تحقیقات اعادہ شباب

تحقیقات اعادہ شباب

پیش لفظ

الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین الصلوۃ والسلام علی رحمۃ العالمین۔ اما بعد
جب سے دنیا عالمِ وجود میں آئی ہے اس وقت سے نشووارتقاء اور تحقیق و تجدید کاسلسلہ قائم ہے۔نشووارتواء تو قدرت کی طرف سے مکمل ہورہا ہےاور تحقیق و تجدید اشرف المخلوقات کے ذمہ کیاگیاہے کہ وہ قدرت کے اسرارورموز کو اس دنیا پر آشکار کردے اور یہ دونوں عمل قانونِ فطرت کےمطابق عمل میں آرہے ہیں۔ یعنی ان عوامل کےلئے قدرت کا مقرر کردہ قانون یا راستہ ہےجن کےلئے دن کا لفظ حقیقت کے عین مطابق ہے۔قدرت کے نشووارتقاء اور تحقیق و تجدید کے ادوار اور مراحل اور اشیاء وافعال کا شمارکیاجائے تو پیدائشِ کائنات سے لے کر زندگی تک اور زندگی سے انسان تک ہے اورپھرانسانی تحقیق و تجدید سے لے کر آج کل لاکھوں منزلیں طے ہوئی ہیں۔ لیکن نشووارتقاء اور تحقیق وتجدید کاہر عمل اور ہرقدم اپنے اندرکوئی نہ کوئی قانون اور اصول رکھتا ہے پھریہی قوانین اوراصول اپنے اندرکئی کئی نظریات رکھتے ہیں۔ جن سے انہی قوانین اور اصولوںمیں ارتقاء اور تکمیل پائی جاتی ہے۔ اور جن اہلِ علم اور صاحبِ فن کی نگاہِ تحقیق وتجدید کی طرف ہوتی ہے وہ انہی قوانین و اصولوں کو سمجھ کر خاموش بیٹھ جاتے ہیں بلکہ ان پرمزید ٖغوروفکر کرتے ہیں تاکہ اس منزل کی طرف قدم بڑھا ئیں جو منزل ان کے دل و دماغ کی وسعتوں میں پیداہوچکی ہوتی ہیں۔

اہلِ علم و صاحبِ فن اور حکماء اوراطباء ذہنی وسعتوں اور منزلوں میں ایک فکرقیامِ شباب واعادہِ شباب اور طویل عمری کا بھی ہے کیونکہ انسان ہوش سنبھالنےکے بعد جب اس دنیا کی زندگی میں عیش ونشاط اور لطف و لذت سے مسرور ہوا ہے اس کوزندگی اور شباب بہت قیمتی ہے اب وہ چاہتا ہے کہ نہ صرف ہمیشہ کےلئے زندہ رہے بلکہ حسن و شباب کی رنگینوں سے سرخرو اور بھرپور بنا رہے۔ اس مقصد کےلئے اس نے اچھی صحت کے قوانین بنائے ، امراض کے علامات تلاش کئے۔ قیامِ شباب کےلئے اصول واضح کئے اور طویل عمری کےلئے قوانین کی تلاش کی ہے لیکن انسان کو اپنے مقصد میں پوری کامیابی نہیں ہوئی ہے مگر انسان اپنی اس کوشش سے دستکش نہیں ہوا. کیونکہ اس کی کامیابیاں بھی اپنے اندر بے شمار کامیابیاں رکھتی ہیں۔ صحت کے قوانین و علاج اِصول اور زندگی کے مداوے ایسے امور ہیں جن سے نہ صرف انسانی کی زندگی بے حد کامیاب ہے بلکہ بے مطمئن ہے یہی اس کی بہت بڑٖی کامیابی ہے۔ اس لئے اس مقصد کےلئے اس کا قدم آگے کی طرف بڑھتا جارہاہے۔ اس میدان میں جو بھی لوگ تھک کر بیٹھ جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا ہے۔

ہم نے دنیا سرائے فانی دیکھی ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا جوجاکے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
قیام و شباب و اعادہِ شباب اور طویل عمری کےلئے سب سے قدیم سرمایہ اور مفید معلومات ایورویدک میں پائی جاتی ہیں۔جس میں لکھا ہے کہ کایا کلپ ایک یقینی عمل ہے جس کے ذریعے انسان ہزاروں سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن اس عمل کے لئے خاص خاص ادویات کے ساتھ ساتھ فاضل اور قابلِ دید اور ایک مناسب ماحول کی ضرورت ہے، اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ ادویات میں ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں اور ان کا استعمال بھی بغیر فاضل اور قابلِ دید اور مناسب ماحول کے سوا ممکن نہیں ہے ۔ لیکن ایورویک میں بڑھاپے اور ضعف پر تسلی بخش روشنی ڈالی گئی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دوشوں کی خرابی اور فساد صحت اور قوت کے نقصان کا باعث ہیں۔ جن کے بعد بڑھاپاآتا ہے، مگر جسم میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ جن کو دورکرنے کی کوشش کی جاسکے، جہاں تک ادویات کا تعلق ہے ، ان کا تعلق کسی عضو یا کسی قسم کی خرابی سے ہے اور ادویات سے کسی قسم کی کمی و خرابی دور ہوسکتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایورویک میں کایاکلپ ایک مشکل ترین معمہ بن کر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل کے ویدوں میں کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا جوکسی اور کا نہ سہی اپنا ہی کایاکلپ کرے اور نہ ہی ایسا ویدپایاجاتا ہے جس نے ہزاروں سال پہلے اپنا کایاکلپ کیاہو اور ہم میں ایورویک کے اس کایا کلپ کو ثبوت پیش کرسکے۔ جہاں تک طبِ یونانی کا تعلق ہے وہ اصولی طورپر اعادہِ شباب کی قائل نہیں ہے۔ البتہ اس کے قوانین اور اصولوں کے تحت قیامِ شباب اور طبعی عمرتو ممکن ہے دائمی زندگی اور شباب ممکن نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کا نظریہ ہے کہ انسان کی پیدائش عورت اور مرد کے مشترکہ نطفے سے ہوتی ہے جس کی رطوبت اورحرارت سے اس کی زندگی قائم رہتی ہے ان کو رطوبتِ غریزی اور حرارتِ غریزی کہتے ہیں۔زندگی بھریہ دونوں چیزیں قائم رہتی ہیں اور جب یہ دونوں چیزیں ختم ہونے لگتی ہیں تو بڑھاپاآنا شروع ہوجاتا ہے اور ان کے ختم ہونے پر موت واقع ہوجاتی ہے۔ ان کی مثال ایک چراغ سے دی جاتی ہے جس کا تیل رطوبتِ غریزی اور بتی حرارتِ غریزی ہے ۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ تیل و بتی دونوں ختم ہوجاتے ہیں۔ انسانی جسم میں جب رطوبتِ غریزی اور حرارتِ غریزی ختم ہوجاتی ہیں، چونکہ یہ دونوں پھر پیدانہیں ہوسکتیں اس لئے نہ ہی شباب لوٹایاجاسکتا ہے اور نہ ہی عمر میں طوالت کی جاسکتی ہے۔اس لئے طبِ یونانی اعادہِ شباب اور دائمی زندگی کی قائل نہیں ہے۔

فرنگی طب اور ماڈرن سائنس قیامِ شباب و اعادہِ شباب اور طویل عمری کی قائل ہے، وہ انسانی زندگی کی پیدائش کو نطفہ سے تو ضرور تسلیم کرتی ہے مگر رطوبتِ غریزی اور حرارتِ غریزی کے متعلق بھی یہ تسلیم کرتی ہے کہ ان کی پیدائش زندگی بھر جاری رہتی ہے ان کا بننا کبھی بند نہیں ہوتا۔ یہ دونوں چیزیں اعضائے جسم ہمیشہ تیارکرتےرہتے ہیں جن میں غددکوبے حد اہمیت ہے اس لئے اگر غدد صحیح طورپر اپنے افعال جاری رکھیں تو قیامِ شباب اور طویل عمری ممکن ہے لیکن ان کے نظریےکے تحت ایک صورت ایسی ہے کہ جس سےغدد کے افعال بگڑجاتے ہیں، وہ ہے نظریہ جراثیم۔ یعنی اپنے گردونواح میں ایک غیر مرئی مخلوق ایسی ہے جوجسمِ انسان میں اندروباہر سے ہمیشہ حملہ کرتی رہتی ہے جس سے خطرناک اور خوفناک امراض پیداہوتے رہتے ہیں۔ جن سے انسانی صحت کا توازن بگڑجاتا ہےاور غدد اپنی صحیح حالت میں نہیں رہ سکتے اور رطوبتِ غریزی اور حرارتِ غریزی کی پیدائش نہ صرف کم ہوجاتی ہے بلکہ خراب ہوجاتی ہےاس وجہ سے صحت اور طاقت دونوں قائم نہیں رہ سکتیں پھر بڑھاپا اور موت واقع ہوجاتی ہے۔ غدد کی حالت کو ازسرِ نو درست کرنے کےلئے فرنگی ڈاکٹروں نے غدد کی پیونداور قلم لگانے کے بھی کوشش کی ہے۔ جس سے ابتدا میں اچھی خاصی کامیابی ہوئی ہے۔ لیکن بہت جلد ا س کے نتائج بگڑ گئےہیں بلکہ بعض حالتوں میں نقصان بہت زیادہ ہوگیا ہے اس لئے یہ صورت بھی کامیاب نہیں ہوئی بعض فرنگی سائنسدانوں نے خون کے اجزاء کو مدنظر رکھ کر ایسے مرکبات تیار کئے ہیں جن سے اعضاء اور خصوصاًغدد اور ذراتِ خون کوطاقت دی جاسکے اس طرح بھی اچھے اثرات پیداہوئے ہیں۔ مگر حقیقی کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے۔

