تحقیقات المجربات
قسط۔2
تحقیقات المجربات
خداوندِ حکیم آور ہادئ برحق کا ہزار ہزار شکر ہے کہ جس نے انسان کی راہ نمائی کےلئے فرما دیا ہے کہ صراطِ مستقیم اختیار کرو جس سے نعمتوں کے انعام حاصل ہوتے ہیں اور یہ صراطِ مستقیم کوئی علم و عقل اور تجربات و مشاہدات کا کمال نہیں ہے بلکہ صراطِ المستقیم حقیقت میں صراط اللہ ہے جس کواللہ تعالیٰ نے نور بنایا ہےجس سے وہ اپنے بندوں کی ہدایت کرتے ہیں۔ جس کو وہ چاہتے ہیں
و لکن جعلنہ نورا ھدی من نشا من عبادنا
علم و عقل اور تجربات و مشاہدات بھی ایک مقام رکھتے ہیں، مگر جہاں پر ان کا کمال ختم ہوتا ہے وہاں پر نورنبوت اور کتاب اللہ کا مقام شروع ہوتا ہے، جس کا کمال انسانی ادراک سے بہت دور ہے۔ علم وعقل اور تجربات و مشاہدات پر نور نبوت اور کتاب اللہ کا پرتو ضرور پڑتا ہے۔ مگر
ھدی للمتقین
یعنی ہدایت صرف انہی کو حاصل ہوتی ہے جو خداوندِ حکیم کا خوف رکھتے ہوئے پرہیز گار اور صالح جبلت ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے حکم سے ان کے دلوں کی راہنمائی کرتے ہیں۔ یہ رہنمائی زندگی و کائنات اور مابعد الطبیعات کا علم و عمل اور ان کا ردِ عمل (جزاو سزا) کی صورت میں حاصل ہوتی ہے جس کے ایمان و عقائد اور معاملات یا یقین و نظریات اور تعلقات جس مقام پر ہوتے ہیں، ان کو اسی قدر کمال حاصل ہوتا ہے۔ایمان و عقائد اور معاملات ہی دراصل انسان کے لئے ہدایات ہیں جن کو انسان اپنی عقل و علم کے مطابق حاصل کرتا رہتا ہے۔ یہی زندگی و کائنات اور مابعد الطبیعات میں اس کی راہنمائی کرتے ہیں۔ لیکن عمل و رد عمل اور ان کے نتائج میں جب نشوونما ارتقاء اور فلاح و سلامتی نہیں پاتا تو ان کو چھوڑ دیتا ہے یا نفسیاتی طورپر ا ن کو اس وقت تک نظر انداز کر دیتا ہے جب تک اس کے ذہن میں کوئی نیا یقین و نظریہ اور تعلق پیدا نہ ہوجائے۔
اس حقیقت کے تحت انسان ہر وقت ایسی راہنمائی اور راہ کی تلاش میں رہتا ہے جو اس کو اس کی زندگی و کائنات بلکہ مابعد الطبیعات کے لئے ایک صحیح دستور العمل کامیاب ہدایت، مسلمہ حقیقت، فلاحی اصول اور تجربہ شدہ قوانین ہوں تا کہ رواں دواں وہ اپنا مقام حاصل کرلے اور کہیں بھی ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ بس اسی قسم کی ہدایت ا ور راہنمائی کے لئے ہر انسان غیر شعوری طور پر کوشاں ہے۔ لیکن جب اس کو اپنے ایمان و عقائد اور معاملات میں حسبِ منشا کامیابی اور فلاح معلوم نہیں ہوتی تو پھر چھوڑ کر بیٹھ رہتا یے۔ زیادہ سے زیادہ چند بار کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ وہ روزانہ دیکھتا ہے کہ اس کے سامنے ہر شعبہ زندگی میں ایسے انسان ہیں جو کامیاب و کامران اور عزت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن جب اس کی ہر کوشش ناکام ہوتی ہے تو پھر وہ اپنی قسمت کی شکایت کرکے اپنی ہر قسم کی جدوجہد اور سعی چھوڑ دیتا ہے۔ پھر نامرادی سےذلت کی طرف گر پڑتا ہے۔ دراصل بدقسمتی اسی وقت شروع ہوتی ہے جو وہ حقیقت کی تلاش چھوڑ دیتا ہے۔ یہی مقدر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان ہر خواہش کے پیچھے دوڑتا ہے، مگر اپنی ضرورت کا احساس نہیں کرتا۔ ضرورت کا احساس ہی اس کو حقیقت کی طرف لے جاتا ہے۔ جس کے لئے وہ کوئی اصول بناتا ہے یا کسی قانون کی پیروی کرتا ہے۔ یہ اصول اور قانون کی پیروی ہی اس کی جدوجہد اور سعی کا مرکز ہوتے ہیں۔ یہیں سے زندگی کی کامیابی کی ا بتدا ہوتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں کچھ ایسے اصول اور قوانین ہوتے ہیں جن کی پیروی لازمی ہوتی ہے ان کے بغیر حقیقت اور کامیابی تک پہنچنا مشکل ہے۔ جن اصول اور قوانین کی پیروی کرنا پڑتی ہے وہ تجربہ شدہ مشاہدات اور مسلمہ حقائق ہوتے ہیں۔ یہی وہ معیار ہیں جن پر زندگی رواں دواں چلتی ہے۔ انہی کواختیار کر لینے سے کامیابی اور کامرانی قدم چومتی ہے۔ مشاہدات و تجربات اور حقائق کے مفید ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے لیکن ان سے استفادہ اسی وقت حاصل کیا جا سکتا ہے جب یہ علم ہو کہ وہ مشاہدات و تجربات اور تحقیقات کس قاعدہ و نظام اور اصول و قانون کے تحت کام کرتے ہیں ورنہ ہزاروں سالوں سے سینہ بہ سینہ رازو اسرار اور رموز چلے آتے ہیں یا یہ مسلمہ حقائق احسن اخلاقی اور مذہبی تعلیم ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کتب میں انسان کے اردگرد پھیلی پڑی ہیں، ہمارے لئے بے کار ہیں۔
یہ صورت علم العلاج میں ان مشاہدات و مجربات کی ہے جن کی اصولِ ترتیب ادویہ اور قانون استعمال سے ایک معالج پورے طور پر واقف ہوتا ہے۔ یہ ہے اس کا علم حقیقت ِ مجربات اور اصول ترتیب ادویہ ، جو علم الادویہ اورعلم العلاج کے تحت تکمیل کو پہنچتا ہے۔ جو معالج علم و فن طب کے اصول و حقائق اور قوانین سے واقف نہیں ہیں مگر ان کے پاس بے شمار مجربات ہیں۔ وہ یقیناً مجربات کے فوائد بلکہ استعمال میں ناکام ہیں ان کی مثال بالکل اس سکہ کی ہے جو ملک میں رائج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم العلاج کے ابتدائی دور سے اب تک ہر طریق علاج میں مجربات کی شدید طلب رہی ہے اور کثرت سے کتب لکھی گئی ہیں۔ مگر تاحال طلب مجربات ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ ایک مرض کی صورت اختیار کر گیا ہے جس کو جوع المجربات کہتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہزاروںسالوں سے مجربات پر جو لاکھوں کتب لکھی گئی ہیں، کیاوہ غلط ہیں؟یا زمانہ کے مطابق ان میں فوائدنہیں رہے؟ یا ان میں مرض کے مجربات نہیں پائے جاتے؟حقیقت یہ ہے کہ ان لاکھوں مجربات میں سے خصوصاً وہ مجربات جو حکیم حکماء اور باکمال اطباء نے ترتیب دئیے ہیں جیسے شیخ الرئیس اوار حکیم رازی وغیرہ، سو فیصدی صحیح اور یقینی وبے خطاہیں اور ان میں سر سے لے کر پاؤں تک ہر چھوٹے بڑے مرض اور علامت کے لئے ایک نہیں سینکڑوں مجربات پائے جاتے ہیں، مگر ان کے اصول ترتیب اور قانون استعمال سے واقف ہونا ضروری ہے۔ مجربات دوقسم کے ہوتے ہیں، اول مفرد مجربات جن میں مفرد اغذیہ و ادویہ اور اشیاء کو استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسرے مرکب مجربات جن میں دو یا دو سے زائد اغذیہ و ادویہ اور اشیاء کو مرکب کرکے استعمال کیا جاتا ہے۔ان میں ذرا بھی کمی نہیں آتی۔البتہ بعد کے سالوں میں اضافے ضرور ہوئے ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ جو لوگ طب قدیم کوفرسودہ اور نامکمل اور موجودہ دور کے لئے ناکافی خیال کرتے ہیں کیا وہ ان مفرد مجربات کو مفید اور غیر مؤثر ثابت کر سکتے ہیں یا کوئی ایسا مرض ہے جس کے علاج میں ان مفرد مجربات کو استعمال نہ کیا گیا ہو۔ البتہ اعتراض کرنے والے علم و فن طب سے واقف نہیں ہیں جو اندھے اور متعصب ہیں۔لطف کی بات یہ ہے کہ فرنگی طب میں مفردات کےافعال و اثرات اور خواص و فوائد اکثر بدلتے رہتے ہیں۔
مفردمجربات میں مثلاً چونا و گندھک اور شورہ قلمی کے جو افعال و اثرات اور خواص و فوائدہزاروں سال پہلے تھے ، آج بھی وہی ہیں۔ ان میں اضافہ ضرور ہوا ہے، کمی نہیں ہوئی۔ البتہ ان کے مرکبات کے اصول و قوانین اور فوائد و نظم کا ذہن نشین کرنا ضروری ہے، یعنی اگر چونا گندھک ملا دی جائے یا اگر چونا میں شورہ ملا دیا جائے تو چونا کے افعال و اثرات اور خواص و فوائد کیا ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔اسی طرح گندھک اور شورہ کے خواص و فوائد میں کیا فرق پیدا ہوجاتا ہےوغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح کے اہم اصول و قوانین اور قواعد سے مجربات کی حقیقت کو سمجھا اور فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ تاکہ ہر معالج مجربات کو دیکھ کر خود اندازہ لگا لے کہ وہ کہاں تک صحیح ہے اور وہ کس کس مرض و علامت کے لئے مفید ہے اور ان میں کمی بیشی کرنے سے کیا کیا صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اسی لئے ہی مجربات کے اس اہم علم و فن کو ذہن نشین کرانے کے لئے یہ کتاب لکھی گئی ہے۔
