی ہے تووہ حرارتِ غریبہ اور عارضی حرارت بن جاتی ہے۔ فرنگی طب اور کاربن کے مظاہرے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے لیکن در حقیقت حرارتِ غریبہ کے متعلق یہ بہت بڑا دھوکہ ہے ۔ یہ حرارت غریبہ بلکہ حرارتِ اصلیہ سے بھی ایک جدا شے ہے جس کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔حرارت اصلیہ یا حرارتِ عنصری مفرد شے ہے اور حرارت غریزیہ ایک خاص حرارت کا مرکب ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

حرارت کی حقیقت

حرارت ایک عنصری جسم (قوت) ہے جو دیگر عناصر کے ساتھ پایا جاتا ہے۔جاننا چاہیے تمام اجسام کی پیدائش قویٰ سےہے اور قویٰ کے تمام اقسام ارواح سے پیدا ہوتے ہیں ، جہاں تک حرارت کا تعلق ہے یہ موالید ثلاثہ کے ہر ذی حیات اور غیر ذی حیات کی صورت میں اس کے تناسب کے مطابق پائی جاتی ہے، جہاں تک اس کی عنصری حالت کا تعلق ہےاس میں نہ تبدیلی اور نہ تقسیم ہو سکی ہے البتہ وہ کم و بیش ضرور ہوتی رہی ہے۔ یہ کمی بیشی بھی اصلی عنصری حرارت سے ہوتی ہے، اصلی حرارت سےمراد صرف یہ ہے کہ حرارت عنصری صرف ایک ہی قسم ہے جو جلاتی ہے اس لئے اس حرارت کو حرارت اسطقیہ بھی کہتے ہیں۔

حرارتِ عنصری یا اصلی حرارت ہر ذی حیات اور غیر ذی حیات اور فضا میں دیگر عناصر کے ساتھ مل کر ایک مزاج رکھتی ہے جب ان کے امزجہ میں کمی بیشی واقع ہو تی ہے تو عناصر کی کمی بیشی کا ارکان کے خواص سے پتا چلتا ہے حرارت کی زیادتی سے تحلیل پیدا ہوجاتی ہے اس شے میں تحلیل واقع ہوتی ہے یا جل اٹھتی ہے۔جب یہ حرارت نطفہ کی صورت میں منتقل ہوتی ہے تو اس کو حرارت غریزی کہتے ہیں جس کے اثر سے انسان اپنی طبعی عمر کو پہنچتا ہے اکثر حکماء کا اتفاق ہے کہ اس کا بدل مایتحلل نہیں ہوتا ہے اور اس میں اس قدر (ایٹمی) قوت ہوتی ہے کہ سالہا سال تک اس سے زندگی قائم رہ سکے۔ لیکن بعض حکماء کا خیا ل ہے کہ غذاچونکہ عناصر سے ترکیب پاتی ہے اس لئے غذا کی عنصری قوت خون کے توسط سے حرارت غریزیہ کا بدل مایتحلل پیدا ہوتا رہتا ہے۔ دونوں صورتوں میں ظاہر میں بڑا فرق معلوم ہوتاہے لیکن حقیقت میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ اگر حرارت غریزی بدل مایتحلل پر قائم ہے تو پھر بھی یہ اس وقت تک اصلی عنصری حرارت میں جذب نہیں ہو سکتی جب تک حرارتِ غریزیہ قائم نہ ہو جب وہ ختم ہو جاتی ہے یا اس کا شعلہ بجھ جاتا ہے تو موت واقع ہو جاتی ہے۔

ان امور سے ثابت ہوا کہ حرارتِ غریزی بھی اصلی عنصری حرارت کی طرح ایک مزاج رکھتی ہے اور وہ اس پر قائم رہتی ہے ، اس میں کمی بیشی تو ہو سکتی ہے لیکن وہ بدل نہیں سکتی۔ اس لئے حرارت غریزیہ کا حرارت غریبہ کے متعلق سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حرارت غریبہ ایک جدا شے ہے اور وہ جدا طریقہ سے پیدا ہوتی ہے۔ دونوں کے اوصاف و خواص اور افعال و اثرات میں بہت زیادہ فرق ہے۔