لیکن فرنگی طب اور ماڈرن سائنس کی یہ غلط فہمی ہے کہ صرف غدودو ذراتِ خون اور خون کے دیگر عناصر قیامِ صھت اور قوت کے لئے کافی ہیں۔ ان کا تعلق صرف جگر کے ساتھ ہے۔ ان کے علاوہ اعصاب و عضلات بھی جسم میں اپنے مخصوص افعال انجام دیتے ہیں جن کے مرکز دماغ اور دل ہیں۔ دوسرے جسمِ انسان میں رطوبت کون سے اعضاء بناتے ہیں اور کون سے اعضاء ان کو حرارت میں تبدیل کرتے ہیں۔ تیسرےجراثیم امراض پیداکرنے کے اسبابِ واصلہ ہیں یا اعضاء ِ جسم کی خرابی امراض پیداکرنے کے اسباب واصلہ ہوسکتے ہیں۔نیزاس وقت تک فرنگی طب اور ماڈرن سائنس صحیح معنوں میں اس علم سے واقف نہیں ہے کہ مفرداعضاءا اور امراض کاکیا تعلق ہے؟ اس لئے وہ جسمِ انسان میں رطوبت و حرارت اور امراض اور جراثیم کے تعلق کا علم نہیں رکھتے۔ ان کے اس علم سے ناواقفیت کی وجہ سے ہم ان کوباربار چیلنج دیتے ہیں کہ ان کانظریہ امراض اور اصولِ علاج غلط ہیں۔ ایورویدک وطبِ یونانی اور فرنگی طب و ماڈرن سائنس کی تحقیقات کو سامنے رکھنے کے بعد جن کا تفصیلی ذکر ہم نے اس کتاب میں کردیا ہے۔ ہم نے انسانی جسم کی مشین کاگہرا مطالعہ کیا ، ہر عضو کے افعال پر نہ صرف گہری نظرڈالی بلکہ ان کے نتائج کے اثرات کرپرکھا اور سب سے بڑی تحقیق یہ ہے کہ ان کے تعلقات کوخوب اچھی طرح سمجھا ہے اور جہاں پرفرنگی طب اور سائنس کی تحقیقات اور ترقیات ختم ہوگئیں یا انہوں نے اپنا راستا غلط اختیارکرلیاوہاں پر ہم نے آگے بڑھنے اور غلط راستے سے دور ہٹنے کی کوشش کی۔ خداوندِ حکیم کاہزار ہزار شکر ہے کہ اس علیم و حکیم نے ہمیں کہیں مایوس نہیں کیا۔ جہاں پربھی ہماری تحقیقات رکیں ہم نے نہایت صبر واستقامت سے کام لیا اور ہماری منزلیں قریب ہوگئیں اور ہم کو غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی۔

اس امر کے اعتراف میں ہمیں ذرا بھر انکار نہٰیں ہے کہ اس تحقیق میں ہمیں قرآنِ حکیم کی روشنی نے ہماری راہنمائی اور راہبری کی ہے۔ یہ ہمارا یقین ہے کہ قرآنِ حکیم تمام علوم کانہ صرف منبع اور سرچشمہ ہے بلکہ ایک ناختم ہونے والا خزانہ بھی ہے۔ صرف دیکھنے والی نگاہ چاہیے جو اس پر غوروفکر کرسکے۔ حقیقت یہ کہ قرآنِ حکیم جس انداز سے زندگی و کائنات اور نفس وآفاق پر روشنی ڈالتا ہے اس کا ذرا بھربھی دیگر کتب میں نظر نہیں آتا، خاص طورپررطوبت و حرارت اور ارواح و ہواؤں کی پیدائش ، ان کا جلنا اور ایک دوسرے میں بدلنا، اور ان کے افعال و اثرات اور خواص اس تفصیل سے درج ہیں کہ انسان دیکھ کردنگ رہ جاتا ہے۔ ان کی تفصیلات انشاء اللہ تعالیٰ طبی اور سائنسی تحقیقات ختم کرنے کے بعد بیان کردی جایں گی۔ کیونکہ قرآن حکیم میں جو طبی و سائنسی حقائق بیا ن کئے گئے ہیں ان سے دنیاکاآگاہ ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ جو کچھ ہم نے اس کتاب میں زندگی اور روح اور رطوبت و حرارت کی پیدائش کا ذکر کیا ہے وہ الحمد و للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین کی تشریح کا صرف ایک پہلو ہے ورنہ ایہ حقائق سات سمندروں کی سیاہی اور دنیا بھر کے درختوں کی قلم سے بھی بیان نہیں ہوسکتے۔ ہم عاجز بندے ہیں ، ہم کو جو علم دیاگیاہے وہ تمام جہانوں کے مقابلے میں ایک رتی کے برابر بھی نہیں ہے۔ البتہ جولوگ ہدایت چاہتے ہیں ان کو حضور انورو اطہر ﷺ کی تعلیم او ر زندگی کے طفیل ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔

اس امر پر حکیم و وید و اطباء اور فرنگی معالج متفق ہیں کہ جب تک جنسی قوت میں شدت رہتی ہے حسن و شباب قائم رہتا ہے اور جب جب اس قوت میں کمی آنا شروع ہوتی ہے تو حسن و شباب بھی ختم ہونا شروع ہوجاتا ہے ، جنسی قوت میں کمزوری یا خرابی میں تین اہم حقائق بیان کئے جاتے ہیں ۔ اول: حفظانِ صحت میں بے قاعدگی جس میں غذا کو بے حد اہمیت ہے، دوسرے اعضاء ِ جسم کے افعال میں کمی بیشی اور خرابی خاص طورپرجگر کی خرابی تیسرے نفسیاتی طورپر جنسی جذبہ میں خرابی پیداہوجائے خاص طورپر خوف اور غم کی فراوانی۔ اگر کم از کم جنسی قوت کو ایک معیار و شباب مقرر کرتے ہوئے ان تینوں حقائق کی ایک اچھے طریق پر نگہداشت رکھی جائے تو یقیناً امر ہے، شباب اور صحت بہتر طریق پرقائم رہتے ہیں۔

ہم نے اس جنسی قوت کو تین حصوں میں تقسیم کردیاہے۔ 1۔ رطوبت(Energy)۔ 2۔حرارت(Heat) ۔ 3۔جوش(Force)۔ اور پھر ان تین قوتوں کو اعضائے رئیسہ کے تحت ترتیب دے دیا ہے یعنی رطوبت کی زیادتی دماغ واعصاب کی تیزی سے ہوتی ہے۔ حرارت کی زیادتی جگر و غدد میں تیزی سے اورجوش کی زیادتی دل و عضلات میں تیزی سے ہوتی ہے۔ جب کسی شخص میں جنسی قوت میں کمزوری واقع ہوتی ہےتو یہ کبھی نہیں ہوتا کہ تینوں قوتوں میں بیک وقت کمزوری اور خرابی ہوگی یا حرارت و جوش میں افراط و تفریط اور نقص پیداہوجائے گا۔ اس لئے جس قوت میں کمی اور خرابی واقع ہوگی صرف اسی کو درست کرناچاہیے۔ اسی طرح جنسی قوت بالکل درست ہوجائے گی۔ اس لئے ہمیں بیک وقت تینوں اعضائے رئیسہ کو طاقت دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف اسی ایک عضوکوطاقت دینا ہی کافی ہے جس کے ساتھ اس قوت کا تعلق ہے۔ اسی طرح ہم نے حرارتِ غریزی اور رطوبتِ غریزی اور روح کے متعلق حکماء سے اختلاف کیا ہے اوراس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ یہ تینوں حسبِ ضرورت پیداکی جاسکتی ہیں اور ان تینوں کا تعلق بھی اعضائے رئیسہ سے مقررکردیاتاکہ ان تینوں میں سے جس کوپیداکرنا مقصود ہوتو اس کےمتعلقہ عضو میں تحریک دینے سے پیداکی جاسکتی ہے۔ جس کسی اہلِ علم اور صاحبِ فن کوہماری اس تحقیق سے اختلاف ہو ہم اس کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ خیالات اور حقائق کوبیان کریں ہم خوشی سےان کو اپنے رسالہ میں شائع کریں گے اور ان کا تسلی بخش جواب بھی دیں گے۔ ہم نے اس کتاب کو اپنی تحقیقات سے پورے طورپر مکمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر افسوس وقت کی قلت اور دامن کی تنگی نہ ہوتی تو یقیناً یہ کتاب اس سے چار گنا زیادہ ہوتی۔ زندگی بخیر انشاء اللہ تعالیٰ اس کے دوسرے ایڈیشن میں ہم اس کو اور زیادہ تفصیل سے لکھیں گے۔ جس سے بہت سے اسرار و رموزکی گرہ کشائی ہوگی۔

جو لوگ فن و تحقیق اور تجد ید کی اہمیت سے واقف ہیں وہ اس کتاب کی اہمیت کو پورے طورپر سمجھ سکتے ہیں۔کیونکہ ہر تحقیق کے لئے لازم ہے کہ اس کے ثبوت میں مشاہدات و تجربات اور دلائل اور حقائق پیش کئے جائیں۔ اور یہی امور تحقیق کی جان ہوتے ہیں۔ چونکہ ان امور میں زیادہ تر اصطلاحات برتی جاتی ہیں ۔ اس لئے عوام جواہلِ علم اور صاحبِ فن نہیں ہیں وہ تحقیق و تجدید کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ البتہ ان کے لئے سب سے بڑی اہمیت انہی معلومات میں پائی جاتی ہے جو دنیا میں پہلی بار پیش کی جارہی ہے۔ اس لئے ہمیں امید ہے کہ ہماری اس کتاب سے اہلِ علم اور صاحبِ فن اور محقق وحکماء کے ساتھ عوام بھی مستفیدہوں گے۔ البتہ یہ کوشش کی گئی ہے کہ عوام زیادہ سے زیادہ اس سے استفادہ حاصل کرلیں۔ اس لئے وہ اگر دو تین بار اس کتاب کو غوروفکر سے پڑھیں تو یقیناً وہ بھی اس سے پورے طورپر مستفید ہوسکتے ہیں۔ایک بات کی طرف ہم خاص طورپر دلانا چاہتے ہیں کہ اپنی ہر تحقیق میں قدیم وجدید اور یورپ و امریکہ کی تمام سائنسی و طبی تحقیقات کو اپنے سامنے رکھتے ہیں اور اپنی تحقیقات میں اس امر کومدنظر رکھتے ہیں اور قدیم و جدید خصوصاً فرنگی سائنسی طبی تحقیقات کو پہلے من و عن بیان کردیتے ہیں پھر آخر میں اپنی تحقیقات کو سائنسی تجربات ومشاہدات اور علمی وفنی دلائل و حقائق کے ساتھ بیان کرتے ہیں تاکہ کسی علمی وفنی ہستی اور محقق کوانگلی رکھنے کا موقعہ نہ مل سکے۔ پھر بھی اگر کسی کوزیادہ وضاحت کی ضرورت ہوتووہ ہمیں مل کراپنی تسلی و تشفی کرسکتے ہیں۔

خداوندِحکیم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ انہوں نے ہم سے ایک اہم خدمت لی ہے اور ہم اس قابل ہوسکے ہیں کہ تھوڑے عرصے میں ایک بہت بڑا حصہ علمی و فنی خدمت کا پیش کرسکے ہیں۔ خاص طورپر اس سا ل میں ہم یکے بعد دیگرےتین خاص نمبر پیش کرچکے ہیں جوبہت بڑا علمی و فنی خزانہ ہے۔ ہمارا سال اکتوبر سے ہوتا ہے۔ ان ابتدائی چارماہ میں ہی تین خاص پیش کرنے کے قابل ہوگئے اور انشاء اللہ تعالیٰ ایک زبردست چیلنج ہوگا۔ جس کا مقابلہ موجودہ طبی اور سائنسی دور میں ناممکن ہے خریداروں کےلئے ہم نے خاص قیمت مقررکی ہے اور آئندہ اس امر کو ہمیشہ مدِنظررکھیں گے۔ ہم یہ سب کچھ اس لئے پیش کرنے کے قابل ہوسکے ہیں کہ خداوندِ حکیم کی مہربانی سے ہمارے رسائل و کتب اور تحقیقات کو بے حد مقبولیت حاصل ہورہی ہے اور رسالہ رجسٹریشن فرنٹ اپنے پاؤں پرکھڑا ہوگیاہے۔ جوں جوں اس کی اشاعت بڑھتی جائے گی ہم انشاء اللہ تعالیٰ زیادہ سے زیادہ علمی فنی خزانہ یورپ وامریکہ کے مقابل لٹریچر پیش کرتے رہیں گے۔ جو واقعی طبی و سائنسی دنیا میں انقلاب ہوگا۔