اس کتاب کے لکھنے کا خیال اس طرح پیدا ہوا کہ اکثر دوستوں ، ممبران اور خریداران ماہنامہ رجسٹریشن فرنٹ نے لکھا کہ گذشتہ آٹھ سالوں میں جو مجربات شائع ہوتے رہے ہیں ان کو یکجا کرکے خاص نمبر میں شائع کر دیا جائے تاکہ تحریک تجدید طب کے معالجین کے لئے علاج میں معاون ثابت ہوں۔ اس خیال پر کچھ عرصہ غور کیا گیا۔ آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجربات کو اکٹھا کرکے شائع کر دینا کوئی بڑی مشکل نہیں ہے۔ یقیناً اس سے معالجین کو فوائد بھی حاصل ہوں گے لیکن ظاہری طور پر طبی دنیا میں ہزاروں مجربات کی کتب میں ایک اور مجربات کی کتاب کا اضافہ ہو جائے گا بہتر یہ ہو گا کہ اس مجربات کی کتاب کو کسی بہترین مقصد کے لئے استعمال کیا جائے سو اس خیال کے ساتھ ہی ذہن میں یہ صورت پیدا ہوئی کہ کہ بہتر یہ ہوگا کہ مجربات کے ساتھ ساتھ مجربات کے علم و فن کو پیش کر دیا جائے تاکہ معالج اصول و قواعد اور قانون مجربات کو سمجھ سکیں اور ساتھ ہی ساتھ مجربات کی تشریح بھی کر دی جائے تاکہ وہ اس علم و فن کی روشنی میں ہر قسم کے مجربات کی حقیقت کو سمجھ سکیں۔ اس طرح یہ کتاب اپنی اہمیت کی وجہ سے منفرد ہو گی۔ کیونکہ آج تک علم و فن مجربات پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔اسی خصوصیت سے اس کا نام تحقیقات المجربات رکھا گیا ہے۔
تحقیقات المجربات کو چار عنوانوں کے تحت لکھا گیا ہے۔1)۔مجربات کی حقیقت۔2)۔ترتیبِ مجربات۔3)۔مجربات بالمفرد اعضاء مع تشریح۔4)َ ۔مجربات بالمفرد اعضاء۔جن کے ساتھ ساتھ ایک علمی مقدمہ بھی شامل ہے۔ باقی مجربات جو ہماری دیگر کتب درج ہیں ، ان کو شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی تحقیقات طبی فارماکوپیا کے مجربات ا س میں شریک ہیں۔ ان کو انہی کتب میں دیکھیں۔ یہ اس لئے کیا گیا ہےکہ مجربات کی ترتیب قائم رہے۔ کیونکہ وہی ان کا مقام ہے۔ امید ہے یہ کتاب نہ صرف پسند کی جائے گی بلکہ طبی دنیا میں ایک سنگِ میل کا کام دے گی اور جو لوگ بھی غور سےاس کتاب کا مطالعہ کریں گے ان کے سامنے مجربات کی دنیا روشن ہو جائے گی۔ جس کے ساتھ ہی طبی دنیا میں ان کا ایک مقام پیدا ہوجائے گا۔ اس طرح نظریہ مفرد اعضاء کے تحت طبی دنیا میں انقلاب آ جائے گا۔ اس طرح فرنگی طب کی برتری ختم ہو جائے گی اور طب قدیم کا بول بالا ہوگا، تحریک تجدید طب سے یہی ہمارا مقصد ہے۔
یہ خاص نمبر بھی خریداروں کو ان کےسالانہ چندہ میں دیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد ماہنامہ رجسٹریشن فرنٹ ان کو سال بھر باقاعدہ ملتا رہے گا۔ ہر مضمون جس محنت سے لکھا جاتا ہے، اہل علم و صاحبِ فن جانتے ہیں۔ ہر کتاب، جس کے ساتھ چیلنج ہو، اس پر اس قدر محنت ہوتی ہے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ پھر ایک محدود وقت میں لکھنا پھر کاتب سے لکھوانا اور چھپوانا سب مشکل امور ہیں۔ ان میں دیر بھی ہو جاتی ہے۔ بہر حال خداوند کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے اس قابل کیا کہ تمام طبی دنیا کے سامنے ایک قابلِ قدر کتاب پیش کر دی گئی ہے۔ یہ اسی کا کرم اور عزت افزائی ہے۔
المعالج صابر ملتانی۔ مورخہ 15اکتوبر 1966
مقدمہ
مجربات کی اہمیت
کسی شے کی اہمیت کااندازہ اس کی تخلیق اورفعل سے لگایاجاسکتاہے۔مجربات کی ضرورت تخلیق،اہمیت اورفعل کااندازہ اس امرسے لگایاجاسکتاہے کہ کسی مرض میں بھی کوئی ایسی غذا دوا اورشے دینے کی جرأت نہیں کی جاسکتی جوپہلے اس مرض میں تجربہ نہ کی گئی ہوبلکہ باربار کے مشاہدات میں اس کے تجربات یقینی طورپرصحیح اوربے خطاثابت ہوئے ہوں۔کیونکہ فطری طور پر انسانی ذہن اپنے جذبہ رحم وانس کے تحت یہ کبھی گوارانہیں کرتاکہ انسانی زندگی سے کھیلاجائے اور نقصان کاباعث بن جائے۔اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھاجائے توکوئی انسان کوئی بھی فعل یقینی و بے خطاانجام نہیں دے سکتا جوپہلے اس کاتجربہ اورمشاہدہ نہ ہو۔
ان حقائق سے ثابت ہواکہ مجربات کااستعمال ایک فطری اورانسانی جذبہ ہے چونکہ ایک شخص دنیا بھر کی اغذیہ،ادویہ اوراشیاء کوپورے طور اپنے تجربات ومشاہدات میں لاسکتااورپھرہرشخص اہل علم اورصاحب فن خصوصاً حکیم وفلاسفرنہیں ہوتااس لئے اپنی زندگی کی ضروریات اور راہنمائی کےلئے تجربات زندگی اورمجربات اشیاء ادویہ اوراغذیہ کاطلب گاررہتاہے۔اسی لئے وہ اپنے بزرگوں کی زندگی کوبتوں کی صورت میں اورکائنات کی ہرشے سے مستفیدہونے اوراس سے تعلق پیداکرنے کےلئے فطری طور پر ان کی پوجاکرتاہے اورجب اس کاذہن ترقی کرتا ہے اور شعو ر بلندہوتاہے تووہ خداوند کریم اورقادرمطلق کی پرستش کرتاہے اسی جذبہ کے تحت وہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ رسولوں وپیغمبروں اور نبیوں کوقبول کرتاہے تاکہ زیادہ سے زیادہ یقینی اور بے خطازندگی گذارنے کے مجربات حاصل ہوجائیں پس جولوگ بھی مجربات پرصحیح دسترس حاصل کرلیتے ہیں وہی لوگ زندگی میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔
مجربات کیاہیں؟
ابتدائے آفرینش سے لے کراس وقت تک بے شمارتجربات زندگی اورمجربات اشیاء سینہ بہ سینہ اور کتب کی صورت میں چلے آتے ہیں بلکہ اگریہ کہا جائے کہ اس وقت تک جس قدرکتب لکھی گئی ہیں چاہے وہ کسی بھی شعبہ زندگی میں لکھی گئی ہوں وہ سب زندگی کے تجربات اور مجربات اشیاء ہی ہیں ۔ گویاانسان کی فطرت ہے کہ وہ جب کوئی شے دیکھتاہے یااس کے متعلق سنتاہے تووہ اس کی حقیقت وخواص جاننا چاہتاہے اوراسی طرح جب وہ کسی عمل کودیکھتاہے یاسنتاہے تواس کے اثرات وافعال کومعلوم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی میں آنے والی ہرشے کی حقیقت وخواص اور ہرعمل کے اثرات وافعال سے آگاہ ہوجائے بس یہی مجربات ہیں جن سے انسان زندگی بھر مستفید ہوتا رہتا ہے۔
کس قدرعجیب و غریب بات ہے کہ یہ تجربات زندگی اورمجربات اشیاء کے گرداگرداس کثرت سے بکھرے پڑے ہیں کہ ان کو زندگی بھر سمیٹناتو رہا ا یک طرف اگرچننا بھی چاہے تونہیں چن سکتا ہزاروں سال میں ہرشعبہ زندگی میں اس قدر کتب لکھی گئی ہیں کہ ان کا شماربھی مشکل معلوم ہوتا ہے۔حیرت کی بات ہے کہ اول توعوام اس پرتوجہ ہی کم دیتے ہیں اوراگر مجبوراًضرورت کے تحت اس طرف رجوع کرتے ہیں توان کے پاس کوئی معیارنہیں ہے کہ کس تجربہ زندگی اورمجرب کو اختیارکریں اورکس کوچھوڑدیں۔ کیونکہ ان کے پاس کوئی ایسامعیارنہیں ہے جس کوقبول کرکے وہ یہ بیش بہاخزانہ اکٹھاکرلیں یاقیمتی موتی ہی چن لیں اوران سے زندگی بھرخودبھی مستفیدہوں اور دوسروں کوبھی مستفیض کریں۔ سچ ہے کہ قدر زر زر گر بداند وقدر جوہر جوہری۔
معیارمجربات
اس حقیقت کاجاننابھی بے حداہمیت رکھتاہے کہ ان تجربات زندگی اورمجربات اشیاء کامعیارکیا ہوتا ہے تاکہ صحیح اورمفیدتجربات زندگی اور مجربات اشیاء سے ہم صحیح طورپرمستفیدہوکراپنی زندگی کو کامیاب بناسکیں۔سوال پیداہوتاہے کہ کامیاب زندگی کیا ہے؟ کامیاب زندگی کے متعلق یہ حقیقت ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اس میں نشووارتقاء ہواورراستہ میں آنے والی مشکلات اور رکاوٹوں کودورکیاجاسکے۔ان حقائق سے ثابت ہواکہ اگرہم کومعیار کی کامیابی کاعلم ہوتوتجربات زندگی اورمجربات اشیاء سے مستفیدہوکرزندگی کوکامیاب بناسکتے ہیں۔
معیارِکامیابی کیاہے؟
جاننا چاہیے کہ معیارِکامیابی کی ضرورت کامیاب زندگی کےلئے ہے اورزندگی کاتعلق جسم انسان سے ہے ۔جسم انسان کامادی و عقلی ااورروحانی نشووارتقاء ہی اس کی کامیابی ہے۔جسم انسان کے راستہ میں سے مشکلات ورکاوٹیں دورکرناہی اس کی نشووارتقاء کوکامیاب بناناہے۔ان حقائق سے ثابت ہوگیاکہ معیارِکامیابی کوسمجھنے کےلئے اول انسان کوسمجھناچاہیے انسانی زندگی کوجاننے کےلئے اس کی جسمانی ومادی زندگی سامنے ہویاعقلی وروحانی زندگی پیش نظرہو۔ بہرحال ہماری نگاہ جسم انسان پرسب سے پہلے پڑتی ہے اوریہی اس کی ابتداہے۔