فرنگی طب کی غلط فہمی

فرنگی طب میں حرارتِ عنصریہ، اصلیہ ، حرارتِ غریزیہ اور حرارتِ غریبہ کا کوئی تصور نہیں ہے ان کے ہاں آکسیجن، کاربن، ہائیڈروجن اور نائٹروجن وغیرہ کو عناصر کی صورت حاصل ہے جو مفرد و مرکب دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں۔طب قدیم کے مطابق ان کی مفرد صورتیں بھی مرکب ہیں کیونکہ ان کی تقسیم ہو سکتی ہے۔ تمام عناصروں کو اب ماڈرن سائنس نے ایٹم کی تقسیم کے بعد الیکٹران اور پروٹان سے مرکب تسلیم کرلیا ہے جس سے کم از کم یہ ثابت ہو گیا ہے کہ جلانے کا کام صرف آکسیجن کا نہیں ہے۔ ماڈرن سائنس میں یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ آکسیجن خود نہیں جلتی بلکہ دیگر عناصر کو جلاتی ہے۔ ہائیڈروجن خود جلتی ہے مگر کسی کو جلا نہیں سکتی، کاربن نہ خود جلتی ہے اور نہ جلاتی ہے بلکہ دیگر عناصر کے ساتھ مل کرجلتی ہے اور نائٹروجن نہ جلتی ہے نہ جلاتی ہے بلکہ آگ کوبجھا دیتی ہے۔

اگر ہم آکسیجن کو عنصری و اصلی حرارت کا طیف، کاربن کو دخان کا طیف،ہائیڈروجن کو پانی کا طیف اورنائٹروجن کو ارضی کا طیف سمجھ لیں اور ان کے مرکبات پر غور کریں تو اس قسم کے نتائج سامنے آ سکتے ہیں کہ جب آکسیجن و ہائیڈروجن دیگر ہوائی عناصر (جس کو سات شمار کیا جاتا ہے) میں غالب ہوں تو اس میں حرارت غریزیہ کے اوصاف پائے جاتے ہیں، جب کاربن اور آکسیجن کا غلبہ ہو تو جس میں حرارت غریبہ کے اثرات و افعال پائے جائیں گے۔ ان حقائق سے ثابت ہوا کہ فرنگی طب نہ صرف حرارتِ غریزیہ اور حرارتِ غریبہ سے بے خبر ہے بلکہ مزاج کی حقیقت سے بھی ناواقف ہے، جو ہزاروں سال پہلے طب یونانی میں بیان کر دئیے گئے ، جن کی معرفت سے نہ صرف امراض کی صحیح تصور ذہن میں پیدا ہوتا ہے بلکہ علاج علمی و سائنسی صورت کے ساتھ ساتھ یقینی اور بے خطا ہوجاتا ہے، حیرت ہے کہ سینکڑوںسالوں کی تحقیقات کے بعد بھی اب تک فرنگی طب اندھیرے میں بھٹک رہی ہے ۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس نے صرف طب یونانی اور خصوصاً طب اسلامی کو سمجھے بغیر تعصب سے نظر انداز کر دیا اور خود غلط راستہ پر پڑ گئی ہے اس کی غلط فہمی نے اور غلط راہ روی نے ہزاروں ممالک اور لاکھوں انسانوں کو گمراہ کیا ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ نہ صرف فرنگی طب کی غلطیاں دور کریں بلکہ جو لوگ اور ممالک ان سے گمراہ ہو گئے ہیں ان کو راہ راست پر لائیں۔ فرنگی طب کے بخاروں کے تحت ان کی پیدائش بخار، تقسیم اور علاج کی غلطیاں بیان کریں گے۔ تاکہ معالج ان سے پورے طورپر آگا ہ ہو جائیں۔