از: حکیم و سائنسدان دوست محمد صابر ملتانؔی۔ مورخہ 4 جنوری 1961ء

ہماری تحقیقات قیام ِ شباب و اعادہ شباب اور طویل عمری
ہماری تحقیقات کو سمجھنے کے لئے ذیل کےمسائل کو ذہن میں رکھیں۔

1۔ قوت کا تعلق اعضاء کے ساتھ ہے۔ ان میں سےخود بخود قوت پیداہوتی رہتی ہے جیسے ہر شےاپنے اندر اثرات و افعال رکھتی ہے۔ جب تک اعضا ءدرست ہیں ان میں سے قوت کا پیداہونا ضروری ہے۔

2۔ اعضاء میں اس وقت تک موت واقع نہیں ہوتی جب تک حادثات سے وہ تباہ نہ ہوجائیں یا ان کو غذا میسر نہ آئے کیونکہ خلیات کی زندگی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ان کو پیدائش کے بعد اس وقت تک فنا نہیں ہے جب تک ان کوکوئی حادثہ پیش نہ آئے یا غذا نہ رک جائےاور اس کے علاوہ خلیات مزید اپنے قائم مقام خلیے پیداکرتے رہتے ہیں۔

3۔ زندگی کا دارومدار رطوبت ِ غریزی اور حرارت ِ غریزی ہے۔ یہ ہر گھڑی پیداہورہی ہے۔ جیساکہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ رطوبت ِ غریزی اور حرارت ِ غریزی کا تعلق صرف منی سے نہیں ہے بلکہ خلیات کے اندر جو رطوبت غریزی سے ہر گھڑی حرارت ِ غریزی پیداہوتی رہتی ہے اور یہ قانونِ قدرت ہے کہ رطوبت میں تبخیر سے حرارت پیداہوتی ہے۔

4۔ زندگی روح سے قائم ہے اور روح ایک شعلہ ہے جو امر ربی ہے۔ یعنی جہاں پربھی قوت پیداہوگی وہاں پرامر ربی لازمی امر ہے۔ جیسےدو اشیاء میں کیمیائی طورپر ایکشن، ری ایکشن(عمل اور رد عمل) ہویا بجلی کے دو تاروں کو ملایاجاتا ہے تو شعلہ پیداہوتاہے۔ یہی عمل و ردعمل کا نتیجہ اور شعلہ ان کی روح ہیں لیکن ہر عمل و رد عمل فطرت کے مطابق ہونا چاہیے۔ انسانی زندگی و شعلہ اور روح بھی اس کے فطرت کے مطابق عمل کرنے سے قائم ہے۔

5۔ انسانی زندگی اور روح بجلی کے شعلہ پر قائم ہے جو ہرگھڑی انسانی جسم میں پیداہورہی ہے۔ قدرت نے انسان میں بجلی کی پیدائش کے تین نظام رکھے ہیں تاکہ اس میں بجلی کی رو بغیرحادثہ اور خرابی غذاکے ختم نہ ہو۔ اول نظام شمسی دوسرا نظام بجلی حرکت۔ جن کی تفصیل گزر چکی ہے۔

6۔ انسان کائنات میں ارتقاء کا آخری مظہر ہے۔ اس میں چار نظام نسیجی کام کررہے ہیں جن میں سے تین فعلی نسیج ہیں اور تینوں کی غذا نسیج الحاقی سے مقرر کی گئی ہے۔ گویاالحاقی مادہ یا خاکی مادہ ہی ان کی غذابنتا ہے اور جب نسیج فعلی کمزور ہوجاتے ہیں تو وہ نسیج الحاقی کو اپنی غذا نہیں بنا سکتے اس صورت میں خود نسیج الحاقی ان کی جگہ لینا شروع کردیتا ہے جس سے اول صحت بگڑتی ہے پھر شباب ختم ہوجاتا ہے اور بڑھاپا آتا ہے اور آخر میں موت واقع ہوجاتی ہے۔

7۔ نسیجی قوتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ اول شمسی اور دوسری کیمیائی بجلی جو ان کے اندر ک رطوبت پیداہورہی ہے۔ تیسری قوت حرکتی بجلی ہے جو اعضاء کی حرکت اور دوران ِ خون سے پیداہورہی ہے اور مناسب غذاسےہر قسم کی قوت میں اضافہ ہورہا ہے۔

8۔ غذاکا نظام ، قدرت نے جسم کے اندرخون کی صورت میں اس طرح کارکھا ہواہےکہ ہر وقت عضوکو نہ صرف باقاعدہ غذا مل رہی ہے بلکہ اعضاء کے افعال اور کیمیائی اثرات سے نیا خون بھی تیار ہورہا ہے اور ہر گھڑی قوت پیداہورہی ہے۔ جہاں تک خوراک کا تعلق ہے طبیعت اپنی بھوک کے احساس سے طلب کرتی ہے اور مناسب خوراک کو پسند کرتی ہے۔ غیرمناسب خوراک جس میں ادویہ و زہر وغیرہ شامل ہیں نہیں پسند کرتی اور ان کو جزو بدن نہیں بناتی بلکہ ان کو اندر ضائع یا اخراج کی کوشش کرتی ہے۔

9۔انسانی روح (شعلہ) کا تعلق آفاق سےہے۔جہاں سے ہر گھڑی مادہ و عناصر کی پیدائش جاری ہے جو انسان کی غذا اور خوراک بنتا ہے اور پھر یہی روح جسم انسانی میں اٹھ کرنفس کی طرف لپکتی ہے۔ کاشی یرجع الیٰ علیہ کے مصداق نقس و آفاق و روح زندگی اور ورح عالم- جہان اصغر و جہان اکبر برہم و برہما اور آتما و پرماتما کے تعلق کو قائم کرنا چاہتی ہے تاکہ خالق و مالک اور قادر مطلق کوپہچان سکے اور امر (دائمی حیات حاصل کرنا) ہو جائے۔ یہی انسان کی دائمی زندگی ہے ہر مذہب کی روسے جن لوگوں کا تعلق اپنے خالق ومالک اور قادر مطلق سے ہے وہ امر ہیں اور ان کو موت نہیں ہے بلکہ حیات دائمی سے مزین ہے۔

غذا کی اہمیت
مندرجہ بالا جو حقائق پیش کئے گئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی زندگی پیدائش کے بعدہمیشہ ترقی کرتی ہےاور اس کاشباب ہمیشہ قائم رہنا چاہیے اور اس کو سوائے حادثات اور غذا (خون) کی خرابی کے سوا موت نہیں آنی چاہیے۔ حادثات کا مسئلہ توایک جدابات ہے۔ باقی سوال اعضاء کی غذا(خون)کا رہ جاتا ہے کہ یہ کس طرح درست اورصحیح پیداہوسکتاہے اور کس طرح خراب اور زہریلے مادوں اور تغیرات و کیفیات سے …………….بچ سکتاہے۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔ اول۔ وہ غذاجوخوراکی طورپر انسان کھاتا ہے اور دوسرے اعضاء کی درستی۔ جہاں تک غذائے خوراکی کا تعلق ہے وہ انسانی ، مذہبی پیشواؤں و حکماء اور اطباء نے ہزاروں سالوں سے تخصیص کردی ہے کہ فلاں خوراک حرام و نجس اور فلاں خواک حلال و طیب ہے یا جسم انسان کے لئے مفید اور مضر ہے۔ اس کے علاوہ انسانی جبلت بھی انہی اشیاء کی طرف مائل ہوتی ہے جو مرغوب و پسندیدہ اور لذیذ اور مقوی ہوتی ہیں۔البتہ انسان ان کے کھانے میں کبھی زیادتی اور کبھی بغیر ضرورت کھاتا ہے جس سے اس کے اعضاء پر بوجھ پڑتا ہے اور دوسرے جب وہ غذا ئے خوراکی اپنے وقت پر ہضم نہیں ہوتی اس میں فساد پیدا ہوجاتا ہے وہی فساد رفتہ رفتہ اعضاء کو خراب اور خون کو زہریلا بنادیتا ہے۔

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ایسے غذائے خوراکی اور موسم و کیفیات کے حادثات انسان کو اکثر پیش آتے رہے ہیں اور ان کے علاوہ محنت و مشقت اور عیش و آرام کی زیادتی جذباتی اثرات کی شدت ایسی صورتیں ہیں جن سے انسان کو مفر نہیں ہے پھر ایسی صورت میں صحت کا برقرار رکھنا مشکل ہے۔ شباب کا قیام اور طویل عمری تو پھر بے حد مشکل بات ہے ایسی صورت میں اعادہ شباب کا تو سوال پیداہونابے حد مشکل ہے۔

نظریہ مفرداعضاء اور قیام شباب و صحت اور طویل عمری

انسانی جو غذاخوراک کے طورپر استعمال کرتا ہے تو اس کا خون بنتا ہے جس کو یونانی حکماء اور اطباء چار اخلاط اور چار کیفیات میں تقسیم کرتے ہیں اور ان کےقوانین کے مطابق یہ اخلاط اور کیفیات مختلف اعضاء کی غذا بنتے ہیں۔ لیکن فرنگی ڈاکٹر اور سائنس دان اس خون کو چودہ(14) عناصر میں تقسیم کرتے ہیں اور ان کے قانون کے مطابق انہی سے انسانی اعضاء کی غذا حاصل ہوتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ خون میں تین بڑےاجزاء پائے جاتے ہیں۔ اول رطوبت دوسرے حرارت اور تیسرے لطیف ہوائی اجزاء(گیس) اور یہی تینوں اجزاء نہ صرف ہمارے اعضائے رئیسہ کی خوراک ہیں بلکہ جب ان میں سے کسی ایک حصہ میں تیزی ہوتی ہے تو اس جزو کی پیدائش بڑھ جاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس عضورئیس سے وہ خاص حصہ مخصوص ہے مثلاً اگر جسم میں رطوبت کی زیادتی ہوتو اعصاب کا فعل تیز ہوتا ہے اور اگر جسم میں حرارت کی زیادتی ہوتو غدد کا فعل تیز ہوتا ہے اسی طرح اگر جسم میں ہواکی زیادتی ہوتو قلب کے فعل میں تیزی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ اگر غدد کے فعل میں تیزی کر دیں تو حرارت بڑھ جاتی ہے اسی طرح اگر عضلات کے افعال میں تیزی کردیں توہواجسم میں سےزیادہ ہوجاتی ہے۔ گویا اعضائے رئیسہ اور رطوبت و حرارت اور ہوا لازم و ملزوم ہیں اور یہی تینوں فطری اجزاء ہیں جو کائنات میں بھی بارش و آندھی اور گرمی میں نظر آتے ہیں۔