حقیقت انسان
جانناچاہیے کہ ظاہر میں انسان گوشت پوست اورہڈی وعروق کی ایک شخصیت ہے جس کے جسم میں سرخ رنگ کاخون دوڑتا ہے یہ خون اس میں حرکت وزندگی،شعوروجذبات،شوق ورفع اور خیروشرکی تمیزپیداکی ہے۔انسان کایہ جسم اورشخصیت یقیناکسی اصول کے تحت بناہے اور کسی نظام کے تحت جاری وساری ہے اوریہ اصول اورنظام بھی کسی قانون پررواں دواں ہے۔اس حقیقت سے کسی کوانکارنہیں ہے کہ انسان تمام کائنات کامرکز اوراشرف المخلوقات ہے۔سچ کہاگیاہے۔
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔
جانناچاہیے کہ انسان کوحتیٰ الامکان جسمانی وعقلی اورروحانی طورپرسمجھنے کےلئے اس کی بناوٹ وافعال اوراثرات کوذہن نشین کرنا ضروری ہے۔ جس قدرہم اس کوسمجھتے ہیں اسی قدراس کی ترقی وکامیابی اورنشووارتقاء کاعلم ہوتاجاتاہے۔اسی اصول ونظام پر ہم اس کی مشکلات اور رکاوٹوں کو بھی سمجھ سکتے ہیں جوزندگی کے راستہ میں حائل ہوجاتی ہیں انہی اصولی تجربات اور مشاہدات زندگی کانام سائنس ہے۔
انسان اورفطرت
ہزاروںسال کے تجربات ومشاہدات زندگی سے یہ ثابت ہوگیاہے کہ اس کائنات میں ہرشے کی تخلیق وباہمی تعلق اورزندگی و افعال کسی قانون کے ساتھ کافرما ہیں۔گویاانسانی زندگی کی ہرشکل و عمل بغیرنظام کے نہیں ہے۔بلکہ موالیدثلاثہ میں مٹی وپتھر اور دھاتیں،پھل وپھول اوردرخت و پودے اورچرندپرنداوروحشی جانورسب کے افعال واثرات کسی نہ کسی اصول و نطام کے تحت کام کر رہے ہیں اوریہ اصول ونطام اپنے اندرایک خاص قانون رکھتے ہیں اس یقین کے بعد کہ اس کائنات کی ہرشے وتخلیق یا ان کا باہمی تعلق اورزندگی کے افعال ایک خاص قانون کے تحت چل رہے ہیں توپھرتسلیم کرنا پڑتاہے کہ کائنات میں یہی اس کی فطرت ہے جوایک خاص قانون کے ساتھ اپنا عمل کررہی ہے۔اسی کوہم قانون فطرت کہتے ہیں۔اس کاسمجھ لینا ہی خودی ہے۔
ان حقائق سے ثابت ہوگیا کہ اگر ہم انسان کوجسمانی وعقلی اورروحانی طورپرسمجھنا چاہیں تولازم ہے کہ ہم انسانی فطرت کوسمجھیں جس پروہ بنایاگیاہے۔قران حکیم نے چودہ سو سال پہلے کہہ دیا ہے کہ
فطرۃاللہ الٰھی فطرۃ الناس علیہ
اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت وہ جس پرانسان کوپیداکیاگیاہے۔
اب ہم پرآسان ہوجاتاہے کہ انسان کوجسمانی وعقلی اورروحانی کسی بھی حیثیت سے سمجھناچاہیں تو اول اس کے اس نظام زندگی کو جانیں جوباقاعدگی کے ساتھ قانون فطرت پرچل رہاہے پھرہم سہولت کے ساتھ انسانی ترقی وکامیابی اورنشووارتقاء کوسمجھ کر اس کی مشکلات و روکاوٹوں کو دور کر سکیں گے چاہے یہ مشکلات اوررکاوٹیں کسی بھی نظام زندگی میں ہوں۔ہم انشاء اللہ اس میں ضرور کامیاب ہوں گے۔
صحت کی مشکلات
انسانی زندگی میں جسم کی صحت کاقائم رکھنااہم مشکلات میں شامل ہے جس کوہم مرض کانام دیتے ہیں جس کے متعلق کہاگیاہے کہ
تنگ دستی اگرنہ ہو غالب تندرستی ہزارنعمت ہے
مرض ایک ایسی مشکل ہے جس کاتجربہ ہرمردعورت اوربچے بوڑھے کوہوتاہے کیونکہ اس کاسلسلہ پیدائش سے موت تک چلتا ہے اس کورفع کرنے کےلئے علم وفن طب قائم کیاگیاہے۔ہزاروں سال سے ا مراض کودورکرنے کےلئے علم العلاج اورعلم خواص الاشیاء اغذیہ وادویہ چلاآتا ہے تاکہ امراض و مشکلات صحت کودورکیاجائے۔یہ علم وفن طب نہ صرف سینہ بہ سینہ چلاآتاہے بلکہ اس پر لاکھوں کروڑوں کتب نہ صرف ہر زمانہ میں لکھی گئی ہیں بلکہ ہرملک اورہرطریق علاج میں لکھی گئی ہیں ۔ آج کل جس کوسائنسی دور کہتے ہیں اس میں نہ صرف بے شمارکتب لکھیں گئی ہیں بلکہ گذشتہ علم وفن طب پرجوکچھ لکھاگیاہے اس پر تحقیق وتدقیق اور ریسرچ کی گئی ہے تاکہ امراض اورمشکلات صحت کامقابلہ کیاجاسکے۔
مجربات زندگی
انسان اپنی زندگی میں جوکچھ بھی کرتارہاہے وہ اس کا روزانہ کاعمل ہویاباربارکامشاہدہ یا حوادثات زندگی وغیرہ یہ سب اس کے تجربات زندگی ہیں ۔انہی کومجربات زندگی کہتے ہیں جس طرح یہ مجربات زندگی انسان کے ہرشعبہ حیات میں پائے جاتے ہیں اسی طرح علم العلاج اور علم الادویہ میں بھی پائے جاتے ہیں جن کومجربات علاج یامجربات الادویہ کہتے ہیں جوامراض اور مشکلات صحت کےلئے خزانہ ہیں حقیقت میں علم العلاج کی بنیاداسی خزنہ پرہے۔
مجربات کے خزانے
ہزاروں سال سے انسان نے معالج یاغیرمعالج کی حیثیت سے جومجربات اکٹھے کئے ہیں وہ سینہ بہ سینہ یاکتب کی صورت میں لاکھوں کروڑوں کی صورت میں ہمارے گرداگردپھیلے پڑے ہیں اور یہ علم العلاج کی جان ہیں۔طبی دنیا میں جوعلاجات ہورہے ہیں وہ انہی پر یقین اورفخر کے ساتھ کئے جاتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ گذشتہ زمانہ قدیم ہویاموجودہ دورسائنس ان میں جوعلاج کئے گئے ہیں یاہورہے ہیں یہ سب انہی مجربات کے مرہون منت ہیں اگرہم تھوڑی دیرکےلئے یہ فرض کر لیں کہ مجربات ختم ہوگئے ہیں تویقینا جاسکتاہے کہ انسان عملی اورسائنسی علاج سے نہ صرف محروم ہوجائے بلکہ زمانہ جہالت میں پہنچ جائے اورعلاج کی دنیا ہمارے سامنے اندھیرہوجائے ان حقائق سے ثابت ہواکہ مجربات اپنے زبردست اہمیت رکھتے ہیں۔
حقیقت مجربات
مجربات کے عظیم خزانے جو ہزاروں سال سے اب تک ہمارے اردگرد پھیلے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی مجربات کی طلب باقی ہے بلکہ پہلے سے بہت زیادہ ہے ۔اس سلسلہ میں کسی معالج سے بات کی جائے توایسا معلوم ہوتاہے کہ اس کومرض جوع المجربات ہوگیاہے۔صرف ایورویدک اور طب یونانی کے معالجین پر ہی منحصر نہیں، فرنگی طب اور ہومیوپیتھ ڈاکٹروں میں بھی یہ بیماری شدت سے ہے ۔فرنگی طب میں تلاش مجربات کے ثبوت میں ان نت نئی پیٹینٹ ادویات بازاروں میں آتی رہتی ہیں اور جب آتی ہیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نئی دوا فلاں مرض کے لئے اکسیر وتریاق اور یقینی بے خطا دوا ہے۔ کیونکہ ماڈرن میڈیکل سائنس کی تحقیقات کا نچوڑ ہےاور ہزاروں قابل ترین ڈاکٹروں کی تصدیق ہے۔ مگر تھوڑے عرصہ بعد وہی دوا ناکام ثابت ہو جاتی ہے۔ اس میں کیڑے پڑ جاتے ہیں اور نئی دوا ، نئے دعوؤں کے ساتھ بازار میں آ جاتی ہے۔ اس کا نام ریسرچ(Research) رکھا گیا ہے ، جو ماڈرن میڈیکل سائنس کے نام سے ہو رہی ہے۔ آنکھوں سے اندھی ، نام نین سکھ۔
اس غرض سے ہر روز اکسیر وتریاق قسم کے مجربات کی تلاش ہے۔معلوم یہ ہوتاہے کہ یاتوان کاافعال واثرات ادویہ و اغذیہ اوراشیاء لینے کا طریق کارغلط ہے یاتشخیص الامراض وعلامات ہی صحیح نہیں جس سے وہ دونوں کوتطبیق دے سکیں اورمرض رفع ہوجائے اس لئے مجربات کی تلاش جاری ہے۔
ہومیوپیتھی میں علاج علامات کے تحت ہوتاہے۔ ان کے ہاں مرض کا تصور نہیں ہے۔ لیکن اکثر ان کے رسالوں اور کتب میں لکھا ہوتا ہے کہ فلاں بیماری کے لئے فلاں دوا فلاں طاقت کی بہت مفید ہے اور اکثر یہ تلاش رہتی ہے کہ خاص خاص امراض خصوصاً پیچیدہ اور عسر العلاج امراض میں کون سی ادویہ یقینی اثر رکھتی ہیں۔ تقریباً تمام ہومیوپیتھ رسالوں میں امراض کے نام لکھ کر ا ن کے تحت مجرب ادویہ لکھ کر اشتہار دئیے جاتے ہیں تاکہ عوام منگوا کراستعمال کریں اور خود گھر میں علاج کر لیں۔ یہاں پر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہومیوپیتھی میں امراض تسلیم نہیں کئے جاتے بلکہ علامات کے تحت علاج کیا جاتا ہے۔ ایک عام انسان اپنے گھر میں علامات کو کیسے قابو کر سکتا ہے۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے بہترین دوست ہومیوپیتھ ڈاکٹر جناب محمد اسماعیل صاحب نامی حیدرآباد نے سانپ کاٹے کی ایک ہومیوپیتھک دوا ایجاد کی ہے جس کی تعریف ہمیشہ ان کے رسالے میں شائع ہوتی رہتی ہے۔ ہمیں پڑھ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ ایک اچھے قسم کے ہومیوپیتھ لیڈر ہیں اور اس قسم کے اشتہار شائع کراتے ہیں جو ان کے طریق علاج کے بنیادی عقیدے کے خلاف ہیں۔ ہمیں دوا کے مجرب اوربے خطا ہونے سے انکار نہیں ہے بلکہ صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ مجربات کی تلاش و طلب سے کس قدر فائدہ اٹھایاجاتاہے یہاں پرایمان وعقیدے سب دھرے رہ جاتے ہیں۔
یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ طب مفرداعضاء میں مجربات ومرکبات اورمفردات کے افعال واثرات ایک قانون کے تحت حاصل کئے جاتے ہیں اوراسی طرح امراض وعلامات کی تشخیص بھی بالکل اسی قانون کے تحت ہے۔جس قانون کے تحت مجربات ومرکبات اورمفردات کے افعال واثرات حاصل کئے جاتے ہیں۔یہ قانون کیفیات ومزاج اوراخلاط کا ہے۔اسی کے مطابق امراض و علامات انہی کیفیات ومزاج اوراخلاط کے افعال واثرات رکھنے والی مفردات ومرکبات اور مجربات سے تطبیق دے کر علاج کیاجاتاہے اوریقینی شفاحاصل کی جاتی ہے۔ اورجو ادویہ ، اغذیہ اور اشیاء اس قانون کے تحت نہیں ہوتے وہ بالکل مفیدنہیں چاہے وہ کتنے بھی دعوؤں کے مجربات کیوں نہ ہوں اس کتاب میں ہم انہی قوانین کو بیان کریں گے جن کے تحت مجربات کو یہ سمجھا جا سکے کہ کیاواقعی وہ مجربات میں شامل ہیں اورکن امراض کےلئے مفید ہیں جب تک مجربات کی صحیح شناخت نہ ہواس وقت تک مجربات کو استعمال نہیں کیاجاسکتا اوراگربغیر صحیح شناخت کے مجربات کا استعمال کیاگیاتواول نقصان ہونے کا خطرہ ہے اگرنقصان نہ ہوتو اس کامفیدہونایقینی نہیں ہے اسی ضرورت کے تحت ہم تحقیقت المجربات نمبر پیش کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:قسط ۔1 علم الادویہ
مجربات اوربنیادی قوانین
عام طورپریہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ مجربات کےلئے بنیادی قوانین کی ضرورت نہیں ہے وہ بالخاصہ خاص خاص امراض کےلئے مفیدبلکہ اکسیرو تریاق اوریقینی شفاکاحکم رکھتے ہیں۔ایساخیال نہ صرف غلط ہے بلکہ بے بنیادبھی ہے۔یادرکھیں کہ امراض کےلئے بالخاصہ مجربات چاہے وہ مرکبات ہوں یا مفردات انہی کوکہتے ہیں جن کے اصولی شفاکابنیادی قوانین کے مطابق علم نہیں ہوتا۔جن کوانگریزی میں (Rational Medicines) کہتے ہیں۔ ان کواصولی ادویات (Imperial)سے جدا سمجھا جاتا ہے۔ جیسے فرنگی طب میں پارے کو آتشک کا یقینی علاج سمجھا جاتا ہے۔ اس سے کیوں فائدہ ہوتا ہے۔ اس کا فرنگی طب کو بالکل علم نہیں ہے۔ اس طرح فرنگی طب نے بہت سے امراض میں مجربات پیش کئے ہیں جن کے قوانین شفا سے وہ بالکل واقف نہیں ہے۔ اس سے علم العلاج میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں ہیں۔
فرنگی طب کی غلط فہمی
فرنگی طب میں خواص الادویہ کہیں جراثیم کے تحت حاصل کئے جاتے ہیں ، کہیں فزیکل بالاعضاء افعال دیکھے جاتے ہیں اور کہیں کیمیکلی خون کے اجزاء (Element) کی کمی بیشی کو مدنظر رکھاجاتا ہے، اس لئے کوئی واحد بنیادی قانون استعمال نہیں کیا گیا۔یہی صورتیں تحقیقات ماہیت امراض میں بھی سامنے رکھی جاتی ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے ادویہ اور امراض کی تطبیق بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ بلکہ ان کی ایک صورت وٹامنی بھی ہے۔فرنگی طب چونکہ کیفیات و مزاج اور اخلاط کو تسلیم نہیں کرتی ، اس لئے اس کے مجربات اور بھی غلط فہمیاں پید اکر دی ہیں۔اس لئے متلاشی مجربات اور سہل پسند معالجوں نے طلب مجربات کے لئے فرنگی طب کے مجربات کی طرف یلغار کر دی۔ اس گناہ میں عوام اور عطائی قسم کے اطباء ہی شریک نہیں ہیں بلکہ بڑے بڑے جگادری لیڈر قسم کے اطباء بھی ملوث ہیں۔ بلکہ ا س وقت ملک بھر میں ہی نہیں دنیا بھر کے معالجین کی یہ حالت ہے کہ وہ فرنگی مجربات ہی سے علاج معالجہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ ان میں کیفیات ومزاج اور اخلاط کی بندشیں نہیں ہیں۔ وہاں پر واحد مرض کاواحد علاج رائج ہے اور معالج کی ذاتی جدوجہد جو تطبیقِ مرض و دوا اور غذا میں کی جاتی ہے وہ ختم ہو گئی ہے۔ اس لئے روز بروز فرنگی طب کو اپنایا جا رہا ہے۔
بعض اطباء اس میں یہ توجہیہ پیش کرتے ہیں کہ فرنگی طب ماڈرن میڈیکل سائنس ہے اس کے مجربات یقینی اور تحقیق شدہ ہیں۔ان سے مستفید ہونا چاہیئے۔ ایک گروہ اطباء کا یہ کہتا ہے کہ طب یونانی قدیم طریقہ علاج ہے۔ اس کی احیاء اور تجدید اسی طرح ہو سکتی ہے کہ اس میں فرنگی طب اور ماڈرن میڈیکل سائنس کی تحقیق شدہ معلومات امراض یعنی مجربات اور مفید آلات کو ضرور داخل کر لینا چاہیئے ورنہ طب قدیم ختم ہو جائے گی۔ایک تیسرا گروہ یہ تصور پیش کرتا ہے کہ یہ سائنس کا زمانہ ہے اور دنیا سائنس پسند ہے۔ اس لئے ماڈرن میڈیکل سائنس کو طب قدیم میں جذب کرکے اس کو ماڈرن بنانا ضروری ہے، ورنہ اس کو رفتہ رفتہ نظر انداز کر کے ختم کر دیا جائے گا۔ گویا اب ایک ایسا وقت آ گیا ہےکہ عوام اور اطباء فرنگی طب کی فوقیت کو تسلیم کرکے اس کے طریق علاج اور ادویات احسن اور مفید خیال کرتے ہیں اور اس کے مقابلے میں طب قدیم کو کوئی مقام نہیں دیتے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت بھی طب قدیم کواس کا مقام نہیں دیتی ، جس کا ثبوت طبی رجسٹریشن قانون دنیا کے سامنے آ گیا ہے۔
طب قدیم میں انقلاب
ایوریدک اور طب یونانی کے متعلق بنیادی طور پر یہ فیصلہ کر لینا چاہیئے کہ ۔1)۔ کیا وہ غلط طریق علاج ہے۔2)۔کیا اس کی بنیاد قانون پر قائم ہے یا وہ عطایانہ طریقہ علاج(Rational) ہے۔3)۔ کیا میڈیکل سائنس اور ماڈرن سائنس نے فن علاج کی جو خدمت کی ہے وہ اس قدر علمی اور سائنسی ہے کہ ان کے مقابلے میں طب قدیم ایک وحشیانہ طریقہ علاج ہے۔ ان سوالات کا فیصلہ کن جواب یہ ہے کہ
آج کل دنیا بھر کی کوئی سائنس طب قدیم کو غلط طریقہ علاج ثابت نہیں کرسکی، بلکہ یورپ و امریکہ میں تاحال قدیم طریقہ علاج کسی نہ کسی رنگ میں قائم ہے۔ملک چین میں موجودہ سائنسی کمالات کے باوجود طب قدیم کو حکومت کی سرپرستی اسی طرح قائم ہے م جس طرح فرنگی طب حکومت کی سرپرستی میں کام کر رہی ہے۔
طب قدیم کومفید اور کامیاب طریقہ علاج تسلیم کرنا اس کی قوت شفا پر نہیں ہے بلکہ اس کے قوانین (Laws) پر قائم ہے اورقوت ِ شفا دوسرے نمبر پر ہے۔ وہ بھی اس میں دیگر طریقِ علاج سے بہت زیادہ ہے۔ گویا طب قدیم علمی و سائنسی طریقہ علاج بھی ہے اور اس میں انتہائی قوتِ شفا بھی پائی جاتی ہے۔
ان حقائق سے ثابت ہے کہ طب قدیم اس وقت تک فرنگی طب سے بہت زیادہ خدمات نہ صرف انجام دے رہی ہے بلکہ اکثر امراض کا علاج جو فرنگی طب (ماڈرن میڈیکل سائنس )پیش نہیں کر سکتی۔ ان کا کامیاب علاج طب قدیم میں موجود ہے جس کو اکثر یورپ و امریکہ اور چین کے چوٹی کے ڈاکٹروں نے تسلیم کیا ہے۔
ان حقائق کو تسلیم کر لینے کے بعد ایک اہل نظر اور صاحبِ علم کے ذہن میں فوراً یہ حقیقت آجاتی ہے کہ اگر طب قدیم بالکل علمی ،سائنسی اور قانونی طریق علاج ہے اور فرنگی طب بھی اپنے آپ کو سائنسی اور تحقیقی علاج کہتی ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے مخالف بھی ہوں اور صحیح طریقہ ہائے علاج بھی ہیں۔ کیونکہ زندگی و کائنات کے انتظام کے لئے ایک قانون مقرر ہے، جس کو قانونِ فطرت کہتے ہیں، دونوں ایک ہی قانون پر کیسے صحیح کہہ سکتے ہیں۔ یہ حقیقت بالکل مسلمہ ہے ۔ اس کے لئے ہم نے ثابت کیا ہے کہ طب قدیم بالکل صحیح ، فطرت کے مطابق اور علمی و سائنسی طریق علاج ہے اور اس کے مقابلے میں فرنگی طب غیر صحیح ، غیر فطری اور غیر سائنسی بلکہ عطایانہ علاج ہے۔ اس کے لئے دیکھیں ہماری کتاب “فرنگی طب غیر علمی اور غلط ہے”۔ جس کے لئے مبلغ دس ہزار روپے کا چیلنج اس شخص کے لئے ، جو اس کو صحیح ثابت کرے۔ انشاء اللہ تعالیٰ کوئی یہ چیلنج قبول نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی کو اس کے قبول کرنے کی جرات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا پر ہمیں فوقیت عطا فرمائی ہے۔
احیائے فن اور تجدید طب
