تاریخ ریاست مدینہ قسط1
کیسے بنی، کیسے چلی، کیسے پھیلی
(سید عبدالوہاب شاہ شیرازی)
مدینہ کی ریاست کیسے بنی اس کے پیچھے مکی زندگی کی تیرہ سالہ عظیم تاریخی جدجہد کارفرما تھی۔ جس کے نتیجے میں ہجرت اور مدینہ کی طرف آمد ہوئی۔ریاست مدینہ کو پوری طرح سمجھنے کے لیے مکی زندگی کا مطالعہ کرنا نہایت ہی ضروری ہے، اس کے بغیر ریاست مدینہ کی حقیقت سمجھ نہیں آسکتی۔
بہرحال ہجرت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی مدنی زندگی اور ریاست مدینہ کو آسانی سے سمجھنے کے لیے مدنی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
۱۔پہلا حصہ یکم ہجری سے چھ ہجری تک، یعنی مدینہ کے پہلے چھ سال۔
۲۔ دوسرا حصہ چھٹے سال یعنی صلح حدیبیہ سے آٹھویں سال فتح مکہ تک۔
۳۔ تیسری حصہ آٹھویں سال یعنی فتح مکہ کے بعد کے حالات۔
اب آپ نے مدنی زندگی کے دس سالوں کو ان تین حصوں کی صورت میں اپنے ذہن میں بٹھانا ہے، تاکہ ریاست مدینہ کا پورا پس منظر آپ کے سامنے آسکے۔
پہلا حصہ
ہجرت کے وقت مدینہ کے حالات
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو وہاں اب تین طرح کے نظریات رکھنے والے لوگ یا یوں کہہ لیں تین قومیں موجود تھیں۔
1۔ ایک تو وہ لوگ تھے جو صحابہ کرام کہلاتے تھے یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی۔
2۔ دوسری قسم کے لوگ مدینہ کے اصل رہائشی باشندے جو کہ مشرک تھے، اور مختلف قبائل کی صورت میں مدینہ کے اندر اور اطراف میں آباد تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ سخت دشمنی بھی رکھتے تھے، سالہا سال کی خانہ جنگی کے بعد یہ قبائل ایک شخص عبداللہ بن ابی کو اپنا بادشاہ بنانے کے لیے تیار ہو چکے تھے اور تقریب شاہی منعقد ہی ہونے والی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ آگئے۔
3۔ تیسری قسم کے لوگ یہودی تھے، یہ بھی اپنے قبائل یا قلعوں کی صورت میں مدنیہ کے قریب ہی آباد تھے۔
اس مختصر سی منظر کشی سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مختلف نظریات کے حامل لوگوں سے واسطہ پڑا تھا۔ جن میں سے ایک تو آپ کے ساتھی اور آپ کے ہر حکم کی تعمیل کرنے والے اور جان فدا کرنے والے آپ کے صحابہ تھے، جبکہ دوسری دو قسم کے لوگ آپ کے نظریات کے مخالف تھے۔
جو لوگ مسلمان تھے ان میں بھی دو طرح کے لوگ تھے، ایک مدینہ کے مقامی جن کو انصار کہا جاتا تھا،اور دوسرے مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین جن کے پاس یہاں مدینہ میں نہ گھر تھا نہ کاروبار، اور انصار نے ہی انہیں اپنے پاس جگہ دی ہوئی تھی۔مکہ کے مقابلے میں مدینہ میں مسلمانوں کو یہ سہولت حاصل تھی کہ یہاں مسلمان بالکل آزاد تھے، مکہ کی طرح یہاں مغلوبیت والی صورتحال نہ تھی۔
اگر معاشی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو مدینہ کی مقامی آبادی چاہے مسلمان ہوں یا مشرک کھیتی باڑی، باغات اور تھوڑا بہت کاروبار و تجارت وغیرہ کرتے تھے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں یہودی معاشی لحاظ سے بہت مضبوط تھے۔انہیں معاشیات میں بہت مہارت تھی، لوہے کا ساراز بزنس، یعنی ہتھیار بنانا، غلہ، کھجور، شراب، کپڑے سمیت تمام اہم کاروبار ان کے ہاتھ میں تھا۔ یہ عربوں کو سودی قرضے دیتے اور پھر اسی طرح قرضوں تلے انہیں دبا کر ان کی زمینیں قبضہ کرلیتے تھے۔مدینہ میں مشرکین کے دو قبائل (اوس، خزرج) تھے جبکہ یہودیوں کے تین مشہور قبائل (بنو قینقاع، بنونضیر، بنوقریظہ) تھے۔