تسکین وتحریک و تحلیل

ان اجزاء کی کمی بیشی سے جسم انسان میں چند علامات پیداہوتی ہیں جن سے ہم کو ان کی افراط و تفریط کا اندازہ ہوتا ہےمثلاً اگر جسم میں رطوبات (بلغم) کی زیادتی ہوجائے تو جسم میں تسکین پیداہوجاتی ہے۔ ویسے بھی جب ہمیں جسم میں سوزش معلوم ہوتو اس کی تسکین کے لئے پانی کا استعمال کرتے ہیں جو رطوبت کی اصل ہے اسی طرح جب جسم میں ہوا کی زیادتی ہوجاتی تو جسم میں تیزی پیداہوجاتی ہے اسی طرح جب جسم میں حرارت کی زیادتی ہوتی ہےتو جسم میں ضعف اور تحلیل شروع ہوجاتا ہے۔ بہرحال جب یہی علامات شدت اختیار کرتی ہیں تو انسانی جسم کو مریض کہاجاتا ہے۔ کبھی ان علامات کی تیزی سے درد جسم پیداہوجاتا ہے۔ کبھی سوزش کبھی ورم ، کبھی بخار اور کبھی ضعف کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ بہر حال اگر ہم ان اعضاء کے افعال و خواص اور اثر کوپوری طرح سمجھ لیں توہمارے اندر جو خرابیاں و علامات اور زہریلے اثرات پیداہوں ہم ان کو ان اعضاء کے افعال میں افراط و تفریط پیداکرکے درست کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگرہم تندرستی کی حالت میں بھی چاہیں تو ان اعضاء کے افعال میں ضرورت کے وقت تحریک وحرارت سے قوت پیداکرنے پر قادرہوسکتے ہیں۔ یہی اغذیہ اور موسمی تغیرات اور کیفیات جو ہمارے اندر امراض و کمزوری اور بڑھاپاپیداکرتی ہیں اگر ان کے اثرات سے ہم پورے طورپر آگاہ ہوں تو یقیناً ہم ان سےاپنا قیام شباب اور طویل عمری میں مدد حاصل کرسکتے ہیں۔

حرارت ورطوبت اور گیس تینو ں قوتیں ہیں جوہرگھڑی زندگی اور کائنات میں پیداہورہی ہیں۔جو ہر گھڑی زندگی اور کائنات میں پیداہورہی ہیں۔ ان کی پیدائش میں جہاں ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور اثرپڑتا ہےوہاں ایک دوسرے کی کمی بیشی بھی انہی کی وجہ سے اعتدال پر آتی ہےمثلاً جب سخت گرمی پڑتی ہےتو بارش آجاتی ہے۔ جب بارش سے ہرجگہ جل تھل ہو جاتی ہےتو تیز ہوا چل پڑتی ہےاور پانی خشک ہوجاتا ہے۔ یاد رہے پانی ہمیشہ ہوا سے خشک ہوتاہےگرمی سے خشک نہیں ہوتاکیونکہ گرمی سے تبخیربن جاتاہے اور ٹھہراہواپانی متعفن ہوجاتاہےجب تیز ہوائیں چلتی ہیں تو پھرگرمی شروع ہوکران کوبندکردیتی ہے۔ یعنی ہواکی تیزی گرمی ہی سے تحلیل ہوسکتی ہے۔ اس طرح موسم بدلتے ہیں مثلاً سخت گرمی کے بعد بارش کا موسم (برسات)آتاہے۔ برکھا رت کے بعد خزاںکی ہوائیں چلتی ہیں اور جب بہار کی ہوائیں چلتی ہیں توگرمی کاموسم شروع ہوجاتا ہے۔

یہی صورتیں جسم انسان میں بھی پائی جاتی ہیں مثلاً جب جسم میں گرمی کی بے چینی ہوتی ہے توپانی کی طلب ہوتی ہےاور جسم میں رطوبت کی زیادتی ہوتی ہےتوخود بخود خشک اشیاء کھانےکی ضرورت ہوتی ہےجب جسم میں خشکی ہوتی ہے توروغنی اشیاء اور گھی وغیرہ کھانے سے رفع ہوتی ہے جوگرم ہوتےہیں۔ غرض جب گرمی وتری اور خشکی کے بعد پھر گرمی کا سلسلہ جاری رہتا ہےجسم میں گرمی جگر میں تیزی ہونے سے اکٹھی ہوتی ہے۔ جسم میں خشکی قلب میں تیزی سے زیادہ ہوتی ہےجسم میں رطوبت اعصاب میں تیزی سے جسم میں جمع ہوجاتی ہے۔ یہ روزانہ زندگی کے حقائق ہیں مگرعوام ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے۔ یہ کس قدر اہم اور مفید قانون ہیں جو زندگی کے لئے نہ صرف انتہائی مفید ہیں بلکہ ان حقائق کے بغیر زندگی اپنی صحیح فطری راہوں پر رواں دواں نہیں ہوسکتی ہے۔

جسم انسان خود ایک برقی سرکٹ ہے

یہ پہلے لکھاجاچکا ہےکہ ہرفرد حیات ذرہ (خلیہ) ایک الیکٹرک سیل (بجلی کا کیسہ)ہے اور ہر غیر ذی حیات ذرہ نظام شمسی کے قانون پر ایٹم کی طرح بجلی اور قوت پیداکر رہے ہیں جو اعصاب کے ذریعے جسم میں قوت تحریک اور حرارت پیداکررہے ہیں اور دوسری طرف عضلات کی حرکت سے باقانون رگڑ قوت و تحریک اور حرارت پیداہوتی رہتی ہے۔ یہ قوت و تحریک اور حرارت غدد میں اکٹھی ہوتی رہتی ہے اور جگر کی حرکت سے بھی تمام جسم کی قوت و تحریک اور حرارت پیداہوکرجگر میں جمع ہوتی رہتی ہے پھر ضرورت کے وقت یہ قوت و تحریک اور حرارت جسم میں خرچ ہوتی رہتی ہے۔

جسم کو اس بجلی و بیٹری کے اصول کو سمجھیں کہ خلیات اور ذرات اعضاء و جسم میں لاکھوں بیٹریاں ہیں عصبی و عضلاتی دو منفی اور مثبت بجلی کی ڈوریاں بھی ہیں اور خود بجلی بھی پیداکرتی ہیں اور وہ بجلی قوت و حرارت کی شکل میں خون کے ذریعے جگر میں جمع ہوتی رہتی ہے یہاں پھر خلیات میں تقسیم ہوتی ہےاور اس طرح زندگی و روح اور صحت و شباب قائم رہتا ہے۔ اس طرح ایک چکر قائم رہتا ہے۔ اس چکر کو انگریزی میں (Circuit) کہتے ہیں۔

اس بجلی اور قوت کے تعلق سے دل و دماغ اور جگر کا تعلق زندگی بھر قائم رہتا ہے۔ گویا بجلی اور قوت کاایک چکرقائم ہے اور جاری رہتا ہے اور اس طرح حرکت و حرارت اور رطوبت پیداہوتی رہتی ہےاور جسم کو غذامیسرہوتی رہتی ہے۔ جب اعضاء کے افعال میں کمی بیشی واقع ہوتی ہے تو حرکت و حرارت اور رطوبت میں کمی بیشی واقع ہوجاتی ہے جس سے بجلی اور قوت کے تسلسل اور چکر خراب ہونا شروع ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ صحت خراب ہوناشروع ہوجاتی ہے اور جب سرکٹ رک جاتا ہے یا ٹوٹ جاتا ہے تو بس موت آجاتی ہے۔

حرارت کی زیادتی سے جسم میں ضعف اور تحلیل پیداہوتی ہے مگر عام طورپرحرارت کی زیادتی نہیں ہوا کرتی ۔ زیادہ رطوبت کی زیادتی اور ریاح کی زیادتی ہوا کرتی ہے۔ ان کی زیادتی سے جسم میں حرارت بہت کم ہوجاتی ہے۔ رطوبت کی زیادتی سے حرارت کی کمی کے ساتھ سردی زیادہ ہوتی ہے جس سے اعضاء جسم میں انتہائی طورپر سست اور سن ہوجاتے ہیں اور جب ریاح کی زیادتی ہے تو جسم میں سردی کے ساتھ خشکی بڑھ جاتی ہے جس سے جسم میں تیزی اور خون کا دباؤ بڑھ جاتاہے۔ یہی علامات معمولی طورپر کم و بیش ہوں تو صرف صحت میں خرابی ہوتی ہے اور امراض پیداہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر یہی علامات شدت اختیار کرلیں تو جسم میں انحطاط پیداہوکر شباب رخصت ہوتا ہے اور بڑھاپا آنا شروع ہوجاتا ہےیہ امر ذہن نشین کرلیں کہ نزلہ اور بند نزلہ اس وقت ہی دائمی ہوجاتا ہےجب جسم میں حرارت کی کمی ہوجاتی ہے یہ کمی اگر سردی تری کے ساتھ ہوتو نزلہ ہوگا اور اگر سردی خشکی کے ساتھ ہوتو بند نزلہ ہوگا۔ یہی نزلہ جب دائمی صورت اختیار کرلیتا ہے تو اس وقت سے شباب رخصت اور بڑھاپےکی آمد شروع ہوجاتی ہے۔

بڑھاپے اور امراض کا فرق

جب تک صرف اعضاء کے افعال میں مشینی طورپر کمی بیشی اور خرابی واقع ہوتی ہے تو اس کی یہ حالت زیادہ تر امراض تک محدود رہتی ہے اور جب اعضاءکے خلیات میں خرابی واقع ہوتی ہے تو بڑھاپا شروع ہوجاتا ہے اگر صورتیں بھی ظاہرطورپر امراض میں شریک ہیں جن کو ہم مزمن امراض کہتے ہیں یہی مزمن امراض ہی بڑھاپا کی ابتدا ہیں۔ یہ بڑھاپا تین صورتوں میں پیداہوتا ہے۔(1)۔ حرارت غریزی میں کمی بیشی ہونا۔(2) رطوبت غریزی میں کمی بیشی ہونا۔ (3) رطوبت غزیزی میں فساد و تعفن پیداہونا۔