قانون فطرت ہے کہ جب دنیا میں سچائی اور صدق و حقیقت پر خواہش وکذب اور نفس پرستی کے غباروپرد ے اورخس و خاشاک پڑ جاتے ہیں اور دنیا کی اکثریت گمراہی اور اندھیرے میں سر گر داں و پریشان اور صحیح راہ سے دورچلی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے اس سچائی و صدق اور حقیقت کو دنیا میں روشن کر دیتے ہیں تاکہ اہل نظر، صاحب علم اورماہرفن ہدایت اور روشنی سے منور ہو کر اصل راہ اختیار کر لیں۔
بالکل اسی قانون کے تحت اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہی کام لیا ہے اوریہ کام ہم سے ایک معالج کی حیثیت سے لیا ہے ۔جس کا مقام ایک حکیم سے زیادہ نہیں ہے اور نعوذ باللہ اس میں کسی مسیح اور مہدی کا تصور تک نہیں ہے اورنبوت تو بالکل ختم ہو چکی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قانون فطرت کو بالکل واضح کر دیا ہے ۔جس پر زندگی اور کائنات رواں دواں ہے ۔کیونکہ اس کے بعد کوئی بھی قانون فطرت نہیں ہے۔اس لئے ختم نبوت لازم آتا ہے۔ہماری خدمات صف احیائے فن اور تجدید طب تک محدود ہیں۔ہم نے ثابت کیا ہے کہ طب قدیم نہ صرف بالکل صحیح اورقانون فطرت کے عین مطابق ہے۔بلکہ دنیا کا کوئی بھی طریقہ علاج جو قانون فطرت کے مطابق نہیں ہے اس مقصد کے لئے ہم عرصہ نو سال سے دنیائے طب کے سامنے اپنی تحقیقات پیش کررہے ہیں ۔
نظریہ مفرد اعضاء
کسی فن کواس وقت تک زندہ نہیں کیاجاسکتاجب تک اس میں تجدیدنہ کی جائے۔تجدیدکے معنی ہیں قدیم علم وفن کونیا مقام(Renew) دینا۔پھر یادرکھیں تجدیدکے معنی کسی نئے علم وفن کا پیداکرنانہیں ہے بلکہ قدیم علم وفن کی سچائی وصداقت اورحقیقت کوروشن اورنیاکرناہے ۔سو ہم نے بھی فن کوزندہ کرنے کےلئے طب میں تجدیدکی ہے کوئی نئی طب نہیں پیش کی جس کوطب جدید کہا جائے۔تجدیدطب اورطب جدید دو مختلف صورتیں ہیں ہم احیائے فن اورتجدیدطب کے داعی ہیں۔طب جدید کو غلط سمجھتے ہیں۔
یادرکھیں کہ کسی فن کے احیاء اورتجدیدکےلئے اس وقت تک کوئی صورت پیدانہیں ہوسکتی جب تک فطرت کا کوئی ایسا قانون وکلیہ اوراصول و قائدہ پیش نہ کردیاجائے جس کی بنیادوں پراس میں احیاء اورتجدیدکی جاسکے اوراس قانون وکلیہ اوراصول وقائدہ کوفطرت کے مطابق ثابت کرنے کےلئے تجربہ و مشاہدہ پیش کیاجائے یاکسی علمی اورسائنسی قانون وکلیہ اوراصول وقائدہ کوسامنے رکھ کر فطرت کے مطابق کردیا جائے بس یہی اس کی نظری(عملی)صورت ہوگی۔ہم نے بھی اسی طرح کاایک نظریہ پیش کیاہے جس کانام طب مفرداعضاء رکھاہے۔
طب مفرداعضاء کی تشریح
یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ جسم انسان کی مشین چنداعضاء کے پرزوں سے مرکب ہے جومفرداعضاء سے مرکب ہیں۔یہ مفرداعضاء اخلاط سے مل کر بنتے ہیں اوراخلاط اس غذاسے پیداہوتے ہیں جو ہم روزانہ کھاتے ہیں یہ روزانہ کھائی جانے والی اغذیہ اپنے اندرچندمخصوص کیمیائی کیفیات اورمزاج رکھتی ہیں۔
ماڈرن سائنس اورمیڈیکل سائنس بھی یہ تسلیم کرتی ہے کہ جسم کی مشین جن اعضاء کے پرزوں سے مرکب ہے وہ تمام انسجہ(Tissues) سے مرکب ہیں اورہرنسیج ہزاروں خلیات(حیوانی ذروں)سے مرکب ہے جن کوسیلز(Cells)کہتے ہیں ہرسیل (حیوانی ذرہ)اپنے اندر ایک جدا زندگی رکھتاہے یعنی سانس وغذالیتاہے اوراپنے فضلات خارج کرتاہے پھراپنے جیسے خلیات(Cells)پیداکرتاہے انہی سے انسجہ (Tissues)مرکب ہیں یہ انسجہ (Tissues)چارقسم کے ہوتے ہیں ان میں سے تین اعضائے رئیسہ دل،دماغ اورجگربنتے ہیں۔جن کوعضلی نسیج(Muscular Tissue)،عصبی نسیج(Neural Tissue)اورغدی نسیج(Glandular Tissues) کہتے ہیں اورالحاقی نسیج (Connective Tissue)سے جسم کی بنیادیں تیارہوتی ہیں۔یہ تمام انسجہ خون سے بنتے ہیں جوایک کیمیائی مرکب ہے اوریہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ خون غذاسے بنتاہے۔
جاننا چاہیے کہ طب نظریہ مفرداعضاء ثابت کرتی ہے کہ جسم چاراخلاط سے مرکب ہے اورہرٹشواپنا ایک مختلف مزاج اورکیفیت رکھتاہے یعنی ہرایک کامزا ج دوسرے سے مختلف ہے۔جیسے طب یونانی کے اخلاط ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن اگر ان چاروں خلطوں اورچار انسجہ (Tissues)کوتطبیق دیاجائے توایک ہی معلوم ہوتے ہیں(1)۔خلط بلغم سے نسیج اعصابی بنتا ہے اوریہی اس کی غذااورجزوبدن ہے۔ (2)۔خلط خون(سرخی)سے نسیج عضلاتی بنتاہے اور یہی اس کی غذااورجزو بدن ہے۔(3)خلط صفراسے نسیج غدی بنتاہے اوریہی اس کی غذااورجزو بدن ہے۔ (4)۔خلط سوداسے نسیج الحاقی بنتاہے اوریہی اس کی غذااورجزو بدن ہے۔گویااخلط اورانسجہ لازم وملزوم ہیں۔یہ وہ حقائق ہیں جن سے کوئی سائنس انکارنہیں کرسکتی جب ان حقائق پر مسلسل سالہاسال غوروفکرکیاگیاتوان میں سے بے شمارحقائق کے چشمے ابلنے لگتے ہیں جن سے بحرذخاراوربے پائندہ کنارپیداہوگیا۔ یہی وہ موڑ(Turn) تھا جس سے احیائے فن اور تجدید طب کی روئیں پیدا ہوئیں۔
طب نظریہ مفرداعضاء کی عملی صورت
طب قدیم میں صحت کا قیام اعتدال اخلاط ومزاج اورکیفیات پرہے یہ اعتدال قائم نہیں رہتا تومرض پیداہوجاتاہے۔پھرمرض کاعلاج یہ ہے کہ ان میں اعتدال قائم کردیا جائے ۔ مرض کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جب اخلاط ومزاج اورکیفیات کااعتدال بگڑتاہے تو اس کا اولین اثراعضاء پرپڑتاہے کیونکہ انہی سے پہلے اعضاء بنتے ہیں جیساکہ شیخ الرئیس بوعلی سینانے لکھا ہے
وھی اجسامٌ متولدہ من اول مزاج الاخلاط کماان الاخلاط اجسام متولدۃمن اول مزاج الارکان۔
اوریہی اعضاء اجسام ہیں جواخلاط کی ابتدائی ترکیب سے پیداہوتے ہیں جیسا کہ اخلاط جیسے اجسام ارکان کی ابتدائی ترکیب سے پیدا ہوتے ہیں۔
شیخ الرئیس نے نہ صرف اعضاء کی پیدائش کی ابتدائی صورت بیان کردی ہے بلکہ مثال دے دی ہے کہ جیسے ارکان سے اخلاط پیداہوتے ہیں جس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیاہے کہ اخلاط ہمیشہ ارکان سے پیداہوتے ہیں۔اس میں خوبی اورکمال یہ ہے کہ ارکان واخلاطاوراعضاء کا ایک مسلسل تعلق پیداکردیاہے۔ان تینوں کوایسا جوڑدیاہے کہ وہ تینوں نہ صرف ایک دوسرے کے بعد ہیں بلکہ ایک ہی سے معلوم ہوتے ہیں۔البتہ ان میں ارتقائی صورت قائم ہے۔یعنی اول ارکان،پھراخلاط اورآخر میں اعضاء ہیں انہی اعضاء کے افعال بگڑنے کوامراض قرار دیاگیاہے چاہے ان کابگڑناسادہ (کیفیاتی)ہویامادہ(اخلاطی)ہو۔ بس یہیں سے احیائے فن اور تجدید طب کا مقام پیدا کیا گیا ہے۔
طب مفرداعضاء کانقطہ عروج
جب یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ اخلاط سے اعضاء بنتے ہیں۔دوسرے اعضاء یقینااخلاط کی ارتقائی صورت ہیںتیسرے اعضاء ہی کے بگاڑکو مرض قرار دیاجاتاہے یعنی جب تک اعضاء کے افعال میں افراط و تفریط اورخرابی واقع نہ ہواس وقت تک اس کومریض نہیں کہ سکتے۔پھر اگراخلاط کی بجائے اعضاء کوقیام صحت اورسبب مرض قراردیاجائے توہم اخلاط کے چکر سے نکل کراعضاء پر پہنچ جاتے ہیں جس سے تشخیص میں آسانیاں اورعلاج میں سہولتیں پیداہوجاتی ہیں اور ہم ماڈرن سائنس کے بالمقابل خم ٹھونک کر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اس سے ایک طرف طب قدیم کا کمال ظاہر ہو جاتا ہے اوردوسری طرف ماڈرن میڈیکل سائنس کی غلط صورتیں اور تحقیقات کو نمایاں کر کے دنیائے طب میں اپنا نام و کام بلند کر سکتےہیں۔
جاننا چاہیے کہ اخلاط پہلے ہوں یااعضاء کواول تسلیم کیاجائے کوئی فرق نہیں پڑتا۔یعنی چالیس کلو کا من تسلیم کرلیاجائے یاایک من کے چالیس کلومان لئے جائیں بات توایک ہی ہے لیکن حساب میں سہولت من کوتسلیم کرنے سے ہی ہوسکتی ہے کیونکہ من میں چالیس کلوایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کوقابومیں رکھناآسان ہے۔