ریاست مدینہ کا آغاز
ریاست مدینہ کے قیام کے لیے مدینہ میں تشریف آوری کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب پہلےچند کام کام کیے اور یہتمام کام اپنی اپنی حیثیت میں نہایت ہی اہم اور ضروری تھے۔
1۔ایک کام جو سب سے پہلے کیا وہ مسجد کا قیام تھا۔مسجد کے لیے جگہ خریدی گئی، اور مسجد کی تعمیر میں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کام کیا، پتھر اٹھا کر لائے، آپ کے اس جوش کو دیکھ کر صحابہ کرام نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ریاست مدینہ کا آغاز ایک مسجد کی تعمیر سے کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو یہ سبق دے دیا کہ اسلامی ریاست یا مدینہ کی ریاست کے قیام کی پہلی اینٹ مسجد ہے، اس واقعے سے مسجد کی اہمیت و ضرورت کو بھی اجاگر کرلیا گیا۔ مسجد نبوی ہماری مساجد کی طرح محض ایک مسجد نہیں تھی کہ لوگ آئے اور نماز پڑھ کر چلے گئے، بلکہ یہ مسجدریاست مدینہ کا بیس کیمپ بھی تھی۔یہی مسجد یونیورسٹی کی حیثیت بھی رکھتی تھی جہاں مسلمان اپنے علم کی پیاس بجھاتے تھے، یہی مسجد ریاست مدینہ کی پارلیمنٹ بھی تھی جہاں ریاستی امور کے اہم فیصلے ہوتے تھے۔ یہی مسجد سپریم کورٹ بھی تھی، جہاں عدالتی فیصلے بھی ہوتے تھے۔ اور یہی مسجد فوجی ہیڈکواٹر بھی تھی جہاں سے جنگوں کے لیے لشکرروانہ ہوتے تھے۔یہی مسجد ان تمام امور کے ساتھ ساتھ غریبوں، مسکینوںکا مسکن بھی تھی جن کے پاس مکان یا مال نہیں ہوتا تھا۔
2۔دوسرا کام جو ریاست مدینہ کے آغاز میں کیا گیا وہ بھائی چارہ تھا۔ بھائی چارے کا مطلب یہ ہے کہ مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا نہ مکان، نہ مال، نہ جائیداد، نہ کاروبار۔ جبکہ مدینہ میں پہلے سے موجود مقامی صحابہ کرام اپنے علاقے میں موجود ہونے کی وجہ سے ٹھیک ٹھاک تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہاجر کو ایک انصاری صحابی کا بھائی بنالیا، اس طرح جتنے بھی مہاجرین تھے ان کو مدینہ کے مقامی صحابہ کرام کا بھائی قرار دے دیا، اور یہ بھائی چارہ محض زبانی نہیں تھا بلکہ حقیقی بھائیوں کی طرح وراثت میں بھی شریک کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انصار صحابہ کرام نے اپنی جائیداد، کاروبار، مکان میں مہاجرین کو شریک کرلیا، یہاں تک کہ اگر کسی کی دو بیویاں تھیں اور مہاجر بھائی کو شادی کے لیے بیوی کی ضرورت تھی تو انصاری نے ایک بیوی کو طلاق دے کر وہ بھی مہاجر بھائی کو دے دی۔اس بھائی چارے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مہاجرین بھی چند مہینوں بعد یہاں جائیداد، کاروبار کے مالک بن کر سیٹل ہو گئے۔