رطوبت غریزی اور حرارت غزیزی میں کمی بیشی

حرارت ِ غزیزی کی ابتدا اس حرارت سے ہوتی ہے جو منی کے حیوانی ذرے کے خلیہ میں پائی جاتی ہے جس کی پیدائش ا سلسلہ اس رطوبت سے جاری رہتاہے جو منی کے حیوانی ذرے کے خلیہ میں موجود ہوتی ہے۔ اس کےقیام میں اس خلیہ کا نظام شمسی اور خلیہ کی برقی رو دونوں معاون ہوتے ہیں جب انسانی کرم منی (Super Menuzua) عورت کے بیضہ انثیٰ (Ovum) کے ساتھ وصال پاتا ہے اور نطفہ قائم ہوجاتا ہے تو بیضہ انثیٰ کی رطوبت اور حرارت کرم منی کی غذابنتی ہے۔ اس طرح رطوبت غریزی اور حرارت غریزی قائم رہتی ہے پھر جب وہ قریب اختتام ہوتی ہے اور اس وقت تک نطفہ شہتوت کے پھل کے برابر مثل جونک تیارہوجاتاہے تو قدرتی طورپروہ رحم میں کسی جگہ چسپاں ہوجاتا ہے اور اس کا تعلق ماں کے خون سے منسلک ہوجاتا ہے۔ اس وقت اس بچہ کو جوغذا خون کی شکل میں ملتی ہے اسی میں سے رطوبت غریزی اور حرارت غریزی تیارہوکر اس کے خلیات میں بھرتی اور خرچ ہوتی رہتی ہے۔ جب بچہ کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ اس کو اول ماں کا دودھ اور پھر دنیاوی خوراک کو اپنی غذا بناتا ہے جن سے اس کے جسم میں اپنا خون تیار ہوتا ہے اس وقت اس خون سے رطوبت غریزی اور حرارت غریزی تیار ہوکرقائم رہتی ہے اگر اس رطوبت غریزی اور حرارت غریزی کی پیدائش اور اعتدال جاری رہے توصحت اورشباب قائم رہتا ہے اور طویل عمری ہوتی ہے جب اس میں کمی واقع ہوتی ہے تو اس کی صورت اول میں رطوبت میں کمی واقع ہوجاتی ہے جس سے اس میں حرارت غریزی قائم نہیں رہتی۔ کبھی حرارت غریزی کی پیدائش بڑھ جاتی ہے اور اس طرح رطوبت غریزی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ کبھی رطوبت غریزی کمزور ہوتی ہے اور حرارت غریزی کی پیدائش رک جاتی یا کم ہوجاتی ہے۔ یہ سب صورتیں صحت و شباب اور طویل عمری پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

رطوبت غریزی میں فساد بالکل اس طرح پیداہوتا ہےجس طرح معدہ و اامعاء اور جگر میں پیداہوتاہے یا رطوبات طلیہ میں پیداہوتاہے۔ لیکن رطوبت غریزی میں فساد طبیعت مدبرہ بدن آسانی سے پیدانہیں ہونے دیتی اور اگر جب کبھی ہوتا ہے توکسی ایک قسم کے نسیج کے خلیات میں ہوتاہے ۔ تمام جسم کے خلیات میں یک بارگی نہیں ہوتا۔ لیکن اگر جب کسی ایک نسیج میں فساد ہوتا ہے اوراس کی اصلاح نہ کی جائے تو رفتہ رفتہ تمام جسم میں پھیل جاتا ہے۔ جسم میں جو زہر اثر کرتے ہیں وہ اسی اصول پر اثر کرتے ہیں اور ہر قسم کے زہرمختلف علامات ہوتی ہیں رطوبت غریزی کے فساد کو دورکرنا تجربہ کار معالج کاکام ہے۔ ہر بازاری دوافروش کے بس کاروگ نہیں ہے۔ جب فساد رطوبت غریزی پیداہوتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ حرارت غریزی کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کے نتیجہ میں اس کے اندر جو شعلہ پیداہوتا ہے وہ مدھم ہوتا جاتا ہےاس کانام بڑھاپا ہے اور پھر ایک وقت ایساآتا ہے کہ وہ بالکل بجھ جاتا ہے جس کانام ہم موت رکھتے ہیں۔

قیام شباب اور طویل عمری کا علاج

جب کوئی شخص چاہتا ہے کہ اس کابڑھاپا قبل از وقت دور ہوجائے تو اس کا اولین فرض ہے کہ وہ اعضائے رئیسہ کا بغور مطالعہ کرے ان کے افعال کوسمجھے اور اگر اس کو کوئی مرض یا علامت ہو جیسا کہ نزلہ زکام، فالج ، دائمی قبض، بواسیر ، سوزاک اور آتشک وغیرہ وغیرہ تو ان کو سامنے رکھ کر یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ ان کا تعلق کس عضو کے ساتھ ہے اور اس عضو کے افعال کس طرح انجام پا رہے ہیں۔ مرض یا علامت کو فوراً دور کرنے کی کوشش نہ کرے۔ صرف مرض و علامت اور عضو کو افعال کا تعین کرے پھر اس مرض یا علامت کو سامنے رکھ کرعضو کے افعال کو درست کرنے کی کوشش کرے۔ اس طرح جب عضو کے افعال درست ہوتےجائیں گے وہ مرض یا علامت رفع ہوتی جائے گی۔ گویا وہ مرض اور علامت صرف معیار اور اصلاح ہے جس سے معالج کو پتا چلتا ہے کہ جسم انسان کے افعال باقاعدہ ہورہے ہیں۔ اگر مرض یا علامت دور کردی جائے تو اعضاء کے افعال اور خون کی درستی کا پورے طورپر اندازہ ہوسکتا ہے ۔ اس طرح اعادہ شباب ممکن ہوجاتا ہے۔

دراز عمری اور قیامِ جوانی کی حقیقت اور تاریخ

دائمی زندگی کا تصور

دراز عمری و قیام جوانی بلکہ دائمی زندگی کا تصور انسان کی جبلت ہے جو اس کے جذبات اس کے غم وغصہ اور خوف سے ظاہر ہے کہ وہ ہر تکلیف دہ شے اور نقصان رساں فعل سے بچنا چاہتا ہے۔ اسی طرح اس کی دائمی مسرت اور لذت کاحصول اس امرپر دلالت کرتا ہے کہ وہ درازئ عمر اور قیامِ جوانی بلکہ حیاتِ ابدی کا خواہش مندہے۔ جس کےلئے وہ ہمیشہ جدوجہد اور سعی کرتا رہتا ہے، جب تہذیب و تمدن میں ارتقاء کی صورتیں پیداہوئیں اور اس نے علم کی روشنی میں مشاہدات اور تجربات کئے تو اس نے دیکھاکہ زندگی میں اگرحوادثات و ٹکراؤ اور رکاوٹیں پیدانہ ہوں اور ساتھ ہی ضروریاتِ زندگی اورامن میسرہوتو یقیناً انسانی عمر طویل اور جوانی قائم رہ سکتی ہے۔ بلکہ مناسب اور طبعی حالات پر قابو پالیا جائے تو انسان دائمی حیات کا مالک بن سکتاہے۔

مشاہدہ اور تجربہ ظاہر ہے کہ نباتی اور حیوانی زندگی میں دوام پایاجاتا ہے کیونکہ زندگی کی ابتدا جب حیوانی ذرہ سے شروع ہوتی ہے تو وہ اس وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک اس پر کوئی حادثہ یا رکاوٹ واقع نہ ہو بلکہ وہ نہ صرف روزبروز بڑھتا ہے اور اپنی مثل پیداکرتاجاتا ہے۔اور ایک بار زندگی کا روشن شعلہ کروڑوں زندگیاں پیدا کرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے اور آگے بڑھتا اور انپی مثل زندگیاں پیداکرتاچلاجاتا ہے مثلاً حیوانی زندگی میں امیبا اور جرثومہ ایسی زندگیاں ہیں جوایک ایک حیوانی ذرے سے تکمیل پاتی ہیں اور دیکھتے ہیں کہ مناسب حالات اور ضروریات کے میسرآنے پر کروڑوں امیباجات اور جراثیم پیداہوجاتے ہیں اور وہ ابتدائی امیباجات اور جرثومہ بھی زندہ اور حیات رہتا ہے، ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے شعلے روز بروز نئی قوت کے ساتھ بھڑکتے رہتے ہیں۔ بالکل یہی صورتیں جسمِ انسانی کے اندر حیوانی ذرات میں نظرآتی ہیں۔ ان حقائق سے طاہرہے کہ انسان کوکبھی موت نہیں آنی چاہیے یا بغیر حادثہ اور نقصان کے اس کو موت کا شکار نہیں ہونا چاہیے یا کم از کم اس کو طویل عمری حاصل ہواور وہ اپنی جوانی کو ہمیشہ کےلئے قائم رکھ سکے اور کبھی بوڑھانہ ہو گویا بڑھاپا کوئی فطری شے نہیں ہے بلکہ ایک بیماری ہے۔

خدا اور انسان کا تعلق دائمی زندگی کی تحریک ہے

جہاں تک تاریخ اور مذہبی تعلیم کا تعلق ہےانسان خدا یاکسی مافوق الانسان قوت کو کسی نہ کسی رنگ میں تسلیم کرتا ہے۔ خدا اور مافوق الانسان قوت کو ہمیشہ غیب میں تسلیم کیاگیاہے، کسی نے ایک خدامانا ہے ، کسی نے دوخداتسلیم کئےہیں ، کسی نے تین خداؤں کوماننا ضروری سمجھا ہے ، کسی نے خداکے ساتھ ایک دوطاقتوں کوقدیم اور لازمی قرار دیاہے، کسی نےبے شمارخداکاہونا ظاہر کیاہے۔ گویا جس طرح انسان کے جذبات کی تسکین ہوئی ہے اسی قدر خدابناتا گیا ہے۔ لیکن یہ بات خداہرتصورمیں پائی جاتی ہے کہ (1)۔ وہ مافوق الانسان ہے اور غیب میں ہے(2)۔ اس کا خوف اس پرقائم رہا ہے ، اس لئے اس کی عبادت لازم ہے(3)۔ اس کو خوش کرنے کےلئے اس کے لئے قربانی لازم ہے(4)۔ اس سے تعلق پیداکرنا چاہیے(5)۔ زندگی یا موت کے بعد اس سے ملاقات ضروری ہے۔ جو ہمارے اعمال کا حساب لے گا۔ یہ سب کچھ انسان کی جبلت میں آج بھی پایاجاتا ہے اور ہزاروں سال پہلے بھی پایاجاتا تھا۔ خداوندِ کریم کے تعلق اور ملاقات نے انسان کے اندر جذبات کو بلندکیا کہ وہ اپنے اندر خدائی طاقتیں پیداکرےبلکہ بعض انسان خود خدابن بیٹھے۔ آج اگر انسان خدا نہیں توکم از کم خدائی قوتوں کے حامل اپنے کو ضرور سمجھتے ہیں۔ ہر خودمختار بادشاہ ، شہنشاہ اور بددماغ ڈکٹیٹر اپنے آپ کو خداسے کم نہیں خیال کرتا۔ یہ حقائق اس امرکاثبوت ہیں کہ انسان اور خدا میں کچھ تعلق ضرور ہے۔