ایک اوربات قابل غورہے کہ جن اخلاط سے جواعضاء بنتے ہیں۔اگرانہی اعضاء کے افعال میں تیزی پیداکردی جائے توجسم میں وہی اخلاط کثرت سے بننے لگتے ہیں۔مثلاً اگرجگرکے فعل میں تیزی پیداکردی جائے توجسم میں صفراکی مقداربڑھ جاتی ہے۔یہی صورت دیگر اعضاء کے افعال میں تیزی پیداکرنے سے پیداہوجاتی ہے۔گویااعضاء کاتسلیم کرناایک ایسا نقطہ کمال ہے ایک طرف ہم اپنی مرضی کے اخلاط ومزاج اورکیفیات پیداکرسکتے ہیں اوردوسری طرف ان کے افعال کے اعتدال سے صحت کوقائم رکھ سکتے ہیں اورامراض دورکرسکتے ہیں اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ مفرد اعضاء (Tissues)کوبنیادصحت ومرض تسلیم کرکے سائنسی دنیاسے اپنی برتری تسلیم کراسکتے ہیں کیونکہ وہ اخلاط سے توانکارکرسکتے ہیں مگرمفرداعضاء (Tissues)کی ہستی سے ہرگزانکارنہیں کرسکتے۔جب کہ ہم نے مفرداعضاء کے ساتھ اخلاط ومزاج اورکیفیات کو تطبیق دے دیاہے ۔بس یہی طب نظریہ مفرداعضاء کی حقیقت ہے ۔جس کے ذریعے احیائے فن اور تجدید طب کی صورتیں پیدا کی گئی ہیں۔
یہ امر بھی ذہن نشین کر لیں کہ جو اشیاء ہم کھاتے ہیں وہ تین قسم کی ہوتی ہیں۔1)۔غذا۔2)۔دوا۔3)۔ زہر۔
جب ان میں سے کوئی ایک بھی کھائی جاتی ہے تو ان کا پہلا اثر بالفعل ہوتا ہے یعنی مشینی طور پر کسی عضو کے فعل میں افراط و تفریط یا تحلیل ہوتی ہے۔ اس کے بعد ان کے دوسرے اثرات بالقویٰ ہوتے ہیں۔ یعنی کیمیائی طور پر خون اور جسم میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لئے بھی ہم کو اخلاط کی بجائے اعضاء کو مقدم رکھنا بے حدضروری ہے۔
نظریہ مفرد اعضاء کا اہم مقصد
ماڈرن میڈیکل سائنس اور فرنگی طب جو آجکل تمام دنیا پر رائج ہیں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ طب نہ صرف قدیم ہے بلکہ موجودہ دورمیں زمانے کاساتھ نہیں دے سکتی اوراس قابل نہیں ہے کہ اس کوقائم رکھاجائے۔انہی اثرات کے تحت نظریہ مفرداعضاء کوپیش کیاگیاہے جس کا مقصد یہ ثابت کرناہے کہ طب قدیم اورایورویدک نہ صرف صحیح طریقہ ہائے علاج ہیں بلکہ قانون فطرت کے عین مطابق ہیں اس طرح اس سے نہ صرف احیائے فن اور تجدید طب کی صورت پیداکی گئی ہے بلکہ یہ ثابت کیاگیاہے کہ ماڈرن میڈیکل سائنس بالکل غیرعلمی اور غلط ہے جس کے ساتھ تمام دنیاکو چیلنج کیاگیاہے کہ وہ ثابت کرے کہ ماڈرن سائنس علمی اور صحیح ہے اس چیلنج کے ساتھ 10,000روپے کی پیشکش کی ہے جوبھی اس کوصحیح اور سائنٹیفک ثابت کرے ہم اس کی خدمت میں یہ رقم پیش کردیں گے۔روپیہ بنک میں جمع کرا دیا گیا ہے۔کتاب کوشائع ہوئے ایک سال بیت گیا مگرکسی کوسامنے آنے کی جرأت نہیں ہوئی۔انشاء اللہ تعالیٰ کسی کو مقابلے کی ہمت نہ ہو گی۔کیونکہ نظریہ مفرداعضاء بالکل قانون فطرت کے عین مطابق ہے اور اسی نظریہ پر ہم نے تمام طب کی تدوین کی ہے۔ ۔ہم اس نظریہ کے تحت تیرہ کتابیں لکھ چکے ہیں اور یہ چودھویں پیش کر رہے ہیں جس میں اسی نظریہ مفرداعضاء کے تحت تحقیقات المجربات پیش کر رہے ہیں۔ تحقیقات المجربات ایسی کتاب ہے جو طبی دنیا میں آج تک پیش نہیں کی گئی۔ جس کے تحت ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ ۔1۔حقیقت مجربات۔2۔ترتیب مجربات۔3۔ معیار مجربات کیا ہیں۔ ان سے ہم نہ صرف ان مجربات پرکھ سکتے ہیں جو ہزاروں سالوں سے ہمارے گرد پھیلے ہوئے ہیں۔ بلکہ آئندہ بھی ضرورت کے مطابق صحیح اور معیاری مجربات ترتیب دے سکتے ہیں۔
تحقیقات المجربات
علاج میں مجربات کی ضرورت
شیخ الرئیس بو علی سینالکھتے ہیں ۔ یاد رہے کہ تجربہ شدہ دوا یعنی دوائے مجرب غیر شدہ تجربہ شدہ اور غیرہ آزمودہ شدہ دواسے بہتر ہے اور کسی ایک غرض کے لئے کم از کم ادویہ کا نسخہ کثیر الادویہ سے بہتر ہے۔ (قانون) شیخ الرئیس نے یہاں علاج کے لئے دوا کے استعمال میں دو قانون بیان کئے ہیں۔
1۔ دوائے مجرب
اس قانون میں لازمقرار دے دیا ہے کہ علاج میں صرف دوائے مجرب ہی کا استعمال ہونا چاہیےکیونکہ دوائے مجرب کے بغیر ہم کو یقین ہی نہیں کیا جا سکتا کہ کسی مرض میں فلاں دوا مفید ہےیا غیر مفید یا نقصان رساں ہے۔گویا علاج میں دوا کی اولین شرط یہ ہےکہ مجرب ہوورنہ وہ علاج یقینی اور بے خطانہ ہوگا بلکہ عطایانہ اور غیر علمی ہوگا۔ اس علاج بالمجربات کو ہی سائنٹیفک علاج کہا جاتا ہے۔ یاد رکھیں کہ مجربات کا صحیح استعمال بھی صرف قابل معالج ہی کر سکتا ہے۔
2۔ کم از کم ادویہ
دوسرے قانون میں تاکید کی گئی ہے کہ نسخہ کم از کم ادویہ کا ہونا چاہیے۔ اس قانون سے ان کی مراد یہ ہے کہ بغیر سوچے سمجھےاور ضرورت کے کسی دوا کونسخہ میں شریک نہیں کر لیناچاہیئے۔ کیونکہ ایک دوا دوسری دوا سے ملتی ہے توان کے افعال وا ثرات بدلنے شروع ہو جاتے ہیں ۔ پھر ایک ماہر معالج اور اہل فن بھی مشکل سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ مرکب کے افعال و اثرات اور مزاج کیا پیدا ہو گئے ہیں۔ کیونکہ نسخہ نویسی بھی ایک فن ہے اور ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے۔
دوائے مجرب
سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوائے مجرب کیا ہے؟ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ جس دوا و غذا یا شے کے استعمال سے کوئی مرض یا علامت رفع ہو جائے اور بار بار کا مشاہدہ یہ ثابت کر دے کہ اس دوا سے فلاں مرض یا علامت رفع ہو جاتی ہے لیکن اس میں یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اس دوا وغذا اور شے نے واقعی مرض و علامت کو ختم کر دیا ہے یا وقتی طور پر اس میں سکون پیدا کر دیاہے جیسے منشیات اور مخدرات کے استعمال سے اکثر ہوتا ہے یا اس مرض و علامت کو دبا دیا جاتا ہےجیسے مقئ، مسہلات، مدرات اور پسینہ آور ادویات سے اکثر دیکھا جاتا ہے۔ اگر دواو غذا اور شے کے اثرات صرف اسی حد تک ہیں تو ہم اس کو مجرب دوا نہیں کہہ سکتے ۔یہ تو صرف ایک وقتی سکون یا مرض و علامت کو دبا دینا ہے۔ جیسا کہ فرنگی طب اور علاج مثل میں علامات کو روکا اور رفع کیا جاتا ہے۔ مثلاً فرنگی طب میں اگر کسی مریض کو درد سر بلکہ اکثر قسم کے دردوں میں اسپرین یا اس کےمختلف مرکبات یا مخدرات و منشیات یا ان کے مرکبات جیسے مارفیا وغیرہ کو مجربات کے نام پر استعمال کئے جاتے ہیں یا جسم میں کسی جگہ پر جراثیم کا علم ہو ان کو بعض ان کی قاتل جراثیم ادویات سے فنا کر دینا وغیرہ مرض و علامت کوفوری طور پر ختم کر سکتے ہیں۔مثلاً نزلہ زکام اور ٹی بی و بخار کو فنا کر دیتے ہیں اور ظاہرہ طور پر مرض و علامات رفع بھی ہو جاتے ہیں لیکن کیا یہ ان کا حقیقی علاج ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں!! بلکہ بار بار ایسا علاج کرنے سے بھی اس مرض کا علاج نہیں ہوتا اور چند گھنٹوں یا چند دنوں کے بعد نہ صرف وہی مرض حاضر ہو جاتاہے بلکہ اپنی مکمل علامات اور جراثیم کے ساتھ مریض پر قبضہ کر لیتا ہے ، تو کیا اس دوا کومجرب دوا کا نام دے سکتے ہیں؟
یہی صورت علاج مثل (ہومیوپیتھی) کی بھی ہے کہ جب کسی علامت کی بالمثل دوا استعمال کر دی جاتی ہے اور اس کا انتخاب بالکل صحیح بھی ہو اور وہ علامت رفع بھی ہو جائے تو کیا وہ علامت بالکل رفع ہو گئی ہے اور پھر کبھی پیدا نہیں ہو ئی ؟نہیں! ایسا ہر گز نہیں!! بلکہ بار بار کے مہینوں استعمال کے بعد بھی علامات پھر پیدا ہو جاتی ہیں اور حاد علامات تو کچھ عرصہ کے لئے رفع بھی ہو جاتی ہیں، لیکن مزمن علامات تو رفع بھی نہیں ہوتیں اور مہینوں علاج کے بعد بھی اپنی جگہ پر قائم رہتی ہیں۔ ان حقائق سے ثابت ہوا کہ علامات کا رفع کرنا کوئی علاج نہیں ہےاور جو دوا و غذا اور شے ان کو رفع کریں یا ظاہرہ طور پر ان کو روک دیں یا ان میں کمی پیدا کر دیں ہم ان کو دوائے مجرب کا نام نہیں دے سکتے۔ آج کل معالج اور عوام اسی چکر میں گرفتار ہیں کہ علامات کو فوراً روک دیا جائے اور اسی کا نام علاج رکھتے ہیں۔ یہ بہت بڑی گمراہی ہے اور افسوس ہے کہ حکومت اور حکام بھی اس میں مبتلا ہیں اور اس کو صحیح علاج خیال کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں ٹی بی شوگر اور ہارٹ فیل ہونا وغیرہ کے امراض او ر علامات کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں۔ کیونکہ معمولی معمولی امراض و علامات کے وقتی اور ظاہری علامات سے سکون پیدا کرکے مزمن اور پیچیدہ امراض پیدا کردیتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اول عوام میں اور معالج سہولت پسند ہو گئے ہیں، دوسرے مرض کی ماہیت کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ صحیح مرض کا تصور ہی ان کے ذہن میں نہیں ہوتا۔ اس طرح فن علاج تجارت(Business) بن کر رہ گیا ہے۔