بخار کی ماہیت

ان تمام حقائق کے بعد جو ہم اپنی تحقیقات کے سلسلہ میں لکھ چکے ہیں ۔ ان کو سامنے رکھ کر اگر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بخار ایک ایسی حرارت ہےجو اپنےاندر ناریت و دخان (کاربن) رکھتی ہے جس کو ہم حرارت غریبہ کا نام دیتے ہیں ۔جس کی پیدائش تعفن و فساد اور تخمیر سے عمل میں آتی ہے۔ جس کا مزاج گرم خشک ہے اور کیمیائی طورپر اس میں ترشی پائی جاتی ہے۔

تحقیقات حمیات

بخاروں کی تقسیم و تشخیص اور علاج لکھنے سے قبل معلوم ہوتا ہےکہ یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ دیگر طریق علاج اس سلسلہ میں کیا لکھتے ہیں۔ تاکہ سمجھنے اور ذہن نشین کرنے میں سہولتیں پیداہوجائیں اور یہ بھی اندازہ کیاجاسکے کہ ہم نے جو اس سلسلہ میں تحقیقات کی ہیں وہ اپنے اندر کس قدر اہمیت رکھتی ہیں۔کیونکہ ایورویدک انتہائی قدیم طریق علاج ہے اس لئے اول اس پر تحقیقاتی نگاہ ڈالتے ہیں کہ اس میں بخاروں کوکیا سمجھا گیا ہے اور اس کا علاج کیسے کیا گیا ہے۔ لیکن یہ ضرور ذہن نشین کرلیں کہ ایورویدک مذہبی اور الہامی طریقِ علاج ہے۔ اس کی سچائی اور حقیقت میں کوئی کلام نہیں ہے مگر اکثر اس کا اندازہ کنایات واستعارت اور تلمیحات میں کیا گیا ہے جیسے مذہبی کتب کا خاصہ ہے کہ جیسے قران حکیم نے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اورپنڈلی کاذکرکیا ہے۔ یا وہ دیکھتا سنتاہے اور کہتا ہے تو اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ نعوذباللہ اللہ تعالیٰ کے ہماری طرح ہاتھ پاؤں، آنکھ کان اور منہ، زبان ہیں۔اس طرح کے بیان سے مراد خاص اقسام کے قویٰ کا ذکر اور بیان ہوتا ہے۔ جیسے ہمارا یقین ہے کہ فرشتے اور جن اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں ۔ جن کو ہم نے دیکھا نہیں ہے۔ مگر ان کے جو قویٰ اور افعال بیان کئے گئے ہیں۔ جن سے ہم ان کی ہستی کو تسلیم کرتے ہیں اور ان میں فرق کر سکتے ہیں ۔ یاد رکھیں بولنے کے لئے منہ اور زبان کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ گراموفون اور ریڈیو بولتے ہیں لیکن ان کے نہ منہ ہیں اورنہ زبانیں ہیں ۔ اسی طرح دیکھنے اور سننے کے لئے انسانی آنکھ اور کان کا تصور کرلینا صحیح نہیں ہے۔یہ صورتیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ اور پاؤں کے متعلق ہیں۔ ان کا مقابلہ بھی انسانی جسم سے نہیں کرنا چاہیے۔ اکثر صورتیں ایورویدک میں نظر آتی ہیں۔ اس لئے ان اشارات(Symbols) پر غور کرنا چاہیے۔ جیساکہ ہم اپنی کتاب تحقیقات اعادہ شباب میں وضاحت کرچکے ہیں۔ یہ تاکید اس لئے کردی ہے کہ جو لوگ غور و فکر کرنا نہیں جانتے وہ لوگ ظاہری باتوں پر تمسخر اڑاتے ہیں اور ان کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اگر ایسے علوم کو سمجھا جائے تو بے شمار اسرارورموز کا پتا چلتا ہے۔

Qanoon Mufrad Aza, Tibb e Sabir, Hakeem Sabir Multani, Health, قانون مفرد اعضاء, حکیم صابر ملتانی, طب و صحت, طب صابر, تحقیقات حمیات

مشک کستوری کیا ہے

Related posts

Leave a Reply