خدا کے مختلف مظاہر

جس کسی نے خداکو ایک ماناہے اس نے زندگی اور کائنات کی مافوق الانسان تمام قوتوں اورمظاہرکوصرف ایک ہی خدامیں تسلیم کیاہے۔ جس کسی نے دوخدا تسلیم کئے ہیں اس نے نیکی و بدی کے دوخدابنالئے ہیں۔ جس نے تین خدامانے ہیں اس نے خداکے ساتھ اس کابیٹا اور روح القدس کوبھی خداتسلیم کیاہے ۔جس نے خداکے ساتھ اور کو بھی قدیم اور دائمی مانا ہے اس نے خدا کے ساتھ روح اورمادہ کو ازلی قرار دیا ہے۔ جس کسی نے بے شمار خداتسلیم کئے ہیں انہوں نے خداکے ہرمظہر کو خدا بنا لیا ہے۔ الغرض کسی نہ کسی رنگ میں خداکو ضرورماناگیاہے اور جنہوں نے خداکاانکار کیاہے ان سے بھی مافوق الانسان قوتوں کا انکار نہیں ہوسکا اور انہوں نے ان قوتوں پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ بہرحال مافوق الانسان مظاہر سے مفر کسی کونہیں ہے۔

ان مظاہر کو کسی نے آگ، ہوا اور پانی کی شکل میں پوجاہے، کسی نے جانوروں ، درندوں اور حشر الارض کی صورتوں میں اپنی عبادات کامرکز بنالیا ہے۔ کسی نے مافوق الانسان قوت کے ہرمظہرکو بت کی شکل دے کر اس کی پرستس شروع کردی ہے۔ گویا جہاں بھی ایسی قوت نظرآئی اس کو پوجاگیا۔ یہاں تک کہ یہ قوت انسان میں نظر آئی تو اس کے سامنے جھک گیا اور اس کے حکم کو اپنے لئے نجاتِ دائمی ، خداتک پہنچنے کاذریعہ سمجھ لیا۔ یہاں تک کہ اپنی زندگی اس پر قربان کردی۔ ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ ہر خودمختار انسان نے ہمیشہ انسانی زندگیوں سے کھیلاہے۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ زندہ انسان تو رہے ایک طرف مردہ انسانوں کو بھی خداکی طرح پوجتے ہیں۔ یہ سب کچھ کیا ہے ۔ یہ وہ حقائق ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسان کی جبلت میں خداکااثر ہے اور دونوں کا باہمی تعلق ہے۔

خدا کی قوت میں شرکت اور دائمی زندگی کاجذبہ

تاریخ اس بات پر اچھی طرح روشنی ڈالتی ہے کہ جب تک انسان کو ایک خدا کا علم نہیں ہوا وہ خودخدا اور دیوتا بننے کی کوشش کرتا رہا۔ جب اس کو ایک خدا کا علم ہوا تو اس نے اپنے خدا کانائب ، خداکا پیغمبر، خدا کارسول ، خدا کے اوصاف سے متصف اور برگزیدہ(کوئی بھی انسان اپنی ذاتی کوششوں سے کبھی بھی نبی یا پیغمبر نہیں بن سکتا ہے) ظاہر کیا ہے۔اور نہیں تو خدا کے واقعی فرستادہ انسانوں سے جائز و ناجائزنائب بننے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح اگرمعاشرہ کو ایک نظام میں قابو رکھنے کی سعی تھی تو ایک طرف اپنی انتہائی قوتوں(Supreme Power)کااظہار بھی مقصود تھا اور دنیا میں انسانوں کے اندر جو لڑائیاں اور فساد یا قوموں میں جو جنگ وجدل کا سلسلہ نظرآتا ہے وہ اس انتہائی قوت اور سربلندی کا اظہار ہے جس کا اگر نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو اس کاتعلق خدائی قدرت سے جاکرمل جاتا ہے۔جب کبھی قاہر اور ظالم بادشاہوں اور شہنشاہوں نے دوسری قوموں کوغلام بنالیا تو اس خدائی قوت نے اس کانیا رخ اختیارکرلیا وہاں پرجسمانی قوت کی بجائے روحانی قوت کواپنایاگیا اور روحانی قوت کی برتری کو بڑی قوت سمجھا گیا۔ اس قوت کے مظاہرے سے اپنے نفس کو تسکین دے دی گئی۔اسی روحانی قوت نے عالم و فاضل، فلسفی و حکیم، محقق و مفسر، اولیا و امام اور راہب و کاہن پیداکئے اور لیڈر و بادشاہ کے فلسفہ نے خلیفہ و امام کا بھیس اختیارکرلیا۔ مقصد اپنی جگہ قائم رہا کہ انسان اپنے اندر خدائی قوت رکھتا ہے یا اس کا خداکے ساتھ گہرا تعلق ہے۔

عوام جن میں نہ تو مادی قوت کی برتری تھی اور نہ ہی روحانی طاقت کا اظہارکرسکتے تھے۔انہوں نے اپنے اس جذبہ کی تسکین کے لئےدوسرے راستے اختیار کئےیعنی خداکی قوت کو مختلف صورتوں میں پیش کیا تاکہ وہ کسی نہ کسی طرح خدائی قوت میں شریک ہوجائیں مثلاً بعض نے ہمہ اواست کامسئلہ اختیارکیا کہ انسان ، خدا اور ساری کائنات ایک ہی شے ہے یہ سب کچھ اس ایک خدائی قوت کے مظہر ہیں یعنی وحدت فی الکثرت ہے گویا ہر انسان خدا بن بیٹھا اور قوت کو انسانی طاقتوں کے مطابق تقسیم کرلیا۔ دوسرے گروہ نے کثرت فی وحدت کواپنالیا۔یعنی ا نسان خداکاایک جزو ہے اہے وہ کس قدرادنیٰ ہی کیوں نہ ہوجب بھی وہ فنا ہوگا خدا سے مل جائے گا۔جیسے ایک قطرہ سمندرکاجزو ہے اور وہ قطرہ جب سمندرسے مل جاتا ہےتو وہ بھی سمندربن جاتا ہے۔اور ایک باخبر گروہ ایسابھی ہے جوخداکی قدرِ مطلق طاقت سے زیادہ آگاہ ہے اس نے ہمہ از اور است کے مسئلہ کو صحیح خیال کیا کہ یہ زندگی اورکائنات ایک قادرِ مطلق کی تخلیق ہے اور وہی بلاشرکتِ غیرے اس کامالک ہے۔ البتہ انسان اس کی بہترین تخلیق ہے اور انسان کاخدا کے ساتھ گہرا تعلق ہےاور خدا انسان کی شاہ رگ سے بھی قریب ہے اور جو لوگ خداوندِ کریم کے احکامات پر عمل کرتے ہیں وہ اس دنیا میں خداوندِ کریم کے نزدیک ہوجاتے ہیں اور دوسری زندگی میں ان کو خداوندِ کریم کا دیدار نصیب ہوگا۔ بہرحال اس مسئلہ میں بھی انسان اور خداکاتعلق واضح ہوجاتا ہے اور کسی نہ کسی تعلق سے خداکی قوت کو اپنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

ہندومت اور فلسفہ یونان میں اوتار اور دیوتا کا مقام

ہندو مت اور یونانی فلسفہ نے اوتار اور دیوتاؤں کو جنم دیا ہر طاقتور انسان صرف خداکا مظہرہی نہیں بلکہ خود مجسم خدابن کردنیا میں ظاہرہوا۔ ان کاقرب طاقت اور نجات کی صورت تسلیم کیاگیا۔ ویدانت کی تعلیم نے بے حدغلوکیا، آتمااور پرآتماکی اصطلاحات نےمعاشرہ میں بے حدخرابیاں پیداکیں۔ پرآتما کو خدا اورآتماکاجزوتسلیم کیاگیااورمکتی(نجات) کےلئے لازم قرار دیاگیا کہ آتماپرآتمامیں مل جائے اس سے آواگون جیسے مسائل پیداہوئے۔ جس نے ثابت کیاکہ ہرذی روح کا تعلق پرآتما کے ساتھ ہے۔ یونانی فلسفہ میں دیوئی دیوتاؤں کی صورت اختیارکرکے اچھاخاصہ علم الاصنام پیداکردیا۔ ہندی اور یونانی وبائیں جب زمانہ اسلام میں ملک ایران میں پہنچیں تو مسئلہ تصوف پیداہوگیا۔ اس صوفی ازم نے انسانی جذبات کواس قدربھڑکایا کہ معاشرہ کوہندو، یونان کی طرح ادنیٰ اور اعلیٰ میں تقسیم کردیا، ہندی ذات پات کی تقسیم کی طرح وہاں بھی پنڈت کی طرح صوفی پوجا ہونے لگا اس کو نہ صرف خداکامقرب بلکہ خدائی طاقتوں کاحامل خیال کیاگیا۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی صوفیوں کے مزار پوجے گئے اور آج بھی پوجے جاتے ہیں۔ مختلف مذاہب نے جو معاشرہ کے توازن اور تعاون کی تعلیم دی تھی اور جن کامقصد عوام کی سربلندی اور خدمت تھا اس کی بجائے عوام سے اپنی پوجاکرائی گئی۔ جس سے باشعور عوام کے جذبات کو ٹھیس لگی اور قوت کا قوت تصادم ہوا یعنی خدائی اور آسمانی قوتوں کے مقابلےمیں عوامی قوتیں پیداہوئیں جن ملکوں کی تعلیم میں بادشاہوں کو ظلِ الہی کہاجاتا ہے وہاں پر آج بھی بادشاہیاں قائم ہیں۔ گو انسان کا خداکے ساتھ گہرا تعلق یاخدائی قوت کا شریک خیال کیاجاتا ہے۔ ان تمام حقائق سے یہ ثابت کرنا مقصودہے کہ انسان نے ہمیشہ خداکی ہستی اور قوت کو اپنانے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ دائمی زندگی یا کم ازکم طویل عمری اور بے پناہ قوت کا مالک بن جائے۔

مذاہب میں آخری دور اسلام کا ہے اس میں خدا اور انسان کی قوتوں اور تعلقات کوبڑی احتیاط سے بیان کیا گیاہے۔ لیکن یہاں پر بھی نفس پرستوں نے خدااور انسان دونوں کی قوتوں اور حقوق کو بری طرح غصب کرنے کی کو ششیں کی ہیں ۔ تعلیم کوغلط سمجھا اور غلط پھیلایا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سطحی نگاہ میں اسلام کا امتیازی کمال نظر نہیں آتا۔ بلکہ بعض مسلمانوں کی زبانی یہ سنا کہ چودو سوسال کا پرانا مذہب اب نہیں چل سکتاصرف سائنس ہی مذہب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ مذہب کے معنی ومقصد اور فوائد سےواقف نہیں ہیں۔ ہمیں کسی مذہب سے بحث نہیں۔ ہمارا مقصد تویہ بیان کرنا ہے کہ انسان مذہب کی آڑ لے کربھی اپنے جذبہ دائمی زندگی وقیامِ جوانی اور خدائی قوتوں کو حاصل کرنے میں جدوجہد اور سعی کرتا رہا۔ گویا انسانی جبلت کے ساتھ انسانی جذبات بھی دائمی زندگی و قیام ِ جوانی اور خدائی قوتوں کے طلب گار ہیں۔