دوائے مجرب اور مرض
دوائے مجرب صرف وہی ہو سکتی ہےجو مرض و اسباب کے ساتھ ساتھ ان کی علامات کو بھی دو ر کردے۔مرض ہمیشہ اس حالت کانام ہے جب جسم کے کسی بنیادی (مفرد) عضو کے فعل میں خرابی پیدا ہوجائے۔ یعنی اس کے فعل میں تین حالتوں میں سے کوئی ایک حالت پائی جائے۔
عضو کے فعل میں تیزی پیدا ہو جائے جس کو افراط فعل کہتے ہیں۔
عضو کے فعل میں سستی پیدا ہوجائے جس کو تفریط فعل کہتے ہیں۔
عضو کے جسم میں ضعف واقع ہوجائے اس کو تحلیل عضو کہتے ہیں۔
چوتھی کوئی صورت نہیں ہو گی۔
اسباب ہمیشہ اس حالت کا نام ہے جب خون میں کیمیائی طورپر کوئی تغیر پیدا ہوجائے۔ اس کی بھی تین صورتیں ہیں۔
1۔ اسباب بادیہ
ایسے اسباب جن کا تعلق کیفیاتی اور نفسیاتی اثرات سے ہوتا ہےیعنی ظاہری طور پر جسم پر اثر کریں۔ کیفیات میں گرمی و سردی اور تری و خشکی داخل ہیں۔ نفسیاتی اثرات میں مسرت و غم، غصہ و ندامت اور لذت و خوف شریک ہیں۔
2۔ اسباب سابقہ
ایسے اسباب جن کا تعلق ماکولات و مشروبات(جو اشیاء کھائی پی جا سکتی ہیں) سابق سے مراد وہ اشیاء جو جسم میں کیمیائی طورپر پہلے سے اثر کر چکی ہیں۔
3۔ اسباب فاعلہ
ایسے اسباب جن کے اثر کے بعد جسم میں مرض کی صورت نمودار ہو۔ یعنی جسم کے کسی عضو میں خرابی پیدا ہوجائے۔
پھر یاد رکھیں مرض ہمیشہ عضو کی خرابی ہی کو کہا جائے گا۔ جہاں تک اسباب فاعلہ کا تعلق ہے یہ کوئی الگ سبب نہیں ہے بلکہ اسباب بادیہ اور اسباب سابقہ میں سے جو بھی اس وقت کسی عضو کے فعل میں خرابی پیدا کر دے وہی سبب فاعلہ بن جاتا ہے۔ جیسے کیفیاتی و نفسیاتی طور پر یا مادی طور پر کسی عضو میں سادہ یا مادے کے ساتھ اس کے جسم میں تغیر پیدا ہو جائے ۔ بہر حال ہم مرض اسی حالت کو ہی کہیں گے جب جسم کے کسی فعل میں خرابی (افراط و تفریط اور تحلیل) واقع ہو جائے۔
علامات وہ نشان و دلائل اور صورتیں ہیں جو ہم کو اس عضو کی طرف راہ نمائی کرتی ہیں جیسے کسی مقام پر درد یا سوزش اور بخار و ضعف وغیرہ محسوس ہوں۔ یاد رکھیں کہ مرض و اسباب کے رفع ہو جانے پر علامات تو ضرور دور ہو جاتی ہیں۔ لیکن کسی علامت کو رفع کر دینے سے اس کا مرض اور سبب دور نہیں ہوتے۔ اس لئے دوائے مجرب وہی ہو سکتی ہے جو مرض واسباب کے لئے علامات کو بھی رفع کر دے۔
دوائے مجرب کی تجویز
علاج میں دوائے مجرب کی تجویز کرنے کے لئے ہمیں اول تمام علامات کو اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ پھر یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ یہ تمام علامات کس عضو کی خرابی سے پیدا ہو رہی ہیں اور اس کی خرابی کے لئے کون سا سبب کام کرتا ہے۔ بس ادویہ مفرد و مرکب میں سے جو بھی ان کے مطابق ہوں گی بس وہی دوا مجرب کہی جا سکتی ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ درد سر میں فوری طور پر اس کو رفع کرنے کے لئے کوئی دوا دے دی جائے یا سوزش سینہ کو دور کرنے کےلئے کوئی دوا یا غذا دے دی جائے۔ پہلی صورت کے علاج کو ہم اصولی (سائنٹیفک) اور دوسری صورت کو ہم غیر اصولی (اَن سائنٹیفک)کہیں گے۔ اس دنیائے طب میں خصوصاً فرنگی طب میں جو معالجات ہو رہے ہیں وہ سب علاماتی علاج ہیں۔ اور طریق علاج بالکل غیر اصولی (اَن سائنٹیفک) ہے۔ ہمارا جہاد چونکہ غیر اصولی (اَن سائنٹیفک) کے خلاف ہے، اس لئے ہمارے سامنے فرنگی طب اور ہومیوپیتھی کے علاماتی علاج ہیں۔ جب تک ان دونوں علاجوں کی باقاعدہ اصلاح اور درستی نہ کی جائے، یہ دونوں طریقہ ہائے علاج نقصان رساں ہیں۔ ان سے دور رہنا بہتر ہے۔
ان کے مقابلے میں ایورویدک اور طب یونانی میں پرکرتی و دوش اور کیفیاتی و اخلاط کو مدنظر رکھ کر اعضاء کے افعال کی خرابیوں کو دیکھا جاتا ہے۔ پھر اعضاء کی انہی خرابیوں کو انہی کے مطابق ادویہ و اغذیہ اور اشیاء استعمال کرکے علاج کیا جاتا ہے جس سے نہ صرف اعضاء کے افعال درست ہو جاتے ہیں بلکہ اسباب اور علامات بھی رفع ہو جاتے ہیں بس ایسے ہی طریقہ ہائے علاج اصولی (سائنٹیفک) کہلانے کے مستحق ہو سکتے ہیں۔
امراض اور مفرد اعضاء
یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ مرض صرف عضو کے فعل میں خرابی اور بگاڑ کا نام ہے۔نہ کسی علامت کا نام مرض ہوتا ہے، جیسے ہومیوپیتھی تسلیم کرتی ہے۔اور نہ ہی کسی سبب کا نام مرض ہو سکتا ہے، چاہے وہ جراثیم ہی کیوں نہ ہوں جیسا کہ فرنگی طب تسلیم کرتی ہے۔اگر صرف علامت یا سبب کو مرض تسلیم کرل یا جائے تو یقینی طور پر کسی مرض کا صحیح علاج نہ صرف مشکل ہےبلکہ ناممکن ہے۔اس لئے شیخ الرئیس بو علی سینا نے مرض کی تعریف کی ہے
” مرض بدن کی اس حالت کا نام ہےجب اعضائے بدن اور مجاری (راستے) اپنے افعال صحیح طور پر انجام نہ دیں۔”
یہ جسم کا کوئی ایک عضو یا تمام جسم کے اعضاء اور مجاری صحیح حالات پر اپنے افعال انجام دے رہے ہوں۔ گویا طب قدیم مرض صرف اسی حالت کو تسلیم کرتی ہے جب کسی عضو یا تمام اعضاء کے افعال بگڑ جائیں یا ان میں خرابی واقع ہوجائے۔ طب قدیم میں صرف کیفیات اور اخلاط کی کمی بیشی کا نام نہیں بلکہ جب تک کیفیات اور اخلاط کی خرابی اور کمی بیشی سے اعضاء کے افعال نہ بگڑیں اس وقت تک اس حالت کو مرض نہیں کہتے۔ اسی لئے امراض کی تقسیم بالاعضاء ہے جیسے سرو چہرے کے امراض، سینہ و پیٹ کے امراض اور دماغ و دل اور جگر کے امراض وغیرہ۔ البتہ ان تمام امراض میں کیفیات و اخلاط کی کمی و بیشی کو ضرور دیکھا جاتا ہے۔
یاد رکھیں کہ طب قدیم میں امراض کی تقسیم بالکیفیات اور بالاخلاط نہیں ہے۔ یعنی گرمی کے امراض و سردی کے امراض، خشکی کے امراض اور اس طرح خون کے امراض، صفراء کے امراض ، بلغم کے امراض، سودا کے امراض وغیرہ وغیرہ۔
اگر تقسیم امراض کیفیات اور اخلاط کے تحت ہوتی تو امراض صرف آٹھ ہوتے یا ان کے درجات شدت کی صورت میں جو چار درجے تسلیم کئے گئے ہیں۔ کُل امراض صرف بتیس(32) ہو سکتے ہیں۔ جسم میں اس قدر امراض جو بالاعضاء پائے جاتے ہیں۔ سب ختم ہو جاتے۔ مگر ایسا نہیں ہے، صحیح تقسیم امراض صرف بالاعضاء ہی ہو سکتی ہے۔
ان حقائق سے ثابت ہوا کہ امراض کی پیدائش صرف اعضاء کا بگڑنا ہے۔ کیونکہ
جسم انسان اعضاء سے مرکب ہے۔
اعضاء اخلاط سے بنتے ہیں۔
اعضاء اخلاط کی ارتقائی صورت ہیں۔
اخلاط غذا سے بنتے ہیں۔
اس لئے اعضاء کے افعال کے بگاڑ اور خرابی کو مرض کہا جا سکتا ہے اور یہی طب قدیم تسلیم کرتی ہے۔
کیفیات و اخلاط اور اعضاء
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کیفیات اپنے مادہ کے ساتھ اخلاط کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور اخلاط پختہ ہو کر اعضاء کی شکل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ گویا اعضاء دراصل خام حالت میں اخلاط ہیں اور اخلاط کی خام صورت کیفیات اور مادہ ہیں۔ مقصد یہ ہوا کہ اعضاء و اخلاط اور مادہ و کیفیات لازم و ملزوم ہیں۔ دوسرے معنوں میں یوں سمجھ لیں کہ اعضاءاپنی پختہ شکل میں اخلاط اور کیفیات کا مجموعہ ہیں اور یہ سلسلہ جسم میں غذا کھانے کے بعد مسلسل قائم ہے۔اور ہر وقت اعضائے جسم کے اخلاط اور کیفیات سے متعلق و متاثر اور ترتیب و تشکیل پا رہے ہیں۔یہ تجربہ و مشاہدہ ہے کہ اخلاط میں ہر خلط و کیفیت زیادہ ہوگی۔ اسی عضو میں تیزی پیدا ہو جائے گی۔ اس کے برعکس جس عضو میں تیزی ہوگی اسی کے متعلق خلط جسم میں زیادہ ہوگی۔ ان حقائق سے ثابت ہو گیا کہ واقعی اعضاء اور اخلاط و کیفیات سے لازم و ملزوم ہیں اور ہم اگر اخلاط کی پیدائش میں اضافہ کر دیں تو اعضاء میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے اوراگر اعضاء کے افعال میں تیزی پیدا کر دیں تو اخلاط کی پیدائش میں زیادتی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی ان کا لازم و ملزوم ہونا ہی تجدید طب کی بنیاد ہے۔