3۔تیسرا کام یہودیوں کے ساتھ امن معاہدہ کرلیا۔ اس معاہدے میں یہ طے کیا گیا کہ یہودی اپنے دین پر عمل کریں گے اور مسلمان اپنے دین پر عمل کریں گے لیکن آپس میں مسلمان اور یہودی خیرخواہی کا تعلق رکھیں گے۔ اگر کوئی دشمن یہودیوں پر حملہ آور ہوا تو مسلمان یہودیوں کی مدد کریں گے اور اگر مسلمانوں پر کوئی حملہ ہوا تو یہودی مسلمانوں کی مدد کریں گے۔یعنی اب سے ہم ایک ملک کے باشندے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں گے، اگر آپس میں کوئی جھگڑا پیدا ہوا تو آخری فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے۔
اس معاہدے کے ہوتے ہی مدینہ کی ریاست کا قیام عمل میں آگیا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فراست سے چند ہی مہینوں میں بغیر کسی جنگ اور معاہدات کے ذریعے ریاست مدینہ کی ایک چھوٹی سی سلطنت قائم کرلی، جس کے سربراہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
تصویر کا دوسرا رخ
جیسا کہ آپ جانتے ہیں مکہ میں تیرا سال تک مسلمانوں پر جو جو مظالم ہوئے اور جس طرح عرصہ حیات تنگ کیا گیا جس کے نتیجے میں مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور مکہ سے نکل کر مدینہ میں قیام پذیر ہو گئے۔ پہلے تو مکہ والے اس سے خوش ہوئے کہ چلو مسلمانوں کو ہم نے یہاں سے بھگا دیا، لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ان کو احساس ہوا کہ اب تو مسلمان ایک پرامن جگہ پر خوش خوشحال زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے آپ کو مضبوط کررہے ہیں تو یہ بات بھی ان سے ہضم نہ ہوسکی، چنانچہ انہوں نے مدینہ میں مشرکین کے سردار عبداللہ بن ابی کو دھمکی آمیز خط لکھا کہ آپ کے علاقے میں ہمارے یہاں سے نکالے ہوئے مسلمان مقیم ہو گئے ہیں، آپ ان کو فورا وہاں سے نکالیں ورنہ ہم آپ پر حملہ کرکے سبق سکھائیں گے۔ چنانچہ عبداللہ بن ابی نے مدینہ میں اپنے لوگوں کی میٹنگ بلائی اور یہ مسئلہ سامنے رکھاکہ ہمیں ان مسلمانوں کو یہاں سے نکال لینا چاہیے۔اس میٹنگ کی اطلاع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ بھی وہاں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ تم اپنے ہی بھائیوں سے لڑو گے؟ یعنی مسلمانوں میں کئی مقامی لوگ جو تمہارے رشتہ دار ہیں کیا تم ان کے خلاف بھی سینکڑوں میل دور سے آنے والے ایک خط کی وجہ سے جنگ کرو گے، یہ کہاں کی عقل مندی ہے محض ایک دھمکی کی وجہ سے آپس میں لڑنا شروع کردو؟ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فراست سے اس چنگاری کو بھی بجھا دیا اور مقامی لوگوں نے عبداللہ بن ابی کی تجاویز کو رد کردیا۔
جس طرح قریش مکہ نے عبداللہ بن ابی کو دھمکی آمیز خط لکھا تھا اسی طرح انہوں نے مسلمانوں کو بھی پیغام بھیجا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ مدینہ میں جاکر محفوظ ہو گئے ہو، ہم وہاں بھی آکر تمہیں ماریں گے۔ اور یہ محض ان کی دھمکی نہیں تھی بلکہ حقیقتا ایسی سازشیں انہوں نے جاری رکھی ہوئیں تھی، جس کی وجہ سے مسلمان مدینہ میں بھی راتوں کو پہرہ دیا کرتے تھے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیکورٹی بھی صحابہ کرام نے رات کے وقت سخت کردی تھی۔ چنانچہ یہ خطرے والی صورتحال اسی طرح جاری رہی تو اللہ تعالیٰ نے پہلی مرتبہ قرآنی آیات نازل فرماکر مسلمانوں کو جنگ و قتال کرنے کی اجازت دے دی۔ مسلمانوں کو جنگ کی اجازت ملنا یہ ایک اور اہم موڑ تھا جہاں سے مسلمانوں کے عروج کی کہانی شروع ہوتی ہے۔