اسلام اور مقامِ انسانیت

ہمارا مذہب میں کوئی مقام نہیں ہے اور نہ ہی مذہب اسلام کی رو سے ہم خدائی قوتوں اور خدا کے صادق نبیوں و رسولوں اور پیغمبری قوتوں میں شریک ہیں ہم ادنیٰ انسان اور عاجز مخلوق ہیں ۔ البتہ ہم یہاں پراُن اسلامی حقائق کا ذکر ضرورکرنا چاہتے ہیں جن سے اسلام نے انسان کو دائمی زندگی و قیامِ جوانی اور حصول قوتوں کی طرف اشارات ہی نہیں بلکہ تفصیلاً بیان کیاہے اور نفسانی خواہشات کے بندوں نے ان سے غلط فہمی پیداکردی ہے اور انسان کو خداوند کریم کی قوتوں میں شریک کردیاہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ مادی و روحانی اور ہرقوت کے اعتبار سے خداوندِ کریم لاشریک ہیں۔ البتہ انسان کوخداوندِقادرِ مطلق نے اس زندگی اور کائنات میں لامتناہی قوتیں بخشی ہیں وہ اس دنیا میں خداوندِ علیم و حکیم کی دی ہوئی قوتوں سے جو چاہے کرسکتا ہے۔ ہزاروں سال تک زندہ رہ سکتاہے۔ آسمانوں میں پرواز کرسکتا ہے اور دیگر تمام جہاں پرقبضہ کرسکتا ہے، اس کی ہر مخلوق سے پورے طورپر مستفید ہوسکتا ہے۔

قرآنِ حکیم اس امرپرروشنی ڈالتاہے کہ خداوندِ اعلیٰ نے جب انسان کی تخلیق کاارادہ ظاہرکیا تو ملائکہ نے کہا وہ جہانوں میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا۔ اس کے جواب میں کہا گیا کہوہ ہمارا خلیفہ ہوگا یعنی عاداتِ خداوندی کا حامل ہوگا اور تمام مخلوقات سے اشرف ہوگا۔ اس ارادہ کے بعد خداوندِ خالق نے انسان کا خمیرتیارکیا اور پھر

فنَفَخَت فیہ من روحی ۾ سورۃ حجر
اس میں اپنی روح پھونک دی۔

یعنی

قل روح من امر ربی۾بنی اسرائیل
کہہ دو کہ روح میرے رب کا حکم ہے۔

(روح کی تشریح ہم گزشتہ صفحات میں کرچکے ہیں) یہاں یہ غلط فہمی نہ رہے کہ روح جو انسان میں پھونکی گئی وہ اللہ تعالیٰ کاایک جزو ہےبلکہ رب جو منبع نور و روشنی اور حرارت و پرورش ہے اس کا ایک امراور حکم ہے جس کو ہم نے شعلہ کہا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے سورج کی دھوپ وتپش اور حرارت سورج کا حصہ نہیں ہوتی لیکن اس سے خشک درختوں میں آگ لگ جاتی ہےاور جنگل کے جنگل جل جاتے ہیں۔ دوسری مثال آتشی شیشے کی ہے جس کے ذریعے سورج کی شعاعوں کو ایک مرکز پر اکٹھا کرکے کپڑا اور کاغذوغیرہ جلا لیاجاتا ہے اور اس آگ کا تعلق سورج سے بالکل نہیں ہوتا۔ یہ ایک امرربی ہے۔ اسی طرح رگڑ سےشعلہ پیداہوتا ہےاور دوچیزوں کے ملنے سےشعلہ پیداہوتا ہے۔ اس امر ربی یعنی خالق ومخلوق کا تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ کُن(ہوجا) فیکن(پس ہوگیا)۔ یہی امرِ ربی ہے

انسان کو پیداکرنےکے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے آدمؑ کو تمام اسماء کوعلم دیا ان میں اسماء افعال بھی شریک ہیں۔ گویا زندگی اور کائنات کی تمام اشیاء اور ان کےافعال کا انسان کو علم بخشا، پھر ملائکہ سے سجدہ کراکےاس کوتمام کائنات میں شرف اور فضیلت بخش دی۔ گویا انسان میں نہ صرف ملکوتی قوتیں سمو دیں بلکہ ان کو ملائکہ کی استقامت بھی پیداکردی سب سے بڑا کرم یہ کیا کہ انسان کو نبوت بخشی۔ جو علم و عقل اور حکمت سے بھی انتہائی بلندمقام ہے۔ عقل و حکمت کو مقام نبوت کا شعورتوہوسکتا ہےمگراس پردسترس حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔ جیسےایک کم عقل انسان زیادہ عقلمند انسان کاادراک توکرسکتا ہے مگرخوداس عقل تک رسائی نہیں کرسکتا۔ نبوت کی برکت سے فیضانِ خداوندَ وحی اورالہام کی نعمتوں سے انسان مستفیدہوا۔جس سے انسان کا اس زندگی کے حقائق کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے بھی تعلق قائم رہا۔ وحی اور الہام کی بارش سوائے نبیوں کے ممکن نہیں ہے۔ قرآنِ حکیم کی تعلیم کے مطابق دین(نظامِ زندگی اور کائنات کے فطری قانون) مکمل ہوچکے ہیں۔اب کسی نبوت کی ضرورت نہیں ہے۔

وحی و الہام اور خواب

وحی و الہام اور خواب ایسے ذرائع ہیں جن سے انسان کا غیب یا مافوق الانسان قوتوں سے تعلق قائم رہتا ہے جیسے عام انسان خواب میں دیکھتے ہیں مگر اس میں بھی یہ فرق ہے کہ صاحبِ وحی جہاں غیب کی آنکھوں سے دیکھتا ہے وہاں اس کو اللہ تعالیٰ نے تصرف کی طاقتوں پر قدرت بخشی ہوتی ہےوہ جس طرح چاہے ان سے کام لے سکتا ہےمگر خواب میں انسان کواپنے اعمال پر قدرت نہیں ہوتی ۔ صاحبِ وحی جیسے دیکھتا ہے ویسا ہی اس دنیا میں ظاہر ہوتا ہے۔ خواب کے دیکھتے ہوئے ضروری نہیں ہے کہ وہ ویسا ہی ظاہر ہو اس کے بالکل برعکس بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ الہام کا تعلق آفاق اور نفس کا تعلق ہے جو قانونِ فطرت کے مطابق قائم کیا گیا ہے۔ وحی صرف نبوت تک محدود ہے جیسےحکمت صرف عقل تک محدود ہے۔ اس طرح عقل کےلئےذہن کی صفائی اور علم کی سمجھ ضروری ہے جس طرح ہر شخص صاحبِ عقل اور اہلِ حکمت بھی کسی مقام پر نبوت کا ادنیٰ مقام بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ اسی طرح ایک نبی کا الہام وخواب بھی ایک عام انسان یاصاحبِ عقل اور اہلِ حکمت شخصیت سے بہت بلند ہوتا ہے۔ جیسا جیسا علم و عقل اور حکمت ہوتی ہےاسی طرح فہمید ہوتی ہے۔فضلنا بعضکم علی بعض۔یہ وہ قوتیں ہیں۔ خدا نے نبیوں کو بخشی ہے۔ جب نبیوں سے کوئی مافوق الانسان اعمال ظاہر ہوتے ہیں ان کو معجزہ کہا جاتا ہے۔

القاء و اشارات اور شگون

وحی و الہام اور خواب کے بعد انسانوں کو غیب کی طرف سے القاء و اشارات بھی ہوتے ہیں اور بعض اشیاء اور افعال سے شگون بھی لیتے ہیں۔ اگرچہ القاء و اشارات قابلِ اعتماد نہیں ہیں تاہم نیک لوگوں کے القاء و اشارات اپنے اندر ضرور ایک حقیقت رکھتے ہیں۔ اسی طرح شگون پر اعتقاد رکھنا درست ہیں ۔ البتہ شگون میں کچھ لوگوں کے تجربات کبھی کبھی صحیح ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھی بالکل غلط بلکہ برعکس رونما ہوتے ہیں۔ ان کو زندگی کا جزو بنالینااپنے کو غلط فہمی میں گرفتار کرلینا ہے۔

معجزہ ، کرامت اور جادو

معجزے صرف نبیوں کےلئے مخصوص ہیں۔ ان سے دیگر لوگ عاجز ہیں۔ اسی طرح جو غیر معمولی افعال یا مافوق الانسان اعمال نیک لوگوں سے ظاہر ہوں ان کو کرامت کہتے ہیں، اسی طرح بعض لوگ فطرت کو بعض قوتوں پر دسترس حاصل کرکے بعض مافوق الانسان اعمال پر قدرت پا لیتے ہیں۔ ان کو جادو کہتے ہیں۔ ایسے اعمال کا تعلق خداوندتعالیٰ خداوندتعالیٰ سے نہیں ہوتا۔ ان کو معجزہ اور کرامت بھی نہیں کہا جاسکتا۔ جادو کی مثال سائنس کی کسی نئی ایجاد سے ہو سکتی ہے کہ جب وہ وجود میں آتی ہے تو عوام اول یقین نہیں کرتے اور جب یقین آجاتا ہے تو حیران رہ جاتے ہیں جس قدر بھی اعمال جادوہیں ایک نہ ایک دن ان کی حقیقت تجرباتی علم سے آشکار ہوجائے گی۔ بہرحال یہ امرتسلیم کرناپڑتا ہے کہ جادو بھی معجزہ اور کرامت کی طرح لوگوں کی نگا ہ میں ایک قوت ہے اور اس کو بھی لوگ جاننے اور سیکھنے کےلئے بے چین نظرآتے ہیں۔ جادو پر ہی منحصرنہیں ہے کہ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ اس قدر قوت حاصل کرلے کہ اس کو زندگی ووکائنات وآفاق اور قوت و جوانی پر قدرت حاصل ہوجائے۔ اس سارے بیان کا مقصد بھی یہ تھا کہ قوت و غلبہ کے اعمال وافعال دیکھ کراور معلوم کرکےے بھی انسان کے جذبہ حصول ِ قوت میں شدید تحریک پیداہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کم از کم وہ اپنی زندگی طویل اور جوانی کو دائمی بنا سکے۔ اس کے شب وروز وہ جدوجہد اور سعی میں بے چین نظرآتا ہے۔