اخلاط اور مفرد اعضاء
اخلاط سے جو اعضاء پہلے پہلے بنتے ہیں وہ مفرد ہوتے ہیں اور پھر مرکب صورت اختیار کر تے ہیں۔مفرد اعضاء میں ہڈی، رباط، اوتار، گوشت، اور پٹھے شمار ہوتے ہیں۔میڈیکل سائنس نے مفرد اعضاء کو تسلیم کیا ہے۔ ان کو وہ ٹشوز(Tissues)کا نام دیتے ہیں۔ان ٹشوز کو ہم انسجہ کانام دیتے ہیں،خلیات(Cells) سے مرکب ہیں۔ ماڈرن میڈیکل سائنس نے یہ ٹشوز (انسجہ) چار اقسام کے بیان کئے ہیں۔
نسیج الحاقی(Connective Tissues): جن سے ہڈیاں و رباط اور اوتار جسم کا بنیادی ڈھانچہ بنتا ہے۔
نسیج عضلی(Muscular Tissues): جن سے جسم کا گوشت بنتا ہے۔
نسیج عصبی(Nervous Tissues): جس سے جسم کے اعصاب بنتے ہیں۔
نسیج غدی(Epitheilial Tissues): جس سے جسم کے غددو غشائے مخاطی بنتے ہیں۔
اگر طب قدیم اور ماڈرن سائنس کے مفرد اعضاء کو دیکھا جائےتو ان میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ صرف اعضاء و اخلاط کی ایک درمیانی کڑی انسجہ (ٹشوز) کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ بغیر خوردبین کے ممکن نہیں تھا۔ قدیم زمانے میں خوردبین نہیں تھی ورنہ یہ کڑی بھی احسن طریق پر بیان کر دی جاتی۔ طب قدیم کا کمال ہے کہ ہزاروں سال قبل وہ سب کچھ بیا ن کر دیا ہے جو سائنس اب بیان کر رہی ہے اور سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے ثابت کیا ہے کہ مختلف اخلاط سے اعضاء بنتے ہیں۔
کیفیات اور مفرد اعضاء
کیفیات جو مفرد اعضاء کی طرح چار ہیں اور ہماری زبان میں گرم و سرد اور ترو خشک کے نام سے مشہور ہیں کبھی مفرد شکل میں نہیں پائے جاتے، ہمیشہ مرکب صورتوں میں کار فرما ہیں۔ یعنی گرم تر، گرم خشک اور سرد تر اور سرد خشک ۔ ان کی ان مرکب صورتوں ہی میں اخلاط کی صورتیں بنتی ہیں اور یہی ان کے مزاج کہلاتے ہیں۔ یعنی خون میں گرم تر کیفیات پائی جاتی ہیں، یہی اس کامزاج ہے۔ اسی طرح بلغم کا مزاج سرد تر، صفرا کا مزاج گرم خشک اور سودا کا مزاج سرد خشک تسلیم کیا گیا ہے۔
جب ہم یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ اخلاط اور مفرد اعضاء ایک مادہ کی دوصورتیں ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ اعضاء میں اخلاط کے مقابے میں پختگی اور جماؤ پایا جاتا ہے۔اس لئے جہاں تک کیفیات کا تعلق ہےوہ دونوں میں ایک ہی پائے جاتے ہیں۔ جن کی تفصیل یہ ہے۔
الحاقی نسیج(Connective Tissues): ان سے ہڈی، رباط اور اوتار جسم کا ڈھانچہ بنتا ہے۔یہ خلط سودا کی پیداوار ہیں۔ اس کی کیفیت و مزاج سرد خشک ہے۔
عضلی نسیج(Muscular Tissues): اس سے گوشت بنتا ہے، یہ خلط خون کی پیداوار ہے۔ اس کی کیفیت و مزاج گرم تر ہے۔
غدی نسیج(Epithal Tissues): ان سے جسم کے غدد اور غشائے مخاطی بنتے ہیں۔ یہ خلط صفرا کی پیداوار ہیں۔ اس کی کیفیات و مزاج گرم خشک ہے۔
عصبی نسیج(Nerve Tissues): ان سے تمام جسم کے اعصاب بنتے ہیں۔ یہ خلط بلغم کی پیداوار ہے۔ اس کی کیفیات و مزاج سرد ترہے۔
اس تطبیق سے مفرد اعضاء کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
ان حقائق سے ثابت ہو گیا کہ کیفیات جس طرح اخلاط میں اثر کرتے ہیں، بالکل اسی طرح مفرد اعضاء میں بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ گویا ہر مفرد عضو میں بھی دو دو کیفیات ہی پائی جاتی ہیں اور ہر وقت دو (2) ہی کام کرتی ہیں۔
ایک راز کی بات
ہر خلط اور ہر مفرد عضو میں دو کیفیات پائی جاتی ہیں اور اثر انداز ہوتی ہیں، لیکن ان میں سے ایک کیفیت کسی دوسری خلط اور کسی دوسرے عضو میں بھی پائی جاتی ہے۔ مثلاً گرم کیفیت ایک طرف خون اور قلب میں پائی جاتی ہے تو دوسری طرف صفرا اور جگر میں پائی جاتی ہے۔اسی طرح سرد کیفیت ایک طرف بلغم اور دماغ میں پائی جاتی ہے۔تو دوسری طرف سودا اور طحال میں پائی جاتی ہے۔یہی صورتیں تر اور خشک کیفیات میں بھی پائی جاتی ہیں۔ ان میں راز کی بات یہ ہے کہ جب ہم کسی ایک خلط یا عضو کو تحریک دیتے ہیں تو اس کی یہ دونوں کیفیات دوسری خلط یا عضو کو تحریک دیتے ہیں تو اس کی یہ دونوں کیفیات دوسری عضو یا خلط میں بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس طرح ان کا آپس میں تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور نتیجہ کے طور وہ خلط اسی طرف منتقل ہونا شروع ہو جاتی ہے مثلاً بلغم اور اعصاب میں تری پائی جاتی ہے۔ اسی طرح خون اور قلب میں بھی تری پائی جاتی ہے۔ جب جسم میں تری بڑھتی ہے تو بلغم اعصاب اور خون و قلب دونوں طرف طرف تری بڑھتی ہے۔نتیجہ کے طورپر تری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور وہ خون اور قلب کی گرمی کو بھی کم کر دیتی ہے۔کیونکہ ہمیشہ تری ہی سے گرمی کم ہوتی ہے۔ اسی طرح جب جسم میں گرمی بڑھتی ہے توایک طرف خون و قلب میں گرمی بڑھتی ہے تو دوسری طرف صفرااور جگر میں گرمی بڑھتی ہے۔ نتیجہ کے طور پر گرمی زیادہ ہوجاتی ہے جو صفرا کی خشکی کو کم کرتی ہے۔کیونکہ گرمی ہی خشکی کو توڑتی ہے۔ اسی جب جسم میں خشکی پیدا ہوتی ہے تو ایک طرف صفرا و جگر میں خشکی بڑھتی ہےتو دوسری طرف سودا و طحال میں خشکی بڑھ جاتی ہے۔ نتیجہ کے طورپر خشکی زیادہ بڑھ جاتی ہے جو بلغم کی تری کو ککم کر دیتی ہے۔ اسی طرح جب جسم میں سردی بڑھ جاتی ہے تو ایک طرف بلغم و اعصاب میں سردی بڑھ جاتی ہے تو دوسری طرف سودا و طحال میں سردی بڑھ جاتی ہے۔ نتیجہ کے طور پر سردی زیادہ ہوجاتی ہے جو بلغم کی تری کو خشک کر دیتی ہے۔گویا اس طرح کیفیات کا ایک چکر اخلاط اور اعضاء میں چلتا رہتا ہے۔ دوائے مجرب وہی ہو سکتی ہے جو کیفیات کے اثرات کے تحت استعمال کی جائے۔ جن کا صحیح اور سیدھا اثر اخلاط اور اعضاء پر پڑتا ہے۔ بس دوائے مجرب کا یہی ایک راز ہے۔
مفرد اعضاء اور دورانِ خون
مفرد اعضاء دو قسم کے ہیں۔
بنیادی اعضاء : جن میں نسیج الحاقی(Connective Tissues) جن میں ہڈی، کری اور رباط و اوتار شامل ہیں۔ یہ سب جسم کا ڈھانچہ بناتے ہیں۔
حیاتی اعضاء (Life Organs): ان میں تین قسم کے انسجہ شامل ہیں۔1۔ عضلی نسیج ، 2۔ غدی نسیج ، 3۔ عصبی نسیج۔
ان سے تمام جسم کا گوشت (جن کا مرکز دل ، دماغ اور جگر) وہ اعضاء ہیں جن کو ہم اعضائے رئیسہ کہتے ہیں۔یاد رکھیں کہ زندگی تو نسیج الحاقی میں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ یہ بھی خلیات (حیوانی ذرات) سے بنتے ہیں جو زندہ اور حیات ہوتے ہیں۔مگر اول تو یہ اولیٰ قسم کے خلیات اور انسجہ کہلاتے ہیں ، جیسے طب یونانی میں سودا کا مقام ہے۔ دوسرے ان سے جو اعضاء بنتے ہیں ان میں حرکت حیات نہیں ہے۔اور نہ ہی اعضائے رئیسہ میں ان کا دخل ہے اور ان کا تعلق زیادہ تر جسم کے بنیادی اعضاء تک ہے۔ اس لئے اس کا نام بنیادی اعضاء رکھا گیا ہے اور باقی تینوں مفرد اعضاء کو حیاتی اعضاء کا نام دیا گیا ہے کیونکہ ان ہی کی مدد سے غذا خون بنتی ہے اور جسم میں گردش کرکے جسم کا جزو بنتی رہتی ہے۔
خون معدہ میں تیار ہو یا جگر میں، وہ اول قلب میں جاتا ہے پھر وہاں سے پھیپھڑوں کے ذریعے صاف ہو کر اپنے اندر نسیم(Oxygen) لیتے ہوئے شریانوں کے راستے جسم کی غذا کے لئے روانہ ہوتا ہے۔ پھر شریانوں کے سروں پر جو غدو لگے ہوتے ہیں ان سے جسم پر خون کی رطوبت لطیفہ چھڑک دیتاہے جو عضلات اور اعصاب کی غذا بنتی ہیں۔ پھر جو غذا فاضل بچ جاتی ہےوہ غدد جاذبہ جو طحال کے تحت کام کرتے ہیں ، کے ذریعے پھر قلب میں صاف ہونے کے لئے چلی جاتی ہے۔یہی سلسلہ زندگی بھر قائم رہتا ہے۔ اس دوران خون میں جس مقام اور عضو میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، اسی جگہ پر مرض پیدا ہو جاتا ہے۔ بس اس رکاوٹ اور مرض کو دور کرنا ہی علاج ہے۔