امثال طویل عمری اور جوانی

تیسری حقیقت جس سے انسان کو طویل عمری اور قیام ِ جوانی کا تصورپیداہوا وہ طویل عمری جوانی اور قوت کی مثالیں اور نمونے ہیں۔ خاص طورپرگزشتہ زمانے کے قصے اور افسانےجن سے انسان کے جذبات میں بھی تحریک پیداہوتی ہےکہ وہ بھی اپنی عمرکوطویل ، جوانی کوقائم اور قوت کوزیادہ سے زیادہ حاصل کرے مثلاً یونانی وعلم الاصنام اور ہندودیومالا میں دیوی دیوتاؤں کاامرہونا ان کی لامتناہی قوت، ان کی حکومت و غلبہ اور ان کی بے اندازہ جنسی قوت اور عیش و نشاط کےواقعات، ان کی ملکیت میں امرت کا ہونا جس کے پینے سے دائمی زندگی اور جوانی قائم رہتی ہے۔ اسی طرح ایورویدک میں کایاکلپ و اعادہ شباب اور جنسی قوت کوحاصل کرنے کے نسخے وغیرہ ، انسان کو تحریک دیتےہیں کہ وہ بھی ان جادواثر اکسیرات سے مستفید ہوں۔ اسلامی تصورات میں فرشتوں کی دائمی زندگی، جنوں کی غیرمعمولی طاقت، پیغمبروں کی طویل ترین عمریں۔ کہا جاتا ہےکہ حضرت نوحؑ کی تقریباً نوسوسال عمر تھی۔ حضرت عیسیٰؑ کااب تک زندہ ہونا(جوکہ غلط ہے) وغیرہ۔ اسی طرح قرآنِ حکیم میں اصحابِ کہف اور ان کے کتے کا تین سوسال تک سوئے رہنا۔ ایسےحقائق ہیں کہ جن کوسوچے بغیر انسان نہیں رہ سکتا۔ ان مافوق الانسان ہستیوں کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ نیک اور متقی انسانوں کی زندگیاں طویل اور قابلِ رشک ہوتی ہیں۔اسی طرح پہلوانوں کے ڈیل ڈول ، خوبصورت بدن اور غیر معمولی قوت بھی انسان کے جذبات کو طویل عمری وجوانی اور قوت کی طرف ابھارتی ہے۔ بعض لوگ جو اپنی صحت وجوانی اور ضوبصورتی کا خیال رکھتے ہیں ان کودیکھ کربھی ان لوگوں کے جذبات میں تحریک پیداہوتی ہے جوان خوبیوں سے محروم ہوتے ہیں۔

حسن اور حسین نظاروں خصوصاً نوخیز حسین عورتوں کودیکھ کرانسان کےخفیہ جذبات بیدارہوتے ہیں اور طویل عمری کےساتھ جوانی اور قوت کی تمناکرتا ہے۔ اس دنیا کی لامتناہی دولت، حکومت اور عیش ونشاط کاحصول بھی انسان کو طویل عمری وجوانی اورقوت قائم رکھنے پرمجبور کرتا ہے۔ دریاؤں و سمندروں اورپہاڑوں و سبزہ زاروں کے مناظر میں حسین چرند پرند، انسانی زندگی میں رومان و ارمان اور شوق و لطف کی کیفیت کونمایاں کردیتے ہیں یہ سب کچھ زندگی کے طلب گار ہیں۔ خاص طورپرجب انسان ایک نوخیز اور حسین جوڑے کو جوانی کے نشے میں سرشار گل گشت دیکھتا ہے تو اس کادل بھی ایسی حقیقت افروز شعریت کے لئے تڑپ اٹھتا ہے ۔ رنگین و حسین نظاروں کی طرح خوش نوائی اور نغمات دل نواز بھی سازِ زندگی کے مضراب پرزخمہ مارتے ہیں اور اس کو زندگی کی لطافتوں اور لذتوں سے لطف اندوز اورمستفید ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ بعض علاقے ایسے ہیں جن کے رہنے والوں کی عمریں طویل، جوانیاں پُر لطف ہوتی ہیں۔ ایسا ایک مقام پاکستان میں بھی ہے وہ ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ اسی طرح کاایک مقام اۓۓٹلی میں ہے۔جس کانام سیٹورا(Sitora)ہے۔ جہاں پر ستر(70) سال سے کم عمرلوگوں کو بچہ ہی تصور کیاجاتا ہے۔ سائنس دان اس قصبہ کے لوگوں کی طویل عمری کے راز سے حیران تھے اور اس بات کی ٹوہ میں ایک مدت سے پریشان تھے کہ آخر اس قصبہ میں کون سی ایسی خصوصیت ہے کہ یہاں کے باشندوں کی عمریں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ ایک طویل مدت کی تحقیقات کے بعد انہوں نے یہ راز پالیا کہ قصبے میں جو چشمے بہتے ہیں ان کے پانی میں ایسی دھاتیں ہوتی ہیں جن سے انسان صحت مندرہتا ہے اور جلد بوڑھا نہیں ہوتا اور طویل عمرپاتا ہے اسی طرح کاایک علاقہ امریکہ میں بھی ہے۔

تجربہ اور مشاہدہ سے پتا چلتا ہےکہ بعض پہاڑی علاقوں خصوصاً جہاں پرقدرتی گرم چشمے ہوں۔ صحت وجوانی اور طویل عمری کےلئے خصوصیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح جن علاقوں کے پانی میں فولاد کی زیادتی پائی جائے ان علاقوں کے لوگوں کی عمریں بھی طویل اور جوانی و صحت قائم رہتی ہے۔ میری تحقیقات یہ ہیں کہ جن علاقوں میں فولاد وگندھک کے ملے جلے اثرات پائے جائیں ان علاقوں میں یقیناً اکثر عمریں طویل اور جوانی و صحت عرصہ تک قائم رہتی ہے۔ جیسے بلوچستان کا علاقہ ان خوبیوں کےلئے مشہور ہے۔ وہاں کے اکثر لوگ صحت مند، طویل قامت و طویل عمر، جنگ جو اور رومان پسندہوتے ہیں۔ دوسرےجن علاقوں میں سونازیادہ ہوتا ہے وہاں بھی یہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ سونا ایسی دھات ہےجس کو دھاتوں کی گندھک کہنا چاہیے، جن علاقوں میں سونا زیادہ نکلتا ہے ان عرب زیادہ مشہور ہے وہاں کے لوگوں میں انسانی کمالات کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں۔بعض حیوان بھی طویل عمر اور طاقتور ہوتے ہیں۔ جیسے ہاتھی جس کی عمر تین سوسال ہے۔اسی طرح پرندوں میں کوؤں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی عمریں بھی بہت طویل ہوتی ہیں یعنی یہ کئی صدیاں زندہ رہتے ہیں۔ ان کی سیاہی بھی فولاد کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے۔ غرض ان تمام شواہد و تجربات اور معلومات نے انسان کے جذبات میں تحریکات پیداکیں کہ وہ طویل عمری، قیامِ جوانی اور بے پناہ قوت کے راز کومعلوم کرے۔

امراضِ شفا

طویل عمری و قیامِ جوانی اور حصولِ قوت کی تحریک کا ایک زبردست جذبہ اس وقت بھی پیداہوتا ہے جب انسان کوکسی مرض خصوصاً خوفناک اور تکلیف دہ مرض سےنجات مل جاتی ہے۔ شفا حاصل کرنے کرنے کےبعد وہ قدرتی طورپرغورکرتا ہےکہ اگر وہ اپنی صحت کی نگرانی کرے اور حصولِ قوت میں جدوجہد کرتا رہے تویقینی امر ہے کہ جس طرح اس خوفناک اور تکلیف دہ مرض سے اس کو شفا مل گئی ہےاسی طرح وہ مزیدقوت حاصل کرکے اپنی جوانی کو قائم کرسکتاہے۔ غیرمعمولی قوت کے بعد یقیناً وہ اپنی عمرکوبڑھاسکتا ہے اور زندگی کے دن بے انتہا مسرت اور شادمانی سے گزارسکتاہے یہ حقائق ہیں صرف تصورات نہیں ہیں ۔ بے شمارلوگوں نے میری زیرِنگرانی اپنی صحت کوکمال تک پہنچایا ہے۔ بے شمار ایسے مریض جوخوفناک امراض میں مبتلاتھے جن میں ٹی – بی کے مریضوں کی ایک کافی تعدادہے جنہوں نے صحت و غذا کے اصولوں کو سمجھنے کے بعداپنے اندرغیر معمولی طاقت اور قابلِ رشک صحت حاصل کرلی تھی۔ ان میں سے ایک صاحب ٹی – بی کے ایسے مریض تھے جن کوڈاکٹروں نے لاعلاج کردیاتھا جس وقت انہوں نےصحت وغذاکے اصولوں کواپنایاتو تھوڑےہی عرصہ بعدان کی صحت بہتر ہونا شروع ہوگئی، بہت جلدان کو ٹی – بی سے نجات مل گئی۔ پھر انہوں نےورزش شروع کردی اور وزن اٹھانا(Weight Lifting) کی مشق شروع کردی نتیجہ یہ ہواکہ چند سالوں میں وہ لاہور کے حلقہ میں وزن اٹھانےمیں بازی لے گیا اور پھر وہ اس مقابلہ کے لئے ولایت گیا وہاں پر بھی تیسرے نمبرپرکامیاب ہوا۔ اس شخص نے صحت کا راز پالیا اور نئی زندگی کوکامیاب بنالیا۔ اسی طرح جولوگ اپنی صحت و جوانی کے قیام اور قوت کے حصول میں شب وروزجدوجہد اور سعی کرتے رہتے ہیں ان کی بیماری کا سوال ہی پیدانہیں ہوتااور ایسے لوگ دنیا میں ہمیشہ خوش وخرم رہتے ہیں۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ پہلوان، باڈی بلڈر اور کھیلوں میں حصہ لینے والے، ورزش کرنے والے، تیراک، گھڑسوار تقریباً بیمار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کی اموات اکثر حوادثات سے ہوتی ہیں یاجب یہ لوگ اپنی روزانہ زندگی کےمشاغل چھوڑ دیتے ہیں توامراض میں گرفتارہوجاتے ہیں پھر موت کی آغوش میں پہنچ جاتے ہیں۔ ان حقائق سے ثابت ہے کہ جس طرح انسان امراض سے شفا حاصل کرکے پھر صحت مند اور تندرست ہوجاتا ہے بلکہ کوشش کے بعد غیرمعمولی قوت حاصل کرلیتا ہے تو اگر وہ اپنی جدوجہد اور سعی کو جاری رکھے تو یقیناً بڑھاپے پر بھی فتح حاصل کرسکتا ہے کیونکہ یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے کہ بڑھاپا بھی ایک مرض ہے جو رفتہ رفتہ جوانی اور قوت کو کھاجاتی ہے۔ اس لئے امراض سے شفا کے تجربہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہر شخص اس حقیقت کو خوب سمجھتا ہے کہ انسان تندرست ہونے کےبعد اپنے اندرغیر معمولی قوت پیداکرسکتا ہے اور اپنی جوانی کو ایک بڑی مدت تک قائم رکھ سکتا ہے بلکہ تمام عمر جوان رہ سکتا ہے اور اپنے آپ کو اگر حادثات سے بچائے رکھے تو وہ ایک طویل عمر تک زندہ رہ سکتا ہے۔

Qanoon Mufrad Aza, Tibb e Sabir, Hakeem Sabir Multani, Health, قانون مفرد اعضاء, حکیم صابر ملتانی, طب و صحت, طب صابر,

Leave a ReplyCancel reply

Exit mobile version